Powered By Blogger

پیر, فروری 19, 2024

علماء کرام اور ائمہ عظام موجودہ زمانے کے تقاضے کے مطابق دعوتی فریضہ انجام دیں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

علماء کرام اور ائمہ عظام موجودہ زمانے کے تقاضے کے مطابق دعوتی فریضہ انجام دیں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
Urduduniyanews72 
پٹنہ (پریس ریلیز )19 فروری 

ملی کونسل سے ملت کی امیدیں وابستہ ہیں ، آل انڈیا ملی کونسل کے ریاستی دفتر میں صدر مسلم پرسنل لا بورڈ کا بصیرت افروز خطاب

آج صبح دس بجے آل انڈیا ملی کونسل کے ریاستی دفتر پھلواری شریف ،پٹنہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی قومی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل کی آمد پر علماء، ائمہ کرام اور دانشوران کی ایک خصوصی نشست منعقد ہوئی جس کی صدارت خود صدر بورڈ نے کی ۔ مولانا کی آمد پر آل انڈیا ملی کونسل کے قومی نائب صدر حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی اور دیگر عہدے داران و اراکین نے والہانہ استقبال کیا ۔ جنرل سکریٹر ی ملی کونسل بہار مولانا ڈاکٹر محمد عالم قاسمی ومولانا محمد ابو الکلام شمسی جوائنٹ جنرل سکریٹری ملی کونسل بہار نے شکرو امتنان کی علامت کے طور پر گلدستہ محبت پیش کیا ، جب کہ مولانا انیس الرحمن قاسمی نے شال پوشی کے ذریعہ عزت افزائی کی۔ مولانا انیس الرحمن قاسمی نے اپنے استقبالیہ کلمات میں ملک کو در پیش چیلنجز کی طرف صدر بورڈ کی توجہ مبذول کرائی  اور علماء کرام و ائمہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم علماء کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس زبان میں گفتگو کریں ، جسے ہماری نئی نسل آسانی سے سمجھ سکے۔ مسجد میں ہونے والی تقریریں ایسی زبان میں ہو نی چاہئیں جو طلبہ، عصری تعلیم یافتہ لوگوں اور عوام کی سطح کے مطابق ہو ۔ اپنے صدارتی خطاب میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے فرمایا کہ اس دور میں میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی بہت اہمیت ہے ، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی دعوتی مہم کا آغاز کیا تو صفا کی چوٹی پر چڑھ کر آپ نے ہر قبیلہ کا نام لے لے دعوت دی ، جو اس وقت کا سب سے بڑا ذریعہ ابلاغ تھا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عکاظ کے میلے میں ، حج کے اجتماعات میں دعوت دین کافریضہ  انجام دیا ۔ جب کہ ان بازاروں میں بہت سارے غیر شرعی عمل ہوا کرتے تھے لیکن طبعی کراہت کے باوجود آپ ان مقامات پر تشریف لے گئے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہان عرب و عجم کو دعوتی خطوط لکھے ، جن کی تعداد ڈاکٹر حمید اللہ کے بقول چار سو سے زائد ہے ، جس میں شاہ چین کو بھیجا گیا خط بھی شامل ہے۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ علامہ سرخسی نے لکھا ہے کہ ایک صحابی نے قرآن کریم کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا، جب کہ ایک تابعی نے قرآن حکیم کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا جو کہ اس وقت بر صغیر ہندو پاک کی زبان تھی ۔ خود اللہ تعالی نے نبیوں کی بعثت کے سلسلہ میں فرمایا ہے کہ وہ جس قوم کی طرف مبعوث کیے گئے انہیں کی زبان میں بات کرتے تھے ۔ اس لیے علماء ، ائمہ کرام اور داعیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم جو زبان سمجھتی ہے ،ا س میں اللہ اور اس کے رسول کا پیغام پہونچانے کی کوشش کریں ۔ ہر مسجد میں علماء اور ائمہ کے لیے انگلش اور ہندی اسپیکنگ کورس چلایا جانا چاہئیے اگر علماء کرام تہیہ کر لیں تو یہ نظام آسانی سے چل سکتا ہے ۔ صدر بورڈ نے مزید کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے دائرہ کار کو اکابر نے نہایت ہی سنجیدہ بحث اور غور و فکر کے بعد محدود رکھا ہے ، لیکن آل انڈیا ملی کونسل بورڈ کے مشن کی تکمیل  کے لیے قائم کی گئی اور آپ کہہ سکتے ہیں کہ آل انڈیا ملی کونسل مسلم پرسنل لا بورڈ کا تکملہ ہے ۔ الحمد للہ مختلف ریاستوں خاص کر کے کرناٹک اور بہار میں ملی کونسل گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہے اور بڑی فعال ہے ۔  مولانا رحمانی نے ہندوستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں فرمایا کہ حالات مشکل ضرور ہیں لیکن مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ، 1857 اور 1947 کے حالات اس سے زیادہ مشکل تھے ، اس وقت ہمارے پاس وسائل کی کمی تھی ، اپنے تعلیمی و ملی ادارےانگلیوں پر گنے جا سکتے تھے ،  آج اللہ کا شکر ہے کہ بڑی تعداد دینی و عصری تعلیمی گاہیں اور ملی ادارے موجود ہیں جو ملت کی ترقی اور خدمت اور اسلام کے دفاع کے لیے ہمہ تن کوششیں کر رہے ہیں ۔ انہوں نے علماء کو مخاطب کرتے ہوئے بطور خاص فرمایا کہ وہ قوم ترقی نہیں کر سکتی جو ہر چیز میں دوسرے کی محتاج ہو ، اس لیے ہمیں ملت کو  ہر اعتبار سے خود کفیل بنانے کی کوشش کر نی چاہئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاں مسجد نبوی کی بنیاد رکھی اور مدرسہ قائم کیا وہیں آپ نے مدینہ مارکیٹ کی بھی بنیاد ڈالی اور صحابہ کو حکم دیا کہ وہ اپنا سامان تجارت میں مدینہ کی مارکیٹ میں لائیں اور یہیں سے اپنی تجارت کو فروغ دیں ۔ مولانا نے کہا کہ دعوت کے لیے انفرادی کوششیں اجتماعی کوششوں سے زیادہ اہم ہیں ، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل مدینہ کے ساتھ معاہدے کو اپنا اسوہ بنائیں ، جس کی تین اہم بنیادیں تھیں ، مسلمانوں کا آپس میں مواخاۃ یعنی برادرانہ تعلق اور غیر مسلموں سے موالات یعنی ان کے ساتھ حسن سلوک  اور رواداری، ظلم کے خلاف متحدہ کوششیں اور معاشرتی امن و امان کا قیام ۔ اگر ان بنیادوں پر ہم نے اپنی کوششوں کو آگے بڑھا یا تو یقیناً اس ملک میں محبت و بھائی چارے کی فضا قائم ہو گی اور میڈیا کے ذریعہ گھولے جانے والے زہر کا تریاق ہو گا ۔ 
اس سے قبل مولانا ابو الکلام قاسمی شمسی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل بہار نے حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ حضرت کی شخصیت اور مسلم پرسنل لا بورڈ ، آل انڈیا ملی کونسل جیسی تنظیمیں ملت کا سرمایہ ٔ افتخار ہیں ، انہوں نے موجودہ حالات کے پیش نظر بورڈ کو مسلمانوں کی مکمل رہنمائی کرنے اور خاص طور پر سیاسی استحکام پر توجہ دینے کا مشورہ دیا۔ نشست کا آغاز مولانا  جمال الدین قاسمی کی تلاوت سے ہوا  اوراختتام  صدر مجلس کی دعا پر ہوا ۔ جبکہ نظامت کے فرائض مولانا مفتی محمد نافع عارفی کارگزار جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار نے انجام دیے۔ اس نشست میں جن اہم شخصیات نے شرکت کی ان میں مولانا مفتی سہیل احمد قاسمی صدر الحمد ادارہ خدمت خلق، مولانا عبد الباسط ندوی سکریٹری المعہد العالی پھلواری شریف، مولانا نور الحق رحمانی استاذالمعہد العالی، جناب سلام الحق صاحب رکن آل انڈیا ملی کونسل، جناب نجم الحسن نجمی رکن آل انڈیا ملی کونسل ، جناب عباس قاسمی دار العلوم سبیل الفلاح جالے، مولانا عبد الماجد قاسمی ڈائرکٹر الفلاح انگلش عربک اسکول پھلواری شریف، مولانا مظفر رحمانی  دار العلوم سبیل الفلاح جالے،جناب پروفیسر شمس الحسین ، مولانا محمد جابر مظاہری امام الامین مسجد اگزبیشن روڈ،جناب نوشاد اعظم، محمد محبوب عالم خلیل پورہ، مولانا سید مبشر نجمی معہد عمر بن خطاب، مولانا لطف الرحمن قاسمی معہد قاسم ، مولانا سید عادل فریدی سکریٹری ملی کونسل بہار،مولانا رضاء اللہ قاسمی نائب سکریٹری ابو الکلام ریسرچ فاوئنڈیشن،مولانا ریاض الدین قاسمی پھلواری شریف، مولانا منظر قاسمی، مولانا محمد عثمان ، مولانا شمس الحق مظاہری ، جناب مکرم صاحب دربھنگہ، مولانا احترام الرحمن قاسمی بیگو سرائے، مولانا قاری انور قاسمی معہد ام ہانی پھلواری شریف، مولانا رضوان عالم دیگھا، شوکت علی رضوی جنرل سکریٹری ملی کونسل پٹنہ، ضیاء الحسن صاحب  خلیل پورہ، مولانا سلیم الدین قاسمی امام جامع مسجد ہارون نگر، جناب سید ظفر حسین قاضی نگر، مولانا محمد عمار ومولانا فضیل صاحب الفلاح اسکول پھلواری شریف، محمد عامر صاحب، محمد صفوان حسن ہارون نگر، سالک سعد اللہ ،مولانا فیروز احمد، سعید انصاری صاحب  پھلواری شریف،مولانا مرسل جامعی، مولانا شکیل احمد نیپال،مولانا محمد مختار ندوی دار العلوم سبیل الہدایہ رائے پور نیپال، مولانا رستم صاحب مدھوبنی، مولانا عامر سہیل سجادی، مولانا عمر فارو ق المعہد، مولانا وجاہت ، مولانا سلیم الدین ، اختر عتیق مظاہر ی امام جامع مسجد دیگھا ، مولانا ا بو نصر ہاشم ندوی، مولانا انیس الرحمن قاسمی،  مولانا نجم الہدیٰ قاسمی، مولانا فیضان قاسمی،  مولانا نسیم احمد، حافظ خالد سعید، انجینئر محفوظ الرحمن  وغیرہ کے اسماء گرامی شامل ہیں۔

اتوار, فروری 18, 2024

مولانا امام الدین قاسمی (یادوں کے چراغ)

مولانا امام الدین قاسمی (یادوں کے چراغ) 
اردودنیانیوز۷۲ 
 ✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
========================
مولانا محمد امام الدین قاسمی ولد مولانا صغیر احمد ساکن مؤمن ٹولہ، ڈاکخانہ پنڈول ضلع مدھوبنی کا انتقال یکم فروری 2024ء کو ہو گیا ، اللّٰہ کے یہاں وقت مقرر تھا، لیکن بندوں کو اس وقت کا پتہ نہیں ہوتا ہے ، اس لیے ایسا لگتا ہے کہ اچانک ہی سب کچھ ہو گیا ، وہ معمول کے مطابق الحمد ٹرسٹ میں اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کو ادا کرنے آئے تھے ، چار بجے کے قریب دفتر میں ہی ان کو برین ہمریج ہوا، اٹھا بیٹھا کر قریب کے ایس ایس ہوسپیٹل لے جایا گیا، ڈاکٹر نے مایوسی کا اظہار کیا، دل کی تسلی کے لیے لوگ پارس ہوسپیٹل سمن پورہ لے گیے ، وہاں ایڈمٹ نہیں ہوئے اور ڈاکٹر نے ان کے دنیا چھوڑنے کا اعلان کر دیا، جنازہ امارت شرعیہ کے ایمبولینس سے ان کے آبائی گاؤں مؤمن پور لے جایا گیا، حضرت امیر شریعت کی ہدایت پر ایک مؤقر وفد ان کے گاؤں گیا، جس میں قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی قاسمی ، مولانا احمد حسین قاسمی معاون ناظم ،مولانا عبد اللہ جاوید، مدھوبنی ضلع کے قضاۃ ومعاونین قضاۃ اور ضلع کمیٹی کے ذمہ داران شریک تھے بعد نماز جمعہ 2؍ فروری2024ء کو مومن پور پنڈول کے مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ، اس موقع سے امارت شرعیہ کے ذمہ داروں نے تعزیت اور تسلی کے کلمات کہے، حضرت امیر شریعت کی طرف سے وارثین تک تعزیتی پیغامات پہونچائے گیے ، جنازہ کی نماز ان کے حقیقی ماموں مولانا بدیع الزماں قاسمی نے پڑھائی، جنازہ میں علمائ، صلحاء اور عوام الناس کی تعداد ایک ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے ۔
 تعلیمی اسناد کے مطابق ان کی ولادت یکم مئی 1987ء کو ان کے آبائی گاؤں مومن پور پنڈول مدھوبنی میں ہوئی ، صرف چار سال کی عمرمیں والدہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا ، خالہ دوسری ماں کی حیثیت سے ان کے والد کے نکاح میں آئیں اور انہوں نے شفقت ومحبت سے اس بچے کی پرورش وپرداخت کی۔ مولانا چار بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، پس ماندگان میں اہلیہ ، والد اور دو چھوٹے بھائیوں کو چھوڑا، ایک بھائی کا انتقال گذشتہ سال ہی جواں عمری میں ہو چکا تھا، یہ دوسرا حادثہ مولانا کے والد کے لیے سوہان روح ہے اور کہنا چاہیے کہ ان کو اندر تک توڑ کر رکھ دیا ہے ، لیکن اللہ نے بڑا صبر وحوصلہ دیا ہے ، اور اس وقت درد والم، غم واندوہ کی شدت کے باوجود وہ راضی برضائے الٰہی کا پیکر اور صبر واستقامت کی تصویر نظر آتے ہیں۔ والد صاحب کرناٹک کے ایک مدرسہ میں استاذ تھے، اس لیے ابتدائی تعلیم وہیں ہوئی ، حفظ قرآن کے لیے مدرسہ محمود العلوم دملہ مدھوبنی میں داخل ہوئے اور تکمیل حفظ کے بعد عربی سوم تک کی تعلیم وہیں حاصل کی، عربی چہارم میں دار العلوم وقف دیو بند میں داخلہ لیا اور  فراغت پائی، ایک سال تکمیل عربی ادب میں بھی لگایا، وہاں سے پھر المعہد العالی امارت شرعیہ آگیے اور تدریب افتاء وقضاء میں دو سال لگایا، فراغت کے بعد امارت شرعیہ کے مرکزی دار القضاء میں 20؍ شوال المکرم 1433ھ میں امیر شریعت سادس کے حکم سے بحالی عمل میں آئی اورمسلسل دس سال انہوں نے یہاں اپنے مفوضہ امور کو انجام دیا ، قاضی شریعت مولانامحمد انظار عالم قاسمی کی تجویز اور مشورہ کے مطابق 17؍ شعبان 1443ھ مطابق 21؍ مارچ 2022ء کو امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی مدظلہ نے ان کا تبادلہ دار القضاء جگت سنگھ پور اڈیشہ کردیا، یہ دار القضاء وہاں نیا کھلا تھا اور تجربہ کارقاضی کی ضرورت تھی، ان بڑوں کی نظر انتخاب مولانا مرحوم پر جا کر ٹک گئی مرحوم نے سمع وطاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں جوائن بھی کر لیا اور رمضان کی تعطیلات تک وہیں، خدمت انجام دیتے رہے، لیکن عید بعد وہاں جانے سے انہوں نے معذرت کر لی ، کیوں کہ وہاں کی آب وہوا ان کے مطابق نہیں تھی، اڑیا زبان ان کو نہیں آتی تھی، لا ولد ہونے کی وجہ سے آدم کہیں، حوا کہیں کے مصداق ان کے لیے میاں بیوی کا الگ الگ رہنا بھی ممکن نہیں تھا، ان کی خواہش مرکزی دفتر میں حسب سابق خدمت انجام دینے کی تھی، لیکن یہ خواہش بعض وجوہ سے ان کی پوری نہیں ہو سکی،اس لیے انہوں نے تین ماہ کے بعد ہی دار القضاء امارت شرعیہ سے علاحدگی اختیار کرلی،نہ یہ تبادلے کا عمل پہلی بار ہوا تھا اورنہ ہی تبادلے کے بعد علاحدگی کا فیصلہ پہلی بار تھا، اس لیے اس عمل کو معمول کا حصہ ہی سمجھا گیا، لیکن مولانا مرحوم کو امارت شرعیہ سے جو محبت تھی ، اس کی وجہ سے وہ مایوسی کے شکار ہو گیے، مسئلہ معاش کا بھی تھا، اس کے لے انہوں نے جمال الدین چک میں مکتب میں تعلیم دینی شروع کی اور جمعہ کی امامت بھی کرنے لگے، 15؍ مارچ 2023ء سے الحمد ٹرسٹ ہارون نگر میں خدمت انجام دینے لگے اور دم واپسیں تک وہیں رہے ۔
مولانا امام الدین قاسمی خوش اخلاق ، خوش اطوار، خوش مزاج اور کم گفتار لوگوں میں تھے، ان کے ہونٹوں پر تبسم کی لکیر ہر وقت ہوا کرتی تھی، جسے لوگ واضح طور پر محسوس کرتے تھے، ان کا تعلیمی رکارڈ بھی بہت اچھا تھا، ان کی خوش خطی کی وقف کے اساتذہ نہ صرف تعریف کرتے تھے، بلکہ طلبہ کو دکھا کر ترغیب بھی دیتے تھے کہ اس طرح لکھا کرو، دورہ کے سال انہوں نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ صحاح ستہ کا تکرار کرایا اور بڑی تعداد میں طلبہ ان کے تکرار میں شریک ہوا کرتے تھے۔ 
 میری ان سے ملاقات امارت شرعیہ آنے کے بعد ہوئی تھی ، وفود کے بعض دوروں میں وہ میرے شریک سفرتھے، میں نے انہیں اپنے کام سے کام رکھنے والا پایا، سفر میں قائد سفر کی رعایت اور سمع وطاعت کا مزاج تھا، خوش سلیقگی کے ساتھ وہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا کرتے تھے، بعض موقعوں پر وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ میرے گھر بھی تشریف لائے تھے،  ان کے مزاج میں شور وغوغا نہیں تھا، وہ سارے دُکھ ، مصائب اور مسائل کا سامنا خود کرنے کے عادی تھے، دوسروں سے اپنی پریشانیاں شِیَر بھی نہیں کرتے تھے، ایسے لوگ سارا بار والم اپنے دل پر اٹھا لیتے ہیں، اور جب دل اس بوجھ کو اٹھا نہیں پاتا تو دل کا دورہ پڑتا ہے اور کبھی برین ہیمریج ہوجاتا ہے۔ مولانا کا برین ہیمریج ہوا ناک اور کان سے خون نکلنے لگا اور مولانا چل بسے، وجوہات جو بھی ہوں ہم نے ایک با صلاحیت قاضی کو کھو دیا ہے۔یہ اتفاق ہے اور خود میری گوشہ نشینی کہ جو امارت سے الگ ہوجاتا ہے، اس سے میری ملاقات نہ جسمانی طور پرہوتی ہے اور نہ فون سے ، چنانچہ امارت سے علاحدگی کے بعد ان سے نہ میری کوئی ملاقات ہوئی اور نہ ہی ٹیلی فونک گفتگو ، تا آں کہ ان کے انتقال پُر ملال کی خبر آگئی، میں سفر میں تھا اس لیے آخری دیدار اور جنازہ میں شرکت سے بھی معذور رہا، اللہ رب العزت ان کے گناہوں کو معاف فرمائے، درجات بلند کرے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے۔ آمین یا رب العالمین

ہفتہ, فروری 17, 2024

دربھنگا میں ایک شام مشتاق ہاشمی کے نام

دربھنگا میں ایک شام مشتاق ہاشمی کے نام
   (پریس ریلیز)17 فروری 
اردودنیانیوز۷۲ 
ایک شام معروف شاعر مشتاق ہاشمی (کولکتہ) کے نام
جمیلہ بیسک ایجوکیشن سینٹر دربھنگہ کے احاطہ میں
 شہر نشاط (کولکتہ  مغربی بنگال) سے تشریف لانے والے مہمان شاعر جناب مشتاق ہاشمی کے اعزاز میں استقبالیہ مجلس و شعری نشست کا انعقاد عمل میں آیا، جس کی صدارت پروفیسر ذوالفقار انور نے فرمائی، پروگرام کا باضابطہ آغاز حافظ محمد عابد حسین (استاد جمیلہ بیسک ایجوکیشن سینٹر )کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، نظامت کے فرائض ڈاکٹر عبدالودود قاسمی صدر شعبہ اردو (سی، ایم، بی، کالج، ڈیوڑھ، گھوگھر ڈیہا، مدہو بنی) نے فرمائی تمہیدی باتوں میں ڈاکٹر قاسمی نے شہر نشاط (کولکتہ مغربی بنگال)کے مہمان شاعر مشتاق ہاشمی کی شخصیت اور شاعرانہ جہت پر ان کے شعری مجموعہ  "تیشئہ فکر" کے تناظر میں تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے ان کی شعری و فکری انفرادیت کو بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کرتے ہوئے دربھنگہ کی سرزمین پرموصوف کا والہانہ استقبال کیا، تمہیدی گفتگو کے بعد باضابطہ مہمان مکرم کا والہانہ استقبال متھلا کی تہذیب کے مطابق پاگ،ٹوپی،شال،گلدستہ،مومنٹو اور منظوم تہنیتی قطعات کا فریم پیش کر کے کیا گیا،استقبالیہ مجلس میں تشریف  لانے والے مہمان شاعر کی عزت و تکریم اور ان کی شاعرانہ عظمت کے اعتراف کے لئے شہرووقرب جوار کے درجنوں اہل علم‌ودانش سمیت متعدد شعراۓ کرام تشریف لاکر مجلس کو پر وقار بنا دۓ،استقبال کے بعد شعری نشست کا انعقاد عمل میں آیا، دوچند شعراء کے بعد  جناب مشتاق ہاشمی نے اپنی متعدد غزلیں  پیش کرکے صاحبان علم وادب سے خوب داد تحسین اور پذیرائی حاصل کی، اس موقع پر آٹھ شعراء کی تحریر کردہ منظوم تہنیتی قطعات کا حسین گلدستہ فریم کراکےسپاس نامہ کے طورپیش کیا گیا ،منظوم تہنیتی قطعات پیش کرنے والے شاعروں میں احسان مکرم پوری ،مشتاق دربھنگوی ،امان ذخیروی،ڈاکٹر منور راہی،صبا دربھنگوی ،طالب صدیقی،م،سرور پنڈولوی ،ڈاکٹر مقصود عالم رفعت ،ڈاکٹر عبد الودود قاسمی کے نام قابل ذکر ہیں،مذکورہ شعرا کے علاوہ دیگر موجود شعرا بھی اپنے کلام پیش کئے جسے لوگوں نے خوب داد تحسین سے نوازا،
شریک شعرا میں ایڈووکیٹ عرفان احمد پیدل،مشتاق اقبال،نداعارفی،جواں سال ہونہار شاعر وریسرچ اسکالر حسان جاذب،خون چندن پٹوی،شہباز انور غزالی،کے نام اہم ہیں،سامعین میں حافظ محمد ثاقب ضیاء ،ڈاکٹر محمد سرفراز عالم ،جناب نصرت عالم ،ایڈووکیٹ خورشید عالم،جنید عالم،مولانا نظر الاسلام قاسمی،مولانا امام الدین ندوی،وغیرہ شریک تھے

تحریک تنظیم ائمہ مساجدبہار کےذمہ داران کا جدید انتخاب عمل میں آیا۔

تحریک تنظیم ائمہ مساجدبہار کےذمہ داران کا جدید انتخاب عمل میں آیا۔
اردودنیانیوز۷۲ 
پٹنہ 17فروری(پریس ریلیز) کنوینر تنظیم تحریک ائمہ مساجد بہار جناب مولانا حسین احمد قاسمی امام شکور کالونی مسجد سمن پورہ پٹنہ کی اطلاع کے مطابق گزشتہ روز جامع مسجد فقیر باڑہ دریا پور پٹنہ میں تنظیم کی ایک اہم عمومی اجلاس بمقام جامع مسجد فقیر باڑہ پٹنہ، زیر صدارت جناب مولانا عتیق الله قاسمی سرپرست تنظیم و امام جامع مسجد فقیر باڑہ منعقد ہوئی، جس میں کثیر تعداد میں ائمہ کرام شریک ہوۓ۔  حالیہ دنوں انتقال فرمانے والے اہم شخصیات کے زریں کارناموں کو بیان کرتے ہوئے ان کےلیے دعاۓ مغفرت کی گئی۔
بعد ازاں اگلے سہ سالہ میقات کے لیے انتخاب جدید عمل میں آیا۔ 
اجلاس کا آغاز مولانا غفران قاسمی امام نیا ٹولہ پھلواری شریف کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا، بعدہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ہدیۂ نعت شریف مولانا عادل حسین قاسمی نے پیش کیا پھر کنوینر تنظیم مولانا محمد عالم قاسمی نے تنظیم کے اغراض مقاصد اورسہ سالہ تنطیم کارکردگی کی رپورٹ پیش کی حسبِ ضابطہ سہ سالہ میقات 2024تا2027تین سال کے لیے نیا انتخاب کیا گیا اور متفقہ رائے کے مطابق سرپرست تنظیم مولانا عتیق اللہ قاسمی امام فقیر باڑہ مسجد، صدر تنظیم مولانا غلام اکبر قاسمی امام مراد پور مسجد اور سکریٹری تنظیم مولانا محمد عالم قاسمی ،امام جامع مسجد دریا پور سبزی باغ، جبکہ خازن تنظیم مولانا عادل حسین قاسمی امام بھسولہ دانا پور، کو اتفاق رائے سے منتخب کیا گیا ہے۔ 
اسی طرح نائب صدر تنظیم مولانا معین الدین قاسمی امام جامع مسجد کربیگہیہ، پٹنہ، نائب سکریٹری مولانا اقبال سعادتی، کربلا پھلواری شریف، نائب کنوینر تنظیم مولانا ابرار کریم قاسمی امام بکسر یہ ٹولہ مسجد سلطان گنج، اور نائب خازن مولانا غفران قاسمی امام نیا ٹولہ مسجد پھلواری شریف کو منتخب کیا گیا ہے۔ 
اسی طرح حلقہ وار ذمہ دار میں پٹنہ سیٹی حلقہ کا ذمہ دار مولانا ذوالفقار ندوی امام فصاحت کا میدان مسجد، کو ، پٹنہ سنٹرل حلقہ کا ذمہ دار مولانا اسعد قاسمی امام جنکشن مسجد، کو، پھلواری شریف حلقہ کا ذمہ دار مولانا انیس الرحمن قاسمی امام عالمگیر مسجد پھلواری کو، اور دانا پور حلقہ کا ذمہ دار مولانا نقیب عالم قاسمی امام شگونہ دانا پور کو متعین کیا گیا ہے۔ 
شکیلیت، قادیانیت جیسے فرقہ باطلہ پرمکمل نگرانی رکھنے اور اس کی سرکوبی کی ذمہ داری مولانا اسعد قاسمی، مولانا حسین قاسمی، مولانا ابرار کریم قاسمی اور مولانا عادل حسین قاسمی کو سونپی گئی ہے۔ تنظیم کی اگلی مٹنگ مورخہ 5مئ، مطابق 25شوال المکرم بروز اتوار بوقت 8بجے صبح، بمقام جامع مسجد مراد پور پٹنہ میں منعقد ہوگی۔ 
اس مٹنگ میں شرکت کرنے والے ائمہ مساجد کے اسماۓ گرامی ہیں:
جناب مولانا عتیق الله قاسمی سرپرست تنظیم وامام فقیر باڑہ مسجد، مولانا غلام اکبر قاسمی صدر تنظیم و امام مراد پور مسجد پٹنہ۔
مولانا محمد عالم قاسمی سکریٹری تنظیم و امام مسجد دریا پور سبزی باغ ۔
 مولانا حسین قاسمی کنوینر تنظیم وامام شکور کالونی مسجد،۔
 مولانا عادل حسین قاسمی خازن تنظیم وامام بھسولہ دانا پور مسجد۔
 مولانا معین الدین قاسمی نائب صدر تنظیم وامام بڑی مسجد
 کربیگہیہ۔
 مولانا اقبال سعادتی نائب سکریٹری تنظیم و سابق امام کربلا مسجد پھلواری شریف۔
مولانا ابرار کریم قاسمی نائب کنوینر تنظیم وامام بکسریہ ٹولہ مسجد سلطان گنج ۔
مولانا غفران قاسمی نائب خازن تنظیم وامام نیا ٹولہ مسجد پھلواری شریف۔
فرقۂ ضالہ وباطلہ فتنۂ شکیلیت  مسلم نوجوانوں گمراہ ہوکر مرتد ہورہےہیں  اس فتنۂ شکیلیت وقادیانیت کےسدباب کےلیے چار آدمی پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل پائی جس کے مشورے پر تنطیم کام کرے گی۔
جن ائمہ کرام کی شرکت ہوئی ان میں 
 مولانا فاروق قاسمی امام پاٹلی پترا کالونی مسجد، مولانا اعجاز کریم قاسمی امام بلال مسجد سمن پورہ، مولانا آفتاب عالم قاسمی امام بلورگنج مسجد پچھم دروازہ، مولانا عتیق الله قاسمی امام گولک پور مسجد، مولانا ذوالفقار ندوی امام فصاحت کا میدان مسجد، مولانا انوار الحق قاسمی امام مکھنیاکنواں مسجد، مولانا انیس الرحمن قاسمی امام عالگیر مسجد پھلواری شریف، مولانا اسعد قاسمی۔ امام جنکشن مسجد، مولانا نقیب عالم قاسمی امام شگونہ دانا پور، مولانا مسعود عالم قاسمی امام ہارون نگر سیکٹر 2مسجد، مولانا عبدالرشید سجادی امام خواجہ پورہ مسجد، مولانا شاہد مظاہری امام حرا مسجد نیو عظیم آباد کالونی، مولانا عالمگیر مظاہری امام درگاہ گھیرا مسجد، مولانا نسیم الدین نوری امام نوری مسجد، مولانا قاصد بیگ قاسمی امام ابو بکر مسجد سلطان گنج، مولانا ذکاء الله ندوی امام ترپولیہ مسجد، اور مولانا عبدالستار قاسمی امام تبارک علی مسجد وغیرہ اسمائےگرامی قابل ذکر ہیں۔
مولانا عالمگیر مظاہری کی دعاء کےساتھ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔

غیر افسانوی ادب کا رشتہ زندگی سے گہرا ہوتا ہے:




 غیر افسانوی ادب کا رشتہ زندگی سے گہرا ہوتا ہے: پروفیسر سجاد حسین
اردودنیانیوز۷۲ 
سری شنکر اچاریہ یونیورسٹی برائے سنسکر ت میں تین روزہ اردو قومی سمینار اختتام پذیر
کالی کٹ ()
سری شنکر اچاریہ یونیورسٹی برائے سنسکر ت کے شعبہ اردو (ریجنل کیمپس کوئی لانڈی کیرل)میں تین روزہ قومی سمینار اختتام پذیر ہوا جس میں ملک بھر کے دانش وروں اور مقالہ نگاروں نے شرکت کی اور اکیسویں صدی میں غیر افسانوی ادب کے سمت ورفتار پر اظہار خیال کیا۔ کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے معروف ادیب ودانش ور پروفیسر سید سجاد حسین نے کہا کہ غیر افسانوی ادب کا رشتہ زندگی سے گہرا ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس میں زندگی کے حقائق پیش کیے جاتے ہیں۔ حقائق کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اکیسویں صدی میں جہاں افسانوی ادب پر ادبا وشعرا طبع آزمائی کررہے ہیں، وہیں وہ غیر افسانوی ادب پر بھی توجہ مبذول کررہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اکیسویں صدی کا غیر افسانوی ادب قابل ذکر ہے۔ انھوں نے اپنے کلیدی خطبے میں افسانوی اور غیر افسانوی ادب کا فرق واضح کیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے سامعین کے مدنظر کلیدی خطبے کو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں مشترکہ طور پر پیش کیا۔ اس محفل میں اردو والوں کے علاوہ بطور سامعین مختلف زبانوں کے شرکاء موجود تھے۔ شنکر اچاریہ یونیورسٹی کے رجسٹر ڈاکٹر انی کرشنن نے افتتاحی خطبہ پیش کیا۔یونیورسٹی کی سرگرمیوں، زبان وبیان اور ادب وثقافت کے معاملات پر گہری بحث کی۔ پروفیسر سید سجاد حسین اور ڈاکٹر انی کرشنن نے شعبہ اردو کی فعالیت کا تذکرہ کیا۔صدر شعبہ اردو ڈاکٹر قمر النسا نے شعبہ اردو کی ذمے داریوں، پروگرام کی سرگرمیوں اوردیگر ادبی اور انتظامی امور پر گفتگو کی۔ پروفیسر صفیہ بی اور پروفیسر نکولن کے وی (سابق صدور شعبہ اردو ایس ایس یو) نے غیر افسانوی ادب کے دیگر پہلوؤں پر بات کی اور اردو زبان کی اہمیت پر اردو ملیالم زبان میں تقریر کی۔ تین روزہ اس سمینار میں تقریبا دودرجن مقالات پیش کیے گئے۔ شام غزل کی محفل آراستہ کی گئی۔ اہم مقالہ نگاروں میں پروفیسر ثناء اللہ، پروفیسر امین اللہ، محمد ابراہیم، ڈاکٹر رجینا، ساجد حسین،سلمان عبدالصمد، رسینہ، محمد پرویز عالم، عارف این، عبدالعزیز، نجمہ سی کے، فائر، ساجدہ، ربیعت، محمد جاسل وغیرہ کے نام سر فہرست ہیں۔ پروگرام کی شاند ار نظامت ڈاکٹر محمد قاسم استاذ شعبہ اردو، ایس ایس یو نے بہترین طریقے سے کی۔ واضح رہے کہ یہ پروگرام شعبہ اردو کی طرف سے منعقد ہوا تھا مگر سنسکرت، ہندی اور دیگر شعبوں کے اساتذہ واراکین نے سمینار کو کامیاب بنانے میں صدر شعبہ ڈاکٹر قمر النساکا بھر پور تعاون کیا۔



اتراکھنڈ میں یو سی سی

اتراکھنڈ میں یو سی سی
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ 
============================
 7 فروری کو اتراکھنڈ اسمبلی میں بھاجپا نے یونی فارم سول کوڈ کو صوتی ووٹ سے پاس کرالیا، اس طرح آزادی کے بعد یو سی سی پر قانون بنانے والی وہ ہندوستان کی پہلی ریاست بن گئی ہے، گو اسے صرف اسمبلی سے پاس کروا نا کافی نہیں ہے کیوں کہ اس قسم کی قانون سازی کا حق مرکز کو ہے  ریاستیں ان کے تابع ہیں، اس لیے اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ دھامی نے اسے صدر جمہوریہ کو بھیجنے اور ان کی منظوری کے بعد اسے نافذ کرنے کی بات کہی ہے، چونکہ اتراکھنڈ اور مرکز میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہے اس لیے توقع یہی ہے کہ اسے وہاں سے بھی ہری جھنڈی مل جائے گی۔
 جیسا کہ میں پہلے بھی لکھتا رہا ہوں کہ اس قانون کی زد میں صرف اور صرف مسلمان ہیں، کیوں کہ دوسرے مذاہب کے پاس احکام الٰہی نہیں ہے، اس لیے وہ رسم ورواج، کسٹم، قبائلی روایات اور دیومالائی قصے کہانیوں کو دین کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا، کیوں کہ ان کی بنیادیں اللہ کے دین میں پیوست  نہیں ہیں، اس قانون کی رو سے مرد وعورت دوسری شادی نہیں کر سکیں گے، شادی کا رجسٹریشن ضروری ہوگا، طلاق صرف عدالت کے ذریعہ ہی ممکن ہوگا، وہ بھی جب شادی کو ایک سال ہو چکے ہوں گے، لڑکے لڑکی کو ترکہ میں برابر حصہ ملے گا، منہہ بولے بیٹے بیٹی بھی ترکہ میں حقیقی اور نسبتی اولاد کی طرح حصہ پائیں گے، طلاق یا شوہر کے انتقال کے بعد عدت نہیں گذارنی ہوگی، رضامندی کے ساتھ لڑکے لڑکی ایک کمرے میں رہ سکیں گے، جسے اصطلاح میں ’’لیو ان ریلیشن شپ‘‘ کہا جاتا ہے، البتہ اس کا بھی رجسٹریشن ہوگا، بغیر رجسٹریشن کے رہنے پر چھ ماہ کی سزا ہوگی، ریلیشن شپ کے دوران جو بچے پیدا ہوں گے وہ بھی ترکہ کے مستحق ہوں گے، شادی سے متعلق تمام معاملات میں اگر خلاف ورزی کی جاتی ہے تو چھ ماہ کی سزا اور پچاس ہزار روپے تک جرمانہ ادا کرنا ہوگا، یہ اور اس قسم کے دوسرے دفعات شریعت اپلی کیشن ایکٹ 1937 کے خلاف ہیں، ان قوانین کو بناتے وقت دفعہ 25،/26 کے تحت دی گئی مذہبی آزادی کا بھی خیال نہیں رکھا گیا ہے، جب کہ اس  قانون سے درج فہرست قبائل کو آئین کی دفعہ 366 کے باب 25 کی ذیلی دفعہ 342 کے تحت مستثنیٰ رکھا گیا ہے یعنی یہ قوانین اس پر لاگو نہیں ہوں گے، اس کا سیدھا مطلب ہے کہ یہ ہندو کوڈ ہے یونی فارم سول کوڈ نہیں، کیوں کہ اسے سب پر لاگو کرنے کے بجائے ایک خاص طبقہ کو اس سے الگ رکھا گیا ہے، مسلم پرنسل لا بورڈ نے اس قانون کو غیر مناسب اور نا قابل عمل قرار دیا ہے، یہی موقف ساری تنظیموں کا ہونا چاہیے اورمختلف مذہبی اکائیوں کو ساتھ لے کر اس قانون کے بے اثر اور غیر نافذ ہونے کے طریقہ کار پر غور کرنا چاہیے خصوصا حال میں سکھوں کے ذریعہ تشکیل نئی تنظیم سکھ پرسنل لا بورڈ کو ضرور ساتھ لینا چاہیے، یہ پہلا پتھر ہے جسے بھاجپا نے مذہبی اکائی کی درجہ حرارت ناپنے کے لیے پھینکا ہے، مرکزی حکومت یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ اس سے کتنا مد وجزر پیدا ہوتا ہے، اگر ہم نے اسے خاموشی سے برداشت کرلیا تو مرکزی حکومت کو اس سے حوصلہ ملے گا اور وہ پورے ملک میں اس کو نافذ کرنے کی کوشش کرے گی، جو یقینی طور پر کسی بھی حال میں ہمارے لیے قابل بر داشت نہیں ہوگا، ہم اس ملک کے اچھے شہری ہیں، امن وامان سے رہنا چاہتیہیں اور دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں، لیکن ہم اپنے اس عہد پر بھی قائم ہیں کہ ہم پہلے مسلمان ہیں بعد میں ہندوستانی، ہمارا ہندوستانی ہونا مذہب پر عمل کرنے سے نہیں روکتا، اس لیے ہم اس ملک میں فرائض واجبات، حلال تو بڑی چیز ہے، ہم یہاں اپنی چھوٹی چھوٹی سنتوں اورنوافل میں بھی رکاوٹ کو پسند نہیں کرتے، ہماری توانائی اس ملک کی ترقی، یک جہتی اور سالمیت کے لیے وقف ہے، لیکن ہمارا دل ودماغ اسلام کی تعلیمات سے کبھی بھی الگ نہیں ہو سکتا، کیوں کہ ہم اس ملک کے اچھے شہری ہونے کے ساتھ اچھے مسلمان بھی ہیں اورہم اپنے عقائد، قرآنی احکام اور نبوی ہدایات پر عمل کرنے سے روکنے کو ہندوستانی قانون اور دستور کے منافی سمجھتے ہیں۔

پیر, فروری 12, 2024

خواتین پر رحمۃ للعالمین کے احسانات

خواتین پر رحمۃ للعالمین کے احسانات 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
==============================
مولانا ابو سفیان بن سعید ندوی (ولادت 3 جولائی 1973) بن سعید احمد (م2017) بن قاضی ظفر بن قاضی اشمل ایک بڑی علمی شخصیت ہیں، انہوں نے ندوۃ العلماء سے 1994 میں فضیلت اور علی گڈھ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ سے 1996 میں عربی میں ایم اے کیا ہے، تدریسی زندگی کا آغاز مظاہر علوم دار جدید سہارن پور سے 1997 میں کیا، 1998 کے آخر میں وہ جدہ سعودی عرب چلے گیے جہاں انہوں نے سعودی ریسرچ اینڈ پبلشنگ کمپنی میں مترجم کی حیثیت سے کام کیا، 2017 سے 2020 تک ان کی وابستگی مولانا مظہرالحق عربی فارسی یونیورسیٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے رہی، ان دنون گذشتہ تین ماہ سے وہ قاضی نور الحسن میموریل اسکول پھلواری شریف پٹنہ سے وابستہ ہیں، یہ اسکول امارت شرعیہ کا ہے اس لیے کہنا چاہیے کہ اس ادارہ کے واسطے سے وہ امارت شرعیہ سے منسلک ہیں، مولانا عربی اور اردو زبان کے ماہر ہیں، انہیں ان زبانوں میں لکھنا، پڑھنا اور بولنا اچھی طرح آتا ہے۔ ان کی تصنیفی صلاحیت کے مظہر کے طور پر تین کتابیں، والدین کی فضیلت، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں سے پیار اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق حسنہ کے پیکر شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں، مولانا کی چوتھی کتاب خواتین پر رحمۃ للعالمین کے احسانات ہیں، جو ابھی پریس جانے کو تیار ہے اور میرے زیر مطالعہ ہے۔
 عورت کے سلسلے میں دنیا افراط وتفریط کی شکار رہی ہے، بعض مذاہب میں اسے دیوی کا روپ دے کر اس کی پوجا کی جانے لگی، بعضوں نے اسے قدموں کی دھول سمجھ کر ذلیل وخوار کیا، اور سماج میں اس کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا، جس سے انسانیت شرمسار ہوئی، ایک زمانہ تک اسے صرف خواہش نفسانی کی تسکین کا ذریعہ جانا گیا، اس کی اپنی مرضی  اپنی خواہش کچھ نہیں ہوتی تھی، وہ مرد کے تابع ہوتی تھی، اور اسے مرد کی مرضی کے مطابق زندگی گذارنی ہوتی تھی، ظلم کی انتہا یہ تھی کہ اسے شوہر کے مرجانے کے بعد اس کے ساتھ ہی ’’ستی‘‘ چتا پر جل کر مرجانا ہوتا تھا۔
پھر ایک دور وہ آیا جب عورتوں کی آزادی کے نام پر اسے بے پردہ کیا گیا، رقص وسرود کی محفلوں میں اسے آئٹم گرل کے طور پر پیش کیا جانے لگا، بڑی بڑی مشینوں سے لے کر ماچس کی ڈبیا تک اس کی نیم برہنہ تصویریں اشہارات میں لگائی گئیں اور ان کو خوش کرنے کے لیے فلمی دنیا میں ’’اسٹار‘‘ اور طوائفوں کے حلقے میں ’’سیکس ورکر‘‘ کا نام دیا گیا، اس کے خورد ونوش کی ذمہ داری مردوں پر تھی، لیکن حقوق نسواں کا بلند وبالا نعرہ لگا کر انہیں معاشی سرگرمیوں کا حصہ بنا دیا گیا، اب عورت بچے پیدا کرتی ہے، پوستی پالتی ہے، چولھا چوکا کرتی ہے اور روزگار کے حصول کے لیے مختلف کمپنیوں، فیکٹریوں، اسکولوں کالجوں اور گھروں میں کام کرتی ہے، مرد ڈیوٹی سے آکر آرام کرتا ہے اور عورتیں گھر آکر بھی گھریلو کاموں سے لگ جاتی ہیں، یعنی اسے کسی وقت آرام نہیں ہے، دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جب گھر میں کئی کمانے والے ہوتے ہیں تو معاشی ترقی ہوتی ہے، حالاں کہ عورت کا اصل کام بچوں کی پرورش وپرداخت ہے، انہیں تربیت دے کر اچھا شہری بنانا ہے، اب بچے دائی اور نوکروں کے حوالہ ہوتے ہیں اور مائیں گھر سے باہر کسی دفتر میں مفوضہ امور انجام دینے میں لگی ہوتی ہے، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے ایک مرید صوفی عبد الرب تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ دنیا کو اتنی سمجھ نہیں ہے کہ عورتیں مجاہد تیار کرنے والی کمپنی ہے، اگر کمپنی کو ہی میدان میں لے کر چلے جاؤگے تو مجاہد کہاں سے پیدا ہوں گے۔
ان دونوں نظریات کے بر عکس اسلام نے عورتوں کی عفت وعصمت کی حفاظت پر زور دیا، بعض شروط کے ساتھ اسے کام کرنے کی بھی اجازت دی، والدین کی متروکہ میں اس کا حصہ مقرر کیا، شادی بیاہ میں اس کی اجازت کا خیال رکھا جانے لگا، شوہروں کو اس پر ظلم وزیادتی سے روکا گیا، وہ ماں، بہن بیوی بیٹی جس حیثیت میں ہوں اس کے حقوق مقرر کیے، وفا شعاری اور حسن سلوک کی تلیقن کی اس طرح عورتیں افراط وتفریط کی زندگی کے بجائے اعتدال کی زندگی گذارنے لگیں ایسااعتدال جس میں مرد وعورت دونوں کے حقوق کی رعایت کرکے گھر کو جنت نشاں، پرسکون اور ’’ٹینشن فری زون‘‘ بنایا جا سکتا ہے۔
 مرد جو عورتوں سے اپنی آنکھیں سیکنے اوراسے شہوت رانی کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے، محفلوں کی رونق وتابانی اسی کے دم قدم سے مانتا ہے وہ اسلام کی معتدل تعلیمات جو عورتوں کے حوالہ سے ہے اس میں کیڑے نکالتا ہے، تنقیدیں کرتا ہے اور کبھی کبھی مسلمان عورتوں کے ذریعہ بھی سوالات کھڑے کرتا ہے، ان کا منطقی اور سماجی جواب دینا آج کی ضروت ہے۔
 مولانا ابوسفیان سعید ندوی جن کی علمی صلاحیت اور تدریسی خدمات کا اوپر ذکر کیا گیا ہے،انہوں نے اس موضوع پر اسلام کی جامع تعلیمات کا تفصیلی جائزہ اپنی کتاب ’’خواتین پر رحمۃ للعالمین کے احسانات‘‘ میں لیا ہے، انہوں نے اسلام سے پہلے عورت کا مقام اور عرب معاشرے میں عورت کی حیثیت پر اپنا مطالعہ پیش کیا ہے، پھر اسلام میں ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے جو حقوق ہیں بشارتیں اور حسن سلوک، اطاعت وفرماں برداری پر ثواب کا جو ذکر قرآن واحادیث میں آیا ہے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ مولانا نے اپنی باتیں اپنے تبصرے اس کتاب میں کم اور احادیث کا ترجمہ زیادہ پیش کیا ہے، جس کی وجہ سے یہ کتاب معتبر اور اس کے مندرجات قابل اعتماد ہیں، اگر مولانا نے اس کتاب میں واقعات ومسائل کا ذکر احادیث کی تخریج کے ساتھ کیا ہوتا تو یہ کتاب زیادہ مستند ہوجاتی، مولانا نے یہ کتاب عام مسلمانوں کے لیے لکھی ہے، ممکن ہے یہ ذہن میں رہا ہو کہ حوالہ جات کے ذکر سے کتاب بوجھل ہو جائے گی اورقاری کے مطالعہ میں کسی حد تک رکاوٹ بھی، کتاب میں پردہ، نگاہ کی حفاظت، اجنبی کو دیکھنے اورباریک وچست لباس پہننے کی حرمت اور اسلام میں رہبانیت کی ممانعت کے تعلق سے بھی اچھا خاصہ مواد موجود ہے، جس سے مولانا ابو سفیان صاحب کے مطالعہ کی گہرائی اور گیرائی کا پتہ چلتا ہے۔
 اردو میں اس موضوع پر بہت ساری کتابیں موجود ہیں، ان میں عورتوں کے حقوق سیرت نبوی کی روشنی میں مصنفہ نغمہ پروین، عورت  اسلامی معاشرہ میں از مولانا نور الحق رحمانی، مولانا رضی الاسلام ندوی اور مولانا جلال الدین انصر عمری، اسلام اور عورت از مظہر الدین صدیقی، عورت اور اسلام وغیرہ بھی خاص طور پر قابل ذکر ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مولانا کی یہ کتاب تحصیل حاصل ہے، ہرمصنف کی اپنی فہم اور سوچ ہوتی ہے، اس لیے موضوع کی یکسانیت کے باوجود کتاب میں گفتگو صاحب کتاب کے نقطۂ نظر سے آتی ہے اور ہر گلہائے رنگ وبوئے دیگر است کے مصداق قاری کے مشام جاں کو الگ الگ انداز میں معطر اور مختلف انداز میں معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ ہوا کرتی ہے، اس لیے ایک موضوع پر کئی کتابوں کو دیکھ کر مصنف پر غیر ضروری محنت کا الزام چسپاں کرنا صحیح نہیں ہے، مولانا ابو سفیان صاحب کی کتاب کا مطالعہ اسی نقطۂ نظر سے کرنا چاہیے۔
 مولانا کو اس کتاب کی تالیف پر مبارکباد دیتا ہوں اور دل سے دعا کرتا ہوں کہ اس کتاب کا فیض عام وتام ہو اور ان کا قلم اسی طرح رواں دواں رہے اور صحت وعافیت کے ساتھ وہ ایسی طویل عمر پائیں جس میں مشقت وپریشانی، تعب وتکان کا گذر نہ ہو۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...