Powered By Blogger

جمعرات, اپریل 18, 2024

الحاج قاری شعیب احمد ؒ (یادوں کے چراغ)

الحاج قاری شعیب احمد ؒ (یادوں کے چراغ)
Urduduniyanew72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ کے رکن ، دار القرآن مدرسہ عظمتیہ نوادہ کے ناظم، استاذ الاساتذہ ، اکابر امارت شرعیہ کے معتمد ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اصلاح معاشرہ ضلع کمیٹی کے کنوینر ، جمعیت علماء بہار کی عاملہ کے رکن ، دار العلوم رحمانیہ ملت کالونی بھدونی نوادہ کے سر پرست حضرت مولانا قاری شعیب احمد صاحب نے ١٦؍ رمضان ٤٥ھ کی شب مطابق ۲۷؍ مارچ ٢٠٢٤ء بروز بدھ بوقت ایک بجے عارضۂ قلب میں اس دنیا کو الوداع کہا، سب کچھ اچانک ہوا اور آدھے گھنٹے میں زندگی کا سفر مکمل ہو گیا، ۳؍ رمضان کو طبیعت بگڑ کر سنبھل گئی تھی ، اب کے روزہ افطار ، مغرب ، عشاء تراویح کے بعد دل کا دورہ پڑا اور علاج معاملہ سے بے نیاز ہو گیے، جنازہ کی نماز اسی دن ۳؍ بجے دن میں قائم مقام ناظم امارت شرعیہ مولانا محمد شبلی قاسمی نے پڑھائی ، حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کے حکم سے تجہیز وتکفین اورجنازہ میں شرکت کے لیے جو وفد گیا تھا اس میں راقم الحروف محمد ثناء الہدیٰ اور مولانا اعجاز احمد بھی شریک تھے، ظہر کے بعد جنازہ سے قبل مدرسہ کی مکہ مسجد میں ان کے شاگردان ، معروف علماء اور قائم مقام ناظم صاحب کے ساتھ میرا بھی تعزیتی خطاب ہوا، سب نے ان کی خدمات کی تعریف کی ، انہیں ایک اچھا اور سچا انسان قرار دیا اور ان کی وفات کو ملت کا عظیم خسارہ بتایا، پس ماندگان میں سات صاحب زادگان میں طارق انور (صدر عالم) مولانا ضیاء الدین مظاہری ، مولانا محمد نظام الدین مظاہری، مولانا محمد نصیر الدین مظاہری ، قاری محمد اسامہ مظاہری ، مولانا ابو طلحہ مظاہری ، مولانا منت اللہ مظاہری اور تین صاحب زادیاں ہیں، سب کی شادی وغیرہ کی ذمہ داری سے قاری صاحب سبکدوش ہو چکے تھے، اول الذکر کے علاوہ الحمد للہ سب لڑکے حافظ قاری اور عالم دین ہیں، بڑے صاحب زادے با قاعدہ حافظ عالم تو نہیں ، لیکن خانوادہ کے دینی اثرات ان پر نمایاں ہیں، اہلیہ گذشتہ سال ۱۰؍ رمضان ١٤٤٤ھ میں انتقا ل کر چکی تھیں۔ 
حضرت قاری شعیب احمدبن عبد الحفیظ (م ۱۹۵۱) بن محمد یوسف کی ولادت دربھنگہ ضلع کی مشہور بستی لوام میں یکم جنوری ۱٩٤٧ء کو ہوئی، چار سال کے ہوئے تو والد کا سایہ سر سے جاتا رہا، والدہ مرحومہ نے پوری توجہ اور انہماک سے انہیں پوسا پالا ، والد سے محرومی کا احساس نہیں ہونے دیا، ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کرنے کے بعد مدرسہ امانیہ لوام دربھنگہ میں داخلہ لیا، یہاں کچھ دن تعلیم حاصل کرنے کے بعد خود ان کا شعور جاگا اور انہوں نے محسوس کیا کہ گھر پر رہ کر تعلیم جاری رکھنا ممکن نہیں ہے، چنانچہ والدہ سے اجازت لے کر اپنے ماموں زاد بھائی عثمان صاحب کے ساتھ کلکتہ کے لئے رخت سفر باندھا ، بعض مخلص کے مشورے سے دار القرآن مدرسہ عظمتیہ لورچت پور روڈ کلکتہ میں داخل ہوئے اور قاری عبد القوی صاحب اعظمی، بانی وناظم مدرسہ کی زیر نگرانی تعلیم کی تکمیل کی ، فضیلت کی سند بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے بتوسط مدرسہ امانیہ لوام حاصل کیا، قاری عبد القوی صاحب کے علاوہ جن اکابر علم وفن سے قاری صاحب کاخصوصی تعلق رہا اور آپ جن سے استفادہ کرتے رہے ان میں مولانا عبد الوحید مظاہری غازی پوری، مولانا سید محمد شمس الحق صاحب ویشالوی، مفتی مظفر حسین صاحب مظاہری ، قاری محمد مبین صاحب الٰہ آبادی ، مولانا محمد اسرائیل صاھب بھوجپوری ، مولانا قطب الدین صاحب مظاہری رحمہم اللہ کے اسماء گرامی خاص طور پر قابل ذکر یں، ان حضرات نے قاری صاحب کے اندر معرفت الٰہی کی آگ پھونکی اور دینی کاموں کو سلیقہ سے کرنے اور لوگوں کی تربیت دینی نہج پر کرنے کا شعور بخشا، ان میں سے کئی کی حیثیت قاری صاحب کے نزدیک پیر ومرشد کی بھی تھی ، جن سے انہوں نے تصوف وسلوک کے رموز سیکھے۔
تعلیم سے فراغت کے بعد آپ کی شادی اونسی ببھنگواں حال ضلع مدھوبنی کے مقصود صاحب کی صاحبز ادی سے ہوا، شریک حیات انتہائی دیندار تھیں اللہ رب العزت نے اس رشتے میں بڑی برکت دی ، سات صاحب زادے اور تین صاحب زادیاں تولد ہوئیں، اور سب دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں، قاری صاحب کی خدمت میں ان کی دیندار اہلیہ کا بڑا تعاون رہا، انہوں نے بہت سارے خانگی امور سے انہیں الگ رکھ کر خدمت کا موقع دیا، کہنا چاہیے کہ دونوں کی زندگی کا مقصد رضائے الٰہی تھا، اس لیے زندگی کی پٹری پر یہ گاڑی پوری زندگی محبت والفت کے ساتھ چلتی رہی اور گھر کا جو مقصود’’ ٹینشن فری زون‘‘ ہوتا ہے وہ قاری صاحب کو حاصل رہا۔
تدریسی زندگی کا آغاز بنگلور سے کیا، پھر جہان آباد منتقل ہو گئے، قاری عبد القوی صاحب کے حکم سے پہلے بھداسی ضلع الور کی نظامت سنبھالی، اور مکتب کو مدرسہ بنا کر دم لیا ، مطبخ اور دار الاقامہ کا نظم ہوا، اور پھر قاری صاحب کے حکم سے ہی نوادہ دار القرآن مدرسہ عظمتیہ کی شاخ میں منتقل کیے گیے ، کہنے کے لیے یہ ایک شاخ تھی، لیکن کوئی انتظام نہیں تھا،قاری صاحب نے بے سروسامانی میں کام شروع کیا، پھونس کی جھونپڑی جس سے پانی ٹپک کر اندر آتا تھا، کھانے پینے کا نظم نہیں، طلبہ کہاں رکھے جائیں، مسائل ہی مسائل ، قاری صاحب نے اپنے ناخن تدبیر سے سارے مسائل حل کیے، دوسری طرف مسلکی اختلافات بھی مزاحم ، ایسے میں قاری صاحب نے پوری جرأت ایمانی سے ان حالات کا مقابلہ کیا اور دیکھتے دیکھتے اُسّر اور بنجر زمین میں عمارت سر اٹھانے لگی، آج مکہ مسجد ، مدرسہ کی شاندار اور دیدہ زیب عمارت قاری صاحب ؒ کی جہد مسلسل کی بہترین یاد گار ہے جو آباد وشاداب بھی ہے۔
قاری صاحب ؒ کو اصلاح معاشرہ کی بھی بڑی فکر رہا کرتی تھی ، بھداسی اور نوادہ کے کم وبیش پچاس سالہ قیام کے دوران بہت سارے خاندان کو رسم ورواج ، اوہام وخرافات ،غیر شرعی امور ، بے جا لہو ولعب سے کنارہ کش کرایا ، مدرسہ کے جلسوں گلیوں اور گاؤں گاؤں گھوم کر پوری حکمت عملی اور ایمانی بصیرت سے اس کام میں اپنی توانائی لگائی، بہت سارے غیر شرعی کاروبار سے لوگوں کو آزاد کرایا اور یہ سب بلند بانگ دعووں اور نعروں کے ساتھ نہیں، خاموشی سے انجام دیا، ان کی اسی فکر مندی سے متاثر ہو کر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانی صاحب ؒ نے نوادہ ضلع کی اصلاحی کمیٹی کا کنوینر انہیں نامزد کیا تھا۔
 اسی طرح قاری صاحب ؒ کو امارت شرعیہ کے اکابر اور اس کے کاموں سے غیر معمولی دلچسپی تھی، اسی دلچسی کے نتیجے میں ۲۰۰۱ء میں مدارس اسلامیہ کنونشن میں ان کا بھر پور تعاون ملا، نوادہ میں وفاق المدارس الاسلامیہ کا مسابقہ قرأت قرآن دار العلوم رحمانیہ ملت کالونی میں منعقد ہوا، طلاق ثلاثہ بل کے خلاف نوادہ میں مضبوط دستخطی مہم چلی، سی اے اے ، این آر سی کے خلاف جد وجہد کابڑا مرکز نوادہ بنا ، امیرشریعت سابع کی تحریک دین بچاؤ دیش بچاؤ کے لیے ضلع میں بیداری لائی گئی اور قاری صاحب ہی کی قیادت میں ۱۵؍ اپریل ۲۰۱۸ء کو بڑی تعداد میں نوادہ کے مسلمان گاندھی میدان پٹنہ پہونچے، جب امارت شرعیہ نے اردو کے فروغ ، دینی اور عصری تعلیمی اداروں کے قیام کی تحریک بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ میں چلائی تو نوادہ میں انہوں نے زبر دست پروگرام کرایا اور وہ نوادہ کی تعلیمی مشاورتی کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے، وہ رویت ہلال کمیٹی ضلع نوادہ کے بھی کنوینر تھے۔حال میں امارت شرعیہ نے یوسی سی کے خلاف تحریک چلائی تو انہوں نے پورے ضلع کو اس کام کے لیے متحرک کر دیا۔
 تعلیم قرآن اصلاح معاشرہ ، امارت شرعیہ کی تحریک سے مضبوط وابستگی کے ساتھ ساتھ ان کی خدمت کا بڑا میدان امراء کو حج پر ابھارنا ان کے فارم بھرنا ، پھر سفر حج کے لیے تربیت کا نظم کرنا بھی شامل تھا، سبھی جانتے ہیں کہ حج اسلام کا ایسا رکن ہے ، جس ک ادائیگی میں عموما کوتاہی کی جاتی ہے اور تاخیر بھی قاری صاحب نے حج کے لیے مہم چلائی اور سال بہ سال حاجیوں کی تعداد میں اضافہ کرایا، نوادہ جیسے چھوٹے ضلع سے بعض سالوں میں ڈیڑھ سو سے زائد مسلمانوں نے عزم سفر کیا، قاری صاحب کی اس محنت سے مسلمانوں میں اس رکن کی ادائیگی کے سلسلے میں بیداری آئی، یہ بھی ان کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔
ان تمام کاموں میں مشغولیت کے باوجود خود اپنی اصلاح سے بھی غافل نہیں رہے ، وہ پوری زندگی اکابر علماء کے دامن سے وابستہ رہے اور اصلاح نفس کے لیے صوفیاء کے یہاں جو اوراد واعمال بتائے جاتے ہیں، سب کا غیر معمولی اہتمام کرتے ، تھانوی سلسلہ سے قربت زیادہ تھی، چنانچہ حضرت مولانا احمد مرتضیٰ صاحب مظاہری خلیفہ مجاز حضرت مولانا شاہ اسعد اللہ صاحب ؒنے انہیں اجازت وخلافت سے نوازا، یہ اجازت زبانی بھی تھی اور تحریری بھی ، لیکن وہ عمومی طور ر لوگوں کو بیعت کرنے سے دور ہی رہا کرتے، ساری پابندیوں کے باوجود خانقاہی مزاج نہیں تھا۔
 قاری صاحب کی ایک بڑی خوبی ان کی ضیافت تھی، ان کا دسترخوان بڑا وسیع تھا، وہ مہمان کے پہونچتے ہی گھر سے باہر اور مدرسہ کے لڑکوں تک کو مہمان کی ضیافت ان کے آؤ بھگت اور خدمت میں لگا دیتے ، وہ کم سخن نہیں، کم گو تھے، لیکن صائب الرائے تھے، ہم جیسے چھوٹے بھی جب نوادہ پہونچ جاتے تو ان کی کوشش ہوتی کہ کچھ اصلاحی باتیں لوگوں میں ہوجائے ، جمعہ کا دن ہوتا تو منبر ومحراب حوالے کر دیتے ،خرد نوازی اس قدر کرتے کہ چھوٹوں کو بھی اپنے بڑے ہونے کی غلط فہمی ہونے لگتی ۔
 قاری صاحب سے میری ملاقات امارت شرعیہ آنے سے پہلے سے تھی ، ہم دونوں کے ایک مشترکہ ممدوح حضرت مولانا شمس الحق ؒ سابق شیخ الحدیث جامعہ رحانی مونگیر تھے، جن سے میری وطنی قربت ہے اور ان کے گاؤں کے قریب واقع مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں مدرس ہواکرتاتھا، اس لیے قاری صاحب اپنے رفقاء کے ساتھ جب بھی چک اولیاء وارد وتے تو کسی نہ کسی عنوان سے ملاقات کی شکل بن جاتی ، قاری صاحب بھی مجھ سے محبت کرتے تھے اور مولانا شمس الحق صاحب بھی، اس لیے کئی بار ایسا ہوا کہ قاری صاحب نے نوادہ میں کوئی پروگرام کرایا ، مولانا شمس الحق صاحب مدعو ہوئے تو مجھ حقیر کو بھی یاد کیا گیا، سی اے اے این آر سی مخالف تحریک میں نوادہ میرے ہی حصہ میں تھا، اس لیے ان کی صحبت اور پروگرام میں ایک ساتھ شرکت کے خوب مواقع ملے، قاری صاحب سے آخری ملاقات ہندوستان کے ’’موجودہ حالات اور ان کے حل‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے پروگرام میں ہوئی تھی، وہ تنفس کی شکایت اور دیگر عوارض کے باوجو د اس پروگرام میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے، اور فکر ونظر چینل کو اس اجلاس کی اہمیت پر انٹر ویو بھی دیا تھا۔
قاری صاحب ہزاروں حفاظ ، قراء اور علماء کے استاذ اور مربی تھے، ایسی با فیض شخصیت کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا عظیم علمی ،ملی ودینی نقصان ہے، اللہ رب العزت قاری صاحب کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل کے ساتھ دار القرآن عظمتیہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ۔

منگل, اپریل 09, 2024

" تابِ سخن" ____ ایک مطالعہ*

*" تابِ سخن"  ____  ایک مطالعہ*
Urduduniyanews72 
نام کتاب: تابِ سخن
مرتب: مفتی محمد سراج الہدی ندوی ازہری 
استاذ: دار العلوم سبیل السلام، حیدر آباد

*تعارف و تبصرہ: عین الحق امینی قاسمی*، معہد عائشہ الصدیقہ ،بیگوسرائے، بہار

سرزمین بہار کے خمیر کی ایک خوبصورت جہت یہ بھی ہے کہ اس کے سپوت ابر باراں کی طرح حسبِ ضرورت کرۂ ارض کے مختلف حصوں کو مستفید کرنا اپنا علمی اور اخلاقی فریضہ سمجھتے رہے ہیں۔ مولانا سید مسرور احمد مسرور (1950- 2022) بھی ایک ایسی ہی روشن سخن شخصیت کا نام تھا، جو ریاست بہار میں پلے بڑھے ، پڑھے اور کچھ عرصہ مختلف اداروں میں رہ کر خطاطی کا ہنر آزماتے رہے، مگر 1986ء کے اوائل میں بہار سے حیدرآباد کو اپنا مستقل مسکن بنالیا اور وہیں ایک معروف ادارہ دارالعلوم سبیل السلام میں خدمت علم و قلم پر مامور ہوگئے، جہاں تین دہائیوں سے کچھ زیادہ دم واپسیں تک خدمت کرتے رہے؛ بلکہ آخری "آرام گاہ " بھی اسی شہر گلستاں کے حصے میں آیا۔
مسرور صاحب کام کے آدمی تھے، ان میں چَھپنے سے زیادہ چُھپنے کا ذہن کار فرماتھا، انہوں نے اپنی خاموش طبیعت کی وجہ سے کام اور صرف کام پر توجہ دی، نام سے زیادہ سروکار نہیں رکھا؛ بہ قول آبروئے قلم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ:
"وہ اچھے کاتب تھے اور کتابت انہوں نے دار العلوم دیوبند سے سیکھی تھی؛ اس لیے زیادہ وقت کتابت اور بچوں کو خوش خطی سکھانے میں گذرا، حیدرآباد جانے سے قبل ایک زمانہ تک امارت شرعیہ کے ہفت روزہ نقیب کی کتابت وہی کیا کرتے تھے، امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین رحمہ اللّٰہ سے وطنی قربت بھی تھی، مولانا سید مسرور احمد کے والد چھپرہ سے نقل مکانی کر کے کوٹھی ضلع گیا منتقل ہو گئے تھے، جہاں ان کی سسرال تھی، امیر شریعت سادس کے گاؤں گھوری گھاٹ سے یہ بہت قریب ہے، یہیں پلے بڑھے، مدرسہ عبید یہ کوٹھی اور مدرسہ قاسمیہ گیا سے تعلیم و تربیت حاصل کی، دیو بند کا رُخ کیا ، وہاں سے کتابت کا فن سیکھا اور پوری زندگی اس کام میں لگا دیا۔ شعر و ادب کا ذوق اکتسابی نہیں، وہبی تھا، طبیعت موزوں تھی، مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی، جن میں نعت، تہنیت، منقبت، سپاس نامے، الوداعی نظمیں، سہرے، نغمہ ہائے شادی، خراج عقیدت اور متفرق چیزیں شامل ہیں؛ لیکن ان کو مرتب کرنے، جمع کرنے اور با قاعدہ محفوظ رکھنے کا خیال ان کے دل میں کبھی نہیں آیا؛ بلکہ مولا نا محمد سراج الہدی ندوی ازہری کے بار بار کے تقاضے کے باوجود وہ اس پر آمادہ نہیں ہوئے اور بالآخر موت نے انھیں آلیا"۔
زیرِ تبصرہ کتاب در اصل مولانا سید مسرور احمد مسرور کا مجموعۂ کلام ہے، جسے بعد مرگ محترم مولانا محمد سراج الہدی ندوی ازہری، استاذ دارالعلوم  سبیل السلام حیدرآباد نے مرتب فرماکر شاندار خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ مسرور صاحب بے نفس قادر الکلام شاعر تھے، ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ سبھوں کی ضرورت تھے، جب جنہیں موزوں کلام کی ضرورت پڑی، مسرور صاحب کے کان میں کہہ دیا، اگلی صبح حسب منشاء کلام تیار ملتا۔ ذاتی احساس یہ ہےکہ جس پہلو پر شاعر نے زندگی بھر کبھی کوئی توجہ نہیں دی، پس مرگ اس تھوڑی مدت میں ان کے مجموعہ کلام کا اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ منظر عام پر آجانا "کرامت" ہی کہا جاسکتا ہے، وررنہ آج کسے فرصت جو ایسی گمنام شخصیت کو بے لوث زندہ رکھنے کی جگر کاوی براشت کرے۔ 

قابل مبارک باد ہیں مولانا ازہری صاحب جو اپنی علمی و فکری خدمات اور صلاحیت و صالحیت کی وجہ سے طبقۂ علماء میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں، طلبۂ مدارس میں صرف درسی افادات ہی مقبول نہیں ہیں؛ بلکہ عوام وخواص کے درمیان بھی وہ گل سرسبد، صاحب قلم، شیریں بیاں خطیب، ذی علم مفسر، بافیض مصنف، مؤلف اور مرتب ہیں۔ صائب الرائے، فکر و نظر میں تابانی رکھنے والے ایک اچھے سلجھے ہوئے دردمند انسان کے روپ میں جانے پہچانے جاتے ہیں، موصوف کے ادبی کارناموں میں "کلام شمس" بھی ایک نایاب اضافہ ہے، انہیں حدیث وفقہ اور تفسیر قرآن کریم سے گہری مناسبت ہے، ان کے گہر بار قلم سے علم و تحقیق اور تعلیق وتحشیہ سے مربوط تفسیر قرآن کریم کی دو ضخیم جلدیں بھی منصۂ شہود پر آچکی ہیں۔ انہوں نے دار العلوم ندوة العلماء، لكهنؤ، جامعۃ الازهر، یونیورسٹی مصر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد اور یونیورسٹی آف کالی کٹ کیرلا وغیرہ سے باضابطہ علم و سند حاصل کیا ہوا ہے ۔ 2006ء میں دبئی (Dubai) کے ایک اسکول میں بھی انہیں چند ماہ تدریسی خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ فروری 2007ء سے جنوبی ہند کی مشہور و معروف درس گاه دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد میں عالمیت و فضیلت اور تخصصات کے طلبہ کو فیض یاب کررہے ہیں۔ "جامعہ ریاض البنات" ملک پیٹ حیدرآباد میں بھی وہ ایک دہائی سے درس و تدریس سے جڑے ہوئے ہیں، خطابت وصحافت تو ان کے ذوق کی چیزیں ہیں؛ اس لیے اخبار ورسائل میں چھپتے رہتے ہیں ۔ہندوستان کے طول و عرض میں جلسوں، کانفرنسوں اور سمیناروں میں بھی ان کی شرکت ہوتی رہتی ہے۔ خوبی کی بات یہ ہے کہ مولانا ندوی نے "تاب سخن" مرتب کر نہ صرف ادب نوازوں کو مواد فراہم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے؛ بلکہ حال کے ادیبوں پر بھی واضح کیا ہے کہ شعر وادب کی خدمت محض طبقۂ دانشوری کی میراث نہیں؛ بلکہ چٹائیوں پر بیٹھ کرخاموش مزاج علماء بھی منفرد لب ولہجے میں سخن پروری کر سکتے ہیں اور صدیوں سے بزم شعر وادب کے حوالے سے نمایاں خدمات انجام دیتے بھی رہے ہیں۔
خوبصورت سرورق ،کاغذ کی نفاست، طباعت کی عمدگی، حسن خط، سمیت متعدد خوبیوں کا حامل یہ مجموعہ ہاتھ میں لیجیے، تو جستہ جستہ پڑھ جائیے، اس میں اصناف سخن کا ہر رنگ نظر آئے گا، نعت و منقبت بھی ہے، نظمیں اور سہرے بھی ملیں گے، شادیوں کے نغمے ،خراج عقیدت و تہنیت بھی دل کو شاداں وفرحاں کرتی ہوئی محسوس ہوگی۔
پوری کتاب ایک سو چوراسی صفحات پر پھیلی ہوئی ہے، والدین کے عظیم احسانات اور محبین وتلامذہ کی جہد آشنا خدمات کے نام "انتساب " ممنونیت و مشکوریت کا اچھا انداز ہے۔ کتاب کی ترتیب وغیرہ کے سلسلے میں خود مرتب موصوف کے الفاظ یہ ہیں:
" اس مجموعہ کی ترتیب میں میرا طریقہ کار یہ رہا ہے، سب سے پہلے تمام دستیاب منظوم کلام کو پانچ مرکزی عناوین: نعت و منقبت ، خراج عقیدت، الوداعی نظمیں ، سہرے  اور متفرقات کے تحت تقسیم کر دیا؛ اس کے بعد ہر مرکزی عنوان کے تحت جو نظمیں ذکر کی گئیں، ان کی ترتیب تاریخی اعتبار سے رکھی گئی ہے، ہاں! نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نعت ومنقبت میں مقدم رکھا گیا ہے، جن نظموں میں تاریخ نہیں تھی، انھیں اس حصے کے اخیر میں رکھا گیا ہے؛ البتہ ایک شخصیت سے متعلق اگر ایک سے زائد نظمیں تھیں، تو انھیں پہلی ہی تاریخ کے بعد تسلسل سے ذکر کر دیا گیا"۔
بعض کتابوں کی طرح مولانا ندوی نے بے وجہ کی تقریظ، کلمات عالیہ اور متواتر بے ربط تحریرات سے" تاب سخن " کی تابانی کو ماند پڑنے سے بچایا ہے، البتہ ضرورت کی حد تک آبروئے قلم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ کے حرف چند کو جگہ دی ہے، جس میں انہوں نے واقعتاً  چند حرفوں کی مدد سے حسب عادت کئی ایک جہتوں کو بیان کردیا ہے ۔
"تاب سخن" کو یوں تو پانچ مرکزی عناوین کے تحت تقسیم کیا گیا ہے ،تاہم اس کا آخری حصہ جو  "متفرقات " کے عنوان سے ہے، وہ بھی خاصے کی چیز ہے، بالخصوص "بوسنیا کے مجاہدین و شہدا" کے حوالے سے جو طویل نظم کہی گئی ہے، اس کا ایک ایک بند نہ صرف مجاہدین کے حوصلوں کو مہمیز کرتا ہے؛ بلکہ خون سے لت پت حال میں غزہ و فلسطین کے شہدا کے جسم و جاں کو بھی توانائی بخشتی ہے:

شعار سبط پیمبر بتا دیا تم نے
یہی  ہے ر ا ہ منو ر بتا د یا  تم  نے

 بساط دہر پہ چھا کر بتا دیا تم نے
 سروں کو کر کے نچھاور بتا دیا تم نے
 
ہزار  آفتیں آئیں ہز ار شہر جلے 
رضائے داور محشر بتا دیا تم نے 

یہو دیت کا معنی ہے روس و امریکہ
 جو بات سچ ہے وہ کھل کر بتا دیا تم نے

جبیں ہے جہد مسلسل سے گرد آلودہ
یہ مشک سے بھی ہے بہتر بتا دیا تم نے

ایک دوسری نظم "آواز جرس" کے عنوان سے بھی ہے، اس نے گویا حال کا مکھوٹا اتار کر رکھ دیا ہے، ملک کے بد باطن حکمرانوں کا رویہ دین وشریعت کے ساتھ کبھی بھی حوصلہ بخش نہیں رہا، پوری نظم میں جس بیداری کو برتنے اور ظالم کی بد نگاہی سے ہوشیار رہنے کی ضرورت کی طرف اشارہ ہے، اس سےشاعر کی دیدہ وری اور جاں پرسوزی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے :

عجب گردش دوراں ہے جاگتے رہیے
نفاق تاحد امکاں ہے جاگتے رہیے

یہ کیا عجب ہے کہ دینی معاشرے کے لئے
شکست وریخت کا ساماں ہے جاگتے رہیے

کہاں کا لطف ؟کہاں کا خلوص؟ کیسی وفا؟
خزاں کی زد پہ دبستاں ہے جاگتے رہیے

نہ دے سکے کوئی الزام، کم نگاہی کا 
یہ آگہی، یہی عرفاں ہے جاگتے رہیے

بسر نشاط و طرب میں جو زندگی ہوگی
وہ اور کچھ نہیں حرماں ہے جاگتے رہیے

اسی طرح سے انہوں نے کئی ایسی منفرد نظمیں بھی کہی ہیں، جن سے روح کو تازگی اور نہ صرف خون جگر میں گرمی  محسوس ہوتی ہے؛ بلکہ غیر متزلزل عزم و یقیں کی کیفیت کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے، مثلاً ان کی ایک نظم کے یہ اشعاربھی سن لیجئے:

احکام الہی سے ہٹ کر صد حیف ذلیل و خوار ہوئے
 و اللہ ہمارے پیش نظر قرآن نہیں تو کچھ بھی نہیں

اے برق تپاں! ہو موسم گل ، یا دور خزاں کے جھونکے ہوں
 ناموس نبی پہ مرنے کا ایقان نہیں تو کچھ بھی نہیں

تہذیب ہماری پہچاں ہے، ایثار ہمارا شیوہ ہے
 اس طرز عمل کا دنیا پہ فیضان نہیں تو کچھ بھی نہیں

سوشل میڈیا کے اس دور میں جب ہم کتابوں سے دور ہورہے ہیں، تحقیق وتدوین اور فکر و مطالعہ کی عادت، ہم سے رخصت پذیر ہے، تب مسرور احمد مسرور کی یہ نظم بلند آہنگی کے ساتھ دل کو اپیل کرتی ہوئی دیکھائی دیتی ہے جس میں شکوہ، فغاں، عقیدت، محبت ،نعمت اور انکشافات کا سفینہ بحر تمنا میں غوطہ زن ہے :

کتاب زندہ حقیقت ہے کوئی خواب نہیں 
کتاب دہر میں تیرا کوئی جواب نہیں 

کتاب دیتی ہے انساں کو تیرگی سے نجات
کتاب کاشف رازحیات بعد ممات

کتاب روشنی وانکشاف راز بھی ہے
کتاب کھوج کی دنیا میں امتیاز بھی ہے

کتاب کے مطالعے کے بعد مجموعی طور پر "تاب سخن" کے تئیں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ

گل نہیں، گلد ستۂ اشعار ہے تاب سخن 
شاعری کے حسن سے سرشار ہے تاب سخن

شروع کتاب میں منظوم تبصرہ جسے مولانا انوار الحق داؤد قاسمی نے پیش کیاہے، بہت شاندار ہے، بر محل الفاظ و استعارہ نے موصوف کی شعری صلاحیت سے خوب واقف کرایا۔ڈیزائنگ اور کتابت بھی باذوق ہاتھوں سے انجام پائی ہوئی ہے۔ کتاب کی قیمت _/230 روپے ہے، رعایتی قیمت مع ڈاک خرچ _/130 روپے ہے، جب کہ پہلی اشاعت کا یہ نسخہ آپ دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد، یاسین بک ہاؤس، فائر اسٹیشن مغلپورہ، نور اردو لائبریری، حسن پور گنگٹھی، بکساما، ویشالی، بہار اور نور القمر لائبریری، مدنی نگر، مہوا، ویشالی، بہار کے علاوہ مرتب موصوف کے اس نمبر 919849085328 سے بھی رابطہ کر کے منگوا سکتے ہیں۔
*** ___________________***

پیر, اپریل 08, 2024

عید الفطر کا پیغام،رب کا بڑا انعام

عید الفطر کا پیغام،رب کا بڑا انعام 
Urduduniyanews72 

مضمون نگار : محمد ضیاء العظیم قاسمی،
استاذ چک غلام الدین ہائی اسکول ،ویشالی
موبائل نمبر :7909098319

اسلام ایک پر امن اور فطری مذہب ہے،جس کی ابتداء انسانوں کے وجود سے قبل  کی ہے، اس مذہب نے ہر قدم پر انسانیت کی مکمل راہنمائی کی ہے، مہد سے لے کر لحد تک زندگی گزارنے کے سلیقے اور طریقے واضح انداز میں پیش کیا، انسانیت کو کہیں بھی لاچار، بے یار و مددگار نہیں چھوڑا، اللہ رب العزت نے سیدنا آدم وحوا علیہما السلام کے ذریعہ اس دنیا کو وجود میں لاکر صاف طور پر دنیا کی تخلیقی پس منظر کی وضاحت فرما دی "وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ" الذاريات (56) ترجمہ : میں نے انسان اور جنات کی تخلیق عبادت کے واسطے کیا ۔ عبادت نام ہے اللہ کے احکامات کو تسلیم کرکے اس کے مطابق زندگی گزارنے کا، اللہ رب العزت انسانوں سے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی رب چاہی زندگی کے مطابق کرے، یہی زندگی رب العزت کو پسند ہے، رب کائنات نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انبیاء کرام کے سلسلے کو جاری وساری فرمایا، تاکہ انسان أعمال صالحہ کے ساتھ زندگی گزارے، سیدنا آدم علیہ السلام سے لے آخری نبی وپیغمر سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی مشن کے ساتھ بھیجا گیا، تاکہ انسان گمراہی کے راستے کو ترک کرکے راہ راست کی طرف گامزن ہو جائے ۔
اسی طرح نبیوں کا سلسلہ چلتا رہا، پھر حضرت عیسٰی علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائیں ان کے بعد اور سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے قبل دنیا کی حالت بد سے بد ہو چکی تھی، لوگوں کے اندر ہر طرح کی برائیاں عام تھیں، تاریخ اس دور کو ایام جاہلیت سے تشبیہ دیتی ہے، انہیں برائیوں میں سے دو برائیاں بہت عام تھیں اور وہ یہ کہ رنج وغم کے موقع پر وہ حد سے اتر جاتے اور اسے ماتم سے بدل دیتے ، ےاپنے اظہارِ غم کے لئے عجیب وغریب انداز اختیار کیا کرتے تھے، اسی طرح جب انہیں کوئی خوشیاں لاحق ہوتی تو وہ خوشیوں کے اظہار کے واسطے حد سے گزر کر جشن سے بدل دیتے تھے، اور اس جشن کا انداز بھی عجیب وغریب ہوا کرتا تھا، لیکن جیسے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے انہوں نے ان دونوں تصور کی تردید کرتے ہوئے غم میں ماتم کی جگہ صبر، اور خوشی میں جشن کی جگہ شکر ادا کرنے کی تلقین فرمائی، اور ان دونوں طریقے کو مومنین کی علامت سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا,, اَلَّـذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُـمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُوْآ اِنَّا لِلّـٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ (سورہ بقرہ آیت 156)
وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
اسی طرح شکر ادا کرنے والوں کے لئے یہ وعدہ فرمایا,, وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَـرْتُـمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِنْ كَفَرْتُـمْ اِنَّ عَذَابِىْ لَشَدِيْدٌ (سورہ ابراہیم آیت 7)
اور جب تمہارے رب نے سنا دیا تھا کہ البتہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو اور زیادہ دوں گا، اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے۔
یعنی کہ زندگی صبر اور شکر کے ساتھ گزارنے کی تلقین کی ۔
اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے انسانوں کی تاریخ کیا ہے، انسانوں کی تخلیق کیوں کی گئی، انسانوں کی کامیابی اور ناکامی کہاں مخفی ہے ، کون سا عمل کرنا ہے اور کس عمل سے دور رہنا ہے ان باتوں کی مکمل، مدلل ومفصل راہنمائی کردی ہے ۔اللہ رب العزت نے انسانوں کی تخلیقات کرکے ایمان وکفر کے راستے بتائیں اور اسے اپنی قدرت اور اپنے اختیارات میں سے چند اختیارات عطاء فرماتے ہوئے ارشاد فرما دیا,, وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَكْفُرْۙ-اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًاۙ-اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَاؕ-وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَؕ-بِئْسَ الشَّرَابُؕ-وَ سَآءَتْ مُرْتَفَقًا() سورہ کہف آیت (۲۹)،،
اے بنی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کہ دیں کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے، بیشک ہم نے ظالموں کے لیے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی اور اگروہ پانی کے لیے فریاد کریں تو ان کی فریاد اس پانی سے پوری کی جائے گی جو پگھلائے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو اُن کے منہ کوبھون دے گا۔ کیا ہی برا پینا اور دوزخ کیا ہی بری ٹھہرنے کی جگہ ہے۔
اللہ رب العزت نے انسانوں کو اختیارات دے رکھے ہیں کہ وہ ایمان پر چلے یا کفر پر، لیکن ساتھ ساتھ کفر کی مذمت بھی بیان فرمادی، اسی طرح ایمان کی حلاوت وچاشنی اور انعامات بھی بیان فرمائے,, اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًاۙ(سورہ کہف آیت ۱۰۷)بیشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اعمال کئے ان کی مہمانی کے لئے فردوس کے باغات ہیں ۔
وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُـهُـمْ جَنَّاتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِـهَا الْاَنْـهَارُ خَالِـدِيْنَ فِيْـهَآ اَبَدًا ۖ وَعْدَ اللّـٰهِ حَقًّا ۚ وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّـٰهِ قِيْلًا (سورہ نساء آیت 122)
اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے انہیں ہم باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ کا وعدہ سچا ہے، اور اللہ سے زیادہ سچا کون ہے۔
اس طرح سے اور بھی کئ آیات کریمہ ہیں، 
اللہ رب العزت کا وعدہ برحق ہے۔

يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّـٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الـدُّنْيَا ۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللّـٰهِ الْغَرُوْرُ (سورہ فاطر آیت 5)
اے لوگو بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے پھر تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے، اور تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ باز دھوکا نہ دے،، 

یقیناً رب العزت نے  انسانوں کی تمام ضروریات کا خیال کرتے ہوئے اسے نعمتوں سے سرفراز کیا، زندگی گزارنے کے سلیقے دیئے۔
"عید الفطر" بھی رب العزت کی عطاء کردہ ایک عظیم نعمت ہے یہ وہ تہوار ہے جسے پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے پر مناتے ہیں۔
اس لحاظ سے یہ ایک عظیم تاریخ سے جڑا ہوا ہے، عید کے دن اللہ رب العزت نے  روزہ رکھنے سے منع کیا ہے، عید در اصل تحفہ ہے ان مومنین و مومنات کے لئے جنہوں نے صرف رب کی رضامندی کی خاطر کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے خود کو الگ رکھا ہے ۔ مسلمان رمضان کے 29 یا 30 روزے رکھنے کے بعد یکم شوال المکرم کو عید مناتے ہیں۔اور بطورِ شکرانہ عید الفطر کے دن نماز عید (دو رکعت 6 زائد تکبیروں)کے ساتھ پڑھ کر رب کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار کرتے ہیں ، جسے جامع مسجد یا کسی کھلے میدان یعنی عیدگاہ میں ادا کرتے ہیں ۔عید کے دن کئ اہم امور انجام دینے کا حکم ہے اور ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ ہم اپنی جانب اور اہل خانہ کی جانب سے صدقۃ الفطر ادا کریں ۔صدقہ فطر حکم خداوندی کی بنا پر واجب ہے اس کی ایک حکمت ادائے شکر بھی ہے ۔جو مسلمان اتنا مال دار ہے کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہے یا اس پر زکوٰۃ واجب نہیں، لیکن قرض اور ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب اس کی ملکیت میں موجود ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر عیدالفطر کے دن صدقہ دینا واجب ہے، چاہے وہ تجارت کا مال ہو یا تجارت کا مال نہ ہو، چاہے اس پر سال گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو۔ اس صدقہ کو صدقۂ فطر کہتے ہیں۔
جس طرح مال دار ہونے کی صورت میں مردوں پر صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے اسی طرح اگر عورت مال دار صاحب نصاب ہے یا اس کی ملکیت میں قرضہ اور ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال وغیرہ ہے جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے، مثلاً اس کے پاس زیور ہے جو والدین کی طرف سے ملا ہے یا شوہر نے نصاب کے برابر زیور عورت کو بطور ملکیت دیا ہے، یا مہر میں اتنا زیور ملا جو نصاب کے برابر ہے تو عورت کو بھی اپنی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے، ہاں اگرشوہر اس کی طرف سے اسے بتاکر ادا کردے تو ادا ہوجائے گا۔
 مال دار عورت پر اپنا صدقۂ فطر ادا کرنا تو واجب ہے، لیکن اس پر کسی اور کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں، نہ بچوں کی طرف سے نہ ماں باپ کی طرف سے، نہ شوہر کی طرف سے۔
البتہ مال دار آدمی کے لیے صدقۂ فطر اپنی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے، اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی، نابالغ اولاد اگر مال دار ہو تو ان کے مال سے ادا کرے اور اگر مال دار نہیں ہے تو اپنے مال سے ادا کرے۔ بالغ اولاد اگر مال دار ہے تو ان کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا باپ پر واجب نہیں، ہاں اگر باپ ازخود ادا کردے گا تو صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا۔
عید الفطر کی رات یعنی چاند رات کو "ليلة الجائزة "  اور  عید الفطر کے دن کو " یوم الْجَوَائِزِ"  یعنی انعامات و بدلے کا دن حدیث میں کہا گیا ہے ۔
حضرت ابن عباس سے موقوفاً مَروی ہے :”يَوْمُ الْفِطْرِ يَوْمُ الْجَوَائِزِ“
عید کا دن ”یوم الجَوَائِز“یعنی انعام ملنے والا دن ہے۔(کنز العمال :24540)
نبی کریمﷺ اس دن کو مذہبی تہوار قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں  : ”إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا“  (بیشک ہر قوم کیلئے عید کا دن ہوتا ہے اور یہ ہمارا عید کا دن ہے۔(بخاری:952)
اللہ تعالی عید الفطر کے دن فرشتوں کو گواہ بناکر روزہ داروں کی مغفرت فرمادیتے اور ان کے گناہوں کو سیئات سے بدل دیتے ہیں،  چنانچہ روزہ دار عید گاہ سے بخشے بخشائے واپس ہوتے ہیں ۔
اگر ہم غور وخوض کریں تو عید الفطر کی خوشیاں در حقیقت  قرآن کے ملنے پر منائی جاتی ہیں،  رمضان المبارک جو کہ قرآن کا مہینہ ہے،اور قرآن مجید کی تعریف خود قرآن مجید نے سب سے بڑی نعمت سے کرائی ہے ، اور اس قرآن کی نعمت پر خود رب العزت نے انسانوں کو خوشیاں منانے کا اعلان فرمایا ہے : یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِۙ۬-وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ  قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ
(سورہ یونس آیت 57 58)
’’لوگو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبی ؐ ، کہو کہ’’ یہ اللہ کا فضل اور اْس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اْس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اْن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘

"عید الفطر کے اہم تقاضے" عید الفطر سے ہمیں کئ اہم پیغامات ملتے ہیں اور وہ یہ کہ ہم حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھی ادائیگی کریں،  اللہ کی بندگی کے ساتھ ساتھ ان کے تمام احکامات کو بجا لانے کی سعی کریں، نعمتوں پر شکر ادا کریں اور مصائب میں صبر وتحمل کے ساتھ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے زندگی گزاریں،کیوں کہ شکر نام ہی ہے نعمتوں کے حقوق کی ادائیگی کا، اللہ نے جو بھی نعمتیں ہمیں میسر کی ہیں ان میں اوروں کے بھی حقوق ہیں، خصوصاً غرباء وفقراء ، مساکین، ضرورتمند، خویش واقربہ وغیرہ ۔
اسی لیے اپنی خوشیوں میں اپنے دوست واحباب، خویش واقربہ ،غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کو لازمی شامل رکھیں،انفرادی نہیں اجتماعی زندگی گزاریں، مسلمانوں کے کے ایک ایک لمحات عبادات ہیں، خواہ سماجی ومعاشرتی زندگی ہو ، اقتصادی زندگی ہو ، اجتماعی وانفرادی زندگی ہو،محفل وتنہائی ہو، خلوت وجلوت ہو، صبح وشام  یا رات ودن ہو، بشرطیکہ ہر معاملے میں احکامات الہی کو سامنے رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عید الفطر کی نماز کے لئے ایک راستے سے جانے اور دوسرے راستے سے واپس آنے کا حکم ہے تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملاقات کرکے ان کے احوال سے واقف ہوکر ان کی مدد کرسکیں، خلاصہ عید اللہ کی نعمتوں کے شکر ادا کرنے کا ایک اہم ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ہر مسلمان کو چاہیے کہ اللہ کے ان احکامات کو بھر پور بجا لانے کی کوشش کرے یہی پیغام ہے عید الفطر کا، اور یہی تقاضے ہیں بندگی کے۔

اتوار, اپریل 07, 2024

اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر

اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
================================
اللہ رب العزت نے پہلے دن سے ہی انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے انبیاء ورسل کو مبعوث کیا، بلکہ جب اس دنیا میں کوئی انسان نہیں تھا صرف آد م علیہ السلام تھے، اس ایک انسان کو نبی بنایا، دنیا آباد ہوتی گئی، آبادیاں بڑھتی رہیں، کائنات کا نظام وسیع ہوتا رہا اور اس وسعت کے حساب سے انبیاء ورسل بھیجے جاتے رہے، تاریخ میں ایسے مواقع بھی آئے جب مختلف علاقوں کے لئے الگ الگ نبی ورسول بھیجے گئے؛تاکہ وہ احکام الٰہی کو لوگوں تک پہونچائیں،خود کرکے دکھائیں، اور لوگوں کے لیے آئیڈیل ہوں، یہ احکام الہی آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ بھی رہیں، اس لئے آسمانی کتابیں اور صحیفے بھیجے گئے، ضرورت کے اعتبار سے یک بارگی یاقسطوں میں پھر ایک دور وہ آیا جب خالق کائنات نے اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بنا کر معبوث کیا، کتاب اللہ کی شکل میں قرآن کریم کو قیامت تک کے لئے دستور حیات بنا کر نازل کیااور عالم الغیب اور علیم بذات الصدور نے اس پورے نظام کی تکمیل کا اعلان کردیا، اور نعمت باری کے اتمام کا مژدہ سنادیا، رعایت قیامت تک آنے والے لوگوں کی ملحوظ رکھی گئی اور قرآن کریم کو قیامت تک کے لئے تحریف وتبدیلی سے محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا گیا۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو جامع کمالات اور صفات  کے ساتھ جوامع الکلم بنایا گیا اور ملفوظات نبوی بھی دین کا حصہ قرار پائے، زبان نبوت سے یہ اعلان بھی کروادیا گیاکہ زبان مبارک سے نکلنے والے کلمات وملفوظات بھی وحی الٰہی سے ہی صادر ہوتے ہیں اور معاملہ صرف اتنا سا ہے کہ ان کی قرآن کریم کی طرح تلاوت نہیں کی جاتی۔اب یہ ساری تعلیمات قرآن و احادیث میں مذکوراور محفوظ ہیں، ان تعلیمات کی اہمیت اور ضرورت ہر دور میں رہی ہے اوراس نے ہر دور میں بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لانے کا اہم فریضہ انجام دیا ہے۔جب جب ان تعلیمات سے انسانوں نے دوری اختیارکی، انسانیت کراہنے اور سسکنے لگی، انسانوں کے خود ساختہ دستور، قوانین اور نظام زندگی نے بنی نوع انسان کو سکون، راحت و آرام پہونچانے کے بجائے اسے نت نئے مسائل اور پریشانیوں سے دوچار کیا، موجودہ دور اس کی منہ بولتی تصویراور عصر حاضر کے مسائل ومشکلات اس کی واضح مثالیں ہیں، ہرطرف افراتفری اور افراط وتفریط کی گرم بازاری ہمیں تعلیمات نبوی پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کررہے ہیں، یہی ایک صورت ہے جس میں پریشان دنیا کا مداوا ہے۔ہم نے ایک کے سامنے سر کو جھکانا چھوڑ دیا تو پتہ نہیں کتنی جگہوں پر جبیں سائی کرنی پڑرہی ہے۔ہمیں’’یک درگیر ومحکم گیر‘‘کا حکم دیا گیا تھا، ہم نے بہت سارے دروازوں سے اپنی امیدیں اور توقعات وابستہ کرلیں، نتیجہ میں ہمیں ہلاکت وبربادی، افلاس وپسماندگی ملی، ہمیں غصہ پر قابو پانے کا حکم دیا گیا تھا اور جو اسے پچھاڑ دے اس کے قوی ہونے کا اعلان کیا گیا تھا، ہم اس معاملہ میں اتنے کمزور ثابت ہورہے ہیں کہ ہماری شبیہ جذباتی اور جوشیلی بن گئی ہے، تحمل اور برداشت کا مادہ ہم میں باقی نہیں ہے، جس کے مضر اثرات کھلی آنکھوں ہم دیکھ سکتے ہیں، ہمیں غیبت، چغل خوری، تجسس، ذات برادری کی لعنت سے دوررہنے اور ہر قسم کے تعصب سے پاک سماج بنانے کی ذمہ داری دی گئی تھی، لیکن ہم اس پوری لعنت کو ترقی اور رفع درجات کا ذریعہ سمجھنے لگے، اس کے لئے تنظیمیں بنائی جانے لگیں، اور ہم آپس میں دست وگریباں ہونے لگے، دھوکہ دہی مسلمانوں کے شایان شان نہیں تھا، لیکن مادی منفعت کے حصول کی ہوس میں یہ شان بھی جاتی رہی، اب پھٹے کپڑے اور خراب مال کواچھا کہہ کر اچھی قیمت پر فروخت کردینے والا ہی اچھا سلزمین ہے، گول مرچ میں پپیتے کا بیج اور مرچ کے سفوف میں اینٹ کے سفوف ملانے کے واقعات بھی حیرت انگیز نہیں ہیں، لوگوں پر رحم کرنے والے پر اللہ کی رحمت کے نزول کی بشارت دی گئی تھی، لیکن ظلم و جورہمارا شیوہ بن گیا، علم ہماری شناخت کا ذریعہ تھا،ہم جہالت میں ممتاز ہوکررہ گئے، اللہ کا خوف باقی نہیں ہے ہمیں امت وسط اورخیرامت بنا کر لوگوں کو صحیح راستے پرلانے کا کام سپرد کیا گیا تھا،ہم خود گم کردہ راہ ہوگئے، سود کی لعنت سے پاک تجارت اور معاشی نظام ہماری پہچان تھی؛ لیکن ہمیں سودی کاروبار کرنے تک میں عار نہیں ہے، کوششیں اس کی بھی ہوتی رہتی ہیں کہ کسی نہ کسی بہانے ہندستان میں سود کو جائزقرار دیدیا جائے، ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور انہیں ’’اف‘‘ تک کہنے سے روکا گیا تھا، ان کے لئے اپنے کاندھے جھکا دینے کا حکم دیا گیاتھا اور ہم ان کے لئے اولڈایج ہوم کی تجویز لارہے ہیں؛ تاکہ ہماری بے لگام زندگی میں وہ کہیں پر رکاوٹ نہ بنیں، ہمیں اپنی نگاہ نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا تھا،عورتوں کو بے پردہ نکلنے اور بنائو سنگھار کرکے غیروں کے سامنے آنے سے منع کیا گیا تھا،ہم نے ان حدود وقیود کو اس طرح توڑا کہ رشتوں کا احترام باقی نہیں رہا، ہمیں ام الخبائث شراب کی حرمت بتائی گئی تھی کہ اس میں گناہ بڑا ہے، ہم نے اس کو شیر مادر سمجھ کر استعمال کرنا شروع کردیا، جوئے، قمار سے ہمیں روکا گیا تھا، لیکن ہم نے اسے جلدمالدار ہونے کا نسخہ سمجھ لیا، اب جوئے خانے کے لائسنس دیئے جاتے ہیں اور گھوڑ دوڑ کے مقابلے میں کھلے عام جوا کھیلا جاتا ہے، ہمیں اسراف و فضول خرچی سے منع کیا گیا تھا اور فضول خرچی کرنے والے کوشیطان کا بھائی قرار دیا گیا تھا، ہم مختلف تقریبات میں ہزاروں روپے کے پٹاخے پھوڑرہے ہیں، دو دو سو روپے کے شادی کارڈ چھپوا رہے ہیں، اور کئی کئی سو بلکہ ہزاردوہزار روپے کی پلیٹوں پردعوت ولیمہ کررہے ہیں، بینڈ باجے، رقص وسرور، ڈکوریشن اور استقبالیہ کے نام پر جو تماشے ہم کررہے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں،انسانی اعضا کی تجارت کو حرام قرار دیاگیا تھا ہم پورے کے پورے سالم جوان لڑکے کو تجارت کا مال سمجھ بیٹھے ہیں،لڑکی والوں پرشادی میں کوئی مالی بوجھ نہیں ڈالا گیا تھا، ہم تلک و جہیز کے ساتھ کھانے تک کے مینو طے کرنے میں لگے ہیں، ہمیں مہر دینے کا حکم دیا گیا تھا،ہم نے اسے دین مہر بنادیا، ہم نے اسلامی تعلیم کو چھوڑ اتو خاندان ٹوٹنے لگا۔ ہمیں پورے خاندان کا نگراں بنایا گیا تھااور اس حوالے سے ہماری باز پرس بھی ہونی ہے، لیکن ہمیں کلبوں، تفریح گاہوں، سنیما گھروں اور دوستوں کی مجلسوں سے فرصت ہی نہیں کہ ہم اپنے گھرخاندان اور بچوں کی نگرانی اور تعلیم و تربیت کا خیال رکھ سکیں، پاکیزہ زندگی گزارنا ہمارا طرۂ امتیاز تھا، آج اس کا خیال تک قصۂ پارنیہ ہے، اس لئے عصرحاضر میں قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے اس لیے کہ ہم اس سے بہت دور ہوگئے ہیں، اور ہم کامطلب صرف مسلمان نہیں ہیں، تمام انسان ہیں؛ اس لئے کہ تمام لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے لئے رسول بنا کربھیجے گئے، اللہ تمام جہان کا رب، رسول تمام جہان کے رسول اور قرآن کریم تمام جہان کی ہدایت کے لئے ہے، فرق صرف یہ ہے کہ جس نے اس دعوت کو قبول کرلیاہے، اس پر سارے احکام لاگو ہوتے ہیں اورجو ابھی ایما ن نہیں لائے، ان پر پہلے ایمان لانا اور پھر تمام احکام پرعمل کرنا ضروری ہے، جو لوگ بغیر ایمان لائے بھی قرآنی احکامات کو اپنی زندگی کا محور بنائیں گے وہ بھی دنیا میں اس کے فوائد و برکات سے مستفید ہوسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے پیرو کار بھی اس قسم کی آواز لگاتے رہتے ہیں کہ حکومت کرنی ہے تو اس کا طریقہ حضرت ابوبکر اورحضرت عمرؓ سے سیکھواور انسانی ہمدردی اور اکرام انسانیت کا درس اسلام سے حاصل کرو۔آیئے! ہم پھرقرآنی تعلیمات کی طرف لوٹ چلیں، اپنی زندگی قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گذاریں، اور نفس کے شر سے بچ کرخود اور اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچائیں، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے اور جن پر مامور فرشتے صرف اللہ کی مانتے ہیں، ان کی نافرمانی نہیں کرتے،اور جو حکم ہوتا ہے کر گذرتے ہیں۔ لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَااَمَرَ ھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَایُومَرُوْن۔

جمعہ, اپریل 05, 2024

آخری عشرہ رمضان کے خصوصی اعمال

آخری عشرہ رمضان کے خصوصی اعمال
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
================================
اللہ رب العزت نے ہمیں رمضان المبارک کے تین عشرے دیے تھے،دوعشرے سے ہم گذرگئے،اللہ کی توفیق سے جتنی عبادت ممکن ہوسکی، کرنے کااہتمام کیا گیا،رحمتوں کے حصول کے ساتھ مغفرت کی امید بھی جگی،اب تیسرااورآخری عشرہ شروع ہوگیاہے،رمضان پورامہینہ گورحمتوں اوربرکتوں والا ہے ،اس کے باوجود پہلے عشرہ کے مقابلہ میں آخری عشرہ کی اہمیت وفضیلت بڑھی ہوئی ہے ، اس لیے کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہمیں شب قدر کی تلاش کاحکم دیاگیاہے اورایک شب قدر کی عبادت کاثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے،ذراسوچیے!اللہ کی نوازش اورعطاکااگر ہم نے رمضان کی پانچ راتوں میں اللہ کوراضی کرنے کے لیے محنت کرلیا تو سابقہ امتوں کی بڑی عمر اوران کی عباد ت سے ہم کس قدر آگے بڑھ جائیں گے ،یہ رات ہمیں یقینی مل جائے اس کی لیے ہمیں اللہ کے دربار میں پڑجاناچاہیے،اسی در پر پڑجانے کا شرعی نام اعتکاف ہے،جب بندہ بوریا،بستر لے کر اکیس کی رات سے مسجد میں اور عورتیں گھر کے کسی کونے میں جگہ مختص کرکے بیٹھ جاتی ہیں اورشب وروز علائق دنیا اور کاروبار زندگی سے الگ ہٹ کر صرف ذکراللہ ،تلاوت قرآن ،نماز ،تراویح،تہجد میں وقت صرف ہوتا ہے تو اللہ کی خصوصی رحمت اس بندے کی طرف متوجہ ہوتی ہے،اسے شب قدر بھی یقینی طور پر مل جاتی ہے،جو جہنم سے گلو خلاصی کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے، اس لیے ہر گاؤں ،محلہ کی مسجدوں میں اعتکاف کی نیت سے بیٹھنے کا اہتمام کرنا چاہیے،وقت ہواورسہولت میسر ہوتو ان اوقات کاکسی اہل اللہ کی معیت میں گذارنازیادہ کارآمد اورمفید معلوم ہوتاہے،تزکیہ نفس اوراصلاح حال کے لیے اہل اللہ کی صحبت کیمیا کا درجہ رکھتی ہے،اس لیے اہل اللہ کے یہاں آخری عشرہ کے اعتکاف میں مریدین ،متوسلین اورمعتقدین کابڑا مجمع ہوتا ہے اور وہ ان کی تربیت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
جولوگ اعتکاف میں نہیں بیٹھتے ہیں ،ان کے یہاں اس سلسلہ میں کافی کوتاہی پائی ،اس رات کی عباد ت کی طرف توجہ نہیں ہواکرتی اوراگر ہوتی بھی ہے تو بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جورت جگّہ میں اسے گذار دیتے ہیں ،مسجد میں بیٹھ کر دنیا جہاں کی گپ میں لگے ہوتے ہیں،ایک تورمضان کی رات دوسری شب قدر اورتیسرے اللہ کا گھر ،ظاہر ہے یہ رت جگے اللہ رسول کے حکم وہدایت کے مطابق نہیں ہیں،اس لیے مسجد میں گپ بازی سے ثواب کے بجائے الٹے وبال کا امکان ہے، اس لیے اس طرح کی حرکتوں سے گریز کرنا چاہیے ،جس قدر شرح صد رکے ساتھ عبادت ہوسکے، کرے ،لوگوں کودکھانے کے لیے رات بھر جاگنا اورلہوولعب میں مبتلا رہنے کاکوئی فائدہ نہیں ہے، اس لیے اس سے اجتناب ضروری ہے ۔
بعض حضرات اکیس(۲۱) ،تئیس (۲۳)،پچیس(۲۵) اورانتیس(۲۹) تاریخ میں شب قدر کی تلاش کااہتمام نہیں کرتے ہیں،وہ صرف ستائیس کی رات کوہی شب قدر مانتے ہیں اوراس رات میں زیادہ اہتمام کرتے ہیں،یہ طریقہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر کی تلاش کاحکم دیاہے ،نہ کہ صرف ستائیس کو ،ان میں سے بعضے منطقی گفتگو کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے سورۃ القدر میں تین بار لیلۃ القدر کاذکر کیا ہے اورایک لیلۃ القدر میں نوحروف ہیں،اس طرح تینوں لیلۃ القدر کے حروف کے اعداد ستائیس ہوتے ہیں، اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ شب قدر ستائیس کی رات کو ہے،لیکن چوں کہ یہ منطق احادیث کے خلاف ہے اس لیے اس کی حیثیت ذہنی ورزش سے زیادہ کچھ نہیں،بعض احادیث میں بھی ستائیس کا ذکر آیاہے؛لیکن محدثین نے طاق راتوں میں تلاش کرنے کی روایت کو درست قرار دیاہے،بعض بزرگوں نے بھی ذکر کیا ہے کہ انہوں نے ستائیس کی شب کو شب قدر پایا،یہ ان کا مکاشفہ ہوسکتا ہے ؛لیکن ہم تو پابنداسی کے ہیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
بعض لوگ اعتکاف میں بیٹھ کر بھی اللہ کی عبادت سے زیادہ دنیا کی فکر میں لگے رہتے ہیں ،دوسرے معتکفین کے ساتھ  غیر ضروری گفتگو میں زیادہ وقت گذار دیتے ہیں ،یہ طرز عمل بھی غیر مناسب ہے، اس سے احتیاط برتنا چاہیے۔
تراویح کی نماز اس عشرے میں بھی پہلے دوعشرے کی طرح ہوتی ہے؛لیکن ہمارے یہاں ہندوستان میں تین روز،دس روز ،پندرہ روز میں عموماًتراویح میں قرآن کریم سن لیاجاتاہے اورحفاظ سنالیاکرتے ہیںاور یہ کہاجاتاہے کہ ہماری تراویح ختم ہوگئی ،یہ ایک غلط تعبیر ہے جو ہمارے یہاں رائج ہے،تراویح کی نماز چاند دیکھ کر شروع کرنا اورچاند دیکھ کر بند کرنا ہے ،تراویح میں پوراقرآن سن لینا ایک کام ہے اورپورے مہینے میں تراویح کی نماز پڑھنا دوسراکام ، اس کی وجہ سے جولوگ تراویح میں ایک قرآن سن لیتے ہیں چاہے وہ جتنے دن میںہو تراویح پڑھنے میں سستی کرنے لگتے ہیںاورسورہ تراویح پڑھنے کو زائد عمل سمجھتے ہیں ،یہ سوچ غیر شرعی ہے، تراویح کی نماز کااہتما م پورے مہینہ کرنا چاہیے اوراس میں کسی قسم کی کوتاہی کوراہ نہیں دینی چاہیے!موقع نہ ہوتوتنہا ہی پڑھ لے؛لیکن پڑھے ،تراویح کی نماز سے محرومی بدبختی کی بات ہے ۔
کئی لوگ کسی خفگی ،امام سے رنجش ،مقتدیوں سے چپقلش کی وجہ سے مسجد حاضر نہیں ہوتے اوراپنے دروازہ پر ہی تنہا نماز پڑھ لیتے ہیں ،یہ عام دنوں میں بھی غلط ہے ،خصوصاًرمضان المبارک جیسے مہینے میں مسجد میں حاضری سے محرومی بہت افسوس کی بات ہے،ایسے لوگوں کواپنے اعمال کاجائزہ لیناچاہیے کہ جب سارے لوگ مسجد کارخ کرتے ہیں ،اللہ نے کس بدعملی یابے عملی کی وجہ سے رمضان المبارک میں اپنے گھر سے اسے دورکررکھاہے۔
رمضان کے اخیر عشرہ میں ہی عموماًعیدگاہ جانے سے پہلے تک صدقہ فطرمسلمان نکالتے ہیں،یہ بھی رمضان المبارک کی خاص عبادت ہے،اس سے غریبوں کے لیے نان نفقہ کاانتظام ہوجاتاہے،اس رقم کا استعمال اپنے غریب رشتہ داروں ،پاس پڑوس کے محتاجان اورضرورت مندوں کے لیے کرنا چاہیے،کیوں کہ یہ لوگ اس رقم کے زیادہ مستحق ہیں،آپ کے تعاون سے ان کی عید بھی اچھی گذرجائے گی اور اللہ کی میزبانی کایہ لوگ بھی فائدہ اٹھاسکیں گے،فقہاء کی ایک تعبیر انفع للفقرائکی بھی ہے،یعنی وہ چیزجس سے فقراء کو زیادہ فائدہ پہونچے،صدقۃ الفطر عام طور پر نصف صاع گیہوں یااس کی قیمت جو مقامی ہوتی ہے کے حساب سے نکالاجاتاہے،یہ رقم کم ازکم پچاس روپے بنتی ہے؛لیکن اگرکھجور،کشمش وغیرہ سے فطرہ نکالیں گے تو ان اجناس کے گراں ہونے کی وجہ سے قیمت بڑھ جائے گی اوران کی مقدار بھی ایک صاع ہے،اس لیے ہراعتبار سے یہ فقراء کے لیے زیادہ نفع بخش ہے،اس لیے جو لوگ استطاعت رکھتے ہوں وہ دوسری اجناس سے بھی فطرہ نکالیںتو بہتر ہوگا،یہ ایک مشورہ ہے ،ہم کسی پر لازم نہیں کرسکتے کہ وہ فلاں چیز سے ہی فطرہ نکالے،جب شریعت نے اختیار دیاہے تو ہمیںکیا حق پہونچتاہے کہ کسی ایک چیز کو خاص کرلیں۔
اس عشرہ کا اختتام عیدالفطر کے چاند دیکھنے پر ہوتاہے،عید کا چاند دیکھنے کے بعدرمضان کے رخصت ہونے کی حسرت عیدکی خوشی پر غالب آجاتی ہے،اورایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جس طرح شیطان قیدوبند سے آزاد ہوا ،اسی طرح ہم بھی آزاد ہوگئے ،پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں اوراس رات کوقسم قسم کے خرافات سے آلودہ کیاجاتاہے،نوجوانوں کے لیے یہ رات بھی رت جگّے کی ہوجاتی ہے،حالانکہ حدیث میں اس رات کانام لیلۃ لجائزہ ،انعام والی رات ہے،مہینے بھرجوعبادت کی گئی اس کا انعام اب ملنے والا ہے،ابھی انعام ملا نہیں کہ تماشے شروع ہوگئے،اچھے اچھے لوگوں کودیکھا کہ وہ عید کی صبح فجر کی نماز سے غائب تھے،حالانکہ فجر کی نماز توفرض ہے ،پہلے ہی دن رمضان کااثرختم ہوگیا،حالانکہ رمضان تربیت کامہینہ تھا اوراس ایک ماہ کی تربیت کااثر گیارہ ماہ تک باقی رہناتھا،زندگی اوراعمال میں تبدیلی آنی تھی،لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا،اس کا مطلب ہے کہ ہمارے روزے اورعبادتیں اس پائے کی نہیں ہوپائیں جو شریعت کومطلوب ہے اورجس کے نتیجے میں تقویٰ کی کیفیت پیداہوتی ہے،ذراسوچیے!اوراپنا محاسبہ کیجئے!شاید اس محاسبہ کے بعد ہم اپنے اندر تبدیلی پیداکرسکیں۔

تقسیم زکوٰۃ - چند گذارشات

تقسیم زکوٰۃ - چند گذارشات 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
================================
 زکوٰۃ مالداروں پر فرض ہے اور اسلام میں مالداری کا تصور حوائج اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اس کی قیمت سے زیادہ مال کا ملکیت میں ہونا ہے، وجوب زکوٰۃ کے لیے اس زائد مال پر سال بھی گذر نا چاہیے، یہ سال تمام مسلمانوں کے مال پر ایک ساتھ تو گذر نہیں سکتا،اس لیے زکوٰۃ کے لیے سب کا مالی سال الگ الگ ہوتا ہے، یہ الگ سی بات ہے کہ بیش تر لوگ وجوب زکوٰۃ کے باوجود ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں اور رمضان المبارک کو اپنا مالی سال ادائیگی زکوٰۃ کے لیے سمجھتے ہیں، اس موقع سے کثرت سے زکوٰۃ کی تقسیم ہوتی ہے ۔
 زکوٰۃ کن لوگوں کو دینی ہے اس کے مدات قرآن کریم میں مذکور ہیں، فقرائ، مساکین، زکوٰۃ جمع کرنے والے عاملوں اور اس سے متعلق کام کرنے والے، تالیف قلب ،غلام کو آزاد کرانے ، قرض کی ادائیگی ، اللہ کے راستے میں جہاد کرنے اور مسافروں کے ساتھ نا گہانی حادثات کے موقع سے زکوٰۃ کی رقم دی جا سکتی ہے ۔
یہ مدات اللہ کی جانب سے مقرر ہیں، اس لیے کسی بھی حال میں کسی کے بھی ذریعہ اس کا سقوط اور من مانے طور پر استعمال غیر شرعی اور موجب عذاب ہے، اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے، یہ تو ہو سکتا ہے کہ بعض مدات پر خرچ کی ضرورت نہ باقی رہے تو اس مد میں ادائیگی نہ کی جائے، جیسا کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے عہد میں مؤلفۃ القلوب پر خرچ کرنا موقوف کر دیا تھا، کیوں کہ ضرورت باقی نہیں رہ گئی تھی ، اللہ رب العزت نے اسلام کو سر بلندی عطا کر دی تھی۔
 غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے مصارف وہ ہیں جن میں مسلمانوں کی شخصی ضروریات ، اجتماعی حفاظت اور حقیقی یا امکانی شرور وفتن کے دفاع کو ملحوظ رکھا گیا ہے، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ نے فقر اور سفر کو تمام مدات کا خلاصہ بتایا ہے، بعض مدات میں ان دنوں بغیر کسی دلیل کے تیزی سے لوگ توسع کیے جا رہے ہیں، سارے لوگوں کی نگاہ زکوٰۃ پر ہے کتابیں بھی اس سے چھپوائی جا رہی ہیں، چلت پھر ت کا کام بھی اسی مد سے کرایا جا رہا ہے ، ایک بڑی رقم زکوٰۃ کی غرباء کو خود کفیل بنانے اور امپاورمنٹ کے نام پر صرف کی جا رہی ہے ، بعضوں کی تجویز تو یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ کی رقم جمع کرکے کار خانہ کھول دو اور غیر مستطیع کو ملازمت سے لگادو، وہ سب خود کفیل ہو جائیں گے ،یہ غیر اسلامی تصور تیزی سے مسلمانوں میں پروان چڑھ رہا ہے، اتنا سرمایہ انفرادی طور پر جمع کرنا آسان کام نہیں ، اس لیے اجتماعی نظام زکوٰۃ کی اہمیت پر سمینار ، سمپوزیم کرکے ماحول کو سازگار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، یہاں بھی پریشانی یہ ہے کہ اجتماعی نظام زکوٰۃ کے قیام کے نام پر چند افراد مل کر ایک تنظیم بنا لیتے ہیں اور کام شروع کر دیتے ہیں، حالاں کہ اجتماعی نظام بغیر امیر کی اجازت کے قائم نہیں ہو سکتا، ہندوستان میں امارت شرعیہ مختلف صوبوں میں قائم ہے، وہاں کے امیر کی اجازت سے اجتماعی نظام قائم ہو سکتا ہے ، چونکہ مسلمانوں میں مسلکی اور تنظیمی بنیادوں پر بھی جماعت جمعیت اور امارت قائم ہے ، اس لیے جو جس جماعت سے متعلق ہے کم سے کم اس جماعت کے امیر کی اجازت تو لے لے، بیت المال کا قیام یقینا شرعی ضرورت ہے، لیکن اس کے قیام کے لیے بھی کچھ شرائط ہیں، ان کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، ورنہ ہم ایک شرعی کام غیر شرعی انداز میں کرنے کے مرتکب ہوں گے ۔
امارت شرعیہ نے ہر دور میں زکوٰۃ کے اجتماعی نظام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا ہے ، اسی لیے مولانا ابو المحاسن محمد سجادؒ ، بانی امارت شرعیہ نے مستحقین تک بیت المال کے ذریعہ زکوٰۃ کی رقم پہونچانے کا تین طریقہ اختیار کیا تھا، ایک یہ کہ امارت شرعیہ کے نقباء اور تنظیم کے ذمہ داران زکوٰۃ وصول کرکے اسی علاقہ کے غرباء پر تقسیم کرکے حساب بیت المال میں داخل کیا کریں، یہ در اصل مالداروں سے لے کر اسی علاقہ پر خرچ کرنے کے اصول پر مشتمل ہے، تؤخذ من اغنیاء ھم وترد علی فقراء ھم کی عملی شکل ۔
 دوسرا طریقہ یہ اختیار کیا تھا کہ زکوٰۃ کی رقم وصول کر بیت المال کو بھیج دی جائے اور ساتھ میں ضرورت مندوں کی ایک فہرست بھی مرکزی دفتر کو دی جائے تاکہ وہاں کی رقم سے ہی غرباء کی مدد اس فہرست کے مطابق کی جائے۔
 تیسرا طریقہ مدارس اسلامیہ کے لیے زکوٰۃ کی وصولی کا تھا، یہ بھی ضروری کام تھا، اس لیے امارت شرعیہ سے مدارس اسلامیہ کو تصدیق نامہ جاری کیے جاتے ہیں، جو اصلاً زکوٰۃ وصولی کی اجازت ہے، یہ کام بھی حضرت امیر شریعت کے حکم سے ہوتا ہے ، اس لیے یہ بھی اجتماعی طور پر زکوٰۃ کے استعمال کی ایک شکل ہے۔
 اس موقع سے مدارس کے سفراء بڑی تعداد میں زکوٰۃ کی وصولی کے لیے نکلتے ہیں، اس کام کے لیے ان کے پاس مختلف تنظیموں کے تصدیق نامے ہوتے ہیں، یہ ان طلبہ کے لیے زکوٰۃ کی رقم اکھٹی کرتے ہیں جو ان کے یہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور غیر مستطیع ہوتے ہیں، اصلا یہ مہتمم ، ناظم صاحبان کے واسطے سے طلبہ کے وکیل ہوتے ہیں، ان کو دینے سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا ثواب بھی ملتا ہے ، اور اشاعت دین کا بھی۔
 آج کل بہت سارے مدارس رسید پر ہی ہوتے ہیں، زکوٰۃ کی رقم دیتے وقت اس کی تحقیق کرلینی چاہیے، اس تحقیق کی تکمیل قابل ذکر اداروں کے ذریعہ دیے گیے تصدیق ناموں سے بھی ہوجاتی ہے، امراء کے یہاں ایک رواج یہ بھی چل پڑا ہے کہ وہ سابقہ ریکارڈ دیکھ کر رقم کی ادائیگی کرتے ہیں، اور اس طرح وہ بار بار کی تحقیق سے بچ جاتے ہیں، جن مدارس کے پاس پہلے کا رکارڈ نہیں ہوتا، انہیں یہ کہہ کر واپس کر دیتے ہیں کہ ’’ہم نئے مدرسے کو نہیں دیتے‘‘، یہ اچھی بات نہیں ہے ، ہو سکتا ہے وہ مدرسہ بہت معیاری ہو ،کمی صرف یہ ہے کہ آپ کے پاس پہلے نہیں پہونچ پایا تھا، آپ کو تحقیق کا تو حق ہے ، دینے کی گنجائش نہیں ہے تو معذرت اور معافی بھی ایک شکل ہے ، لیکن یہ جملہ ٹھیک نہیں ہے کہ ہم ’’نئے کو نہیں دیتے‘‘ اس لیے کہ اس جملہ کے بدلہ میں اگر اللہ نے آپ کو کچھ نئے دینے کا سلسلہ روک دیا تو آپ کی ساری امیری کچھ ہی دن میں غریبی میں بدل جائے گی۔
 محصلین کے ساتھ امراء کا رویہ عموما ہتک آمیز رہتا ہے ، اس سے بھی اجتناب ضروری ہے ، اکرام مسلم شرعی چیز ہے اور مسلمان بھی ایسا جو عالم حافظ قاری ہو اور اپنے لیے نہیں، دینی تعلیم کے فروغ اور مہمانان رسول کی خدمت کے لیے اس کام کے لیے آپ تک پہونچا ہو ، ایسوں کی توہین اللہ رب العزت کی ناراضگی کا سبب بن جائے تو کچھ بعید نہیں۔
 یقینا محصلین بھی الگ الگ نو عیت کے ہوتے ہیں، سب متقی، پر ہیز گار اور شریعت کے پابند اس قدر نہیں ہوتے جیسا ہونا چاہیے، بعضے تو رکارڈ کو ادھر اُدھر کرنے اور جھوٹ بولنے سے بھی پرہیز نہیں کرتے،ایسے لوگوں کو اپنے اندر تبدیلی لانی چاہیے، محصلین میں ایک بات قدر مشترک ہونی چاہیے کہ وہ اس کام کو عزت نفس کے ساتھ کریں ، گڑگڑانا ، کاسہ لیسی کرنا ، خوشامد کرنا یہ علماء کے شایان شان نہیں ہے، ان کو ’’جو دے اس کا بھی بھلا اور نہ دے اس کا بھی بھلا‘‘ کے فارمولے پر عمل کرنا چاہیے،ا س سے کام میں برکت بھی ہوتی ہے اور عالمانہ کردار اور داعیانہ وقار بھی محفوظ رہتا ہے ۔
 زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے وقت اپنے اعزواقرباء اور اپنے قرب وجوار کے غرباء ومساکین کا بھی خیال رکھیں ، پیشہ وارانہ لوگوں کی بات میں نہیں کرتا، ایسے لوگ جو روزی حاصل نہیں کر پا رہے ہیں اور ہاتھ پھیلا نے کی ذلت سے بچنا بھی چاہتے ہیں، ان کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ انجان لوگ انہیں مالدار سمجھتے ہیں، حالاں کہ وہ غریب ہوتے ہیں، لپٹ کر مانگنا ان کا شیوہ نہیں ہوتا، ایسے لوگ ہماری توجہ کے زیادہ مستحق ہیں، اگر آپ انہیں مستحق زکوٰۃ سمجھتے ہیں تو بغیر بتائے بھی ان پر یہ رقم خرچ کر سکتے ہیں، زکوٰۃ آپ کی ادا ہوجائے گی۔

بدھ, مارچ 27, 2024

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں گریجویشن تقریب کا انعقاد

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول میں گریجویشن تقریب کا انعقاد 
Urduduniyanews72 
تسمیہ جونیئر ہائی سکول میں تعلیمی سیشن کے اختتام اور رزلٹ کی تقسیم کے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔اس موقع پر اسکول کے مینجر سید اعجاز احمد اور پرنسپل جاوید مظہر نے مہمان خصوصی محترمہ میتری رستوگی (ضلع اقلیتی فلاح و بہبودآفیسر مظفر نگر) اور مہمان ذی وقار عالی جناب امیر اعظم خان (فاؤنڈر پریزیڈنٹ ٹیکس بار ایسوسییشن مظفر نگر) کا استقبال پھولوں کا گلدستہ اور نشانیادگار پیش کر کے کیا۔ 
پروگرام کا اغاز سارہ اور زویا کے نعت نبوی سے ہوا اپنی استقبالیہ تقریر میں اسکول کے پرنسپل جاوید مظہر نے طلبہ و طالبات کو مبارکباد پیش کی اور مستقبل میں مزید محنت کرنے کی ترغیب دی۔
اس دوران تعلیمی سال ۲۰۲۳- اور ۲۰۲۴ میں درجات میں اول دوم سوم ائے طلبہ و طالبات ایل کے جی سے ائرہ قریشی، عمرہ دانش اوّل ،ولیہ دوم ،انابیہ انصاری سوم، یو کے جی سے افرا قریشی اول، عبدالحد دوم، عاتکہ سوم، درجہ اول سے فاطمہ اول، فیضان دوم ،ابراہ فاطمہ سوم، درجہ دوم سے نور المدیہ اول، شہباز دوم، زینب منصوری سوم، درجہ سوم سے فاطمہ اول، حمیرہ دوم، سمائراسوم ،درجہ چہارم سے زویا اول، وجاہت اللہ دوم، ام حبیبہ ،درجہ پنجم سے شیرین اول ،عائشہ دوم، آمنہ صدیقی سوم، درجہ ششم بی  ارحان اول، محمد شعیب دوم، محمد شادان، درجہ ششم جی سے اقرا اول، نبیا دوم، فبیہا انصاری سوم، درجہ ہفتم بی سے ایان اول ،عبدالرحمن دوم، وارث سوم ، درجہ ہفتم جی سے اقصی اول، نشرا انصاری دوم، ام ایمن سوم، درجہ بی سے ارسلا ن اول، محمد زکی دوم، ریحان بیگ سوم ،درجہ ہشتم جی سے اقصی اول، شفاناز دوم ،اور اقراسوم کو انعامات سے نوازا گیا۔
اپنے خطاب میں عالی جناب امیر اعظم خان صاحب نے طلبہ و طالبات کو کہا اج ہم اس شاندار تقریب کے موقع پر ایک ساتھ ہیں میں اپنے دل میں فخر محسوس کر رہا ہوں اپ سب نے اپنی تعلیمی سفر میں بہت سی مشکلات پر قابو پایا ہے اور آج اس مقام پر پہنچنے کے بعد میں اپ کی کامیابی کو دیکھ کر بہت خوش ہوں میں اپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مسلسل جدوجہد اور کوشش کے ساتھ کام کریں اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ہمیں ہر چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہمیں کبھی نا امید نہیں ہونا چاہیے صبر اور توجہ سے کام کر کے ہم کامیابی حاصل کر سکتے ہیں اپ سب کے لیے نیک خواہشات اور اپ کا مستقبل روشن اور تابناک ہو۔
مہمان خصوصی محترمہ میتری  رستوگی نے اپنے خطاب میں کہا آج میں یہاں اپ سب کے سامنے فخر اور مسرت کے ساتھ موجود ہوں یہ تقریب ہم سب کے لیے خاص موقع ہے جس میں ہم اپنے طلبہ و طالبات کی محنت اور کامیابی کا اعتراف کر رہے ہیں یہاں انے کی خوشی ہمیں ان نو نہالوں کی کامیابیاں منانے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔جو ہمارے معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے آج کی تقریب میں میری اولین کامیابی آپ کے روشن مستقبل کے لیے وقف ہے میری  آپ سب سے گزارش ہے کہ اپنی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے محنت اور لگن کے ساتھ کام کریں زندگی کے ہر لمحے کو پیغام اور سبق سمجھیں اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے پر عزم رہیں آپ سب اپنے روشن مستقبل کے لیے دل سے مبارکباد قبول فرمائیں۔
اسکول کے مینجر سید اعجاز احمد نے بچوں کو زندگی کے تمام مضامین اور اخلاقی اقدار کے بارے میں بنیادی معلومات کے حصول کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
اختتام میں اسکول معلمہ نازیہ پروین نے سب کا شکریہ ادا کیا اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں تمام اسٹاف مولانا شوکت، محمد پرویز، محمد 
شاہرخ، زبیر احمد،مرسلین خان، لائقہ عثمانی، عصمت ارا، ریشما تبسّم ،درخشاں پروین، روقائیہ بانو،نازیہ پروین، سمن خان ،شمائلہ، ثانیہ مریم، وغیرہ کا تعاون رہا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...