Powered By Blogger

بدھ, جون 12, 2024

عید الاضحٰی کا پیغام

عید الاضحٰی کا پیغام 
مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی 
استاذ چک غلام الدین ہائی اسکول ،ویشالی بہار 
موبائل نمبر 7909098319 
Urduduniyanews72
عید الاضحٰی یا عید قرباں وہ ایام ہیں جن میں دنیا بھر کے مسلمان ماہ ذوالحجہ میں پورے جوش وخروش کے ساتھ مناتے ہیں، احکامات الہیٰ کی بنا پر اپنی جانب سے اللہ  کی راہ میں  قربانی کرکے بندگی کے تقاضے پوری کرتے ہیں ۔یہ وہ عمل ذبیحی ہے جس سے اللہ  تعالیٰ کاقرب حاصل کیا  جاتاہے ۔تخلیق ِانسانیت کے آغازہی  سے  قربانی کا جذبہ کار فرما ہے ۔ قرآن   مجید میں سیدنا ابو البشر حضرت آدم  علیہ السلام کے  دو بیٹوں کی قربانی  کا  واقعہ موجود ہے۔اور قربانی جد الانبیاء سیدنا حضرت ابراہیم   کی عظیم ترین سنت ہے  ۔یہ عمل اللہ تعالیٰ  کواتنا پسند آیا  کہ اس   عمل کوقیامت تک کےلیے  مسلمانوں کے لیے  ضروری ولازمی قرار دیا گیا ۔ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالی کے جلیل القدر پیغمبر گزرے ہیں ۔قرآن مجید میں صراحتاً سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اور ان کے واقعات کا تذکرہ موجود ہے ۔قرآن مجید کی ایک سورہ ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے نام سے موسوم ہے ۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ایک ایسے ماحول میں اپنی آنکھیں کھولی جو شرک، بت پرستی اور خرافات میں غرق، اور جس گھر میں جنم لیا وہ بھی کفر و شرک، بت پرستی اور خرافات کا مسکن وملجا تھا ۔
لیکن سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے احساسات وجذبات میں رب العزت کی محبت پیوست تھی، وہ رب کی تلاش و جستجو میں کوشاں رہتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے ایک واقعہ کو قرآن مجید نے بڑے خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام چاند ستارے سورج میں رب کو تلاش کر رہے تھے، لیکن ان تمام چیزوں کو نکلتے اور ڈوبتے دیکھا تو سمجھ گئے کہ رب کی ذات اقدس وہ ہے جو کبھی ڈوب نہیں سکتی، کوئی طاقت اسے عاجز نہیں کرسکتی، وہ رب تنہا، یکتا، اور طاقتور ہے ۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر جب بت پرستی کا باطل ہونا اور اللہ کی وحدانیت کا آشکار ہوا تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے والد آزر کو دعوت اسلام دی، اس کے بعد عوام کے سامنے اس دعوت کو عام کیا اور پھر بادشاہ وقت نمرود سےمناظرہ کر کے اسے لاجواب کردیا ۔ اس کے باجود قوم قبولِ حق سے منحرف رہی حتیٰ کہ بادشاہ نے انہیں آگ میں جلانے کا حکم صادر کیا مگر اللہ نے آگ کو ابراہیم علیہ السلام کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی کا سامان بنا دیا اور دشمن اپنے ناپاک اردادوں کے ساتھ ذلیل ورسوار ہوئے، اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کامیاب کیا۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا دل اللہ رب العزت کی محبت سے لبریز تھا، یقیناً اللہ رب العزت کی ذات بھی آپ سے بے پناہ محبت کرتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ آپ کے کردار عمل کو اللہ رب العزت نے قرآن عظیم میں نقل کرکے انسانوں کے لئے ایک نمونہ بنا دیا، عید الاضحٰی رب العزت کی محبت و اطاعت کی ایک اہم تاریخ ہے ۔

عید الاضحٰی در اصل سنت ابراہیمی ہے، یہ ہمیں محبت، اخوت، بھائی چارگی، ایثار وقربانی، وجذبہء ایمانی کا درس دیتا ہے، اس کی تاریخ در اصل ایک عظیم تاریخ ہے، اور وہ یہ کہ ایک عظیم اور بوڑھا باپ حکم خداوندی پر اپنے پیارے، لاڈلے، چہیتے،جگر کا پارہ، ہر دل عزیز، فرزند کے حلق پر چھری چلا رہا ہے، قربانی اس قوت ایمانی کا نام ہے جس میں بندہ اپنے رب کے سامنے اپنی اطاعت وبندگی کا اظہار اس طرح کرتا ہے کہ،، 
 اِنَّ صَلَاتِىۡ وَنُسُكِىۡ وَ مَحۡيَاىَ وَمَمَاتِىۡ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ ۞
 میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
(سورہ انعام آیت 162) 
یقیناً ہماری عبادت وریاضت، ہماری بندگی، ہماری زندگی وموت، یہ سب محض آپ کی رضاو خوشنودی کے لئے ہے، ہم خالص آپ کے بندے ہیں، اور آپ کی ہی بندگی کرتے ہیں، ہمارا غم، ہماری خوشی، ہماری زندگی یہ سب محض آپ کی رضا کے لئے ہے، قربانی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ہم خالص اللہ کے بندے بن کر رہیں، اور وقت پڑنے پر اپنی جان ومال کی قربانی پیش کرنے میں ذرہ برابر بھی کوئی ہچکچاہٹ ہمیں محسوس نہ ہونے پائے ،یاد کریں اس وقت کو جبکہ ایک عظیم باپ نے اپنے عظیم بیٹے سے دریافت کی کہ  
يٰبُنَىَّ اِنِّىۡۤ اَرٰى فِى الۡمَنَامِ اَنِّىۡۤ اَذۡبَحُكَ فَانْظُرۡ مَاذَا تَرٰى‌ؕ قَالَ يٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ‌ سَتَجِدُنِىۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيۡنَ ۞
اے میرے بیٹے ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کررہا ہوں ‘ اب تم سوچ کر بتائو تمہاری کیا رائے ہے ؟ اس (بیٹے) نے کہا اے ابان جان ! آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے ‘ آپ انشاء اللہ ! مجھے عنقریب صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے
(سورہ الصافات آیت 102)
  یقیناً رب العالمین تم سے تمہاری قربانی کا تقاضہ کر رہے ہیں ، تمہاری اس سلسلے میں کیا رائے ہے، باپ کے عظیم بیٹے نے بہترین جواب دیا کہ آپ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ کریں، ان شاء اللہ آپ ہمیں صابر وشاکر میں پائیں گے، اس جواب نے پوری کائنات کو حیران و ششدر کرکے سکتے میں ڈال دیا۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام ضعیفی میں تھے، اپنی اس اولاد سے بے پناہ محبت تھی، لیکن اس محبت کو اللہ کی اطاعت وبندگی پر ترجیح نہیں دی، 
سیدنا ابراہیم واسمٰعیل علیھما السلام نے اللہ کے اس حکم کے بعد فوراً اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا، کسی طرح کی تاویلات نہیں پیش کی کہ اللہ کا کوئی دوسرا منشا ہے، آپ کے اس کردار عمل نے پوری انسانیت کو شعور بندگی سکھایا، اور یہ درس دیا کہ جب حکم خداوندی آجائے تو پھر کیوں، کس لئے، کب، کس طرح، ان باتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اور عشق کا بھی یہی تقاضا ہے کہ حکم ملے سر تسلیم خم ہوجاؤ، مسلمان بھی اسی کا نام ہے کہ رب کائنات کے سامنے سر تسلیم خم ہوجانا،قربانی صرف جانور کی گردن پر چھری چلانے کا نام نہیں ہے، بلکہ قربانی کے ذریعہ انسان کے اندر زہدوتقوی اور خشئت الہی پیدا ہوتا ہے، کیوں کہ صرف جانور کے گردن پر چھری نہیں چلتی بلکہ قربانی میں اپنی انا، گھمنڈ، تکبر ،فخر، ریا کاری، سب کو قربان کرکے خالص اللہ کا بندہ بن کر زندگی گزارنے کا بندہ عزم کرتا ہے،سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کا یہ پورا واقعہ جو درحقیقت قربانی کے عمل کی بنیاد ہے روز اول سے امت کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ تمہارے دلوں میں یہ احساس یہ علم یہ معرفت اور یہ فکر پیدا ہوجائے کہ اللہ تعالی کا حکم ہر چیز پر مقدم ہے۔تمہاری تمام تر کامیابیوں کے راز اسی میں پنہاں ہیں کہ تم اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردو چاہے تمہاری عقل قبول کرے نہ کرے، تمہارے سماج کے خلاف معلوم ہو رہا ہو، تمہاری طبیعت اس کو پورا کرنے میں بوجھ محسوس کر رہی ہو۔
قربانی کا سارا فلسفہ یہی ہے اس لئے کہ قربانی کے معنی ہیں"اللہ کا تقرب حاصل کرنا ہے" لفظ" قربانی" قربان سے نکلا ہے اور لفظ "قربان" قرب سے بنا ہے یہ قربانی جہاں فی نفسہ ایک عظیم عبادت وبندگی اور شعاراسلام ہے وہیں یہ قربانی امت مسلمہ کو عظیم الشان سبق بھی دیتا ہے کہ یہ امت اپنے آپ کو کامل مسلمان بنائے سراسر اتباع اور اطاعت کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرے اور زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کی صحیح اور حقیقی روح "جذبہ اتباع" کے ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھ لے۔قربانی کی حقیقت اور اس کے پیچھے اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ دل میں جس چیز کی محبت اور طلب ہو وہی اللہ کی خاطر قربان کر دی جائے لیکن انسان تو صرف اپنی نفسانی خواہشات کی طلب اور اپنے خوابوں کی تکمیل میں دن رات کمربستہ رہتا ہے۔ وہ یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کیا ہے، وہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ انسان سوچتا ہے تو محض یہ کہ وہ اپنے خواب کیسے پورے کرے، اپنی خواہشات کیسے حاصل کرے، مال و دولت کیسے کمائے، معاشرے میں مقام و مرتبہ کیسے بنائے۔ نہیں سوچتا تو بس یہ کہ اللہ کا قرب کیسے حاصل کیا جائے، گناہوں سے کیسے بچا جائے، اپنے نفس کی اصلاح کیسے کی جائے۔ وہ اپنی آرزوؤں کو پورا کرنے کے لیے ہر شے قربان کر دیتا ہے اگر قربانی نہیں دیتا تو محض اپنے نفس کی کیونکہ وہ اپنے نفس کی تسکین کی خاطر تو یہ سب کچھ کر رہا ہوتا ہے۔لیکن انسان تب تک خیر نہیں پا سکتا جب تک اپنے نفس کی قربانی نہیں دیتا، قربانی کا اصل تقاضا اور اس کا اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ جس چیز سے تمہیں سب سے زیادہ محبت وانسیت اور لگاؤ ہے تمہارے دل میں اس چیز کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا حوصلہ اور جذبہ ہمہ وقت رہے، کیوں کہ اس وقت تک بندے کی بندگی مقبول نہیں جب تک وہ اپنی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب اللہ اور اس کی نازل کردہ احکامات کو سمجھے، اور اس پر چلتا رہے، قربانی بھی اسی بندگی کی ایک کڑی ہے، عید قرباں جہاں ہمیں آداب بندگی، سلیقۂ بندگی سکھاتا ہے وہیں ہمیں ایک اہم پیغام یہ دیتا ہے کہ تمہاری زندگی، تمہارا سب کچھ در اصل یہ اللہ کا دی ہوئی ایک عظیم نعمت ہے، اور ان نعمتوں کا شکر یہ ہے کہ ان کے حقوق کی بھر پور ادائیگی ہونی چاہیے، جب اللہ کا حکم آجائے تو اس عمل کے ارتکاب میں کسی بھی طرح سے غور وفکر یا سستی نہیں ہونی چاہیے، بلکہ فوری طور پر اسے کرہی دینا چاہیے ۔
اللہ ہم سب عید قرباں کے صحیح معانی ومفاہم سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم

منگل, جون 11, 2024

جے این یو داخلہ امتحان میں نتیشور کالج مظفرپور کے طلبا کی نمایاں کامیابی

جے این یو داخلہ امتحان میں نتیشور کالج مظفرپور کے طلبا کی نمایاں کامیابی
طلبا کی کامیابی شعبۂ اردو اور کالج کی بھی کامیابی ہے: کامران غنی صبا
Urduduniyanews72
مظفرپور11 جون (پریس ریلیز)
ملک کی مایہ ناز یونیورسٹی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے داخلہ امتحان میں شعبۂ اردو نتیشور کالج، مظفرپور کے چار طلبا نے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان طلبا میں سنجیدہ خاتون، رابعہ خاتون، اسلم رحمانی اور رقیہ خاتون کے نام شامل ہیں۔ انہیں بالترتیب تیسری، پندرھویں، سترھویں اور انیسویں رینک حاصل ہوئی ہے۔ صدر شعبۂ اردو کامران غنی صباؔ نے بتایا کہ ان چاروں طلبا نے محنت اور ایمانداری کے ساتھ نہ صرف پابندی کے ساتھ کلاسز کیں بلکہ نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ یہ سارے طلبا مظفرپور کے دور دراز گائوں سے آتے ہیں۔ کالج آمد و رفت میں انہیں اچھا خاصا وقت لگتا ہے۔ اس کے باوجود انھوں نے پابندی کے ساتھ کلاسز کیں، نصابی و غیر نصابی کتابیں خریدیں اور سنجیدگی کے ساتھ نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ وقتاً فوقتاً ان کے مضامین اور تخلیقات ملک کے مقتدر اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہے۔ کامران غنی صبا نے کہا کہ مظفرپور کے نسبتاً چھوٹے کالج سے ایک ساتھ چار طلبا کا جے این یو داخلہ امتحان کوالیفائی کرنا انتہائی خوش آئند اور امید افزا ہے۔ انھوں نے کہا کہ شعبۂ اردو کے طلبا کی کامیابی یہ ثابت کرتی ہے کہ نیک نیتی اور بلند ہمتی کے ساتھ کی گئی محنت رائگاں نہیں جاتی ہے۔شعبۂ اردو کے طلبا کی نمایاں کامیابی پر کالج کے پرنسپل پروفیسر منوج کمار، اساتذہ،پروفیسر بدو شیکھر سنگھ، پروفیسر نکھل رنجن پرکاش،ڈاکٹر نوا شرما، ڈاکٹر ابھے نندا شریواستو، ڈاکٹر آریہ پریا، ڈاکٹر سومیہ سرکار،ڈاکٹر روی رنجن ، ڈاکٹر ششی ونسل، ڈاکٹر راکھی کماری، ڈاکٹر اندرانی رائے، ڈاکٹر بے بی کماری، ڈاکٹر رنبیر کمار ،ڈاکٹرحسین دلشی،ڈاکٹر رادھا رانی،کے علاوہ 
مشتاق احمد نوری، صفدر امام قادری، ڈاکٹر اقبال حسن آزاد،ڈاکٹر ریحان غنی،ڈاکٹر ابوذر کمال الدین، ڈاکٹر جلال اصغر فریدی، آفتاب عالم، انجنیئر ظفر اعظم، فہد زماں، اکبر اعظم صدیقی، اعجاز احمد، ریاض خان، سورج کمار سنگھ، احتشام رحمانی، کامران رحمانی، ریاض نصرول، امن نصرول، مولانا سعید الرحمن سلفی، مولانا شمشاد سنابلی، عباس گڈو، محمد غفران، نور جمشیدپوری، منصور قاسمی،انور آفاقی، ایمل ہاشمی،شہاب الدین احمد(قطر)،ڈاکٹرعاطف ربانی،ڈاکٹر حفظ الرحمن،نظر الہدی قاسمی،ڈاکٹر امتیاز،محمد رفیع، اکبر اعظم صدیق،ڈاکٹر ایس ایم باقر، انور حسین، منیب مظفرپوری،جاوید قیصر،تابش قمر، انور حسین، محمد امیر اللہ،عبدالرحیم،ضیاء العظیم، مظہر وسطوی، امام الدین امام، محمد آفتاب صابری، آفتاب رشک مصباحی،شارق خاں،ڈاکٹر فاروق احمد قاسمی،انظار احمد صادق،نایاب حسن،خرم ملک وغیرہ نے مبارکباد پیش کی ہے۔

منگل, مئی 28, 2024

بہار میں ووٹنگ کا گرتا تناسب

بہار میں ووٹنگ کا گرتا تناسب 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

ہندوستان کا شمار دنیا کے بڑے جمہوری ملک میں ہوتا ہے ، یہاں کے انتخاب کودنیا بھر میں دکھانے کے لیے مختلف ملکوں سے پرنٹ میڈیا الکٹرونک میڈیا کے لوگ ہوتے ہیں، ان کی حیثیت صرف صحافی کی نہیں ہوتی بلکہ وہ بڑی حد تک انتخاب کے مشاہد ہوتے ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ ووٹ دینے کا تناسب اور فی صد کیا رہا ،اس کام کے لیے بتیس ملکوں کے ستر صحافی ان دنوں ہندوستان میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں، ابھی تک چار دور کا انتخاب ہو چکا ہے ، اس میں ووٹوں کا تناسب کافی کم پایا گیا ، حالاں کہ انتخابی کمیشن ، ملی تنظیمیں ، ذرائع ابلاغ، مساجد کے ائمہ ودانشور اپنی اپنی سطح سے ووٹروں میں بیداری لانے کی مہم چلا رہے ہیں،بعض تنظیموں کے ارکان گھر گھر دستک دے کر ووٹ دینے کی اپیل کر رہے ہیں، بعضوں کے ذریعہ زوم پر آن لائن میٹنگیں چل رہی ہیں، اشتہارات کے ذریعہ انہیں متوجہ کیا جا رہاہے، لیکن لوگ ووٹ دینے کے لیے گھر سے باہر نکل نہیں رہے ہیں۔ 19؍ اپریل کو بہار میں چار سیٹوں کے لیے اور 26؍ اپریل کو پانچ سیٹوں کے لیے ووٹ ڈالے گیے گذشتہ انتخاب کے مقابلے 19؍ اپریل والے دن 4.21فی صد لوگوں نے کم اپنا ووٹ ڈالا جبکہ 26؍ اپریل میں گذشتہ کے مقابلہ 3.47فی صد کم ووٹ ڈالے جا سکے۔آخر کے دو دور میں ووٹوں کا تناسب قدرے بڑھا، لیکن وہ ساٹھ فیصد کو عبور نہیں کر سکا، 13؍ مئی کو ہونے والے انتخاب میں زیادہ سے زیادہ سنتاون (57)فیصد ووٹنگ ہوئی، ایک ہفتہ کے بعد ممکن ہے الیکشن کمیشن اسے بڑھا کر پینسٹھ (65)فیصد کر دے، جیسا کہ پہلے دو دور میں اس نے کیا۔
 بہار میں ووٹوں کے کم ہوتے تناسب پر ہر کوئی حیران ہے، مختلف حلقوں میں اس کا فائدہ مختلف امید واروں کو مل سکتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ کئی امیدواروں کو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے، یہ معاملہ اس قدر حساس ہے کہ انتخابی کمیشن نے اس کے اسباب تلاشنے کا حکم دیا ہے، بہار میں انتخابی کمیشن نے تمام اضلاع کے ضلع مجسٹریٹ کو خط لکھ کر تمام بوتھوں کی حلقہ وار رپورٹ مانگی ہے ، تاکہ ووٹوں کے کم ہوتے تناسب کے اسباب کا جائزہ لے کر ووٹروں کی دلچسپی کو بڑھایا جا سکے۔
 ووٹوں کے کم ہوتے تناسب کے اسباب وعلل پر بہت زیادہ غور وفکر کی ضرورت نہیں، سامنے کی بات ہے کہ انتخاب کی تاریخیں سب موسم گرما میں رکھی گئی ہیں، جب کہ باد سموم کے جھونکے اور لو کے تھپیڑے اس قدر سخت ہیں کہ لوگوں کا گھر سے نکلنا دشوار ہو رہاہے ،یہ اس بات کا اشاریہ ہے کہ انتخابی کمیشن کو عوام کی سہولت کا ذرا بھی خیال نہیں ہے، اسے اس بات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے کہ ملک کی بڑی آبادی اپنی حق رائے دہی کا استعمال نہیں کر رہی ہے، رائے دہندگان خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جیت ہار کسی کی بھی ہو ، اس کی زندگی میں بدلاؤ کی کوئی شکل نہیں ہے ، جب کہ اس کی زندگی اس کے خاندان اور با ل بچوں کے لیے انتہائی ضروری ہے، ایسے میں عافیت بوتھ پر جا کر ووٹ دینے کے بجائے گھرمیں بیٹے رہنا مناسب ہے، وہ جانتا ہے کہ باہر کی بہ نسبت گھر میں رہنا زیادہ بہتر ہے۔ اس لیے انتخاب کے لیے ماضی بعید کی طرح ٹھنڈک کے موسم کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ لوگ آسانی سے ووٹ دینے کے لیے گھر سے نکل سکیں ، ورنہ عوام کی یہ لا تعلقی اور بے رخی ہندوستانی جمہوریت کو خطرات سے دور کردے گی۔تیسرے اور چوتھے دور میں ووٹوں کا تناسب تھوڑا بڑھائے اس کی بڑی وجہ موسم کا سازگار ہونا ہے۔ گرمی کی تمازت کم ہوئی تو رائے دہندگان نے پہلے دو دور کی بہ نسبت زیادہ پولنگ بوتھ کا رخ کیا۔
ایک دوسری وجہ عوام کی سرد مہری ہے، اب پرچار کے لیے اسٹار چنے جاتے ہیں، اور وہی آکر بھانج کر چلے جاتے ہیں ، عام کارکن کو صرف چا در بچھانے ، مجمع جمع کرنے اور مائیک لگانے کی خدمت ملتی ہے، ایسے میں وہ ذہنی طور پر مایوسی کے شکار ہوتے ہیں اور ان کی حصہ داری انتخاب کے موقع سے طے نہیں ہو پاتی، اس کا اثر اس حلقہ کے عوام پر بھی پڑتا ہے اور ان کی دلچسپی ووٹ دینے سے کم ہوجاتی ہے۔ دل بدلنے اور دل بدلو کو ٹکٹ دینے سے بھی کارکنوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، کل تک جو کارکن بھاجپا کی مخالفت میں تھے، اس نے پالا بدل کر کانگریس جوائن کر لیا، اور اسے ٹکٹ مل گیا، ایسے میں قہراً جبراً کانگریس کے قدیم کارکنوں کو اس کے پاس جانا پڑتا ہے، جبکہ بھاجپا کے قدیم کارکن اسکے ساتھ ہوجاتے ہیں، اس لیے کارکنوں کو سُبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ان کی دلچسپی انتخاب سے کم ہوجاتی ہے اس کا بُرا اثر ووٹروں پر بھی پڑتا ہے اور وہ ووٹ دینے کے لیے بوتھ پر جاتے ہی نہیں، ایسے کارکنوں میں روح پھونکنے کے لیے اس طریقہ کار کو بدلنا انتہائی ضروری ہے ، اس کے بغیر ووٹوں کے تناسب کو بڑھایا نہیں جا سکتا۔
 تیسری وجہ رائے دہندگان کا روزی روٹی کے لیے باہر کا قیام ہے ، ریاست میں ملازمت اور کام نہیں ملنے کی وجہ سے بہار کے لوگ، بڑی تعداد میں دوسری ریاستوں بلکہ ملک سے باہر بھی قیام پذیر ہیں، اس میں نو جوانوں کی بڑی تعداد ہے، وہ انتخاب کے موقع سے واپس اپنے گھر نہیں آپاتے، کیوں کہ سفر کے اخراجات کا ان کا جیب متحمل نہیں ہوتا ، اس لیے ان کا ووٹ یا تو پڑتا نہیں ہے یا پڑتا ہے تو دوسرے لوگ گرادیتے ہیں، ایک طریقہ ڈاک کے ذریعہ ان کی رائے دہندگی کا ہے، لیکن ان پڑھ مزدور اس کے طریقہ کار سے واقف نہیں ہوتے اور ووٹ دینے سے محروم ہوجاتے ہیں، ایسے میں انتخابی کمیشن کو کوئی ایسا طریقۂ کار وضع کرنا چاہتے کہ وہ ووٹ دے سکیں،ا ن کی انتخاب کے وقت اپنے حلقہ واپسی کی راہ بھی سوچنی چاہیے تاکہ وہ بھی جمہوریت کے اس عظیم تہوار میں شریک ہو سکیں ۔
 ایک اور وجہ بوتھ پر قبضہ کا ہونا بھی ہے، اعلیٰ ذات کے لوگ ہریجنوں ، دلتوں اور مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر انہیں بوتھ پر پہونچنے ہی نہیں دیتے اور ان کا جعلی ووٹ ڈال کر اپنے امیدوار کی جیت کی راہ ہموار کرتے ہیں، ملک میں بڑی تعداد ہریجنوں ، مسلمانوں اور دلتوں کی ہے، ان کے ووٹ نہ دینے سے بھی بہار میں ووٹ کا تناسب گرتا جا تا ہے ۔
 یہاں غور وفکر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ووٹوں کے فی صد میں کمی اور ووٹروں میں جوش کی کمی موجودہ سیاسی جماعتوں اور حکومت کے خلاف یہ بے رخی، عوام اور سماج کی جانب سے ملکی سیاست اور اس کے طریقۂ کار بیزاری کا اعلانیہ بھی ہو سکتا ہے ۔ایسے میں سیاست دانوں کو اپنے نظریات اور طریقۂ کار پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے، انتخاب کے وقت پورے پانچ سال اپنے حلقۂ انتخاب سے غائب رہنا، انتخابی منشور میں کیے گیے دعوے کو پورا نہ کرنا اس سرد مہری کا بڑا سبب ہے۔
 بھاجپادور میں انتخابی عمل کو دن بدن لمبا کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے عوام انتخابی عمل سے اکتا جاتی ہے اسے لیڈروں کی آمد ورفت کے موقع سے عوامی آمد ورفت میں دشواریاں ہوتی ہیں، دکانیں بند ہوجاتی ہیں، کاروبار ٹھپ ہوجاتا ہے اور کمزورلوگوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے، اگر انتخابی عمل کو مختصر کیا جائے تو لوگوں کی دلچسپی ووٹنگ سے بڑھے گی۔
ان امور پر اگر حکومت اور انتخابی کمیشن توجہ دے اور ان اسباب کو دور کرنے کی شکلیں نکالے تو ووٹ کا تناسب بڑی حد تک بڑھ جائے گا، اور معلوم ہوگا کہ جمہوریت کے اس تہوار میں پورا ہندوستان کثرت کے ساتھ شریک ہے ۔

جمعہ, مئی 03, 2024

وفاق کے مدارس بہتر تعلیم وتربیت کے عظیم مراکز-مفتی محمدثناء الہدی قاسمی

وفاق کے مدارس بہتر تعلیم وتربیت کے عظیم مراکز-مفتی محمدثناء الہدی قاسمی
اردودنیانیوز۷۲
      اچھی تعلیم وتربیت اور بہتر نتائج کے لیے وفاق المدارس سے ملحق مدارس کا انتخاب کریں
پھلواری شریف 3/ مئی(پریس ریلیز):
      وفاق المدارس الاسلامیہ امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھار کھنڈ کے سالانہ امتحانات کے نتائج کا اعلان وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم مفتی محمدثناء الہدی قا سمی کے ہاتھوں رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عمل میں آیاتھا، اس موقع سے مفتی صاحب نے ان تمام مدارس کاشکریہ ادا کیاجنہوں نے سالانہ امتحان میں وفاق کاتعاون کیااور صاف ستھرے ماحول میں امتحانات کی پوری کاروائی کو یقینی بنایا۔
      امسال 1445ھ میں مدارس ملحقہ وفاق کے 34298/ طلبہ نے امتحان دیا، عربی ہفتم تک کے طلبہ نے امتحانات میں شرکت کی،جن میں درجہ حفظ کے11080،دینیا ت اول تا پنجم کے 22386اور عربی اول تا عربی ہفتم کے832/طلبہ شامل ہیں، جن مدارس ملحقہ نے امتحانات میں شرکت کیاان میں مدرسہ اسلامیہ شکر پور بھروارہ دربھنگہ، جامعہ ربانی منورواشریف سمستی پور،مدرسہ چشمہ فیض ململ مدھوبنی،جامعہ عربیہ مقیمیہ سرپنیا مشرقی چمپارن اور الجامعۃ العربیۃ سرا ج العلوم تلاپت گنج کے طلبہ کی کارکردگی اچھی رہی۔مفتی صاحب نے امتیازی نمبرات سے کامیاب ہونے والے طلبہ کو نیک دعاؤں کے ساتھ مزیدمحنت سے علم دین حاصل کرنے کی ترغیب دی، مخلص اساتذہ کرام اور ان کے سرپرستوں کو بھی مبارک باددی۔
مفتی صاحب نے فرمایا کہ وفاق المدارس الاسلامیہ امارت شرعیہ سے ملحق مدارس معیاری تعلیم وتربیت کے عظیم مراکز ہیں؛اس لیے اچھی تعلیم وتربیت اور بہتر نتائج کے لیے اپنے بچوں کو وفاق سے ملحق مدارس میں داخل کریں،آپ ہمیں بچے دیں،ہم انشاء اللہ انہیں بہتر مستقبل دیں گے۔مفتی صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ چھوٹے بچوں کو باہر تعلیم کے لیے نہ بھیجیں،انہیں مشکلات کاسامناکرنا پڑتاہے اور کبھی پولیس والے بھی انہیں پکڑکر جیل میں بند کردیتے ہیں،یقینا یہ قانونی طور پر غلط ہے،لیکن جب تک آپ قانون کی دہائی دے کر عدالت کارخ کریں گے،بچوں کی حالت غیر ہوچکی ہوگی،امارت شرعیہ نے کئی جگہ ایسے گرفتار شدہ بچوں کو آزادکرانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ہمارے یہاں اچھے اور معیاری مدارس ہیں،ان میں اچھی تعلیم ہوتی ہے؛اس لیے بچوں کے باہر بھیجنے کے رجحان کو ختم ہونا چاہیے۔
حفظ اور ابتدائی درجات کے وہ مدارس ملحقہ جن کے نتائج امتحان ابتک دفتر وفاق کو موصول نہیں ہوئے ہیں، ان سے گذارش ہے کہ وہ جلداز جلد رزلٹ دفترکو ارسال کردیں۔ یہ اطلاع مفتی محمدسعید کریمی رفیق وفاق المدارس الاسلامیہ نے دی۔

پیر, اپریل 22, 2024

کشن گنج پارلیمانی حلقے کے ووٹرس کے نام ایک اپیل

کشن گنج پارلیمانی حلقے کے ووٹرس کے نام ایک اپیل
Urduduniyanews72
____________________________________________
 کشن گنج پارلیمانی حلقے کے ووٹرس اس بات سے واقف ہیں کہ آئندہ 26 اپریل (جمعہ) کو متھلانچل کے دیگر حلقوں کی طرح وہاں بھی ووٹنگ ہونے جا رہی ہے جہاں سے دیگر امیدواروں کے ساتھ مسلمانوں کے بے باک، بے خوف اور نڈر لیڈر جناب اختر الایمان صدر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین( بہار) بھی امیدوار ہیں-  جناب اختر الایمان اپنی دانشوری، حق گوئی اور بے باکی کے لیے نہ صرف بہار بلکہ پورے ملک میں جانے اور پہچانے جاتے ہیں- لہذا کشن گنج سے ان کی امیدواری کے سبب اس حلقے کے انتخاب پر پورے بہار کی نظر ہے- یہاں کی فرقہ پرست اور فسطائی طاقتیں انہیں اس الیکشن میں کامیاب نہ ہونے دینے کے لیے ہر ممکن کوششوں میں مصروف ہیں-  ایسی صورت میں کشن  گنج حلقے کے ووٹروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان طاقتوں کے منصوبے کو کسی قیمت پر کامیاب نہ ہونے دیں اور اپنے فہم و فراست کو بروئے کار  لاتے ہوئے اپنا ایک ایک قیمتی ووٹ اختر الایمان کو دے کر انہیں کامیاب بنائیں-  بہار کے ڈیڑھ کروڑ مسلمان پوری شدت سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ فی الوقت ملکی سطح پر بہار کے مسلمانوں کا پارلیمنٹ میں کوئی نمائندہ نہیں ہے - اب نہ ہمارے درمیان سید شہاب الدین ہیں، نہ مولانا اسرار الحق قاسمی ہیں اور نہ الحاج تسلیم الدین ہیں - ایسی صورت میں اختر الایمان کی ذات ہمارے لیے غنیمت ہے - اختر الایمان نہ صرف حق گو، بے باک اور بے خوف انسان ہیں بلکہ وہ ایک باضمیر انسان بھی ہیں- انہیں نہ کوئی خرید سکتا ہے اور نہ توڑ ہی سکتا ہے-  لہذا ایسے بااصول قائد پر ہمیں مکمل اعتماد کرنا چاہیے اور ہمیں انہیں اپنا قیمتی ووٹ دے کر ضرور لوک سبھا بھیجنا چاہیے - کشن گنج کے ووٹرس کا یہ فیصلہ نہ صرف کشن گنج کے حق میں بہتر ہوگا بلکہ ریاست کی مسلم قیادت میں پیدا ہوا خلا بھی پر ہو سکے گا-  لہذا کشن گنج کے عوام سے یہ توقع ہے کہ وہ اپنا ایک ایک ووٹ جناب اختر الایمان کو دے کر نہ صرف کشن گنج کا نام روشن کریں گے بلکہ بہار کو ایک مضبوط ملی قائد دینے کا بھی فریضہ انجام دیں گے-  بہار کے مسلمانوں پر کشن گنج کے ووٹرس کا یہ احسان بھی ہوگا ساتھ ہی تاریخ میں ان کے تدبر اور دور اندیشی کا چرچہ بھی تادیر ہوتا رہے گا-
 الملتمس
 انوار الحسن وسطوی
 رکن 
مجلس عاملہ مجلس مشاورت( بہار)

جمعہ, اپریل 19, 2024

سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے!(اے آئی ایم آئی ایم کے تناظر میں)

سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے!
(اے آئی ایم آئی ایم کے تناظر میں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردودنیانیوز۷۲
انوارالحسن وسطوی
آشیانہ کالونی،سانچی پٹّی،حاجی پور(بہار)844101
9430649112
  ملک کی تمام نام نہاد سیکولر پارٹیاں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ”مجلس اتحاد المسلمین“ (اے آئی ایم آئی ایم)پر یہ الزام لگاتی ہیں کہ مجلس اتحاد المسلمین بی جے پی کی ایجنٹ ہے اور اس کی”بی ٹیم“ ہے۔ الزام لگانے والوں کی یہ دلیل ہے کہ انتخابات میں سیکولر پارٹیاں جس سیٹ سے اپنا امیدوار کھڑا کرتی ہیں وہاں مجلس اتحاد المسلمین بھی اپنے امیدوار اتار دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں مسلم ووٹ میں بکھراؤ ہو جاتا ہے اور سیکولر پارٹیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح  اے آئی ایم آئی ایم، بی۔جے۔پی اور اس کی ہمنوا پارٹیوں کو فتح دلانے میں مدد کرتی ہے۔ غیروں کے منہ سے نکلے اس الزام پر اتنی حیرت نہیں ہوتی ہے جتنی حیرت خود مسلمانوں حتیٰ کہ مسلم دانشوروں کی زبان سے سننے پر ہوتی ہے۔ کم از کم مسلمانوں کو اپنے دماغ سے یہ بات بالکل نکال دینی چاہیے کہ ایم آئی ایم، بھاجپا کی ایجنٹ یا”بی ٹیم“ ہے۔یہ الزام بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔بھاجپا کے خلاف”سڑک سے ایوان تک“ فی وقت اگر کوئی پارٹی بلا خوف و خطرآواز بلند کرتی ہے اور مسلم کاذ کی وکالت کرتی ہے تو وہ پارٹی ہے ایم آئی ایم۔ جس کے سربراہ بیرسٹر اسد الدین اویسی ہیں۔ اویسی صاحب جس ہمت اور بے باکی سے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر باتیں کرتے ہیں اس سے کون واقف نہیں۔ اس حقیقت کو پوری دنیا جانتی ہے کہ بھاجپا کو”دندان شکن“جواب دینے کی ایسی جرأت شاید کسی بھی پارٹی کے اندر نہیں ہے۔ لہذا ان کی اس انفرادیت اور شناخت کو ختم کرنے کے مقصد سے نام نہاد سیکولر پارٹیاں انہیں بی جے پی کی ”بی ٹیم“ کہتی ہیں۔ اسدالدین اویسی کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی سرگرمیاں صرف اپنی ریاست تلنگانہ(حیدرآباد) تک محدود رکھیں۔ ایسا مشورہ آخر کیوں؟ اسد الدین اویسی کی پارٹی(ایم آئی ایم)کی طرح ملک میں بے شمار علاقائی پارٹیاں ہیں، لیکن نام نہاد سیکولر لیڈران کسی بھی علاقائی پارٹی کو اپنی سرگرمیاں محدود دائرے میں رکھنے کی صلاح نہیں دیتے۔یہ نصیحت صرف اور صرف ایم آئی ایم کے لیے کیوں؟ممتا بنرجی،ترنمول کانگریس کی لیڈر ہیں۔اس پارٹی کا حلقہ اثر صرف”مغربی بنگال“ تک ہے۔لیکن ممتا بنرجی اپنی پارٹی کو ”قومی پارٹی“کا درجہ دلانے کے لیے مغربی بنگال سے باہرآسام،منی پور،میگھالیہ اور تریپورہ وغیرہ ریاستوں میں اپنے امیدوار کھڑا کرتی ہیں۔ کیا ان کے اس قدم سے کانگریس کو نقصان اور بھاجپا کو فائدہ نہیں پہنچتا ہے؟ ان ریاستوں میں بھاجپا اگر کامیاب ہوتی ہے تو کیا اس کے ذمہ دار بھی اویسی ہی ہیں؟ ”عآپ پارٹی“بھی ایک علاقائی پارٹی ہے، جس کے سربراہ اروند کیجریوال صاحب ہیں۔کیجریوال صاحب اپنی پارٹی کا دائرہ بڑھانے کے لیے اور”قومی پارٹی“کا درجہ حاصل کرنے کے لیے دہلی کے علاوہ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، پنجاب، ہماچل پردیش، حتیٰ کہ گجرات جیسی ریاست سے بھی اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرتے؟ کیجریوال صاحب کے اس قدم سے ان مقامات پر سیکولر ووٹروں کی جو تقسیم ہوتی ہے اور جس کے نتیجے میں بھاجپا کو فائدہ پہنچتا ہے، کیا اس کے ذمہ دار بھی اسدالدین اویسی ہی ہیں؟ بہار میں جنتا دل(یونائیٹڈ) اورر اشٹریہ جنتا دل جیسی پارٹیاں ہیں جن کی حیثیت علاقائی ہے۔ پھر بھی وہ اپنا دائرہ بڑھانے کے لیے اتر پردیش،اتراکھنڈ اور جھارکھنڈ وغیرہ مقامات سے ہر انتخاب میں اپنا امیدوار کھڑا کرتی ہیں اور قومی پارٹی بننے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ ایسی کئی اور مثالیں ہیں جہاں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ علاقائی پارٹیاں اپنا دائرہ بڑھانے اور اپنی پارٹی کو قومی پارٹی کا درجہ دلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ جب ملک کی ہر پارٹی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا حلقہ بڑھائے، اپنی پارٹی کو قومی پارٹی کا درجہ دلائے تو پھر ایم آئی ایم کو کس گناہ کی پاداش میں اس حق سے محروم رہنے کا مشورہ دیا جائے کہ وہ اپنی پارٹی کو قومی پارٹی نہ بنائے اور خود کو صرف تلنگانہ(حیدرآباد) تک ہی محدود رکھے؟ شاید صرف اس لیے کہ یہ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی پارٹی ہے جو مسلمانوں کو ان کے حق حقوق کی باتیں کرتی ہے، ان کا دفاع کرتی ہے اور ان کی محافظت کی باتیں کرتی ہے اور مزید یہ کہ اس پارٹی کا سربراہ ایک مسلمان ہے۔
راقم السطور کا ماننا ہے کہ فی الوقت اب یہ ملک نہ ”سیکولر“ہے اور نہ یہاں کی کوئی پارٹی ہی صحیح معنوں میں ”سیکولر“ہے۔ اپنے کو سیکولر کہنے والی تمام پارٹیاں ملک کی 18 فیصد”مسلم ووٹ“ کو ہتھیانے کے لیے خود کو سیکولر کہتی ہیں۔ یہاں تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ورنہ میں یہ بتاتا کہ”بابری مسجد“ کے انہدام اور”رام مندر“ کی تعمیر کے علاوہ بے شمار ایسے مواقع آئے ہیں جب ان تمام سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو دھوکہ دیا ہے اور درپردہ بھاجپا کی حمایت کی ہے۔بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ بھاجپا کی مسلم دشمنی میں اس کا ساتھ دیا ہے۔ خواہ وہ ”مسلم پرسنل لاء“ کو ختم کرنے کا معاملہ ہو یا ”دفعہ 370“کو ہٹانے کا۔”تین طلاق“ کا معاملہ ہو یا”مسلم پناہ گزینوں“ کو شہریت نہ دینے کا معاملہ ہو۔ اکثر یہ پارٹیاں کبھی خاموش رہ کر اور کبھی ایوان میں ووٹنگ میں حصہ نہ لے کر بھاجپا کو مدد پہنچاتی ہیں۔
ان مثالوں سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ایم آئی ایم قطعی بھاجپا کی ایجنٹ یا اس کی ”بی ٹیم“ نہیں ہے۔ ایم آئی ایم ملک میں مسلمانوں کی مضبوط قیادت تیار کرنے کے لیے اور قومی پارٹی کا درجہ حاصل کرنے کے لیے ساری تگ و دو کر رہی ہے اور تلنگانہ(حیدرآباد) کے علاوہ دوسری ریاستوں میں بھی الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔ یہ اس کا بنیادی حق ہے اور اسے کسی بھی حالت میں غلط نہیں کہا جا سکتا ہے۔یہ صحیح ہے کہ چند مقامات پر ایم آئی ایم کے امیدوار کھڑے ہوجانے کے سبب بی جے پی کو فائدہ پہنچ جاتا ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بی جے پی اور کانگرس کے مقابلے کے درمیان میں اگر کسی دوسری علاقائی پارٹی کا امیدوار یا آزاد امیدوار بھی کھڑا ہو جاتا ہے تو اس سے بھی بھاجپا کو ہی فائدہ اور کانگریس کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے معاملے میں صرف ایم آئی ایم کو ذمہ دار ٹھہرانا بالکل مناسب نہیں ہے۔ بہار کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایم آئی ایم کے اس قدم کے لیے اس کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے ”سیمانچل“ کے تمام حلقے میں اپنی امیدوار کا اعلان کرنے کے باوجود”کشن گنج“ چھوڑ کر پورے سیمانچل میں ”انڈیا اتحاد“ کی کامیابی کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنے امیدوار نہیں کھڑے کیے۔اس سے بڑھ کر فیاضی اور دریا دلی کیا ہو سکتی ہے؟ ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو مسلمانوں کے ووٹ کی تقسیم کی اتنی ہی فکرہے تو اس کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے سیکولر پارٹیاں انہیں بھی ان کی آبادی کے حساب سے امیدوار کیوں نہیں بناتی ہیں؟ اور ایم آئی ایم کو اگر وہ اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے تو انہیں اپنے خیمہ میں لانے کی کوشش کیوں نہیں کرتی ہیں؟ کوشش کرنا تو دور کی بات ہے پہل کرنے پر بھی یہ پارٹیاں ایم آئی ایم کو خاطر میں نہیں لا رہی ہیں۔ 28 مارچ 2024 کی بات ہے کہ بہار ریاستی اے۔ آئی۔ ایم۔ آئی۔ ایم کے صدر جناب اختر الایمان نے پٹنہ کے ”بیلی روڈ“ میں واقع اپنی سرکاری رہائش گاہ پر منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کھلم کھلا یہ دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ دو سالوں سے وہ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ بہار میں ”لوک سبھا“اور”ودھان سبھا“کے انتخابات کے موقع سے سیکولر پارٹیاں ایم آئی ایم کے ساتھ اتحاد قائم کریں اور مل جل کر انتخاب لڑیں تاکہ بی جے پی کو شکست دی جا سکے۔ لیکن ان کی اس پہل پرکانگرس یا اس کی کسی ہمنوا پارٹی نے اس پر نہ تو توجہ دی بلکہ ان کی اس تجویز کو مسترد بھی کر دیا۔جب”مجلس اتحاد المسلمین“ کا مقصد بھی بی جے پی کو شکست دینا ہے اور اسے مرکز اور ریاستوں کے اقتدار سے ہٹانا ہے تو پھر کن اسباب کی بنا پر یہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں ایم آئی ایم کو”انڈیا اتحاد“میں حصہ دینا نہیں چاہتی ہیں۔ اس معمہ کی واحد وجہ یہ ہے کہ تمام پارٹیاں خواہ وہ بھاجپا ہو یا اس کے نظریات کی حامی دیگر پارٹیاں ہوں یا نام نہاد سیکولر پارٹیاں ہوں سبھی مسلمانوں کو قیادت سے محروم رکھنا چاہتی ہیں۔ وہ مسلمانوں کو صرف”ووٹ بینک“ اور”بندھوا مزدور“ بنائے رکھنا چاہتی ہیں۔وہ بیرسٹر اسد الدین اویسی اور جناب اختر الایمان جیسے تیز طرّار اور قدآور لیڈر کو اپنی صف میں اس لیے شامل کرنا نہیں چاہتی ہیں کہ اس سے خود ان کا قد بونا ہو جائے گا اور پھر یہ کہ مسلمانوں کے معاملے میں وہ من مانی بھی نہیں کر سکیں گی۔
ملک کی تمام پارٹیاں کسی بھی قدآور مسلم لیڈر کو اپنی صف میں لا کر اپنا قد بونا کرنا نہیں چاہتی ہیں۔ انہیں قطعی گوارا نہیں ہے کہ مسلمانوں کا کوئی قدآور لیڈر اوپرآئے جو مسلمانوں کو متحد کرے، انہیں ان کی ووٹ کی طاقت اور اہمیت کا احساس دلائے اور مسلمان کسی کو اپنا قائد بنائیں۔ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں سے صرف”دری بچھوانے“،”جھنڈا ڈھلوانے“،”نعرہ لگوانے“ اور سیاسی لیڈروں کا”قصیدہ پڑھنے“ کا کام لینا چاہتی ہیں۔آبادی کے حساب سے حصہ داری دینے سے انہیں کوئی مطلب نہیں ہے۔ بڑے طمطراق سے ذات کی بنیاد پر مردم شماری کرائی گئی۔کس ذات کی کتنی تعداد ہے اس کا اعلان کیا گیا۔ بعض ذاتوں کو ان کی حصہ داری سے کہیں زیادہ حصہ دے کر اپنا امیدوار بنایا گیا۔ لیکن مسلمانوں کی 18 فیصد آبادی ہونے کے باوجود انہیں وہ حصہ داری نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق تھے۔ مثال کے طور پر ریاست بہار کو ہی لے لیں۔”انڈیا اتحاد“نے صرف چار سیٹیں مسلمانوں کو دی ہیں۔ یہ سیٹیں ہیں ”کشن گنج“(ڈاکٹر جاویدآزاد)،”کٹیہار“(طارق انور)،”مدھوبنی“(علی اشرف فاطمی) اور ”ارریہ“(شاہنواز عالم)۔ اگر ان مسلم لیڈروں کا کوئی بدل ان پارٹیوں کے پاس ہوتا تو یہ چار سیٹیں بھی نہیں ملتیں اور سیدھے انگوٹھا دکھا دیا جاتا، جیسا کہ بی جے پی نے کیا ہے۔”انڈیا اتحاد“ کو کم از کم سات مسلمانوں کو ٹکٹ دینا چاہیے۔ اسی طرح جنتادل(یو) کو کم از کم دو سیٹوں پر مسلمان امیدوار کھڑا کرنا چاہیے۔لیکن اس نے صرف ایک مسلمان”مجاہد عالم“(کشن گنج) کو ٹکٹ دینے پر اکتفا کر لیا۔ یعنی کسی پارٹی نے بھی مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اس کے باوجود وہ ہم سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم جھولی بھر کر اپنا ووٹ انہیں دیں۔ یہ پیمانہ انصاف کے سراسر خلاف ہے۔
بہار میں ذات پر مبنی”مردم شماری 2023“کے مطابق”ملاّح“ذات کی آبادی مشکل سے ڈھائی فیصد ہے۔ اس ڈھائی فیصدآبادی کے ووٹ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے”راشٹریہ جنتادل“نے اپنی حصے کی تین سیٹیں ”وکاس شیل انسان پارٹی“(وی۔آئی۔ پی)کو دے کر اس کے لیڈر مکیش سہنی کو گلے لگایا اور ان کی آؤ بھگت کی۔ بھاجپا نے پانچ فیصد”پاسوان“ذات کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے چراغ پاسوان کی بھرپور نازبرداری کی۔ ایک بے چارہ مسلمان ہے جس کی آبادی 18 فیصد ہے، لیکن  اسے اپنانے یا اسے حصہ داری دینے کے لیے کوئی پارٹی بھی تیار نہیں ہے۔ یہ کتنی بڑی بدقسمتی اور شامت اعمالی کی بات ہے۔سیاسی پارٹیوں کے اس رویے پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ اپنے ساتھ ہو رہے سلوک کے ذمہ دار ہم خود بھی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ملکی سیاست میں ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہم مسلمان اپنی قیادت تیار کرنے کو”گناہ کبیرہ“سمجھتے ہیں اور دوسروں کی ”نازبرداری“ اور ”درباری“ کرنے پر ہمیں شرم نہیں آتی۔ملک ”سیکولر اسٹیٹ“ رہے اس کا ٹھیکہ صرف مسلمانوں کے ذمہ نہیں ہے۔ اگر تمام برادران وطن ا سے”سیکولر اسٹیٹ“ کی شکل میں نہیں دیکھنا چاہتے ہیں تو مسلمان قیامت کی صبح تک اسے ”سیکولر اسٹیٹ“ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ حالات کے مطابق ہمیں اپنے آپ کو ڈھالنا ہوگا۔حکیم الامّت شاعر مشرق علّامہ اقبالؔ نے صحیح کہا ہے  ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
٭٭٭

جمعرات, اپریل 18, 2024

الحاج قاری شعیب احمد ؒ (یادوں کے چراغ)

الحاج قاری شعیب احمد ؒ (یادوں کے چراغ)
Urduduniyanew72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ کے رکن ، دار القرآن مدرسہ عظمتیہ نوادہ کے ناظم، استاذ الاساتذہ ، اکابر امارت شرعیہ کے معتمد ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اصلاح معاشرہ ضلع کمیٹی کے کنوینر ، جمعیت علماء بہار کی عاملہ کے رکن ، دار العلوم رحمانیہ ملت کالونی بھدونی نوادہ کے سر پرست حضرت مولانا قاری شعیب احمد صاحب نے ١٦؍ رمضان ٤٥ھ کی شب مطابق ۲۷؍ مارچ ٢٠٢٤ء بروز بدھ بوقت ایک بجے عارضۂ قلب میں اس دنیا کو الوداع کہا، سب کچھ اچانک ہوا اور آدھے گھنٹے میں زندگی کا سفر مکمل ہو گیا، ۳؍ رمضان کو طبیعت بگڑ کر سنبھل گئی تھی ، اب کے روزہ افطار ، مغرب ، عشاء تراویح کے بعد دل کا دورہ پڑا اور علاج معاملہ سے بے نیاز ہو گیے، جنازہ کی نماز اسی دن ۳؍ بجے دن میں قائم مقام ناظم امارت شرعیہ مولانا محمد شبلی قاسمی نے پڑھائی ، حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کے حکم سے تجہیز وتکفین اورجنازہ میں شرکت کے لیے جو وفد گیا تھا اس میں راقم الحروف محمد ثناء الہدیٰ اور مولانا اعجاز احمد بھی شریک تھے، ظہر کے بعد جنازہ سے قبل مدرسہ کی مکہ مسجد میں ان کے شاگردان ، معروف علماء اور قائم مقام ناظم صاحب کے ساتھ میرا بھی تعزیتی خطاب ہوا، سب نے ان کی خدمات کی تعریف کی ، انہیں ایک اچھا اور سچا انسان قرار دیا اور ان کی وفات کو ملت کا عظیم خسارہ بتایا، پس ماندگان میں سات صاحب زادگان میں طارق انور (صدر عالم) مولانا ضیاء الدین مظاہری ، مولانا محمد نظام الدین مظاہری، مولانا محمد نصیر الدین مظاہری ، قاری محمد اسامہ مظاہری ، مولانا ابو طلحہ مظاہری ، مولانا منت اللہ مظاہری اور تین صاحب زادیاں ہیں، سب کی شادی وغیرہ کی ذمہ داری سے قاری صاحب سبکدوش ہو چکے تھے، اول الذکر کے علاوہ الحمد للہ سب لڑکے حافظ قاری اور عالم دین ہیں، بڑے صاحب زادے با قاعدہ حافظ عالم تو نہیں ، لیکن خانوادہ کے دینی اثرات ان پر نمایاں ہیں، اہلیہ گذشتہ سال ۱۰؍ رمضان ١٤٤٤ھ میں انتقا ل کر چکی تھیں۔ 
حضرت قاری شعیب احمدبن عبد الحفیظ (م ۱۹۵۱) بن محمد یوسف کی ولادت دربھنگہ ضلع کی مشہور بستی لوام میں یکم جنوری ۱٩٤٧ء کو ہوئی، چار سال کے ہوئے تو والد کا سایہ سر سے جاتا رہا، والدہ مرحومہ نے پوری توجہ اور انہماک سے انہیں پوسا پالا ، والد سے محرومی کا احساس نہیں ہونے دیا، ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کرنے کے بعد مدرسہ امانیہ لوام دربھنگہ میں داخلہ لیا، یہاں کچھ دن تعلیم حاصل کرنے کے بعد خود ان کا شعور جاگا اور انہوں نے محسوس کیا کہ گھر پر رہ کر تعلیم جاری رکھنا ممکن نہیں ہے، چنانچہ والدہ سے اجازت لے کر اپنے ماموں زاد بھائی عثمان صاحب کے ساتھ کلکتہ کے لئے رخت سفر باندھا ، بعض مخلص کے مشورے سے دار القرآن مدرسہ عظمتیہ لورچت پور روڈ کلکتہ میں داخل ہوئے اور قاری عبد القوی صاحب اعظمی، بانی وناظم مدرسہ کی زیر نگرانی تعلیم کی تکمیل کی ، فضیلت کی سند بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے بتوسط مدرسہ امانیہ لوام حاصل کیا، قاری عبد القوی صاحب کے علاوہ جن اکابر علم وفن سے قاری صاحب کاخصوصی تعلق رہا اور آپ جن سے استفادہ کرتے رہے ان میں مولانا عبد الوحید مظاہری غازی پوری، مولانا سید محمد شمس الحق صاحب ویشالوی، مفتی مظفر حسین صاحب مظاہری ، قاری محمد مبین صاحب الٰہ آبادی ، مولانا محمد اسرائیل صاھب بھوجپوری ، مولانا قطب الدین صاحب مظاہری رحمہم اللہ کے اسماء گرامی خاص طور پر قابل ذکر یں، ان حضرات نے قاری صاحب کے اندر معرفت الٰہی کی آگ پھونکی اور دینی کاموں کو سلیقہ سے کرنے اور لوگوں کی تربیت دینی نہج پر کرنے کا شعور بخشا، ان میں سے کئی کی حیثیت قاری صاحب کے نزدیک پیر ومرشد کی بھی تھی ، جن سے انہوں نے تصوف وسلوک کے رموز سیکھے۔
تعلیم سے فراغت کے بعد آپ کی شادی اونسی ببھنگواں حال ضلع مدھوبنی کے مقصود صاحب کی صاحبز ادی سے ہوا، شریک حیات انتہائی دیندار تھیں اللہ رب العزت نے اس رشتے میں بڑی برکت دی ، سات صاحب زادے اور تین صاحب زادیاں تولد ہوئیں، اور سب دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں، قاری صاحب کی خدمت میں ان کی دیندار اہلیہ کا بڑا تعاون رہا، انہوں نے بہت سارے خانگی امور سے انہیں الگ رکھ کر خدمت کا موقع دیا، کہنا چاہیے کہ دونوں کی زندگی کا مقصد رضائے الٰہی تھا، اس لیے زندگی کی پٹری پر یہ گاڑی پوری زندگی محبت والفت کے ساتھ چلتی رہی اور گھر کا جو مقصود’’ ٹینشن فری زون‘‘ ہوتا ہے وہ قاری صاحب کو حاصل رہا۔
تدریسی زندگی کا آغاز بنگلور سے کیا، پھر جہان آباد منتقل ہو گئے، قاری عبد القوی صاحب کے حکم سے پہلے بھداسی ضلع الور کی نظامت سنبھالی، اور مکتب کو مدرسہ بنا کر دم لیا ، مطبخ اور دار الاقامہ کا نظم ہوا، اور پھر قاری صاحب کے حکم سے ہی نوادہ دار القرآن مدرسہ عظمتیہ کی شاخ میں منتقل کیے گیے ، کہنے کے لیے یہ ایک شاخ تھی، لیکن کوئی انتظام نہیں تھا،قاری صاحب نے بے سروسامانی میں کام شروع کیا، پھونس کی جھونپڑی جس سے پانی ٹپک کر اندر آتا تھا، کھانے پینے کا نظم نہیں، طلبہ کہاں رکھے جائیں، مسائل ہی مسائل ، قاری صاحب نے اپنے ناخن تدبیر سے سارے مسائل حل کیے، دوسری طرف مسلکی اختلافات بھی مزاحم ، ایسے میں قاری صاحب نے پوری جرأت ایمانی سے ان حالات کا مقابلہ کیا اور دیکھتے دیکھتے اُسّر اور بنجر زمین میں عمارت سر اٹھانے لگی، آج مکہ مسجد ، مدرسہ کی شاندار اور دیدہ زیب عمارت قاری صاحب ؒ کی جہد مسلسل کی بہترین یاد گار ہے جو آباد وشاداب بھی ہے۔
قاری صاحب ؒ کو اصلاح معاشرہ کی بھی بڑی فکر رہا کرتی تھی ، بھداسی اور نوادہ کے کم وبیش پچاس سالہ قیام کے دوران بہت سارے خاندان کو رسم ورواج ، اوہام وخرافات ،غیر شرعی امور ، بے جا لہو ولعب سے کنارہ کش کرایا ، مدرسہ کے جلسوں گلیوں اور گاؤں گاؤں گھوم کر پوری حکمت عملی اور ایمانی بصیرت سے اس کام میں اپنی توانائی لگائی، بہت سارے غیر شرعی کاروبار سے لوگوں کو آزاد کرایا اور یہ سب بلند بانگ دعووں اور نعروں کے ساتھ نہیں، خاموشی سے انجام دیا، ان کی اسی فکر مندی سے متاثر ہو کر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانی صاحب ؒ نے نوادہ ضلع کی اصلاحی کمیٹی کا کنوینر انہیں نامزد کیا تھا۔
 اسی طرح قاری صاحب ؒ کو امارت شرعیہ کے اکابر اور اس کے کاموں سے غیر معمولی دلچسپی تھی، اسی دلچسی کے نتیجے میں ۲۰۰۱ء میں مدارس اسلامیہ کنونشن میں ان کا بھر پور تعاون ملا، نوادہ میں وفاق المدارس الاسلامیہ کا مسابقہ قرأت قرآن دار العلوم رحمانیہ ملت کالونی میں منعقد ہوا، طلاق ثلاثہ بل کے خلاف نوادہ میں مضبوط دستخطی مہم چلی، سی اے اے ، این آر سی کے خلاف جد وجہد کابڑا مرکز نوادہ بنا ، امیرشریعت سابع کی تحریک دین بچاؤ دیش بچاؤ کے لیے ضلع میں بیداری لائی گئی اور قاری صاحب ہی کی قیادت میں ۱۵؍ اپریل ۲۰۱۸ء کو بڑی تعداد میں نوادہ کے مسلمان گاندھی میدان پٹنہ پہونچے، جب امارت شرعیہ نے اردو کے فروغ ، دینی اور عصری تعلیمی اداروں کے قیام کی تحریک بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ میں چلائی تو نوادہ میں انہوں نے زبر دست پروگرام کرایا اور وہ نوادہ کی تعلیمی مشاورتی کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے، وہ رویت ہلال کمیٹی ضلع نوادہ کے بھی کنوینر تھے۔حال میں امارت شرعیہ نے یوسی سی کے خلاف تحریک چلائی تو انہوں نے پورے ضلع کو اس کام کے لیے متحرک کر دیا۔
 تعلیم قرآن اصلاح معاشرہ ، امارت شرعیہ کی تحریک سے مضبوط وابستگی کے ساتھ ساتھ ان کی خدمت کا بڑا میدان امراء کو حج پر ابھارنا ان کے فارم بھرنا ، پھر سفر حج کے لیے تربیت کا نظم کرنا بھی شامل تھا، سبھی جانتے ہیں کہ حج اسلام کا ایسا رکن ہے ، جس ک ادائیگی میں عموما کوتاہی کی جاتی ہے اور تاخیر بھی قاری صاحب نے حج کے لیے مہم چلائی اور سال بہ سال حاجیوں کی تعداد میں اضافہ کرایا، نوادہ جیسے چھوٹے ضلع سے بعض سالوں میں ڈیڑھ سو سے زائد مسلمانوں نے عزم سفر کیا، قاری صاحب کی اس محنت سے مسلمانوں میں اس رکن کی ادائیگی کے سلسلے میں بیداری آئی، یہ بھی ان کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔
ان تمام کاموں میں مشغولیت کے باوجود خود اپنی اصلاح سے بھی غافل نہیں رہے ، وہ پوری زندگی اکابر علماء کے دامن سے وابستہ رہے اور اصلاح نفس کے لیے صوفیاء کے یہاں جو اوراد واعمال بتائے جاتے ہیں، سب کا غیر معمولی اہتمام کرتے ، تھانوی سلسلہ سے قربت زیادہ تھی، چنانچہ حضرت مولانا احمد مرتضیٰ صاحب مظاہری خلیفہ مجاز حضرت مولانا شاہ اسعد اللہ صاحب ؒنے انہیں اجازت وخلافت سے نوازا، یہ اجازت زبانی بھی تھی اور تحریری بھی ، لیکن وہ عمومی طور ر لوگوں کو بیعت کرنے سے دور ہی رہا کرتے، ساری پابندیوں کے باوجود خانقاہی مزاج نہیں تھا۔
 قاری صاحب کی ایک بڑی خوبی ان کی ضیافت تھی، ان کا دسترخوان بڑا وسیع تھا، وہ مہمان کے پہونچتے ہی گھر سے باہر اور مدرسہ کے لڑکوں تک کو مہمان کی ضیافت ان کے آؤ بھگت اور خدمت میں لگا دیتے ، وہ کم سخن نہیں، کم گو تھے، لیکن صائب الرائے تھے، ہم جیسے چھوٹے بھی جب نوادہ پہونچ جاتے تو ان کی کوشش ہوتی کہ کچھ اصلاحی باتیں لوگوں میں ہوجائے ، جمعہ کا دن ہوتا تو منبر ومحراب حوالے کر دیتے ،خرد نوازی اس قدر کرتے کہ چھوٹوں کو بھی اپنے بڑے ہونے کی غلط فہمی ہونے لگتی ۔
 قاری صاحب سے میری ملاقات امارت شرعیہ آنے سے پہلے سے تھی ، ہم دونوں کے ایک مشترکہ ممدوح حضرت مولانا شمس الحق ؒ سابق شیخ الحدیث جامعہ رحانی مونگیر تھے، جن سے میری وطنی قربت ہے اور ان کے گاؤں کے قریب واقع مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں مدرس ہواکرتاتھا، اس لیے قاری صاحب اپنے رفقاء کے ساتھ جب بھی چک اولیاء وارد وتے تو کسی نہ کسی عنوان سے ملاقات کی شکل بن جاتی ، قاری صاحب بھی مجھ سے محبت کرتے تھے اور مولانا شمس الحق صاحب بھی، اس لیے کئی بار ایسا ہوا کہ قاری صاحب نے نوادہ میں کوئی پروگرام کرایا ، مولانا شمس الحق صاحب مدعو ہوئے تو مجھ حقیر کو بھی یاد کیا گیا، سی اے اے این آر سی مخالف تحریک میں نوادہ میرے ہی حصہ میں تھا، اس لیے ان کی صحبت اور پروگرام میں ایک ساتھ شرکت کے خوب مواقع ملے، قاری صاحب سے آخری ملاقات ہندوستان کے ’’موجودہ حالات اور ان کے حل‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے پروگرام میں ہوئی تھی، وہ تنفس کی شکایت اور دیگر عوارض کے باوجو د اس پروگرام میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے، اور فکر ونظر چینل کو اس اجلاس کی اہمیت پر انٹر ویو بھی دیا تھا۔
قاری صاحب ہزاروں حفاظ ، قراء اور علماء کے استاذ اور مربی تھے، ایسی با فیض شخصیت کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا عظیم علمی ،ملی ودینی نقصان ہے، اللہ رب العزت قاری صاحب کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل کے ساتھ دار القرآن عظمتیہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...