Powered By Blogger

اتوار, ستمبر 22, 2024

بہار کے ذریعہ اردو فکشن کا مستقبل روشن ہے۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری

بہار کے ذریعہ اردو فکشن کا مستقبل روشن ہے۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری
 شہاب ظفر اعظمی کا طرز تنقید انفرادیت رکھتا ہے۔عبدالصمد
اردودنیانیوز۷۲ 
پٹنہ ( پریس ریلیز )

بہار میں اردو فکشن کی تو انا روایت رہی ہے جو سہیل عظیم آبادی ، اختر اور بینوی، شکیلہ اختر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ۔ اس خیال کا اظہار معروف ناقد اور شعبۂ اردو چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی کے صدر پروفیسر اسلم جمشید پوری نے شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں ایک تقریب میں کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئے فکشن کو اعتبار قائم کروانے میں عبدالصمد غضنفر، آفاقی ، ذوقی حسین الحق ، شموئل احمد ذکیہ مشہدی اور شوکت حیات وغیرہ کا بڑا رول رہا ہے۔ بالکل نئے لکھنے والوں میں او بیناش امن، نورین علی حقی ، نیاز اختر ، فیاض احمد وجیہ، رومانہ تبسم اور نیلوفر یاسمین وغیرہ افسانے کی دنیا کو وسیع کر رہے ہیں جبکہ ناولوں میں عبدالصمد ، صغیر رحمانی، احمد صغیر ، وغیرہ کی اقتدا میں سلمان عبد الصمد، پیسین احمد وغیرہ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ نئے لکھنے والے صرف تہذیب کا رونا نہیں روتے ، ان کی تخلیقات پچاسی فیصد دیگر آبادی کے مسائل و موضوعات کا بھی احاطہ کرتی ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اردو فکشن کا مستقبل بہار کے لکھنے والوں کے توسط سے محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ واضح ہو کہ شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں آج ایک قومی سیمینار کا انعقاد کیا گیا تھا جس کی صدارت معروف فکشن نگار عبد الصمد نے کی اور کلیدی خطبہ پر وفیسر اسلم جمشید پوری نے پیش کیا۔ اس موقع پر شعبے کے استاد ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کے تنقیدی مضامین کے مجموعہ ” اردو فکشن تنقیدات و تفہیمات کا اجرا ابھی عمل میں آیا جسے ڈاکٹر عارف حسین نے ترتیب دے کر پیش کیا ہے۔ بہار میں نے فکشن اور شہاب ظفر اعظمی کی فکشن تنقید پر پروفیسر عبدالصمد، پروفیسر افسانہ خاتون ، ڈاکٹر شاداب علیم اور ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے بھی
اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے معروف فکشن نگار عبد الصمد نے کہا کہ بہار نے ۱۹۸۰ کے بعد اردو فکشن کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے میں بڑا رول ادا کیا ہے۔ مگر ایک اہم سوال ہے کہ اردو میں بڑا ناول کیوں نہیں لکھا جا رہا ہے؟“۔ ضرورت ہے کہ فکشن پر بڑے سیمینار اور ورک شاپ ہوں اور ان میں اس سوال پر غور کیا جائے اور نئے لکھنے والوں کی ضروری تربیت کی جائے۔ انہوں نے زور دیا کہ ادب کی تخلیق محنت طلب کام ہے، نئے لکھنے والوں کو نجات پسندی سے کام نہ لے کر محنت اور صبر سے کام لینا چاہیے۔ پروفیسر افسانہ خاتون نے شہاب ظفر اعظمی کی تنقیدی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی کتاب کو فکشن کی تفہیم میں اہم کتاب قرار دیا اور طلبہ کو تلقین کی کہ جس طرح شہاب ظفر ادبی وغیر ادبی سیاست سے دور رہ کر صرف کام پر توجہ دیتے ہیں ۔ اسی طرح آپ بھی اپنے کام پر توجہ دے کر اپنی شناخت قائم کریں ۔ جد و جہد اور مسلسل محنت سے ہی آپ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
 انہوں نے شعبہ اردو کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کسی شعبے کی رونق اس کے بچوں سے ہوتی ہے اور یہ بھرا ہوا حال ثبوت ہے کہ شعبہ اردو اپنے بچوں کی تربیت
احسن طریقے سے کر رہا ہے۔شعبہ اردو میرٹھ یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر شاداب علیم نے شہاب ظفر اعظمی کی کتاب کے لئے انہیں مبارکباد دیتے ہوئے ان کی تنقید نگاری پر گفتگو کی اور کہا کہ ادب و تنقید کے تعلق سے ان کے نظریات بہت واضح ہیں ۔ وہ تنقید میں استہزائی اور منفی لہجہ کے قائل نہیں ہیں۔ ان کی گفتگو ہمیشہ معتدل رہتی ہے۔ وہ فکشن کی باریکیوں سے کما حقہ واقف ہیں ۔ وہ نظریاتی اصولوں کے ساتھ ساتھ عملی شواہد بھی پیش کرتے ہیں۔ اپنی کتاب میں انہوں نے ۱۷ مضامین کلاسیکی وجدید فکشن کے تعلق سے لکھ کر اپنے ہمہ جہت مطالعے کا ثبوت دیا ہے۔
شعبہ اردو چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی کے استاد اور نوجوان نا قد ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے بھی شہاب ظفر اعظمی کے تنقیدی رویئے پر اپنی آرا پیش کی اور کہا کہ شہاب صاحب کا ذہن تنقیدی میدان میں تعصبات و تحفظات سے پاک ہے۔ انہوں نے ہم عصر فلکشن پر خاص نگاہ رکھی ہے۔ وہ ٹکشن جمالیات کے ساتھ ساتھ کلاسیکی افسانوی روایت پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ پروگرام کا آغاز کتاب کی مرتب ڈاکٹر عارف حسین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اس کے بعد صدر شعبہ اردو ڈاکٹر سورج دیوسنگھ نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے ان کی شرکت کے لیے ہدیہ تشکر پیش کیا۔ پروگرام کی پیش روی ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے کی جبکہ انتظام و انصرام کی ذمہ داری شعبے کے طلبہ واسکالرز بالخصوص فیاض کریم ، واصف اعلم معظمی، عافیہ بشری، شیر میں تسنیم ، آفرین عالیہ ، رحت ظہیر محمد هنو از قمر الزماں، کمیل رضا محمد عطا اللہ شاذیہ خاتون وغیرہ نے بخوبی نبھائی۔ اس تقریب میں ڈیڑھ سو سے زاید طلبہ طالبات کے علاوہ عظیم آباد کے ہم اساتذہ اور معتبر شخصیات نے شرکت کی جن میں پروفیسر صفدر امام قادری فخرالدین عارفی ، ڈاکٹر اے کے علوی، ڈاکٹر جاوید حیات ، ڈاکٹر سرور عالم ندوی ، ڈاکٹر صادق حسین، نوشاد احمد عاطر ، عبد الباسط حمید محمد جلال الدین، سہیل انور، بالمیکی رام ، مسرت جہاں نور السلام ندوی، رہبر مصباحی، افضل حسین ، حبیب مرشد خان افقی احمد جان، ہاشم رضا مصباحی، سلیم اختر ، ابوالکلام آزاد محمود عالم، نرجس فاطمہ، صفدری صاحب، انوار اللہ صحافی ، ضیائ الحسن صحافی وغیرہ کے نام شامل ہیں ۔

ہفتہ, ستمبر 21, 2024

آخری گناہ

آخری گناہ
اردودنیانیوز۷۲ 
                       ٭ انس مسرورانصاری
                            9453347784 
     انسانی معاشرہ میں پھیلتی ہوئی برائیوں سےچشم پوشی اختیارکرناکسی قوم کاآخری گناہ ہوتاہے۔پھر
قدرت اُس قوم کومعاف نہیں کرتی۔تباہی وبربادی اُس کامقدّربن جاتی ہے۔تاریخ کامطالعہ کیجئے تومعلوم ہوتاہے کہ اس خاک دانِ گیتی پربہت سی قومیں پیدا ہوئیں،اُبھریں اورعروج حاصل کیا۔عیش پرستی اور مختلف خرافات میں مبتلاہوئیں ۔پھرتباہیوں کے سیلاب میں ڈوب گئیں۔ ان میں سے بعض کے صرف آثاروقرائن باقی رہ گئے۔ 
          عجیب لوگ تھے صدیوں توسربلندرہے
          مگر مٹے تو نشا نِ مز ا ر تک نہ رہا۔ 
                       (انس مسرورؔانصاری)
  دراصل برائیاں چھوت کی مہلک بیماریوں کی طرح ہوتی ہیں۔غیرمحسوس طریقہ سے معاشرہ میں اندرہی اندرپرورش پاتی اورنشوونماحاصل کرتی رہتی ہیں۔چونکہ انسان کوحظِ نفس کاسامان فراہم کرتی ہیں،وقتی لذّتوں سے ہم کنارکرتی ہیں اس لیے اّن کی بیخ کنی کے لیے پیش بندی کی طرف توجہ نہیں ہو پاتی اورقصداََبھی نطراندازکیاجاتاہے ۔سب سے پہلے معاشرے کامقتدرطبقہ اُنہیں اپناتااورگلے لگاتاہے۔ابتداء میں برائیاں پوشیدہ طریقے پراعلیٰ طبقہ میں رائج ہوتی ہیں لیکن جب آہستہ آہستہ اُن کے منفی اورتباہ کن نتائج کااحساس کم ہوجاتاہے یاجب کثرتِ گناہ سے احساسِ گناہ ختم ہوجاتاہےتو یہ برائیاں پردۂ خفاسے باہرنکل آتی ہیں اورچونکہ معاشرے کے اعلیٰ طبقہ کے اعمال وافعال کے اثرات براہِ راست عوامی طبقوں پرپڑتے ہیں اس لیے اچھے اعمال کے ساتھ مذموم افعال بھی اعلیٰ طبقہ سے ادنیٰ اورمتوسط طبقوں میں چلے آتے ہیں ۔جس طرح چھوٹے لوگ ہرمعاملہ میں بڑے لوگوں کی اتباع اورتقلیدکرتے ہیں اسی طرح یہ لوگ اپنے معاشرہ میں ان برائیوں کوبھی رائج کر لیتے ہیں۔مقتدرطبقہ میں ان برائیوں کاانسدادجس قدرآسان ہوتاہے،چھوٹےاورکم خوانداہ طبقوں میں اتناہی مشکل اورکبھی کبھی ناممکن۔ ساہوجاتاہے۔بغیرکسی روک ٹوک اوردشواری کے برائیاں معاشرے میں نشوونما پاتی رہتی ہیں ۔رفتہ رفتہ اُن کادائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتاجاتاہے جس کالازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ اُن کی جڑیں بہت گہرائی تک پیوست ہوجاتی ہیں اوراپنے تباہ کن اثرات پھیلاتی رہتی ہیں ۔ظاہر ہے کہ ایسے معاشرہ اورقوم کاانجام نہایت عبرت ناک ہوتاہے۔اسی لیے اسلام میں بلکہ تمام مذاہب میں انھیں روکنے اورطاقت کے استعمال سے ختم کرنے کی تاکیدکی گئی ہےاوراگر انھیں روکنے کی طاقت نھیں تواُن سے دوررہنے اورگریز کرنے کاحکم دیاگیاہے۔
 قوم کے افرادجب معاشرتی برائیوں سے آنکھیں چرانے لگتے ہیں اوراُن کے انسداد کاجذبہ پیدانہیں ہوتا توبچے کھچے صالح عناصرکمزوراوربے جان ہوجاتے ہیں ۔چونکہ اُنھیں کسی طرف سے طاقت نہیں مل پاتی اس لیے معصیت کے مقابلہ میں اُن کی قوتِ مدافعت بیکارہوجاتی ہے۔برائیاں دیمک کی طرح معاشرےکوا۔ندر ہی اندر چاٹ جاتی ہیں۔یہ وہ آخری گناہ ہے جسے ہم اس قوم کی تباہی وبربادی کاپیش خیمہ کہہ سکتے ہیں۔ اس تناظر میں اگرہم برصغیرمیں مسلم قوم کی معاشرت کاجائزہ لیں توبے حدتکلیف دہ معاملات و مسائل سامنے آتے ہیں۔ مسلمانوں کے علاوہ کوئی قوم ایسی نہیں جس نے اپنی اچھائیاں دے کر دوسری قوموں کی برائیاں قبول کرکے اپنے معاشرہ میں داخل کرلی ہوں۔انھیں ہرچمکتی ہوئی چیزسونانظرآتی ہے۔موجودہ زمانہ میں مسلم معاشرہ بری طرح انحطاط کاشکارہے۔ ارتدادکافتنہ۔جہیزکی لعنت۔عقدِ ثانی سے گریز بلکہ نفرت۔آپسی اختلاف وانتشار۔مسلکی لڑائیاں۔ سودخوری کی لعنت ۔جھوٹ ،بے ایمانی افتر اق و مغائرت۔سرمایہ پرستی۔خودغرضی وبدخلقی۔وغیرہ جیسے معاملات عام ہیں ۔اس کاسیدھامطلب یہ ہے کہ اس قوم کے مذہبی،سماجی اورسیاسی رہنماؤں نے اپنی ذمہ داریوں کوفراموش کرتے ہوئے اس قوم کواس کے حال پرچھوڑدیاہے۔مسلم معاشرہ میں رائج برائیوں سے چشم پوشی ناقابلِ معافی جرم ہے ۔اس کا احتساب آخرت کی دنیا میں ہوگا۔ان برائیوں کے تدارک کے لیے ہمارے رہنمااپنی طاقت اوراثرورسوخ کااستعمال نہیں کرتے۔بس وعظ ونصیحت کوکافی سمجھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صالح معاشرہ کی تشکیل فرمائی تھی جومسلم قوم کے لیے ماڈل معاشرہ تھالیکن موجودہ مسلم قوم نےاسے مسترد کردیااورنئے معاشرتی ،غیرحقیقی معاشرہ کی تشکیل کی۔ اورتباہ وبرباد ہے۔
    کثرت کے اعتبا رسے یوں توخطیرہے 
     پھربھی نگاہِ دہر میں بے حدحقیرہے 
    قرآن بھی خدابھی رسولِ کریم بھی 
    کُل کائنات اس کی ہے لیکن فقیرہے 
                                                      ٭٭
                   * انس مسروراؔنصاری 
         anasmasrooransari@gmail.com

جمعرات, ستمبر 19, 2024

مدارس اسلامیہ کنونشن میں منظور شدہ تجاویز

مدارس اسلامیہ کنونشن میں منظور شدہ تجاویز
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ نے "  مدارس اسلامیہ کنونشن " منعقدہ المعہد العالی ہال پھلواری شریف پٹنہ بتاریخ: 15/ ستمبر 2024ء روز اتوار بعد نماز مغرب مدارس اسلامیہ  کو درپیش خطرات کی روشنی میں تجاویز پیش کیں،جس کو شرکاء نے ہاتھ اٹھا کر منظوری دی تجاویز کا متن حسب ذیل ہے۔
مدارس اسلامیہ اور اس کا تعلیمی تدریسی اور تربیتی نظام ہر دور میں فرقہ پرستوں کی سازش کا نشانہ بنتا رہا ہے، مختلف موقعوں پر اس کی کار کردگی پر سوالات اٹھائے گئے اور اس کی خدمات کو معطل کرنے کی کوشش کی گئی ، امارت شرعیہ کے اکابر نے ہر دور میں ایسی مذموم کوششوں کا دفاع کیا ، ملک میں نئی تعلیمی پالیسی نافذ کی گئی تو مدارس کے وجود ہی کو خطرہ لاحق ہو گیا، یہ فرضی اور موہوم احساس نہیں بلکہ آسام میں مدارس کو سرکاری طور پر اسکول میں تبدیل کرنے کی عملی کوشش اور اتر پردیش میں یوگی حکومت کے ذریعہ مداس بند کر کے طلبہ کو اسکولوں میں منتقل کرنے کا حکم اس احساس کو یقین میں تبدیل کرتا ہے ، ضرورت ہے کہ مدارس کے ذمہ داران اس طرف توجہ دیں؛ تا کہ ملت کے اس قیمتی اثاثے کاتحفظ ہو سکے ، اس صورت حال کے پیش امیر شریعت مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کی صدارت میں منعقد کنونشن کے شرکاء متفقہ طور پر درج ذیل تجاویز منظور کرتے ہیں اور ان تجاویز پر عمل درآمد کو یقینی
بنانے کی مدارس کے ذمہ داروں سے اپیل کرتے ہیں: 
(1) مدارس اسلامیہ نے ہر دور میں ملک میں خواندگی کے تناسب کو بڑھانے ، غریبوں میں خصوصیت سے تعلیم کو فروغ دینے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو پروان چڑھانے میں لائق تحسین اور قابل قدر خدمات انجام دی ہیں، یہ مدارس دستور ہند کی دفعات 29اور 30 کے تحت قائم ہیں، یہ اجلاس اسے غیر قانونی قرار دیکر بند کرانے کی کوششوں اور منصوبوں کی پرزور مذمت کرتا ہے اور حکومت پرواضح کر دینا چاہتا ہے کہ مسلمان اس قسم کی نازیبا حرکت کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتے اور اپنے دستوری حقوق کی بقاء، بازیابی اور رو بعمل رکھنے کے لیے ضروری اقدامات سے باز نہیں آئیں گے۔
(2) مدارس اسلامیہ کی آراضی جائیداد وغیرہ کو سرکاری ضابطوں کے مطابق رجسٹر ڈ کرایا جائے ، رجسٹریشن کا یہ کام سوسائٹی ایکٹ یا ٹرسٹ بنا کر بھی کرایا جا سکتا ہے۔
(3) معاصر دینی تعلیم کو مدارس کے بنیادی رول میں تبدیلی کیے بغیر عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔
(4) تعلیم کو معیاری بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مدارس میں تدریسی آلات کا سہارا لیا جائے ، اس سے افہام وتفہیم میں سہولت پیدا ہوتی ہے ، مدارس میں بھی عملی تدریس ( پریکٹیکل ) کو رائج کیا جائے عملی تدریس کا مطلب یہ ہے کہ صبح صادق صبح کاذب ، سایہ اصلی مثل مثلین، شفق وغیرہ کی تدریس صرف کتابی نہ ہو اس کا مشاہدہ بھی کرایا جائے۔ (5) سرکاری محکمہ کو مطمئن کرنے کے لیے مدارس میں آمد و خرچ اور گوشوارے کا اندراج محاسبی کے جدید اصول و ضوابط کے مطابق کیا جائے ۔ اگر حسابات کا جمع کرنا سرکاری دفاتر میں ضروری ہو تو اس سے کسی بھی حال میں صرف نظر نہ کیا جائے۔
 (6) محکمہ بہبودی اطفال کے معیار کے مطابق مد اس میں طلبہ کے خوردونوش اور رہائش کا انتظام کیا جائے یہ طلبہ کی ذہنی و جسمانی نشو و نما کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
(7) طلبہ کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے ، غیر شرعی اعمال اور لہو ولعب سے بچانے کے لیے ان پر نگاہ سخت رکھی جائے ، اس کا مطلب جسمانی تعذیب نہیں ہے، نفسیاتی طور پر بار بار کی کونسلنگ کے ذریعہ انھیں نماز پنج گانہ، تلاوت قرآن، درس کی پابندی ،ضروری ورزش کا پابند بنایا جائے۔
(8) امارت شرعیہ کا وفاق المدارس الاسلامیہ حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کی صدارت میں انھیں خطوط پر کام کرتا ہے یہ وفاق ایک نظام و نصاب کو مدارس میں رائج کرانے کی ایک کوشش ہے، مدارس کا الحاق اس سے کرانا بھی مفید ہے، اس سے طلبہ میں ریاستی سطح پر امتحانات میں مقابلے اور مسابقے کا مزاج بنے گا اور وہ تمام مدارس کے طلبہ سے مقابلہ کی ہمت جٹا پائیں گے،مدارس میں پڑھا کر خود سے امتحان لینا طلبہ کی صلاحیت کو محد و داور ان کے مسابقاتی مزاج کو ختم کرتا ہے۔
(9) بنیادی دینی تعلیم کا حصول تمام مسلمانوں پر فرض ہے، مدارس اسلامیہ اپنے قریب کے چند گاؤں کو گود لے کر وہاں مکتب کا نظام قائم کریں تا کہ کوئی بچہ دینی تعلیم سے محروم نہ رہے۔ 
(10) اصلاح معاشرہ کی ضروت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اس کام کو صرف جلسے جلوس پر منحصر نہ رکھا جائے ، بلکہ غیر رسمی انداز میں اصلاح کی شکلیں پیدا کی جائیں، معاشرہ کی اصلاح کے ذریعہ ہی ہم مسلم لڑکیوں میں ارتداد کے بڑھتے فتنہ کو روک سکتے ہیں ۔

مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے، ایک مطالعہ۔

مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے، ایک مطالعہ۔
محمد ضیاء العظیم، معلم چک غلام الدین ہائی اسکول ،ویشالی بہار 
موبائل نمبر 7909098319
اردودنیانیوز۷۲ 
مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے ڈاکٹر محمد حفظ الرحمن کی ایک شاہکار تصنیف ہے جو اردو ڈائریکٹوریٹ کی اشاعتی امداد سے شائع کی گئی ہے ۔
کتاب دیکھ کر ہی مصنف محترم کی کاوش اور محنت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
دو سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کی کمپوزنگ نورالدین محمد قاسمی نے کی، اس کی طباعت سن 2021 میں ہوئی، تین سو روپے کی یہ کتاب مرکز المعارف حضرت بشارت کریم سیتا مڑھی بہار، اور مدرسہ بحر العلوم مظفر پور بہار سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔
مصنف نے کتاب دو حصوں میں تقسیم کی ہے ،
حصہ اول (نصاب تعلیم) جس میں پانچ عناوین ہیں،
فہرست عناوین حصہ اول 
1  موجودہ علمی تحدیاں اور مدارس اسلامیہ
2  مشترکہ تعلیمی لائحہ
3  تخصص فی الاساسیہ
4 تخصص فی الإقتصاد
5  تخصص فی علم الاجتماع

حصہ دوم میں (مشورے اور گزارشیں) گیارہ عناوین ہیں، 

فہرست عناوین حصہ دوم 
1  انگریزی کے اساتذہ کی قلت کا مسئلہ
2  فارسی کتب سے استفادہ میں مشکلات
3   انگریزی داں علماء اور مدارس ومساجد
4  نصاب میں تبدیلی کے مثبت اثرات
5   اتحاد ملت اور مدارس اسلامیہ
6    ہماری ترجیحات میں تبدیلی ضروری
7   مدارس اسلامیہ اور عصری تعلیم
8    اسلامی اقامت خانہ کا قیام
9    دینی وأخلاقی تربیت
10  مدارس اور مسجد کی نام گزاری
11    اختتامیہ

مصنف نے کتاب کا انتساب اپنے والدین کے نام کیا ہے ۔
کتاب کی تقریظ مشہور ومعروف اور مقبول عالم دین مولانا احمد بیگ ندوی، سابق استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ ،اور ماہر تعلیم مولانا بدیع الزماں ندوی قاسمی بانی و مہتم جامعہ فاطمہ للبنات مظفر پور،بہار نے لکھی ہے، جس میں مصنف کے طرز تحریر، اسلوب تحریر، اور خاصیت تحریر کا بہترین جائزہ لیتے ہوئے مثبت تاثرات سے نوازتے ہوئے ان موضوعات پر اپنے اطمنان کا اظہار کیا ہے ۔
بعدہ سطور اولین میں مصنف محترم نے ہندوستان کی قدیم تاریخ (1857) میں ہندوستانی تہذیب وثقافت کے ساتھ ساتھ تعلیم پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات کا تذکرہ کیا ہے،
نیز کتاب میں شامل مضامین، وجہ تالیف وتصنیف، اور ان تمام دوست واحباب، خویش واقارب کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے اس تصنیفی سفر میں ان کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آخری عنوان اختتامیہ میں مجموعی طور پر کتاب کے تمام مضامین کا خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، انہوں نے مدارس اسلامیہ کی اہمیت و افادیت اور موجودہ دور میں اس کی ضرورت و مقاصد کے سلسلے میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ دلچسپ پیرائے میں مدلل بیان کرکے اس تصنیف کو با مقصد بنانے کی بھر پور سعی کی ہے ۔
یقیناً انسانوں کی ترقی وکامیابی تعلیم میں پوشیدہ ہے، تعلیم وہ زیور ہے جو طرز زندگی، اصول بندگی، اور سلیقۂ زیست سے متعارف کراتا ہے ۔
دنیا کے تمام علوم وفنون کی اصل اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو وہ قرآن مجید کی تعلیمات اور اس کے مفاہیم ہیں، اللہ رب العزت نے اس کے نزول کے آغاز ہی میں تعلیم کی ترغیب دلائی ہے، اور تعلیم کا مقصد صرف یہ ہے کہ معرفت الہی پیدا ہو جائے، تعلیم خواہ جو بھی ہو لیکن اس کے حصول کا مقصد معرفت الہی ہو یہی تقاضۂ تعلیم ہے ۔سیدنا ابوالبشر آدم علیہ السلام کو اشرف المخلوقات بناتے ہوئے فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا، اس کا پس منظر بھی تعلیم ہی ہے ۔ "مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے"اس تصنیف میں موصوف محترم نے مدارس اسلامیہ کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ ان کے تعلیمی نصاب پر بھی گفتگو کی ہے، اور ساتھ یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ مدارس اسلامیہ کے نصاب میں عصری تقاضوں کے پیش نظر ترمیم واضافہ کی اشد ضرورت ہے اور یقیناً آپ نے جن پہلوؤں کی نشاندہی کی ہیں ان پر اہل مدارس کو غور وفکر کے ساتھ ساتھ مستقل اور مستقبل کے لئے لائحۂ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ مدارس اسلامیہ کے طلبہ وطالبات دنیاوی معلومات کی نا واقفیت کی بنا پر احساس کمتری کا شکار نہ رہیں ۔
 عام طور پر مدارس اسلامیہ میں طلبہ وطالبات کے لیے جن علوم دینیہ کو نصاب میں شامل کیا جاتا ہے ان میں شعبۂ حفظ و قرأت،دینیات ،عالمیت کورس کے دوران قرآن مجید، تفسیر قرآن، احادیث، فقہ، اصول فقہ، منطق فلسفہ، تاریخ وسیرت، عربی، اردو، فارسی زبان وادب وغیرہ ہے، جبکہ چند مدارس نے عصری بنیادی تعلیم کا بھی نظم ونسق کیا ہے ،ابتدائی انگریزی، ہندی، اور حساب وغیرہ کی بھی تعلیم دے رہے ہیں جو کہ ایک اچھی پہل اور شروعات ہے،
لیکن یہ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم موجودہ دور کے لئے ناکافی ہے، بلکہ اس میں ترمیم واضافہ کی ضرورت ہے، ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مدلل اورمثبت انداز میں ایک لائحۂ عمل تیار کیا جانا چاہیے ۔
کتاب کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں جس سے کتاب کے مضامین ومفاہیم اور مقاصد با آسانی سمجھے جا سکتے ہیں ۔۔۔
اقتباس ۔۔۔۔  "میڈیکل کالج اور مینیجمینٹ کالج میں ملکی قانون کا کچھ حصہ پڑھایا جاتا ہے،لیکن اس کی تدریس کے لئے وہی حصے منتخب کئے جاتے ہیں جو ان حضرات کے کیریئر میں معاون ہو سکتے ہیں، کیونکہ قانون کو درس میں شامل کرنے کا مقصد یہاں عدالتوں کے لئے وکلاء اور ججز فراہم کرنا نہیں بلکہ قانون سے ناواقفیت ان کے اپنے میدان میں جن نقصانات کا باعث ہو سکتی ہے ان سے بچانا ہوتا ہے"
پس اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے مشترکہ تعلیمی لائحہ میں ایک ایسی کتاب تصنیف کرکے نصاب میں شامل کیا جانا چاہئے جو اس ضرورت کو پوری کر سکے۔
اس کتاب میں آئین ہند کے چند اہم ابواب جیسے بنیادی حقوق (fundamental rights)، بنیادی فرائض (fundamental duties)، رہنما اصول (directive principles) اور کچھ اہم دفعات، اس کے علاوہ سول کوڈ اور کرمنل کوڈ کا بنیادی فرق، پرسنل لاء اور سول کوڈ کی قانونی حیثیت، وقف ایکٹ اور اوقاف مینیجمینٹ کا قانونی و انتظامی طریقۂ کار، پرائیویٹ ڈیفینس کی اہمیت اور قانونی حدود وغیرہ اجمالی طور پر شامل ہوں۔ اسی کے ساتھ یہ ضروری ہوگا کہ سول پروسیجر اور کرمنل پروسیجر کی مکمل معلومات انہیں فراہم کیا جائے اور ایف آئی آر اور استغاثہ کی عملی مشق کرا دی جائے، تاکہ فارغین مدارس  امت کے تحفظ کا کام بہتر طور پر ادا کر سکیں اور ہر سطح پر اوقاف کی حفاظت کرنے اور انھیں نفع بخش بنانے کا کام منظم طور پر انجام پانے لگے۔
تجربہ کار قانون دانوں کی نگرانی میں ایسی کتاب تیار کی جانی چاہئے اور پھر بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ اس کی تجدید بھی ہوتی رہے، تاکہ قانون میں آئی ترمیم اسے بے فائدہ نہ کردے۔۔۔
مزید کتاب کے مضامین کو سمجھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضروری ہے، اہل علم ودانشوران  سے ہماری گزارش ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ کرکے مدارس اسلامیہ کے تئیں جن پہلوؤں پر نشاندہی کی گئی ہیں ان پر توجہ دے کر مدارس اسلامیہ کی تعلیم کو مضبوط ومستحکم بنانے کی کوشش کی جائے ۔
ہم اپنی جانب سے اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے مصنف کی اس کاوش پر انہیں مباکباد پیش کرتے ہیں اور ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ اللہ ان کی اس تصنیف کو قبول فرمائے، آمین ثم آمین

اتوار, ستمبر 15, 2024

محبت رسول ؐکے عملی تقاضے

محبت رسول ؐکے عملی تقاضے
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

یہ ربیع الاول کا مہینہ ہے، یہی وہ مہینہ ہے جس میں رحمۃ للعالمین ، شفیع المذنبین، محبوب رب العالمین ، ضعیفوں کے ماویٰ، یتیموں کے ملجا،مظلوموں کے خیر خواہ ، وجہ تخلیق کائنات اور حقوق انسانی ، سماجی مساوات، تحفظ ماحولیات کے سب سے بڑے داعی تشریف لائے،یہ مژدہ تھا دکھی انسانیت کے لئے ،ابررحمت تھا، کائنات کے لئے ، تمہید تھی خدا ئے واحد کی پرستش کی، اس لئے مسلمان اس مہینے میں مسرت کے اظہار کے لئے جلوس محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نکالتے ہیں اور یوم بانی اسلام مناتے ہیں جو شرعی ہدایات کے مطابق نہیں ہوا کرتیں،مختلف جگہوں پر ذکر نبی کی مجلسیں منعقد ہوتی ہیں ، اور مسلمان اپنی محبت وعقیدت کا اظہار کرتے ہیں ، بارہ ربیع الاول گذرااور پھر عام لوگ بھول جاتے ہیں کہ اظہار محبت وعقیدت کے تقاضے کچھ اور ہیں،سیرت پاک کا مطالبہ ہم سے کچھ اور بھی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو اسوہ ٔ رسول کے مطابق بنائیں ، اللہ سے محبت کا تقاضہ اور آپ کی حیات مبارکہ کو نمونۂ عمل بنانے کا خلاصہ بھی یہی ہے ، لیکن آج صورت حال اس کے بالکل بر عکس ہے۔
 واقعہ یہ ہے کہ ہماری واقفیت سیرت پاک سے بہت کم ہے، مدارس کے علماء ، طلبہ کی بات نہیں ، عام مسلمانوں کی بات ہے ، اس موقع سے اگر ہم جائزہ لیں تومعلوم ہوگا کہ نماز میں درود وسلام اور مجلس میلاد میں درود وشریف پڑھنے کے علاوہ پورے سال ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پردرودپڑھنے کا اہتمام ہی نہیںکیا ، حالانکہ درود شریف پڑھنے کاحکم تو قرآن کریم میں مذکور ہے کہ اللہ رحمت بھیجتے ہیں، اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی درودوسلام پڑھو ، اس حکم کی بنا پر جتنا اہتمام درود شریف کا کرناچاہئے اور ہر دن کرنا چاہئے ،اس کا کوئی حصہ ہماری زندگی میں نہیں پایاجاتا ، ہر آدمی اپنے گریباں میں منہ ڈال کر دیکھے کہ اس نے پورے سال کتنی بار درود شریف پڑھا ، لطیفہ یہ ہے کہ درود شریف پڑھنے کا اہتمام نہیں ہے ، لیکن درود شریف پڑھنے کے طریقے پر جھگڑے ہورہے ہیں ، یہی حال سیرت پاک سے ہماری واقفیت کا ہے، اس معاملے میں ہماری معلومات سطحی ، ناقص اور نامکمل ہے ، کیوں کہ ہم نے سیرت النبی پر باقاعدہ ولادت با سعادت سے وصال تک کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا ، ہمارے بچے جس اسکول اور کنونٹ میں پڑھتے ہیں ،وہاں مطالعۂ سیرت کا کوئی موقع نہیں ہے ، اس لئے اگر کوئی بچہ ناواقف ہے تو غلطی اس کی نہیں ہے، ہماری ہے کہ ہم نے اسے سیرت کے مطالعہ کا موقع نہیں دیا، ہم نے بہت سارے موضوعا ت پر مقابلے کے لئے اسے تیار کیا ،لیکن تاریخ اسلام اور سیرت پاک کی واقفیت اس کے پاس واجبی بھی نہیں ہے۔
 دن رات ہم پتہ نہیں کس کس سے چاٹنگ کرتے رہتے ہیں ، سوشل سائٹس کے ذریعہ کتناساراوقت غیر ضروری، بلکہ نامناسب مکالموں میں گذار دیتے ہیں ، کیسی کیسی تصویریں لوگوں کو بھیجتے رہتے ہیں؛لیکن کیا ہم نے یہ سوچا اور اس کی کوشش کی کہ اس سہولت کو ہم سیرت پاک کے واقعات کو عام کرنے کے لئے استعمال کریں گے ، چند احادیث کا انتخاب کرکے اپنے کسی دوست کو کبھی بھیجا کہ یہ دیکھو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ اچھا انسان وہ ہے جو لوگوں کے لئے نفع بخش ہو، اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے ظالم ہویا مظلوم ، ظالم کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم سے روک دو ، مظلوم کی مدد یہ ہے کہ اس کا حق دلا کر دم لو ، یا پھر یہ حدیث پاک کہ تم میں اچھا وہ ہے، جو اپنے اہل و عیال کے لئے اچھا ہواورمیں اپنے اہل و عیال کے لئے تم میں سب سے بہتر ہوں ،ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے محبوب وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ بہتر سلوک کرے ، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہے، اللہ اس کی مدد میں رہے گا ، جو شخص دوسرے کے ساتھ رحم کا برتائو نہیں کرتا ، اللہ بھی اس پر رحم نہیںکرتا ، وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا، جس کا پڑوسی اس کی ایذا سے محفوظ نہ ہو ، حلال کمائی کی تلاش بھی ایک اہم فریضہ ہے ، بے بنیاد باتوں پر کان نہ لگائو ، دوسروں کے عیب نہ تلاشو ، آپس میںبغض نہ رکھو، آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو ، جنت ماں کے قدموں تلے ہے ۔ اس قسم کی کتنی احادیث کتب احادیث میں مل جائیں گی، اگرآپ نے پانچ پانچ لوگوں تک ان احادیث کو پہونچانے کا اہتمام کرلیااوراس میں اپنے غیر مسلم بھائیوں کو بھی شریک کرلیا تو سوچئے کتنا بڑاعلمی انقلاب آجائے گا اور کس قدر غلط فہمیاں دور ہوں گی۔
 اس لئے طے کیجئے کہ ہرروز درود شریف کا ور د کثرت سے کریں گے ، اس ماہ مبارک میں سیرت پر کم از کم ایک کتاب کا مکمل مطالعہ کریں گے ، جو پڑھنا نہیں جانتے ہیں، انہیں پڑھ کر سنائیں گے ،اس کے لئے آپ ’’رحمت عالم، سیرت النبی ،سیرت المصطفی ، اصح السیر ، نبی رحمت ، سیر ت ابن اسحاق، الرحیق المختوم ، سیر ت بن ہشام ، سیر ت حلبیہ وغیرہ کا انتخاب کرسکتے ہیں ، سوشل سائنٹس کا پورے مہینہ روزانہ سیرت پاک اور تعلیمات نبوی کو عام کرنے کے لئے استعمال کریں گے ، روزانہ اس کا م کے لئے اپنے دوستوں کو ، متعلقین کواورگروپ کے شرکاء کو میسج بھیجاکریں گے ، ائمہ کرام جمعہ کے خطبوں میں سیرت نبوی کی عصر حاضر میں معنویت کے حوالہ سے مصلیان کے سامنے تقریر کریں گے اور انہیں عمل پر ابھاریں کے ، جو لوگ اخبارات ورسائل کے مدیران ہیں، وہ اس مہم کو انجام دینے میں اپنی پوری حصہ داری نبھائیں گے، روزانہ سیرت پاک کے کسی گوشے پر معیاری اور معلوماتی مضامین شائع کریں گے ، ہرعلاقہ میں سیرت پاک کو عام کرنے کے لئے چھوٹے بڑے جلسے کریں گے اوراس میں غیرمسلم بھائیوں کو بھی شریک کریں گے جو سلجھے ہوئے لوگ ہیںاور غیرمسلموں میں جن کی معلومات سطحی نہیں ہے، انہیں بولنے کے لئے مدعو کریں گے، ہندی زبان میں اسلامک لٹریچر خصوصا سیر ت پاک پر کتابیں لوگوں تک پہونچائیں گے ؛تاکہ صحیح معلومات لوگوں تک پہنچ سکے۔ہم انہیں بتائیں گے کہ جان و مال ، عزت و آبرو اور عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا جیسا انتظام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ہے اور پرامن بقا ء باہم کے جو اصول آپ نے دیئے ہیں ،اس کی نظیر کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ اسکول و مدارس کنونٹ میں سیرت کوئز کے مقابلے منعقد کریں گے؛ تاکہ اس حوالے سے بچوں کی واقفیت سیر ت پاک سے ہوجائے ،ان کی حوصلہ افزائی کے لئے تشجیعی انعامات دیں گے، ان مقابلوں میں دوسرے اسکول اور اداروں کے بچوں کو بھی شریک کیا جاسکتا ہے ، مذہب کی بھی کوئی قید نہیں رکھی جائے ،اسٹیکر اور چھوٹے چھوٹے پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کرنے کاعمل بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے ، ہم کن کن ناموں پر ہفتہ وار تحریک چلاتے ہیں، سیرت پاک پر ماہانہ تحریک چلایئے اور گھر گھر پیغام پہونچایئے، بغیر جانے ہوئے عمل کرنا کسی طرح ممکن نہیں ، پہلے جانئے پھراپنی زندگی کو سیرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ڈھالئے ۔
واقعہ یہ ہے کہ آج ہماری زندگی سے اسوۂ رسول نکل گیا ہے ، ہمارے اور غیروں میں کلمہ کے علاوہ کوئی دوسرا فرق باقی نہیں رہ گیا ہے، نمازیں ہم نہیں پڑھتے ، روزوں میں بیمار ہوجاتے ہیں، زکوٰۃ کی ادائیگی مال سے محبت کی وجہ سے نہیں ہوتی، امانت داری، دیانت داری کا ہماری زندگی میں فقدان ہے، جھوٹ، غیبت ، کینہ اور حسد سے ہمارا سینہ بھرا ہوا ہے، بغض وعناد اور ایک دوسرے کو ذلیل کرنا ہماری زندگی کا وطیرہ بن گیا ہے، شادی بیاہ میں تلک جہیز کی لعنت ہمارے سماج میں نا سور کی طرح سرایت کر گئی ہے، لڑکیوں اور بہنوں کو ترکہ سے محروم کرنا ہماری عادت اور سرشت کا حصہ ہے، بچوں کی تعلیم وتربیت اسلامی نہج پر ہم نہیں کرتے ، خاندان اور اہل وعیال کے ساتھ اسلامی انداز کا تعلق ہمارے یہاں عنقا ہے، لباس میں بھی شریعت وسنت کے تقاضے مفقود ہیں، حدیث میں کاسیات عاریات، ملبوس ننگی عورتوں کا ذکر آیا ہے، ہماری عورتوں اور بچیوں کے لباس اس کی عملی تصویر پیش کرنے میں لگے ہیں، عورتیں گھر سے باہر دندناتی پھر رہی ہیں، شرم وحیا کا دور دور تک پتہ نہیں ہے، اختلاط مرد وزن آج فیشن بن گیا ہے، کھانے ، پینے،سونے جاگنے کسی کام میں اسوۂ رسول کی فکر نہیں ہوتی۔ اس صورت حال میں’’ رب مانی‘‘ کے بجائے ’’من مانی‘‘ زندگی گذارنے پر ہم زیادہ مطمئن ہیں، علامہ اقبال نے کہا تھا۔
 وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
ہم اس طرح دوسرے مذاہب کی تہذیب سے متاثر ہو گیے ہیں کہ مغرب کی اندھی تقلید نے ہماری زندگی میں بسیرا کر لیا ہے، آج جو اپنی زندگی کو سنت اور اسوۂ رسول سے قریب کرتا ہے ، اسے آؤٹ آف ڈیٹ سمجھا جاتا ہے، رجعت پسند ، دقیانوس اور نہ جانے کن کن القاب سے نوازا جاتا ہے، ربیع الاول کے اس مہینہ میں عہد کیجئے کہ دنیا چاہے جو کہے ہم اپنی زندگی کو اسلامی پیکر عطا کریں گے، عبادات ، معاملات اور معاشرت میں اسوۂ نبی کا خیال رکھیں گے، خوب یاد رکھیے یہ مسلمانوں کا شرعی ، مذہبی ، ایمانی اور دینی تقاضۃ ہے۔

جمعہ, ستمبر 13, 2024

آج کے اخبارات تراشے ہوے

آج کے اخبارات تراشے ہوے
اردودنیانیوز۷۲ 

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...