Powered By Blogger

منگل, نومبر 12, 2024

نومبر ،یوم پیدائش، آئی سی، سی آر کی جانب سے مولانا آزاد کے مزار واقع جامع مسجد دلی پرگل پوشی اور فاتحہ خوانی ھوئی، مفتی عطاءالر حمن قاسمی دعا کراتے ھوئے اور بنے بہرا وغیرہ دیکھے

---------------------------

نومبر ،یوم پیدائش، آئی سی، سی آر کی جانب سے مولانا آزاد کے مزار واقع جامع مسجد دلی پرگل پوشی اور فاتحہ خوانی ھوئی، مفتی عطاءالر حمن قاسمی دعا کراتے ھوئے اور بنے بہرا وغیرہ دیکھے جاسکتے ھیں
Urduduniyanews72 
مولانا آزاد اپنے عہد کے نامور عالم دین،مفسر قر آن ، محدث، فقیہ، متکلم، صحافی،ادیب ،انشاء پرداز ۔مجاھد آزادی، اور ھندوستان کے اولین وزیر تعلیم تھے، اب تو مولانا آزاد کے خیالات ونظریات کے قائل ومعترف پڑوسی ملک کے دانشور ورھنما بھی ھونے لگے ھیں اور انکی کی گئی سیاسی پیشنگوئیاں من وعن صادق آرہی ھیں،ان خیالات کا اظہار مولانا مفتی عطاءالر حمن قاسمی نائب صدر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اور صدر مولانا آزاد اکیڈمی نئی دھلی نے اخبار کے نمائندوں سے کیا اور مفتی صاحب نے مزید کہاکہ مولانا آزاد ازاول تا آخر دوقومی نظریہ اور تقسیم ملک کے مخالف رھے ھیں جبکہ انکے سیاسی رفقاء کار بتدریج آخری وائسرائے باون بٹن کے ھلاکت خیز فارمولہ کے فریب میں آچکے تھے،

مولانا آزاد تقسیم ملک کے ناقابل بیان اور ناقابل برداشت صدمے کے باوجود آراذ ھندوستان کی تعمیر وترقی میں ھمہ تن مصروف ھوگئےتھے اور انہوں ہی کے دور میں ان کے ہاتھوں وہ سارے کے سارے تعلیمی، تحقیقی، ثقافتی، (کلچرل)سائنسی، بین الاقوامی روابط کے ادارے اورادب، آرٹ و کلا اور فنون لطیفہ سے متعلق قائم ھوئے تھے جبکہ ھند وستان ابھی ابھی انگریزوں کی لوٹ کھسوٹ سے آزادھواتھا اورغریب ملک تھالیکن مولانا آزاد کا دماغ بڑا ذرخیر اور ثمرآور تھا، آزادی وطن کے ۷۵ سال بیت جانے کے باوجود ان میں ھم کوئی خاص اضافہ نہ کرسکے ھیں

Issued by Maulana Azad Academy, New Delhi 
attached photograph.

Regards, 
Maulana Mufti Ataur Rahman Qasmi
Maulana Azad Academy
New Delhi 
M-9891006857

بدھ, نومبر 06, 2024

تلاوت قرآن کی روح

تلاوت قرآن کی روح
Urduduniyanews72 
قرآن پاک اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے جو ہمارے لیے ہدایت، رہنمائی اور نجات کا ذریعہ ہے۔ اس مقدس کتاب کی تلاوت نہ صرف ایک عبادت ہے بلکہ ایمان کو تقویت دینے اور اللہ کے قریب ہونے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ تلاوتِ قرآن پاک میں تجوید یعنی صحیح مخارج اور اصولوں کے ساتھ پڑھنا ایک ضروری اور اہم عمل ہے۔
تجوید کی تعریف۔
تجوید کا معنی ہے "بہتر کرنا" یا "خوبصورت بنانا"۔ اسلامی اصطلاح میں، تجوید سے مراد قرآن پاک کو درست اور خوبصورت انداز میں پڑھنا ہے، جہاں ہر حرف کو اس کے صحیح مخرج اور صفات کے ساتھ ادا کیا جائے۔ تجوید کے اصول ہمیں سکھاتے ہیں کہ قرآن کے ہر حرف کو کیسے ادا کرنا ہے، تاکہ اس کا معنی صحیح طور پر ادا ہو اور اللہ کے کلام کی عظمت برقرار رہے۔
تجوید کی اہمیت:
قرآن پاک کی تلاوت میں تجوید کی پیروی بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے نہ صرف قرآن کو صحیح طرح سے سمجھا جا سکتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے الفاظ اور معانی میں جو حکمت رکھی ہے، اسے بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھنے کی تلقین کی ہے، جیسا کہ قرآن میں ہے۔
وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا"سورۂ مزمل:
ترجمہ: "اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کو صحیح تلفظ اور وقار کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔ تجوید کے بغیر پڑھنا کلامِ الٰہی میں تبدیلی یا تحریف کے مترادف ہو سکتا ہے، جو کہ انتہائی گناہ ہے۔
تلاوتِ قرآن میں تجوید کی اہمیت کے فوائد:
معانی کی درستگی:   جب ہم قرآن کو تجوید کے اصولوں کے مطابق پڑھتے ہیں، تو ہر لفظ اور جملے کا صحیح معنی واضح ہوتا ہے۔ غلطی سے کسی حرف کو غلط پڑھنے سے معنی تبدیل ہو سکتے ہیں، جو کہ ایک بڑا نقصان ہے۔
ثواب میں اضافہ: تلاوت کے ساتھ تجوید کے اصولوں کی پیروی کرنے سے اللہ کے ہاں اس کا اجر زیادہ ہو جاتا ہے۔ تجوید کے ساتھ قرآن کی تلاوت میں ایک خوبصورتی اور جذباتی تعلق پیدا ہوتا ہے جو دل کو سکون اور روح کو تازگی عطا کرتا ہے۔
اخلاق و ایمان میں بہتری: تجوید کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت انسان کی زندگی میں تبدیلی لاتی ہے۔ جب انسان تجوید کے اصولوں کے ساتھ اللہ کے کلام کو پڑھے گا تو اس کا دل نرم ہوگا، ایمان میں اضافہ ہوگا، اور اللہ کے احکامات پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔
تجوید کے مختلف اصول ہیں جیسے کہ غُنہ، مد، قلقلہ، اِخفاء، اِدغام، اور اِظہار وغیرہ۔ ہر اصول قرآن پاک کو خوبصورت اور دلکش انداز میں پڑھنے میں مدد کرتا ہے۔ تجوید کے اصول ہمیں حروف کو صحیح انداز میں ادا کرنے کا طریقہ سکھاتے ہیں، تاکہ کسی بھی غلطی سے معنی تبدیل نہ ہو۔
تجوید کی اہمیت کو اپنانا:
تجوید کے اصولوں کو سیکھنا اور اپنانا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ اس کے لئے مختلف ادارے اور علماء  قراحضراتموجود ہیں جو تجوید کی تعلیم دیتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو تجوید کے ساتھ قرآن پڑھنے کی تربیت دیں تاکہ قرآن پاک کی اصل حالت برقرار رہے اور اس کی برکتیں ہم پر سایہ فگن ہوں۔
نتیجہ:
تلاوتِ قرآن پاک میں تجوید کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے تاکہ اس کا مطلب اور پیغام صحیح طرح سے سمجھا جا سکے۔ تجوید کے بغیر پڑھنے سے غلطیوں کا اندیشہ ہوتا ہے، جو نہ صرف قرآن کی توہین ہے بلکہ انسان کے لیے نقصان کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ تجوید کے اصولوں کو سیکھیں اور ان پر عمل کرتے ہوئے قرآن پاک کی تلاوت کریں تاکہ اللہ کا قرب حاصل کر سکیں اور اپنی آخرت کو سنوار سکیں۔

قاری محمد حنیف ثاقبی جھا    ڑكھنڈوی ،بہار۔
معلم  : خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ ،دربھنگہ ،بہار۔

منگل, نومبر 05, 2024

مسلم برادرہڈفاؤنڈیشن کو مبارکباد !

مسلم برادرہڈفاؤنڈیشن کو مبارکباد !
 Urduduniyanews72 
ممبئی شہر میں ٹاٹا ہسپتال کے سامنے مفت کھانا تقسیم ہورہا ہے، ایک لمبی لائن لگی ہوئی ہے، اسی بیچ ایک باحجاب مسلم خاتون بھی کھڑی ہے،ایک شخص خاتون سے یہ کہتا ہے کہ؛"جے شری رام کا نعرہ لگاؤ یا لائن سےہٹ جاؤ"یہ سن کر وہ بحث کرتی ہے کہ مفت کھانا دیا جارہا ہے پھر یہ شرط کیوں؟ میں نعرہ نہیں لگاسکتی، اسی لئےاسے کھانا نہیں ملتا ہے۔
 اس واقعہ کی ویڈیو گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا میں وائرل ہورہی ہے، لاکھوں کروڑوں لوگوں نے اسے دیکھا ہے، کسی نےبھی اس عمل کو پسند نہیں کیاہے،نیزمیڈیا میں اپنے تبصروں کے ذریعہ  زبانی طور پر اس بات کا کھل کر اظہاربھی کیا ہے، یہ بھی ایک جواب ہے،اس پر تمام سیکولر اور انصاف پسند بھائیوں کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے،مگر مسلم برادرہڈ فاؤنڈیشن کے ذمہ داروں نےجوعملی جواب دیاہے وہ بہت ہی لائق تحسین اور قابل صد مبارکباد ہے۔
فاؤنڈیشن کے مسلم بھائیوں نے اپنے سروں پر ٹوپیاں رکھ کر مفت کھانا بلاتفریق بھوکوں میں تقسیم کیا ہے، یہ منظر بھی کیمرہ نے قید کرلیا ہے،ایک بھائی یہ کہ رہے ہیں کہ؛"اللہ اکبر بولنے کی ضرورت نہیں ہے، بھوک لگی ہے کھانا کھاؤ، کیا نام ہے تمہارا، شرن بھائی آپ بنداس کھاؤ ،ٹینشن مت لو ۰۰۰
اس کی ویڈیو بھی تیزی سے پھیلتی جارہی ہے، ہرکوئی پسندیدگی کی نگاہ سے اس عمل کو دیکھ رہا ہے، اس کے بعدہی ملک بھر میں مفت کھانا تقسیم کا سلسلہ جاری ہوگیا ہے، حتی کہ مسلم بھائی مندروں کے سامنے پہونچ کربھی بلاتفریق مذہب وملت اس عمل کو انجام دے رہے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم فاؤنڈیشن کا یہ مبارک مخلصانہ عمل قبولیت سے ہمکنار ہوگیا ہے، وہ اس لئے کہ انہوں نےصرف کھانا تقسیم نہیں کیا ہے بلکہ بھوکوں کو کھلانے کا اسلامی طریقہ نھی پیش کردیا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے؛اور کھلانے ہیں کھانا اس کی محبت پر محتاج کو، یتیم کو اور قیدی کو۰۰
ہم جو تم کو کھلاتے ہیں سو خالص اللہ کی خوشی چاہیے نہ کہ تم سے ہم چاہیں بدلہ اور نہ چاہیں شکر گزاری،( سورہ الدھر )
مذکورہ آیات میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ ایمان والوں کی شان وپہچان یہ ہے کہ وہ ضرورت مندوں کو کھلاتے ہیں اور انمیں تفریق نہیں کرتے ہیں، تاریخ اسلام کا یہ واقعہ مشہور ومعروف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بدر کے قیدیوں کے بارے میں یہ حکم دیا تھا کہ ان کےساتھ اچھا سلوک کرو، جو کھاتے ہو وہی کھلاؤ، چنانچہ صحابہ کرام نے اپنے سے اچھا کھانا انہیں کھلایا، جب کہ یہ مسلمانوں کی قید میں تھے اور غیر مسلم تھے۔
قرآن کریم یہاں پر اس چیز کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ یہ کھلانے کا عمل ان کا خالص اللہ کی خوشی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے، یہ کھلانے کے بعد بدلہ یا کسی طرح کا معاوضہ یا کوئی شکریہ ونعرہ کےامیدوار نہیں ہوتے ہیں۔
واقعی مسلم بردارہڈ فاؤنڈیشن نے اپنے عمل کے ذریعہ درحقیقت قرآن کی عملی تفسیر پیش کی ہے، بلاتفریق ضرورت مندوں کو کھلایا، اور یہ واضح پیغام دیا کہ ب کہ ہمیں تم سے نہ کوئی بدلہ چاہیے اور نہ  ہم کسی شکریہ کے امیدوار ہیں،نیز کھانے کے لئے تمہیں کوئی اسلامی نعرہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے،تمہیں بھوک لگی ہے تم اس کھانے کے مستحق ہو، تمہارا نام شرن ہے یاشفیق ہے،یہ تمہارا واجبی حق ہے، تم ٹینشن نہ لو اور اس بات کی فکر نہ کرو کہ ہم مفت میں کھاریے ہیں۔
فاؤنڈیشن کے اس عمل کی ملک بھر میں پذیرائی ہورہی ہے، ساتھ ہی ساتھ اسلام کی سچی تصویر پوری دنیا میں گئی ہے، باری تعالٰی شرف قبولیت سے نوازے  اجر جزیل عطا فرمائے، دعا کیجئے کہ یہ عمل جاری وساری رہے، اس وقت وطن عزیز میں عملی دعوت کے ذریعہ ہی اسلام کی اشاعت کی جاسکتی ہے اور نفرت کا خاتمہ ممکن ہے۔ہمیں عمل کی توفیق نصیب ہو۔
آمین یارب العالمین 
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
جنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۲/جمادی الاولی۱۴۴۶ مطابق ۵/نومبر ۲۰۲۴ء

*علیحدگی کے بجائے ہم آہنگی*

*علیحدگی کے بجائے ہم آہنگی*
Urduduniyanews72 
دنیا کے موجودہ حالات میں "ہم آہنگی" کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر سیاست، مذہب، نسلی و ثقافتی اختلافات اور قومی مفادات کے باعث پیدا ہونے والے تنازعات نے دنیا کو شدید تقسیم کا شکار کر دیا ہے۔ مختلف اقوام اور فرقوں کے مابین بڑھتی ہوئی دوریوں نے معاشروں کے امن و امان اور ترقی کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس صورت حال میں علیحدگی کے بجائے ہم آہنگی کی ضرورت کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ مضمون اسی اہم موضوع پر روشنی ڈالتا ہے کہ ہم آہنگی کیسے انسانی فلاح و بہبود اور عالمی ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
علیحدگی کا مطلب یہ ہے کہ اختلافات کو ختم کرنے کی بجائے مختلف گروہوں یا قوموں کو الگ کر دیا جائے۔ یہ رجحان افراد اور معاشروں کے درمیان دوریاں بڑھاتا ہے۔ علیحدگی اکثر غلط فہمیوں اور نفرت کو فروغ دیتی ہے، جو کہ معاشرتی ہم آہنگی کو ختم کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ، علیحدگی سے اقتصادی ترقی میں بھی رکاوٹ آتی ہے، کیونکہ جب معاشرے تقسیم ہو جاتے ہیں تو ان کے وسائل اور صلاحیتیں منتشر ہو جاتی ہیں۔
ہم آہنگی کا مطلب ہے کہ مختلف طبقات، گروہوں، یا قوموں کے درمیان باہمی احترام اور تعاون کا فروغ دیا جائے۔ یہ اصول انسانیت کی بنیادی اقدار کو اجاگر کرتا ہے جیسے کہ برداشت، صبر، انصاف اور مساوات۔ ہم آہنگی کے ذریعے مختلف لوگوں میں بھائی چارہ اور اتفاق پیدا ہوتا ہے جو کہ امن اور ترقی کے لیے لازمی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہم آہنگی کو فروغ دے کر ہی فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
آج کے دور میں جب دنیا ایک عالمی گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے، ہم آہنگی کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہمیں ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے، مگر بدقسمتی سے بعض سیاسی اور مذہبی مسائل نے ہمارے معاشروں میں تقسیم پیدا کر دی ہے۔ مثلاً مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں جاری کشیدگی، مذہبی انتہاپسندی اور عالمی سطح پر پناہ گزینوں کے مسائل، یہ سب مثالیں ہیں کہ ہم آہنگی کے بغیر مسائل کیسے پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں بچوں کو امن، برداشت اور بھائی چارے کی تعلیم دی جائے۔ اس سے نوجوان نسل میں ہم آہنگی کا شعور پیدا ہوگا اور وہ مستقبل میں معاشرتی مسائل کو بہتر انداز میں حل کر سکیں گے۔
مذاہب اور قومیتوں کے درمیان مکالمے کا فروغ ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے۔ مکالمہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھنے کا موقع دیتا ہے اور غلط فہمیوں کو دور کرتا ہے۔
جب تک لوگوں کے حقوق کا تحفظ اور انصاف کا نظام مضبوط نہیں ہوگا، ہم آہنگی کا قیام ممکن نہیں ہو سکے گا۔ معاشرتی انصاف اور برابری کے بغیر کسی بھی معاشرے میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے
میڈیا کو چاہیے کہ وہ عوام میں نفرت اور تفرقے کے بجائے امن اور ہم آہنگی کا پیغام دے۔ میڈیا کے   ذریعے مختلف قومیتوں اور مذاہب کے لوگوں کو قریب لایا جا سکتا ہےجب معاشرتی نظام میں مساوات اور معاشی انصاف ہو تو اس سے عوام میں سکون اور ہم آہنگی کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔
دنیا کے موجودہ حالات میں ہم آہنگی کی ضرورت ناگزیر ہے۔ جب مختلف گروہ اور قومیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں گی تو ہی ایک خوشحال، پر امن اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ علیحدگی کی سیاست اور منفی جذبات کو ترک کر کے ہمیں برداشت، بھائی چارے اور ہم آہنگی کو فروغ دینا ہوگا۔ یہ نہ صرف ہماری اجتماعی فلاح کے لیے ضروری ہے بلکہ عالمی امن اور سلامتی کے لیے بھی ایک لازمی امر ہے۔
طالب دعاء: احمد علی ندوی ارریاوی
استاذ خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ ،دربھنگہ، بہار ۔

پیر, نومبر 04, 2024

مدرسہ فیض القرآن موضع کتھوڑ میں ششماہی امتحان کے موقع پر علماء

 بتاریخ 3 نومبر 2024 بروز اتوار
Urduduniyanews72 
 مدرسہ فیض القرآن موضع کتھوڑ میں ششماہی امتحان کے موقع پر علماء عظام کی حاضری ہوئی ، جس میں قصبہ کرتپور سے حضرت قاری محمد اکرم دامت برکاتہم العالیہ مولانا عبدالماجد عثمانی صاحب وقار محمد جاوید اختر صاحب و قاری محمد شہزاد صاحب بحیثیتِ ممتحن تشریف لائیے ، امتحان کےبعد مختصر پروگرام طلباء عزیز کی حوصلہ افزائی کے لئے زیر صدرات حضرت مولانا کلیم الزماں صاحب دامت برکاتہم عالیہ منعقد کیاگیا جسکی نظامت کے فرائض مولانا محمد اسجد رحمانی القاسمی صاحب نے انجام دیے، اس موقع پر ممتحن حضرات نے اپنے خیالات کا اظہار کیااور بچوں کی محنت اور اساتذہ کرام کی خوب حوصلہ افزائی کی بعدہ اچھے نمبرات لانے والے طلباء وطالبات کوانعامات کی شکل میں شلڈ دے کر حضرات اکابر علمائے کرام کے ہاتھوں سے حوصلہ افزائی کی گی اس موقع پر مدرسہ ہٰذا کے مہتمم اختر حسین وصدر محترم انتظار چوھدری ومحمد اقرار و محمد ارشاد نمبردار وسابق پردھان محمد یونس و محمد ارشد ومحمد مناظر حسین وسابق پردھان عشارت حسین و محمد اصلوب چوہدری اور دیگر بستی کے معزز حضرات بھی شریک رہے۔ مہمان خصوصی کےطور پر مفتی عبد المقتدر صاحب رنگھڑپورہ قاری محمد ذاکر صاحب جیون سراے حافظ منکشف عالم کامراجپوری حکیم قاری محمد یحیٰ صاحب جوگی رامپوری قاری محمد محبوب عالم صاحب کوٹ قادر مفتی محمد ارشد صاحب اور بھی دیگر علماء کرام موجود رہے اخیر میں حضرت مولانا محمد اقرار بیگ صاحب ناظم مدرسہ ہٰذا نے اپنے سبھی مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور صدر محترم حضرت مولانا کلیم الزماں صاحب کی دعا پر پروگرام ختم ہوا

اتوار, نومبر 03, 2024

خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ دربہنگہ، بہار کی دینی و عصری تعلیم اور اصلاحی خدمات۔

خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ دربہنگہ، بہار کی دینی و عصری تعلیم اور اصلاحی خدمات۔
Urduduniyanews72 
تعارف: خنساء اسلامک انگلش اسکول ایک مثالی تعلیمی ادارہ ہے جو بچیوں کے لیے دینی و عصری تعلیم کو ہم آہنگ کرنے اور معاشرتی اصلاح میں مثبت کردار ادا کرنے میں پیش پیش ہے۔ اس ادارے نے محض دو سال کی مختصر مدت میں نہ صرف تعلیمی میدان میں بلکہ دینی و اصلاحی خدمات میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ اس مضمون میں ہم خنساء اسلامک انگلش اسکول کی خدمات، مقاصد اور اس کے مثبت اثرات پر روشنی ڈالیں گے۔

ادارے کا تعلیمی نظام اور مقاصد: خنساء اسلامک انگلش اسکول کا مقصد بچیوں کے لیے دینی و دنیاوی علوم کا امتزاج فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے جدید دنیا میں کامیاب زندگی گزار سکیں۔ یہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگلش، سائنس، ریاضی اور جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ادارے کا بنیادی مقصد ایسی باصلاحیت بچیوں کی تیاری ہے جو اپنے علم کو نہ صرف اپنی ذات بلکہ معاشرت کے لئے بھی مفید ثابت کریں۔

دینی تعلیم: اسکول میں قرآن مجید کی تجوید و تلاوت، احادیث نبوی ﷺ، فقہ، اور اسلامی تاریخ جیسے اہم موضوعات پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ بچیاں دینی علوم سے واقف ہوں، اپنی عبادات صحیح طریقے سے انجام دیں، اور اسلامی اقدار کو اپنے کردار کا حصہ بنائیں۔ اساتذہ دینی مضامین کو آسان اور دلچسپ انداز میں پڑھاتے ہیں تاکہ بچیوں میں دین کی محبت پیدا ہو۔

عصری تعلیم: دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے۔ اسکول میں انگلش، سائنس، ریاضی اور کمپیوٹر جیسے مضامین کی جدید طرز پر تدریس کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لئے جدید تدریسی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ بچیاں موجودہ دور کے چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں۔ خنساء اسلامک انگلش اسکول کے اساتذہ بچیوں کو نہ صرف علمی بلکہ عملی طور پر بھی مضبوط بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اصلاحی خدمات: خنساء اسلامک انگلش اسکول کی ایک اہم خصوصیت اس کا اصلاحی کردار ہے۔ ادارہ بچیوں کی اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دیتا ہے تاکہ ان کی شخصیت میں اسلامی اخلاق اور کردار کو پروان چڑھایا جا سکے۔ اسکول میں اخلاقی و تربیتی سیشن منعقد کیے جاتے ہیں جن میں اساتذہ بچیوں کو اعلیٰ اخلاقی اقدار، حسن سلوک اور ادب و احترام کا درس دیتے ہیں۔
اخلاقی تربیت: بچیوں کو دیانتداری، امانت، صداقت، ادب، اور عفو و درگزر جیسے اسلامی اخلاقیات سکھائے جاتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ان کی شخصیت میں نکھار آتا ہے بلکہ وہ معاشرت میں ایک مثبت کردار ادا کرنے کے اہل بنتی ہیں۔

اجتماعی سرگرمیاں: اسکول میں مختلف تقریبات اور علمی مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں جو بچیوں کی خود اعتمادی اور اجتماعی سوچ کو فروغ دیتے ہیں۔ ان سرگرمیوں کے ذریعے بچیوں میں ٹیم ورک اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی عادات کو فروغ دیا جاتا ہے۔

والدین کے ساتھ روابط: ادارہ والدین کے ساتھ مستقل رابطے میں رہتا ہے اور ان کو بچیوں کی تعلیمی و اخلاقی ترقی سے آگاہ رکھتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ والدین اور اساتذہ مل کر بچیوں کی تعلیم و تربیت میں بھرپور کردار ادا کریں۔

خدمت خلق: خنساء اسلامک انگلش اسکول میں بچیوں کو خدمت خلق کے جذبے سے سرشار کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے تحت بچیوں کو یتیم خانوں، ہسپتالوں، اور دیگر فلاحی اداروں میں خدمات انجام دینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔



خنساء اسلامک انگلش اسکول کا اثر اور کامیابیاں: دو سال کے مختصر عرصے میں خنساء اسلامک انگلش اسکول نے تعلیمی میدان میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس اسکول میں زیر تعلیم بچیاں نہ صرف تعلیمی میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں بلکہ وہ اپنے اخلاقی کردار اور دینی علم کی وجہ سے معاشرت میں ایک مثبت شناخت رکھتی ہیں۔ اس ادارے میں زیرتعلیم بچیوں کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ اپنے علم کو صرف اپنی ترقی کے لیے نہیں بلکہ معاشرتی فلاح کے لیے بھی استعمال کریں۔

خلاصہْ كلام: خنساء اسلامک انگلش اسکول بچیوں کے لیے دینی و عصری تعلیم اور اصلاحی خدمات کا ایک بہترین امتزاج ہے۔ اس اسکول نے مختصر وقت میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ قابل تقلید ہیں۔ دینی و عصری تعلیم کو ہم آہنگ کرکے بچیوں میں جو اسلامی روح بیدار کی گئی ہے وہ مستقبل میں ایک مستحکم اور مثبت معاشرت کے قیام میں معاون ثابت ہوگی۔

محمد افضل اللہ ظفر ڈائریکٹر خنساء اسلامک انگلش اسکول و جامعہ کاشفہ للبنات ، بہیڑہ ضلع دربھنگہ،بہار۔
        +91 87579 59314 ر ابطہ:

جمعہ, نومبر 01, 2024

ملکِ ہند میں اسلامی انگریزی اسکول: وقت کی اہم ضرورت

ملکِ ہند میں اسلامی انگریزی اسکول: وقت کی اہم ضرورت
Urduduniyanews72 
ہندوستان میں مسلمان قوم کا شمار ملک کی سب سے بڑی اقلیت میں ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے تعلیمی میدان میں مسلمان قوم کو دیگر اقوام کے مقابلے میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ملک کی ترقی اور قوم کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان بچوں کو معیاری اور اسلامی تعلیمات پر مبنی تعلیم فراہم کی جائے۔ اسی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی انگریزی اسکولوں کا قیام وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔

اسلامی انگریزی اسکول: کیا اور کیوں؟

اسلامی انگریزی اسکول ایسے تعلیمی ادارے ہیں جہاں جدید اور معیاری انگریزی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کو بھی نصاب کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ اس طرح کے اسکولوں میں طلبہ کو انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن، حدیث، اسلامی تاریخ اور اخلاقی تعلیمات سے بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔ اس سے طلبہ کی کردار سازی اور اخلاقی تربیت ممکن ہوتی ہے، جو کہ ان کی شخصیت کے لیے نہایت اہم ہیں۔

جدید تقاضوں کے ساتھ اسلامی تعلیمات کا امتزاج

اسلامی انگریزی اسکولوں میں جدید اور روایتی تعلیمات کے درمیان ایک توازن قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح کے اسکولوں میں طلبہ کو سائنس، ریاضی، تاریخ، اور دیگر ضروری مضامین کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات بھی سکھائی جاتی ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ طلبہ اپنی دینی اور دنیاوی تعلیم میں مہارت حاصل کریں اور مستقبل میں ایک کامیاب اور نیک انسان بن سکیں۔

عالمی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی تیاری

آج کا دور عالمی مقابلے کا دور ہے، جہاں تعلیمی میدان میں انگریزی زبان کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ اسلامی انگریزی اسکول طلبہ کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ انگریزی زبان میں مہارت حاصل کریں اور عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکیں۔ اسلامی تعلیمات کے ذریعے ان میں اخلاقی اقدار کو فروغ دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی اسلامی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکیں۔

اسلامی شناخت اور ثقافتی ورثے کا تحفظ

اسلامی انگریزی اسکولوں کا ایک اور اہم فائدہ یہ ہے کہ وہ طلبہ کو اپنی اسلامی شناخت اور ثقافتی ورثے سے جوڑتے ہیں۔ ان اسکولوں میں طلبہ کو قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی گزارنے کی تربیت دی جاتی ہے، جس سے ان کی زندگی اسلامی اقدار کے مطابق تشکیل پاتی ہے۔ اس سے وہ زندگی کے ہر میدان میں اسلام کے اصولوں کو عملی طور پر اپنانے کے اہل ہوتے ہیں۔

مسلم قوم کی تعلیمی پسماندگی کا حل

ہندوستان میں مسلمان قوم تعلیمی لحاظ سے کافی پسماندگی کا شکار ہے۔ اسلامی انگریزی اسکول اس مسئلے کے حل کی طرف ایک اہم قدم ہیں۔ ان اسکولوں میں غریب اور مستحق طلبہ کے لیے وظائف، تربیت یافتہ اساتذہ، اور جدید تعلیمی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، جس سے ان طلبہ کو بہترین تعلیمی ماحول ملتا ہے اور ان کی تعلیمی ترقی ممکن ہو پاتی ہے۔

نتائج اور مستقبل

اسلامی انگریزی اسکولوں کے قیام سے مستقبل میں ایک باشعور اور دیندار مسلم نسل کی تربیت ممکن ہوگی۔ یہ نسل نہ صرف اپنے ملک کی ترقی میں حصہ لے سکے گی بلکہ عالمی سطح پر بھی اسلام کی مثبت تصویر پیش کر سکے گی۔ اسلامی تعلیمات کے ساتھ انگریزی میں مہارت حاصل کرنا انہیں علمی اور عملی میدان میں کامیابی کی راہ پر گامزن کرے گا۔

نتیجہ

ملکِ ہند میں اسلامی انگریزی اسکولوں کا قیام وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ یہ اسکول اسلامی تعلیمات اور جدید تقاضوں کو ایک ساتھ لے کر چلتے ہیں، جس سے طلبہ کی شخصیت کی مکمل تربیت ہوتی ہے۔ اسلامی انگریزی اسکول نہ صرف مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے ضروری ہیں بلکہ وہ ملک کی تعلیمی نظام میں ایک مثبت اضافہ بھی ہیں۔

محمد افضل اللہ ظفر ڈائریکٹر خنساء اسلامک انگلش اسکول و جامعہ کاشفہ للبنات بہیڑہ ،ضلع دربھنگہ ،بہار.

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...