Powered By Blogger

بدھ, دسمبر 11, 2024

اسلامی اسکول: وقت کی بڑھتی ہوئی ضرورت

اسلامی اسکول: وقت کی بڑھتی ہوئی ضرورت
Urduduniyanews72 
جدید دنیا کے پیچیدہ مسائل اور چیلنجز کے درمیان اسلامی اسکول وقت کی اہم ترین ضروریات میں سے ایک بن چکے ہیں۔ یہ ادارے ایسے مراکز ہیں جہاں بچوں کو نہ صرف معیاری دنیاوی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ انہیں اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا شعور بھی فراہم کیا جاتا ہے۔
آج کے معاشرتی ماحول میں، جہاں نوجوان نسل پر مغربی ثقافت اور غیر اسلامی رویوں کا گہرا اثر ہے، اسلامی اسکول ایک محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتے ہیں۔ یہ اسکول بچوں اور بچیوں کو اسلامی ماحول میں پروان چڑھنے کا موقع دیتے ہیں، جہاں وہ نماز، روزہ، اخلاقیات اور قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی زندگی کی بنیاد رکھ سکیں۔ ایسے ادارے بچوںاور   بچیوںکی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اور ان میں حلال و حرام کی تمیز اور دین سے محبت پیدا کرتے ہیں۔
اسلامی اسکولوں میں نصاب اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ وہ دنیاوی اور دینی علوم کے درمیان توازن قائم رکھیں۔ ریاضی، سائنس، اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ فقہ، حدیث، سیرت النبی ﷺ اور اسلامی تاریخ بھی پڑھائی جاتی ہے۔ یہ امتزاج بچوں اوربچیوںکو ہر دو میدان میں ممتاز بناتا ہے، اور وہ ایک کامیاب مسلمان کی حیثیت سے معاشرے میں اپنی شناخت قائم کر سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ، اسلامی اسکولوں کا مقصد صرف تعلیمی کامیابی نہیں بلکہ طلبہ کی ذہنی، روحانی، اور اخلاقی تربیت بھی ہے۔ وہ بچوں میں تقویٰ، ایمانداری، اخلاص، اور دوسروں کے لیے محبت جیسے اوصاف کو پروان چڑھاتے ہیں۔ یہ ادارے بچوں اور بچیوں میں قیادت کی صلاحیتیں پیدا کرتے ہیں اور انہیں دین اور دنیا دونوں کی ذمہ داریوں کے لیے تیار کرتے ہیں۔
مزید برآں، اسلامی اسکول طلبہ  اور طالبات کے درمیان کمیونٹی اور تعلق کے احساس کو فروغ دیتے ہیں، اور انہیں اپنے دین اور ثقافت سے مضبوط رشتہ قائم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ یہ اسکول بچوں  اور بچیوں کو دیانتداری، ہمدردی، اور احترام جیسی اقدار کی اہمیت سکھاتے ہیں جو انفرادی اور اجتماعی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔
مختصراً، اسلامی اسکول آج کے دور میں صرف ایک آپشن نہیں بلکہ ایک ضرورت ہیں۔ یہ ادارے ایسی نسل کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو نہ صرف علم میں ماہر ہو بلکہ اخلاقی طور پر بھی مضبوط ہو اور معاشرے کی بہتری میں مثبت کردار ادا کرےایسے اداروں میں سرمایہ کاری ایک روشن اور ہم آہنگ مستقبل میں سرمایہ کاری ہے۔
آج کے دور میں، والدین کو اپنے بچوں  اور بچیوں کی تعلیم کے لیے اسلامی اسکولوں کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کے لیے نہ صرف بہتر تعلیمی مستقبل بلکہ دینی تربیت بھی یقینی بنا سکیں۔ یہ اسکول ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جو علمی میدان میں کامیاب ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کی حامل ہو، اور دنیا میں دین کا پیغام عام کرنے میں کردار ادا کرے۔
محمد افضل اللہ ظفر :خنساء اسلامك انگلش اسكول  بہیڑہ ،دربھنگہ ،بہار

پیر, دسمبر 09, 2024

جنازہ کی ایک تصویر

جنازہ کی ایک تصویر 

 Urduduniyanews72 
سوشل میڈیا میں نمازجنازہ کی ایک تصویر پوسٹ کی گئی ہےجسمیں فقط چند لوگ ہی نظر آرہے ہیں،بقیہ پورا مجمع اس منظر سے غائب ہے۔اس فوٹو سے کیا پیغام دیا جارہا ہے اور اس کے نشر کرنےکا مقصد کیا ہے؟یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی تو ایک جہاں دیدہ شخص نے اس کی  وجہ یہ بتلائی ہے کہ بھیجنے والاجنازہ کی نماز میں  اپنی موجودگی درج کرارہاہے،نیز مرحوم کے وارثین کی خوشنودی چاہتا ہے۔اگر یہ سچ ہےتوایک صاحب ایمان کی شان کے یہ خلاف ہےاور  بہت ہی افسوسناک عمل ہے،اس پر جسقدر ماتم کیا جائے وہ کم ہے۔جنازہ کی نماز کا مقصد کیا ہے؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟یہ کیوں پڑھی جاتی ہے؟یہ ان باتوں سے ناواقفیت اور جہالت کی بڑی دلیل بھی ہے۔
 جنازہ کی نماز کا ایک اہم بنیادی مقصد مرحوم کے لئے دعائے مغفرت ہے۔علامہ ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے دعا کو نماز جنازہ کا رکن قرار دیا ہے،اگر چہ ان کی یہ رائے جمہور کے خلاف ہے تاہم اس سے میت کے لئے کی جانے والی دعائے مغفرت کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے۔ تیسری تکبیر کے بعد جو دعا پڑھی جاتی ہے،یہ پوری دعا دعائے مغفرت ہے،اس میں بندہ اپنے رب سے یہ کہتا ہے کہ؛"اے اللہ! ہمارے زندوں اور مردوں اور حاضروں اور غائبوں اور چھوٹوں اور بڑوں اور مردوں اور عورتوں کو بخش دے، اے خدا! ہم میں سے جسے تو زندہ رکھے اسلام پر زندہ رکھ اور جسے وفات دے اسے ایمان پر وفات دے"۔
اگر کسی کو یہ دعا بروقت یاد نہ ہوتو تو فقہ کی مشہور کتاب البحرالرائق میں  یہ مختصر دعا تعلیم کی گئی ہے؛ "أللهم إغفر للمؤمنين والمؤمنات"اے اللہ! تمام مومنین ومومنات کی مغفرت فرمادیجئے" یہاں متبادل کے طور پر جو دعا سکھائی گئی ہے یہ بھی دعائے مغفرت ہی ہے۔اس سے جنازہ کی حاضری کا مقصد واضح ہوتاہے کہ یہ حاضری اسی خاص مقصد کے تحت ہوتی ہے،حدیث شریف میں اسی دعاکو مسلمان بھائی کا آخری حق قرار دیا ہے،کہ جب ایک مسلمان کا انتقال ہوجائے تو اس کے جنازہ میں شرکت کرے،یہ شرکت برائے دعائے مغفرت ہی ہے۔ یہی وہ مرحوم کا حق ہےجسے ادا کرنے کے لئے بندہ جنازے میں شریک ہوتا ہے۔ 
آج جنازہ میں لوگ خوب شامل ہوتے ہیں مگر  یہ حاضری فقط حاضری ہے اور مقصد اصلی سے خالی ہے۔بلکہ اب اس کی سمت بھی تبدیل ہورہی ہے، مرحوم کے زندہ وارثین کی خوشنودی کے لئےشرکت ہوتی ہے،اس سے آگے بڑھ مذکورہ بالا واقعہ کی روشنی میں مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ  ٗمادی فوائد کا حصول اورذاتی  پہچان بنانے کی سعی بھی ہوتی ہے۔اعاذنا الله من ذالك۰
اور دوسری بات یہ کہ جنازہ کی نماز بھی نماز ہے، اس کے لئے نیت ضروری ہے، صف میں کھڑا ہونے والا اپنی نیت میں اس کا استحضار کرتا ہے کہ میں خدا کے واسطے اس جنازہ کی نماز اس میت کی دعائے مغفرت کے لئے اس امام کے پیچھے پڑھتا ہوں، جب نماز کی نیت اللہ کے واسطے کی ہے اور اس سے مقصد لوگوں کی رضامندی ہے تو یہ عمل غارت ہوگیا ہے، ایسی نمازیں منھ پر ماردی جاتی ہیں جو دوسروں کے لئے پڑھی جاتی ہیں، اس کا اجر آخرت میں نہیں ملنے والا ہے۔بندہ دوقیراط کی تلاش میں تھا اسے خیرات بھی ملنے نہیں جارہا ہے۔
آج کہیں جنازہ میں شرکت کرنی ہو تو خوب تیاری کی جاتی ہے، نئے کپڑے زیب تن کئے جاتے ہیں،جشن کا سماں نظر آتا ہے،خوش گپیاں ہوتی ہیں، دعوت اڑائی جاتی ہے،  تصویر لے لے کر اس کی خوب تشہیر کی جاتی ہے، مقصد اصلی پرکوئی نظر نہیں ہے۔جنازہ کے پیچھے چلنے کا طریقہ بھی مذہب اسلام میں تعلیم کیا گیا ہے، اس تعلق سے بھی بڑی بے اعتدالی دیکھنے میں آتی ہے، لوگ چلتے ہوئے زور زور سے باتیں کرتے ہیں، جبکہ جنازے کو اٹھا کرلے چلتے وقت کلمہ شریف وغیرہ پڑھنے کوبھی دل دل میں ہی پڑھنے کا شرعی حکم ہے، آواز سے پڑھنا مکروہ ہے،مفتی اعظم علامہ محمد کفایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے تعلیم الاسلام کے چوتھے حصہ میں اس مسئلہ کو تحریر فرمادیا ہے،اور یہ کتاب مکتب میں ہی ہر بچےکو پڑھادی جاتی ہے۔اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مکتب کے معیار کی بنیادی تعلیم سے بھی ہم لوگ ناواقف ہیں، اس جانب توجہ کی سخت ضرورت ہے۔

                    حقیقت خرافات میں کھوگئی 
                     یہ امت روایات میں کھوگئی 

مفتی ہمایوں اقبال ندوی 
جنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۹/نومبر ۲۰۲۴ء بروز دوشنبہ

پیر, دسمبر 02, 2024

قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن،، کا مشاعرہ

قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن،، کا مشاعرہ
 Urduduniyanews72 
   وہ آفتاب ا گا ئیں گےہم اندھیروں میں 
   جہانِ علم وادب روشنی سے بھر جائے
                  ( انس مسرورانصاری) 
  ٹانڈہ (امبیڈکر نگر)قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن،، کے زیراہتمام علمی وادبی خطبات اورشاندار مشاعرے کاانعقاد ہواجس کی صدارت محمد شفیع نیشنل انٹرکالج (ہنسور) کےاستادمحترم محمد اسلم خاں صاحب نے فرمائی اور نظامت کے فرائض جناب قاری جمال اشرف نظامی نے انجام دیے۔انھوں نےحمدپاک سے مشاعرہ کا آغاز کیا اور جناب سعید ٹانڈوی نے بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں نعت پاک کا نذرانہ پیش کیا۔قمر جیلانی کےابتدائی کلمات اورقاری جمال اشرف نظامی کی ادارہ کے متعلق تعارفی تعارفی تقریرکے بعد محمد اسلم خان نےاپنے صدارتی خطبہ میں قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن،، کے تعلیمی شعبہ جات کی بہترین کارکردگی اوران کے تدریجی ارتقاء کا جائزہ پیش کرتے ہوئے تحریک کےبانی وصدر انس مسرورانصاری کی تعریف و توصیف کی اورانھیں قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن،،کے ترقیاتی کاموں پر مبارکباد دی اور ادارہ کے ساتھ ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ڈاکٹر امین احسن نے اپنے خطاب میں کہا کہ قومی تعلیمی پسماندگی کےتناظرمیں ضرورت اس بات کی ہےاس ادارہ اوردیگر اقلیتی تعلیمی اداروں کو ہر طرح کے تعاون کےذریعے مزید ترقی دی جائے۔ انھوں نے مزید کیاکہ قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن،، کے وسائل اسباب محدودہیں اس لیے قوم کے ہر فرد کی ذمہ داری ہےکہ اپنے تعاون سے اس کو طاقت ور بنائیں۔ 
 مہمانِ خصوصی محترم جناب وصیل خان(روزنامہ۔ اردو ٹائمز۔ ممبئی)نے اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ پرخلوص علمی وادبی خدمات انجام دے رہاہے۔ اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے کوشاں ہے۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ اس ادارہ سے اپنے آپ کوجوڑیں۔ اجتماعی جدوجہد سےہی کامیابیاں حاصل کی جاتی ہیں۔میں انس مسرورانصاری کا بہت شکر گزار ہوں کہ وہ نئی نسل کو دینی وعصری علوم کے ساتھ اس کی ذہنی وفکری تربیت میں ہمہ تن مصروف ہیں۔  
    مشاعرہ میں شریک شعراء کرام کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں۔ اویس فنا۔مقسوم احمد مقصوم۔ڈاکٹر امین احسن۔ ڈاکٹر اشہر سوداگر۔ دلشاد دل سکندر پوری۔ وصیل احمد خان۔ قمر جیلانی خان۔انس مسرورانصاری۔ ثاقب جمال مبارکپوری۔ انصاف ٹانڈوی۔ ضیاکاملی۔ سعید ٹانڈوی۔ تاجدار رضا۔ فضل احمد فضل۔ وغیرہ نے شرکت کی۔ مشاعرہ دیر رات تک کامیابی کے ساتھ جاری رہا۔ آخیرمیں قاری جمال اشرف نظامی کے دعائیہ کلمات پر مشاعرہ کو اگلے ماہ کےلیے ملتوی کیاگیا۔

ہفتہ, نومبر 30, 2024

سنبھل میں کرفیو کی ایک رات ) * انس مسرورانصاری

سنبھل میں کرفیو کی ایک رات ) 
                  * انس مسرورانصاری
         Urduduniyanews72 
            رات آئی تو خوف کا عفریت 
            خون پینےکوجاگ جاگ اٹھا
          کتنی ویراں پڑی ہے راہ گزر
          کتنی چپ چاپ ہےفضائےبسیط
          کوئی آہٹ نہ کوئی آوازہ
          ملگجی چاندنی سسکتی ہوئی
          جھاڑیوں میں ہواسنکتی ہوئی
           شش جہت خوفناک ویرانی
          خلقت اپنے مکاں کی زندانی
           خوف سے چمٹے ماں کےسینے سے
           ننھے ، معصوم، بےنّوا بچے 
           ایسےلگتاہےجیسےخاموشی 
           دفعتاََپھٹ پڑے گی بم کی طرح 
           راستے چونک چونک جائیں گے
           آہنی بوٹوں کی کھٹاکھٹ کھٹ 
           ریزہ ریزہ پڑی خموشی کو
            بے طرح پائمال کردے گی
            ہانپتی کانپتی ہوئی شب کو
           اور بھی کچھ نڈھال کردے گی 
    
        * انس مسرورانصاری 
     قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ) 
        اردوبازار،ٹانڈہ۔ امبیڈکرنگر (یو،پی) 
                رابطہ/9453347784
              ****************

جمعرات, نومبر 28, 2024

اعلیٰ اخلاقی اقدار اپنا ئیے

اعلیٰ اخلاقی اقدار اپنا ئیے
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ 

بے راہ روی، جھوٹ، غیبت، چغل خوری، طعن وتشنیع، بد کلامی، تہمت وبہتان تراشی نے سماج کو ایک ایسے راستے پر ڈال دیا ہے، جس کا نتیجہ دنیا میں بربادی، تباہی اور شرمندگی نیز آخرت میں ان گناہوں کی پاداش میں بغیر توبہ کے مرگیا تو جہنم ہے، المیہ یہ ہے کہ ان بُری عادتوں اور خصلتوں کو گناہ سمجھا بھی نہیں جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ان گناہوں سے واپسی کا خیال نہیں آتا، گناہوں پر مداومت اور اصرار بڑھتا جا رہا ہے۔ کہنا چاہیے کہ ذہن ودماغ سے احساس زیاں بھی رخصت ہو گیا ہے۔
اپنے اعمال کا تجزیہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ جھوٹ ہماری گفتگو کا جز و لاینفک بن گیا ہے، ہماری کوئی مجلس غیبت، چغل خوری سے پاک نہیں ہوتی،گالی، بدکلامی، لعنت وملامت اور بغیر تحقیق کے تہمت وبہتان تراشی میں ہم آگے ہیں،دوسروں کو رسوا کرنے کے لیے اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں، سوشل میڈیا کے اس دور میں ہر ایرے غیرے کا ہاتھ موبائل کے کی بورڈ(Key Bord)پر ہے اور جو چاہے لکھتا چلا جاتا ہے، اس آزادی نے لوگوں کی پگڑیاں اچھا لنے کے کام کو آسان کر دیا ہے، پگڑیاں اچھل پاتی ہیں یا نہیں، لیکن اپنے نامہ اعمال میں ان رذیل حرکتوں کا گناہ تو درج ہوہی جاتا ہے۔
اللہ کی پناہ! ذرا سوچئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا سچ راہ نجات ہے، اور جھوٹ ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے، ہم نے ہلاکت والے راستے کو اپنا لیا ہے جس کی وجہ سے اللہ کی لعنت کے مستحق ہو رہے ہیں، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے، لعنۃ اللہ علی الکاذبین. اگر ہم سچ نہیں بول سکتے، اس کی ہمت نہیں جٹاپاتے ہیں تو کم سے کم خاموش رہنا ہی سیکھ لیں، کیوں کہ خاموشی بڑا ہتھیار اور نجات کا ذریعہ ہے، مَنْ سَکَتَ نَجَا و منْ صَمَت نَجَا میں یہی بات کہی گئی ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ مسلمانوں کی زندگی میں جھوٹ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے اور سچ کو ہی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہیے، یہ بہت طاقت ور ذریعہ ہے، سچ کبھی شکست نہیں کھاتا، جھوٹ کے مقدر میں ہار ہے، ہو سکتا ہے اس ہار تک پہونچنے میں جھوٹے کو تھوڑی دیر لگ جائے۔
 خود غرضی بھی ہماری زندگی کو بری طرح متاثر کرتی ہے، خود غرض آدمی اپنے علاوہ کچھ اور دیکھ ہی نہیں پاتا ہے، اس مرض کا شکار نہ اپنے خاندان کے سلسلے میں مخلص ہوتا ہے اور نہ ہی ملک، ادارے تنظیموں، جماعتوں، جمعیتوں کے کام کا رہتا ہے، اس کی سوچ کا مرکز ومحور صرف یہ ہوتا ہے کہ ہمارا کس میں فائدہ ہے، حالاں کہ ہونا یہ چاہیے کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں، جن اداروں اور تنظیموں سے ہمارا تعلق ہے، اس کی محبت اور قدر ہماری زندگی میں سمائی ہوئی ہو کہ ہماری ذات اور منفعت کی اس طرح نفی ہوجائے کہ محبت کا پلڑہ ملکی اور ملی مفادمیں جھک جائے، ہمارے اکابر نے ہمیں اسی بات کی تعلیم دی ہے۔
 دنیاوی زندگی میں مکافات عمل کا اصول کار فرما ہے، جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے، نظیر اکبر آبادی نے کہا ہے ؎
 کلجگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے کیا خوب سودا نقد ہے، اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے
 یہی مکافات عمل ہے، سورج پر تھوکنے کا عمل اپنی پیشانی پر اس تھوک کو واپس لے لینا ہے، اس طرح کا کوئی عمل صرف اپنے احمق ہونے کا اعلان ہے، یہ بات صحیح ہے کہ انسان نفسیاتی طور پر اپنے خلاف کیے گئے کاموں اور تحریروں کا جواب دینا چاہتا ہے، لیکن ہمیں یہ بات خوب اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ کتا اگر کاٹ لے تو ہم بدلے میں کتے کے کاٹنے کو شریفانہ عمل نہیں سمجھتے۔
 ایسے موقعوں سے غصہ کو پی جانا اور معاف کر دینا شریفانہ عمل ہے، وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ میں ہمیں اسی کی تلقین کی گئی ہے، معافی سے ہمارے تحمل اور بر داشت کا پتہ چلتا ہے، حسد اور نفرت جیسے قبیح عمل سے ہم محفوظ رہتے ہیں، کیوں کہ یہ چیزیں جب ہمارے اندر داخل ہوجاتی ہیں تو یہ دیر سویر ہمارے زوال کا ذریعہ بنتی ہیں، لیکن جب ہم عفو ودرگذر سے کام لیتے ہیں تو محبت والفت کا ایک سمندر ہمارے دل ودماغ میں جوش مارتا ہے، اور اس کا فائدہ ہماری سوچ کو ہی نہیں ہمارے جسم ودماغ کو بھی پہونچتا ہے، ہم خود بھی خوش رہتے ہیں اور دوسروں تک خوشیاں پہونچانے کا کام کرتے ہیں۔
ہماری عادت دوسروں میں برائیاں تلاشنے کی ہو گئی ہے، جس طرح مکھیاں پورے جسم کو چھوڑ کر صرف گندی جگہ، پھوڑے پھنسی اور زخموں پر بیٹھا کرتی ہیں، اسی طرح ہماری نگاہ انسانوں کے کمزور پہلوؤں کی طرف لگی رہتی ہے، اس آدمی کے اندر لاکھ خوبیاں ہوں، لیکن مرکز نگاہ خامیاں ہواکرتی ہیں، خامیوں کی نشان دہی کرتے وقت ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ جب ایک انگلی کسی کی طرف ہم اٹھاتے ہیں تو تین انگلیاں خود ہماری طرف ہوتی ہیں او رپوچھ رہی ہوتی ہیں کہ کبھی اپنا بھی جائزہ لیا ہے کہ تمہارے اندر کتنے عیوب ہیں، آپ کی سوچ کا اثر سامنے والے کے کردار پر پڑتا ہے، آپ کسی کو ہر وقت کہیں گے کہ آپ بیمار سے لگتے ہیں، کچھ دن کے بعد وہ واقعی بیمار ہوجائے گا، لیکن جب آپ اسے بار بار صحت کا پیغام سنائیں گے تو کم از کم وہ ذہنی مریض بننے سے بچ جائے گا، آپ نے اپنے بچے کو بار بار کند ذہن کہا تو وہ کند ذہن ہوجائے گا، اس کے سمجھنے کی طاقت دن بدن کم ہوتی چلی جائے گی، اس لیے دوسروں میں اچھائیاں تلاش کیجئے، اس کا ذکر کیجئے، اگر آپ کسی کو بار بار ناکارہ کہتے ہیں تو اس کی کارکردگی میں یقینا کمی آئے گی، لیکن آپ نے اس کی تھوڑی محنت کی تعریف کر دی تو اس کی فعالیت میں بے پناہ ترقی ہوگی، آپ کا رکردگی بڑھانے کا کام کیجئے، ناکارہ بنانے کا نہیں۔
سماج کے جو کمزور لوگ اور طبقات ہیں، گھر میں بوڑھے والدین ہیں، ان کی جانب سے بے اعتنائی آج کل عام ہے، ان کی ضرورتوں کی تکمیل نہیں ہو رہی ہے، ہمارے پاس ان کو دینے کے لیے وقت نہیں ہے، بلکہ بعض گھروں میں انہیں ایذا رسانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اعلیٰ اخلاقی اقدار میں یہ بات بھی شامل ہے کہ چھوٹوں پر رحم کیا جائے، اور بڑوں کاادب واحترام کا خیال رکھا جائے۔
اسی طرح حسد بھی ہماری زندگی کو متاثر کرتا ہے، اس کا عادی شخص جلن کا شکار ہوتا ہے، اس سے اس کی قوت کار پر بھی اثر پڑتا ہے اور دل ودماغ کو خاص کرب سے گذرنا پڑتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ ہم اپنے دکھ سے اس قدر دکھی نہیں ہیں، جتنا دوسرے کے سکھ سے ہمیں پریشانی لاحق ہے۔
 خود کو بدلنے کا مزاج بنائیے، اصلاح کا کام خودسے شروع کیجئے، سماج میں آپ جو تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں، اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو کام کا آغاز خود سے کیجئے، اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ اپنی اصلاح کیجئے، پھر عزیز واقربا کی کیجئے اور پھر خاندان، اور سماج کی طرف تدریجا بڑھیے اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الاَقْرَبِیْن اور یاٰیھَا الذِیْنَ آمَنُوا قُوا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا میں یہی بات کہی گئی ہے،کاش ہم اس راز اور کام کے اس طریقہ کو سمجھ کر اپنی زندگی میں اتارپائیں۔

منگل, نومبر 19, 2024

انس مسرور انصاری کی کتاب ’’عکس اورامکان ‘‘ کی رسم رونمائی

انس مسرور انصاری کی کتاب ’’عکس اورامکان ‘‘ کی رسم رونمائی
Urduduniyanews72 
ٹانڈہ جیسے علاقے میں رہ کر انس مسرورانصاری نے جو ادبی کام انجام دیئے ہیں وہ لائق تحسین ہیں۔احمد ابراہیم علوی

 قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن ٹانڈہ کے بانی و صدرانس مسرور انصاری کےتحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’عکس اورامکان ‘‘ کی رسم رونمائی۔۔ادبی نشیمن،،کے دفتر واقع الماس باغ ۔ہردوئی روڈ(لکھنؤ) میں منعقد ہوئی۔ جس کی صدارت سینئر صحافی و افسانہ نگار احمد ابراہیم علوی نے فرمائی۔ مہمانانِ خصوصی انس مسرور انصاری۔ ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی اور ڈاکٹر اکبر علی بلگرامی موجود تھے ۔ نظامت کے فرائض ہر دو ناظم رضوان فاروقی اور ڈاکٹر اسرارالحق نے انجام دیئے۔
 رضوان فاروقی کی تلاوت قرآن پاک اورخلیل اختر شبو کےنعت پاک کا نذرانہ پیش کرنے کے بعدٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر سے تشریف لائےفخرِامبیڈکرنگر انس مسرور انصاری کی کتاب ’’عکس اور امکان‘‘ کا اجراء احمد ابراہیم علوی اور ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی کے ہاتھوں عمل میں آیا ۔
 پروگرام کی صدارت کر رہے احمد ابراہیم علوی نے انس مسرور انصاری کی ہمہ جہت خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ ایک شخص اکیلے کئی صنفوں پرقلم پیرا ہے،بہت سی قیمتی کتابیں اردو دنیا کو عطا کی ہیں ۔انس مسرور انصاری نے جو نظم پیش کی ہے وہ ایسی نظم ہے جس پر کہنے او ر لکھنے کے لیے بہت کچھ کہا اور لکھا جا سکتا ہے ۔میں نے جب ان کی چالیسویں کتاب۔۔عکس اور امکان،،کا مطالعہ کیا تو مجھے احساس ہواکہ انس مسرور صاحب کی تحریر میں روانی، طاقت ور اسلوب او ران کامطالعہ کافی وسیع ہے۔انھوں نے انس مسرور انصاری کی ادبی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ بڑے شہروں میں تو اس طرح کے کام کرنے کی آسانیاں ہیں لیکن ٹانڈہ جیسےقصباتی علاقے میں رہ کر انس مسرور نے جوعلمی و ادبی کارنامےانجام دیئے ہیں وہ لائق تحسین ہیں انھوں نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ انس صاحب کا قلم یوں ہی رواں دواں رہے گا۔ 
 ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی نے اپنے تاثرات میں نہ صرف معلومات افزاءاردو دنیا کی نامور ہستیوں کی یاد دلائی بلکہ یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کیا کہ ناقدین نئے لکھنے والوں پر بھی اپنے قلم کو چلانا چاہئے ۔یہ خوش آئند بات ہے کہ نثر لکھنے والے عنقا ضرور ہیں مگر جو لکھ رہے ہیں وہ بہت عمدہ، معیاری اوراعتبار یت سے مملو ہیں۔انھوں نے انس مسرور انصاری کو مبارک با د پیش کرتے ہوئےکہا کہ ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں اور مسلسل مطالعہ کا نتیجہ ہے ’عکس اور امکان۔‘ 
   ڈاکٹر اکبر علی بلگرامی نے کہا کہ میں ٹانڈہ کی تین عظیم ادبی شخصیات سے بہت متاثر ہوں پہلی شخصیت استادِ محترم پروفیسر محمود الہٰی صاحب کی،دوسری شخصیت مفتی ولی اللہ صاحب اور تیسری شخصیت انس مسرور انصاری کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ انس مسرور صاحب جہاں ایک اچھے شاعرو نعت گو ہیں وہیں انھوں نے تحقیقی و تنقید ی مضامین کے ساتھ ساتھ بچوں کا بھی خیال رکھا اور بچوں کےادب پر بھی انھوں نےگراں قدر کام کیےہیں۔عکس اور امکان،، میں شامل نعت کے موضوع پر۔۔تعلیقاتِ نعت،، مضمون کو انھوں نے حاصل کتاب قرار دیا اور کہاکہ اچھا ہوتا کہ عربی اشعارکے تراجم کے ساتھ اگر عربی نعت گو شعراء کے کلام کے نمونے بھی اس میں شامل ہوتے۔
 اس کے علاوہ ڈاکٹر امین احسن نے انس مسرور انصاری کا تعار ف کراتے ہوئے کہا کہ انس صاحب ہمہ جہت و ہمہ رنگ موضوعات پر لکھنے والے کثیر التصانیف شاعر ،ادیب ،نقاد ،محقق و مورخ ہیں۔بچو کے لیے بھی انھوں نے کئی اہم کتابیں اور نظمیں تصنیف کیں۔ادب اظفال پر ان کی ایک درجن سے زائد کتابیں ہیں۔جبکہ ڈاکٹرمحمد اشہر سوداگر،صحافی وصیل احمد خان (روزنامہ۔۔اردوٹائمز،،ممبئی)ڈاکٹر اسرار الحق قریشی اوررضوان فاروقی نے مقالے پیش کیے۔روزنامہ راشٹریہ سہارا کے نمائندہ غفران نسیم نےانس مسرور اور ٹانڈہ کی ادبی سرگرمیوںپر روشنی ڈالتے ہوئے تحسین و آفرین کے کلمات پیش کئے۔
   اس موقع پر۔۔ ادبی نشیمن گروپ،،کی جانب سے انس مسرورانصاری کی علمی وادبی اوراردوزبان کی عملی خدمات پرانھیں۔۔ادبی نشیمن ایوارڈ،، اورسندِتوصیف سےسرفرازکیاگیا۔ 
 پروگرام میں ڈاکٹر اسرالحق قریشی نے افسانچہ ’’بریک‘‘ اور ڈاکٹر سلیم احمد نے ’’نوکری ‘‘ پیش کیا ۔پروگرام میں خلیل اختر ،معید رہبر،محسن عظیم انصاری ،عاشق رائے بریلوی ،جلال لکھنوی،ضیاء کاملی ،قمر جیلانی خان نے اپنے اپنےکلام پیش کئے۔پروگرم کےآخیرمیں کنوینراور۔۔ادبی نشیمن،،کے مدیر ڈاکٹر سلیم احمد نےحاضرین کاشکریہ ادا کیا۔

جمعرات, نومبر 14, 2024

اسلام کی انسانیت نوازی

اسلام کی انسانیت نوازی 
Urduduniyanews72 
 دھرم اور ذات کی بنیاد پرایک مسلم کسی سے نفرت نہیں کرتا ہے،اس لئےکہ اس بات کی اجازت اس کا مذہب نہیں دیتا۔مذہب اسلام میں انسان اللہ کی تمام مخلوقات میں سب سے اونچا مقام رکھتا ہے، یہ اشرف المخلوقات ہے،ہر آدمی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہے،قرآن کریم میں اس کے مکرم ہونے کا بھی اعلان موجودہے،اس حیثیت سے حضرت آدم علیہ السلام کی تمام اولاد کا آپس میں ایک مضبوط رشتہ قائم ہوجاتا ہے، ایک ایمان والےکو اس برادرانہ رشتہ کی قدر کرنے کا حکم دیا گیا ہے،کہ جس طرح ایک انسان اپنے قبیلے وبرادری کا لحاظ کرتا ہے، اس کے اپنے دل میں نیک جذبات رکھتا ہے، اس کی ترقی وبھلائی کا خواہاں رہتا ہے، اسی طرح بحیثیت انسان ایک مسلمان اپنی انسانی برادری کا بھی خیال کرے ، کسی سے بغض وعداوت نہ رکھے، حسد کرےاور نہ اس سے بیزاری کا اظہار کرہے بلکہ بھائی جیسا سلوک کرےاوربرادرانہ رشتہ قائم ودائم رکھے، حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے،؛"آپس میں ایک دوسرے سے کینہ نہ رکھو، ایک دوسرے پر حسد نہ کرو ،نہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو، اور سب مل کر خدا کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ" (بخاری)
الحمد للہ اس کا عملی مظاہرہ بھی ملک میں مسلمانوں کی طرف سے ہوتا آیا ہے،مگر یہ چیز سیاستدانوں کو اور نفرتی ٹولوں کو کھٹکتی ہےاور بری لگتی ہے،اس وقت کوشش اس بات کی ہورہی ہے کہ اس بھائی چارہ کی فضا کو ختم کردی جائے،اس کے لئے مختلف حربے اپنائے جارہے ہیں، اب تو ان جگہوں کا بھی رخ کیا جانے لگا ہے جہاں خالص انسانی بنیاد پر خدمت کی جاتی ہے اور کبھی کسی کے مذہب کو پوچھ کر اس کا تعاون نہیں کیا جاتاہے، تازہ واقعہ ممبئی کے ٹاٹا ہسپتال کا ہے،مہاراشٹر میں اس وقت اسمبلی الیکشن بھی ہورہا ہے،کچھ لوگوں نے مفت کھانا تقسیم کرنے کے نام پر وہاں جاکر ہندو مسلمان کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ اس کا ردعمل سامنے آئے اور اس کے ذریعہ نفرت پھیلائی جاسکے، بحمداللہ اس کا ردعمل مسلم بھائیوں کے ذریعہ اتنا خوبصورت آگیا ہے کہ نفرتی ٹولے کو منھ کی کھانی پڑی ہے اور ناکامی ہاتھ لگی ہے، ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں بھارت کے مسلمانوں کی انسانیت نوازی کی مثال دی جانے لگی ہے۔یہاں پر ایک مسلمان کی مجبوری بھی ہے کہ وہ ردعمل میں وہ کام نہیں کرسکتا ہے جو کام غیروں کے ذریعہ انجام دیا گیا ہے، مفت کھانا تقسیم کرتے وقت اگر اس کے سامنے کوئی غیر مذہب کا آدمی آتا ہے تو وہ اسے منع نہیں کرسکتا ہے، اس کا مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے ،اور نہ بدلہ وانتقام میں ایسا کرنے کی اسے اجازت دی گئی ہے، ارشاد ربانی ہے؛
" اور کسی قوم کی عداوت تم کو اس پر امادہ نہ کرے کہ تم عدل اور انصاف نہ کرو ،عدل اور انصاف ہر حال میں کروکہ یہ بات تقوی کے قریب ہے"۔(مائدہ )
 اس ایت کے اندر اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ کسی حال میں بھی ایک انسان کے ساتھ حق تلفی کی گنجائش نہیں ہے۔اس لئے کہ وہ تمہارا بھائی ہے۔مذہب اس کا الگ ہےمگر وہ تم سے الگ نہیں ہے،وہ ایک انسان ہے، بحیثیت انسان ایک مسلمان پر بھی اس کا حق ہےکہ جب وہ اس کے ساتھ معاملہ کرے تو انصاف کے تقاضے کو پورا کرے۔خدا کا شکر ہے کہ عملی طور پر ہمارے بھائیوں نے اسے اپنایاھی ہے،اوراسلام کی اشاعت میں اس پہلو کا بڑا دخل بھی رہا ہے۔
                    آدمی کا آدمی ہر حال میں ہمدرد ہو
              ایک توجہ چاہئے انساں کو انساں کی طرف
مذہب اسلام کی واضح تعلیم یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے لئے انسانی ہمدردی ضروری ہے، یہی چیز خدا کی رحمت کا حقدار بناتی ہے، جو ایسا نہیں کرے گا وہ رحمت خداوندی سے دور ہوجائے گا۔آج اپنے وطن عزیز کی دنیا بھر میں عجیب وغریب تصویر جارہی ہے، موب لنچنگ کی ایک نئی اصطلاح حالیہ کچھ سالوں سے وجود میں آئی ہے، انسان اس کے ذریعہ اپنی درندگی کا اظہار کرنے لگا ہے،بھیڑ کے ذریعہ بے دردی سے ایک انسان کو ماراجاتا ہے، اسلام میں اسے انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے، ایک صاحب ایمان کبھی اس کا تصور نہیں کرسکتا ہے، اس لئے کہ وہ اس بات کو سمجھنا ہے کہ ایک آدمی کے اندر انسانیت نہیں ہے تووہ آدمی کہلانے لائق نہیں ہے تو پھر وہ مسلمان کیسے ہوسکتا ہے؟
              سمجھے گا آدمی کو وہاں کون آدمی 
               بندہ جہاں خدا کو خدا مانتا نہیں 

   مفتی ہمایوں اقبال ندوی
جنرل سیکرٹری تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری
۱۴/نومبر ۲۰۲۴ء مطابق ۱۱/جمادی الاولی۱۴۴۶ ھ

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...