Powered By Blogger

منگل, دسمبر 24, 2024

اداس موسم ، مصنف: انور آفاقی

اداس موسم ، مصنف: انور آفاقی
Urduduniyanews72 
انور آفاقی اردو شعر و ادب کے اس قبیل کی نمائندگی کرتے ہیں جہاں پرورشِ لوح و قلم عبادت سے کم نہیں، سو انہوں نے شاعری کو اس طور پر اپنایا کہ دل کی صدا کا اظہاریہ بنا ڈالا ۔ انہوں نے گذشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں شاعری کی شروعات کی ۔ پہلا شعری مجموعہ" لمسوں کی خوشبو "2011 میں شائع ہوا ۔ اس کا دوسرا ایڈیشن بھی منظر عام پر آیا۔ اس کے علاوہ "دیرینہ خواب کی تعبیر " (سفرنامہ کشمیر) "پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی سے گفتگو " (انٹرویو) "نئی راہ نئی روشنی"( افسانوی مجموعہ)دوبدو"(ادبی مکالمہ ) ،"میزانِ فکر و فن" ( مضامین) تصنیفات و تالیفات کے ذریعے انہوں نے اپنی ادبی کاوشوں کو پیش کیا ہے۔ ان کے اولین شعری مجموعہ "لمسوں کی خوشبو "کا ترجمہ جناب سید محمود احمد کریمی نے Fragrance of Palpability نام سے کیا ۔ انگریزی میں 
 " Anwar Afaqi: A Versatile genius"
کے نام سے سید محمود احمد کریمی کی کتاب سے انگریزی داں حضرات کو انور آفاقی کے بارے میں معلومات ہوتی ہیں ۔" انور آفاقی: آئینہ در آئینہ" کے نام سے ڈاکٹر عفاف امام نوری کی ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے جس سے ان کی شخصیت اور ادبی فتوحات کا کم و بیش مکمل احاطہ ہوتا ہے ۔ مذکورہ گفتگو سے انور آفاقی بحیثیت ادیب ان کے مراتب کا اندازہ کیاجا سکتا ہے۔
"اداس موسم" ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے ۔اس میں 60 سے زیادہ غزلیں، بارہ نظمیں ، قطعات اور منتخب اشعار شامل ہیں۔ مشمولات کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاعر کو غزلیہ شاعری سے زیادہ دلچسپی ہے ۔ شاعر کی اس بانگی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شاعری ان کی طبیعت کا حصہ ہے۔ وہ اپنی بات میں لکھتے ہیں کہ " زندگی کے دوسرے حادثات و واقعات کا تجربہ کیا کچھ کر سکا ہوں اس کا مجھے پتہ نہیں مگر مجھے لگتا ہے کہ میرا یہ مجموعہ کلام "اداس موسم "پہلے مجموعہ کلام" لمسوں کی خوشبو" سے قارئین کو مختلف ضرور نظر ائے گا ۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اگر کسی شاعر کا کوئی بھی شعر کسی بھی قاری کے ذہن میں محفوظ ہو جاتا ہے تو اسے شاعری سے بنواس نہیں لینا چاہیے۔ لہذا اس نئے شعری مجموعہ کے ساتھ حاضر ہوں ۔ ایک بات گوش گزار کرتا چلوں کہ اس مجموعہ کلام پر میں نے دانستہ طور پر کسی بھی شخص استاد یا شاعر سے کوئی اصلاح نہیں لی ہے ۔ کسی استاد سے اصلاح کے نام پر غزلیں لکھوا لینا اور پھر مجموعہ کلام چھپوا لینا نہ تو میری فطرت ہے اور نہ ہی میری طبیعت اسے گوارا کرتی ہے"۔
           ان کی شاعری کے مرکز میں محبت کا حسن موجود ہے۔ رنگِ تغزل کمال کا ہے۔ واردات قلبی کا اظہار سکون دیتا ہے ۔ دل سے نکلی محبت کی صدا محسوس کیجئے ۔ یہ اشعار میری پسند کے ہیں۔
سلگتی رات کی تنہائی مار ڈالے گی
 چلے بھی آؤ کہ جینے کی آرزو ہے ابھی
 یہ کس مقام پر دل نے مجھے ہے پہنچایا
 جدھر بھی دیکھوں فقط تو ہی روبرو ہے ابھی 
بس آسمان سے تکتا ہے رات بھر مجھ کو
 وہ چاند چھت پہ بھی اترے یہ آرزو ہے ابھی
 وہ میری نظم و کہانی میں سانس لیتا ہے 
بچھڑ گیا ہے مگر دل سے وہ گیا بھی نہیں
 آنکھیں بھی قتل عام کرتی ہیں 
نام بد نام ہے قیامت کا۔
انور آفاقی الفاظ کے انتخاب میں کافی چوکس رہتے ہیں ۔ شاعری یوں بھی فنون لطیفہ میں اپنی نزاکت اور حسن خیال سے پہچانی جاتی ہے۔ ان اشعار کو گنگنانے کو جی چاہتا ہے۔ کئی دفعہ چھوٹی بحروں کے اشعار خوب متاثر کرتے ہیں۔
 تتلیوں کے حسین جھرمٹ میں
 پھول کو اشکبار ہونا تھا 
رکھ لیا تم نے ہے بھرم ورنہ
 زندگی بھر شرمسار ہونا تھا 
وہ کلی بعد ایک مدت کے 
دیکھ کر مجھ کو کھل گئی ہوگی۔
ان کی شاعری کے مطالعہ میں ایک خوشگوار جذبے کا احساس ہوا۔ وہ ہے اپنے گاؤں کی مٹی سے محبت، وہاں کی فضا، ہریالی وغیرہ جو ان کے ذہن و دل میں رچا بسا ہے ۔ اردو شاعری میں یہ جذبے قابل قدر ہیں ۔ اس قبیل کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے :
ہمارے گاؤں میں پیپل کی چھاؤں کافی ہے 
تمہارے شہر میں ہوٹل ستارہ ہے تو ہے 

تمہارے شہر میں جینا ہے مشکل 
دھواں ہے شور ہے تنہائیاں ہیں
 ہمارے گاؤں میں آکر تو دیکھو
 ہوا ہے کھیت ہے ہریالیاں ہیں
دوران مطالعہ کئی اشعار نے دامنِ دل تھام لیا اور دیر تک محظوظ ہونے کو مجبور کیا ۔ یہ اشعار شاید آپ کو بھی پسند آئیں :
میں نے پلکیں جھکا لیا قصدا 
زندگی اس کو مل گئی ہو گی 
اس کے ہاتھوں میں دیکھا ہے پتھر 
پھول میں جس کو پیش کرتا ہوں
 عشق تو نام ہے عبادت کا 
عشق میں فلسفہ نہیں ہوتا 
زباں سے سخت تھا دل سے وہ پھول جیسا تھا 
چلا گیا ہے تو ہر شخص یاد کرتا ہے۔
اس مجموعے میں ایک توشیحی نظم" مناظر عاشق ہرگانوی" اور" سید محمود احمد کریمی کی نذر" کے بعد "کرونا"، " بہت گہرا اندھیرا چھا گیا ہے" ،" جلتی ہوائیں" ، " خدشہ " ، "غلیل کی زد پہ " ، " انتظار"( ایک منظوم افسانہ) "ذکر تیرا بعد تیرے" مع انگریزی ترجمہ، "بد نصیب لوگ" ، " کربِ تنہائی" ، اور" الوداع الودع اے جانِ پدر" نظمیں پرتاثیر ہیں۔ " انتظار " تو لاجواب تخلیق ہے۔ غزلوں کی پیشکش میں جدت دکھائی دیتی ہے کہ شاعر نے غزل کے کسی ایک مصرع کو شرخی بنایا ہے ۔ یہ نیا تو ہے پر اچھا ہے۔ مجموعہ میں "اداس موسم" نام کو چھوڑ کر کچھ بھی اداس نہیں ہے بلکہ فرحت و تازگی ہر سو بکھری ہوئی ہے۔ مجموعے کے اندرونی فلیپ پہ کامران غنی صؔبا اور احمد اشفاق کی مختصر تحریر میں شاعر کی کارکردگی کو سراہا گیا ہے جبکہ بیک کور پر جناب حقانی القاسمی کی نپی تلی رائے شاعر کے اعتراف و اقرار کی راہ ہموار کرتی ہے۔ یقین ہے کہ شائقین ادب اس مجموعے کو پسند کریں گے۔
*********************************
ڈاکٹر مجیر احمد آزاد 
محلہ۔ فیض اللہ خاں ، حامد کالونی،
دربھنگہ۔ 846004
Mob. 9430 8987 66

ایک شام ضیاء فتح آبادی کے نام"ضیائے حق فاؤنڈیشن و ینگ مائنڈ ایجوکیشن کی جانب سے مشاعرہ وسیمینار بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا ۔

"ایک شام ضیاء فتح آبادی کے نام"
ضیائے حق فاؤنڈیشن و ینگ مائنڈ ایجوکیشن کی جانب سے مشاعرہ وسیمینار بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا ۔
Urduduniyanews72 
الہ آباد (پریس ریلیز )

ضیائے حق فاؤنڈیشن "وینگ مائنڈ ایجوکیشن"اسکول میں مورخہ 22/دسمبر 2024 بروز اتوار بوقت 03/بجے دوپہر ایک خوبصورت مشاعرہ اور ضیاء فتح آبادی کی حیات وخدمات پر منحصر ایک سیمینار اور ینگ مائنڈ ایجوکیشن کے بچّوں کے پروگرام کا انعقاد کیا گیا ۔
 پروگرام چار حصوں پر مشتمل تھا۔
پروگرام کی شروعات حمدیہ کلام سے ہوا ۔ پہلے حصے میں فاؤنڈیشن اور ینگ مائنڈ ایجوکیشن کا اور سیمنار کا انعقاد عمل میں آیا ،جس کی صدارت الٰہ آباد یونیورسٹی کی صدر شعبہ فارسی پروفیسر صالحہ رشید نے کیں ۔
اس کے بعد فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے ضیائے حق فاؤنڈیشن کا تعارف اور ضیاء فتح آبادی کے حیات وخدمات اور فن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ضیاء فتح آبادی اردو ہندی زبان وادب کے مشہور ومعروف اور مقبول شاعر ،افسانہ نگار، تنقید نگار،سا نیٹ نگار کے ساتھ ساغرؔ نظامی، جوشؔ ملیح آبادی، میراؔ جی اور ساحرؔ ہوشیار پوری کے ہم عصر اور استاد شاعر سیمابؔ اکبر آبادی کے شاگرد تھے۔
ضیاء فتح آبادی کا اصل نام مہر لال سونی تھا۔ وہ کپورتھلہ پنجاب میں اپنے ماموں شنکر داس پوری کے گھر 9؍فروری 1913 کو پیدا ہوئے۔ وہ ایک اردو نظم نگار و غزل گو شاعر تھے۔ انکے والد منشی رام سونی فتح آباد ضلع ترن تارن پنجاب کے رہنے والے تھے اور پیشے کے اعتبار سے ایک مدنی مہندس تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضیاء فتح آبادی کا ادبی سفر اردو شاعری کی ترقی میں ایک اہم باب ہے، جس میں ان کی تخلیقی صلاحیت اور زبان پر گرفت واضح طور پر نظر آتی ہے۔ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں "
 محمد اسامہ(ڈائریکٹر ینگ مائنڈ ایجوکیشن) نے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا"ان کی شاعری میں سادگی اور گہرائی کا امتزاج ہے، جو قاری کو بآسانی متوجہ کرتا ہے اور ان کے دلوں میں جگہ بناتا ہے۔"
مہمان خصوصی اسرار گاندھی نے کہا"ضیاء فتح آبادی کی نظمیں اور غزلیں اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں، ان کی تخلیقات محبت، درد اور معاشرتی حقائق کی عکاسی کرتی ہیں۔"
اس کے بعد پروگرام کی صدارت فرما رہی پروفیسر صالحہ رشید نے پڑھے گئے مقالات اور اسکول اور فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا انھوں نے کہا کہ یہ وہ تنظیم ہے جس نے قوس صدیقی، ناشاد اورنگ آبادی ،شمیم شعلہ ،خالد عبادی، افتخار عاکف، دلشاد نظمی ، شکیل سہسرامی ، اثر فریدی روزنامہ قومی تنظیم ، ڈاکٹر ریحان غنی، برقی اعظمی، اور بھی دیگر شعراء وادباء کو اعزاز سے نواز چکی ہے، ہمیں اس تنظیم کی سرگرمیاں دیکھ کر بیحد خوشی ومسرت اور شادمانی ہوتی ہے، کیونکہ یہ تنظیم اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی کے لئے مستقل کوشاں ہےاور آج اس تنظیم کے زیر انتظام ایک اسکول کا بھی قیام عمل میں آیا،جس میں طلبہ وطالبات اپنی علمی پیاس سکیں گے ،میں خصوصی طور پر ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن کو مبارک باد پیش کرتی ہوں ۔نیز ضیاء فتح آبادی کے حیات وخدمات اور تصنیفات کا اجمالی خاکہ پیش کیا ۔پروفیسر صالحہ رشید نے کہا "ضیاء فتح آبادی کی شاعری میں زندگی کی گہرائیوں اور انسانی جذبات کا منفرد اظہار ملتا ہے، جو قاری کو خود شناسی کی دعوت دیتا ہے۔انھوں نے ضیاء فتح آبادی کے اس شعر کے ساتھ اپنی باتیں مکمل کی :
بڑھ کر مہ و انجم سے ضیائے اردو
رنگینی و دلکشی برائے اردو
اپنی جسے کہہ سکتے ہو ہم سب مل جل کر
ہے کوئی زباں اور سوائے اردو

اس کے بعد دوسرے حصے میں مشاعرہ کا باضابطہ آغاز ہوا ۔ جس کی صدارت ڈاکٹر اشرف علی بیگ نے کیں ۔ اس میں الٰہ آباد شہر کے معروف شاعروں نے اپنے کلام کے ساتھ ساتھ ضیاء فتح آبادی کی غزلیں نظمیں پیش کر اُن کو خراج عقیدت پیش کیا ، شاعروں میں راکیش دلبر،حسین جیلانی سلال پھول پوری، پرکاش سنگھ اشک نے اپنا کلام پیش کیا چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
چراغوں کو بُجھا ڈالا ہے لیکن 
ہوا کا رنگ، کالا ہو گیا ہے
(ر اکیش دلبر سلطانپوری)

حسین آؤ چلیں ہم شہر سے پھر گاؤں کی جانب
بڑے ہی خوش نما ہر دور میں دیہات ہوتے ہیں
(ڈاکٹر حسین جیلانی)
یُوں زندگی نے ہم سے بہانے بہت کیے
چلتی رہی بھی ساتھ ٹھکانے بہت کیے
(ا شرف علی بیگ)
بیوفائی جنہیں نہیں آتی
رسم اُلفت وہیں نبھاتے ہیں 
(سلال الٰہ آبادی)

برباد کر کے مجھ کو وہ جانے کدھر گئے
جو زخم بھر چلے تھے وہ پھر سے ابھر گئے
(پرکاش سنگھ اشک)

تیسرے حصے میں اسکول کے بچّوں نے ڈانس ،موسیقی، ہوگا جیسے پروگرام کو پیش کیا جس میں چھ ٹیم نے حصہ لیا 
پروگرام کے چوتھے اور آخری حصے میں "ضیاء فتح آبادی" ایوارڈ سے شاعروں اور ادیبوں کو اُن کی علمی و ادبی خدمات کے لئے نوازا گیا۔جن میں پروفیسر صالحہ رشید کو ان کی ادبی خدمات کے لئے، اسرار گاندھی کو اُن کے افسانوی ادب کے لئے شاعروں میں اور ضیاء فتح آبادی کو اُن کے سوشل ورک کے لئے ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ساتھ ہی ضیاء فتح آبادی کی شخصیت اور فن پر مبنی کتاب "ضیاء فتح آبادی حیات اور کارنامے" مصنف شبّیر اقبال کی رسم اجراء بھی عمل میں آئی ۔
 واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ اتر پردیش کے شہر الہ آباد کے راجا پور میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک اسکول کاقیام "ینگ مائنڈ ایجوکیشن" کے نام سے عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں خصوصی طور پر محمد اسامہ، محمد ہاشم ، ڈی کے سونی اور ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن ، نے اپنا تعاون پیش کیا، جبکہ عمومی طور پر جملہ اراکین ضیائے حق فاؤنڈیشن نے تعاون دیا ۔پروگرام کے آخر میں ڈی کے سونی اور ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے تمام مہمانان کا شکریہ ادا کیا۔اور اس پروگرام میں شامل تمام بچّوں ، والدین اور دیگر مہمانان کا بھی شکریہ ادا کیا اور اس طرح یہ پروگرام بحسن وخوبی انجام تک پہنچا۔

پیر, دسمبر 23, 2024

میں پٹاخے سے ہی مر جاؤں گا بم رہنے دے

میں پٹاخے سے ہی مر جاؤں گا بم رہنے دے
Urduduniyanews72 
(طنزومزاح)

  * ڈاکٹر محبوب حسن

معاشرے میں ہر طرف جھوٹ،اور افواہ کا بازار گرم ہے۔ اب تو سچ بات پر بھی اعتبار مشکل سے آتا ہے۔ خبر ہے کہ گزشتہ مہینے بھوپال کے ایئر پورٹ پر سات شاعر بے ہوش پائے گئے۔ شاعروں کا یہ قافلہ کسی عالمی مشاعرہ سے واپس ہو رہا تھا۔ پولیس کی ابتدائی تحقیق کے مطابق اس سازش میں کئ نثر نگاروں کے نام سامنے آ رہے ہیں۔ شک کی بنیاد پر کئ نثر نگاروں کو پولس حراست میں رکھا گیا ہے اور لگاتار دھر پکڑ جاری ہے۔ خدایا! کیا زمانہ آ گیا ہے۔ اب بے چارے شاعر بھی محفوظ نہیں رہے۔ غم کا مقام ہے کہ عشق و محبت کے گیت گانے والے شاعروں کی راہوں میں پھول کی بجائے کانٹے بچھائے جانے لگے ہیں۔ پاپولر میرٹھی نے کیا خوب کہا ہے: 
میں  ہوں جس حال میں اے میرے صنم رہنے دے
تیغ مت دے میرے ہاتھوں میں قلم  رہنے   دے
میں تو شاعر  ہوں مرا  دل  ہے  بہت  ہی  نازک
میں پٹاخے سے  ہی مر جاؤں گا  بم  رہنے  دے

بھوپال حادثے کی خبر پھیلتے ہی ملک کے مختلف شہروں میں شعرا حضرات نے اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ ادھر دہلی میں شاعر و شاعرات کا ایک ہجوم جنتر منتر پر امڑ پڑا۔ نثر نگاروں کے خلاف فلک شگاف نعرے لگائے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ احتجاجی جلسہ مشاعرے میں تبدیل ہو گیا۔ شاعروں نے گل و بلبل اور لب و رخسار کی بجائے کڑوے کسیلے اشعار سنائے۔ غزلوں کی بجائے مرثیے پڑھے گئے۔ واہ! واہ! کی جگہ آہ! آہ! کی صدا بلند ہوتی رہی۔ اس طرح انقلاب زندہ باد کے نعروں کے ساتھ مشاعرہ اختتام پذیر ہوا۔ آخر میں شاعروں کا ایک ڈیلیگیشن وزیر داخلہ سے ملا اور اپنی سیکورٹی کی مانگ کی۔

افسوس کہ بے چاری شاعرات بھی اب محفوظ نہیں رہیں۔ ابھی پچھلے برس کی بات ہے۔ دلی میں ایک عظیم الشان کل ہند مشاعرے کا انعقاد ہونا تھا۔ ملک کی کئ اہم شاعرات ایک روز پہلے ہی دہلی میں جمع کر لی گئیں۔ ان کے قیام اور طعام کا معقول انتظام کناٹ پلیس کے کسی مہنگے ہوٹل میں کیا گیا۔ شاعرات کے رنگ و روپ کو چمکانے کے لیے حسب روایت بیوٹی پارلر سے کاریگر بھی بلائے گئے۔ شاعرات چہرے کی رنگائ پتائ میں مصروف تھیں۔ موقع ملتے ہی کسی اچکے نے ان کے قیمتی زیورات اڑا دیے۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ عالم غم میں صف ماتم بچھ گئ۔ کاجل اور غازہ ہم کنار ہونے لگے۔ قافیہ اور ردیف کی رومانی فضا یکایک پتجھڑ کی نذر ہو گئ۔ گویا کوئ آسمانی قہر نازل ہو گیا ہو۔ سفینہ رقیب، فنا دہلوی اور قبا بلرامپوری کئ گھنٹوں تک بیہوش رہیں۔

معتبر ذرائع کے مطابق بھوپال مشاعرہ کیس میں اب تک سات ملزمین کو کورٹ سے ضمانت مل چکی ہے۔ کچھ ابھی بھی پولیس حراست میں ہیں۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق شاعروں کو چائے کے ساتھ نشیلی گولیاں دی گئ تھیں۔ ضرب المثل ہے کہ گڑ سے جو مر جائے اسے زہر سے کیوں مارے! بقول حضرت جون ایلیا "یہ ضروری تو نہیں کہ مجھے زہر پلایا جائے/عین ممکن ہے کسی پھول سے مارا جاؤں" حاسدین کو خدا غارت کرے! آمین! ثم آمین! افسوس کہ ازل سے ہی شاعروں کے خلاف سازشیں جاری ہیں۔ کبھی شاعروں کو مخرب اخلاق قرار دے کر شہر بدر کیا گیا تو کبھی ان کے راستوں میں سانپ بچھو چھوڑے گئے۔ جانے کیوں زمانہ شاعروں کی بیش قیمتی قربانیوں کو نظر انداز کرتا ہے؟ آپ لوگوں کو جان کر حیرانی ہوگی کہ شعروادب کی فکر میں شاعروں کی باضابطہ جماعتیں نکلنے لگی ہیں۔ تبلیغی جماعت کی طرز پر شاعروں کا قافلہ کندھوں پر پشتارہ لٹکائے جنگل جنگل اور صحرا صحرا بھٹک رہا ہے۔ دہلی و دبئی کی چمچماتی محفلوں سے نکل کر شاعر گاؤں کی چلچلاتی دھوپ میں جل رہا ہے۔ شاعروں کی قربانیاں ہرگز ہرگز ضائع نہ ہوں گی۔ 

سنا ہے کہ ضمانت پر رہا ہونے والے نثر نگاروں نے بھی آسمان سر پر اٹھا لیا۔ نثر نگاروں نے شاعروں کے خلاف مختلف شہروں میں جلسے منعقد کیے۔ پٹنہ کے گاندھی میدان میں"نثر نگار زندہ باد" کے عنوان سے ایک مذاکرہ منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں دہلی، بنارس، الہ آباد، گورکھپور، لکھنو اور دوسرے شہروں سے خاصی تعداد میں نثر نگار جمع ہوئے۔ مسلسل پانچ  گھنٹے چلنے والے اس پروگرام میں نثر نگاروں نے شاعروں کے خلاف اپنے شدید رنج کا اظہار کیا۔ ممبئی کے مشہور انشائیہ نگار ریاض احمد فیضی نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا:

"حاضرین جلسہ! آپ لوگ بخوبی واقف ہیں کہ ادب کی جمہوری قدریں کوما میں چلی گئ ہیں۔ جلد ہی ان کی موت کا اعلان کیا جائے گا۔ تعصب اور تعفن زدہ اس ماحول میں نثر نگاروں کا دم گھٹ رہا ہے۔ شاعرحلق میں ہاتھ ڈال کر ہمارا نوالہ چھین رہے ہیں۔ نثر نگاروں پر زمین تنگ ہو چکی ہے۔ ہر طرف صرف مشاعروں کی آندھی چل رہی ہے۔ مشرق سے مغرب تک مشاعرہ۔۔زمین سے آسمان تک مشاعرہ۔۔دھوپ سے چھاؤں تک مشاعرہ۔۔ ہر طرف مشاعرہ ہی مشاعرہ۔ اب تو حد ہو گئ بھئ! اب تو ختنہ کے بعد بھی مشاعرے ہونے لگے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب کفن دفن کے بعد شعری محفلیں سجنے لگیں۔ یعنی زندگی کے ساتھ بھی اور زندگی کے بعد بھی! دبئی کے ایک مشاعرہ میں صدر محفل نے شاعروں کی فضیلت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا "اس دھرتی پر جب ایک بھی شاعر زندہ رہے گا، رب ذو الجلال اس کائنات کے نظام کو باقی رکھے گا۔ آمین! ثم آمین!"

دہلی کے نوجوان فکشن نگار شاکر فیضی نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "نثر نگاری نہایت صبر آزما اور ٹیبل ورک ہے۔ شاعری کی طرح نثری مال اڑانا ممکن نہیں جبکہ مشاعرہ باز شاعر اور شاعرات دوسروں کا کلام گاتے ہوئے آئے دن پکڑے جاتے ہیں۔ گلی محلوں میں پرچون کی طرح شاعری کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ غزلیں اور نظمیں نمک اور پیاز کی طرح فروخت ہو رہی ہیں۔ شاعروں کی تعداد پر اسرار طریقے سے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ شاہین باغ کے علاقے میں شاعروں اور انسانوں کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ شاعروں کے احترام میں خاکسار نے سڑک پر تھوکنا بند کر دیا ہے کہ خدا جانے کب کون سا شاعر وہاں سے گزر جائے۔

دہلی کی معروف خاتون فکشن نویس فگار عظیم بطور مہمان خصوصی شریک ہوئیں۔ دوران تقریر انہوں نے فرمایا "صاحباں! زمانے کی ستم ظریفی کہیے کہ نثر نگار دن بہ دن باریک ہوئے جاتے ہیں جبکہ شاعر بھاری بھرکم توند لیے پھر رہے ہیں۔ نثر نگاروں کے پاس ناخن کٹانے کے لیے پیسے نہیں ہیں اور شاعر حضرات رخ پر قمقمہ چپکائے جگمگا رہے ہیں۔ مفلسی کے ستائے ہوئے لاچار نثر نگاروں کو ایک جوڑی لنگی تک میسر نہیں جبکہ زرق برق سے جڑی خوشبو دار شیروانی میں ملبوس شاعر منھ میں پان دبائے مسکرا رہے ہیں۔ حاضرین! یاد رکھیں۔ یہ ناانصافی اور غیربرابری ہی فساد کی اصل جڑ ہے۔

بہار کے فکشن نویس احمد کبیر نے بطور مہمان اعزازی شرکت کی۔ موصوف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ "خدارا! مجھے شاعر اور شاعرات سے کوئی ذاتی بغض نہیں۔ میں تو خود مشاعروں میں تالیاں بجاتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ شاعری ادب کا جز ہے کل نہیں۔ ادب کو میر غالب اقبال فراق کے ساتھ ساتھ میر امن، بطرس بخاری، پریم چند اور بیدی کی بھی ضرورت ہے۔ شاعری کو اتنی بھی افضلیت حاصل نہ ہو جائے کہ دوسری اصناف پوری طرح سے بے روزگار ہو جائیں۔ زمانہ واقف ہے کہ مشاعروں میں چوری کا مال بیچتے ہوئے یہ برادری اکثر و بیشتر دھری جاتی ہے۔ ایک تازہ واقعہ پیش خدمت ہے۔ چند روز قبل علی گڑھ میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا۔ اس مشاعرہ میں شریک ایک بین الاقوامی شاعر نے اسٹیج سے ہی علیگڑھ کو الف سے ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس نئ تحقیق کے لیے دل کھول کر داد دیجیے۔ خیر! جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ اس نئے تحقیقی انکشاف کے بعد علی گڑھ کے پروفیسر حضرات ابھی تک گہرے کنفیوژن میں غرق ہیں۔ انھیں اندیشہ لاحق ہے کہ کوئی شاعر نما محقق شیروانی کو ص سے نہ قرار دے دے۔ چچا غالبؔ نے کیا خوب کہا ہے "شرم تم کو مگر نہیں آتی"

اس تقریب کی صدارت الہ آباد کے بزرگ نثر نگار ابرار گاندھی نے فرمائ۔ اپنا چشمہ درست کرتے ہوئے گویا ہوئے "حاضرین جلسہ! مشاعرہ باز شاعروں نے باضابطہ اپنے اپنے گروہ بنا رکھے ہیں۔ ان کے تار دبئی اور دوسرے خلیجی ممالک سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ قوالوں کو مات دینے والے ان گویوں کی شاعری سامعین سے دادوتحسین کی بھیک مانگتی ہوئ نظر آتی ہے۔ مشاعرہ باز شاعر شہوت انگیز جذبات اور ہیجان انگیز خیالات کی گٹھری لیے پھرتا ہے۔ خود کو میر و غالب کا وارث سمجھنے والے اس گروہ نے اردو زبان و ادب کو حسن و عشق اور لب و رخسار تک محدود کر دیا ہے۔ اس گمراہ کن صورت حال کے باعث لوگ اردو کو ایک ایسی نشہ آور محفل تصور کر بیٹھے ہیں، جہاں ہر آن جام و پیمانہ چھلک رہے ہوں۔۔۔دھیمی دھیمی آنچ پر کباب کی خوشبو اٹھ رہی ہو۔۔۔شباب انگڑائی لیتے ہوئے عالم سرمستی میں ڈوبا ہوا ہو۔۔آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ ہوری، بدھیا، کالو بھنگی اور سکینہ کا بھی راشن کارڈ بننا چاہیے تاکہ کہانی کے سارے کردار شاد و آباد رہ سکیں۔ اردو زبان و ادب کو لیلی مجنوں اور شیریں  فرہاد کے خیالی غار سے آزاد کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے"

صدارتی خطبہ کے بعد مہمانوں میں بطور تبرک خرما تقسیم کیا گیا۔ سنا ہے کہ شاعروں پر رب کا خاص کرم ہوتا ہے۔ صحیفوں میں ذکر آیا ہے کہ خدا اس مخلوق کو ایک خاص سانچے میں ڈھال کر تیار کرتا ہے۔ عام انسانوں کے برعکس اللہ شاعروں کو پھیپھڑوں اور گردوں کی مانند ایک جوڑی دل کے ساتھ دنیا میں بھیجتا ہے۔ کیوں کہ ایک عدد دل کے سہارے غم جاناں اور غم دوراں دونوں کا بوجھ برداشت کرنا ممکن نہیں۔ امیر مینائی نے سچ ہی کہا ہے کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔ اس قابل رحم طبقہ کی زندگی میں درد ہی درد ہے۔ حضرت میاں فقیر فرماتے ہیں کہ شاعروں کے دل سے نکلی ہوئی آہ براہ راست عرش معلی تک پہنچتی ہے۔ خدا معاف فرمائے! یہ سب قیامت کی نشانیاں ہیں۔


ڈاکٹر محبوب حسن 
اسسٹنٹ پروفیسر 
شعبہ اردو، گورکھپور یونیورسٹی

بدھ, دسمبر 18, 2024

حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے ۔✍️انور آفاقی دربھنگہ

حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے ۔
Urduduniyanews72 
✍️انور آفاقی دربھنگہ 

دربھنگہ جسے متھلا بھی کہا جاتا ہے اس کی اپنی ایک تاریخی ،علمی اور ادبی حیثیت زمانہ قدیم سے رہی ہے۔ اسی ( متھلا/ دربھنگہ) سر زمین کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ یہاں میتھلی زبان کے عظیم شاعر مہا کوی ودّیا پتی نے جنم لیا جن کا علمی و ادبی مرکز بھی یہی متھلانچل رہا۔ ودیا پتی کی شاعری کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری کا میتھلی زبان سے انگریزی کے ساتھ کئی دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ کیا گیا ۔ اسی شہر کو یہ مقام و مرتبہ بھی حاصل ہے کہ ملا ابو الحسن جیسے قابل و فاضل شخصیت کا مسکن بھی یہی متھلا تھا۔ ملا ابوالحسن مغل بادشاہ عالمگیر کے دربار میں کسی خاص عہدہ پر فائز تھے اور " فتاوی عالمگیری " کے مرتبین میں شامل تھے ۔ وہ بادشاہ عالمگیر کی صاحبزادی ، شہزادی زیب النساء کے اتالیق بھی تھے ۔ یہیں مولوی محمد صلاح الدین خامؔوش ابن شاہ کلام مجتبی پیدا ہوئے جو نہ صرف ایک عالم دین تھے بلکہ ایک صاحب دیوان شاعر بھی تھے ۔ مولوی شرف الدین طاؔہر بھی ایک خوش فکر اور عمدہ شاعر تھے ۔ منشی بہاری لال فؔطرت کا وطن بھی یہی متھلا/دربھنگہ تھا۔ ان کو اردو اور فارسی زبان پر قدرت حاصل تھی۔ شاعری کے ساتھ ایک قصیدہ بھی مہاراجہ دربھنگہ کے لئے لکھا تھا۔ وہ اپنی مشہور تاریخی تصنیف " آئینہءِ ترہت" کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔ اسی متھلا / دربھنگہ کے رہنے والوں میں منشی آسارام ذؔوق ،امبیکا پرساد شؔمس ، منشی ایودھیا پرساد بؔہار ، منشی مہادیو پرساد منؔظر، شاداں ، محسن دربھنگوی ، مولانا عبدالعلیم آسی، شاداں فاروقی، اجتبی حسین رضوی ، اویس احمد دوراں ، حافظ عبد المنان طرزی وغیرہ جیسی علمی و ادبی ہستیوں کے نام شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ ایسے سینکڑوں نام ہیں جنہوں نے اردو زبان و ادب اور شعر و شاعری کو اپنا وسیلہ اظہار بنایا۔ 
میں جس زمانے ( 1970 سے 1974) میں دربھنگہ
شہر میں زیر تعلیم تھا ۔ یہاں کی کئی علمی و ادبی شخصیتوں کے نام اور ادبی کارناموں سے واقف ہو گیا تھا۔ یہ وہ شعراء و ادبا تھے جن کی تخلیقات رسالوں میں شائع ہو ری تھیں۔ اس زمانے میں قلعہ گھاٹ میلان چوک پر ایک قدیم طرز کا خوبصورت مکان ہوا کرتا تھا جو شعرا و ادباء کے لئے ایک مرکزی حثیت رکھتا تھا۔ یہ مکان"امیر منزل " کے نام سے مشہور تھا ۔ یہی امیر منزل حسن امام دؔرد، مظہر امام اور منظر امام کا آبائی گھر تھا ۔ اسی امیر منزل میں اردو زبان و ادب کی بڑی بڑی با کمال ہستیاں جمع ہوا کرتی تھیں ۔ زمانہءِ طالب علمی میں مجھے ان میں سے چند معتبر ہستیوں سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا ، انہیں 
قریب سے دیکھنے کے مواقع بھی ملتے رہے ۔ 
 پھر جب میں دسمبر 1974 میں بی ۔ ایس سی کے امتحان سے فارغ ہوا تو بوکارو اسٹیل سیٹی چلا گیا جہاں میرے والدِ محترم ایک بڑی تعمیراتی کمپنی میں اہم عہدہ پر فائز تھے ۔ وہیں مجھے پہلی مرتبہ محترم حسن امام دؔرد صاحب سے ملاقات ہوئی اور پھر جلد ہی انکی قربت بھی میسر ہوئی ۔ حسن امام درد ایک شریف النفس اور نہایت مخلص انسان تھے ۔ ان کی طبیعت میں درویشی اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ، گفتگو میں نرمی اور مٹھاس تھی۔ حسن امام درؔد کی ولادت "امیر منزل" قلعہ گھاٹ دربھنگہ میں پہلی نومبر 1925 کو ہوئی تھی ۔ ان کے والد سید امیر علی پوسٹل ڈپارٹمنٹ میں ملازم تھے اور لہیریا سرائے پوسٹ آفس دربھنگہ میں" پوسٹ ماسٹر"
کے عہدہ پر خدمات انجام دے رہے تھے ۔ وہ بھی اسی متھلا/ دربھنگہ کے باسی تھے ۔ 
درؔد صاحب ایک کامیاب اور استاد شاعر تو تھے ہی، اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک عمدہ افسانہ نگار بھی تھے ۔ صحافت اور تحقیق کے میدان میں بھی وہ بہت فعال تھے۔ انہوں نے مجاہد آزادی مولانا عبدالعلیم آسی کے ساتھ ان کی ہی قیادت میں 1942 کی جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا تھا۔ وہ سب مل کر ہر کام خفیہ طور پر کیا کرتے تھے تاکہ حکومت کے کارندوں کو انکی اس انگریز مخالف تحریک کا علم نہ ہو۔ مگر جب ان کے خفیہ کاموں کی خبر انگریز عہدہ داروں کو ہوئی تو ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کر دیا گیا ۔ باہمی صلاح و مشورے کے بعد طئے پایا کہ دربھنگہ کو چھوڑ کر کہیں باہر چلے جانا چاہئے۔ لہذا یہ کلکتہ چلے گئے اور پھر وہیں صحافت سے جڑ گئے ۔ حسن امام درد کلکتہ میں 1942 سے 1945 تک مقیم رہے ۔ جب دربھنگہ میں حالات سازگار ہوئے تو پھر جون 1945 میں دربھنگہ چلے آئے۔ دربھنگہ میں ادبی فضا کو مستحکم کرنے کی غرض سے 1944 میں ایک انجمن " اردو ادارہ" کے نام سے وجود میں آئی تھی جس کے بانی و روح رواں مولانا عبدالعلیم آسی اور ان کے رفقاء تھے ،حسن امام درد جب کلکتہ سے 1945 میں دربھنگہ لوٹے تو ان کو اردو ادارہ کا سکریٹری بنا دیا گیا۔
         اس ادبی انجمن" اردو ادارہ " میں ہر ہفتہ پابندی سے ادبی نشست منعقد ہوا کرتی تھی ۔ اس کا مرکز بھی یہی امیر منزل ہوا کرتا تھا ۔ یہاں شعر و شاعری کے ساتھ اردو ادب کے دوسرے اصناف پر بھی طبع آزمائی ہوتی تھی ۔ افسانے اور مضامین پڑھے جاتے اور پھر ان پر تعمیری تنقیدیں اور تبصرے بھی ہوا کرتے تھے۔ حسن امام درد کی ادبی دنیا میں داخلے کا سبب یوں تو ان کی شاعری بنی مگر پھر انہوں نے تواتر سے افسانے لکھنے شروع کر دیے ۔ انہوں نے 50 سے زیادہ افسانے اور اتنے ہی "تحقیقی اور تنقیدی مقالے بھی لکھے ۔انہوں نے کئی ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کئے جو ریڈیو سے نشر بھی ہوئے ۔ ان کے افسانے" تجلی" کلکتہ ، " نغمہ و نور" کلکتہ ، " نقاش" کلکتہ ، " نئی کرن" دربھنگہ ، "معاون " کلکتہ ، " صدائے عام" پٹنہ ، وغیرہ میں 1944 اور 1953 کے درمیان شائع ہوتے رہے۔
               انہوں نے ایک افسانوی مجموعہ بھی ترتیب دیا تھا مگر افسوس کہ وہ شائع نہیں ہو سکا ۔ زندگی کی بھاگ دوڑ میں کب ضائع ہو گیا کہ پتہ بھی نہیں چل سکا ۔ لاکھ کوشش کے باوجود وہ مسوّدہ نہیں مل سکا ۔ حسن امام درد کا ایک افسانہ" چیخ" ، افسانوں کے انتخاب کے مجموعہ "گلابی بادے " کلکتہ میں شائع ہوا تھا جسے محترمہ ریحانہ سلطان پوری نے ترتیب دیا تھا ۔ اپنے اس منتخب افسانوں کے مجموعہ میں حسن امام درد صاحب کا ریحانہ سلطان پوری نے تعارف کراتے ہوئے جو لکھا تھا اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس پائے کے افسانہ نگار تھے ۔ اس اقتباس کو قارئین کے لئے درج کرنا مناسب سمجھتا ہوں :
                  "انہیں قدرت نے افسانہ لکھنے کا خاص سلیقہ عطا کیا ہے اور ان کی تحریر میں وہ بات پائی جاتی ہے جو اکثر مشاہیر کے یہاں کمیاب ہے ۔ مگر بہاری ہیں ، اس لیے کبھی اپنی شہرت کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ۔ اگر یہ اپنی تحریروں سے مسلسل ملک کو روشناس کراتے رہتے تو آج ان کا شمار بھی صف اول کے فنکاروں میں ہوتا"۔
افسانوں کے انتخاب کا یہ مجموعہ بھی اب ناپید ہے۔  
         حسن امام دؔرد کئی اخبار و رسائل سے منسلک رہے جن میں " آبشار "کلکتہ، " آزاد ہند " کلکتہ، ہفتہ وار " آدرش" پٹنہ ، " دور حاضر " ، " عصر جدید" کلکتہ، روزنامہ" غریب کی دنیا" پٹنہ ، "کارواں" کلکتہ، "شفق" بوکارو اسپات نگر ،" نئی کرن" ،" الپنا " اور" تمثیل نو" دربھنگہ وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں ۔ ان کی شاعری کا ایک ہی مجموعہ "حصار درد" کے عنوان سے 1999ء میں شائع ہوا جسے بہت پسند کیا گیا ۔ ڈاکٹر جگن ناتھ
آزاد ، حسن امام درؔد کی شاعری پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
                 " حسن امام دؔرد نے اپنی شاعری کو کسی مخصوص دائرے میں قید نہیں کیا۔ انہوں نے حیات و کائنات کے دوسرے مسائل کی طرف بھی توجہ کی اور انہیں اپنی شاعری کا جز بنایا ۔ انہوں نے فکر و شعور کو جذبے میں تبدیل کر کے ایسی شاعری پیش کی ہے جو دل کو چھوتی ہے"۔
حسن امام درؔد کی شاعری کے بارے میں بعض تنگ
 نظر اور کم علم لوگوں کا خیال ہے کہ انکی شاعری متھلانچل کے دائرے میں محدود ہے اور ان کی شاعری میں آفاقیت کا فقدان ہے ۔اگر ایسا ہے تو انکی نظم "جرمنی کی شکست" ، " بوجھ " ، " 1 مئی " اور ، " جمہوریہ ہند" کو کس خانے میں رکھیں گے ۔
        یہاں میں دؔرد کی شاعری کے حوالے سے پروفیسر منصور عمر مرحوم کی اس رائے کو پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو انہوں نے اپنے مضمون " وسیع تناظر
 کا ترقی پسند شاعر: حسن امام درد " میں تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: 
        "ہم کہہ سکتے ہیں کہ حسن امام درد نے دنیا
         اور مسائل دنیا کو وسیع تر تناظر میں رکھ
       کردیکھنے اور انہیں اپنے مخصوص لب و لہجہ
       میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور
       یہی ان کی شاعری کا وصف خاص ہے"۔

اب آئیے اسی تناظر میں پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی 
مرحوم کی رائے بھی جان لیجئے جو وہ حسن امام دؔرد کی غزلوں کے لئے رکھتے تھے ۔ وہ رقم طراز ہیں:
       " حسن امام درد کی غزلوں میں صرف دروں 
         بینی اور مشاہدہءِ ذات نہیں ہے بلکہ تمام عالم  
         انسانیت پر ان کی نظر ہے" ۔
حسن امام درد نے مولانا عبدالعلیم آسی کی تخلیقات جو ڈائری اور صفحات پر بہت خستہ حالت میں منتشر تھیں ، کو بڑی محنت سے جمع کیا ۔ ان کی شاعری کو" منظومات آسی" اور ان کی نثری تخلیقات کو" منثورات آسی "کے نام سے ترتیب دے کر 2008 میں شائع کرا کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ۔ 
حسن امام دؔرد کی حیات و خدمات پر مقالہ لکھ کر عبدالمعبود آمر نے 1998 میں للت نارائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ سے ڈاکٹریٹ کی سند پائی۔ 
معروف و مشہور شاعر و ادیب مظہر امام اور افسانہ نگار و صحافی پروفیسر منظر امام دونوں حسن امام درد کے چھوٹے بھائی تھے ۔ یہ سب اب مرحوم ہو چکے ہیں ۔ 
        روزگار کے سلسلے میں حسن امام دؔرد جمشید پور ، رانچی ، بوکارو اسٹیل سیٹی ، راور کیلا ، درگا پور ، بھلائی اور دامن جوڑی وغیرہ جیسے شہروں میں قیام پذیر رہے اور ایڈمنسٹریشن سپرنٹنڈنٹ کے اعلی عہدہ سے ریٹائر ہو کر اپنے شہر دربھنگہ آگئے۔ ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ دربھنگہ میں پلائی وڈ بنانے والی مشہور کمپنی "متھلا پلائی وڈ انڈسٹریز " میں بحثیت مینیجر کام کیا۔
حسن امام درد جہاں بھی رہے اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے ہمیشہ کوشاں و متحرک رہے ۔ انہوں نے بہت سارے لوگوں کو اس کی ترغیب بھی دی ۔ بوکارو اسٹیل سیٹی میں اپنے قیام کے دوران کئی لوگوں کو شعر و شاعری کی طرف نہ صرف متوجہ کیا بلکہ ان کی اصلاح بھی فرماتے رہے ۔ بوکارو اسٹیل سیٹی میں ان کی وجہ سے جن لوگوں نے شاعری کی دنیا میں پہلی مرتبہ قدم رکھا ان میں اظہر نیر سر فہرست ہیں۔ ان کی ہی تحریک پر میں بھی شعر کہنے لگا ۔ کوئی ایک درجن سے زیادہ دوسرے احباب بھی ان کے زیر سایہ شاعری کرنے لگے تھے ۔ بوکارو اسٹیل سیٹی میں ان کا گھر ایک ادبی مرکز بن گیا تھا ۔ انہوں نے وہاں انجمن ترقی اردو کی ایک شاخ بھی قائم کی تھی ۔
 اردو زبان و ادب سے بے حد محبت کرنے والا زبان و ادب کا یہ سچا سپاہی 25 ستمبر 2012 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا اور شاہی مسجد قلعہ گھاٹ دربھنگہ کے قبرستان میں آسودہ خواب ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے آمین ۔ آئیے آخر میں حسن امام درد کے چند اشعار آپ کی بصارتوں کی نذر کرتا چلوں ۔

اپنی خودداری احساس کا سرمایہ ہوں 
اپنی تکمیل کو جنت سے نکل آیا ہوں

 تیرا بندہ ہی سہی، تیری ضرورت ہوں میں
 تیری دنیا کے لیے رحمت و برکت ہوں میں

زمانہ پھر کسی منصور کی تلاش میں ہے
 یہ وقت وہ ہے کہ دار و رسن کی بات کریں

حوصلہ مر گیا ہے جینے کا 
صبح تاریک رات بھاری ہے

آرزو کا حاصل کیا ایک لفظ حسرت ہے
 آپ کو اٹھانے ہیں رنج اور مہن تنہا

اس شدید آندھی میں گھر سے کون نکلے گا
 بس ہوا میں اڑتا ہے اپنا پیرہن تنہا

بھیانک شور سناٹا بھیانک
 گلی خود راستہ روکے کھڑی ہے

حصارِ عاقبت میں مجھ کو رکھا میرے مرشد نے
 مگر دل میں تڑپ تھی میں حصارِ درد تک پہنچا

 اے درؔد سب ہی لکھ دیا احوالِ زندگی
 لیکن تھا سچ وہی کہ جو بین السطور تھا

اوڑھ کر کینچلی تمدن کی
 سانپ کیسا مرا مرا سا تھا

شاید کہیں بھٹک پڑے خوشبوئے انبساط
 رکھا ہے میں نے دل کا دریچہ کھلا ہوا

***

بدھ, دسمبر 11, 2024

اسلامی اسکول: وقت کی بڑھتی ہوئی ضرورت

اسلامی اسکول: وقت کی بڑھتی ہوئی ضرورت
Urduduniyanews72 
جدید دنیا کے پیچیدہ مسائل اور چیلنجز کے درمیان اسلامی اسکول وقت کی اہم ترین ضروریات میں سے ایک بن چکے ہیں۔ یہ ادارے ایسے مراکز ہیں جہاں بچوں کو نہ صرف معیاری دنیاوی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ انہیں اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا شعور بھی فراہم کیا جاتا ہے۔
آج کے معاشرتی ماحول میں، جہاں نوجوان نسل پر مغربی ثقافت اور غیر اسلامی رویوں کا گہرا اثر ہے، اسلامی اسکول ایک محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتے ہیں۔ یہ اسکول بچوں اور بچیوں کو اسلامی ماحول میں پروان چڑھنے کا موقع دیتے ہیں، جہاں وہ نماز، روزہ، اخلاقیات اور قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی زندگی کی بنیاد رکھ سکیں۔ ایسے ادارے بچوںاور   بچیوںکی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اور ان میں حلال و حرام کی تمیز اور دین سے محبت پیدا کرتے ہیں۔
اسلامی اسکولوں میں نصاب اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ وہ دنیاوی اور دینی علوم کے درمیان توازن قائم رکھیں۔ ریاضی، سائنس، اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ فقہ، حدیث، سیرت النبی ﷺ اور اسلامی تاریخ بھی پڑھائی جاتی ہے۔ یہ امتزاج بچوں اوربچیوںکو ہر دو میدان میں ممتاز بناتا ہے، اور وہ ایک کامیاب مسلمان کی حیثیت سے معاشرے میں اپنی شناخت قائم کر سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ، اسلامی اسکولوں کا مقصد صرف تعلیمی کامیابی نہیں بلکہ طلبہ کی ذہنی، روحانی، اور اخلاقی تربیت بھی ہے۔ وہ بچوں میں تقویٰ، ایمانداری، اخلاص، اور دوسروں کے لیے محبت جیسے اوصاف کو پروان چڑھاتے ہیں۔ یہ ادارے بچوں اور بچیوں میں قیادت کی صلاحیتیں پیدا کرتے ہیں اور انہیں دین اور دنیا دونوں کی ذمہ داریوں کے لیے تیار کرتے ہیں۔
مزید برآں، اسلامی اسکول طلبہ  اور طالبات کے درمیان کمیونٹی اور تعلق کے احساس کو فروغ دیتے ہیں، اور انہیں اپنے دین اور ثقافت سے مضبوط رشتہ قائم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ یہ اسکول بچوں  اور بچیوں کو دیانتداری، ہمدردی، اور احترام جیسی اقدار کی اہمیت سکھاتے ہیں جو انفرادی اور اجتماعی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔
مختصراً، اسلامی اسکول آج کے دور میں صرف ایک آپشن نہیں بلکہ ایک ضرورت ہیں۔ یہ ادارے ایسی نسل کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو نہ صرف علم میں ماہر ہو بلکہ اخلاقی طور پر بھی مضبوط ہو اور معاشرے کی بہتری میں مثبت کردار ادا کرےایسے اداروں میں سرمایہ کاری ایک روشن اور ہم آہنگ مستقبل میں سرمایہ کاری ہے۔
آج کے دور میں، والدین کو اپنے بچوں  اور بچیوں کی تعلیم کے لیے اسلامی اسکولوں کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کے لیے نہ صرف بہتر تعلیمی مستقبل بلکہ دینی تربیت بھی یقینی بنا سکیں۔ یہ اسکول ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جو علمی میدان میں کامیاب ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کی حامل ہو، اور دنیا میں دین کا پیغام عام کرنے میں کردار ادا کرے۔
محمد افضل اللہ ظفر :خنساء اسلامك انگلش اسكول  بہیڑہ ،دربھنگہ ،بہار

پیر, دسمبر 09, 2024

جنازہ کی ایک تصویر

جنازہ کی ایک تصویر 

 Urduduniyanews72 
سوشل میڈیا میں نمازجنازہ کی ایک تصویر پوسٹ کی گئی ہےجسمیں فقط چند لوگ ہی نظر آرہے ہیں،بقیہ پورا مجمع اس منظر سے غائب ہے۔اس فوٹو سے کیا پیغام دیا جارہا ہے اور اس کے نشر کرنےکا مقصد کیا ہے؟یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی تو ایک جہاں دیدہ شخص نے اس کی  وجہ یہ بتلائی ہے کہ بھیجنے والاجنازہ کی نماز میں  اپنی موجودگی درج کرارہاہے،نیز مرحوم کے وارثین کی خوشنودی چاہتا ہے۔اگر یہ سچ ہےتوایک صاحب ایمان کی شان کے یہ خلاف ہےاور  بہت ہی افسوسناک عمل ہے،اس پر جسقدر ماتم کیا جائے وہ کم ہے۔جنازہ کی نماز کا مقصد کیا ہے؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟یہ کیوں پڑھی جاتی ہے؟یہ ان باتوں سے ناواقفیت اور جہالت کی بڑی دلیل بھی ہے۔
 جنازہ کی نماز کا ایک اہم بنیادی مقصد مرحوم کے لئے دعائے مغفرت ہے۔علامہ ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے دعا کو نماز جنازہ کا رکن قرار دیا ہے،اگر چہ ان کی یہ رائے جمہور کے خلاف ہے تاہم اس سے میت کے لئے کی جانے والی دعائے مغفرت کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے۔ تیسری تکبیر کے بعد جو دعا پڑھی جاتی ہے،یہ پوری دعا دعائے مغفرت ہے،اس میں بندہ اپنے رب سے یہ کہتا ہے کہ؛"اے اللہ! ہمارے زندوں اور مردوں اور حاضروں اور غائبوں اور چھوٹوں اور بڑوں اور مردوں اور عورتوں کو بخش دے، اے خدا! ہم میں سے جسے تو زندہ رکھے اسلام پر زندہ رکھ اور جسے وفات دے اسے ایمان پر وفات دے"۔
اگر کسی کو یہ دعا بروقت یاد نہ ہوتو تو فقہ کی مشہور کتاب البحرالرائق میں  یہ مختصر دعا تعلیم کی گئی ہے؛ "أللهم إغفر للمؤمنين والمؤمنات"اے اللہ! تمام مومنین ومومنات کی مغفرت فرمادیجئے" یہاں متبادل کے طور پر جو دعا سکھائی گئی ہے یہ بھی دعائے مغفرت ہی ہے۔اس سے جنازہ کی حاضری کا مقصد واضح ہوتاہے کہ یہ حاضری اسی خاص مقصد کے تحت ہوتی ہے،حدیث شریف میں اسی دعاکو مسلمان بھائی کا آخری حق قرار دیا ہے،کہ جب ایک مسلمان کا انتقال ہوجائے تو اس کے جنازہ میں شرکت کرے،یہ شرکت برائے دعائے مغفرت ہی ہے۔ یہی وہ مرحوم کا حق ہےجسے ادا کرنے کے لئے بندہ جنازے میں شریک ہوتا ہے۔ 
آج جنازہ میں لوگ خوب شامل ہوتے ہیں مگر  یہ حاضری فقط حاضری ہے اور مقصد اصلی سے خالی ہے۔بلکہ اب اس کی سمت بھی تبدیل ہورہی ہے، مرحوم کے زندہ وارثین کی خوشنودی کے لئےشرکت ہوتی ہے،اس سے آگے بڑھ مذکورہ بالا واقعہ کی روشنی میں مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ  ٗمادی فوائد کا حصول اورذاتی  پہچان بنانے کی سعی بھی ہوتی ہے۔اعاذنا الله من ذالك۰
اور دوسری بات یہ کہ جنازہ کی نماز بھی نماز ہے، اس کے لئے نیت ضروری ہے، صف میں کھڑا ہونے والا اپنی نیت میں اس کا استحضار کرتا ہے کہ میں خدا کے واسطے اس جنازہ کی نماز اس میت کی دعائے مغفرت کے لئے اس امام کے پیچھے پڑھتا ہوں، جب نماز کی نیت اللہ کے واسطے کی ہے اور اس سے مقصد لوگوں کی رضامندی ہے تو یہ عمل غارت ہوگیا ہے، ایسی نمازیں منھ پر ماردی جاتی ہیں جو دوسروں کے لئے پڑھی جاتی ہیں، اس کا اجر آخرت میں نہیں ملنے والا ہے۔بندہ دوقیراط کی تلاش میں تھا اسے خیرات بھی ملنے نہیں جارہا ہے۔
آج کہیں جنازہ میں شرکت کرنی ہو تو خوب تیاری کی جاتی ہے، نئے کپڑے زیب تن کئے جاتے ہیں،جشن کا سماں نظر آتا ہے،خوش گپیاں ہوتی ہیں، دعوت اڑائی جاتی ہے،  تصویر لے لے کر اس کی خوب تشہیر کی جاتی ہے، مقصد اصلی پرکوئی نظر نہیں ہے۔جنازہ کے پیچھے چلنے کا طریقہ بھی مذہب اسلام میں تعلیم کیا گیا ہے، اس تعلق سے بھی بڑی بے اعتدالی دیکھنے میں آتی ہے، لوگ چلتے ہوئے زور زور سے باتیں کرتے ہیں، جبکہ جنازے کو اٹھا کرلے چلتے وقت کلمہ شریف وغیرہ پڑھنے کوبھی دل دل میں ہی پڑھنے کا شرعی حکم ہے، آواز سے پڑھنا مکروہ ہے،مفتی اعظم علامہ محمد کفایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے تعلیم الاسلام کے چوتھے حصہ میں اس مسئلہ کو تحریر فرمادیا ہے،اور یہ کتاب مکتب میں ہی ہر بچےکو پڑھادی جاتی ہے۔اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مکتب کے معیار کی بنیادی تعلیم سے بھی ہم لوگ ناواقف ہیں، اس جانب توجہ کی سخت ضرورت ہے۔

                    حقیقت خرافات میں کھوگئی 
                     یہ امت روایات میں کھوگئی 

مفتی ہمایوں اقبال ندوی 
جنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۹/نومبر ۲۰۲۴ء بروز دوشنبہ

پیر, دسمبر 02, 2024

قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن،، کا مشاعرہ

قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن،، کا مشاعرہ
 Urduduniyanews72 
   وہ آفتاب ا گا ئیں گےہم اندھیروں میں 
   جہانِ علم وادب روشنی سے بھر جائے
                  ( انس مسرورانصاری) 
  ٹانڈہ (امبیڈکر نگر)قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن،، کے زیراہتمام علمی وادبی خطبات اورشاندار مشاعرے کاانعقاد ہواجس کی صدارت محمد شفیع نیشنل انٹرکالج (ہنسور) کےاستادمحترم محمد اسلم خاں صاحب نے فرمائی اور نظامت کے فرائض جناب قاری جمال اشرف نظامی نے انجام دیے۔انھوں نےحمدپاک سے مشاعرہ کا آغاز کیا اور جناب سعید ٹانڈوی نے بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں نعت پاک کا نذرانہ پیش کیا۔قمر جیلانی کےابتدائی کلمات اورقاری جمال اشرف نظامی کی ادارہ کے متعلق تعارفی تعارفی تقریرکے بعد محمد اسلم خان نےاپنے صدارتی خطبہ میں قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن،، کے تعلیمی شعبہ جات کی بہترین کارکردگی اوران کے تدریجی ارتقاء کا جائزہ پیش کرتے ہوئے تحریک کےبانی وصدر انس مسرورانصاری کی تعریف و توصیف کی اورانھیں قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن،،کے ترقیاتی کاموں پر مبارکباد دی اور ادارہ کے ساتھ ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ڈاکٹر امین احسن نے اپنے خطاب میں کہا کہ قومی تعلیمی پسماندگی کےتناظرمیں ضرورت اس بات کی ہےاس ادارہ اوردیگر اقلیتی تعلیمی اداروں کو ہر طرح کے تعاون کےذریعے مزید ترقی دی جائے۔ انھوں نے مزید کیاکہ قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن،، کے وسائل اسباب محدودہیں اس لیے قوم کے ہر فرد کی ذمہ داری ہےکہ اپنے تعاون سے اس کو طاقت ور بنائیں۔ 
 مہمانِ خصوصی محترم جناب وصیل خان(روزنامہ۔ اردو ٹائمز۔ ممبئی)نے اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ پرخلوص علمی وادبی خدمات انجام دے رہاہے۔ اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے کوشاں ہے۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ اس ادارہ سے اپنے آپ کوجوڑیں۔ اجتماعی جدوجہد سےہی کامیابیاں حاصل کی جاتی ہیں۔میں انس مسرورانصاری کا بہت شکر گزار ہوں کہ وہ نئی نسل کو دینی وعصری علوم کے ساتھ اس کی ذہنی وفکری تربیت میں ہمہ تن مصروف ہیں۔  
    مشاعرہ میں شریک شعراء کرام کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں۔ اویس فنا۔مقسوم احمد مقصوم۔ڈاکٹر امین احسن۔ ڈاکٹر اشہر سوداگر۔ دلشاد دل سکندر پوری۔ وصیل احمد خان۔ قمر جیلانی خان۔انس مسرورانصاری۔ ثاقب جمال مبارکپوری۔ انصاف ٹانڈوی۔ ضیاکاملی۔ سعید ٹانڈوی۔ تاجدار رضا۔ فضل احمد فضل۔ وغیرہ نے شرکت کی۔ مشاعرہ دیر رات تک کامیابی کے ساتھ جاری رہا۔ آخیرمیں قاری جمال اشرف نظامی کے دعائیہ کلمات پر مشاعرہ کو اگلے ماہ کےلیے ملتوی کیاگیا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...