Powered By Blogger

پیر, جنوری 27, 2025

جمہوری اقدارکی حفاظت __جمہوری اقدارکی حفاظت __

جمہوری اقدارکی حفاظت __
جمہوری اقدارکی حفاظت __
Urduduniyanews72 
ایم رحمانی 
۷۶ جشن یوم جمہوریہ 
مدرسہ اخلاق العلوم نیوحیدرگنج کمپیبل لکھنؤ 
==============================
ہر سال کی طرح امسال بھی جشن منایا جائے گا ، ہندوستان کی تہذیبی وثقافتی جھانکیاں پیش کی جائیں گی ، دفاعی میدان اور اسلحوں کی دوڑ میں ہماری جو حصولیابیاں ہیں، اس کا مظاہرہ کیا جائے گا، شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا ، پورا ملک جشن میں ڈوب جائے گا ، ترنگے جھنڈوں کے ساتھ مدرسوں ، اسکولوں اور اداروں میں رنگا رنگ تقریب ہوگی ، طلبہ وطالبات کو انعامات سے نوازا جائے گا ، سیاسی حضرات کی جانب سے ہندوستان کے مجاہدین آزادی کا گن گان کیا جائے گا ، اور لمبے چوڑے بیانات اور وعدوں کے ذریعہ سیدھے سادے عوام کو لبھانے کی کوشش کی جائے گی او رایسا پہلی بار نہیں ہوگا ، ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے 26 جنوری گذرا اور ہم سب یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت کے لفظی نعروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، اصل ہے جمہوری اقدار کا تحفظ؛ جس سے ملک دور سے دور ہوتا جا رہا ہے، ہم نے جمہوریت کا مطلب صرف عوام کی حکومت ، عوام کے لیے عوام کے ذریعہ سمجھ لیا ہے اور ہر پانچ سال پر انتخابات میں سارے حربے استعمال کرکے حکومت پر جو قبضہ کیا جاتا ہے ، اسے ہم جمہوری طریقہ کار سے تعبیر کرتے ہیں اور خوب خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا ملک جمہوری اعتبار سے مضبوط ہے، یہاں عوامی حکومت ہے اور اس قدر مضبوط ہے کہ پڑوسی ملکوں کی طرح یہاں مار شل لا لگانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
یقینا ترقی کر رہا ہے ، آزادی سے قبل جن گھروں میں سائیکل دستیاب نہیں تھی، آج موٹر سائیکل اس گھر میں موجود ہے اور بعض گھروں میں تو ہر آدمی کے لیے موٹر سائیکل دستیاب ہے، چار چکے کی بھی کمی نہیں ہے، کھانے کے لیے آزادی سے قبل عموما عام لوگوں کے لیے باجرہ ، جوار اور جوہی مہیا تھا ، گیہوں کی روٹی شاید باید گھروں میں ہر روز مہیا ہو پاتی تھی، دھوتی اور کپڑے بھی پورے طور پر فراہم نہیں تھے، زمینداروں کے ظلم وستم نے عام لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا تھا ، بعض حرکات تو انسانیت کو ذلیل کرنے والی ہوتی تھیں، جو تے پہن کر ان کے دروازے سے گذرا نہیں جا سکتا تھا ، سواری پر بیٹھ کر کوئی گذر جائے تو قیامت آجاتی تھی ، لوگ بندھوا مزدوروں کی طرح ان کے یہاں کام کرتے اور کرتے کرتے مر جاتے تھے، یہ معاملہ نسل در نسل چلتا تھا ، ایسے لوگوں کی اپنی مرضی نہیں ہوا کرتی تھی ، سارا کچھ مالک کی مرضی کے تابع ہوتا تھا ، تھوڑی سی غلطی اور چوک پر چمڑی ادھیڑ دی جاتی تھی ، اور عفو ودر گذر ، رحم وکرم کا خانہ خالی رہتا تھا ، انسانیت سسک رہی تھی ، کسان خود کشی کر لیا کرتے تھے، پوس کی رات او رجاڑے کی یخ بستہ سردی میں کھیتوں کی رکھوالی کرتے کرتے عمر گذر جاتی تھی۔
ملک آزاد ہوا ، زمینداری ختم ہوئی، جمہوری دستور نافذ ہوا تو ملک کے عوام نے اطمینان کا سانس لیا او ربہت کچھ منظر بدلا ، انسانی قدروں کی پامالی پر روک لگی ، بندھوا مزدوری کا رواج ختم تو نہیں ہو سکا ، کم ضرور ہوا، کھیت کسانوں کا ہو گیا، ان کی بھی خود کشی کے واقعات سامنے آنے کے با وجود حالات پہلے سے اچھے ضرور ہیں۔
 اس جمہوری نظام کی وجہ سے حکومتیں بدلتی رہی ہیں، الگ الگ منشور اور مینو فیسٹو پر کام شروع ہوا ، جو حکومت آئی اس نے اپنے نظریات ملک پر تھوپنے کی کوشش کی ، اس کے نتیجے میں بھی بہت کچھ بدلا اور بدلتا چلا گیا ، کسی نے گھوم کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ سلطانی ٔجمہور میں، جمہوری اقدار کا جنازہ کس طرح نکلا اور نکلتا چلا گیا ، سیاسی پارٹیوں کو حکومت عزیز تھی ، جہاں سے ملے اور جس طرح ملے اور جتنے اقدار کو دفن کرکے ملے۔ سوا نہیں جمہوری اقدار کے تحفظ کی فکر کبھی نہیں ہوئی۔
 اس صورت حال نے جمہوری اقدار کو پامال کیا ، جمہوریت میں صرف حکومت کاہی عوامی ہونا ضروری نہیں ہے ، عوام کی خواہشات ، امنگیں ، ان کے حقوق کا تحفظ ، مذہب پر چلنے کی آزادی سب کا خیال رکھنا ضروری ہے، بد قسمتی سے بی جے پی کی مرکزی حکومت نے ہر سطح پر ان اقدار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے، مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے ، گو رکچھا، لو جہاد، مندر تعمیر اور اب اس کے افتاح کے نام پر رواداری کا ماحول گذشتہ سالوں میں تیزی سے ختم ہوا ہے، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے عوامی زندگی کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ چھوٹے کاروباری تجارت کے اعتبار سے ختم ہو چکے ہیں،طویل عرصہ گذر جانے کے بعد بھی اب تک وہ اپنے کاروبا ر کو پھر سے کھڑانہیں کر پائے ہیں۔ گاندھی جی اس ملک میں عدم تشدد اور اہنسا کی علامت کے طور پر مختلف جگہوں پر تصویری شکل میں موجود تھے، انہیں بھی دیش نکالا دینے کی تیاری زوروں پر چل رہی ہے ، کئی جگہ سے انہیں ہٹایا جا چکا ہے اور روپے پر بھی کتنے دن نظر آئیں گے، کہنا مشکل ہے، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ملکی باشندوں کو عصبیت کا سامنا ہے اور جان بوجھ کر دلتوں ، مسلمانوں اور لسانی اقلیتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ، بحالیوں میں اور اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں میں بھی سرکار سینئرٹی کو نظر انداز کرکے پرانے لوگوں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے ، 
 یہ مکمل حالات نہیں ، حالات کا ہلکا سا اشاریہ ہے ، اس کو پھیلا یا جائے تو بات دیر تک چلے گی اور دور تک جائے گی، کہنا صرف یہ ہے کہ ملک میں جس طرح جمہور ی اقدار پامال ہو رہے ہیں اور کسی کو اس کی فکر نہیں ہے، ایسے میں جشن جمہوریت محض ایک رسم ہے ؛ چونکہ یہ رسم ملکی دستور سے محبت کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے، اس لیے ہر سطح پر اس جشن کا اہتمام کرنا چاہیے اور پورے جوش وخروش کے ساتھ کرنا چاہیے ، لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جمہوری اقدار کے تحفظ کی ضرورت پہلے سے آج کہیں زیادہ ہے، ملک کے سیاسی رہنماؤں کو اس کے لیے اقدام کرنا چاہیے ، یہ ملک سے محبت اور وفاداری کا تقاضہ بھی ہے اور جمہوری دستور کے تحفظ ؛بلکہ مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ بھی۔
 چلے چلو کہ ابھی وہ منزل نہیں آئی

اتوار, جنوری 26, 2025

مولاناوحکیم امین نہیں رہے

مولاناوحکیم امین نہیں رہے           
Urduduniyanews72 
گذشتہ کل جمعہ کی نماز کے بعداستاد گرامی قدر جناب حضرت مولانا امین آزاد صاحب قاسمی وندوی کا انتقال ہوا، آج بروز شنبہ بعد نماز ظہر تدفین ہوگئی ہے، باری تعالٰی حضرت والا کے درجات بلند فرمائے، آمین 
حضرت کےانتقال کی خبر سب سے پہلے میرے ابو جناب مولانا منصور عالم صاحب نے مجھے دی اور یہ بتلایاکہ: مولانا مرحوم سے میرے دیرینہ تعلقات رہے ہیں، تقریبا چالیس سالہ رفاقت رہی ہے،وہ بڑے ذہین اور بہترین استاد تھے، عربی زبان وادب سےبڑا گہرا لگاؤ تھا،مولانا مرحوم نےدارالعلوم ندوةالعلما سے عالمیت کے بعد ازہر ہند دارالعلوم دیوبند سے بھی دورہ حدیث کی تکمیل کی، پھر طب میں وہیں سے فضیلت کی سند حاصل کی،مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ ارریہ میں تدریسی زندگی کی شروعات ۱۹۷۵ءمیں ہوئی،زندگی بڑی سادہ تھی، وقت کے بڑے پابند تھے، پیدل اپنے گھر بیرگاچھی سے مدرسہ تقریبا پانچ کلومیٹر کی مسافت طے کر کے روزانہ مدرسہ وقت پر پہونچ جایا کرتے تھے۔مولانا مرحوم کوفن طب میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ درس وتدریس کے ساتھ خارجی اوقات میں بیماروں کاعلاج ومعاجلہ بھی کیاکرتے۔ ۲۰۱۴ء میں جب مدرسہ سے سبکدوشی ہوگئےتو یکسوئی کے ساتھ اپنے مطب ارریہ اور گھر میں بیمار و پریشان حال خلق خدا کی خدمت میں مصروف رہنےلگے،عوام وخواص کو مولانا سے بڑا نفع پہونچ رہا تھا، ابھی کچھ دنوں سے بستر علالت پر تھے،افسوس کہ اب ہمارے درمیان موصوف نہیں رہے۔
والد صاحب ہی نہیں بلکہ آج جنازہ کی نماز میں بھی مجمع عام نے حضرت کی ان خدمات کا برملااعتراف کیا ہے۔واقعی حضرت کی وفات بیرگاچھی گاؤں ہی نہیں بلکہ خطہ سیمانچل کے لئےایک بہت بڑاخلا اور عظیم خسارہ ہے۔ جمعیت علماء ارریہ کے جنرل سکریٹری جناب مفتی اطہر القاسمی صاحب نے نماز جنازہ سے پہلے اپنی تقریر میں یہ بات کہی ہے کہ انتقال سے کچھ دیر پہلے بھی حضرت نے سکٹی سے آئے ہوئے بیماروں کے نبض پر ہاتھ رکھ کردوا تشخیص کی تھی،پھر چند لمحہ میں ہی جان جان آفریں کے حوالہ کردی۔ لواحقین سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صادق صاحب پورنیہ سے حضرت کاعلاج چل رہا تھا، مولانا وہاں جانے کے تیار نہیں تھے، گھر والوں کی ضد پر چلے تو گئے مگر انہیں اپنی تشخیص کی ہوئی دواؤں پر اصرار تھا،گویا زبان حال سے حضرت یہ کہ رہے ہوں کہ;
 مسیحا کر نہ اب اچھا ہمیں بیمار رہنے دے 
مرض ہےعشق کااسکےعوارض خوبصورت ہیں۔ 
مولانا کے ہاتھ پر اللہ نے بڑی شفا رکھی تھی، دور دراز سے بلکہ مختلف اضلاع سے لوگ مولانا کے پاس آیا کرتے اور شفایاب ہوکر جاتے، ایک بار والد صاحب بہت زیادہ علیل ہوگئے، نقاہت اتنی بڑھ گئی تھی کہ مدرسہ کے کیمپس میں غش کھا کر گرگئے، مولانا مرحوم نے پوچھا کہ آپ کو کیاشکایت ہے؟معلوم ہوا کہ ٹائیفائیڈ بخارکاعارضہ لاحق ہے،پورنیہ سے علاج چل رہا ہے مگر افاقہ ندارد ہے۔اس بات پر بہت ناراض ہوئے کہ مولانا! آپ کوپہلے بتانا تھا، معمولی خرچ پر آپ کا علاج بروقت ہوجاتا تو یہ نوبت نہیں آتی۔ ایک پرچی میں کچھ دوائیں لکھ کر حضرت نےمجھے تھمادی،شربت خاکسی وکاسنی وغیرہ نام کی تمام ادویات ڈھائی سو روپے میں دستیاب ہوگئی۔بحمداللہ والد صاحب مکمل صحت یاب ہوگئے۔بعد میں مجھے یہ بھی علم ہوا کہ شہر ارریہ کے بہت سے اطباء حضرات بھی اس بیماری کی دوا مولانا ہی سے لیا کرتے ہیں۔یہ اپنے آپ میں ایک بڑی بات تھی مگر مولانا نےاپنی زبان سے اس کوکہنا پسند نہیں فرمایا۔عموما معالج حضرات بہت فخر سے ایسی باتیں اپنے کلائنڈ کو اعتماد میں لینے کے لئے کہا کرتے ہیں۔یہ چیزحضرت کے تواضع اور خاکساری کی بڑی دلیل ہے۔اسی پر بس نہیں بلکہ پسماندگان کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ گھر کےمعمولی کام میں بھی حضرت ہاتھ بٹایا کرتے،اپنے ہاتھوں صفائی کا اہتمام فرماتے، اپنا کام خود انجام دیا کرتے، یہ درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل میں کرتے تھے اور آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی احیاء میں بکریاں بھی چرایا کرتے تھے۔رب کریم اس کے عوض میں مولانا مرحوم کو سو شہیدوں کا اجر نصیب کرے، آمین یارب العالمین 
ایں دعا ازمن وجملہ جہاں آمین باد 
ہمایوں اقبال ندوی ارریہ 
۲۵/جنوری ۲۰۲۵ء بروز شنبہ 
مطابق ۲۴/رجب المرجب ۱۴۴۶ھ

جمعہ, جنوری 24, 2025

انس مسرورانصاری قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا

نعت پاک*
Urduduniyanews72 
  رب کی درگاہ میں بندو ں کو فضیلت کےلیے
  حبِ سرکا رﷺ ضر و ر ی ہے عبا د ت کےلیے
 
 جب زباں کھولی ہے سرکا ر کی مدحت کےلیے
  آ گئے جن و ملک بز م میں شر کت کے لیے

  آپﷺ کے ذِ کر سے ملتا ہےطبیعت کو سکو ں 
  آپ ﷺ کا نا م ہے کا فی مر ی ر ا حت کےلیے

  یا نبیﷺجس کو بھی جوچاہیں عطافرمائیں
  منتظر میں بھی ہوں ا ک چشمِ عنا یت کےلیے

  آپﷺ کے عد ل و مساوات کے چر چے ہر سو
  آ پ ﷺ مشہو رِ خلا ئق ہیں مر وً ت کےلیے
 
 دِ ل میں ا خلا صِ و فا شرط بھی ہےلازم بھی 
  ا ن کی رحمت کے لیے ا ن کی مو د ت کےلیے

  فرش بھی ز یرِ قد م عر ش بھی ہےز یرِ قد م
  کو ئی تمثیل کہا ں شا نِ ر سا لت کے لیے

  کتنی صد یو ں سے ہے د نیا ر قم ا ندا ز مگر
  نا مکمل ا بھی مضمو ن ہے سیر ت کے لیے

  ر ب کے محبو ب کی ہر لمحہ ا طا عت کر نا
  ہم پہ لا ز م ہے یہی ر ب کی محبت کےلیے

  ا ئے محمد ﷺ و رّ فعنا لکـّ ذِ کر ک و ا لے
  ہیچ ہیں لفظ و بیاں آپ ﷺکی مدحت کےلیے
 
  نا م لیتا ہو ں تو آ نکھو ں سے لگا لیتا ہو ں 
  یہ بھی ا عز ا ز ہے ا نگشتِ شہا د ت کے لیے

  تھے جو فصحا ئے عرب، ہوگئے سب مہر بہ لب
  ر ب سے قرآ ن ملا آ پﷺ کو حجت کےلیے

  جذ بہء عشقِ ر سو لِ عربی ﷺ لا ز م ہے
  ورنہ محشر میں تر س جا ؤ گے رحمت کے لیے

  ا ب تو ا س عجز سے ہا را مر ے فن کا جا د و
  کون سا لفظ لکھوں آپ ﷺ کی مدحت کے لیے 

  کج کلا ہا نِِ جہا ں سر کو جھکا ر کھتے ہیں
  ا ک نگا ہِ کر م ا ند ا ز و عنا یت کے لیے

  مجھ سے عاجز کی خبر لیجئے ا ئے جا نِ کر م
  مو سمِ ہجر تو قا تل ہے طبیعت کے لیے

  میرے سرکار ﷺ ہی تو شا فعِ محشر ہو ں گے
  ا ئے گنہگا ر و ! نہ گھبر ا ؤ شفا عت کے لیے

  د یکھنا جذ بہءصا د ق ہے تو ا ک د ن ہم بھی
  جا ئیں گے ر و ضہء ا طہر کی ز یا رت کے لیے
 
   یہ بھی ا عجا زِ محبت ہے کہ غو ث الا عظم
  منتخب ہو گئے سر تا جِ و لا یت کے لیے

  ا ب تو بس آ رزو ئے د ل ہے کہ نکلو ں مسرور
  شہرِ طیبہ کی طر ف ، نا ز شِ جنت کے لیے

                      * انس مسرورانصاری
         قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) 
                   رابطہ/9453347784/

اتوار, جنوری 19, 2025

تسمیہ جونیئر ہائی سکول میں "سیرت کی روشنی میں بچوں کی تعلیم و تربیت" کے موضوع پر ناظرہ قرآن کریم کی تکمیل کا جلسہ

تسمیہ جونیئر ہائی سکول میں "سیرت کی روشنی میں بچوں کی تعلیم و تربیت" کے موضوع پر ناظرہ قرآن کریم کی تکمیل کا جلسہ
Urduduniyanews72 
19 جنوری 2025 کو تسمیہ جونیئر ہائی سکول میں ناظرہ قرآن کریم کی تکمیل کے موقع پر ایک شاندار جلسے کا انعقاد کیا گیا، جس کا موضوع "سیرت کی روشنی میں بچوں کی تعلیم و تربیت" تھا۔ جلسے کی صدارت ڈاکٹر سید فاروق (صدر، تسمیہ آل انڈیا ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفیئر سوسائٹی، نئی دہلی) نے کی، جبکہ نظامت کے فرائض جناب جاوید مظہر نے انجام دیے۔

پروگرام میں مہمان خصوصی کے طور پر پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی (سابق ڈین، فیکلٹی آف تھیالوجی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، مدیر ماہنامہ تہذیب الاخلاق)،پروفیسر عبدل قیوم انصار ڈین فیکلٹی آف lنجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سید یاسر ممبر تسمیہ سوسائٹی شریک ہوئے۔ ان کا استقبال ڈاکٹر سید فاروق نے پھولوں کا گلدستہ، میمنٹو، اور تحائف پیش کرکے کیا


۔




تعارف کے بعد، جماعت پنجم کے طلباء کی جانب سے نظرِ قرآن کی تکمیل کی رسم مولانا شوکت قاسمی نے ادا کروائی۔ یہ لمحہ طلباء اور ان کے اہل خانہ کے لیے بے حد فخر کا باعث تھا۔ اس کے بعد، ان طلباء کو قرآن پڑھانے والے اساتذہ کو ان کی محنت اور لگن کے اعتراف میں انعامات سے نوازا گیا۔

ڈاکٹر سید فاروق نے اپنی تقریر میں سیرت النبی ﷺ کے اسباق کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں والدین اور اساتذہ دونوں کا کردار نہایت اہم ہے۔ انہوں نے فرمایا، "نبی کریم ﷺ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے، جس میں بچوں سے محبت، ان کے ساتھ نرمی، اور ان کی فطری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی واضح ہدایات موجود ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، ان کی باتوں کو سمجھیں، اور ان کی کامیابیوں میں شریک ہوں۔" انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کو اخلاقی تعلیم دینا نہ صرف دنیاوی کامیابی بلکہ اخروی فلاح کے لیے بھی ضروری ہے۔
پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بچوں کی تربیت کے اصول بیان کیے۔ انہوں نے کہا، "نبی کریم ﷺ نے بچوں کے ساتھ شفقت اور محبت کا درس دیا ہے۔ آپ ﷺ بچوں کے جذبات کو سمجھتے اور ان کی شخصیت سازی پر توجہ دیتے تھے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بچوں کی تربیت کرتے وقت ان کی اخلاقی، دینی، اور تعلیمی ضروریات کو مدنظر رکھیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ قرآن کریم صرف تلاوت کے لیے نہیں بلکہ اس پر عمل کے لیے ہے، اور والدین کو اپنے بچوں کے اندر قرآن کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

سید یاسر کا ووٹ آف تھینکس:
سید یاسر نے والدین، مہمانانِ گرامی، اور تمام شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، "بچوں کی تعلیم و تربیت والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے والدین کو تاکید کی کہ وہ اپنے بچوں کو اچھے اخلاق سکھائیں اور ان کے لیے نمونہ بنیں۔ قرآن کریم کی تعلیم اور نبی کریم ﷺ کی سیرت بچوں کی زندگی میں روشنی کی مانند ہے، جو انہیں صحیح راستے پر چلنے کی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔" انہوں نے والدین سے درخواست کی کہ وہ بچوں کے ساتھ وقت گزاریں اور ان کی تربیت میں مکمل دلچسپی لیں۔


یہ جلسہ درجہ پنجم کے 44 طلبہ کی ناظرہ قرآن کریم مکمل کرنے کی خوشی میں منعقد کیا گیا۔ ان طلبہ کو ڈاکٹر سید فاروق نے تسمیہ سوسائٹی کی جانب سے قرآن مجید کے نسخے بطور تحفہ پیش کیے۔ پروگرام کے کامیاب انعقاد میں اسکول کے تمام اساتذہ کی محنت اور لگن شامل رہی۔

جلسے کا اختتام ڈاکٹر عبدل قيوم انصاری پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کی دعا کے ساتھ ہوا، جس میں تمام شرکا نے بچوں کی کامیابی اور روشن مستقبل کے لیے دعائیں کیں۔

ہفتہ, جنوری 18, 2025

سہ ماہی نقیب الخلیج کا "رباعی نمبر" (جنوری تا مارچ 2025) ایک مطالعہ

سہ ماہی نقیب الخلیج کا "رباعی نمبر" (جنوری تا مارچ 2025) ایک مطالعہ 
مضمون نگار : محمد ضیاء العظیم قاسمی، معلم چک غلام الدین ہائی اسکول،ویشالی بہار 
موبائل نمبر :7909098319 

Urduduniyanews72 
 سہ ماہی نقیب الخلیج ادبی، تاریخی، ثقافتی، اصلاحی، اور معلوماتی مضامین پر مشتمل ایک اہم اور نایاب رسالہ ہے، جسے گلف اردو کونسل کی جانب سے شائع کیا جاتا ہے- یہ رسالہ گذشتہ دو سالوں سے مسلسل اردو زبان وادب کی ترویج وترقی اور اس کی اشاعت کے لئے مکمل کوشاں ہے- سہ ماہی نقیب الخلیج کا تازہ شمارہ " رباعی نمبر "(جنوری تا مارچ 2025) 72/صفحات پر مشتمل ہے، جس میں اردو رباعی کی تاریخ، اہمیت وافادیت، اور اس کا پس منظر مکمل، مدلل، اور مفصل پیش کرنے کی بھر پور سعی کی گئی ہے، جو ایک قابل تعریف اور مستحسن عمل ہے - رسالہ میں رباعیات اور اس سے متعلق اہم اور لائق مطالعہ مضامین،معلومات عامہ، اور قارئین ادب کے خطوط شامل ہیں- 
رسالے کی شروعات اداریہ سے ہوتی ہے، جسے مدیر محترم قاضی منصور قاسمی نے قلم بند کیا ہے، اس میں رسالے کے مختصر تعارف کے ساتھ ساتھ اردو رباعی کی تاریخ، اہمیت وافادیت کو کئی زاویے سے پیش کیا گیا ہے۔فن رباعی کو مشکل فن گرداننے والوں کی مدیر نے گرفت بھی کی ہے۔ اس رسالے میں رباعیات پر جن قلمکاروں کے مضامین شامل ہیں۔ اُن میں "احساس و ادراک: ایک فکر انگیز اد بی سوغات"(رفیق جعفر، مہاراشٹر)، "امجد حیدر آبادی در باب رباعی" (ڈاکٹر امیر حمزہ، جھارکھنڈ)، "اُردو میں رباعی کی روایت: ایک تعارف"(پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال)، "اردور باعیات: علامہ اقبال کے خصوصی مطالعہ کے ساتھ" (ڈاکٹر صالحہ صدیقی، الہ آباد)،" رباعی" (ڈاکٹر رحمت عزیز خان، چترالی)، "عبدالحق امام کی رباعیات پر ایک نظر" (سلیم انصاری، جبل پور )، "ر باعی کا شیدا: ڈاکٹر عبدالحق امام" (مصباح انصاری، گورکھپور)، وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں ۔
اِن مضامین کے ساتھ ساتھ تاریخ ادبیات فارسی اور دیگر حوالے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رباعی، دیگر اصناف شعری کی طرح ایک قدیم اور عظیم صنف شاعری ہے، جو فارسی شعر وادب کے عین آغاز کے ساتھ ساتھ وجود میں آئی ۔۔
اللہ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازتے ہوئے انہیں بے پناہ نعمتیں دے کر ان پر بہت سے احسانات کئے ہیں ،ان احسانات کو اگر ہم شمار کرنا چاہیں تو ہرگز انہیں شمار نہیں کرسکتے ہیں، ان احسانات اور نعمتوں میں سے ایک نعمت قوت گویائی بھی ہے، انسان اپنے احساسات وجذبات اور خیالات کے اظہار کے لیے الفاظ کا سہارا لیتا ہے، اور ان الفاظ کو جب خوبصورتی کے ساتھ سجا کر فنی اصول وضوابط پر کار بند رہتے ہوئے اپنے جذبات وخیالات اور احسات کا اظہار کرتا ہے تو وہ شاعری بن جاتی ہے، اور شاعری میں جب رباعی کا تذکرہ آتا ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ رباعی عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی چار چار کے ہیں، رباعی کی جمع رباعیات ہے۔ شاعرانہ مضمون میں رباعی اس صنف کا نام ہے جس میں چار مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جائے ۔ رباعی کا وزن مخصوص ہے، پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے میں قافیہ لانا ضروری ہے، رباعی کو دوبیتی بھی کہتے ہیں-فارسی میں رباعیات کے حوالے سے عمر خیام ، ابوسعید ابوالخیر، اور سرمد کے ناموں کو دنیائے ادب جانتی اور پہچانتی ہے۔ اردو میں حالی ، اکبر، انیس ، امجد، جوش، فراق اور دیگر شعرا کی شاعرانہ عظمت و شہرت کو اس مخصوص صنف نے چار چاند لگایا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ رباعی نے زندگی کے آفاقی اور عالمگیر حقائق کی عکاسی کا حق بعض کے نزدیک نہ ادا کیا ہو، لیکن تاریخ ادب شاہد ہے کہ اس نے رکاکت، ابتذال ، فحاشی ، بیہودہ گوئی ، مبالغہ اور ہجو سے اپنے دامن کو کبھی آلودہ نہیں کیا ۔ حالی نے اردو شعر و قصائد کے جس دفتر کو تعفن زدہ بتایا ہے اس میں رباعی کو شامل کرنا امر محال نظر آتا ہے ۔ اور رباعی کی یہی ایک معنوی خصوصیت اسے دیگر اصناف سخن کے مقابلے میں ممتاز و موقر بنانے کے لئے کافی ہے ۔
یہ بھی سچ ہے کہ اردو اور فارسی کے ناقدین و محققین نے رباعی کی جانب بہت کم توجہ دی- رسائل کے ذمہ داران اور مدیران نے بھی اس پر کم ہی گوشے شائع کیے تاہم سہ ماہی "نقیب الخلیج" نے خصوصی رباعی نمبر شائع کرکے اس طرف توجہ مبذول کرانے کی بھر پور سعی کی ہے کہ اردو رباعی کو اردو زبان وادب میں اب بھی وہی مقام مرتبہ حاصل ہے جو ماضی میں تھا ،اور اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے ۔ رسالہ میں اردو رباعی سے متعلق جتنے بھی مضامین ہیں انہیں ایک دستاویزی حیثیت حاصل ہے، البتہ رسالے میں شامل ایک مضمون جس پر میری نگاہ پڑی تو حیرت اور تجسس میں اضافہ ہوا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ رباعیات کے مضمون میں غزلوں کے اشعار شامل ہو گئے ہیں، ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے لمبے عرصے سے تحقیقی مضامین کے ساتھ ساتھ تخلیقی میدان میں بھی خامہ فرسائی کی ہے ،ان کے مضمون کی ترتیب دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوا کہ مضمون نظر ثانی کے بغیر یا عجلت کا شکار ہو کر شائع ہوگیا ہے ، مدیر محترم اور مصنفہ سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ رسالے میں مضمون شامل کرنے کے لیے الفاظ کی قید مقرر ہے اور مضمون چونکہ رسالے میں شمولیت کے اعتبار سے خاصا طویل اور مخلتف اصناف پر مبنی تھا لہٰذا مضمون کو رسالے کے لحاظ سے سیٹنگ کرنے میں ترتیب اور مثال کی الٹ پھیر ہوئی ہے۔ مدیر محترم اور مصنفہ نے اس کا اعتراف کیا۔ نیز انھوں نے اس بات پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا کہ اس رسالے کا اتنی دلچسپی سے قارئین ادب مطالعہ کرتے ہیں،ادارہ آئندہ شمارہ میں پوری وضاحت کے ساتھ اس مضمون کو صحیح ترتیب دے کر شامل اشاعت کرے گا۔
ادب کے قارئین کے لیے اس رسالے کا مطالعہ موضوع سے متعلق واقفیت کے لحاظ سے بے حد مفید ثابت ہوگا۔ 
میں خصوصی طور پر قاضی منصور قاسمی صاحب کو اور عمومی طور پر پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ عربستان میں رہ کر بھی اردو زبان وادب کی ترویج وترقی اور آبیاری کے لئے مکمل اور مسلسل کوشاں ہیں، رب کریم سے دعا ہے کہ آپ سبھوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور مزید زبان وادب کی خدمت کرنے کی توفیق وتوثيق عطاء فرمائے آمین۔

عنوان: آتش امریکہ: ایک عذاب الہی کی نشانی؟قدرتی آفات، جیسے کہ آگ، سیلاب، زلزلے، اور طوفان، انسان کی زندگی میں بار بار آتی ہیں۔

عنوان: آتش امریکہ: ایک عذاب الہی کی نشانی؟
Urduduniyanews72 
قدرتی آفات، جیسے کہ آگ، سیلاب، زلزلے، اور طوفان، انسان کی زندگی میں بار بار آتی ہیں۔ یہ آفات نہ صرف انسانی زندگی اور وسائل کو متاثر کرتی ہیں بلکہ انسان کو اپنے اعمال اور رویوں پر غور کرنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔ حالیہ دہائیوں میں امریکہ سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں آتشزدگی کے واقعات نے لوگوں کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا یہ قدرتی آفات واقعی عذاب الہی کی نشانیاں ہو سکتی ہیں؟ اس مضمون میں ہم اس سوال پر غور کریں گے کہ آیا آتش امریکہ کو عذاب الہی کی نشانی سمجھا جا سکتا ہے، اور اس کے پیچھے کیا فلسفیانہ اور مذہبی تناظر ہو سکتا ہے۔
قدرتی آفات وہ واقعات ہیں جو قدرتی عوامل سے وقوع پذیر ہوتے ہیں، جیسے زمین کی سرکشی، موسم کی تبدیلی، یا آگ لگنا۔ ان آفات کا انسان کی زندگی پر بڑا اثر ہوتا ہے۔ امریکہ میں آنے والی جنگلات کی آگ، طوفان، اور دیگر قدرتی آفات نے نہ صرف ہزاروں افراد کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے بلکہ ان کی معیشت اور ماحولیاتی نظام پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق، دنیا میں ہونے والی تمام آفات اللہ کی مرضی سے ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: "اور تمہیں جو کچھ بھی آفت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہے" (الشوریٰ 30:41)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی عمل، جیسے کہ بے جا جنگلات کی کٹائی، فضائی آلودگی، اور قدرتی وسائل کا استحصال، قدرتی آفات کو بڑھا سکتا ہے۔
اسلام میں عذاب الہی ایک خاص معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جب قومیں یا افراد اپنے گناہوں کی حد تک پہنچ جاتے ہیں، تو اللہ ان پر عذاب بھیج سکتا ہے تاکہ وہ توبہ کریں اور اپنے اعمال کی اصلاح کریں۔ لیکن عذاب صرف سزا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مقصد انسانوں کو اپنی اصلاح کی طرف مائل کرنا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں: "اگر وہ توبہ کر کے اپنے رب کے سامنے جھک جاتے، اور نماز قائم کرتے اور زکات دیتے تو ہم ان سے ان کی برائیاں دور کر دیتے" (القرآن، 9:103)۔
ایسی حالت میں اگر کسی قوم یا علاقے میں قدرتی آفات آتی ہیں، تو ان آفات کو عذاب الہی کی نشانی سمجھنا ایک ممکنہ اندازہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عذاب الہی کی کوئی مخصوص علامت یا وقت نہیں ہوتا، اور ہر آفات کا مقصد خدا کی طرف سے انسانوں کو اپنی اصلاح کی طرف بلانا ہو سکتا ہے۔
امریکہ میں مختلف جنگلاتی آگوں کے واقعات نے پوری دنیا کی توجہ حاصل کی ہے۔ ان آگوں کی شدت اور پھیلاؤ نے نہ صرف انسانوں کی زندگی کو متاثر کیا بلکہ ماحولیات اور جنگلات کے نظام کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ ان آگوں کے پیچھے مختلف عوامل ہو سکتے ہیں، جیسے کہ موسمیاتی تبدیلیاں، انسانی غفلت، یا قدرتی عوامل۔
اس تناظر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ آگیں عذاب الہی کی نشانی ہیں؟ بعض لوگ یہ خیال رکھتے ہیں کہ جب کسی قوم یا علاقے میں بار بار قدرتی آفات آتی ہیں، تو یہ ایک انتباہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے اخلاقی، سماجی، یا ماحولیاتی رویوں کو درست کریں۔ یہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایک امتحان ہو سکتا ہے کہ انسان اپنی زندگیوں میں تبدیلی لائیں، توبہ کریں اور اللہ کے راستے کی طرف واپس آئیں۔
اسلام میں قدرتی آفات کو صرف عذاب کے طور پر نہیں بلکہ ایک امتحان اور امتحان کی صورت میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں: "ہم تمہیں کچھ خوف، بھوک، مال کی کمی، جانوں کی کمی، اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے، اور بشارت دے دو صبر کرنے والوں کو" (البقرہ: 155)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آفات کا سامنا انسان کی قوتِ ارادی اور ایمان کا امتحان ہے۔ اس کے ذریعے انسان اپنی ایمان کی پختگی، صبر اور تقویٰ کا اندازہ لگا سکتا ہے۔
اگرچہ آفات اور آتشزدگیاں بعض اوقات عذاب کی صورت اختیار کر سکتی ہیں، لیکن اسلام میں یہ بھی ہے کہ ان آفات کے ذریعے اللہ تعالیٰ انسانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا مقصد انسانوں کی اخلاقی اور روحانی اصلاح ہے، تاکہ وہ اپنی زندگی میں بہتر تبدیلیاں لائیں۔
آتش امریکہ اور دیگر قدرتی آفات کو عذاب الہی کی نشانی سمجھنا ایک قابل غور موضوع ہے، لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ یہ آفات عذاب ہیں یا محض قدرتی عوامل کا نتیجہ، ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، ہر آفات کو عذاب الہی کا حصہ قرار دینا مناسب نہیں، کیونکہ اللہ کی حکمت اور مرضی سے ہر آفت کا مقصد انسانوں کو بیدار کرنا، توبہ کرنا اور اپنی زندگیوں میں اصلاح لانا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، قدرتی آفات کا تعلق انسان کی اپنی سرگرمیوں سے بھی ہو سکتا ہے، جیسے کہ ماحول کی تباہی اور قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال۔
لہذا، آتش امریکہ یا کسی بھی قدرتی آفات کو ایک عذاب الہی کی نشانی سمجھنے سے پہلے، ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں میں بہتر تبدیلی لائیں تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو اور ہم اپنی قوم اور زمین کی فلاح کے لیے کام کر سکیں۔
خلاصہ مضمون:
آخر میں، اس مضمون کا مقصد یہ نہیں کہ ہم کسی مخصوص آفات کو عذاب سمجھیں، بلکہ یہ سوچنے کی دعوت دینا ہے کہ قدرتی آفات کے پیچھے اللہ کی حکمت چھپی ہوئی ہو سکتی ہے۔ یہ انسانوں کو اپنے اعمال اور رویوں پر غور کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں، اور انہیں اپنی اصلاح کی طرف مائل کرتی ہیں۔
از قلم : احمد علی ندوی ارریاوی
استاد: خنساء اسلامك انگلش اسكول بہیڑہ،دربھنگہ ،بہار

جمعرات, جنوری 16, 2025

(د ر صنعتِ غیر منقوطہ) * انس مسرورانصاری

*****نعتِ پاک ﷺ******
                   (د ر صنعتِ غیر منقوطہ) 
Urduduniyanews72 
           * انس مسرورانصاری

ا ما مِ ر سو لا ں محمد محمد ﷺ
د وعا لم کےسلطاں محمد محمد ﷺ

ہم عا صی کو ا ن کا سہا ر ملے گا
سرِ طو رِ ا مکا ں محمد محمد ﷺ

د و ا ئے د ل و ر و ح ا سمِ گر ا می 
ہراک دکھ کا درماں محمد محمد ﷺ

سرِ کو ہِ مک٘ہ صد ا لا ا لہٰ کی 
ملا ئک کا ا علا ں محمد محمد ﷺ

وہ محمو د وحامد وہ کامل وہ ا کمل
د عا ئے ر سو لا ں محمد محمد ﷺ

وہ طا ہر وہ ا طہر،کل ا مٌہ کے محور
ہر ا ک دل کے ارماں محمد محمد ﷺ

دعا ؤ ں کے سا ئے ملےحا سد و ں کو
سلو ک اور ا حسا ں محمد محمد ﷺ

ہم ا س کو ئے آ رامِ جا ں کے گد ا گر
وہ ا سعا د و سلطاں محمدمحمد ﷺ

کہا ں کو ئی ہمسر ا ما م ا لرسل کا
و ہ ﷲ کے مہما ں محمد محمد ﷺ

مد ر س، معلم، مد ا ر س ہد یٰ کے
وہ ہا د یِ د و ر ا ں محمد محمد ﷺ

ا س آ ر ا م گا ہِ معلٰی کے و ا ر ی 
کہ آ ر ا م سا ما ں محمد محمد ﷺ

ہم ا س کے ، ہما ر ا مکا ر م و ہ مولٰی
مسلما ں مسلما ں ، محمد محمد ﷺ

ہما ر ے لیے آ مدِ ا سعد ی ہے
وہ گرد و ں کےمہماں محمدمحمد ﷺ

مر ے کملی و ا لے مکرٌ م ! عطا ہو
کہ آ سی ہے دا ما ں محمد محمد ﷺ

کر م ہو مکرٌ م کہ ہو ں د و ر سا رے
مرے د ر د و حرما ں محمد محمد ﷺ

و ہ ا حر ا رِ محکم، و ہ ا سر ا رمحرم 
کہا ں و ہ مسلما ں، محمد محمد ﷺ

ہما رے لیے ر و ح و د ل کا سکو ں ہے
د مِ مد ح و ا لحا ں، محمد محمد ﷺ

وہ ہا د ی و ہ ا کرم،وہ اعلیٰ وہ محرم
مطا ع ا و ر ا حسا ں محمد محمد ﷺ

رسو لو ں کے سر د ا ر، و ا لی ہما رے
ملا ئک کے سلطا ں محمد محمد ﷺ

محمد ﷺ کا د ر ہمسرِ آ سما ں ہے
گد ا گر ہے سلطا ں۔ محمد محمد ﷺ

د رِ کو ئے طا ہر ہو ا و ر سر ہما ر ا
ہوں ا کر م و ا حسا ں،محمد محمد ﷺ

و ر و دِ محمد ﷺ ہے مسعو دِ عا لم
کر و مد حِ سلطا ں، محمد محمد ﷺ

ہم عا صی ا و ر ا س کا کر م ﷲ ﷲ
عطا ا و ر ا حسا ں محمد محمد ﷺ

کلا مِ ا لٰہی کا ا لہا م ا س کو
و ہ ا مٌی و ہ لسٌا ں محمد محمد ﷺ

مر ی ر و ح کی ہے و ہ د رگا ہ محور
مرے د ل کا ا ر ما ں محمد محمد ﷺ

صد ا ئے ہو ﷲ کے و ا سطے سے
مسا ئل ہو ں آ سا ں محمد محمد ﷺ

کرم ا و ر عطا سے ہو ں معمو ر سارے
مرا د و ں کے د ا ما ں محمد محمد ﷺ

درود ا س کودائم،سلام اس کو لاکھوں
و ہ ممد و حِ رحما ں ، محمد محمد ﷺ

سلا م اس کو،ا س کےعساکر کو لاکھوں
ہما ر ے علٓم د ا ں محمد محمد ﷺ

وہ مسر و ر ما حی و ہ مسرور ما و یٰ 
  وہ اسرارِرحماں محمد محمد ﷺ         
                  ﷺﷺ ﷺﷺ ﷺ
                 
     
                ****سلام بحضورخیرالانامﷺ****   
                            (غیرمنقوطہ) 

مہرِ د ر گا ہِ د ا و ر کو لا کھو ں سلام
سارے عا لم کے سرور کو لا کھوں سلام

سر و رِ سر و ر ا ں ، ر ہر وِ لا مکا ں
ا کمل و ا صل ر ہو ر کو لا کھو ں سلام

ا س کے آ گے ملا ئک گد ا گر ہو ئے 
ا س کی د ر گا ہِ احمر کو لا کھوں سلام 

کو ئی ہہمسر ا ما م ا لر سل کا کہا ں 
کل رسو لو ں کے سرور کو لا کھوں سلام

مہکی مہکی ہو ئی لمسِ احمدﷺ سے ہے
ا س ر د ا ئے معطر کو لا کھو ں سلام 

سا ئلو ں کو عطا ملک کے ملک ہو ں
ا س کے د ر کے گد ا گر کو لا کھوں سلام

و ہ محمد و ہ محمود و ا حمد ﷺ ہوئے
محرم سرٌِ د ا و ر کو لا کھو ں سلام

کل مر ا سِم سمو می مٹا ئے گئے
ا س کو،ا س کےعسا کر کو لا کھو ں سلام

لا مکا ں و ا لا و ا رِ د مکا ں سے ہو ا
مطلعِ ما ہِ د ا و ر کو لا کھو ں سلا م

ا س کے د ا د ا و و ا لد کو کا مل د ر و د
ا س کی ہمد رد ما در کو لا کھو ں سلام

ا س کو مسرور ا مٌی کہو ں کس طر ح
عِلم و حکمأء کے محو ر کو لا کھو ں سلام 
                                         *********
    
                    * انس مسرورانصاری
           قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا) 
               وہاٹس ایپ/9453347784/

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...