Powered By Blogger

اتوار, فروری 16, 2025

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول کا ۳۳ واں سالانہ جلسہ، علم، ثقافت اور شاندار کامیابیوں کا جشن

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول کا ۳۳ واں سالانہ جلسہ، علم، ثقافت اور شاندار کامیابیوں کا جشن
Urduduniyanews72
مظفر نگر، ۱۶ فروری ۲۰۲۵

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول نے اپنا ۳۳ واں سالانہ جلسہ کو جوش و خروش اور شان و شوکت کے ساتھ منایا۔ یہ تقریب علمی کامیابیوں، ثقافتی پروگراموں اور حوصلہ افزا خطابات کا شاندار امتزاج تھی، جس نے طلبہ، اساتذہ اور والدین کو نہایت متاثر کیا۔

تقریب کے نمایاں لمحات

تقریب کا آغاز طلبہ کی نمائش سے ہوا جہاں ہونہار طلبہ نے سائنس ماڈلز، فن پارے اور تخلیقی منصوبے پیش کیے۔ مہمانان گرامی نے ان کی کاوشوں کو بے حد سراہا۔

مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر افروز الحق (سابق وائس چانسلر، ایچ۔ اے یونیورسٹی، امپھال) اور اعزازی مہمان ڈاکٹر آئی۔ پی۔ پانڈے (سابق سائنسدان، ISRO) کا پر تپاک استقبال ڈاکٹر ایس فاروق (صدر، تسمیہ آل انڈیا ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفیئر سوسائٹی، نئی دہلی) نے کیا۔ انھیں گلدستے، یادگاری شیلڈ اور تحائف پیش کیے گئے۔

اس موقع پر اسکول کے سالانہ مجلہ "نور" کی رونمائی بھی کی گئی جس میں طلبہ اور اساتذہ کی ادبی و تخلیقی صلاحیتوں کی عکاسی کی گئی ہے۔

جناب جاوید مظہر (قائم مقام پرنسپل، تسمیہ جونیئر ہائی اسکول) نے سالانہ رپورٹ پیش کی، جس میں اسکول کی گذشتہ سال کی کامیابیوں، تعلیمی ترقیات اور دیگر اہم اقدامات کا ذکر کیا گیا۔

تقریب کی نظامت مزاری شمہ تبسم (سینئر معلمہ، تسمیہ جونیئر ہائی اسکول) نے نہایت خوبصورتی سے انجام دی، جن کی شاندار نظامت نے محفل کو پرکشش اور منظم رکھا۔

طلبہ نے بہترین ثقافتی پروگرامز پیش کیے:

استقبالیہ نغمہ "دادا دادی، نانا نانی" (یو۔ کے۔ جی)، نظم "تتلی ہوں میں" (یو۔ کے۔ جی۔ لڑکے)، نظم "تتلی ہوں میں" (یو۔ کے۔ جی۔ لڑکیاں)، حب الوطنی نغمہ "چھوٹے چھوٹے سپاہی ہیں" (درجہ اول)، اردو نظم (درجہ دوم)، حوصلہ افزا نغمہ "آشاؤں کا ایک دن" (درجہ چہارم)، والدین کے نام نغمہ "نہیں کرنا نہیں ناراض کبھی" (درجہ سوم اور چہارم/پنجم)، اساتذہ کے نام نغمہ "گرو کا جی گیان ہے" (درجہ ششم اور ہفتم)، متاثر کن نغمہ "آسمان کو ایک دن" (درجہ ہفتم)، حمد "ہم ہیں سارے غم کے مارے" (درجہ ہشتم)۔

ثقافتی سرگرمیوں کی شاندار نظامت مسز خوش نصیب (سینئر معلمہ) نے کی، جنہوں نے تقریب کو نہایت دلکش اور متحرک رکھا۔

نمایاں کارکردگی کے حامل طلبہ کو ٹرافیاں، اسناد، اور ۱۰۰۰ روپے کا چیک بطور انعام پیش کیا گیا۔

۱۰۰ فیصد حاضری انعام پورے سال مکمل حاضری برقرار رکھنے والے طلبہ کو ٹرافیاں اور اسناد دی گئیں۔

مولانا شوکت قاسمی، زبیر احمد، اور جاوید مظہر کو سال بھر مسلسل حاضری پر خصوصی اعزاز سے نوازا گیا۔ اعزازی مہمان ڈاکٹر آئی۔ پی۔ پانڈے (سابق سائنسدان، ISRO) نے کہا کہ سائنس، جستجو اور محنت کامیابی کی کلید ہیں، طلبہ کو چاہیے کہ وہ تحقیق، خلائی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھیں۔

مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر افروز الحق (سابق وائس چانسلر، ایچ۔ اے یونیورسٹی، امپھال) نے کہا کہ تعلیم ایک ترقی پسند معاشرے کی بنیاد ہے۔ کامیابی کے لیے تحقیق، مہارتوں کے فروغ اور جدت پسندی پر توجہ مرکوز کریں۔

صدارتی خطاب، ڈاکٹر ایس فاروق (صدر، تسمیہ سوسائٹی، نئی دہلی)

طلبہ کو نظم و ضبط، اخلاص اور ادب کی اہمیت سمجھائی، والدین کو تلقین کی کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم میں فعال کردار ادا کریں۔ لڑکیوں کی تعلیم کی ضرورت پر زور دیا اور انہیں علم و خود اعتمادی سے آراستہ کرنے کی تاکید کی۔

خاندانی اقدار پر روشنی ڈالتے ہوئے طلبہ کو والدین، اساتذہ اور بزرگوں کا احترام کرنے کی نصیحت کی۔

جناب جاوید مظہر (قائم مقام پرنسپل) نے شکریہ کلمات پیش کیے، جن میں مہمان گرامی، اساتذہ، طلبہ اور والدین کا شکریہ ادا کیا، جن کی کوششوں سے یہ تقریب کامیاب ہوئی۔ تقریب کی خاص پذیرائی سید اعجاز احمد (مینجر) کو دی گئی، جنہوں نے اپنی قیادت اور انتھک محنت سے جلسے کو شاندار بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

تقریب کا اختتام قومی ترانے سے ہوا، جس کے بعد سالانہ میلے کا افتتاح کیا گیا، جس نے خوشیوں اور مسرت کا سماں باندھ دیا۔

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول کا ۳۳ واں سالانہ جلسہ ایک یادگار کامیابی ثابت ہوا، جس میں اساتذہ، طلبہ، سابق طلبہ اور والدین کی بھرپور شرکت نے اسے شاندار بنا دیا۔

(طنزیہ ومزاحیہ افسانچے) ٭ انس مسرورؔانصاری

(طنزیہ ومزاحیہ افسانچے)
 Urduduniyanews72
              ٭ انس مسرورؔانصاری
                                       /9453347784/
                         
                            اکتیس کامہینہ
    اتوارکادن تھا۔فرصت کے اوقات تھے۔سرفرازصاحب گھرہی پرتھے۔بچے کھیل کودمیں مصروف تھے۔اُن کی بیوی طاہرہ بیگم نے آپسی گفت گوکے دوران کہا: 
  ‘‘سچ کہتی ہوں اورمجھے جھوٹ بولنے کی عادت ہے نہیں۔میرے دل میں جس قدرتمھاری محبت ہے اُس کااندازہ تم رائی بھربھی نہ لگاسکوگے۔’’طاہرہ بیگم کی بات کاٹتے ہوئے سرفرازنے کہا:‘‘لیکن بیگم! شاید تم بھول رہی ہوکہ یہ مہینہ اکتیس دنوں کاہے اورآج ابھی اُنتیس تاریخ ہے۔تنخواہ ابھی دوروزبعد ملے گی۔یعنی ابھی تم کوتین روزتک مسلسل پیارومحبت کی باتیں کرنی پڑیں گی۔ویسے ابھی تم نے جومکا لمے مجھے سنائے،وہ کس فلم کے ہیں۔؟’’ 
  ‘‘اُوہ....تویہ بات ہے۔؟سچ کہتی ہوں ،میری باتوں کاتم نے یقین کیاہے اورنہ کبھی کروگے۔ پیاربھری باتیں تمھیں کسی فلم کامکالمہ معلوم ہوتی ہیں۔حدہوگئی۔غضب خداکا۔تم سوچتے ہوکہ میں اس طرح کی باتیں تمھاری تنخواہ کے لیے کرتی رہی ہوں۔؟آج سے حرام جوتمھاری تنخواہ کاایک دھیلابھی اپنی ہتھیلی پر
َ رکھوں۔میرے اسکول کی تنخواہ اتنی کم بھی نہیں کہ میں تمھارے پیسوں کی مہحتاج رہوں(آنکھو پررومال رکھتے ہوئے)جب سے اس گھرمیں آئی ہوں کبھی سکھ کاسانس لینانصیب نہ ہوا۔تمھارے ساتھ میرارشتہ کیا ہواکہ میری توتقدیرہی پھوٹ گئی۔کوئی دوسری ہوتی توکب کارفوچکّرہوگئی ہوتی۔ایک میں ہی ایسی جنم جلی ہوں جوہزارطعنوں تشنوں کے باوجودبھی نباہ رہی ہوں۔کتنے اچھے اچھے رشتے میرے لیے تھے ،مگرگھرکے بڑے بوڑھے تم میں نہ جانے کون سے سُرخاب کے پرلگے دیکھے کہ رشتہ کرلیا۔میرے لیے کیارشتہ کہ کوئی کمی تھی۔ایک سے ایک پڑھے لکھے عقل مند لوگ چاہتے تھے۔ میں نصیبوں جلی تمھارے ہتھے چڑھ گئی۔’’(ہلکی ہلکی سسکیاں ) 
 ‘‘ٹھیک کہتی ہوطاہرہ بیگم!وہ لوگ عقل منداورخوش نصیب تھے جوبھاگ نکلے۔میں بے چارہ سیدھاسادہ بندہ تمھارے حسن کے جال میں پھنس گیا۔’’
 سرفرازکمرہ سے نکل کرباہرریلنگ میں آکرکھڑاہوگیا
اوراخبارد یکھنےلگا۔ ۔طاہرہ بیگم کافی دیرتک بک بک جھک جھک کرتی رہیں۔زبان کے ساتھ ساتھ کام دھندوں میں ہاتھ بھی چلتارہااوروہ بالکونی میں کھڑابظاہراخبار دیکھ رہاتھا لیکن سماعت کی ساری قوت طاہرہ بیگم کی زبانی ریکارڈنگ پرلگی ہوئی تھی۔وہ زیرلب مسکرائے بھی جارہاتھا۔اپنی بیوی طاہرہ کوچھیڑکراُس کی جلی کٹی باتوں میں اسے بڑالطف آتا۔وہ جانتاتھاکہ طاہرہ دل کی بہت اچھی ہےاورچند۔سکنڈکےاندراسے منالیناکچھ بھی مشکل نہیں۔ 
                                                       *٭٭
                                  کھوٹاسکہ
    ایک مدت کے بعدرتن اورچمن جب ملے توپرانی یاریاں تازہ ہوگئیں۔گئے دنوں کی یادیں زندہ ہوگئیں۔دونوں بہت جذباتی ہوگئے اوردیرتک ایک دوسرے کوگلے لگاتے رہے۔خیرخیریت پوچھنے کے بعدرتن نے پوچھا:‘‘اورکہویار!کیسی گزررہی ہے۔بھابی اوربچوں کاکیاحال ہے۔؟’’
 چمن نے مسکراتے ہوئے بتایا:‘‘سب ٹھیک ٹھاک ہے یار!ایک لڑکاڈاکٹرہے۔دوسراانجینئرہے ہے۔تیسراانسورش کمپنی میں ملازم ہے۔تینوں اپنی بیوی بچوں کوساتھ لے کرالگ الگ شہروں میں رہ رہے ہیں اوربہت خوش حال ہیں۔’’
 ‘‘بہت خوش نصیب ہوتم، مگریار!تمھاراچوتھااورسب میں چھوٹابیٹابھی توتھا۔؟’’رتن نے پوچھا۔‘‘وہ کیاکر رہاہے۔؟وہ بھی کسی پوسٹ پرضرورہوگا۔؟’’
 ‘‘کیابتاؤں یار!چوتھے لڑکے کوپڑھانہیں سکا۔وہ ایک نائی کی دوکان پرحجام ہے۔’’
 رتن کوبڑی حیرت ہوئی۔اس نے کہا:‘‘توپھراس کم بخت کوگھرسے نکال کیوں نہیں دیتے جوتمھار ے خاندان کی پگڑی اُچھال رہاہے۔حدہوگئی۔بھلایہ بھی کوئی بات ہوئی ۔تعلیم یافتہ خاندان کالڑکاحجام ؟ میں توکہتاہوں کہ ایسے نالائق بیٹے کوگھرسے باہرہی نکال دو۔’’
      ‘‘کیسے گھرکے باہرنکال دوں۔اُسی کی کمائی سے توگھرکاخرچ چلتاہے۔***
                              
                           نہلے پردہلا
 گاؤں کے کنجوس مہاجن لیلارام ساہوکارکے پاس بھگوان کادیاسب کچھ تھا۔کسی چیزکی کوئی کمی نہ تھی۔دھن دولت تومانوچھپرپھاڑکربرس رہاتھا۔بس اُسے ایک ہی تکلیف تھی۔اس کااکلوتابیٹاسکھ دیونہاتانہیں تھا۔ہزاروں باروہ اسے سمجھابجھاکرتھک ہاربیٹھاتھا۔پھراس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے اپنے بیٹے کونہانے کی عادت ڈالنے کے لیے ایک دن سکھ دیوسے کہا: 
      ‘‘بیٹا!اگرتم روزبلاناغہ نہاؤ گے توایک مہینہ کے بعدمیں تمھیں ایک سوروپئے انعام میں دوں گا۔’’ 
 باپ کی پیش کش سن کربیٹابہت خوش ہوا۔سوروپئے کے لالچ میں وہ روزانہ بلاناغہ نہانے لگا۔آخر جب ایک ماہ پوراہوگیاتواس نے باپ کواس کاوعدہ یاددلایااور سوروپئے کامطالبہ کیا۔کنجوس باپ نے مسکراتے ہوئے اس کی تعریف کی اوراس کے ہاتھ میں ایک بل تھمادیاجس میں ایک سوپچیس روپئے صابن کے درج تھے۔لیلارام نے بیٹے سے کہا۔‘‘تمھارے سوروپئے انعام کے اورپچاس روپئے جیب خرچ سے کاٹ کریہ بل دوکاندارکواداکیاجائے گا۔’’ 
 بیٹے نے مسکراتے ہوئے باپ سے کہا۔‘‘بابوجی!آپ سوروپئے مجھے دیں۔میں روزانہ بلاصابن کے نہاتارہاہوں۔’’ 
                    ٭٭
                             ساس اورداماد
 گاؤں میں قیام کے دوران ایک روزمہمان بڑی دل چسپ نظروں سے میزبان کی لڑکی کوبھینس کا دودھ دوہتے ہوئے دیکھ رہاتھا۔اچانک ایک بھینسے کوپھنکاریں مارتے ہوئے تیزی سے آتے ہوئے دیکھ کروہ دوڑکرایک دیوارپرچڑھ گیااورچیخ چیخ کرلڑکی کوخبردارکرنے لگا۔مگرلڑکی ٹس سے مس نہ ہوئی بلکہ بے خوف اپنے کام میں مشغول رہی۔اس کے اطمینان میں کوئی فرق نہ آیا۔بھینساپھنکاریں مارتاہوا بھینس کے قریب آکررک گیا۔کچھ دیربھینس کودیکھتارہا پھرسرجھکاکرواپس چلاگیا۔
      ۔۔اس خوفناک بھینسے کواپنی طرف آتے دیکھ کرتمھیں ڈرنہیں لگا۔؟’’شہری مہمان نے لڑکی سے پوچھا۔
 ‘‘ہرگزنہیں۔’’لڑکی نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔‘‘میں جانتی تھی کہ بھینساکچھ نہیں کرے گا۔کیونکہ یہ بھینس اس کی ساس ہے۔’’
                                       ٭٭
                           شرم وحیا
    گاؤں کے رہنے والے حکیم صاحب دین شہرمیں مطب کھولے ہوئے تھے۔گاؤں اورشہرکے درمیان ایک قبرستان پڑتاتھاجس میں بے شمارقبریں تھیں۔گھرسے شہرمیں دواخانہ آتے وقت یادواخانہ سے گھرجاتے وقت جب حکیم صاحب دین قبرستان کے قریب پہنچتے تواپنے چہرے پررومال ڈال لیتے ۔ایک دن کسی نے وجہ پوچھی توکہنے لگے۔‘‘اس قبرستان میں بہت سی قبریں ایسی ہیں جن میں وہ لوگ دفن ہیں جومیراعلاج کرتے کرتے اس قبرستان تک پہنچے۔اس لیے جب میں یہاں سے گزرنے لگتا ہوں توشرمندگی کی وجہ سے منھ پرکپڑاڈال لیتاہوں۔آخرانسان کے اندرکچھ توشرم وحیاہونی چاہئے۔’’
                           ٭٭
                          آتنک وادی 
     مئی کی سلگتی ہوئی دھوپ۔شدت کی گرمی سے پریشان حال لوگ۔پسینے سے شرابوروردی میں شہرکے کوتوال مانک چندکہیں دورکے دورے سے واپس آئے تھے۔بھاری بھرکم جسم سنبھالے نہیں سنبھل رہاتھا۔ سانسیں سینے میں نہیں سمارہی تھیں۔اپنے آفس میں داخل ہوتے ہی انھوں نے اپنے آپ کوکرسی پر ڈھیرکردیاْ۔وہ بری طرح ہانپ رہے تھے۔ان کی تونداس طرح اوپرنیچے ہورہی تھی مانوغبارے میں ہوابھری اورنکالی جارہی ہو۔انھوں نے گھنٹی بجائی توایک سپاہی فوراََحاضرہوا۔‘‘انسپکٹرماتادین کوبلاؤ۔’’انھوں نے آدیش دیا۔ سپاہی سلوٹ مارکرچلاگیا۔دومنٹ میں انسپکٹرماتادین حاضرہوگیا۔‘‘سر!آپ نے مجھے بلایا۔ْ’’ 
 ‘‘ہاں ،ماتادین۔دیکھو۔سنو!کچھ سپاہیوں کو ساتھ لے کرجاؤ اورسڑک پرسے کسی بڑی بڑ ی مونچھوں والے کوپکڑلاؤ۔ذراموٹااورتگڑاآدمی ہو۔’’انسپکٹرجانےلگا توکوتوال نے اسے روکا۔‘‘دیکھو!اوپرسے بہت پریسرہے۔ہم پرالزام ہے کہ آتنک وادیوں کوہم چھوٹ دے رہے ہیں اورہمارے تھانے سے اب تک ایک بھی آتنک وادی نہیں پکڑاجاسکا ہے۔اس لیے اگرکوئی مونچھ والانہ ملے توکسی داڑھی والے کوہی پکڑلائیو۔آخرفائل بناناضروری ہے اوراس کاپیٹ بھرنابھی ضروری ہے۔نوکری اور پرموشن کامعاملہ ہے۔اب جاؤ۔’’
                                      *٭٭ 
                             انس مسرورؔانصاری
         anasmasrooransari@gmail.com

اتوار, فروری 09, 2025

ڈاکٹر تابش مہدی کا انتقال ایک فرد کا نہیں نصب العین کا زیاں ہے

ڈاکٹر تابش مہدی کا انتقال ایک فرد کا نہیں نصب العین کا زیاں ہے 
Urduduniyanews72
ادارہ ادب اسلامی مظفرپور کے زیر اہتمام ڈاکٹر تابش مہدی کی یاد میں دعائیہ و شعری نشست

مظفرپور 09 فروری (پریس ریلیز)

ڈاکٹر تابش مہدی ادب اسلامی کے ایک مضبوط ستون تھے. ان کے انتقال سے صالح ادب کی روایت کو شدید نقصان پہنچا ہے. ان خیالات کا اظہار محمد سلمان سابق صدر شعبئہ فارسی ایس این ایس آر کے ایس کالج سہرسہ نے ڈاکٹر تابش مہدی کی یاد میں منعقد دعائیہ نشست کی صدارت فرماتے ہوئے کیا. دعائیہ نشست کا اہتمام ادارہ ادب اسلامی مظفرپور کی طرف سے حضرت علی اکیڈمی مسلم کلب پکی سرائے میں کیا گیا تھا. ادارہ کے سرپرست محمد ہشام طارق نے ڈاکٹر تابش مہدی کی علمی و ادبی اور ملی خدمات کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے ان کی گوناگوں خدمات پر گفتگو کی. انھوں نے کہا کہ تابش مہدی کے نظریہ ادب سے نئی نسل کو متعارف کروانا ہم سب کی ذمہ داری ہے. نتیشور کالج مظفرپور کے صدر شعبہ اردو کامران غنی صبا نے ڈاکٹر تابش مہدی سے اپنے مراسم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کا انتقال صرف ایک فرد کا نہیں، ایک انجمن اور نصب العین کا زیاں ہے. تشکیک، الحاد اور لادینیت کی اندھی میں ایک چراغ جو اپنی پوری حرارت کے ساتھ روشن تھا خاموش ہو گیا ہے لیکن اس نے جاتے جاتے کئی ایسے چراغ روشن کر دییے ہیں جو آندھیوں کی زد میں بھی ہمیشہ مسکراتے رہیں گے. نوجوان اسکالر اسلم رحمانی نے ڈاکٹر تابش مہدی کی صالح ادبی قدروں پر روشنی ڈالتے ہوئے ادب کے تعلق سے ان کے واضح نظریات پر گفتگو کی. انھوں نے کہا کہ نئی نسل کو ڈاکٹر تابش مہدی کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے. پروگرام کے پہلے حصہ کی نظامت اسلم رحمانی نے کی جبکہ دوسرے حصہ کی صدارت بزرگ شاعر ڈاکٹر صبغتہ اللہ حمیدی نے فرمائی اور نظامت کا فریضہ معروف شاعر محفوظ عارف نے بحسن و خوبی انجام دیا. شعری نشست میں علی احمد منظر، تعظیم احمد گوہر، کامران غنی صبا،حبان الحق حاذق، احمد مسرور، محفوظ عارف اور ایمل ہاشمی نے اپنے کلام پیش کیے. دونوں سیشن کا آغاز حضرت علی اکیڈمی کے طالب علم محمد عطاء اللہ کی تلاوت اور اختتام کامران غنی صبا کے اظہار تشکر پر ہوا. نشست میں قاضی وسیم غازی، ابو طلحہ، نہاں پروین، الصبا صدیقی، نغمہ پروین، رقیہ پروین، صوفیہ پروین وغیرہ نے شرکت کی.

پیر, فروری 03, 2025

لے آئ زندگی تو انبار غم کہاں سےیہ کب کی دشمنی تھی اس جان ناتواں سے، کاظم رضا ۔

لے آئ زندگی تو انبار غم کہاں سے
یہ کب کی دشمنی تھی اس جان ناتواں سے، 
کاظم رضا ۔
Urduduniyanews72
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے صوبۂ بہار کے تین شاعروں کے اعزاز میں محفل اعزازیہ ومشاعرہ کا انعقاد ۔

پٹنہ پھلواری شریف 03/فروری 2025 ( پریس ریلیز:محمد ضیاء العظیم ) صوبہ بہار کی مشہور سرزمین۔۔ ۔۔ سے تعلق رکھنے والے تین مشہور ومعروف شاعر رہبر گیاوی المعروف چونچ گیاوی ،مظہر وسطوی اور ڈاکٹر نصر عالم نصر کے اعزاز میں صابر سہرساوی کی صدارت میں مورخہ 02/فروری 2025 بروز اتوار کو ایک خوبصورت محفل اعزازیہ ومشاعرہ مشاعرہ کا انعقاد ہوا، 
تقریب کا اہتمام محمد ضیاء العظیم (ٹرسٹی ضیائے حق فاؤنڈیشن )ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن) ڈاکٹر نصر عالم نصر (رکن ضیائے حق فاؤنڈیشن) اور ان کی ٹیم نے کیا، واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن ایک سماجی ،فلاحی اور ادبی تنظیم ہے جو دیگر ادبی خدمات میں سرگرم رہنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی کاموں میں بھی پیش پیش رہتی ہے،اس سے قبل بھی کئی اہم شعراء وادباء وصحافی کو ان کی علمی وادبی خدمات کی بنا پر اعزازات سے نواز چکی ہے، ٹرسٹ خصوصیت کے ساتھ ان شعراوادبا کو تلاش کرتی ہے جو ایک اچھے فنکار ہونے کے باوجود بھی دنیائے ادب انہیں نظر انداز کرتی ہے اور وہ گمنامی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، انہیں تلاش کرکے ان کے علوم وفنون سے دنیائے ادب کو متعارف کراتی ہے ، مذکورہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شہر پٹنہ کے قلب میں واقع مسلم اکثریتی علاقہ پھلواری شریف میں ایک ادارہ مدرسہ ضیاء العلوم طلبہ وطالبات کو تعلیم وتربیت سے آراستہ وپیراستہ کر رہا ہے ۔
 پروگرام کی نظامت مشہور ومعروف شاعر سید رضوان حیدر اور کاظم رضا نے کی، پروگرام کی شروعات قاری عبد الواجد عرفانی نے تلاوت قرآن پاک سے کیا ، پھر ڈاکٹر نصر عالم نصر نے اپنے مخصوص لب ولہجہ کے ساتھ نعت پاک سے محفل کو خوبصورت بنایا ۔ پھر محمد ضیاء العظیم نے ضیائے حق فاؤنڈیشن کے تعارف کے ساتھ ساتھ اعزازات سے نوازنے والے تینوں شعراء کا تعارف کرایا ۔
اس کے بعد ناظم مشاعرہ نے نظامت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کا مختصر تعارف میں انہوں نے کہا کہ بہت کم وقتوں میں یہ فاؤنڈیشن نے کارہائے نمایاں انجام دیا اور دے رہا ہے، اس کے بعد تینوں شعرا کو ان کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے شال اور سند سے نوازا گیا ۔
پھر ایک خوبصورت مشاعرہ کا انعقاد ہوا۔ مشاعرہ میں پڑھے گئے شعراکے کلام سے چند اشعار ۔
مظہر وسطوی 
فصل گل، رنگ چمن، باد صبا کا مطلب، 
ہر کلی کو ہے پتہ ناز وادا کا مطلب ۔ 
نذر فاطمی 
ہمارے ساتھ ہی چلنے کی ضد اگر ٹھہری 
صعوبتوں میں بھی تم مسکرا سکو تو چلو۔
ڈاکٹر نصر عالم نصر 
اے رب کائنات ترا دل سے شکریہ، 
لاکھوں میں انتخاب کے قابل بنا دیا ۔
چونچ گیاوی 
محفل میں بھیڑ اب تو متشاعروں کی ہے،
 ہے شاعروں کے واسطے محدود دائرہ، 
مرنے کا انتظار تھا بے صبری سے اسے، 
ابا جو مر گئے تو بنی بیٹی شاعرہ ۔
وارث اسلام پوری 
کوئی بھی وفاؤں کا خریدار نہیں ہے، پہلی سی یہاں رونق بازار نہیں ہے ۔
افتخار عاکف 
پھوٹ پھوٹ کر رویا دل تب میں نے یہ غور کیا 
جان بوجھ کر K. K. D نے عاکف کو اگنور کیا۔
محمد ضیاء العظیم 
ممکن ہے وہ مجھ کو بھول کر رہ لے گا 
اچھا ہے پھر مجھ کو بھی آسانی ہے۔
سلمان احمد ساحل 
نظم "پلکوں کی اولتی" 
اسرار عالم سیفی 
متاع دین بھی اس میں حیات دنیا بھی، 
عجب ہے رنگ طرحدار شاعری کرنا ۔
چودھری سیف الدین سیف 
بے حجابانا تو اے زیست جدھر جاتی ہے، 
ہر نظر میں تری تصویر اتر جاتی ہے ۔
کاظم رضا 
صحن حرم سے اٹھے یا کوچۂ بتاں سے ، فتنہ رہے گا فتنہ چاہے جگے جہاں سے ۔
ڈاکٹر شمع ناسمین نازاں 
ناز خود پر کیوں نہ ہو نازاں کہ اب 
شاعری ہونے لگی ہے بہتر بہت ۔
سید رضوان حیدر 
یہ فروائ نعمت یہ نوازش رضوان، 
شاعری کچھ نہیں انداز ہے شکرانے کا ۔
افسر جمال افسر 
اردو مری تہنیت ہے، پہچان ہے اردو، 
اردو ہے مری جان، مری شان ہے اردو ۔
اثر فریدی 
اکڑ رہے ہو حقیقت تمہیں نہیں معلوم، 
حیات اتنا کہاں اختیار دیتی ہے ۔
معین گریڈیہوی 
رہنے تو دیجیے سدا چین وسکون سے، نفرت کی آگ آپ لگایا نہ کیجیے ۔
خالد عبادی 
اندھوں کا فرمان یہی ہے 
کام نہ لیجیے بینائی سے ۔
ظفر صدیقی 
مظلوموں نے چھوڑ دی امید انصاف، اب تو جانبدار عدالت ہوتی ہے ۔
آخر میں صدر محترم صابر سہرساوی نے اپنی شاعری کے ساتھ اپنے تاثرات کا اظہار کیا، اعزازات سے نوازے گئے نے تینوں شاعروں کے کلام پر اور ان کی خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے انہیں مبارکبادی پیش کی ۔ اور کہا کہ میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں سے بخوبی واقف ہوں، اس تنظیم نے ان تینوں شعراء کا حسن انتخاب کیا اور ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کی بہترین حوصلہ افزائی کی ، یہ تنظیم اپنے محاذ پر بھر پور کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہے، آج مجھے یہاں بہت خوشی محسوس ہورہی، یہ محفل میرے لئے یادگار ثابت ہوا ، آپ سب کی اس بے لوث محبت کو میں تا عمر یاد رکھوں گا، پھر ضیائے حق فاؤنڈیشن کے برانچ اونر محمد ضیاء العظیم نے تمام مہمانان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہماری یہ خوش بختی ہے کہ ہماری آواز پر آپ سب اپنی ہزارہا مصروفیات کے باوجود بھی یہاں آنے کی زحمت گوارا کی، ہم پروردگار کا شکر ادا کرتے ہیں اور آپ تمام مہمانان کا شکریہ، خصوصاً ڈاکٹر نصر عالم نصر ،ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن کا کہ آپ دونوں کی باہمی تعاون سے ہی یہ پروگرام منعقد ہوا، اب ہم سب کی کوشش ہو کہ اردو زبان وادب کی تعلیم سماج ومعاشرہ کا ہر ایک ایک بچہ حاصل کرے، پڑھے، سیکھے، اور بولے، ہماری تہذیب وثقافت اسی زبان کے ذریعہ زندہ وتابندہ رہ سکتی ہے، ہم میں سے ہر ایک فرد ایک ذمہ داری کے ساتھ اس زبان کی ترویج واشاعت میں کوشاں رہے، پھر صدر محترم کی اجازت سے محفل کے اختتام کا اعلان ہوا ۔
پروگرام میں مدرسہ ضیاء العلوم کے طلبہ سمیت پھلواری شریف کی معزز شخصیات شامل رہے ، 
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں خصوصی طور پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن واسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج (متھلا یونیورسٹی) ڈاکٹر صالحہ صدیقی، ڈاکٹر نصر عالم نصر، محمد ضیاء العظیم کا نام مذکور ہے جن کی محنت وکاوش کی وجہ سے یہ پروگرام پایہ تکمیل تک پہنچ سکا، 
جبکہ عمومی طور پر فاطمہ خان، زیب النساء، شمیمہ بانو، فقیھہ روشن، قاری ابوالحسن،قاری عبدالواجد، مفتی نورالعظیم، حافظ ثناء العظیم، عفان ضیاء، حسان عظیم کا نام مذکور ہے۔

ہفتہ, فروری 01, 2025

شا ہ ولی اللہ انسٹی ٹیو ٹ نئی دہلی کے زیر اہتمام شائع شدہ کتاب

شا ہ ولی اللہ انسٹی ٹیو ٹ نئی دہلی کے زیر اہتمام شائع شدہ کتاب
Urduduniyanews72
 ’’شاہ ولی اللہؒ اور تصوف‘‘کی رسم اجراء اور مشاہیر علماء و دانشوران ملت کا اظہار خیال 

۱/فروری ۲۰۲۵ءنئی دہلی
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے نظریہ تصوف وسلوک کی تفہیم و تعبیر کے لیے ایک رہنما کتاب ہے جس میں تصوف کی ابتداء و ارتقاء اور تمام سلا سل و مناہج اورطرق صوفیاء کا تفصیلی بیان موجود ہے، جس کے مولف معروف عالم دین مولانا مفتی عطاء الرحمٰن قاسمی ہیں، ان خیالات کااظہارپدم شری پروفیسر اختر الواسع نے ۳۱جنوری ۲۰۲۵ کوتسمیہ آڈیٹوریم اوکھلا،نئی دہلی میں ’’شاہ ولی اللہ ؒاور تصوف‘‘ کی رسم اجراء کے موقع پر کیاہے، جسکی صدارت ڈاکٹر سید فاروق صاحب ڈائرکٹر ہمالیہ ڈرگس نے کی اور جبکہ نظامت کے فرائض جناب شبیہ احمد خاں صاحب سابق سی یی او حج کمیٹی اف انڈیا نے بحسن و خوبی سر انجام دیا، شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیو ٹ کاتعارف کراتے ہوئے مولانا عطاء الرحمٰن قاسمی نے کہا کہ شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے تحت الحمد للہ اب تک ۵۰ سے زیادہ کتا بیں شائع ہو چکی ہیں،خصوصیت سے الاشباہ والنظائر فی القرآن الکریم( مخطوطہ مفسر قرآن شیخ مقاتل بن سلیمان ؒکی خاص اشاعت ہے)پروفیسر شہپر رسول وائس چیئرمین دہلی اُردو اکادمی نے بڑے جامع انداز میں حضرت شاہ ولی اللہ محدثؒ کا ذکر کیا اور’’شاہ ولی اللہ اور تصوف‘‘ کی اشاعت پر مفتی عطاء الرحمن قاسمی کو مبارک باد دی اور ڈاکٹر سید فاروق صاحب کے برادر خورد جناب فرخ احمد نے اپنے کلام حمد و ثناء سے مجلس کو محظوظ کیا، پروفیسر خالد محمودسابق صدر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کہا کہ شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ فکر ولی اللٰہی کی اشاعت وترویج کا ایک بڑا مرکز ہےاور ایک چھوٹی سی جگہ سے بڑا علمی کام ہوتا رہا ہے، جس کا نمونہ یہ اہم کتاب ہے، ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں سابق چیئرمین دہلی اقلیتی کمیشن نے کہا کہ شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیو ٹ کا قیام ۱۹۸۶ء میں ہوا اور میں مولانا عطاءالر حمن قاسمی کو تب ہی سے جانتاہوں اور انکی تحقیقی کاموں سے واقف ہوں اور انہوں نے مزید کہا کہ تصوف وسلوک سے منسلک بہت سے صوفیاء ومشایخ نے اعلاء کلمۃ اللہ کا حق اداکیا ہے اور اپنے اپنے ملکوں میں سماجی انقلاب برپا کیا ہے، مشہور دانشورخواجہ محمد شاہد ریٹائرڈ آئی اے ایس نے بھی شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے علمی کاموں کی تحسین کی اور اسکے مجوزہ منصوبہ کی تکمیل کی اپنی دیرینہ خوا ہشن ظاہر کی،معروف سماجی رہنما جناب آصف حبیب صاحب نے کہا گرچہ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒسے زیادہ واقف نہیں ہوں لیکن وہ ایک بڑے صوفی اور برصغیر میں اسلام صو فیاء و مشایخ کے ہی ذریعہ آیا ہے، مشہور شاعر وادیب ڈاکٹر سجاد احمد صاحب نے بھی اپنے کلام سے نوازا اور انھوں نے کتاب کی تعریف وتوصیف کی اور شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے علمی کاموں کو سراہااور شا ہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے سر پرست رہے ڈاکٹر اخلاق الر حمٰن قدوائی مرحوم کے صاحبزادے جناب مونس الر حمٰن قد وائی نےشاہ ولی اللہ انسٹی ٹیو ٹ کے تر جمان و ارگن ’’ماہنامہ براہین‘‘ کی پابندی اشاعت پر خوشی کا اظہار کیا اور کہاکہ مفتی عطاءالر حمن قاسمی کی محبت کی وجہ سے حا ضر ہو ا کرتاہوں۔آخر میں ڈاکٹر سید فاروق صاحب چیئرمین تسمیہ ٹرسٹ نےاپنے صدارتی خطبہ میں بڑے موثر ناصحانہ کلمات سے نوازا اور اپنے اشعار سے سامعین کو محظوظ کرایا اور خواجہ محمد شاہد صاحب نےڈاکٹر سید فاروق صاحب کی جانب سے اس ا جرائی تقریب کے انعقاد اور ہم طعامی کا شرف بخشنے کا شکریہ اداکیا ، اسکے قابل ذکر شرکاء میں میجر عبد الحفیظ، جمال محمد خاں،، سہیل احمد صدیقی، سید محموداختر، عزیزالرحمن، ڈاکٹر انشاء تابش،ڈاکٹر خالد عثمانی شاہین باغ، ڈاکٹر خوش نور، ڈاکٹر بہار عالم، فرخ احمد دہرادون ،فرخ احمد صدیقی دہلی ،قاری محمد عرفان اور حافظ محمد عرفان دہلوی وغیرہ تھے۔


Issued by
Shah Waliullah Institute, New Delhi

پیر, جنوری 27, 2025

جمہوری اقدارکی حفاظت __جمہوری اقدارکی حفاظت __

جمہوری اقدارکی حفاظت __
جمہوری اقدارکی حفاظت __
Urduduniyanews72 
ایم رحمانی 
۷۶ جشن یوم جمہوریہ 
مدرسہ اخلاق العلوم نیوحیدرگنج کمپیبل لکھنؤ 
==============================
ہر سال کی طرح امسال بھی جشن منایا جائے گا ، ہندوستان کی تہذیبی وثقافتی جھانکیاں پیش کی جائیں گی ، دفاعی میدان اور اسلحوں کی دوڑ میں ہماری جو حصولیابیاں ہیں، اس کا مظاہرہ کیا جائے گا، شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا ، پورا ملک جشن میں ڈوب جائے گا ، ترنگے جھنڈوں کے ساتھ مدرسوں ، اسکولوں اور اداروں میں رنگا رنگ تقریب ہوگی ، طلبہ وطالبات کو انعامات سے نوازا جائے گا ، سیاسی حضرات کی جانب سے ہندوستان کے مجاہدین آزادی کا گن گان کیا جائے گا ، اور لمبے چوڑے بیانات اور وعدوں کے ذریعہ سیدھے سادے عوام کو لبھانے کی کوشش کی جائے گی او رایسا پہلی بار نہیں ہوگا ، ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے 26 جنوری گذرا اور ہم سب یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت کے لفظی نعروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، اصل ہے جمہوری اقدار کا تحفظ؛ جس سے ملک دور سے دور ہوتا جا رہا ہے، ہم نے جمہوریت کا مطلب صرف عوام کی حکومت ، عوام کے لیے عوام کے ذریعہ سمجھ لیا ہے اور ہر پانچ سال پر انتخابات میں سارے حربے استعمال کرکے حکومت پر جو قبضہ کیا جاتا ہے ، اسے ہم جمہوری طریقہ کار سے تعبیر کرتے ہیں اور خوب خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا ملک جمہوری اعتبار سے مضبوط ہے، یہاں عوامی حکومت ہے اور اس قدر مضبوط ہے کہ پڑوسی ملکوں کی طرح یہاں مار شل لا لگانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
یقینا ترقی کر رہا ہے ، آزادی سے قبل جن گھروں میں سائیکل دستیاب نہیں تھی، آج موٹر سائیکل اس گھر میں موجود ہے اور بعض گھروں میں تو ہر آدمی کے لیے موٹر سائیکل دستیاب ہے، چار چکے کی بھی کمی نہیں ہے، کھانے کے لیے آزادی سے قبل عموما عام لوگوں کے لیے باجرہ ، جوار اور جوہی مہیا تھا ، گیہوں کی روٹی شاید باید گھروں میں ہر روز مہیا ہو پاتی تھی، دھوتی اور کپڑے بھی پورے طور پر فراہم نہیں تھے، زمینداروں کے ظلم وستم نے عام لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا تھا ، بعض حرکات تو انسانیت کو ذلیل کرنے والی ہوتی تھیں، جو تے پہن کر ان کے دروازے سے گذرا نہیں جا سکتا تھا ، سواری پر بیٹھ کر کوئی گذر جائے تو قیامت آجاتی تھی ، لوگ بندھوا مزدوروں کی طرح ان کے یہاں کام کرتے اور کرتے کرتے مر جاتے تھے، یہ معاملہ نسل در نسل چلتا تھا ، ایسے لوگوں کی اپنی مرضی نہیں ہوا کرتی تھی ، سارا کچھ مالک کی مرضی کے تابع ہوتا تھا ، تھوڑی سی غلطی اور چوک پر چمڑی ادھیڑ دی جاتی تھی ، اور عفو ودر گذر ، رحم وکرم کا خانہ خالی رہتا تھا ، انسانیت سسک رہی تھی ، کسان خود کشی کر لیا کرتے تھے، پوس کی رات او رجاڑے کی یخ بستہ سردی میں کھیتوں کی رکھوالی کرتے کرتے عمر گذر جاتی تھی۔
ملک آزاد ہوا ، زمینداری ختم ہوئی، جمہوری دستور نافذ ہوا تو ملک کے عوام نے اطمینان کا سانس لیا او ربہت کچھ منظر بدلا ، انسانی قدروں کی پامالی پر روک لگی ، بندھوا مزدوری کا رواج ختم تو نہیں ہو سکا ، کم ضرور ہوا، کھیت کسانوں کا ہو گیا، ان کی بھی خود کشی کے واقعات سامنے آنے کے با وجود حالات پہلے سے اچھے ضرور ہیں۔
 اس جمہوری نظام کی وجہ سے حکومتیں بدلتی رہی ہیں، الگ الگ منشور اور مینو فیسٹو پر کام شروع ہوا ، جو حکومت آئی اس نے اپنے نظریات ملک پر تھوپنے کی کوشش کی ، اس کے نتیجے میں بھی بہت کچھ بدلا اور بدلتا چلا گیا ، کسی نے گھوم کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ سلطانی ٔجمہور میں، جمہوری اقدار کا جنازہ کس طرح نکلا اور نکلتا چلا گیا ، سیاسی پارٹیوں کو حکومت عزیز تھی ، جہاں سے ملے اور جس طرح ملے اور جتنے اقدار کو دفن کرکے ملے۔ سوا نہیں جمہوری اقدار کے تحفظ کی فکر کبھی نہیں ہوئی۔
 اس صورت حال نے جمہوری اقدار کو پامال کیا ، جمہوریت میں صرف حکومت کاہی عوامی ہونا ضروری نہیں ہے ، عوام کی خواہشات ، امنگیں ، ان کے حقوق کا تحفظ ، مذہب پر چلنے کی آزادی سب کا خیال رکھنا ضروری ہے، بد قسمتی سے بی جے پی کی مرکزی حکومت نے ہر سطح پر ان اقدار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے، مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے ، گو رکچھا، لو جہاد، مندر تعمیر اور اب اس کے افتاح کے نام پر رواداری کا ماحول گذشتہ سالوں میں تیزی سے ختم ہوا ہے، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے عوامی زندگی کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ چھوٹے کاروباری تجارت کے اعتبار سے ختم ہو چکے ہیں،طویل عرصہ گذر جانے کے بعد بھی اب تک وہ اپنے کاروبا ر کو پھر سے کھڑانہیں کر پائے ہیں۔ گاندھی جی اس ملک میں عدم تشدد اور اہنسا کی علامت کے طور پر مختلف جگہوں پر تصویری شکل میں موجود تھے، انہیں بھی دیش نکالا دینے کی تیاری زوروں پر چل رہی ہے ، کئی جگہ سے انہیں ہٹایا جا چکا ہے اور روپے پر بھی کتنے دن نظر آئیں گے، کہنا مشکل ہے، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ملکی باشندوں کو عصبیت کا سامنا ہے اور جان بوجھ کر دلتوں ، مسلمانوں اور لسانی اقلیتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ، بحالیوں میں اور اعلیٰ عہدوں پر تقرریوں میں بھی سرکار سینئرٹی کو نظر انداز کرکے پرانے لوگوں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے ، 
 یہ مکمل حالات نہیں ، حالات کا ہلکا سا اشاریہ ہے ، اس کو پھیلا یا جائے تو بات دیر تک چلے گی اور دور تک جائے گی، کہنا صرف یہ ہے کہ ملک میں جس طرح جمہور ی اقدار پامال ہو رہے ہیں اور کسی کو اس کی فکر نہیں ہے، ایسے میں جشن جمہوریت محض ایک رسم ہے ؛ چونکہ یہ رسم ملکی دستور سے محبت کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے، اس لیے ہر سطح پر اس جشن کا اہتمام کرنا چاہیے اور پورے جوش وخروش کے ساتھ کرنا چاہیے ، لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جمہوری اقدار کے تحفظ کی ضرورت پہلے سے آج کہیں زیادہ ہے، ملک کے سیاسی رہنماؤں کو اس کے لیے اقدام کرنا چاہیے ، یہ ملک سے محبت اور وفاداری کا تقاضہ بھی ہے اور جمہوری دستور کے تحفظ ؛بلکہ مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ بھی۔
 چلے چلو کہ ابھی وہ منزل نہیں آئی

اتوار, جنوری 26, 2025

مولاناوحکیم امین نہیں رہے

مولاناوحکیم امین نہیں رہے           
Urduduniyanews72 
گذشتہ کل جمعہ کی نماز کے بعداستاد گرامی قدر جناب حضرت مولانا امین آزاد صاحب قاسمی وندوی کا انتقال ہوا، آج بروز شنبہ بعد نماز ظہر تدفین ہوگئی ہے، باری تعالٰی حضرت والا کے درجات بلند فرمائے، آمین 
حضرت کےانتقال کی خبر سب سے پہلے میرے ابو جناب مولانا منصور عالم صاحب نے مجھے دی اور یہ بتلایاکہ: مولانا مرحوم سے میرے دیرینہ تعلقات رہے ہیں، تقریبا چالیس سالہ رفاقت رہی ہے،وہ بڑے ذہین اور بہترین استاد تھے، عربی زبان وادب سےبڑا گہرا لگاؤ تھا،مولانا مرحوم نےدارالعلوم ندوةالعلما سے عالمیت کے بعد ازہر ہند دارالعلوم دیوبند سے بھی دورہ حدیث کی تکمیل کی، پھر طب میں وہیں سے فضیلت کی سند حاصل کی،مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ ارریہ میں تدریسی زندگی کی شروعات ۱۹۷۵ءمیں ہوئی،زندگی بڑی سادہ تھی، وقت کے بڑے پابند تھے، پیدل اپنے گھر بیرگاچھی سے مدرسہ تقریبا پانچ کلومیٹر کی مسافت طے کر کے روزانہ مدرسہ وقت پر پہونچ جایا کرتے تھے۔مولانا مرحوم کوفن طب میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ درس وتدریس کے ساتھ خارجی اوقات میں بیماروں کاعلاج ومعاجلہ بھی کیاکرتے۔ ۲۰۱۴ء میں جب مدرسہ سے سبکدوشی ہوگئےتو یکسوئی کے ساتھ اپنے مطب ارریہ اور گھر میں بیمار و پریشان حال خلق خدا کی خدمت میں مصروف رہنےلگے،عوام وخواص کو مولانا سے بڑا نفع پہونچ رہا تھا، ابھی کچھ دنوں سے بستر علالت پر تھے،افسوس کہ اب ہمارے درمیان موصوف نہیں رہے۔
والد صاحب ہی نہیں بلکہ آج جنازہ کی نماز میں بھی مجمع عام نے حضرت کی ان خدمات کا برملااعتراف کیا ہے۔واقعی حضرت کی وفات بیرگاچھی گاؤں ہی نہیں بلکہ خطہ سیمانچل کے لئےایک بہت بڑاخلا اور عظیم خسارہ ہے۔ جمعیت علماء ارریہ کے جنرل سکریٹری جناب مفتی اطہر القاسمی صاحب نے نماز جنازہ سے پہلے اپنی تقریر میں یہ بات کہی ہے کہ انتقال سے کچھ دیر پہلے بھی حضرت نے سکٹی سے آئے ہوئے بیماروں کے نبض پر ہاتھ رکھ کردوا تشخیص کی تھی،پھر چند لمحہ میں ہی جان جان آفریں کے حوالہ کردی۔ لواحقین سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صادق صاحب پورنیہ سے حضرت کاعلاج چل رہا تھا، مولانا وہاں جانے کے تیار نہیں تھے، گھر والوں کی ضد پر چلے تو گئے مگر انہیں اپنی تشخیص کی ہوئی دواؤں پر اصرار تھا،گویا زبان حال سے حضرت یہ کہ رہے ہوں کہ;
 مسیحا کر نہ اب اچھا ہمیں بیمار رہنے دے 
مرض ہےعشق کااسکےعوارض خوبصورت ہیں۔ 
مولانا کے ہاتھ پر اللہ نے بڑی شفا رکھی تھی، دور دراز سے بلکہ مختلف اضلاع سے لوگ مولانا کے پاس آیا کرتے اور شفایاب ہوکر جاتے، ایک بار والد صاحب بہت زیادہ علیل ہوگئے، نقاہت اتنی بڑھ گئی تھی کہ مدرسہ کے کیمپس میں غش کھا کر گرگئے، مولانا مرحوم نے پوچھا کہ آپ کو کیاشکایت ہے؟معلوم ہوا کہ ٹائیفائیڈ بخارکاعارضہ لاحق ہے،پورنیہ سے علاج چل رہا ہے مگر افاقہ ندارد ہے۔اس بات پر بہت ناراض ہوئے کہ مولانا! آپ کوپہلے بتانا تھا، معمولی خرچ پر آپ کا علاج بروقت ہوجاتا تو یہ نوبت نہیں آتی۔ ایک پرچی میں کچھ دوائیں لکھ کر حضرت نےمجھے تھمادی،شربت خاکسی وکاسنی وغیرہ نام کی تمام ادویات ڈھائی سو روپے میں دستیاب ہوگئی۔بحمداللہ والد صاحب مکمل صحت یاب ہوگئے۔بعد میں مجھے یہ بھی علم ہوا کہ شہر ارریہ کے بہت سے اطباء حضرات بھی اس بیماری کی دوا مولانا ہی سے لیا کرتے ہیں۔یہ اپنے آپ میں ایک بڑی بات تھی مگر مولانا نےاپنی زبان سے اس کوکہنا پسند نہیں فرمایا۔عموما معالج حضرات بہت فخر سے ایسی باتیں اپنے کلائنڈ کو اعتماد میں لینے کے لئے کہا کرتے ہیں۔یہ چیزحضرت کے تواضع اور خاکساری کی بڑی دلیل ہے۔اسی پر بس نہیں بلکہ پسماندگان کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ گھر کےمعمولی کام میں بھی حضرت ہاتھ بٹایا کرتے،اپنے ہاتھوں صفائی کا اہتمام فرماتے، اپنا کام خود انجام دیا کرتے، یہ درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل میں کرتے تھے اور آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی احیاء میں بکریاں بھی چرایا کرتے تھے۔رب کریم اس کے عوض میں مولانا مرحوم کو سو شہیدوں کا اجر نصیب کرے، آمین یارب العالمین 
ایں دعا ازمن وجملہ جہاں آمین باد 
ہمایوں اقبال ندوی ارریہ 
۲۵/جنوری ۲۰۲۵ء بروز شنبہ 
مطابق ۲۴/رجب المرجب ۱۴۴۶ھ

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...