جمعیۃ علماء ہند کی مختلف ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں خیمہ زن ہیں اور سروے کررہی ہیں، اب تک ابتدائی طور پر جو سروے رپورٹ آئی ہے، اس کے مطابق مہاڈ علاقے میں 26 مکانات کی ارسر نو تعمیر اور 36 مکانات کی مرمت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ازسر نو تعمیر پر ایک کی مکان کی لاگت تقریبا پانچ لاکھ روپئے اور ایک مکان کی مرمت پر 50 ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپئے کا تخمینہ کا ہے۔ سیلاب متاثرہ علاقوں میں اور بھی کئی غیر سرکاری تنظیمیں امداد وراحت رسانی کے کام میں لگی ہوئی ہیں، لیکن اب متاثرین کی بازآبادکاری ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سیلاب سے مال و اسباب کو ہی نقصان نہیں پہنچا ہے بلکہ بڑی تعداد میں لوگوں کے گھر بھی پوری طرح تباہ ہوچکے ہیں ایسے میں متاثرین کی بازآبادی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، ہوتا یہ ہے کہ اس طرح کے قدرتی آفات کے بعد کچھ عرصے تک امداد و راحت رسانی کے کام کا ہنگامہ تو رہتا ہے لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ لوگ متاثرین فراموش کردیتے ہیں، آسام اور کیرلا میں ایسا ہوچکا ہے،اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند نے اب متاثرین کی بازآبادکاری کا بیڑہ اٹھایا ہے اور اس کے لئے نہ صرف ایک فنڈ الگ سے مخصوص کردیا گیا ہے بلکہ یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ حسب ضرورت اس فنڈ میں رقم کا اضافہ ہوتا رہے گا۔
مولانا سید ارشد مدنی نے ایک بڑا اور خوش آئند فیصلہ لیتے ہوئے بازآباد کاری کے لئے ابتدائی طور پر دو کڑوڑ روپئے کا فنڈ مختص کردیا ہے اور حسب ضرورت اس مد میں مزید رقم بھی جاری کرنے کو کہا ہے۔
جمعیۃ علماء مہاراشٹر کی مختلف اکائیاں منظم طریقے سے راحت رسانی کے کاموں میں مصروف ہیں، ایک جانب جہاں غذائی اجناس، اشیاء ضروری، طبی امداد وغیرہ بروقت مہیا کروائی ہیں وہیں مکینیکوں کی ٹیم نے موٹر سائیکل، آٹورکشا و دیگر چھوٹی بڑی گاڑیوں کی بڑی تعداد میں مرمت کی اور تقریبا دس ہزار سے زائد موٹر سائیکلوں کی مرمت کیلئے درکار سازوسامان مہیا کرایا اور گاڑیوں کی مرمت بھی اور انہیں قابل استعمال بنایا۔ واضح رہے کہ صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سیدا رشد مدنی نے کیرلا، مغربی بنگال،آسام اور کرناٹک میں خصوصی دلچسپی لے کر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو اور عیسائی بھائیوں کے اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے مکان کی مرمت اور تعمیر کروائی تھی، جس سے خوشگوار ماحوال قائم ہوا تھا۔ جمعیۃ علماء ہند کایہ کام خاص طور پر اس دور میں بہت اہمیت حاصل کرجاتا ہے جب ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگائے جارہے ہیں،عام مسلمانوں کو کاٹنے کی بات کہی جا رہی ہے۔مٹھی بھر فرقہ پرست لوگوں نے پوری ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ان سخت حالات میں بھی جمعیۃ علماء ہند کی یہ مثبت کوششیں لائق تحسین ہیں، اور ہماری گنگا جمنی تہذیب کی نشانی بھی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں