راجستھان کے ماحول میں گھلنے لگی عربی کھجوروں کی مٹھاس

- (اردو دنیا نیوز۷۲)
غوث سیوانی،نئی دہلی
باڑمیر،راجستھان
ان دنوں راجستھان میں بڑے پیمانے پر عربی کھجوروں کی پیداوار ہورہی ہے۔اس طرح عربی کھجوروں کی مٹھاس اب راجستھان کے کسانوں کی زندگی میں بھی شامل ہونے لگی ہے۔ان کی زندگی میں خوشحالی آرہی ہے جس سے دوسرے کسان بھی اس کی کھیتی کی جانب مائل ہورہے ہیں۔ اس کا آغاز چند سال قبل ہواتھامگر اس کے مالی منافع کو دیکھتے ہوئے کسانوں نے بڑے پیمانے پر کھیتی کی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ راجستھان جہاں پانی کی قلت رہتی ہے اور بارش بہت کم ہوتی ہے،وہاں کھجوروں کی پیداوار کے لئے اسرائیلی ٹکنالوجی کا استعمال ہوتاہے۔بہرحال تھر کا علاقہ ، جو کبھی جوار کی سرزمین کہلاتا تھا ، آج کل کھجوروں کا خزانہ اگل رہا ہے۔ یہ پیداوار ، جوعربی کھجوروں کی پیداوار اور اسرائیلی طریقہ باغبانی کو اپنے آپ میں بامعنی بناتی ہے ، نہ صرف یہاں کے کسانوں بلکہ یہاں کے تاجروں کے لیے بھی خاص بن گئی ہے۔
اگر ہم زراعت کی بات کریں تو ہر کوئی اس بات سے اتفاق کرے گا کہ تھر کے ریتلے صحرا میں کھجور کی کاشت کرنا ناممکن ہے لیکن ایسا ناممکن کام اب بڑے پیمانے پر ہورہاہے۔
باڑمیر کے سدولارام چودھری اور ان کے ڈاکٹر بیٹے ڈاکٹر سریندر چودھری ، جو کہ باڑمیر سنٹرل کوآپریٹو بینک میں منتظم کے عہدے پر کام کر رہے ہیں ، نے اپنے کھیتوں کی ریتلی زمین پر ابتدائی مشکلات اور ناکامیوں کو برداشت کرنے کے بعد ، اپنی محنت کے زور پر ، کھجور کے سینکڑوں پودے اگائے ہیں۔
ڈاکٹر سریندر چوہدری بتاتے ہیں کہ صحرا میں اس انقلاب کا سہرا راجستھان کے سیکریٹری زراعت سنجے دکشت، جو ضلع بارمیر کے کلیکٹر بھی رہے تھے، کے سر بندھتا ہے۔ وہ راجستھان کے لوگوں کی معاشی مشکلات کا پائیدار حل نکالنا چاہتے تھے۔
وہ 2009 میں ایک وفد کے ساتھ سعودی عرب گئے جہاں انھوں نے صحرائی علاقوں میں کھجور کے باغات دیکھے۔ کھجور کے معاشی اور غذائی فوائد نے انھیں بہت متاثر کیا اور وہ وہاں کے محکمہ زراعت سے ایک معاہدے کے نتیجے میں اپنے ساتھ کھجور کے پودے لے کر آئے۔
آٹھ مختلف اقسام کے ان پودوں میں عجوہ نسل کے پودے بھی شامل تھے۔(عجوہ کھجورعرب کی بہترین کھجوروں میں شامل ہے۔مدینہ منورہ میں اس کی پیداوار قدیم زمانے سے ہوتی آئی ہے۔حدیث کے مطابق پیغمبراسلام صلی للہ علیہ وسلم کوعجوہ کھجورپسند تھی۔) انھوں نے راجستھان کے کچھ کسانوں کو یہ پودے مفت دینے کا فیصلہ کیا لیکن مشکل یہ تھی کہ کسان یہ درخت لگانے پر رضامند نہیں تھے۔
راجستھان میں اس سے پہلے کبھی کھجور کے پودے نہیں لگائے گئے تھے۔ کسان سوچتے تھے کہ اپنی زمین پر نئے درخت لگائیں جو چار سال کے بعد پھل دیں گے یا نہیں، ’یہ رسک کون لے؟‘
باڑمیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں المسر کے کسان سدولارام چوہدری نے یہ مشکل فیصلہ لیا۔ انھوں نے اپنی زمین پر کئی سو پودے لگا لیے اور ڈریپ ایری گیشن کی مدد سے انھیں پانی دیتے رہے۔ یہ انقلابی کسان ڈاکٹر سریندر چوہدری کے والد تھے۔
ڈاکٹر سریندر کا کہنا ہے کہ ’جو کسان میرے والد کا مذاق اڑاتے تھے، وہ آج انھیں اپنا گرو مانتے ہیں۔ ہماری زمین پر 600 سے زیادہ کھجور کے درخت ہیں جن میں سعودی عرب اور عراق کی اقسام کے درخت شامل ہیں۔
ان میں سب سے قیمتی عجوہ ہے جو ہم ڈھائی سے تین ہزار روپے (انڈین) فی کلو فروخت کرتے ہیں۔‘ ’اب میرے والد سدولا رام ایک برانڈ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ ضلع بارمیر میں اب تک 300 کسان کھجور کے باغات لگا چکے ہیں جبکہ مزید 1000 کسان اس حوالے سے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔‘
محکمہ زراعت کی ہارٹیکلچر مشن اسکیم کے تحت اس سے قبل دو ہیکٹیر میں پانچ سو پچاس کھجور کے پودے لگائے گئے تھے۔ یہاں عراق سے آنے والی باراہی اقسام اور مراکش کی میڈجول قسمیں لگائی گئیں۔ ان پودوں کو لگانے کے بعد ان پودوں نے فصل دینا شروع کر دی ہے۔ جبکہ پیداوار عام طور پر کھجور کے پودوں سے چار سال بعد شروع ہوتی ہے۔
ترقی پسند کسان سدولارام کے مطابق انہوں نے یہ کھیت ڈرپ اریگیشن طریقہ سے تیار کیا ہے۔ تمام پودوں کو روزانہ کل ملاکرصرف 20 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
زرعی فارم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سریندر چودھری کے مطابق وہ اس بمپر فصل کے بعد اپنے فیصلے سے خوش ہیں۔ اس طرح عرب صحرا کی مٹھاس اب راجستھان میں بھی گھلنے لگی ہے۔ عرب ممالک اورراجستھان کے ریگستان کی یکساں آب و ہوا کی وجہ سے یہ ممکن ہوپایاہے۔کھجوروں کی مٹھاس راجستھان کے دیگر اضلاع کے ساتھ ساتھ باڑمیر ، جودھپور ، گنگا نگر ، ناگور میں پھیلنا شروع ہو گئی ہے۔
یوں تو پورے سال کھجوروں کی مانگ رہتی ہے مگررمضان کے مہینے میں بازار میں کھجوروں کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔سینچائی کے اسرائیلی طریقہ کار کے ذریعے تھار کے صحرا میں عرب کھجوریں آسانی سے دستیاب ہیں۔
مغربی راجستھان کی آب و ہوا کھجور کی کاشت کے لیے موزوں ہونے کی وجہ سے ، کھجور کی کاشت مقامی آب و ہوا میں ٹشو بڑھانے والی ٹیکنالوجی کی مدد سے پھل پھول رہی ہے۔
راجستھان کی آب و ہوا کھجوروں کے لیے موزوں ہونے کے باعث اب کسانوں کو کھجور کے باغات لگانے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ کئی کاشتکاروں نے باڑمیر کے کھجوروں کے باغوں کو دیکھنے کے بعد کھجور کی کاشت شروع کی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں