
مگر جب انہوں نے لوکیشن کی جانچ پڑتال کی تو انہٰں احساس ہوا کہ وہ اووڈک سے شمال مغرب میں 780 میٹر دور ایک دوسرے جزیرے پر موجود ہیں۔ماہرین نے بتایا کہ ہر ایک پہلے اس بات پر خوش تھا کہ ہم نے اووڈک جزیرے کو ڈھونڈ لیا ہے، یہ ماضی کی مہمات کی طرح تھا جب لوگ سوچتے تھے کہ وہ کسی مخصوص مقام پر ہیں مگر درحقیقت انہیں نے ایک نیا مقام دریافت کرلیا ہوتا ہے۔یہ چھوٹا سا جزیرہ 30 میٹر تک پھیلا ہوا ہے جس کا ابھی کوئی نام نہیں مگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ اس کے لیے ناردرن موسٹ آئی لینڈ کا نام تجویز کریں گے۔
امریکا کی جانب سے حالیہ دہائیوں میں متعدد مہمات کے دوران دنیا کے انتہائی شمالی جزیرے کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ نیا جزیرہ برف پگھلنے سے سامنے آیا ہے اور یہ براہ راست گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے جس کے باعث گرین لینڈ کی برفانی پٹی سکڑ گئی ہے۔مگر ان کا کہنا تھا کہ یہ جزیرہ بہت جلد سمندر میں گم ہوجائے گا، مگر فی الحال یہ دنیا کے شمال کا آخری زمینی حصہ ہے جو بار بار ابھرتا ڈوبتا رہے گا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں