کیوں ہوتی ہیں؟ کیوں نہیں ہونی چاہیے ہندو مسلم شادیاں
کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں

فرزانہ کی عمر (24) سال سے تجاوز کرچکی تھی۔ #آندھرا پردیش کے جس گاوں میں اس لڑکی کا خاندان رہتا ہے وہاں پر عام طور پر #لڑکیوں کی اس عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی شادیاں ہوجایا کرتی تھیں۔ فرزانہ کے والد نے بھی اپنی لڑکی کی #شادی کے لیے تیاریاں کر رکھی تھیں کہ جب بھی بچی کی شادی ہوگی تو وہ دھوم سے اس کی شادی کریں گے۔ انہوں نے بچی کی شادی کے لیے 10 تولہ سونے کے #زیورات خرید رکھے تھے اور ساتھ ہی کچھ پیسے بھی جمع کر رکھے تھے لیکن ان سب کے باوجود فرزانہ کی شادی نہیں ہوسکی۔
فرزانہ کی شادی کے لیے اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس کے لیے مناسب رشتہ نہیں مل رہا تھا۔ لوگ اگرچہ لڑکی کو دیکھنے کے لیے آتے لیکن اس کے بعد پھر جواب دیتے بول کر ایسے چلے جاتے کہ فون بھی نہیں کرتے۔فرزانہ کے والد صاحب ایسا نہیں تھا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنی لڑکی کے رشتے کے لیے اخبار میں ضرورت رشتے کا اشتہار بھی دیا تھا اور رشتہ طئے کروانے والے مشاطہ حضرات کی خدمات بھی حاصل کی تھیں۔
کوئی کہتے تھے کہ فرزانہ پر اثرات ہے۔ کسی کے نزدیک فرزانہ کا رنگ کم ہونا، اس کے رشتے کی رکاوٹ بن رہا ہے، کسی کے لیے فرزانہ کا قد کا کم ہونا اور اس کے وزن کا زیادہ ہونا مسئلہ تھا۔ #فرزانہ کی والدہ نے ہائی اسکول کے بعد اپنی بچی کو اسکول جانے نہیں دیا اور اس کو ایک دینی #مدرسہ میں داخل کروادیا جہاں سے اس نے کئی برس تعلیم بھی حاصل کی۔
فرزانہ کے والد کی اپنی علاقے میں جتنے لوگوں سے بھی جان پہچان تھی اُن سب کو وہ اپنی #لڑکی کی شادی کے لیے ذکر کرتے تھے۔ مقامی مسجد اور مدرسہ کے ایک مولانا نے انہیں ایک #وظیفہ بھی لکھ کر دیا تھا کہ روزانہ پڑھنے کا معمول رکھیں ان شاء اللہ جلد ہی شادی کے لیے اللہ رب العزت آسانیاں پیدا کرے گا۔
دوسری طرف فرزانہ کی والدہ کو یقین ہوتا جارہا تھا کہ ان کی لڑکی پر اثرات ہیں جس کی وجہ سے اس کی شادی میں رکاوٹ ہو رہی ہے ۔ کسی نے ان کو مشورہ دیا کہ اگر وہ اچھے عامل سے رجوع ہوکر اپنی لڑکی کا #علاج کرواتے ہیں تو فائدہ ہوسکتا ہے۔ بس اسی خیال کے ساتھ انہوں نے ایک #عامل بابا سے رجوع ہونے کا فیصلہ کیا۔ تلگو زبان کے ایک اخبار میں ایک بابا کا اشتہار آیا تھا جس میں شادی اور روزگار کے لیے شرطیہ علاج کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
بابا شہر #حیدرآباد آئے ہوئے تھے۔ ان سے علاج کروانے کے لیے فرزنہ کے والدہ اس کو لے کر حیدرآباد پہنچتی ہیں۔ جہاں پر #اترپردیش کے بابا ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ بابا کی بھاری فیس دینے کے بعد فرزانہ کی والدہ اپنی بیٹی کو لے کر بابا سے ملی۔ انہوں نے تعویذ بھی دی اور پڑھ کر پھونک بھی ماری اور یقین دلایا کہ اب فرزانہ کی شادی جلد ہوجائے گی کیونکہ انہوں نے علاج شروع کردیا ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ فرزانہ کو ان کے پاس آتے رہنا ہوگا تاکہ وہ علاج پورا کرسکیں۔
فرزانہ کی والدہ نے صاف کہہ دیا کہ وہ آندھرا پردیش سے سفر کر کے حیدرآباد آئے ہیں اس لیے زیادہ حیدرآباد میں زیادہ دن نہیں ٹھہر سکتے۔ تب بابا نے کہا کہ فرزانہ کا باقی کا علاج وہ فون پر کریں گے۔ فرزانہ اپنی ماں کے ساتھ واپس گائوں چلی جاتی ہے۔ اب بابا روزانہ فون پر فرزانہ کا علاج کرنے لگے۔ بابا کا فون آتا تو خود فرزانہ کی ماں اس کو بات کرنے کو کہتی۔ یوں یہ علاج کا سلسلہ چل پڑا۔
پھر ایک دن فرزانہ جو اپنے بھائی اور باپ کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلتی تھی اچانک اپنے گھر میں سے کسی کو کچھ بتائے بغیر غائب ہوجاتی ہے۔ ماں باپ اور رشتہ دار پریشان ہوکر ہر جگہ تلاش کرتے ہیں جب فرزانہ کا کہیں پتہ نہیں چلتا تو مجبور ہوکر اس کے گھر والے پولیس میں شکایت درج کرواتے ہیں۔
قارئین یہاں تک تو قصے میں وہ باتیں تھیں جو لوگوں نے بتائی۔ ہم نے صرف لڑکی کا نام تبدیل کردیا لیکن اب آگے کی تفصیلات کے لیے ہم باضابطہ طور پر ممبئی سے شائع ہونے والے اردو اخبار ممبئی اردو نیوز کا حوالہ دے رہے ہیں۔
4؍ اگست 2021 کی اشاعت میں اردو کے اس اخبار نے اپنے رپورٹر شبیر شاد کی ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی، جس کے مطابق سہارنپور کا ایک نوجوان آصف جھاڑ پھونک کا کام کرتا ہے۔
وہ اسی دھندے کے لیے وجئے واڑہ گیا تھا جہاں پر اس کی ملاقات 24 سالہ لڑکی سے ہوئی۔ اس نے لڑکی کو اپنی محبت میں گرفتار کرلیا اور شادی کا وعدہ اور اقرار کر کے سہارنپور لے آیا۔ لڑکی اپنے گھر سے 10 تولہ سونا بھی ساتھ لائی تھی۔ آصف لڑکی کو ضلع کے کئی مقامات پر کرایہ کے گھروں میں رکھتا رہا اور جب لڑکی نے شادی کے لیے اصرار کیا تو اس کو گھمانے کے بہانے لے کر گیا اور جمنا ندی میں دھکا دے دیا۔
آصف لڑکی سے شادی کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس لیے اس نے لڑکی کو جمنا ندی میں دھکا دے ڈالا۔ ملزم کی نشاندہی کے بعد پولیس نے غوطہ خوروں کی مدد سے لڑکی کی نعش کو جمنا ندی سے نکال لیا اور ملزمان کے قبضے سے 10 تولہ سونا بھی برآمد کرلیا۔
قارئین ذرا غور کریں جب ہم مسلمانوں نے خود اپنے ہی معاشرے میں لڑکیوں کی شادی کو رنگ روپ، قد اور خوبصورتی سے جوڑ دیا تو اس کے کتنے سنگین نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ یہاں تک لڑکیوں کی شرطیہ شادی کروانے والے ڈھونگی بابائوں کا کاروبار اور اس کاروبار کے بہانے لڑکیوں کا استحصال کا سلسلہ چل پڑا ہے۔
دیر سے سہی اب مسلمانوں میں مسلم لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکیوں کے ساتھ شادی کے مسئلے پر احباب لب کشائی کر رہے ہیں لیکن اصل مسئلہ مرض کی صحیح تشخیص اور اس کے صحیح علاج کا ہے۔
یقینا دین اسلام سے دوری اس مسئلہ کا ایک اہم سبب ہے۔ لیکن دین اسلام کی تعلیمات کے باوجود مسلم معاشرے میں لڑکیوں کی شادی کو جس قدر پیچیدہ بنادیا گیا۔ اس کا سدباب کیے بغیر مسئلے کو حل کرنا ممکن نہیں ہے۔
انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے 25؍ جون 2021ء کو بنگلور سے ایک خبر شائع کی تھی۔ Karnataka "Honor Killing”: Dalit Youth Muslim girls stabbed” اس سرخی کے تحت خبر میں بتلایا گیا کہ شمالی کرناٹک کے علاقے وجئے پورہ ضلع میں ایک 18 سالہ مسلم لڑکی 19 سال کے ایک دلت آٹو ڈرائیور کے ساتھ عشق میں گرفتار ہوگئی تھی۔
لڑکی کے مسلمان گھر والوں نے ہندو لڑکے اور اس کے گھر والوں کو وارننگ بھی دی لیکن ایک دن جب مسلم لڑکی ہندو لڑکے کے ساتھ ایک کھیت میں بیٹھی ہوئی تھی تو پتہ چلنے پر لڑکی کے گھر والوں نے غیرت کے مارے اپنی بچی اور اس کے ساتھ لڑکے کو بھی سب کے سامنے #قتل کرڈالا۔ پولیس نے لڑکی کے والد، بھائی اور اس کے دو بہنوئیوں کو قتل کے الزام میں گرفتار کر کے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔
قارئین صرف مسلم لڑکیوں کی ہندو لڑکوں کے ساتھ شادی مسئلہ نہیں، بلکہ مسلم لڑکوں کا ہندو لڑکیوں کے ساتھ شادی کرنا بھی ایک خطرناک اور سنگین مسئلہ ہے جس کا مسلم کمیونٹی کو تدارک کرنا ضروری ہے۔ ایک ایسے پس منظر میں جب فرقہ وارانہ ماحول گرم ہے، ایسے واقعات ہندو مسلم منافرت کو بڑھاتے ہیں۔ دوفرقوں اور مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان خلیج کو مزید بڑھاتے ہیں۔
دو ایک واقعات کہہ کر ہم کب تک مسلم سماج میں شادیوں کے مسئلے کو نظر انداز کریں گے۔ خدارا سونچئے۔ آنکھیں کھولیے گا اور ہر فرد اپنے طور پر اس حوالے سے کام کرے۔ کیونکہ شادی مسئلہ بن گئی ہے تو ہماری شادیاں صرف دولہا، دلہن اور قاضی تین ہی فریق نہیں ہوتے بلکہ ایک اہم فریق تو دعوتیوں کا ہوتا ہے اور ان کو بھی اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔
29؍ جولائی 2021ء کو اخبار ٹائمز آف انڈیا ، بجنور، اتر پردیش سے ایک خبر شائع کی تھی جس کی سرخی Woman crashes Muslim Partner’s Nikah, Walks away with him in Bijnor” تھی۔
خبر کی تفصیلات کے مطابق 26؍ جولائی کو بجنور کے مندوار علاقے میں اجمل احمد نام کے 25 سالہ نوجوان کی نکاح کی تقریب جاری تھی۔ عین نکاح سے پہلے ایک ہندو لڑکی پولیس کے اہلکاروں کے ساتھ نکاح کی محفل میں پہنچ جاتی ہے اور پھر پولیس اہلکار اجمل احمد کو اپنے ساتھ لے کر چلے جاتے ہیں۔ پولیس کے حوالے سے اخبار نے لکھا ہے کہ بجنور کے رہنے والا اجمل دراصل دہلی میں لوگوں کی حجامت بنانے کا کام کرتا ہے اور دہلی میں قیام کے دوران اس کی پہچان اپنے ہی سیلون کی 22 سالہ لڑکی سنتوش کماری کے ساتھ ہوگئی۔ اس کے بعد دونوں ایک ساتھ ایک ہی گھر میں رہنے لگے تھے۔
پھر ایک دن اجمل لڑکی کو کچھ بتائے بغیر اپنے گائوں بجنور آگیا تھا۔ جہاں پر اس کے گھر والوں نے اس کی شادی ایک مسلم لڑکی سے طئے کردی تھی۔ لیکن سنتوش کماری کو جیسے ہی اجمل کی شادی کے بارے معلوم ہوا وہ پولیس کے پاس رجوع ہوکر ثبوت پیش کردی کہ وہ اور اجمل ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور اجمل نے اس سے شادی کا وعدہ بھی کیا تھا اور وہ دہلی میں ایک ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ اب وہ اجمل کو پولیس کی موجودگی میں اس کی نکاح کی محفل سے اپنے ساتھ لے کر دہلی چلی گئی اور پولیس کے مطابق وہ لوگ دہلی میں شادی کرنے والے ہیں۔
اس واقعہ کا بھی نوٹ لیں کہ کس طرح مسلم لڑکے شادی کی عمر کو پہنچ گئے ہیں لیکن گھر والے مختلف بہانوں اور وجوہات کے سبب ان کی شادیوں میں تاخیر کر رہے ہیں۔ پہلے بہن کی شادی، پھر بھائی کا نمبر آئے گا۔ پہلے گھر خریدنا ہے پھر شادی کرنا ہے۔ ایسے ہی ہزار بہانوں سے جب لڑکوں کی شادی میں تاخیر کی جارہی ہے تو لڑکے بھی اپنی حاجات کی تکمیل کے لیے شریعت کے دائرے سے باہر راستے تلاش کر رہے ہیں۔
ایسے میں ماں باپ، لڑکا لڑکی، ان کے رشتہ دار اور شادیوں کی دعوتوں میں بڑے اہتمام سے شرکت کرنے والے تمام افراد کی ذمہ داری ہے وہ مسلم معاشرے میں نکاح کو آسان بنانے کے لیے کام کریں۔ نکاح کو آسان بنانے سے مراد صرف کسی تقریب کو آسان بنانا نہیں ہے۔ اول تو بچوں کی صحیح تربیت کرنا، دوم ان کے بالغ ہونے کے بعد اسلامی شعائر کے مطابق نکاح کا انتظام کرنا اور سب سے اہم بات نکاح کے لیے مال و دولت، حسب و نسب ، رنگ روپ کے بجائے دینداری کی بنیادوں پر رشتے کو ترجیح دینا شامل ہے۔
سمینارس، مباحثوں اور تقاریر سے نہ تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور نہ ہی صرف علمائے کرام اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔ جب تک مسلم سماج کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرے گا تب تک اس مسئلہ کا سدباب ممکن نہیں۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو ایسی فہم و فراست عطا فرمائے کہ ہم اپنی غلطیوں کا خود احتساب کرسکیں اور دوسروں سے شکوے و شکایات کے بجائے اپنے دامن میں خود جھانک سکیں۔ آمین یا رب العالمین ۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں