اتواریہ؍شکیل رشید
اتر پردیش کا اسمبلی الیکشن جیسے جیسے قریب آ رہا ہے ویسے ویسے ’’ عظیم ترین مسلمان قائدین ‘‘ سرگرم ہوتے نظر آ رہے ہیں ۔ مجلس اتحاد المسلمین ( ایم آئی ایم)کے قائد اسد الدین اویسی کی مثال لے لیں ،وہ سو سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں ،اور انہیں اپنی پارٹی کی جیت کا پختہ یقین بھی ہے ،اللہ انہیں کامیاب کرے ۔لیکن ایک بات یہ سمجھ میں نہیں آ رہی ہے کہ پیس پارٹی اور راشٹریہ علماء کونسل بھی انتخابی میدان میں کودنے کی تیاری میں ہیں ،یہ دونوں پارٹیاں بھی انہیں ہی اپنا ووٹ بینک سمجھتی ہیں جنہیں ایم آئی ایم اپنا ووٹ بینک مانتی ہے ،یعنی مسلمان ،دلت اور پچھڑے ،اور انہیں بھی ان کے ووٹ ملنے کی پوری امید بلکہ یقین ہے ،اب بھلا بیچارے مسلمان کس کس کے امید اور بھروسے پر پورا اتریں گے !یہ مسلمانوں ،دلتوں اور پچھڑوں کا وہ ووٹ بینک ہے جس پر کئی اورسیاسی پارٹیوں کی دعویداری ہے ، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ ان ووٹوں کو اپنی جیب میں ہی سمجھتے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔سماج وادی پارٹی کا ماننا ہے کہ یہ سارا ووٹ بینک اسی کا ہے، اس کے قائد ملائم سنگھ یادو نے بابری مسجد جو بچائی تھی ! اس کا انعام حالانکہ یہ مسلمانوں سے بار بار لے چکے ہیں مگر ابھی بھی انہیں یہی لگتا ہے کہ مسلمانوں نے انہیں ان کا حق، جیسا دیا جانا تھا ،ویسا نہیں دیا ہے ،لہٰذا وہ ہمیشہ مسلمانوں سے یہی امید ، نہیں لفظ امید درست نہیں ہے ،مسلمانوں سے یہی چاہتے ہیں کہ وہ غلاموں کی طرح آنکھیں بند کیے بس اسی کو ووٹ دیں۔ بہن مایاوتی بھی ایک دعویدار ہیں ۔سب ہی جانتے ہیں کہ وہ بی جے پی کا دامن بھی تھام چکی ہیں اور آئندہ بھی اس کا دامن تھام سکتی ہیں ،مگر خود کو سیکولر کہلانے کا ان کا شوق مرا نہیں ہے ،اور وہ خود کو سارے سیکولر ووٹوں کا حقیقی وارث سمجھتی ہیں ،دلت ان کے ہیں ،پچھڑے بھی تو مسلمان کیوں ان کے نہیں ہو سکتے؟ اس قطار میں کانگریس بھی ہے ،حالانکہ اس نے اس قطار میں رہنے کا اپنا حق تو اسی روز کھو دیا تھا جس روز ایودھیا میں بابری مسجد شہید کی گئی تھی اور اس وقت کے کانگریسی وزیر اعظم نرسمہا راؤ باربری مسجد کی شہادت روکنے کی بجائے اپنی کوٹھی میں خود کو کمرے میں بند کیے پوجا پاٹ کر رہے تھے ۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ،یو پی کے مسلمان کانگریس کو سبق سبق پر سبق سکھا تے چلے آرہے ہیں ،مگر بہر حال وہ خود کو سیکولر پارٹی ہی کہتی ہے اس لیے اگر مسلمانوں کے ووٹوں پر اپنا حق سمجھتی ہے تو اسے اس سے روکا تو جا نہیں سکتا۔ خیر سمجھتی رہے۔ اب ایک تازہ معاملہ سامنے آیا ہے ،مرکزی وزیر ،مہاراشٹر کی ریپبلیکن پارٹی کے سربراہ رام داس اٹھاولے نے لکھنٔو جا کر شیعہ عالم دین مولانا کلب جوادنقوی سے ملاقات کی ہے اور ان سے یہ درخواست کی کہ وہ الیکشن میں بی جے پی کا ساتھ دیں کہ یہ وزیراعظم نریندر مودی کی خواہش ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ان کی پارٹی آر پی آئی کو یو پی الیکشن کے لیے مودی جی ٹکٹ دیتے ہیں تو وہ مسلمان امیدوار کھڑے کریں گے ۔ مطلب بہت واضح ہے ،بی جے پی اٹھاولے کا استعمال مسلمانوں کے ووٹوں کو منتشر کرنے کے لیے کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے مسلمان قائدین پر ڈورے ڈالنے کی شروعات کر دی گئی ہے ۔ کچھ ووٹ وہ ضرور مسلمانوں کے ضائع کرا سکتے ہیں۔ اس منظر نامے میں ابھی آزاد اور باغی مسلم امیدواروں کا بھی شامل ہونا ہے ،اب بھلا مسلمان کسے کسے ووٹ دیں گے؟ ایک خبر اور ہے ،ہم سب کے مولانا سید سلمان حسینی ندوی بھی اس گندگی میں کود پڑے ہیں ،۴۲سیکولر کہلانے والی پارٹیوں کا گٹھ جوڑ ہوا ہے وہ اس کے سرپرست ہیں ،دلچپ امریہ ہے کہ اس گٹھ جوڑکی میٹنگ سے ایم آئی ایم ، راشٹریہ علماء کونسل اور پیس پارٹی کے ذمےداران غیر حاضر تھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں