رسول اللہ ﷺ کے جانشینوں نے پھر اسی کردار کا مظاہرہ کیا ہےـ طالبان نے کابل میں فاتحانہ داخلہ سے پہلے عام معافی کا اعلان کیا ہےـ ان کے ترجمان نے کہا ہے کہ عوام ، افغان حکومت کے عملہ اور کارندوں ، اتحادی افواج کے لیے کام کرنے والوں، سب کے لیے معافی ہےـ عوام کے مال و جان کی حفاظت ہماری بنیادی ذمے داری ہےـ ان کا یہ پیغام سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر نشر کیا گیاـ انھوں نے کہا کہ مجاہدین خزانہ ، عوامی سہولیات ، سرکاری دفاتر اور آلات ، پارکس ، سڑکوں اور پل وغیرہ پر خاص توجہ دیں گے ۔ یہ عوامی املاک ہیں ، ان کا تحفظ کیا جائے گا اور انہیں برباد کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ آف افغانستان ان تمام افراد کے لیے اپنے دروازے کھولتی ہے جنہوں نے ماضی میں حملہ آوروں کے لیے کام کیا اور ان کی مدد کی ، یا جو اب بھی کرپٹ افغان حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں ـ ہم ان کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہیں اور انہیں دعوت دیتے ہیں کہ وہ قوم اور ملک کی خدمت کے لیے آگے آئیں ۔
طالبان کے زوال اور عروج میں ہمارے لیے متعدد اسباق موجود ہیں :
(1) ایمان و یقین کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہےـ اس کے سامنے تمام طاقتیں ہیچ ہیں ـ امریکہ نے طالبان کی حکومت اکھاڑ پھینکی ، اس کے بعد 20 برس تک ان پر آگ اور بارود کی بارش کی ، زبردست بم باری کی ، طرح طرح کے بھیانک اسلحہ ان پر آزمائے ، لیکن وہ افغانوں کا بال بیکا نہ کرسکا ، اس لیے کہ وہ اللہ کا سہارا تھامے ہوئے تھے اور اس سے بڑا اور کسی کا سہارا نہیں ـ
(2) کام یابی قربانیوں کے بعد حاصل ہوتی ہےـ طالبان نے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں ـ وہ حکومت سے محروم کیے گئےـ ان کا بڑے پیمانے پر قتلِ عام کیا گیاـ انہیں قید کرکے دردناک سزائیں دی گئیں ـ وہ گھر سے بے گھر اور اپنی املاک سے محروم کیے گئےـ لیکن انھوں نے صبر کیا ، ڈٹے رہے اور قربانیاں پیش کرتے رہے ، بالآخر منزل نے ان کے قدم چومے اور کام یابی کا سہرا انہیں پہنایا گیاـ
(3) اپنا نصب العین درست رکھنا چاہیے اور منزل پر نگاہیں جمانی چاہییں ـ راستے جتنے بھی پُر خطر ہوں ، منزل جتنی بھی دور ہو ، کوئی حرج نہیں ـ طالبان کو دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں 20 برس لگ گئے ، لیکن نہ وہ تھکے ، نہ گھبرائے ، نہ انھوں نے سستی اور تن آسانی کا مظاہرہ کیا ، بلکہ دھیرے دھیرے وہ منزل کی طرف بڑھتے رہے، یہاں تک کہ اسے پالیاـ
(4) مشن کی تکمیل کے لیے طاقت کا حصول ضروری ہےـ جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہےـ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَاَعِدُّوۡا لَهُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّةٍ وَّمِنۡ رِّبَاطِ الۡخَـيۡلِ تُرۡهِبُوۡنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَاٰخَرِيۡنَ مِنۡ دُوۡنِهِمۡ ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَهُمُ ۚ اَللّٰهُ يَعۡلَمُهُمۡؕ (الانفال :60) " اور تم لوگ ، جہاں تک تمہارا بس چلے ، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیّا رکھو ، تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے ، مگر اللہ جانتا ہے ۔" طالبان نے اس اصول کو اپنایاـ انھوں نے ایمانی طاقت کے ساتھ مادّی طاقت بھی حاصل کرنے کی کوشش کی ـ اس طرح انھوں نے اپنے دشمنوں پر اپنی دھاک اور ہیبت طاری کردی ـ
(5) طالبان نے ثابت کردیا کہ امّتِ مسلمہ کو عروج اور غلبہ اسی طریقے سے اور اسی راہ پر چل کر حاصل سکتا ہے جس پر چل کر ابتدائی صدیوں میں حاصل ہوا تھاـ امت کی بھلائی نہ دیگر تہذیبوں کو اختیار کرنے میں ہے نہ دیگر مذہبی گروہوں کے نقشِ قدم کی پیروی میں ـ کام یابی، غلبہ اور عروج آج بھی اللہ کی اطاعت اور خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے نقشِ قدم کی پیروی کرنے میں ہےـ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں