
کشمیر سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق حکام کی جانب سے علی گیلانی کے اہلخانہ پر ان کی تدفین جلد از جلد کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔سید علی گیلانی طویل عرصے تک کشمیر میں دو درجن سے زیادہ ہند مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد آل پارٹیز حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے سربراہ رہے۔ تاہم گذشتہ برس انھوں نے حریت کانفرنس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔انھیں کشمیر کی سیاست میں ایک سخت گیر موقف کا حامی سیاستدان سمجھا جاتا تھا اور وہ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دیے جانے کے بہت بڑے حامی تھے۔
علی گیلانی اپنے سیاسی سفر میں اکثر جیل جاتے رہے اور عمر کی تقریباً ایک دہائی انھوں نے قیدخانوں میں گزاری۔ اُن کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔چند سال قبل اُن کی جانشنی کا سوال اُن کے اہل خانہ کے درمیان نزاع کا باعث بھی بنا تاہم انہوں نے اپنی جماعت ’تحریک حریت کشمیر‘ کے چیئرمین کے عہدے کے لیے اپنے دیرینہ ساتھی محمد اشرف خان صحرائی کی حمایت کی تھی۔سید علی گیلانی کی وفات پر مختلف حلقوں کی جانب سے گہرے غم کا اظہار کیا جا رہا ہے اور سیاستدانوں اور عوام کی جانب سے انھیں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنی ٹویٹ میں سید علی گیلانی کی مستقل مزاجی کی تعریف کی اور کہا کہ وہ ہمیشہ اپنے اصولوں پر قائم رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی اگرچہ زیادہ تر چیزوں پر علی گیلانی سے اتفاق نہیں کرتے تھے لیکن ’میں ان کی مستقل مزاجی اور اصول پسندی کے لیے ان کا احترام کرتی ہوں۔‘پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی علی گیلانی کی وفات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’انھوں نے ساری زندگی کشمیری عوام اور ان کے حقِ خود ارادیت کے لیے جدوجہد میں گزاری اور قابض انڈین ریاست کی جانب سے قید اور تشدد سہنے کے باوجود ڈٹے رہے۔‘عمران خان نے اعلان کیا کہ پاکستان میں علی گیلانی کی وفات پر سرکاری سطح پر یومِ سوگ منایا جائے گا اور پاکستانی پرچم سرنگوں رہے گا۔پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے بھی علی گیلانی کی وفات پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
سید علی گیلانی کون تھے:سید علی گیلانی کے اجداد مشرق وسطی سے ہجرت کر کے کشمیر میں آباد ہوئے تھے۔ وہ شمالی کشمیر کے سوپور قصبے میں ڈُورو گاوں کے ایک آسودہ حال گھرانے میں 29 ستمبر 1929 کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سوپور میں حاصل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے اورینٹل کالج لاہور چلے گئے، جہاں وہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے خیالات اور علامہ اقبال کی شاعری سے بے حد متاثر ہوکر لوٹے۔واپسی پر انھوں نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کرلی۔ شعر و سخن سے شغف اور حُسنِ خطابت کی وجہ سے بہت جلد جماعت کے اہم رہنما کے طور مشہور ہوگئے۔ انھوں نے 1977،1972اور1987میں جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا۔ مقامی اسمبلی میں وہ مسئلہ کشمیر کے حل کی وکالت کرتے رہے، تاہم 87 رُکنی ایوان میں جماعت کو چند سیٹیں ہی ملتی تھیں لہذا اُن کی سیاست اسمبلی کے اندر حاشیے پر ہی رہی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں