
دادا بھائی نوروجی ممبئی کے ایک نسبتًا غریب پارسی گجراتی خاندان میں 4 ستمبر 1825 میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے تعلیم ایلفنسٹن انسٹی ٹیوٹ سکول میں حاصل کی۔ وہ 28 برس کی عمر میں برطانیہ کے زیر انتظام چلنے والے ممبئی کے ایلفنسٹن کالج کے پہلے انڈین پروفیسر مقرر ہوئے جہاں وہ ریاضی اور فزکس پڑھاتے تھے۔انھوں نے بڑودہ کے مہاراجہ کے دیوان کے طور پر بھی کچھ عرصے تک کام کیا تھا۔ وہ ایک ترقی پسند قوم پرست تھے ۔وہ انڈیا کی سب سے پرانی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے بانیوں میں تھے ۔انھیں انڈیا کی آزادی کی جد وجہد کے ابتدائی اہم ترین رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔
1855 میں پہلی بار برطانیہ گئے
مورخ دینیار پٹیل لکھتے ہیں کہ ’برطانیہ میں وہاں کی دولت اور خوشحالی کو دیکھ کر ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس کے بعد وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے رہے کہ آخر ان کا ملک اتنا افلاس زدہ کیوں ہے۔‘
’انھوں نے دوعشرے تک ملک کی معیشت کا گہرا مطالعہ کیا اور سامراجی برطانیہ کے اس نظریے کو مسترد کر دیا کہ نوآبادیاتی نظام عوام کے لیے خوشحالی کا ضامن ہے۔‘دادا بھائی نے ’پاورٹی اینڈ ان برٹش رول ان انڈیا‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ کس طرح انڈیا کی دولت رفتہ رفتہ برطانیہ منتقل ہورہی ہے ۔ اس میں انھوں نے انڈیا میں ہونے والی پیداوار اور منافع کا مفصل حساب پیش کیا تھا۔
انھوں نے تخمینہ لگایا تھا کہ برطانیہ ہر برس تین سے چار کروڑ پاؤنڈ مالیت کی دولت انڈیا سے اپنے یہاں منتقل کر رہا ہے جس سے انڈیا میں بڑے پیمانے پر غربت پھیل رہی ہے۔انسائکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق ’اس وقت انڈیا کی 25 کروڑ کی آبادی برطانوی سامراج کی آبادی کا اسی فیصد تھی لیکن برطانوی پارلیمان میں ان کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔ دادا بھائی دوبارہ برطانیہ آئے۔ انھوں نے برطانوی سامراج کے ایک شہری کے طور پر کئی بار انتخاب لڑا اور شکست ہوئی۔ انہیں ان انتخابات میں شدید نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔‘
1886 میں وہ کنزرویٹیو پارٹی کے مضبوط گڑھ ہوبرن سے لبرل پارٹی کے امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے اور پھر ہار گئے۔ اس وقت وزیر اعظم لارڈ سیلس بیری نے کہا ’انگریزوں کا حلقہ ایک سیاہ فام شخص کو منتخب کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘
دادا بھائی نے ہار نہیں مانی۔ وہ ہاؤس آف کامنز یعنی ایوان نمائندگان کے 1892 کےانتخابات میں دوبارہ کھڑے ہوئے۔ اس بار وہ جیت گئے ۔ ان کی جیت صرف پانچ ووٹوں سے ہوئی تھی۔انجیل پر ہاتھ رکھ کر حلف لینے سے انکار کر دیاcیہ وہ برس تھا جب پاکستان کے مستقبل کے قائد اعظم محمد علی جناح تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ پہنچے تھے۔ ایک نوجوان سٹوڈنٹ کے طور پر انھوں نے انڈین اور انڈیا سے متعلق معاملات میں گہری دلچسپی لینی شروع کی تھی۔
انھوں نے دادا بھائی نوروجی کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ 1892 کے انتخابات میں دادا بھائی جب امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے تو نوجوان طالب علم محمد علی جناح نے اپنے دوسرے طالب علم ساتھیوں کے ساتھ ان کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان کی انتخابی کامیابی کے لیے دن رات کام کیا۔
بالآخر اس بار دادا بھائی کو انتخاب میں کامیابی حاصل ہوئی اور وہ برطانیہ کی تاریخ میں سب سے پہلے منتخب ہونے والے ایشیائی رکن پارلیمان بنے۔
برطانیہ کی پارلیمنٹ میں حلف برداری کی تقریب میں انھوں نے عیسائیوں کی مذہبی کتاب انجیل پر ہاتھ رکھ کر حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد انھیں ان کے پارسی مذہب کی کتاب خوردہ اویستا پر حلف لینے کی اجازت دی گئی تھی۔
فنس بری کے ٹاؤن ہال میں ایک تختی لگی ہوئی ہے جس میں انھیں ہاؤس آف کامنس میں منتخب ہونے والے پہلے ایشائی کے طور پر یاد کیا گیا ہے۔
ایک نوآبادیاتی شہری کھلے عام برطانوی سامراج پر سنگین الزام لگانے کی جرات کیسے کر سکتا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں