حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں۔آپ کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ تحریر وتقریر کے ذریعہ ہی نہیں بلکہ تحریک کے ذریعہ بھی آپ نےملک وملت کی آبیاری کی ہے۔اور ایک ایسی تحریک کی بنیاد ڈالی دی ہے جو ملک ہند میں تمام تحریکوں کی بڑی ضرورت ہے۔دعوت وتبلیغ کے ذریعہ جہاں آپ نے مسلمانوں کے مابین اصلاح وتربیت کابڑاکام کیا ہے وہیں تحریک پیام انسانیت کے ذریعہ برادران وطن کے دلوں کوبھی رام کیا ہے۔اپنے ملک کی مسموم فضا کو خوشگوار بنانے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔
برادران وطن میں اسلام کا جامع تعارف پیش کردینا یہ آپ کا بڑا کارنامہ ہےاور یہ سب کچھ تحریک پیام انسانیت کےاسٹیج سے ہی ممکن ہوسکا ہے۔درحقیقت یہ آپ کی دعوتی کوشش کی تمہید ہے۔دعوت الی اللہ کے لیے اس دھرتی کوہموار کرنے کے لئے آپ نے اس تحریک سے بڑا کام لیا ہے۔ تحریک پیام انسانیت دراصل اسی کاوش وکوشش کا نام ہے۔
اس تحریک ابتدائی محنت ۱۹۵۰ ء سے ہی شروع ہوئی ہے،ملک کی تقسیم کے بعد ہندو مسلم کے مابین ایک بڑی خلیج پیدا ہونے لگی تھی، اس کو پاٹنا ازحد ضروری تھا،حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کی دور بیں نگاہیں اسے دیکھ رہی تھیں اور اس ضرورت کو شدت کےساتھ آپ محسوس کررہے تھے، تقریر وتحریر کے ذریعہ اس اہم کام کی طرف لوگوں کو متوجہ کررہے تھے، باضابطہ تحریک کی شکل میں اس کا آغاز ۱۹۷۴ ءمیں الہ آباد سے آپ نے کیا اور یہ کہاکہ اب بہت دیر ہوچکی ہے۔میں تحریکی آدمی نہیں ہوں باوجود اس کی شدید ضرورت ہے۔لٹریچر تیار کیا گیا،اور برادران وطن میں اسے پہونچانے کی منظم کوششیں ہوئیں، علاقے میں اس عنوان پر دورے شروع ہوئے، جلسے منعقد کئے گئے، برادران وطن کو اس میں شامل کیا گیا، ان کے سامنے انسانیت کی بات پیش کی گئی، سب سے پہلا پروگرام الہ آباد میں منعقد کیا،یہاں سے پیام انسانیت تحریک کا پورے ملک میں تعارف شروع ہوا،حضرت علی میاں پوری زندگی اس تحریک کی اہمیت ضرورت سے روشناس کراتے رہے،آپ کا انتقال ہوا، تو آپ کے پوتے حضرت مولانا عبداللہ حسنی ندوی رحمہ اللہ علیہ اس تحریک کو ملک بھر میں لیکر گئے، اسفار کئے، اراکین کی ایک بڑی ٹیم کھڑی کردی، ملک کے کونے کونے میں لوگ اس تحریک سے متعارف ہوئے۔
۳۰/جنوری ۲۰۱۳ءمیں حضرت مولاناعبداللہ حسنی صاحب اس دارفانی سے کوچ کرگئے،حضرت مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی مدظلہ العالی اس تحریک کے معتمد عمومی منتخب کئے گئے ہیں۔آپ نے بھی بڑی محنت کی ہے، پورے ملک کو تین زون میں تقسیم کیا ہے،سال بھر میں تینوں زون کی تین مٹنگیں ہوتی ہیں، پھر آخری نششت حضرت علی میاں رحمۃ اللہ کی خانقاہ پر سالانہ کارگزاری کے نام پر منعقد کی جاتی ہے۔کشمیر سے لیکر کنیا کماری تک کے لوگ ایک ساتھ وہاں جمع ہوتے ہیں اور سال بھر کی کارگزاری پیش کی جاتی ہے۔بحمداللہ یہ اس وقت بہت تناور اور مضبوط درخت میں تبدیل ہوگیا ہے، باوجود اس کے جو خواب حضرت علی میاں رحمۃ اللہ نے اس تحریک کے حوالہ سے دیکھا تھا وہ ہنوز شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ہے۔
ایک انٹرویو میں اس تحریک کا تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے:پیام انسانیت کی تحریک ملک کے تمام دینی تعلیمی علمی کوششوں اورتحریکوں کے لیے ایک حصار کی حیثیت رکھتی ہے "(بحوالہ تعمیر حیات ۱۰/جنوری ۱۹۹۱ء )
افسوس کے ساتھ یہ ہمیں کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم نے حضرت علی میاں کے اس پیغام کی لاج نہیں رکھی ہے،اور پیام انسانیت کو اپنی تنظیم اور تحریک کے لئے حصار کی حیثیت نہیں دی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آئے دن یکے بعد دیگرے سبھی تحریکوں اور تنظیموں کی زمین ملک میں تنگ کی جارہی ہے۔اور مختلف قسم کی پابندیوں کا انہیں سامنا ہے۔ہم نے تحریک پیام انسانیت کو فقط حضرت علی میاں کی ایک تحریک سمجھا ہے،جبکہ حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے اسے سب کی ضرورت کہا ہے۔
حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ تحریک پیام انسانیت کوہر تحریک کا خادم اور معاون سمجھتے، اس لیے آپ نے اسے تحریکات کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم کے طور پر پیش کیا اور ہر تحریک کے لیےملک میں اسے ضروری قراردیاہے۔
الہ آباد سے آپ نے اس کا باضابطہ آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر دعوت اورہر تحریک کو ملک میں پیام انسانیت کاخیر مقدم کرنا چاہئے ۔حضرت کہتے ہیں:اس کی حیثیت وہ ہےجو کسی فراش یا سقہ یا زمین برابر کرنے والے یا شامیانہ لگانے والے کی ہوتی ہے جس کے بعد کوئی جلسہ یا اجتماع ہوسکتا ہے خواہ وہ خالص مذہبی نوعیت کا ہویا تعلیمی بحث ومذاکرہ کا(حوالہ سابق )
الہ آباد کو حضرت علی میاں خدا کی نگری کہتے تھے، وہاں سے آپ نے اس تحریک کو شروع کرکے ملک وملت کو بڑا پیغام دیا ہے، اور صاف لفظوں میں بھی کہا ہے کہ اگر ملک میں دعوت کا حق ادا کرنا یے تو اس تپتی زمین کو پیام انسانیت کے چھینٹوں سے نرم کرنے کی شدید ضرورت ہے۔اس کے بغیر دعوت کا کام بھی اس زمین پر مشکل اور ٹیڑھی کھیر ہے۔
موجودہ حالات ہمارے سامنے ہیں۔دعوت کے نام پر علماء کرام کی ایک جماعت اپنے ملک میں سلاخوں کے پیچھے ہے۔بہت دیر ہوچکی ہے۔آج الہ آباد بھی پریاگ راج میں بدل گیا ہے۔حضرت علی میاں کی اس تحریک کو سمجھنے کا اب وقت نہیں رہا ہے بلکہ اسے عملی طور پر حرز جاں بنانے کی ضرورت ہے۔
ناامیدی کے لئے اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔آج کے دن جہاں ہمیں جمعہ کی نماز سے گروگرام میں روکا جارہا ہے وہیں گردوارہ سے نماز کی پیشکش بھی ہورہی ہے۔ حضرت علی میاں رحمۃ نے بھی تحریک کی ابتدائی مرحلے میں ان جیسے واقعات کا مشاہدہ کیا اور آپ ناامید نہیں تھے، اپنی تقریر میں کہتے ہیں؛
انسانی سوسائٹی اس وقت سخت خطرے سے دوچار ہے اور موت وزیست کی کشمکش میں گرفتار ہےیہ حقیقت اپنے اپنےزمانے میں پیغمبروں نے بیاں کی تھیں اور ان کے لیے سخت جد وجہد کی تھی یہ حقیقتیں ابھی زندہ ہیں لیکن سیاسی تحریکوں مادی تنظیموں اور قومی خود غرضیوں نے گرد وغبار کا ایسا طوفان کھڑا کر دیا ہے کہ یہ روشن حقیقتیں ان کے اوٹ میں اوجھل ہوگئی ہیں لیکن انسانی ضمیر ابھی مردہ اور انسانی ذہن ابھی مفلوج ومعطل نہیں ہوا ہے،اور پوری بے غرضی، پورے یقین اور خلوص کے ساتھ ان حقیقتوں کو عام فہم اور دل نشیں انداز میں بیان کیا جائے تو انسانی ضمیر وذہن اپنا کام کرنے لگتا ہے، اور بڑی گرم جوشی سے ان حقیقتوں کا استقبال کرتا ہے اور بعض وقت تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان تقریروں میں اس کے دل کی ترجمانی اور اس کے درد کا مداوا ہے"(بحوالہ تعمیر حیات ۱۰/جنوری ۱۹۹۱ء )
آج ہماری ساری کاوشیں اور کوششیں بیکار ہیں اور بے سود ثابت ہورہی ہیں۔ملک میں ڈھیر ساری تنظیمیں ہیں جو یہ شکایت کررہی ہیں کہ حکومت ہمارے حقوق پر قذغن لگارہی ہے۔آئے دن آئے ہائے ہم کرتے ہی رہتے ہیں۔ایسے میں اگر ہم نے بنیادی محنت نہیں کی تو کوئی بھی ہمارا کچھ سننے والا نہیں ہے ۔آئیے اس بنیادی محنت سے ہم اپنے کام کی ابتدا کرتے ہیں، ان شاء اللہ العزیز پورے ملک کو ہم اس طریقے پر صراط مستقیم تک لاسکتے ہیں ۔
آو ملکر انقلاب تازہ تر پیدا کریں
دہر پر اس طرح چھاجائیں کہ سبھی دیکھا کریں۔
ہمایوں اقبال ندوی،ارریہ
رابطہ، 9973722710
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں