*داخل ہوجاؤاسلام میں پورے*
ارریہ ضلع کی مسلم آبادی میں ایک چیز نئی نظر آرہی ہےجو سراسرجہالت پر مبنی ہے۔ افسوس تو اس بات پربھی ہے کہ یہ جہالت پڑھےلکھےلوگوں سے ہی سرزد ہورہی ہے۔انٹلیکچول فیملی کےکچھ لوگوں نے اپنے بچوں کے لیے سال گرہ کے نام پرایک نئی تقریب کا اضافہ کرلیا ہے،دھوم دھام سےاس پروگرام کومناتے ہیں اور مبارکبادی کا گانا بھی اسمیں گاتے ہیں۔
ایک صاحب نے باضابطہ اپنے فیسبک آئی ڈی پرسالگرہ کے پروگرام کو شیئربھی کیا ہے۔دوستوں سے داد ودہش کے طالب بھی ہوئے ہیں، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ موصوف نے ایک بڑاکارنامہ انجام دیا ہے، اورقوم وملت پر احسان عظیم کیا ہے۔اسی لیےبڑے شوق سے اس بے بنیاد پروگرام کو پیش کررہے ہیں، اپنے لاڈلے کے سر پر ایک ہاتھ اونچی کیپ ڈالے ہوئے ہیں،سامنے ایک لمبی چوڑی کتاب جیسی چیز رکھی ہوئی ہے،ایسالگ رہا کہ ننھےمیاں ختم بخاری کرنے جارہے ہیں ،پھرغور سے ہاتھ کی طرف نظر گئی ہےتو قلم کی جگہ ہاتھ میں ایک چھری ہے ،سامنے کتاب جگہ بخاری شریف نہیں ہے بلکہ کیک رکھا ہوا ہے، میاں بیدردی سےکاٹے جارہے ہیں،"بازو میں موم بتی بھی روشن کی گئی ہے۔ہیپی برتھ ڈے ٹو یو "موجود لوگ یہ ورد زورزورسےکررہے ہیں۔"نعوذ بالله من ذالك "
یہ کونسی تقریب ہے؟کم از کم ہمارے علاقے کی مسلم آبادی اس سے ناواقف رہی ہےاور نہ یہاں اس کا کوئی رواج رہا ہے۔افسوس کی بات ہے کہ خود کو تعلیم یافتہ کہنے والے لوگ اس صریح جہالت وبدعت کا مرتکب ہورہے ہیں۔یہ غیر شرعی عمل جس کی سنت وشریعت میں کوئی سند نہیں ہے اس کی تشہیر کا ذریعہ بھی بن رہے ہیں ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ غیروں کا طریقہ ہے،مغربی ثقافت کی دین ہے،خاص دھرم کی پہچان ہے،اسے اپنارہے ہیں اور اپنے پیاروں کو اس کی تربیت دے رہے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کچھ لوگ یہودیت چھوڑ کر مذہب اسلام میں داخل ہوئے،احکام اسلام کے ساتھ وہ تورات کے چند احکام کی بھی رعایت کرنا چاہتے تھے، بطور مثال سنیچر کے دن کی تعظیم وتکریم، اونٹ کے گوشت ودودھ کو حرام ماننا اور تورات کی تلاوت کرنا وغیرہ چنانچہ اس پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی کہ:اے ایمان والو داخل ہوجاؤ اسلام میں پورے اور مت چلو قدموں پر شیطان کے بیشک وہ تمہارا صریح دشمن ہے،(سورہ بقرہ:208)
یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کے اس حکم کے بعد اس کی اگر کوئی مخالفت کرتا ہے تو وہ عذاب خداوندی کو دعوت دے رہا ہے۔
آج ملک میں جہاں اپنی بچیوں کو ہم مکمل حجاب میں داخل ہونے کی بات کہتے ہیں وہیں ہمیں پہلے پورے کے پورے اسلام میں داخل ہونے کی ضرورت ہے۔آج ہم عدالت کو اور حکومت کو اپنی بات سمجھانے کے بھی قابل نہیں رہے ہیں، وجہ صاف یہی ہے کہ ہم نے غیروں کا طریقہ بھی اپنی زندگی میں اپنا رکھا ہے اور معاملہ گڈ مڈ سا ہوگیا ہے۔
دھیرے دھیرے ہم اپنی شناخت اور پہچان سے بھی ہاتھ دھوتے جارہے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ خدا ہمیں بچائے کہیں اس عذاب کے شکار تو نہیں ہوگئے ہیں کہ ہم پر اب زبردستی کی جارہی ہے اور ہماری شناخت کو ختم کرنے کی منظم کوشش شروع ہوگئی ہے۔ اقبال علیہ الرحمہ نے یہی بات کتنی خوبصورت انداز میں ہم تک پہونچادی ہے:
پانی پانی کرگئی مجھکو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من۔
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
رابطہ، 9973722719
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں