*حافظ قرآن کی حفاظت کیجئے*
مدرسہ شمس العلوم سیسونا گیاری میں دستاربندی حفاظ کرام اجلاس کے صدر جناب حضرت مولانا عبدالمنان صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں حفاظ قرآن کی حفاظت کی اپیل کی ہےاور اسے موجودہ وقت کی سب سے اہم ضرورت قرار دیا ہے۔
موصوف کہتے ہیں کہ آج قرآن کے حافظوں کو اچک لیاجارہا ہے۔ہر مدرسہ میں کچھ خاص قسم کےلوگ پہونچ رہےہیں اور حفاظ کرام کو معاشی ترقی کاسبز باغ دکھا کرمدارس سےدور کررہے ہیں۔جب کہ مدارس اسلامیہ کو ان جیسے ذہین افراد کی آج شدید ضرورت ہے۔ایسا شخص جو قرآن کے تیسوں پاروں کو حفظ کرسکتا ہےوہ بہترین معلم بن سکتا ہے اور نبی آخر الزماں کا سچا اور پکا جانشین بن کر دین کی تبلیغ کا فرض انجام دے سکتا ہے۔مدرسوں میں آج اچھے مدرسین نہیں ہیں۔بخاری شریف کا حق مدرسی ادا کرنے والے خال خال دستیاب ہیں۔اس تعلق سےایک بڑاسا خلاپیدا ہوگیا ہے۔ حافظ قرآن سے بڑی امید کی جاسکتی ہے۔ایک حافظ بہترین معلم ومدرس بن کرقران کریم کی حفاظت کا ذریعہ بنتا ہے،اور تھوڑی سی محنت میں عالم بن کراس خلا کو پر کرسکتا ہے،مزید انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان حفاظ کو ڈاکٹر انجینئر بننے کا سبز باغ دکھا کر مدارس اسلامیہ اورملت اسلامیہ ہندکے حق میں نا انصافی کی جارہی ہے۔یہ ایک یہودی چال ہے۔
میرے مدرسہ میں میرے غائبانہ میں کچھ لوگ پہونچے، میرے پاس فون آیا کہ حفاظ کرام کو لینے آئے ہیں، میں نے منع کردیا اور یہ بھی کہ دیا کہ آپ جیسے لوگوں کے خلاف میں جلسوں میں تقریر کروں گا،آج میں آپ کو ہوشیار کررہا ہوں اور خبردار کررہا ہوں کہ یہ یہودی سازش ہے،یہ دراصل اچھے ذہین اور باصلاحیت اساتذہ سے مدارس کو خالی کرنے کی ایک ناپاک کوشش ہے۔
یہ باتیں مولانا عبدالمنان صاحب قاسمی خلیفہ و مجاز حضرت شاہ ابرارالحق صاحب ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ نےمجمع عام میں کہی ہے۔
ہمارے لئے سوچنے کی بات یہ بھی کہ مدارس میں پڑھنے والوں کی تعداد معمولی ہے۔بعض احباب کی زبانی صرف دوفیصد مسلم آبادی مدارس میں زیر تعلیم ہے۔اسمیں حفاظ کرام کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔اسی جماعت سے مساجد کی امامت کا کام لیا جاتا ہےاور رمضان المبارک کے موقع سے تراویح میں تکمیل قرآن کی سعادت ہمیں نصیب ہوتی ہے۔ تجربہ یہ بتلاتا ہے کہ جس حافظ صاحب نے اپنا میدان خالص عصری اداروں کو فکر معاش کے لئے بنایا ہے وہ قرآن کریم مکمل محفوظ نہیں رکھ سکے ہیں، (الا ماشاءاللہ )
ایسے میں واقعی ہمارے لئے یہ سوچنے کی بات ہے۔مولانا موصوف کی تقریرسے یہ تشویش بھی پیدا ہوتی ہے کہ مساجد ومدارس جو دین کے قلعے ہیں،یہ آج اس طریق سےکمزور ہوتے جارہے ہیں اور کمزور ہاتھوں میں چلےجارہے ہیں۔اچھے انجینئر اور اچھے ڈاکٹرس کی آج کمی نہیں ہے، مگر ایک انقلابی امام اور اجتہادی صلاحیت کے حامل عالم کی ملک وملت کو آج شدید ضرورت ہے۔موجودہ حالات اورپیش آمدہ واقعات ومسائل کے حل کے لئے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی حکمت مطلوب ہے۔ایک طرف جہاں قرآن کی آیات ازبر ہوں تو دوسری طرف اس آخری کتاب کےمعانی ومفاہیم پر گہری نظر ہو۔آیات احکام سے ہی نہیں بلکہ قرآنی قصص واقعات سے بھی وہ دعوت وہدایت کا فریضہ انجام دینے کا اہل ہو۔اس کے لئےایک حافظ سے زیادہ موزوں شخص اور کون ہوسکتا ہے جو قرآن کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف کو زبانی یادکرلیا ہے۔اب اسے قرآن کی وادیوں میں سفر کرنے کی ضرورت ہے۔مگر افسوس ہے کہ فکر معاش میں وہ زیر وزبر ہورہا ہے۔مولانا موصوف کی اس بات میں بڑا دم ہے اور وقت ہمارے پاس بہت ہی کم ہے۔اس عنوان پر باضابطہ ایک تحریک شروع کی جائے کہ "حافظ قرآن کی حفاظت کیجئے "۔
راقم الحروف
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
رابطہ 9973722710
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں