صورتحال انتہائی سنگین ہوچکی ہے، ایک پولیس والے کو "اگنی پتھ " مظاہرین نے سسرام میں گولی ماردی ہے، آرا کے ٹکٹ کاؤنٹر سے ڈھائی لاکھ روپے لوٹ لیے، ۲۰۰ سے زائد ٹرین سروسز متاثر ہوچکی ہیں، یہ سب اگنی پتھ اسکیم کےخلاف احتجاج کررہے مظاہرین کے وحشیانہ کارنامے ہیں، لیکن مجال ہے جو کوئی میڈیا والا، سرکار یا سیکولر خیمہ انہیں دہشتگرد، غنڈہ گردی کہہ سکے، مسلمان کہیں احتجاج کرے تو پہلے تو سیکولر، لبرل، اپوزیشن پارٹیوں کے ہندو سیاستدانوں سمیت مسلمانوں کے انٹلکچوئل بھی اُن مسلمانوں کو مذاکرات سے معاملات حل کرنے کا گیان بانٹنے چلے آتے ہیں، اور اگر مسلمانوں کے کسی احتجاج میں غلطی سے پتھربازی کی کوئی ادنٰی واردات انجام دینے میں شرپسند کامیاب ہوجائیں تو یہ سب لوگ میڈیا والوں کےساتھ ملکر مسلمانوں کو امن خراب کرنے والا اور ہِنسک قرار دینا شروع کردیتے ہیں، کتنے ذلیل دوغلے اور خبیث ہیں یہ لوگ مسلمانوں کو لےکر !
لوٹ مار، آگ زنی، عوامی املاک کی بربادی، ننگی گالیاں، بیہودگی، بدامنی اور بربریت کےساتھ کون سی قوم اپنا غصہ اتارتی ہے یہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے، یہ اپنی "بربر" روایات کا مظاہرہ بار بار کرچکے ہیں، جاٹ آندولن سے لے کر پٹیل آندولن تک، ریل نوکریوں کے مظاہروں سے لے کر فوج بھرتی معاملہ تک ہندوتوا تہذیب کی واضح نمائش ہے، بلاتکاری بابا رام رجیم کے ہندو بھکتوں کے انتہائی پرتشدد مظاہرے کونسی بربر تہذیب کی گواہی ہیں؟ قدیمی برہمنی دور کی تاریخ پڑھیے،
تشدد، آگ زنی، بیہودگی بربریت اور آبادیوں کو تاخت و تاراج کرنے کی تہذیب کن کی ہے یہ بالکل دو۔دو چار کی طرح سامنے ہے، لیکن مجال ہے کہ اتنے سارے شواہد کےباوجود کوئی سیکولر ہندو اپنے گریبان میں جھانکے اور اپنی قوم کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے،
البتہ نام نام سیکولر و انٹلکچوئل مسلمانوں کا طبقہ مسلمانوں کو صرف احتجاج کرنے کی وجہ سے ہی تشدد اور انتہاپسندی کے الزامات دے دیتا ہے، پتھراؤ کے اکا دکا واقعات کی بناء پر پوری قوم کو احمق اور دنگائی مزاج بتانے لگتے ہیں، جبکہ یہ کئی بار ثابت ہوچکاہے کہ مسلمانوں کے احتجاج سے پتھراؤ بھی سَنگھ کی منصوبہ بند کوشش کا نتیجہ رہاہے، حکومت کو پتا ہے کہ ان کے لیڈران میں وہ گٹس نہیں ہے اسلیے حکومت بھی پولیس کو کھلی چھوٹ دےدیتی ہے اور پولیس بھی مسلمان دانشوروں کے اس مزاج سے واقف ہے اسلئے اُن کے مظاہروں پر فائرنگ کردی جاتی ہے
اسی معذرت خواہانہ رویے نے پوری ۳۰ کروڑ کی مسلمان آبادی کو متشدد، ہِنسا وادی اور دہشتگرد جہادیوں کے طورپر مشہور کردیا ہے جس کا تکلیف دہ پہلو یہ ہےکہ ہندوستانی گراؤنڈ پر یہ ۳۰ کروڑ کی آبادی سب سے زیادہ پرامن قوم ہے، اس نے تشدد اور ناجائز طورپر طاقت کی نمائش کا راستہ کبھی بھی اختیار نہیں کیا
جبکہ احتجاج کے دوران تشدد کسے کہتےہیں؟ یہ کل " اگنی پتھ " آندولن کے ذریعے پھر سے صاف ہوچکاہے، اور ایسے وحشیانہ تشدد کی مثال مسلمانوں کے کسی بھی احتجاج کےدوران نہیں ملتی ہے، لیکن ماتم نہ کیجیے تو اور کیا کیجیے کہ پھر بھی سرکار کی نظر میں مسلمان دہشتگرد تو ہے ہی بعض سیکولر اور انٹلکچوئل مسلمانوں کےدرمیان مسلمان دنگائی بھی ہے، اس ذہنیت کےساتھ آپ ہندوستان جیسے ملک میں اپنے حقوق حاصل کرنا تو درکنار ان کی لڑائی بھی لڑ نہیں سکتےہیں، اسے نوٹ کرلیجیے ۔
ایک بار پھر صاف ہوچکاہے کہ تشدد، پتھراؤ اور اشتعال کبھی بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا اس ملک میں، مسئلہ آپکا مسلمان ہونا ہے_!
*✍: سمیع اللہ خان*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں