بقرعید سے پہلے حضرت مولانا کلیم صدیقی ، حافظ ادریس قریشی و ان کے رفقا سے ملاقات جیل میں کی داستان - ایڈوکیٹ اسامہ ندوی
(اردو دنیا نیوز۷۲)
مسلمانان ہند بقر عید کی تیاریوں میں لگے ہیں اور چند روز کے بعد خوشیوں میں مشغول ہو جائیں گے،آج لکھنؤ جیل جانا ہوا ، حضرت مولانا کلیم صدیقی مدظلہ، حافظ ادریس قریشی صاحب مدظلہ، حاجی سلیم ڈرائیور ،ڈاکٹر عاطف بھائی سرفراز جعفری صاحبان سے ملاقات ہوئی ، ملاقات کے وقت حضرت مولانا نے باہر کے تمام احباب کی خیر و عافیت لی ،کچھ لوگوں کو نام لے لیکر معلوم کیا ۔ وطن عزیز پھلت کے بارے میں گاؤں والوں کے بارے میں معلوم کیا، حج بیت اللہ پر کون کون گیا ہے ؟جانے والوں سے دعاؤں کی درخواست کرنے کو کہا،باتوں باتوں میں مجھ سے پوچھنے لگے: گھر کب جاؤگے ؟ اس پر میں نے آہستہ سے کہہ دیا: حضرت ان شاء اللہ آپ کو لے کر جائیں گے،حضرت والا کی آنکھیں نم ہونے کو تھیں کہ میں نے ان سے نظریں چرا لیں ، حضرت والا نے کہا : جاؤ بیٹا بقرعید پر گھر جاؤ، وہاں کے حال احوال لو، گھر کی ضروریات دیکھو،ان شاء اللہ جلدی ہی باہر آئیں گے۔ پچھلے دس مہینوں میں عید الفطر کے بعد آج کی ملاقات پر جو کیفیت دیکھنے کو ملی، اس کو دیکھ کر میرے حواس قابو میں نہیں ہیں، لکھنؤ کی جھلسا دینے والی گرمی میں جیل کی صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں ،جیل کی سخت گرمی میں اگر حلق خشک ہوکر سوکھ جائے تو شربت تو دور کی بات ہے، فوری طور پر اپنی پیاس بجھانے اور حلق بھگونے کے لئے ٹھنڈا پانی بھی میسر نہیں ہے ،ملاقات کے وقت سر پر ٹوپی کو پانی میں بھگو کراور رومال کو گیلا کرکے اوڑھ کر آتے ہیں ، بظاہر تو چہرے پر خوشی ہوتی ہے لیکن ہمارا جو برا حال سلاخوں سے باہر رہتا ہے (کئی بار گرمی سے چکر آچُکے ہیں)دھوپ کی گرمی سے جیل کی پتھریلی اینٹیں پک جاتی ہیں،صحرائی زمین کے فرش کے بارے میں تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ لکھنؤ میں جون جولائی کی ایسی گرمی ہے کہ پیلے پھول کالے پڑ گئے، جیل میں موسم گرماکی حرارت،دیوار اور فرش کی تپش ،سلاخوں کی حِدّت وتمازت ان بزرگوں کے حوصلوں کو کمزور نہیں کر رہی ہیں ،کیوں کہ یہ لوگ اپنے لئے فکر مند نہیں یہ باہر کے لوگوں کے لئے بے چین ہیں، جیل کی گرمی سے یہ مضطرب نہیں ہیں،اپنے رب کے فیصلے کو خوشی خوشی قبول کر رہے ہیں ،بھلے ہی جیل میں تکلیف اٹھا رہے ہوں لیکن کبھی زبان پر کوئی شکایت نہیں سننے کو ملتی ہے۔ جبکہ ہم عید کی خوشیاں منانے میں مصروف ہیں،یہ لوگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہماری شناخت اور پہچان کے لئے ہیں، اسلام کے تحفظ اور دین کی بقا کے لئے ہیں، گھر کے چھوٹے چھوٹے بچے،بھائی بہن،بیوی ان کی راہ تکتے ہوئے خوشی بھرا تہوار اُن کے بغیر نہ چاہتے ہوئے گزاریں گے، لہذا راہ دعوت وعزیمت میں سنت یوسفی ادا کرنے والوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ جو بے گناہ مسلمان سلاخوں کے پیچھے بند ہیں اُن کی تو غیب سے مدد فرما اور اُنہیں با عزت بری کر دے۔ آمین يا رب العالمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں