مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
اترکاشی سلکیاراٹرنل میں پھنسے لوگ اب باہر آگیے ہیں، اور پورے ہندوستان نے راحت کی سانس لی ہے، ہر دن یہ خبر آتی تھی کہ بس رات تک وہ باہر نکل آئیں گے اور پھر رات ہوجاتی تھی اور کامیابی کا سورج نکلے بغیر ہی غروب ہوجاتا تھا، ساری تکنیک استعمال کر لی گئی ، امریکن ہوجر بھی ناکام ہو گئی وہ سرنگ کے اندر کھدائی کرتے ہوئے ہی ٹوٹ گئی اور اس کی دھمک اس قدر تھی کہ مزید چٹان کے گرنے کا خطرہ پیدا ہو گیاتھا، ساری مشینیں اور اوزار ناکام ہو گیے تو ذمہ داروں کو کھدائی کی پرانی تکنیک جسے ریٹ ہول مائننگ(RAT HOLL MINING) کہا جاتا ہے کا خیال آیا یہ طریقہ کوئلے کی کان میں استعمال کیا جاتا ہے، چھینی اور ہتھوڑے کی مدد سے ایک آدمی کا ٹتا ہے ، دوسرا ملبہ اٹھا تا ہے، یہی طریقہ عمل میں لایا گیا تب جا کر کرب والم کے سترہ دن کا اختتام ہوا اور ملک نے راحت کی سانس لی اور اکتالیس مزدور بعافیت سرنگ سے نکال لیے گیے۔غنیمت یہ ہے کہ سترہ دن گذرنے اور پھنسے رہنے کے بعد بھی وہ مایوسی کے شکار نہیں ہوئے، اور انہوں نےحوصلہ نہیں ہارا، ان میں سے بعضوں کی صحت بگڑنے کی پہلے خبر آئی تھی، لیکن اسے دبا دیا گیا تاکہ مزدور اور ان کے خاندان والے مایوسی کے شکار نہیں ہوجائیں ، جن حالات میں ان کی زندگی گذر رہی تھی ، اس میں آدمی ڈپریشن میں چلا جاتا ہے، مایوسی کا اس قدر غلبہ ہوتا ہے کہ کبھی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں، ان حالات کے باوجود کام جنگی پیمانے پر کیا جا تارہا،کھداءی کے لیے جنہوں نے جان ہتھیلی پر لے کر کام کیا ان میں چار مسلمان تھے۔منا قریشی کی جانباز ی کاتذکرہ تو مڈیا والوں نے خوب کیااس مہم کے مقامی اور مرکزی ذمہ دار بھی مسلمان تھے،پی ایم او آفس نگرانی کرتی رہی، فوج کے سو جوان، آئی ٹی بی پی کے ایک سو پچاس ، این ڈی آر ایف کے پچاس ، ایس ڈی آئی ایف کے سوجوان، بیس سے زائد ہندوستانی اور دس غیر ملکی ماہرین اس کام میں لگے ہوئے تھے۔
اس حادثہ نے ملک کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، ابھی پورے ملک میں انتیس (29) جگہوں پرسرنگوں کی کھدائی کا کام ہو رہا ہے، نقل وحمل کی وزارت (سڑک اور پریوہن) نے ان تمام ٹرنل کے تحفظ کے جائزہ کا فیصلہ لیا ہے، اس نے کوکن ریلوے سے معاہدہ کیا ہے کہ سات دنوں میں اس کے حلقے میں بنائے جا رہے ٹرنل کی حفاظتی رپورٹ سامنے آجائے ، اس کام کی ذمہ داری نیشنل ہائی وے اتھارٹی آف انڈیا (NHAI)اور دہلی میٹرو کے ماہرین کو دی گئی ہے، یہ سات دنوں میں سبھی ٹرنل کا جائزہ لے کر نقل وحمل کی وزارت کو رپورٹ کریں گے۔
ان دنوں جن مقامات پر ٹرنل بنانے کا کام چل رہا ہے،وہ ہماچل پردیش میں 12،جموں کشمیر میں 6، اڈیشہ اور راجستھان میں دو ، دو، مدھیہ پردیش ، کرناٹک، چھتیس گڈھ، اترا کھنڈ اور دہلی میں ایک ایک ہیں، ان سرنگوں کی مجموعی لمبائی کم وبیش اناسی (79)کلومیٹر ہے۔
آئندہ ٹرنل کی تعمیر میں کسی قسم کا کوئی حادثہ نہ ہو اس کے لیے ٹیکنیکل اورجغرافیائی صورت حال کا جائزہ لینا ضروری ہوگا، کیوں کہ اس قسم کے حادثات ٹکنیکل اور جغرافیائی مطالعہ کی کمی کے نتیجے میں ہی واقع ہوتے ہیں، کام کے شروع کرنے کے پہلے یہ جاننا ضروری ہےکہ یہاں زمین دھنسنے اور پہاڑ کے تودے کے گرنے کے کس قدر امکانات ہیں اس کے بعد ہی کام آگے بڑھا نا چاہیے، سرنگوں کی تعمیر سے پہلے ایک پائلٹ سرنگ بھی تیار کرنا چاہیے اور معاون انتظامات مکمل ہونے چاہیے، تبھی اس قسم کے حادثات سے بچا جا سکے گا۔ حادثات تاریخ اور وقت بتا کر نہیں آتے اس لیے پہلے سے کیے گیے حفاظتی تدابیر کے ذریعہ ہی اس قسم کے حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں