Urduduniyanews72
ماہ جنوری کے اختتام پر لوگوں نے راحت کی سانس لی ہے۔سخت ٹھنڈک سے سبھی کو نجات ملی ہےاور ہمارےجسم کو آرام نصیب ہوا ہےمگرساتھ ہی اس مہینہ کے اختتام پرکچھ ایسی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں جن سے بالخصوص مسلمانوں کو شدید قلبی تکلیف پہونچی ہےاورہند کےملت اسلامیہ کاجگرپارہ پارہ ہوگیاہے۔ انمیں پہلی خبرملک کی راجدھانی دہلی کے مہرولی کی ہے۔ چھ سو سالہ قدیم اخونجی مسجد جسمیں مدرسہ بھی چل رہا تھا بلڈوز سے شہید کردی گئی ہے،قرآن کریم کے نسخے، اساتذہ وطلبہ کے ساز و سامان سب مسجد کے ملبے کے ساتھ دفن کردئیے گئے ہیں، یہ کارروائی علی الصباح دہلی اتھاریٹی نے پولس کی مدد سے انجام دی ہے۔سب سے پہلے امام صاحب ودیگر موجودین کو یرغمال بنالیا گیا، ان کے موبائل فون ضبط کئےگئےتاکہ کسی کو اس انہدامی کاروائی کی خبر نہ ہوسکے،پھر سب کچھ تہس نہس کردیا گیاہے۔ اس وقت وہاں صرف مٹی کا ڈھیر ہے۔ مسجد کا نام ونشان تک بھی موجودنہیں ہے۔
دوسری خبر شہر وارانسی سے یہ مل رہی ہے کہ ڈسٹرکٹ جج نے اپنی سروس کے آخری دن گیان واپی جامع مسجد کے تہہ خانے میں ہندو فریق کو پوجا کی اجازت دے دی ہے، ابھی ابھی یہ خبر بھی مل رہی ہے کہ راتوں رات مذکورہ مسجد کےتہہ خانے میں مورتی نصب کرکے اس کی پوجا بھی شروع ہوچکی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف مسلم پرسنل لا بورڈ نےالہ آباد ہائی کورٹ میں قانونی چارہ جوئی کی بات کہی ہے اور یہ ضروری بھی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس نازک ترین وقت میں بیداری کی شدید ضرورت ہے۔سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ آخرکیسی بیداری اور کس کی بیداری مطلوب ہے؟
سوشل میڈیا میں اس وقت مفکر اسلام حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کی ایک آڈیو گشت کر رہی ہے۔جن حالات کا ہم سامنا کررہے ہیں مولانا نے بہت پہلے سے ہی اس کی پیش گوئی فرمادی ہےاور اسے ایک بڑافتنہ کہا ہے،نیز اس کے حل کےلئے آخری بات کہ کر علماء کرام کو خطاب بھی کیا ہے۔
حضرت نےیہ واضح انداز میں فرمادیاہے کہ علماء کرام کی طاقت سے ہی اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہےا۔حضرت کی یہ تقریر پورے ملک کی تصویر بدل سکتی ہے،اور ہم اس برے حالات سے نکل سکتے ہیں، اے کاش اس پر عمل ہو اور پورے ملک کے علماء کرام متحد ہوکر آج ہی سے اس انقلابی کام کو ایک تحریک کی شکل دیکر کرنے لگیں، مولانا فرماتے ہیں ؛
"آخر میں ایک بات کہ کر ختم کرتا ہوں کہ اس وقت ہندوستان میں ایک ایسا دور ایا ہےجو ہمارے علم میں پہلے کبھی نہیں ایا۔ دور اکبری کو کسی قدر مشابہت ہے لیکن دور اکبری بھی اس درجے میں خطرناک نہیں تھا جتنا یہ دور جو چل رہا ہے۔ اس وقت اکثریت نے یہ طے کر لیا ہے کہ اس ملک کو"اسپین" بنا کر رہیں گے۔ یعنی اس میں مسلمان رہیں گے مگر اپنے تمام ملی تشخصات کو چھوڑ کر۰۰۰۰۰۰۰ اذانیں بھی زور سے نہ ہوں، مسجدوں کی کثرت بھی، مسجدوں کا جائے وقوع بھی اور مسجدوں کا وجود بھی خطرے میں ہے۔ بابری مسجد کے ساتھ جو واقعہ پیش ایا اس نے اس کے لیے راستہ کھول دیا ہے۔ صاف صاف ہندو اخبار نے بھی اور کالم نگار اور ان کے سوچنے سمجھنے والے انگریزی اخباروں میں بھی جو مضامین نکل رہے ہیں اور ہندی اخباروں میں بھی صاف صاف یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو بالکل ہندو بن کر رہنا ہوگا، ہندوستانی بن کر رہنا ہوگایا مسلمان بن کر رہنے کی اب گنجائش نہیں ہوگی۔ لباس میں ،صورت وشکل میں ، زبان میں،رسم الخط میں اور تہذیب میں سب میں ان تمام امتیازی خصوصیات سے دستبردار ہو جائیں جن سے دور سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ یہ مسلمان ہیں۔
اس وقت اس فتنے کو روکنے کے لیے سب سے بڑی طاقت ہو سکتی ہے وہ علماء کی ہو سکتی ہے اور ہمارے فضلاء مدارس کی ہو سکتی ہے۔ وہ جہاں جہاں کے رہنے والے ہوں وہاں کی مسجدوں میں تقریر کریں، جمعہ کے دن تقریر کریں، عیدین میں تقریر کریں ،خوشیوں کے موقع پر تقریر کریں، نکاح وغیرہ کی مجلسوں میں تقریر کریں کہ ہمیں پورے ملی تشخص کے ساتھ اس ملک میں رہنا ہےاور کسی ایک چیز کو نہیں چھوڑنا ہے۔ہم اس کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ ہمارا پاجامہ ٹخنے سے نیچے ہو، ہم اس کے لیے بھی تیار نہیں کہ اپنی داڑھی کو ایسا کر لیں کہ محسوس یہ ہو کہ اتفاقا کچھ بال اگ آئے ہیں۔ ہم بالکل شریعت پر عمل کریں گے، شریعت کے ساتھ رہیں گے، ہمارا نظام تعلیم وہی یہی رہے گا، بچوں کو توحید کی تعلیم دیں گے، دینیات پڑھائیں گے، اردو سے واقف بنائیں گے، اردو رسم الخط کو زندہ رکھیں گے۔ سب سے بڑی ذمہ داری اپ پر عائد ہوتی ہے اور اپ ہی بہتر طریقے پر یہ ذمہ داری ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی سن لیجیے اور دل پر لکھ لیجئے کہ اس وقت کا سب سے بڑا فتنہ ہے متحدہ کلچر اور ملی تشخص سے دستبردار ہونا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے دینی حلقے یا علمی حلقے کے بعض لوگ بھی جو قلم کا استعمال جانتے ہیں اور علمی زبان میں بات کر سکتے ہیں وہ بھی اس کی دعوت دینے لگے ہیں کہ مسلمانوں کو اس پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ پرسنل لاکے سلسلے میں جو اصرار کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف خواہ مخواہ ہندوؤں میں اس سےایک رد عمل پیدا ہوا، وہ سمجھے کہ مسلمان بہت تنگ دل اور تنگ نظر ہیں۔
صاف صاف کہتے ہیں ہم یہاں پوری خصوصیات کے ساتھ رہیں گے، اس کے ساتھ ہم امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ہم کو اس ملک کی قیادت نصیب فرمائے گا۔ اس لیے کہ اس ملک کی ابادی کا کوئی عنصر اس قابل نہیں ہے کہ وہ اس ملک کو بچائے خطرے سے۔ سب دولت پرست ہیں،مادہ پرست ہیں، نفس پرست ہیں، طاقت پرست ہیں، اقتدار پرست ہیں، جاہ پرست ہیں۔
اس لیے ہم عزت کے ساتھ رہیں گے، ہم اپنے تشخص کے ساتھ رہیں گے، سر اونچا کر کے چلیں گے، ہماری نگاہیں شرم سے جھکی ہوئی نہیں ہوں گی بلکہ ہماری نگاہیں بلند ہوں گی۔ اور سمجھیں گے کہ ہم جو کر رہے ہیں وہ صحیح ہے اور ہندوستان کا دستور اس کی اجازت دیتا ہے۔ ہندوستان اسی حالت میں صحیح سلامت مامون محفوظ اور خوشحال رہ سکتا ہےکہ اس میں ایک دوسرے کو اس کی ازادی دی جائے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کریں، اور مذہبی شعائر کامظاہرہ کر سکیں"
(حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ )
ہمایوں اقبال ندوی
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری
یکم فروری ۲۰۲۴ء بروز جمعرات
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں