Urduduniyanews72
ڈاکٹر صالحہ صدیقی (الٰہ آباد)
سال 2024 میں ہندوستان نے سماجی اور معاشی میدانوں میں قابل ذکر ترقی کی ہے۔ اقتصادی سروے 2023-24 کے مطابق، حقیقی جی ڈی پی میں 6.5 سے 7 فیصد کے درمیان اضافہ متوقع ہے، جو وبائی مرض کے بعد معیشت کی تیز رفتار بحالی کی نشاندہی کرتا ہے۔ افراط زر کی شرح میں مسلسل کمی دیکھی گئی، جو 4 فیصد کے ہدف کی جانب بڑھ رہی ہے، جبکہ بنیادی افراط زر (نان فوڈ، نان فیول) 3.1 فیصد پر مستحکم ہے۔
خواتین کی لیبر فورس میں شرکت کی شرح میں بھی اضافہ ہوا، جو 2017-18 میں 23.3 فیصد سے بڑھ کر 2022-23 میں 37 فیصد ہوگئی، جس کی بنیادی وجہ دیہی خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت ہے۔ تاہم، سماجی سطح پر کچھ چیلنجز بھی درپیش رہے۔ مسلم معاشرہ تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی مسائل کا سامنا کر رہا ہے، جو ان کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ مستقبل کے حوالے سے، ہندوستان کی معیشت میں تیز رفتار ترقی کے امکانات روشن ہیں۔ توقع ہے کہ 2030 تک ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا، جس کی جی ڈی پی 2022 میں تقریباً 3.5 کھرب ڈالر سے بڑھ کر 2030 تک 7.3 کھرب ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے۔ مزید برآں، قابل تجدید توانائی کے شعبے میں بھی نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ پچھلے ساڑھے آٹھ سالوں میں نصب شدہ غیر فوسل ایندھن کی صلاحیت میں 396 فیصد اضافہ ہوا، اور ملک کی توانائی کی کل صلاحیت کا تقریباً 46.3 فیصد اب غیر فوسل ذرائع سے حاصل ہوتا ہے، جو پائیدار توانائی کے تئیں ہندوستان کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔
ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہندوستان کا مستقبل سماجی اور معاشی دونوں اعتبار سے روشن نظر آتا ہے، بشرطیکہ موجودہ چیلنجز کا مؤثر حل تلاش کیا جائے اور ترقی کی رفتار کو برقرار رکھا جائے۔سال 2024 میں ہندوستان نے سماجی اور معاشی میدانوں میں قابل ذکر ترقی کی ہے۔ اقتصادی سروے 2023-24 کے مطابق، حقیقی جی ڈی پی میں 6.5 سے 7 فیصد کے درمیان اضافہ متوقع ہے، جو وبائی مرض کے بعد معیشت کی تیز رفتار بحالی کی نشاندہی کرتا ہے۔ افراط زر کی شرح میں مسلسل کمی دیکھی گئی، جو 4 فیصد کے ہدف کی جانب بڑھ رہی ہے، جبکہ بنیادی افراط زر (نان فوڈ، نان فیول) 3.1 فیصد پر مستحکم ہے۔ خواتین کی لیبر فورس میں شرکت کی شرح میں بھی اضافہ ہوا، جو 2017-18 میں 23.3 فیصد سے بڑھ کر 2022-23 میں 37 فیصد ہوگئی، جس کی بنیادی وجہ دیہی خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت ہے۔ تاہم، سماجی سطح پر کچھ چیلنجز بھی درپیش رہے۔ مسلم معاشرہ تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی مسائل کا سامنا کر رہا ہے، جو ان کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ مستقبل کے حوالے سے، ہندوستان کی معیشت میں تیز رفتار ترقی کے امکانات روشن ہیں۔ توقع ہے کہ 2030 تک ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا، جس کی جی ڈی پی 2022 میں تقریباً 3.5 کھرب ڈالر سے بڑھ کر 2030 تک 7.3 کھرب ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے۔
مزید برآں، قابل تجدید توانائی کے شعبے میں بھی نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ پچھلے ساڑھے آٹھ سالوں میں نصب شدہ غیر فوسل ایندھن کی صلاحیت میں 396 فیصد اضافہ ہوا، اور ملک کی توانائی کی کل صلاحیت کا تقریباً 46.3 فیصد اب غیر فوسل ذرائع سے حاصل ہوتا ہے، جو پائیدار توانائی کے تئیں ہندوستان کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہندوستان کا مستقبل سماجی اور معاشی دونوں اعتبار سے روشن نظر آتا ہے، بشرطیکہ موجودہ چیلنجز کا مؤثر حل تلاش کیا جائے اور ترقی کی رفتار کو برقرار رکھا جائے۔سال 2024 میں، مختلف شعبوں میں ترقی کے ساتھ ساتھ کچھ کمی اور چیلنجز بھی دیکھے گئے جو ہندوستان اور دیگر ممالک کی مجموعی ترقی پر اثرانداز ہوئے۔
1. ماحولیاتی چیلنجز:
موسمیاتی تبدیلی: 2024 میں گلوبل وارمنگ کے اثرات مزید شدت اختیار کر گئے، جس سے گرمی کی شدید لہریں اور قدرتی آفات میں اضافہ ہوا۔
ماحولیاتی تحفظ کے وعدوں پر عملدرآمد میں کئی ممالک ناکام رہے۔
2. اقتصادی مسائل:
افراطِ زر اور بیروزگاری نے عام عوام کی زندگی کو متاثر کیا۔کئی شعبوں میں غیر متوقع معاشی دباؤ کے باعث چھوٹے کاروبار اور زراعت متاثر ہوئے۔عالمی سطح پر معیشت کی سست روی، جس کی وجہ یوکرین جنگ کے اثرات اور دیگر عالمی تنازعات ہیں۔
3. سماجی مسائل:
عدم مساوات اور غربت کے مسائل میں نمایاں کمی نہیں آئی۔خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے پیش رفت کے باوجود، کئی علاقوں میں عدم مساوات جاری رہی۔
4. تعلیمی شعبے میں کمی:
ترقی پذیر ممالک میں ڈیجیٹل تعلیم تک رسائی کی کمی نمایاں رہی۔تعلیمی بجٹ میں کمی اور معیاری تعلیمی مواقع کی کمیابی نے تعلیم کے شعبے میں مسائل پیدا کیے۔
5. صحت کے مسائل:
نئی بیماریوں اور ویکسینیشن کے حوالے سے مسائل۔صحت کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی کمی نے دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کو متاثر کیا۔
6. سیاسی چیلنجز:
سیاسی عدم استحکام اور تنازعات، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، اقتصادی اور سماجی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے۔سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے میں ناکامی اور مذہبی و نسلی تنازعات۔
7. ٹیکنالوجی کے منفی اثرات:
مصنوعی ذہانت اور آٹومیشن کے بڑھتے ہوئے استعمال نے بیروزگاری میں اضافہ کیا۔سائبر سیکیورٹی کے خطرات میں اضافہ ہوا۔2024 میں درپیش ان چیلنجز سے سیکھ کر، ممالک کو پائیدار ترقی، سماجی انصاف، اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے مزید موثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔2024 کے تجربات کی روشنی میں، ان پہلوؤں پر توجہ دینا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکے:
1. معیشت کی مضبوطی:
روزگار کے مواقع: بیروزگاری کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہنر مندی کے پروگراموں اور چھوٹے کاروباروں کی حمایت پر توجہ دی جائے۔
معاشی ناہمواری: دولت کی منصفانہ تقسیم اور غربت کے خاتمے کے لیے پالیسیاں بنائی جائیں۔
زرعی ترقی: زراعت کے جدید طریقوں کو فروغ دینا اور کسانوں کے مسائل حل کرنا۔
2. ماحولیاتی تحفظ:
قابل تجدید توانائی: قابل تجدید ذرائع جیسے سولر اور ونڈ انرجی پر سرمایہ کاری بڑھائی جائے۔
شجرکاری مہمات: جنگلات کی کٹائی کو روک کر شجرکاری مہمات کو فروغ دیا جائے۔
آلودگی کا خاتمہ: صنعتی آلودگی پر قابو پانے اور پلاسٹک کے استعمال کو کم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔
3. تعلیم اور تحقیق:
معیاری تعلیم: دیہی اور پسماندہ علاقوں میں معیاری تعلیمی سہولیات فراہم کی جائیں۔
ڈیجیٹل تعلیم: انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی تک رسائی کو عام کیا جائے۔
تحقیق کی اہمیت: تعلیمی اداروں میں تحقیق کے مواقع پیدا کیے جائیں، خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی میں۔
4. صحت کا بہتر نظام:
صحت کی بنیادی سہولیات: دیہی علاقوں میں اسپتال اور کلینک کی دستیابی یقینی بنائی جائے۔
ویکسینیشن اور بیماریوں کی روک تھام: وبائی امراض کے خلاف موثر منصوبہ بندی۔
ذہنی صحت: ذہنی صحت کے مسائل کو ترجیح دی جائے اور مشاورت کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
5. سماجی ہم آہنگی:
مساوات: خواتین، اقلیتوں، اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
مذہبی ہم آہنگی: رواداری اور باہمی احترام کو فروغ دینے کے لیے تعلیمی اور سماجی مہمات چلائی جائیں۔
غربت کا خاتمہ: سماجی تحفظ کے پروگرامز کے ذریعے ضرورت مندوں کو سہارا دیا جائے۔
6. سیاسی استحکام:
شفافیت: حکومتی فیصلوں میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنایا جائے۔
سیاسی ہم آہنگی: مختلف نظریات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے مذاکرات کو فروغ دیا جائے۔
اصلاحات: انتخابات کو شفاف اور غیر متنازع بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
7. ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال:
ڈیجیٹل معیشت: ڈیجیٹلائزیشن کو فروغ دے کر معیشت کو مضبوط بنایا جائے۔
سائبر سیکیورٹی: سائبر خطرات سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور تربیت پر زور دیا جائے۔
مصنوعی ذہانت: AI اور آٹومیشن کے شعبے میں ملازمت کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں۔
8. عالمی تعاون:
بین الاقوامی تعلقات: تجارتی اور ماحولیاتی معاہدوں میں فعال کردار ادا کریں۔
امن کا فروغ: عالمی سطح پر امن و امان کے قیام کے لیے موثر سفارتی حکمت عملی اپنائیں۔
یہ پہلو زندگی کے تمام شعبوں میں پائیدار ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنا سکتے ہیں، بشرطیکہ ان پر ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں