اتوار, اگست 01, 2021
جالے۔ 2 اگست کو وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی کشیشوراستھان آمد کو لیکر ایس

نئی دہلی: لداخ میں فلم کی شوٹنگ ختم کرنے کے بعد عامر خان (Aamir Khan) اور کرن راو (Kiran Rao) سری نگر پہنچے تھے۔ ان کے ساتھ ان کا بیٹا آزاد راو خان (Azaad Rao Khan) بھی تھا۔ انہوں نے جموں وکمشیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا (Lt Gov
لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے اپنے ٹوئٹر میں لکھا، 'آج مشہور فلم اداکار عامر خان اور کرن راو سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے جموں وکشمیر کی نئی فلم پالیسی پر تبادلہ خیال کیا ہے، جو جلد ہی سامنے آئے گی۔ یہ تبادلہ خیال بالی ووڈ میں جموں وکشمیر کے وقار کو پھر سے بلند کرنے سے متعلق تھی۔ ساتھ میں فلم شوٹنگ کے لحاظ سے اسے پسندیدہ لوکیشن بنانے پر بھی بات ہوئی تھی۔
(تصویر کریڈٹ: Twitter@OfficeOfLGJandK)عامر خان اور کرن راو نے سری نگر کے ڈپٹی کمشنر محمد اعجاز احمد کے ساتھ بھی ملاقات کی۔ سوشل میڈیا پر عامر خان اور ان کی سابق اہلیہ کی تصاویر وائرل ہو رہی ہیں۔ تصاویر سے ظاہر ہے کہ اس ملاقات میں ان کا بیٹا آزاد راو خان بھی موجود تھا۔ واضح رہے کہ عامر خان اور کرن راو الگ ہوچکے ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک مشترکہ بیان جاری کے اس کی تصدیق کی تھی۔ انہوں نے اپنی 15 سال پرانی شادی کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ حالانکہ، وہ بیٹے آزاد راو خان کے کو پیرنٹس (مشترکہ والدین) بنے رہیں گے۔
(تصویر کریڈٹ: Instagram@__aamirkhann__)
(تصویر کریڈٹ: Instagram@__aamirkhann__)

(تصویر کریڈٹ: Instagram@__aamirkhann__)
میڈیا رپورٹس کے مطابق، فلم 'لال سنگھ چڈھا' کی تعمیر وائیکام 18 موشن پکچرس اور عامر خان پروڈکشنس کے بینر تلے ہو رہا ہے۔ یہ فلم ٹام ہینکس کی کلاسک فلم 'فاریسٹ گنپ' کی آفیشیل ہندی ریمیک ہے۔ فلم کی اسکرپٹ اداکار-رائٹر اتل کلکرنی نے لکھی ہے۔ یہ فلم اسی سال کرسمس تیوہار کے آس پاس ریلیز ہونے والی ہے۔

ملک میں جب سے بھگوا طاقتوں کو اقتدار کی باگ ڈور ملی ہے تب سے ہی گھر واپسی، لو جہاد
ملک میں جب سے بھگوا طاقتوں کو اقتدار کی باگ ڈور ملی ہے تب سے ہی گھر واپسی، لو جہاد، ہندوستان کے مسلم دراصل ہندو ہیں سبھی کا ڈی این اے ایک ہے وغیرہ کے شوشے چھوڑ کر خاص کمیونٹی کو نشانہ بنایا جارہا ہے، ایک طرف پوری پلاننگ کے ساتھ خاندان کے خاندان کو ہندو بنانے کا عمل جاری ہے تو وہیں دوسری جانب مسلم لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر ان کو اسلام سے پھیرنے کا سلسلہ زور پکڑنے لگا ہے۔ مسلم نوجوانوں کو لو جہاد کی آڑ میں پکڑا جارہا ہے اور مسلم اعلی تعلیم یافتہ اور معروف شخصیتوں کو ہندو لڑکیوں کی محبت میں پھنساکر ان کا دین دھرم خراب کیا جارہا ہے۔ ہندوستان میں ایسا پہلے سے ہی ہوتا آرہا تھا؛ لیکن ۲۰۱۴ کے بعد اس میں شدت آگئی ہے۔ بھگوائیوں کے لوٹرپ کا نشانہ بننے والی مسلم لڑکیوں کی زندگی ہی اگر عبرت کے لیے پیش کی جائے تو یہ کافی ہے؛ لیکن عشق و محبت کے جال میں پھنسی، بنیادی دینی تعلیم سے دور دوشیزاؤں کو یہ سمجھ میں نہیں آتا؛ لیکن جب خود پر بیتتی ہے تو جب تک وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ حال میں ارتداد کے واقعات اتنی تیزی اور شدت سے بڑھتے جارہے ہیں کہ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو مسلمانوں کو مستقبل میں انتہائی تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ بھگوائی ہر محاذ پر سرگرم ہیں؛ لیکن ہم مسلمان صرف ایک دوسرے کو کافر ایک دوسرے پر طعنہ زنی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے کو نااہل ثابت کرنے میں لگے ہیں۔ بھگوائیوں کا حوصلہ اتنا بڑھا ہوا ہے کہ وہ ٹرینوں سے مسلم دوشیزاوں کو اغوا کررہے ہیں، ان کے ساتھ آگے کیا ہوتا ہوگا یہ سوچ کر ذہن کانپ جاتا ہے۔ بھگوائی مرد ہی نہیں عورتیں بھی میدان میں نکلی ہوئی ہیں اور مسلم خواتین کو اپنی دوستی کے سہارے ان کی عصمت و عفت تار تار کرکے انہیں بے دست و پاکررہی ہیں۔ گزشتہ روز ایک واقعہ ہوا کہ ایک خاتون نے اپنی مسلم سہیلی کو اپنے گھر مدعو کرکے مشروب پینے کو دیا، جس میں نشہ آور چیز تھی، وہ مشروب پیتے ہی بے ہوش ہوگئی، اس کے بعد اس خاتون نے مسلم خاتون کی اپنے بیٹے اور اس کے دوستوں سے عصمت دری کروائی۔ اللہ کی پناہ۔۔۔۔ان سب واقعات سے دل رنجور ہے، دل دہل جاتا ہے، آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں کچھ ایسے بھی واقعات گردش کررہے ہیں کہ 'غیر مسلم لڑکے بے غیرت مسلم دلالوں کو پیسے دے کر غریب مسلم لڑکیوں سے ان کے اہل خانہ کو دھوکہ میں رکھ کر شادی کر رہے ہیں'۔ بلکہ ایسی بھی خبریں ہیں کہ ان بھگوائیوں کو مسلم لڑکیوں سے شادی کرنے پر لاکھوں کا انعام دیاجاتا ہے اور ان کے رہن سہن کا تنظیمیں خرچ بھی برداشت کرتی ہیں۔
ایک طرف تو وہ مکمل تیاری میں ہیں اور دوسری طرف ہم بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواب غفلت میں مدہوش ہیں۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کی اکثریت یہ سوچ کر ان واقعات کو بھلاکر آگے نکل جاتی ہے کہ ہماری بچیاں ایسا نہیں کرسکتی ہیں، ہماری بچیاں بھاگ کر شادی نہیں کرسکتیں، ہماری بچیاں ہندو لڑکوں کی محبت میں گرفتار نہیں ہوسکتیں۔ اتنا بتادوں کہ جو لڑکیاں گرفتار ہوئی ہیں ان کے والدین بھی کبھی ایسا ہی سوچتے رہے ہوں گے؛ لیکن آج ان جو پر بیت رہی ہے اسے ہم نظر انداز کررہے ہیں اور سبق نہیں لے رہے۔ میں اس سے پہلے بھی کئی مضامین اس سلسلے میں لکھ چکا ہوں جب تکلیف کا احساس اور حالیہ واقعات پر نظر پڑتی ہے تو پھر لکھنے کو مجبور ہوجاتا ہوں کہ شاید کسی لڑکی کے والدین کو سمجھ میں آجائے، کسی مسلم دوشیزہ کی سمجھ میں آجائے کہ وہ کیا کررہی ہے اور کہاں جارہی ہے، محبت کے نام پر اپنے دین حنیف سے رشتہ توڑ رہی ہے اور والدین تعلیم کے نام پر اپنی بیٹیوں کو آزاد چھوڑ رہے ہیں، ان کی کوئی گرفت نہیں کرتے؛ لیکن جب معاملہ حد سے بڑھ جاتا ہے تو خون کے آنسو روتے ہیں۔
۲۰۱۴ کے بعد ہی بھگوا تنظیموں نے اعلان کیا تھا اور ایک حد مقرر کی تھی وہ حد صرف یوپی کی تھی کہ ہم اتنی تعداد میں مسلم لڑکیوں کو بہو بنائیں گی وہ حد کب کی پوری ہوچکی ہے اور صرف یوپی ہی نہیں بہار، بنگال، جھارکھنڈ، گجرات و مہاراشٹر سمیت پورے ملک میں اب ارتداد کی لہر ہے، بڑی تعداد میں مسلم لڑکیاں ہندو بن رہی ہیں، بڑی تعداد میں گھر اجڑ رہے ہیں کنواری لڑکیوں کے ساتھ ساتھ شادی شدہ مسلم خواتین بھی اپنے شوہر کے ساتھ بے وفائی کرتے ہوئے دامن کفر میں جارہی ہیں۔ ہم ان سب واقعات کے لیے کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتے، کسی تنظیم کو لعن طعن نہیں کرتے، نہ جدید تعلیم کا اسے شاخسانہ قرار دیتے ہیں؛ لیکن یہ اپیل ضرور کرتے ہیں کہ خدارا جلد اس ضمن میں سوچیں اپنی بچیوں کو بچائیں۔۔۔۔خدارا جلد اس پر قابو پائیں اور ان کو ارتداد سے محفوظ رکھیں؛ ورنہ اس تاریک دن کے لیے تیار رہیں جب آپ کی بیٹیاں بڑی تعداد میں کافر بچوں کو جنم دیں گی اور وہ بچے کفر کا دامن تھامے آپ سے اشتعال انگیزی کرتے ہوئے کہیں آپ کی لنچنگ کررہے ہوں گے، کہیں آپ کی بچی ہوئی لڑکیوں کی عصمت دری، تو کہیں ٹرین سے اغوا کرکے اسے نشانہ بنا رہے ہوں گے۔ اب بھی وقت ہے ملی تنظیمیں، والدین اور خود ہر مسلمان اس پر غور کرے اور اس کے سدد باب کے لیے تال میل کے ساتھ انتہائی منظم طور پر اس آندھی کو روکنے کی ہم سب کوشش کریں، اللہ ہماری ماؤں، بہنوں کی عصمت و عفت کی حفاظت فرمائے اور انہیں ارتداد سے بچائے رکھے۔۔۔آمین
نازش ہما قاسمی
ملک میں جب سے بھگوا طاقتوں کو اقتدار کی باگ ڈور ملی ہے تب سے ہی گھر واپسی، لو جہاد، ہندوستان کے مسلم دراصل ہندو ہیں سبھی کا ڈی این اے ایک ہے وغیرہ کے شوشے چھوڑ کر خاص کمیونٹی کو نشانہ بنایا جارہا ہے، ایک طرف پوری پلاننگ کے ساتھ خاندان کے خاندان کو ہندو بنانے کا عمل جاری ہے تو وہیں دوسری جانب مسلم لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر ان کو اسلام سے پھیرنے کا سلسلہ زور پکڑنے لگا ہے۔ مسلم نوجوانوں کو لو جہاد کی آڑ میں پکڑا جارہا ہے اور مسلم اعلی تعلیم یافتہ اور معروف شخصیتوں کو ہندو لڑکیوں کی محبت میں پھنساکر ان کا دین دھرم خراب کیا جارہا ہے۔ ہندوستان میں ایسا پہلے سے ہی ہوتا آرہا تھا؛ لیکن ۲۰۱۴ کے بعد اس میں شدت آگئی ہے۔ بھگوائیوں کے لوٹرپ کا نشانہ بننے والی مسلم لڑکیوں کی زندگی ہی اگر عبرت کے لیے پیش کی جائے تو یہ کافی ہے؛ لیکن عشق و محبت کے جال میں پھنسی، بنیادی دینی تعلیم سے دور دوشیزاؤں کو یہ سمجھ میں نہیں آتا؛ لیکن جب خود پر بیتتی ہے تو جب تک وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ حال میں ارتداد کے واقعات اتنی تیزی اور شدت سے بڑھتے جارہے ہیں کہ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو مسلمانوں کو مستقبل میں انتہائی تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ بھگوائی ہر محاذ پر سرگرم ہیں؛ لیکن ہم مسلمان صرف ایک دوسرے کو کافر ایک دوسرے پر طعنہ زنی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے کو نااہل ثابت کرنے میں لگے ہیں۔ بھگوائیوں کا حوصلہ اتنا بڑھا ہوا ہے کہ وہ ٹرینوں سے مسلم دوشیزاوں کو اغوا کررہے ہیں، ان کے ساتھ آگے کیا ہوتا ہوگا یہ سوچ کر ذہن کانپ جاتا ہے۔ بھگوائی مرد ہی نہیں عورتیں بھی میدان میں نکلی ہوئی ہیں اور مسلم خواتین کو اپنی دوستی کے سہارے ان کی عصمت و عفت تار تار کرکے انہیں بے دست و پاکررہی ہیں۔ گزشتہ روز ایک واقعہ ہوا کہ ایک خاتون نے اپنی مسلم سہیلی کو اپنے گھر مدعو کرکے مشروب پینے کو دیا، جس میں نشہ آور چیز تھی، وہ مشروب پیتے ہی بے ہوش ہوگئی، اس کے بعد اس خاتون نے مسلم خاتون کی اپنے بیٹے اور اس کے دوستوں سے عصمت دری کروائی۔ اللہ کی پناہ۔۔۔۔ان سب واقعات سے دل رنجور ہے، دل دہل جاتا ہے، آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں کچھ ایسے بھی واقعات گردش کررہے ہیں کہ 'غیر مسلم لڑکے بے غیرت مسلم دلالوں کو پیسے دے کر غریب مسلم لڑکیوں سے ان کے اہل خانہ کو دھوکہ میں رکھ کر شادی کر رہے ہیں'۔ بلکہ ایسی بھی خبریں ہیں کہ ان بھگوائیوں کو مسلم لڑکیوں سے شادی کرنے پر لاکھوں کا انعام دیاجاتا ہے اور ان کے رہن سہن کا تنظیمیں خرچ بھی برداشت کرتی ہیں۔
ایک طرف تو وہ مکمل تیاری میں ہیں اور دوسری طرف ہم بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواب غفلت میں مدہوش ہیں۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کی اکثریت یہ سوچ کر ان واقعات کو بھلاکر آگے نکل جاتی ہے کہ ہماری بچیاں ایسا نہیں کرسکتی ہیں، ہماری بچیاں بھاگ کر شادی نہیں کرسکتیں، ہماری بچیاں ہندو لڑکوں کی محبت میں گرفتار نہیں ہوسکتیں۔ اتنا بتادوں کہ جو لڑکیاں گرفتار ہوئی ہیں ان کے والدین بھی کبھی ایسا ہی سوچتے رہے ہوں گے؛ لیکن آج ان جو پر بیت رہی ہے اسے ہم نظر انداز کررہے ہیں اور سبق نہیں لے رہے۔ میں اس سے پہلے بھی کئی مضامین اس سلسلے میں لکھ چکا ہوں جب تکلیف کا احساس اور حالیہ واقعات پر نظر پڑتی ہے تو پھر لکھنے کو مجبور ہوجاتا ہوں کہ شاید کسی لڑکی کے والدین کو سمجھ میں آجائے، کسی مسلم دوشیزہ کی سمجھ میں آجائے کہ وہ کیا کررہی ہے اور کہاں جارہی ہے، محبت کے نام پر اپنے دین حنیف سے رشتہ توڑ رہی ہے اور والدین تعلیم کے نام پر اپنی بیٹیوں کو آزاد چھوڑ رہے ہیں، ان کی کوئی گرفت نہیں کرتے؛ لیکن جب معاملہ حد سے بڑھ جاتا ہے تو خون کے آنسو روتے ہیں۔
۲۰۱۴ کے بعد ہی بھگوا تنظیموں نے اعلان کیا تھا اور ایک حد مقرر کی تھی وہ حد صرف یوپی کی تھی کہ ہم اتنی تعداد میں مسلم لڑکیوں کو بہو بنائیں گی وہ حد کب کی پوری ہوچکی ہے اور صرف یوپی ہی نہیں بہار، بنگال، جھارکھنڈ، گجرات و مہاراشٹر سمیت پورے ملک میں اب ارتداد کی لہر ہے، بڑی تعداد میں مسلم لڑکیاں ہندو بن رہی ہیں، بڑی تعداد میں گھر اجڑ رہے ہیں کنواری لڑکیوں کے ساتھ ساتھ شادی شدہ مسلم خواتین بھی اپنے شوہر کے ساتھ بے وفائی کرتے ہوئے دامن کفر میں جارہی ہیں۔ ہم ان سب واقعات کے لیے کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتے، کسی تنظیم کو لعن طعن نہیں کرتے، نہ جدید تعلیم کا اسے شاخسانہ قرار دیتے ہیں؛ لیکن یہ اپیل ضرور کرتے ہیں کہ خدارا جلد اس ضمن میں سوچیں اپنی بچیوں کو بچائیں۔۔۔۔خدارا جلد اس پر قابو پائیں اور ان کو ارتداد سے محفوظ رکھیں؛ ورنہ اس تاریک دن کے لیے تیار رہیں جب آپ کی بیٹیاں بڑی تعداد میں کافر بچوں کو جنم دیں گی اور وہ بچے کفر کا دامن تھامے آپ سے اشتعال انگیزی کرتے ہوئے کہیں آپ کی لنچنگ کررہے ہوں گے، کہیں آپ کی بچی ہوئی لڑکیوں کی عصمت دری، تو کہیں ٹرین سے اغوا کرکے اسے نشانہ بنا رہے ہوں گے۔ اب بھی وقت ہے ملی تنظیمیں، والدین اور خود ہر مسلمان اس پر غور کرے اور اس کے سدد باب کے لیے تال میل کے ساتھ انتہائی منظم طور پر اس آندھی کو روکنے کی ہم سب کوشش کریں، اللہ ہماری ماؤں، بہنوں کی عصمت و عفت کی حفاظت فرمائے اور انہیں ارتداد سے بچائے رکھے۔۔۔آمین

عادل آباد سے ایک 35 سالہ نوجوان 31 جولائی 2021 بروز ہفتہ سے لاپتہ ہے
(اردو اخبار دنیا)عادل آباد _ عادل آباد سے ایک 35 سالہ نوجوان 31 جولائی 2021 بروز ہفتہ سے لاپتہ ہے۔افراد خاندان کی اطلاعات کے مطابق شہر مستقر عادل آباد کے محلہ پنجہ شاہ سے تعلق رکھنے والا 35 سالہ سہیل خان نامی نوجوان 31 جولائی 2021 ہفتہ کی صبح سے لاپتہ بتایا گیا ہے۔ہفتہ کی صبح اہلیہ کو کسی کام سے باہر جانے کی اطلاع دیکر روانہ ہوا تھا۔تاہم ہفتہ اور اتوار دو دن کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی گھر واپس نہیں لوٹا۔پیشہ سے ہیرو ہونڈا شوروم میں اکاؤنٹنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتا ہے۔فون بھی بند بتایا جارہا ہے۔اچانک شادی شدہ نوجوانوں کے لاپتہ ہونے سے افراد خاندان صدمے میں ہے۔اور گمشدہ نوجوان کو تلاش کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔افراد خاندان نے عوام سے گمشدہ شخص نظر آنے پر درج ذیل فون نمبرات پر اطلاع دینے کی اپیل کی ہے۔7036764286/9985663432

نئی دہلی:جیساکہ بھارت اگست کے مہینے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل

لکھنو: سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے صدر و سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے کہا کہ بی جے پی حکومت میں آئینی اداروں کی معتبریت کو ختم کیا جا رہا ہے۔
(اردو اخبار دنیا)لکھنو: سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے صدر و سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے کہا کہ بی جے پی حکومت میں آئینی اداروں کی معتبریت کو ختم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے اقتدار کی طاقت پر سرکاری مشنری کو اپنا انتخابی ایجنڈا بنا لیا ہے۔ عوامی منڈیٹ کا غلط استعمال کر کے اس نے جمہوریت کی شفافیت کو مشتبہ کردیا ہے۔ سال 2022 کا یو پی اسمبلی انتخاب ملک کو بچانے کا ہے۔ آئینی اداروں پر ہو رہے حملوں سے گہری ناامید پھیل رہی ہے۔ ان حالات میں عوام کا اعتماد سماج وادی پارٹی پر بڑھ رہا ہے۔
کسانوں سے پنگا کہیں مہنگا نہ پڑ جائے یوگی جی!...سہیل انجم
اکھلیش یادو نے کہا کہ حکومت پبلک شیم اور بھروسے سے چلتی ہے۔ منتخب حکومتوں کو جواب دہ ہونا چاہئے۔ لیکن بی جے پی حکومت اس ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کرتی ہے۔ حکومت کی ذمہ داری کے تئیں اس کی مایوسی جگ ظاہر ہے۔ اچھے دن کے نام پر عوام کو گمراہ کرنا ہی بی جے پی کی پالیسی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری ایجنسیوں کا غلط استعمال کر کے اپوزیشن لیڈروں کو رسوا کرنے کی سازش بی جے پی حکومت کے اشارے پر لگاتار کی جا رہی ہے۔ حال ہی میں ختم ہوئے پنچایت انتخابات میں پولیس۔ انتظامیہ کے ذریعہ جس طرح کی ہراسانی ہوئی ہے وہ جمہوریت کے لئے خطرہ ہے۔ انتخابی عمل میں الیکشن کمیشن کا کردار حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے تک محدود ہوتا جا رہا ہے جو کہ غیر مناسب ہے۔
جمعیۃ بلاتفریق مذہب و ملت مہاراشٹر سیلاب متاثرین کے ساتھ ہے: مولانا ارشد مدنی
ایس پی سربراہ نے کہا کہ سیاست کی پاکیزگی کو بی جے پی نے متاثر کیا ہے۔ سماج وادی پارٹی تحریک نے ہمیشہ ناانصافی کے خلاف ڈٹ کر مورچہ لیا ہے۔ سماج کے آخری میدان میں کھڑے شخص کی نمائندگی اور حقوق دلانے میں سماج وادی سب سے آگے ہے۔ ملک اور ریاست میں آمر شاہی طاقتوں کو کمزور کرنے کے لئے سماج وادی پالیسیاں ہی کارگر ہیں۔ ایسے میں ان کی پارٹی کو مضبوط کر کے ہی ریاست میں خوشحالی اور ترقی لائی جاسکتی ہے

امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر یہ پہلی کتاب ہے جو بحمد اللہ مکمل ہوئی
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر یہ پہلی کتاب ہے جو بحمد اللہ مکمل ہوئی۔ شاہ جی کے افکار، کردار اور ان کی سحرانگیز شخصیت نے جتنا متاثر کیا کم ہی کسی نے کیا ہوگا۔شاہ جی کی شخصیت میں عجیب طرح کی سحرانگیزی ہے، نظریات میں تحریک،کردار و گفتار،فکر و عمل میں حساسیت،معنویت اور جذبات میں بلا کا تلاطم ہے، احساسات میں خلوص و صداقت ہے، فقر و درویشی میں وہ بے نیازی ہے جو بڑے بڑے اساطین و سلاطین کو بھی کم نصیب ہوتی ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ 'شاہ جی کا اصل میدان خطابت ہے'۔ان کی خطابت جوش و جذبہ،صداقت سے معمور لہجہ،سرمایہ ملت کی نگہبانی کا ولولہ انگیز عزم،ملت اسلامیہ کے شاندار ماضی سے موازنے کی صورت، حال کی رائگانی کا غم،اور اس کے ساتھ ملت اسلامیہ کے مستقبل کی تعمیر کی فکر،کے بنیادی اوصاف علاوہ دیگر ایسے انوکھے عناصر سے معمور ہے جن کی بنا پر انہیں برصغیر کے خطابت کے ائمہ اربعہ میں ایک شمار کیا گیا ہے،شاہ جی کی خطیبانہ شان کی انفرادیت پر قدرے تفصیلی بحث اس کتاب میں شامل ہے۔لیکن حق یہ ہیکہ شاہ جی کی زمینی سطح پر کی جانے والی جد و جہد،اور عملی سرگرمیاں جو ان کی پوری عمر کے دوتہائی حصے پر محیط ہیں،اس امر کی نفی کرتی ہیں کہ شاہ جی نے خطابت کو اصل میدان بنایا تھا۔
شاہ جی سراپا تحریکی شخصیت کے مالک تھے، اس لئے انگریزی حکومت کی نگاہوں میں کھٹکتے رہے۔ "مجلسِ احرار اسلام" کا قیام اور اہل مجلس کی دینی،سماجی،اورسیاسی خدمات ایک ایسا مستقل عنوان ہے جس پر تفصیل سے باقاعدگی کے ساتھ مطالعہ ناگزیر ہے۔ شاہ جی کے ان گنت کارنامے ہیں۔ ان کے کارناموں میں بڑا کارنامہ"فتنہ مرزائیت" کی سرکوبی کو قرار دیا جاسکتا ہے،جس میں یقیناً ان کی تحریک کا حصہ بہت نمایاں ہے۔ ایسا فتنہ جو ملت اسلامیہ کی بچی کھچی "روح" پر موت کے مہیب سایے کی طرح منڈلا رہا تھا،اور قریب تھا کہ بہت سے علاقے خصوصاً کشمیر پر سایہ فگن ہوکر وہاں کی ایمانی فضا کو الحاد و انکار نبوت کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں ڈبو لیتا، مگر شاہ جی کی بروقت کاروائیوں نے مرزائی دسیسہ کاریوں کا پردہ چاک کیا۔ کتاب میں اس پر تفصیلی بحث موجود ہے،قادیانیت کے سلسلے میں شاہ جی کی مساعی کو مصنف نے اس قدر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ دوران قراءت بسا اوقات اس کتاب پر رد قادیانیت کے طویل لٹریچر کا گمان ہونے لگتا ہے،اور اندیشہ ہوتا ہے کہ قاری کہیں کتاب کے مطالعے سے اکتا جائے، یا اس بحث کو چھوڑ کر گزر جائے۔
شاہ جی کے دیگر بہت سے کارناموں میں ایک نمایاں کارنامہ یہ تھا کہ وہ انگریزی حکومت کے بے باک کھلے دشمن تھے،اسی کا نتیجہ تھا کہ کلکتہ سے پنجاب تک اس حکومت کی بدنیتی، اہل ملک کے تئیں اس حکومت کے ناپاک عزائم،اور ملت اسلامیہ پر اس کے تباہ کن اثرات و نتائج، کو ایسے ولولہ انگیز پیرائے میں بیان کرتے رہے کہ کیا ہندو کیا مسلمان، ہندوستان کا بچہ بچہ انگریزوں سے نفرت کرنے لگا، ان کے خطابات نے انگریزی حکومت کو ظالم سفاک اور غاصب باور کرانے، ان کے خلاف ملک بھر میں احتجاج، مزاحمت اور نفرت کی آگ لگانے میں بہت اہم کردار ادا کیا،انہی سرگرمیوں کا نتیجہ تھا کہ شاہ جی متعدد بار ملک کے مختلف زندانوں میں نظر بند کیے گئے،عمر کا ایک معتد بہ حصہ انہوں نے جیلوں میں سزا کاٹتے ہوئے گزارا۔شاہ جی کے زنداں میں کاٹے ہوئے شب و روز کے احوال بھی بڑی دل چسپی کے حامل ہیں، کتاب میں یہ روئیداد بھی مختصراً شامل ہے۔
شاہ جی کی سیاسی زندگی کے بھی مختلف ادوار اور متنوع پس منظر ہیں،خلافت تحریک میں انکی حصّہ داری،کانگریس سے ان کے تعلق کی ابتدا،کانگریس سے اختلاف کی بنیاد،مسلم لیگ اور شاہ جی کے درمیان نسبت،لیگ کی مخالفت کے اسباب،مجلس احرار کا قیام ،شاہ جی کے احباب کی مجلس سے علیحدگی کے اسباب، مجلس کی سیاسی سرگرمیاں،نیز ان عوامل کا تجزیہ جن کے پیش نظر مجلس اپنا سیاسی وقار و حیثیت کھو بیٹھی،مجلس کے تئیں اپنوں کے ناعاقبت اندیشانہ رویے اور غیروں کی بداندیشیاں،ان سب چیزوں پر مصنف نے بہت عالمانہ تبصرہ فرمایاہے،جس سے ایک طرف شاہ جی کی "مجلسِ احرار" کی ایک واضح حیثیت متعین ہوتی ہے،اور اس کی متوازن تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے،وہیں تحریک اور شاہ جی کے تئیں بے جا مبالغہ آمیز تعریفوں کی قلعی کھلتی ہے،ساتھ ہی مجلسِ احرار اور شاہ جی پر لگے الزامات کی تردید بھی ہوتی ہے،مصنف نے محققانہ بالغ نظری اورمجتہدانہ بصیرت سے معاملات کو دیکھنے کی کوشش کی ہے،وہ کسی دوسرے کی رائے نقل کرنے یا مستعار زاویہ نگاہ سے واقعات کو دیکھنے کے بجائے اپنے منفرد زاویے سے اس طرح دیکھتے اور تجزیہ کرتے ہیں کہ قاری کا ذہن اصل حقائق تک بآسانی پہنچ جاتا ہے۔
غرض شاہ جی کی شخصیت کے بے شمار گوشے ہیں اور خوبی یہ کہ ہر گوشہ ایسا متاثر کن ہے کہ ایک دنیا اس پر مرمٹنے کو تیار ہے،اس پر مستزادشورش کاشمیری کے قلم نے کہانی کا لطف دوبالا کردیا ہے،شورشں کاشمیری کی یہ قلمی کاوش اس لئے بھی اہم ہے انہوں نے شاہ جی کی مصاحبت میں جو قیمتی وقت گزار کر ان کی شخصیت کے مختلف گوشوں کو جس طرح دیکھا، انہیں بے کم و کاست بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ گویا شورش کاشمیری،کی حیثیت لب دریا کھڑے ہوکر ساحل کا نظارہ کرنے والے مصور کی نہیں،جو اندرون دریا برپا ہونے والی قیامت خیز طغیانی و تلاطم کی تصویر کشی کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے،بلکہ ان کا مقام خود اس کاروان عزیمت کے راہ روؤں میں نمایاں کردار کے حامل ایک کفن بردوش راہی کا ہے،جو پیش آمدہ احوال و وقائع کا چشم دید ہوتا ہے، ان کی یہ قلمی کاوش اس لئے بھی بہت معتبر ہے کہ اس کا تعلق ایسی شخصیت سے ہے جس سے برصغیر کی عظیم تاریخ وابستہ ہے۔
اہم ترین نوٹ: بڑی ناسپاسی ہوگی اگر سرحد پار کے باصلاحیت و محترک رفیق، نوراللہ فارانی کا تذکرہ نہ کیا جائے جو شاہ جی پر لکھنے پڑھنے والے "ماہرین" میں اولین صف میں شامل ہیں،انہوں نے شاہ جی کی شخصیت کے مختلف گوشوں پر لکھا ہے اور حق ادا کردیا ہے،اس کے لیے وہ بجا طور پر خراج تحسین کے مستحق ہیں ۔ مجھے اس کتاب کے مطالعے کی تحریک انہی سے ہوئی۔فجزاہ اللہ خیر الجزاء۔

اردودنیانیوز۷۲
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے! Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...
-
ٹرین میں ناری شکتی پردرشن Urduduniyanews72 عالمی یوم خواتین سے سبھی واقف ہیں، یہ ہرسال مارچ کی آٹھویں تاریخ کوپوری دنیا میں من...
-
گستاخ نبی کی قرآنی سزا اردودنیانیوز۷۲ مکہ میں سب سے پہلےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنےوالا کوئی اور نہیں بل...
-
یہ بیماری نہیں عذاب الہی ہے ! Urduduniyanews72 سی این این یہ امریکی نشریاتی ادارہ ہے،اس کی ایک رپورٹ جسے ملک کے اکثر اخبارات ...
-
بچیوں کی تربیت: ایک اہم ذمہ داری Urduduniyanews72 1. بچیوں کی تربیت کی اہمیت بچیوں کی تربیت ایک معاشرتی فریضہ ہے۔ ایک اچھی تربی...
-
مدارس اسلامیہ کنونشن میں منظور شدہ تجاویز اردودنیانیوز۷۲ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھن...
-
ملکِ ہند میں اسلامی انگریزی اسکول: وقت کی اہم ضرورت Urduduniyanews72 ہندوستان میں مسلمان قوم کا شمار ملک کی سب سے بڑی اقلیت میں...
-
نئے سال کا آغاز: ایک نیا سفر Urduduniyanews72 نیا سال ایک نیا آغاز، ایک نئی امید اور نئی جدوجہد کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ دن نہ...
-
پیام انسانیت کے وفد کا سیمانچل دورہ Urduduniyanews72 Urduduniyanews72 @gmail.com ملک میں ایک ایسی تحریک جو خالص انسانی بنیاد پ...
-
سنبھل میں کرفیو کی ایک رات ) * انس مسرورانصاری Urduduniyanews72 رات آئی تو خوف کا عفریت...
-
خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ دربہنگہ، بہار کی دینی و عصری تعلیم اور اصلاحی خدمات۔ Urduduniyanews72 تعارف: خنساء اسلامک انگلش ...