امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر یہ پہلی کتاب ہے جو بحمد اللہ مکمل ہوئی۔ شاہ جی کے افکار، کردار اور ان کی سحرانگیز شخصیت نے جتنا متاثر کیا کم ہی کسی نے کیا ہوگا۔شاہ جی کی شخصیت میں عجیب طرح کی سحرانگیزی ہے، نظریات میں تحریک،کردار و گفتار،فکر و عمل میں حساسیت،معنویت اور جذبات میں بلا کا تلاطم ہے، احساسات میں خلوص و صداقت ہے، فقر و درویشی میں وہ بے نیازی ہے جو بڑے بڑے اساطین و سلاطین کو بھی کم نصیب ہوتی ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ 'شاہ جی کا اصل میدان خطابت ہے'۔ان کی خطابت جوش و جذبہ،صداقت سے معمور لہجہ،سرمایہ ملت کی نگہبانی کا ولولہ انگیز عزم،ملت اسلامیہ کے شاندار ماضی سے موازنے کی صورت، حال کی رائگانی کا غم،اور اس کے ساتھ ملت اسلامیہ کے مستقبل کی تعمیر کی فکر،کے بنیادی اوصاف علاوہ دیگر ایسے انوکھے عناصر سے معمور ہے جن کی بنا پر انہیں برصغیر کے خطابت کے ائمہ اربعہ میں ایک شمار کیا گیا ہے،شاہ جی کی خطیبانہ شان کی انفرادیت پر قدرے تفصیلی بحث اس کتاب میں شامل ہے۔لیکن حق یہ ہیکہ شاہ جی کی زمینی سطح پر کی جانے والی جد و جہد،اور عملی سرگرمیاں جو ان کی پوری عمر کے دوتہائی حصے پر محیط ہیں،اس امر کی نفی کرتی ہیں کہ شاہ جی نے خطابت کو اصل میدان بنایا تھا۔
شاہ جی سراپا تحریکی شخصیت کے مالک تھے، اس لئے انگریزی حکومت کی نگاہوں میں کھٹکتے رہے۔ "مجلسِ احرار اسلام" کا قیام اور اہل مجلس کی دینی،سماجی،اورسیاسی خدمات ایک ایسا مستقل عنوان ہے جس پر تفصیل سے باقاعدگی کے ساتھ مطالعہ ناگزیر ہے۔ شاہ جی کے ان گنت کارنامے ہیں۔ ان کے کارناموں میں بڑا کارنامہ"فتنہ مرزائیت" کی سرکوبی کو قرار دیا جاسکتا ہے،جس میں یقیناً ان کی تحریک کا حصہ بہت نمایاں ہے۔ ایسا فتنہ جو ملت اسلامیہ کی بچی کھچی "روح" پر موت کے مہیب سایے کی طرح منڈلا رہا تھا،اور قریب تھا کہ بہت سے علاقے خصوصاً کشمیر پر سایہ فگن ہوکر وہاں کی ایمانی فضا کو الحاد و انکار نبوت کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں ڈبو لیتا، مگر شاہ جی کی بروقت کاروائیوں نے مرزائی دسیسہ کاریوں کا پردہ چاک کیا۔ کتاب میں اس پر تفصیلی بحث موجود ہے،قادیانیت کے سلسلے میں شاہ جی کی مساعی کو مصنف نے اس قدر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ دوران قراءت بسا اوقات اس کتاب پر رد قادیانیت کے طویل لٹریچر کا گمان ہونے لگتا ہے،اور اندیشہ ہوتا ہے کہ قاری کہیں کتاب کے مطالعے سے اکتا جائے، یا اس بحث کو چھوڑ کر گزر جائے۔
شاہ جی کے دیگر بہت سے کارناموں میں ایک نمایاں کارنامہ یہ تھا کہ وہ انگریزی حکومت کے بے باک کھلے دشمن تھے،اسی کا نتیجہ تھا کہ کلکتہ سے پنجاب تک اس حکومت کی بدنیتی، اہل ملک کے تئیں اس حکومت کے ناپاک عزائم،اور ملت اسلامیہ پر اس کے تباہ کن اثرات و نتائج، کو ایسے ولولہ انگیز پیرائے میں بیان کرتے رہے کہ کیا ہندو کیا مسلمان، ہندوستان کا بچہ بچہ انگریزوں سے نفرت کرنے لگا، ان کے خطابات نے انگریزی حکومت کو ظالم سفاک اور غاصب باور کرانے، ان کے خلاف ملک بھر میں احتجاج، مزاحمت اور نفرت کی آگ لگانے میں بہت اہم کردار ادا کیا،انہی سرگرمیوں کا نتیجہ تھا کہ شاہ جی متعدد بار ملک کے مختلف زندانوں میں نظر بند کیے گئے،عمر کا ایک معتد بہ حصہ انہوں نے جیلوں میں سزا کاٹتے ہوئے گزارا۔شاہ جی کے زنداں میں کاٹے ہوئے شب و روز کے احوال بھی بڑی دل چسپی کے حامل ہیں، کتاب میں یہ روئیداد بھی مختصراً شامل ہے۔
شاہ جی کی سیاسی زندگی کے بھی مختلف ادوار اور متنوع پس منظر ہیں،خلافت تحریک میں انکی حصّہ داری،کانگریس سے ان کے تعلق کی ابتدا،کانگریس سے اختلاف کی بنیاد،مسلم لیگ اور شاہ جی کے درمیان نسبت،لیگ کی مخالفت کے اسباب،مجلس احرار کا قیام ،شاہ جی کے احباب کی مجلس سے علیحدگی کے اسباب، مجلس کی سیاسی سرگرمیاں،نیز ان عوامل کا تجزیہ جن کے پیش نظر مجلس اپنا سیاسی وقار و حیثیت کھو بیٹھی،مجلس کے تئیں اپنوں کے ناعاقبت اندیشانہ رویے اور غیروں کی بداندیشیاں،ان سب چیزوں پر مصنف نے بہت عالمانہ تبصرہ فرمایاہے،جس سے ایک طرف شاہ جی کی "مجلسِ احرار" کی ایک واضح حیثیت متعین ہوتی ہے،اور اس کی متوازن تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے،وہیں تحریک اور شاہ جی کے تئیں بے جا مبالغہ آمیز تعریفوں کی قلعی کھلتی ہے،ساتھ ہی مجلسِ احرار اور شاہ جی پر لگے الزامات کی تردید بھی ہوتی ہے،مصنف نے محققانہ بالغ نظری اورمجتہدانہ بصیرت سے معاملات کو دیکھنے کی کوشش کی ہے،وہ کسی دوسرے کی رائے نقل کرنے یا مستعار زاویہ نگاہ سے واقعات کو دیکھنے کے بجائے اپنے منفرد زاویے سے اس طرح دیکھتے اور تجزیہ کرتے ہیں کہ قاری کا ذہن اصل حقائق تک بآسانی پہنچ جاتا ہے۔
غرض شاہ جی کی شخصیت کے بے شمار گوشے ہیں اور خوبی یہ کہ ہر گوشہ ایسا متاثر کن ہے کہ ایک دنیا اس پر مرمٹنے کو تیار ہے،اس پر مستزادشورش کاشمیری کے قلم نے کہانی کا لطف دوبالا کردیا ہے،شورشں کاشمیری کی یہ قلمی کاوش اس لئے بھی اہم ہے انہوں نے شاہ جی کی مصاحبت میں جو قیمتی وقت گزار کر ان کی شخصیت کے مختلف گوشوں کو جس طرح دیکھا، انہیں بے کم و کاست بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ گویا شورش کاشمیری،کی حیثیت لب دریا کھڑے ہوکر ساحل کا نظارہ کرنے والے مصور کی نہیں،جو اندرون دریا برپا ہونے والی قیامت خیز طغیانی و تلاطم کی تصویر کشی کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے،بلکہ ان کا مقام خود اس کاروان عزیمت کے راہ روؤں میں نمایاں کردار کے حامل ایک کفن بردوش راہی کا ہے،جو پیش آمدہ احوال و وقائع کا چشم دید ہوتا ہے، ان کی یہ قلمی کاوش اس لئے بھی بہت معتبر ہے کہ اس کا تعلق ایسی شخصیت سے ہے جس سے برصغیر کی عظیم تاریخ وابستہ ہے۔
اہم ترین نوٹ: بڑی ناسپاسی ہوگی اگر سرحد پار کے باصلاحیت و محترک رفیق، نوراللہ فارانی کا تذکرہ نہ کیا جائے جو شاہ جی پر لکھنے پڑھنے والے "ماہرین" میں اولین صف میں شامل ہیں،انہوں نے شاہ جی کی شخصیت کے مختلف گوشوں پر لکھا ہے اور حق ادا کردیا ہے،اس کے لیے وہ بجا طور پر خراج تحسین کے مستحق ہیں ۔ مجھے اس کتاب کے مطالعے کی تحریک انہی سے ہوئی۔فجزاہ اللہ خیر الجزاء۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں