Powered By Blogger

منگل, اگست 03, 2021

فیروزآباد کا نام تبدیل کر کے چندرا نگر رکھنے کی تجویز اگست 3, 2021

  • 0
    Shares

فیروزآباد:02اگست(اردو اخبار دنیا)ریاست میں اسمبلی انتخابات کے انعقاد سے 6مہینے عین قبل فیروزآباد ضلع پریشد نے ضلع کا نام تبدیل کر کے چندرا نگر رکھنے کی تجویز پیش کی ہے۔پریشد نے نام تبدیل کئےجانے کی وجہ بتایا ہے کہ موجود نام مغل بادشاہ اکبر کے ذریعہ اپنے فوجی افسر فیروز شاہ کے اعزاز میں رکھا گیا تھا۔

ضلع کے نام کو تبدیل کرنے کی تجویز صدر سے بلاک پرمکھ لکشمی نارائن یادو نے پیش کی ہے۔انہوں نے کہا کہ فیروزآباد کا قدیم نام چندوار نگر تھا اور اس طرح اب اسے تبدیل کر کے چندرا نگر کیا جانا چاہئے۔اس تجویز کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا اور اب اسے ریاستی حکومت کو بھیجا جائے گا تاکہ تبدیل شدہ نام کو آفیشیل گزٹ میں شائع کر کے اسی حتمی شکل دیا جاسکے۔

سماج وادی پارٹی لیڈر دلیپ تیاگی نے دعوی کیا ہے کہ یہ اتفاق رائے سے کیا گیا فیصلہ نہیں ہے۔بلکہ بی جے پی ممبر اس تجویز کو اس وقت لائے جبکہ اپوزیشن کا کوئی بھی ممبر وہاں موجود نہیں تھا۔ہمیں اس کی اطلاع اس وقت ہوئی جب اسے پاس کردیا گیا۔انہوں نے دعوی کیا کہ تین پارٹیاں ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس نے اس تجویز پر سوال اٹھائے ہیں۔
کانگریس ضلع صدر سندیپ تیواری نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ حکمراں جماعت کے ممبران شہری سہولیات میں اضافہ کئے جانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔شہر کی سڑکوں پر گڑھے ہی گڑھے ہیں اور پانی و بجلی سپلائی کا برا حال ہے۔لیکن ان تمام مسائل پر توجہ دینے کے بجائے بی جے پی ضلع کا نام تبدیل کر کے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے کیونکہ اسمبلی انتخابات اک دم قریب ہیں۔
فیروزآباد کی آفیشیل ویب سائٹ پر ضلع انتظامیہ نے لکھا ہے کہ’ فیروزآباد کا پورانا نام چندوار نگر تھا۔اسے فیروزآباد کا نام مغل سلطنت کے زمانے میں فوجی افسر فیروزشاہ نے 1566 میں دیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ راجہ تودر مل اس شہر سے گزر رہے تھے کہ انہیں ڈاکیو نے لوٹ لیا ان کی درخواست پر اکبر نے فیروزشاہ کو یہاں بھیجا تھا۔فیروزشاہ مقبرہ اور کٹرا پٹھانن کے کھنڈرات اس کے گواہ ہیں۔

اے ایم یو پروفیسر و معروف تاریخ داں عرفان حبیب نے دعوی کیا کہ فیروزآباد کا قدیم نام چندوار نگر تھا اسے ثابت کرنے کے لئے کوئی بھی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔فیروزآباد کا نام فیروزشاہ تغلق کے زمانے میں آیا۔یہ دعوی کہ اکبر نے فیروزآباد نام رکھا تھا یہ بھی غلط ہے۔قابل ذکر ہے کہ یوگی حکومت اس سے پہلے الہ آباد کا نام تبدیل کر کے پریاگ راج،فیض آباد کا اجودھیا اور مغل سرائے کا دین دیال اپادھیائے نگر کرچکی ہے۔


ہائی کورٹ نے حکومت سے دریافت کیا ہے کہ کہ ڈاکٹر کفیل کو چار سال سے کیوں معطل رکھا گیا ہے

پریاگ راج ، 02 اگست (اردو اخبار دنیا) الہ آباد ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت سے دریافت کیا ہے کہ گورکھپور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج کے ڈاکٹر کفیل احمد خان کو چار سال سے معطل کیوں رکھا گیا ہے۔

اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی محکمانہ کارروائی مکمل کیوں نہیں ہو سکی؟ عدالت نے حکومت سے اس حوالے سے 5 اگست تک جواب طلب کیا ہے۔جسٹس یشونت ورما نے یہ حکم دیا۔درخواست گزار ڈاکٹر خان کا کہنا ہے کہ انہیں 22 اگست 2017 کو اسپتال میں آکسیجن سپلائی کیس کے سلسلے میں معطل کیا گیا تھا۔ اسے معطل کر کے تفتیش کی گئی۔ کارروائی مکمل نہ ہوتے دیکھ کر اس نے ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ 7 مارچ 2019 کو عدالت نے تین ماہ میں کارروائی مکمل کرنے کی ہدایت دی۔ جس پر 15 اپریل 2019 کو رپورٹ پیش کی گئی ہے۔ اس میں 11 ماہ کے بعد 24 فروری 2020 کو تحقیقاتی رپورٹ کو قبول کرنے کے بعد دو نکات پر دوبارہ جانچ کا حکم دیا گیا۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ وہ چار سال سے انصاف کے لیے بھٹک رہا ہے۔ اس کے معاملے میں جو بھی فیصلہ کرنا ہے افسر کو فیصلہ کرنا چاہیے۔ لیکن تفتیش کی التوا کے نام پر معاملے کو چار سال تک لٹکانا غیر معقول ہے۔ عدالت نے حکومت سے اس معاملے میں 5 اگست کو جواب طلب کیا ہے۔

ترکی کے آسمان پر جلتا ہوا گولہ، کیا کسی میزائل اور سیٹلائٹ میں تصادم ہوا؟

انقرہ، 2 اگست (اردو اخبار دنیا)ترکی کے آسمان پر جلتے بھڑکتے سبز رنگ کے شہاب ثاقب نے خوف کی لہر دوڑا دی اور لوگ اسے اڑن طشتری سمجھ بیٹھے۔بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ترکی کے شہر ازمیر میں گزشتہ رات 2 بجے آسمان پر سبز رنگ کا جلتا ہوا گولہ دیکھا گیا جس کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں۔ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ آسمان سے ایک گولہ تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا لیکن اچانک اس میں سبز رنگ کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور آسمان پر سبز رنگ چھا جاتا ہے۔

 

یوزر نے کہا ہے کہ یہ شاید کوئی اڑن طشتری تھی جو بے قابو ہوگئی، کچھ افراد نے تبصرہ کیا کہ یہ کوئی میزائل تھا جو کسی سیٹلائٹ سے جا ٹکرایا ہے۔تاہم سوشل میڈیا پر ہی آسٹرو فزکس کے ایک پروفیسر نے اس کی وضاحت کردی۔پروفیسرنے کہا کہ خلا سے برسنے والے ٹکڑے اکثر زمین کی فضا میں داخل ہونے سے پہلے ہی جل جاتے ہیں اور یہ بھی انہی میں سے ایک تھا، جو ٹکڑا صحیح سلامت زمین پر گر جائے اسے شہاب ثاقب کہا جاتا ہے۔

پروفیسر کے مطابق ہر سال جولائی اور اگست میں خلا سے پتھروں کی بارش ہوتی ہے اور فی گھنٹہ 50 شہاب ثاقب کے ٹکڑے زمین کی طرف گرتے ہیں لیکن زیادہ تر زمین کی فضا میں داخل ہونے سے پہلے ہی جل کر بھسم ہوجاتے ہیں۔پروفیسر کی اس وضاحت کے بعد خوفزدہ شہریوں کی کچھ تسلی ہوئی اور وہ پرسکون ہوئے

پیر, اگست 02, 2021

ممبئی۔ ۲؍اگست: (خان افسر قاسمی) مہاراشٹر میں لاک ڈائون پابندیوں پر اب نرمی کی گائیڈ لائن جاری کی گئی ہے بریک دی چین کے تحت ریاست کے ۲۲ اضلاع کے تاجروں کےلیے یہ بڑی خبر ہے ان ۲۲ اضلاع میں رات ۸ بجے تک دکانیں کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔

(اردو اخبار دنیا)ممبئی۔ ۲؍اگست: (خان افسر قاسمی) مہاراشٹر میں لاک ڈائون پابندیوں پر اب نرمی کی گائیڈ لائن جاری کی گئی ہے بریک دی چین کے تحت ریاست کے ۲۲ اضلاع کے تاجروں کےلیے یہ بڑی خبر ہے ان ۲۲ اضلاع میں رات ۸ بجے تک دکانیں کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دکانیں اب سنیچر کو بھی دوپہر تین بجے تک کھولنے کی اجازت رہے گی صرف اتوار کو دوکانیں بند رہیں گی؛ لیکن یہ واضح کردیں کہ پہلے ممبئی اور تھانے کے لیے اس نئی گائیڈ لائن میں نرمی کا اعلان نہیں کیاگیا تھا، نرمی کے متعلق فیصلہ ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اتھاریٹی پر چھوڑدیاگیا تھا؛ لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ممبئی اور مضافات ممبئی میں بھی پابندیوں میں نرمی دی گئی ہے۔ اور یہاں دکانیں شب کے دس بجے تک کھلی رکھنے کی اجازت کی خبریں موصول ہورہی ہیں۔ ۲۲ اضلاع میں بریک دی چین مہم کے تحت لاک ڈاون سے متعلق پابندیوں میں چھوٹ دی گئی ہے ۔ باقی ۱۱ اضلاع میں جہاں کورونا کے مریض زیادہ ہیں وہاں پابندیوں میں کوئی چھوٹ نہیں دی گئی ہے، یہاں لیول تھری کے تحت پابندی برقرار رکھی گئی ہے۔ یعنی ان ۱۱ اضلاع میں دکانیں شام چار بجے تک ہی کھلی رہیں گی وہیں سنیچر اور اتوار کو مکمل بند رہیں گی۔ ان گیارہ اضلاع میں پونے، ستارا، سانگلی، کولہا پور، احمد نگر، سولا پور، رائے گڑھ، رتنا گیری، سندھو درگ، بیڑ، پال گھر شامل ہیں۔ پرائیوٹ اور سرکاری آفس ۱۰۰ فیصد، ہوٹل ریسٹورنٹ پچاس فیصد شام چار بجے تک، مال بھی سوموار سے جمعہ رات آٹھ بجے تک کھلے رہیں گے، سنیچر کو دوپہر تین بجے تک کھلے رہیں گے۔ جم، یوگا سینٹر، اور سیلون کو بھی آٹھ بجے تک پچاس فیصد کھولنے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن اے سی کے استعمال سے منع کیاگیا ہے ۔ یہ سبھی جگہیں اتوار کو مکمل بند رہیں گی۔ فی الحال مذہبی مقامات ، تھیٹر، سنیما ہال بند رہیں گے، سماجی پروگرام کو بھی اجازت نہیں ہے، سیاسی اجلاس پر بھی پابندی قائم رہے گی۔ ممبئی لوکل ٹرین بھی عام مسافروں کے لیے بند رہے گی۔ نئی گائیڈ لائن میں ممبئی لوکل کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ اپوزیشن مسلسل ویکسن کے دونوں ڈوژ لے چکے عوام کےلیے لوکل سروس شروع کرنے کا مطالبہ کررہی ہے ۔ آج ۲ اگست کو بامبے ہائی کورٹ نے بھی حکومت سے سوال کیا ہے کہ دونوں ڈوژ لے چکے عوام کو ممبئی لوکل پر سفر نہ کرنے دینے کی وجہ کیا ہے؟، ہائی کورٹ میں اگلی سماعت جمعرات کو ہوگی ۔

کولکاتہ ، 02 اگست (محمد نعیم انصاری)۔ مغربی بنگال اسمبلی انتخابات میں وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے '' کھیلاہوبے '' کا نعرہ اپنایا تھا۔

(اردو اخبار دنیا)کولکاتہ ، 02 اگست (محمد نعیم انصاری)۔ مغربی بنگال اسمبلی انتخابات میں وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے '' کھیلاہوبے '' کا نعرہ اپنایا تھا۔
اب یہ نعرہ ریاست میں کھیلوں کے لیے وقف ایک سرکاری دن بننے جا رہا ہے۔ ممتا بنرجی آج کلکتہ کے نیتا جی انڈور اسٹیڈیم میں 'کھیلا ہوبے' پروگرام کا آغاز کریں گی اور اگلے چند دنوں میں ریاست بھر میں ' کھیلا ہوبے' منایا جائے گا۔دراصل ، وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے اعلان کیا تھا کہ 16 اگست کو ریاست بھر میں 16 فٹ بال شائقین کی یاد میں "کھیلا ہوبے ڈے" کے طور پر منایا جائے گا جو ایڈن گارڈن میں 1980 کے کھیل کے دوران بھگدڑ میں مارے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے کھیلوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اس اسکیم کے تحت ریاست کے کھیلوں اور نوجوانوں کے امور کا محکمہ مختلف اسپورٹس کلبوں میں ایک لاکھ سے زائد فٹ بال تقسیم کرے گا۔ آئی ایف اے میں رجسٹرڈ افراد کو 10-10 فٹ بال بھی ملیں گے۔ پہلے ہی ریاستی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ نوجوانوں اور طلباء کو فٹ بال کھیلنے کی ترغیب دینے اور اس طرح ریاست میں کھیلوں کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے ، رجسٹرڈ کلبوں کو کھیلا ہوبے پروگرام کے تحت جوئی (سٹرائیکر) برانڈ فٹ بال دیا جائے گا۔ایک سینئر ریاستی عہدیدار کا کہنا ہے کہ حکومت کا نیا پروجیکٹ نہ صرف کھیل کو فروغ دے گا۔
بلکہ خواتین کے زیر انتظام سیلف ہیلپ گروپس اور جیل کے قیدیوں کو بھی فائدہ پہنچائے گا جو یہ فٹ بال بنا رہے ہیں۔
ٹبنرجی ریاست کے مہاجر دستکاری یونٹ کے ممبروں کے ہاتھ سے تیار کردہ فٹ بال مختلف اسپورٹس کلبوں کے حوالے کریں گے۔ میسرز ریفیوجی ہینڈی کرافٹس پروگرام سے بہت پہلے اس مقصد کے لیے فٹ بال فراہم کریں گے۔


دنیامفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

(اردو اخبار دنیامفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کے چھٹے امیر شریعت ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری، نظامیہ یونانی میڈیکل واسپتال گیا کے بانی ، مجلس شوریٰ دا ر العلوم دیو بند وندوۃ العلماء لکھنؤ کے رکن ،امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ پٹنہ کے چیرمین ،ھیئۃ التنسیق العلیا للمنظمات الاسلامیۃ مکۃ المکرمۃکے سابق رکن مدرسہ ریاض العلوم ساٹھی مغربی چمپارن ومدرسہ فرقانیہ بگھیلا گھاٹ دربھنگہ کے صدر، اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی ، آل انڈیا ملی کونسل دہلی، مدرسہ امدادیہ لہیریا سرائے دربھنگہ ، جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن ، المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء پٹنہ، دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ پٹنہ، مدرسہ محمود العلوم دملہ مدھوبنی، جامعۃ البنات رشیدیہ امراہا ، گیا ،کے نگران اعلیٰ مدرسہ اسلامیہ عربیہ گھوڑی گھاٹ کے بانی وسرپرست کا نواسی (۸۹) سال کی عمر میں وصال ہوگیا ، علالت کا سلسلہ رمضان المبارک سے ہی چل رہا تھا ، ۸؍ اکتوبر بروز جمعرات بعد نماز عصر برین ہیمریج ہو گیا ، جس کی وجہ سے فالج کا اثر ہو ا ، بولنا ، آنکھ کھولنا ، منہہ کے ذریعہ غذا لینا سب بند ہو گیا ، موت وحیات کی کشمکش جاری رہی ، طبیعت میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ، اور بالآخر۳؍ محرم الحرام ۱۴۳۷ھ بروز شنبہ بعد نماز مغرب ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۵ء کو کوئی چھ بجے حادثہ پیش آگیا ۔

جنازہ کی نماز ۱۸؍ اکتوبر کو ڈھائی بجے دن میں امارت شرعیہ کے احاطہ میں نائب امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم نے پڑھائی اور پھلواری شریف کے حاجی حرمین قبرستان میں ،حاجی حرمین کے مزار مبارک کے نواح میں تدفین عمل میں آئی ، لوگوں کا ازدحام اس قدرتھا کے تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی، پٹنہ کی طرف آنے والی سواریاں سوگواروں اور جنازہ میں شرکت کرنے والوں سے بھری ہوئی تھیں اور پٹنہ کی تمام سڑکوں کے مسلم مسافروں کا اختتام پھلواری شریف پر ہو رہا تھا ۔

حضرت مولانا سید نظام الدین بن قاضی حسین (م ۱۹۴۳ء) بن قاضی شرف الدین (م ۱۹۴۹ء) بن قاضی عبد القادر بن قاضی صادق علی کی ولادت مہر النساء بنت حکیم اولاد حسین کے بطن سے ۳۱ ؍ مارچ ۱۹۲۷ء مطابق ۱۳۴۵ھ گیا کے محلہ پرانی جیل خانہ واقع شاہ شریف صاحب شملہ والے کے مکان میں ہوئی ، دادا نے نظام الدین اور نانا نے محمد قائم نام تجویز کیا ، گاؤں اور علاقہ میں عرفی نام قامو بابوسے مشہور تھے، چار سال چھ ماہ کی عمر میں پنچایتی اکھاڑہ گیا کی مسجد میں مولانا کریم رضا نے رسم بسم اللہ ادا کرائی ، جو آپ کے نانا کے بڑے بھائی تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے گاؤں گھوڑی گھاٹ منتقل ہو گیے،جو گیا شہر سے اسی (۸۰)کلومیٹر اور چترا سے ساٹھ کیلو میٹر کی دوری پر واقع ہے ، یہاں عربی کی ابتدائی کتابوں سے لیکر قدوری تک کی تعلیم اپنے والد قاضی حسین سے ہی حاصل کیا، شرح جامی کے سال ۱۹۴۱ء میں مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں داخل ہوئے اور دوسرے سال ۱۹۴۲ء میں دار العلوم دیو بند کے لیے رخت سفر باندھا ، ۱۹۴۶ء میں علوم متداولہ کی تکمیل کی اور دورہ حدیث شریف سے فراغت پائی ، ۱۹۴۷ء میں مزید ایک سال قیام کرکے فقہ وتفسیر میں تخصص کیا ، دوران قیام فرحت گیاوی کے نام سے شاعری بھی کرتے رہے اور سجاد لائبریری کے ترجمان ''البیان'' کے مدیر بھی رہے ۔شادی محمد سلیم صاحب محلہ روشن گنج تھانہ ڈبھری ٹکاری کی بڑی صاحبزادی حافظہ خاتون سے ۳۱ ؍ مارچ ۱۹۵۰ء کو ہوئی ۔ ۱۹۶۹ء اور ۱۹۸۸ء میں دوبار حج کی سعادت نصیب ہوئی۔تدریسی سلسلے کا آغاز مدرسہ ریاض العلوم ساٹھی مغربی چمپارن سے ہوا ، تقریبا پندرہ سال پوری مستعدی کے ساتھ وہاں صدر مدرس کی حیثیت سے کام کرتے رہے اور پوری ایک نسل کی تعلیم وتربیت فرمائی، ۱۹۶۳ء میں مولانا رحمت اللہ صاحب کی دعوت پر مدرسہ رشیدالعلوم چترا صدر مدرس کی حیثیت سے منتقل ہو گیے ، دو سال تک اس منصب پر فائز رہے اور اچھے استاذ اور منتظم کی حیثیت سے آپ کی شہرت پھیلتی چلی گئی ۔ اگست ۱۹۵۸ء میں مدارس اسلامیہ کنونشن اور ۱۹۶۰ء میں تربیت قضاء کے موقع سے حضرت امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ سے آپ کی خصوصی ملاقات ہوئی اور حضرت نے اس گوہر گراں مایہ کو پرکھ لیا اور امارت شرعیہ میں ناظم کی حیثیت سے آجانے کے لیے کہا؛ لیکن مولانا ریاض احمد صاحب نے اجازت نہیں دی؛ اس لیے یہ معاملہ ٹلتا چلا گیا ، ۱۹۶۲ء میں مولانا کا انتقال ہو گیا ، تو اصرار بڑھنے لگا، اب اس اصرار میں قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ بھی شریک ہو گیے، جن پر نظامت امارت شرعیہ اور قضا کی دہری ذمہ داری آپڑی تھی چنانچہ ۱۹۶۵ء میں آپ ناظم کی حیثیت سے امارت شرعیہ وارد ہوئے، اور امارت شرعیہ کی نظامت کا بار اپنے کاندھے پر لے لیا، امارت حضرت امیر شریعت رابع کی ، نظامت مولانا سید نظام الدین کی اور کار قضاء کے ساتھ منصوبہ بندی مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی مشہور تھی یہ وہ ارکان ثلٰثہ تھے جنہوں نےامارت شرعیہ کے کام کو بام عروج پر پہونچادیا، اس درمیان پورے ملک میں امارت کی ساکھ قائم ہوئی، اعتبار واعتماد بڑھا، شعبوں میں توسیع ہوئی، نظامت کے ساتھ وہ ۱۲؍ مئی ۱۹۹۱ء سے نائب امیر شریعت کی ذمہ داری بھی اٹھائے رہے ، امیر شریعت خامس حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب کے وصال کے بعد یکم نومبر ۱۹۹۸ء کو مجلس ارباب حل وعقد نے آپ کو چھٹا امیر شریعت متفقہ طور پر منتخب کر لیا ، آپ کے دور میں نئے ٹیکنیکل ادارے کھلے، دارالقضاء کی توسیع ہوئی، لڑکیوں کے لیے ایک الگ آئی آئی ٹی انسٹی چیوٹ کا قیام عمل میں آیا،حضرت امیر شریعت رابع کے وصال کے بعدمئی ۱۹۹۱ء میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مقرر ہوئے، اور بورڈ کے تین صدور حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ، مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور موجودہ صدر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے ساتھ ملت کی بقا اور تحفظ پرسنل لا کے لیے مثالی جد وجہد فرمائی اور تادم آخر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری رہے۔

امیر شریعت کی روایت یہاں بے لوث خدمت کی رہی ہے، کوئی معاوضہ اور تنخواہ نہیں ، ہم لوگوں نےبہت زور دیا کہ طویل دور نظامت کے پنشن کے طور پر ہی کچھ مقرر کر دیا جائے، لیکن انہوں نے یہ بھی گوارہ نہیں کیا ،امیر ہونے کی حیثیت سے سارا وقت دیتے اور بد لے میں کچھ نہیں لیتے ، بیت المال کے پیسے پیسے کی حفاظت پوری دیانت داری کے ساتھ کرتے، مدات کی رعایت کے ساتھ خرچ کرتے ، ذاتی زندگی میں وہ رقیق القلب بھی تھے اور سخی بھی، رمضان المبارک میں کوئی ان کے در سے خالی نہیں جاتا ، اپنی رقم بھی تقسیم کرتے اور اپنے اعزواقرباء کی بھی ، ان کی امانت ودیانت اور امارت شرعیہ کی محبت ضرب المثل تھی، بڑے عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود ان کی سادگی ، تواضع وانکساری مثالی تھی ، عجب اور کبر کاذرا بھی حصہ ان کی زندگی میں نہیں تھا، صبر وتحمل اور برداشت میں اپنی مثال آپ تھے،وہ مشوروں کو اہمیت دیتے ،اپنے رفقاء سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر مشورہ لیتے اور کوئی بھی فیصلہ کا رکنوں کو اعتماد میں لے کرہی کرتے، اسی غرض سے انہوں نے مجلس نظامت کی تشکیل کرائی تھی ،آپ نے پوری زندگی عالمانہ وقار اور داعیانہ کردار کے ساتھ گذار دیا ، اتحاد امت ، خدمت خلق، اصلاح معاشرہ، پریشان حال لوگوں کی مدد آپ کی زندگی اور خدمات کے نمایاں عناوین ہیں، امارت سے تعلق کی بنیاد پر ان کی شاید ہی کوئی تقریر ذکر امارت سے خالی ہوتی، کسی نہ کسی بہانے وہ امارت شرعیہ کا ذکر ضرور کرتے ۔ پس ماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین لڑکے اورچھ لڑکیوں کو چھوڑا، حضرت کے جو نمایان اوصاف تھے اس کا ذکر یہاں فائدہ سے خالی نہیں ، ایک بار فرمایا:

'خلوص و للہیت کے ساتھ جو کام کیا جاتا ہے ۔ اس پر اللہ کی نصرت ضرور آتی ہے ، میں نے ہر موقع سے حضرت کوخلوص و للہیت کا پیکر پایا اور جس کام کوحضرت نے شروع کیا اس میں ان کی نصرت ضرور آئی ، یہ معاملہ شنیدہ نہیں دیدہ ہے ۔ مختلف موقعوں پر دیکھا کہ ہم لوگوں کی الگ رائے ہے ، اور حضرت کی رائے الگ ہے ، فیصلہ حضرت کی رائے پر ہوا ، وقتی طور پر انسانی ذہن مطمئن ہونے کو تیار نہیں؛ لیکن وقت نے بتایا کہ صحیح وہی تھا جس کا القاء حق جل مجدہ نے حضرت کے قلب پر کیا ۔

دوسری بڑی خوبی حضرت کی تحمل اور برداشت کی تھی ، بڑے سے بڑے واقعے اورناگوارسے ناگوارمعاملے کو اس طرح پی جاتے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ان کے اس تحمل اور برداشت نے ان سے متعلق اداروں کی سالمیت اور وقارکوبچا رکھا تھا، کینہ وکدورت سے پاک ان کاسینہ تحمل وبرداشت کا منبع تھا، میں یہ نہیں کہتا کہ نا خوشگوار واقعات ان کے دل و دماغ کو متاثر نہیں کرتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ جب انسان کے پاس ایک سوچنے والا دماغ اور متحرک قلب ہو تو متاثرہونا فطری ہے ، وہ پتھر کی طرح بے حس تو نہیں ہوسکتا لیکن یہ بار بار دیکھا کہ حضرت پر ناخوشگوار واقعہ کا تاثر دیر پانہیں ہوتا تھا ، قلب کی صفائی فورا ہوتی تھی اور پھر وہی شفقت ومحبت الفت و انسیت کا مظہر دیکھنے میں آتا ، جو پہلے سے ان کے جسم و جان کا حصہ تھا ۔

تیسری بڑی خوبی ان کی امانت و دیانت تھی، ایک لمبے عرصہ سے وہ امارت شرعیہ سے منسلک تھے ، لیکن قوم کی امانت کو جس طرح انہوں نے سنبھال کر رکھا ، مدات کی رعایت کے ساتھ صرف کیا ، وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ بارہادیکھا کہ دفتر کی گاڑی ان کے ذاتی کام سے گئی ، آتے ہی ڈرائیورکو کہا کہ میرا حساب بھیجو اور جوڑ کر روپے اپنی جیب خاص سے داخل بیت المال کروایا ، ایک بار اپنےذاتی کام سے سفر رانچی کا ہوا، قیام دفتر میں تھا ، قاضی شریعت سے کہا ، میں یہاں ذاتی کام سے آیا ہوں ، میرے اوپر چائے پانی تک پر خرچ کی جانے والی رقم کا حساب بتاؤ ، اور وہ رقم اپنی جیب خاص سے داخل بیت المال کیا ، دیگر اسفار میں بھی اچھی خاصی رقم اپنی جیب خاص سے خرچ کردیتے ، اس درجہ کی امانت اور دیانت تنظیم کے ذمہ داروں میں کم دیکھنے کوملتی ہے ۔ کسی عزیز کوخط بھیجنا ہے دفتر میں ہزاروں روپے کے ڈاک ٹکٹ رکھے ہوتے لیکن جب سے پانچ روپے نکال کر کسی کو دیتے تھے کہ ڈاک خانہ سے ٹکٹ لے کر آ ؤ، یہ بھی گوارہ نہیں کہ پانچ روپے ٹکٹ والے ڈبہ میں ڈال دو ، بعد میں لے آنا ،نہیں ، اس کونہیں چھوئیں گے اور جب تک ڈاک سے ٹکٹ آنہ جائے ، خط چلا نہ جائے ، اطمینان نہیں ہوتا ۔

ایک اور خوبی جس کا ذکر کرنا یہاں بہت ضروری ہے ۔ وہ حضرت کی کفایت شعاری تھی ، فرمایاکرتے : کفایت شعاری آدھی آمدنی ہے ، ہم لوگوں کے سفر کے اخراجات ان کی خدمت میں پیش ہوتے رہتے تھے کارکنوں کی جو تربیت انہوں نے کی تھی ، اس میں کفایت شعاری ہم لوگوں کی زندگی کالازمہ بن گیا تھا۔ ایسالازمہ جس کو بعض نا سمجھ مزاجا بخالت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس احتیاط کے باوجوداگر کہیں قلم لگانے کی ضرورت محسوس ہوتی تو اس سے گر یزنہیں ہوتا ۔

بے ضابطگی کے اس دور میں اصول وضوابط کی پابندی کرنا اور کراناان کی خاص صفت تھی مزاجانرم ہونے کے باوجود کوئی بات خلاف اصول سامنے آ گئی تو خفگی کا سامنا ہم لوگوں کو بھی کرنا پڑتا تھا، کبھی محبت سے کہتے' کام سب سمجھ لیجئے، مولوی صاحبعلم آپ لوگوں کا زیادہ ہوسکتا ہے لیکن میرا تجر بہ زیادہ ہے، حضرت کے تجربے کی روشنی میں جب بھی کام کیا اس کا نفع اورفائدہ کھلی آنکھوں سے دیکھا۔واقعہ یہ ہے کہ تجربات کی کمی سے بھی اکثر و بیشتر کام بگڑ جا تے ہیں ۔


اعز اقربا کی پاس داری ، رشتوں کا احترام اوران سے تعلق حضرت جس قد ر کھتے تھے اور جتنابرتتے تھے ، وہ ہم سبھوں کے بس کی بات نہیں ، بیمار ہیں ، دم پھول رہا ہے ، پاؤں پرجسم کا وجود بار ہے، ضعف ونقاہت ہے، کسی عزیز کے انتقال کی خبر آئی ،کسی کی بیماری کی اطلاع ہوئی ۔حضرت جانے کے لئے پابہ رکاب ، دور دراز کے اسفار سے بھی احتراز نہیں ، یہ سفرکا شوق نہیں ، حقوق کی پاسداری اور تعلق خاطر کی نشانی ہے ، ہم لوگ آپس میں تبصرہ کرتے تھے کہ حضرت سفر میں صحت مند رہتے ہیں ، جے پور کہاں ہے ، پیرانہ سالی دیکھئے ، ٹھنڈی نہ کہئے، مسلم پرسنل لا بورڈ کو ضرورت پڑی ، بھاگے بھاگے چلے گئے اور جلدی جلدی چلے آئے ، حضرت کے ان احوال کو دیکھ کر تو ہم جیسے جوانوں کوبھی ، جواب جوانی کی دہلیز عبور کر رہے ہیں ، پسینہ آ جاتا تھا


حضرت کی ایک بڑی خوبی وقت کی پابندی تھی ۔حضرت کے یہاں ساڑھے آٹھ کا مطلب ہر حال میں آ ٹھ بجکرتیس منٹ ہی ہوتا تھا ، کہیں جانا ہے تو مقررہ وقت سے آدھے گھنٹہ قبل ، بلکہ اس کے بھی پہلے سے یاددہانی کراتے رہتےکہ مبادا غفلت کی وجہ سے وقت سے زیادہ نہ ہوجائے، کئی بار ایسا ہوا کہ حضرت کو کسی مجلس کی صدارت کرنی ہے وقت مقررہ پر پہنچ گئے اور وہاں استقبال کرنے والا بھی کوئی نہیں ، مزدورا سٹیج سجانے میں لگے ہیں ، اسی طرح اگر کوئی کام مثلا کسی سے گفتگو کرنے کی ذمہ داری ا نہیں دی گئی تو وہ گفتگو کر کے جو بات ہوئی اسے فوراً فون سے بتاتے ، انہیں صاحب معاملہ کے فون کا انتظارنہیں رہتا کہ وہ پوچھیں تب بتائیں گے ، یہی خواہش حضرت دوسروں سے بھی رکھتے تھے کہ کام ہوگیا تو بتائیے نہیں ہو سکا تو بھی خبر کیجئے، حضرت کو یہ بات گراں گذرتی تھی کہ کسی خوش گوار یاناخوشگوار واقعہ کی اطلاع انہیں دوسروں سے ملے ، ان کی خواہش ہوتی تھی کہ دفتر اور ملت اسلامیہ سے متعلق ہر قابل ذکر واقعہ سے انہیں باخبر رکھا جائے تاکہ ضرورت کے مطابق وقت پر اقدام کئے جائیں ، کسی دوسرے سے اطلاع ملنے کی شکل میں انہیں یہ نہ کہنا پڑے کہ میرے پاس اطلاع نہیں ہے ، اس سلسلے میں چھوٹی بات ہی کیوں نہ ہو ، اجمال کو حضرت بالکل پسندنہیں کرتے مثلا آپ کو یہ بتانا ہے کہ ٹرین کا ٹکٹ دہلی کا بن گیا تو صرف اتنا کہنا کافی نہیں ہے آپ کو بتانا ہو تاکہ کس ٹرین سے ہے ؟ کتنے بجے ہے ؟ اور برتھ کون سا ہے ؟ کس کلاس میں بنا ہے ؟ ان تفصیلات کے بعدہی حضرت کو اطمینان ہوتا تھا کبھی یہ بھی بتانا ہوتا تھا کہ اس ٹرین کے منزل پر پہنچنے کا کیا وقت ہے


اسی طرح نماز اور تلاوت قرآن کریم کا غیر معمولی اہتمام آپ کی زندگی کی ضرورت تھی ، وہ عبادت کے ساتھ ان کی عادت بن گئی تھی ، کئی بار ایسا ہوا کہ جہاں جانا ہے ، وہاں وقت میں پہونچناممکن ہے، لیکن اذان کی آواز کہیں سے آ گئی تو پہلی مسجد جو ملے اس میں نماز پڑھنی ہے، تاخیر کا مطلب خفگی ہے ، ایک بار فرمانے لگے کہ ''مولوی صاحب ! یہاں پڑھ لیں گے تو اطمینان رہے گا ، وہاں پہونچنے کے انتظار میں تاخیر ہوجائے گی اور جام میں پھنس گئے تو نماز قضا بھی ہوسکتی ہے ۔ اس لئے اس کام کو پہلی فرصت میں کر لو ، وہاں پہونچنے کا انتظار مت کرو '


اپنی پیرانہ سالی اور ضعف کی وجہ سے وقت ضرورت ہی حضرت کا دفتر آنا ہوتا تھا؛ لیکن دفتر کے معاملات اور کارکنوں کی حاضری سے گھر بیٹھے جتنی واقفیت انہیں رہتی، ہمیں دفتر میں بیٹھ کر اتنی واقفیت نہیں رہتی،کبھی دفتر کے کارکنوں سے واقفیت لے لی اور کبھی فون کر کے خیریت دریافت کیا اور معلوم کرلیا کہ آپ اس وقت کہاں ہیں ، جھوٹ بولنا ایسے بھی بڑا گناہ ہے ، امیر شریعت سے جھوٹ بولنے کی ہمت کون کر سکتا ہے ؟ کبھی کسی نے اگر ذومعنی جملے کہدیے تو فرماتے: مولوی صاحب ! لگتا ہے کہ آپ دفتر میں نہیں ہیں ۔ ایسے تھے ہمارے امیر شریعت سادس ، صاف دل ، پاک طینت ، نزم وگرم چشیدہ،متحمل و بردبار، فراق کی روح کو نا گوار نہ گذرے تو فراق کی جگہ نظام رکھ دیجئے اور کہئے


آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عص


جب تم یہ کہو گے ان سے کہ ہم نے ''نظام'' کو دیکھا 


حضرت نے ایک بار مشہور صحافی عارف اقبال کو ''باتیں میر کارواں'' کے لیے انٹر ویو دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ'' اللہ پوچھے گا کہ کیا لے کر آئے ہوتو میں کہوں گا کہ اے اللہ امارت شرعیہ کو پوری زندگی دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے پکڑے رکھا اور تسبیح کے اس دھاگے کو ٹوٹنے اور اس کے دانے کو بکھرنے نہیں دیا ، یہی ایک عمل لے کر آیا ہوں''، اور حضرت کو اسی عمل پر نجات کی امید تھی کاش ہمارے درمیان آج بھی کوئی نظام الدین اور مجاہد الاسلام ہوتا جو اپنے ناخن تدبیر سے امارت شرعیہ کے مسائل حل کرتا،واقعہ یہ ہے کہ ان کے جانے سے دل میں غموں کی جس سیہ رات نے بسیرا کر لیا ہے اس کی نمود صبح میں کافی عرصہ لگے گا۔ہےرو ۔'۔ ؟ ۔

بریکینگ نیوز:مہاراشٹرمیں دوکانوں کے اوقات میں تبدیلی کاحکمنامہ جا

ناندیڑ: 2اگست(اردو اخبار دنیا)ریاست مہاراشٹرمیں آج بریک دی چین کے تحت مہاراشٹرمیں کورونا پابندیوں میں نرمی دی گئی ہے جس کے تحت ریاست کے 22اضلاع میں دوکانوں کے اوقات میں تبدیلی کی گئی ہے ۔جبکہ ممبئی ‘تھانہ کافیصلہ محکمہ ایمرجنسی کرے گا۔اسلئے وہاں پر جوپابندیاں پہلے سے برقرار ہے وہی رہیں گی ۔

ریاست کے 22اضلاع میں اب دوکانوںکے اوقات کو دوپہر چار بجے سے بڑھاکر شب آٹھ بجے تک کردیاگیاہے۔پیرتاجمعہ تک یہ دوکانیںصبح سات تا شب آٹھ بجے تک کھلی رہیںگی اور ہفتہ کے دوکانیں دوپہرتین بجے تک کھلی رکھنے کی اجازت دی گئی ہے اس کے علاوہ اتوار کے دن کاروبار پوری طرح بند رہیںگے ۔

مذہبی مقامات ‘ سینما ہا ل ‘ناٹیہ گرہ فی الحال بند ہی رہیںگے ۔جبکہ جم ‘ گارڈن ‘شاپنگ مال کو مذکورہ دنوںمیںکھلنے رکھنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ یہ نئے احکامات ریاست کے 22اضلاع میں نافذ رہیںگے ۔ جبکہ ریاست کے 11اضلاع میںجوپابندیاں پہلے سے عائد ہیں وہ برقرار رہیںگی ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...