Powered By Blogger

جمعہ, اگست 06, 2021

ریلائنس کو سپریم کورٹ سے جھٹکا! ایمیزون کی عرضی پر سماعت کے بعد 24 ہزار کروڑ کے سودے پر روک

  • (اردو اخبار دنیا)

نئی دہلی: ریلائنس اور فیوچل ریٹیل کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایمیزون کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے فیوچر ریٹیل لمیٹڈ کے ریلائنس ریٹیل میں انضمام کے 24 ہزار کروڑ کروڑ کے سودے پر روک لگا دی ہے۔ اس فیصلے کے بعد ریلائنس کے شیئر 1.33 فیصد تک گر گئے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ فیوچر ریٹیل کے ریلائنس ریٹیل کے ساتھ انضمام کے سودے پر روک لگانے کا فیصلہ ہندوستانی قوانین کے مطابق جائز اور قابل اطلاق ہے۔ سنگاپور میں کیا گیا ایمرجنسی آربیرٹریشن کے سودے پر روک لگائی تھی۔ ایمیزون نے اس ضم کے سودے کی مخالفت کی تھی۔

امریکی ریٹیل کمپنی ایمیزون 24713 کروڑ کے اس سودے کے خلاف ہے۔ ایمیزون کا کہنا ہے کہ سنگاپور میں ایمرجنسی آربیرٹریٹر اس سودے پر روک لگا چکے ہیں، لہذا فیوچک کا ریلائنس میں انضمام نہیں ہو سکتا۔ اس سے قبل دہلی ہائی کورٹ نے فیوچر ریٹیل کو ایمرجنسی آربریٹریٹر کے فیصلہ پر عمل کرنے کو کہا تھا۔ فیوچر گروپ نے سپریم کورٹ میں دلیل دی تھی کہ بین الاقوامی ایمرجنسی آربریٹریشن کی ہندوستانی قوانین کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔

تاہم سنگل بنچ کے فیصلے پر اسٹے لگاتے ہوئے ڈویزن بنچ نے فیصلہ سنایا تھا کہ سنگاپور میں جو فیصلہ سنایا گیا تھا اس کا تعلق ایف سی پی ایل (فیوچر کوپنس) سے تھا نا کہ ایف آر ایل (فیوچر ریٹیل لمیٹڈ) سے۔ ایمیزون نے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کی بنچ نے 8 فروری کو سودے کے تعلق سے ہائی کورٹ کی سنگل بنچ کے فیصلہ پر روک لگا دی اور اب ریلائنس اور فیوچر گروپ کو جھٹکا دیتے ہوئے فیصلہ ایمیزون کے حق میں سنا دیا گیا

یوپی الیکشن 2022: یوگی آدتیہ ناتھ آنے والے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کے سامنے آنے کا امکان ہے ، سیس کیشو پرساد موریہ

یوپی الیکشن 2022: یوگی آدتیہ ناتھ آنے والے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کے سامنے آنے کا امکان ہے ، سیس کیشو پرساد موریہ(اردو اخبار دنیا)لکھنؤ: ریاستی انتخابات کے قریب اتر پردیش سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا اگلا وزیراعلیٰ چہرہ کون ہوگا اس بارے میں قیاس آرائیوں کے درمیان ، نائب وزیر اعلی کیشوا پرساد موریہ نے آج ہوا صاف کرنے کی کوشش کی۔ پنچایت آج تک سے بات کرتے ہوئے پرساد نے زور دیا کہ بی جے پی اتر پردیش اسمبلی الیکشن 2022 میں یوگی آدتیہ ناتھ کو وزیراعلیٰ کے چہرے کے لیے ترجیح دے گی کیونکہ وہ پارٹی کا سب سے بڑا نام ہے۔

 "یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں ہماری حکومت 2017 سے بہترین کام کر رہی ہے۔ اپوزیشن مسئلہ کم ہے۔میرے خیال میں وہ اگلے الیکشن میں بھی ہمارے لیڈر رہیں گے۔

 انہوں نے مزید کہا ، "یوگی آدتیہ ناتھ اتر پردیش میں ہماری پارٹی کا سب سے بڑا نام ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پارٹی حتمی فیصلہ کرے گی اور وہ ہمارا لیڈر رہے گا۔"

 اس سال کے شروع میں ، یوپی حکومت میں "اختلاف" کے بارے میں بہت سی رپورٹیں منظر عام پر آئیں ، جس نے یوگی آدیتاناتھ کی زیرقیادت کابینہ میں ردوبدل کی قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔ انہیں واضح کرتے ہوئے ، موریہ نے کہا ، "ماضی میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ابھی کوئی مسئلہ نہیں ہے اور مستقبل میں کبھی ایسا نہیں ہوگا۔"

 اتر پردیش اسمبلی انتخابات اگلے سال ہونے والے ہیں۔

 اس ماہ کے شروع میں ، اتر پردیش کے سات ارکان پارلیمنٹ - پنکج چودھری ، ایس پی سنگھ بگھیل ، بھانو پرتاپ سنگھ ورما ، بی ایل ورما ، اجے مشرا ، کوشل کشور ، اور بی جے پی کے اتحادی اپنا دل کی رہنما انوپریہ سنگھ پٹیل کو مرکزی وزیر بنایا گیا۔

 ان سات میں سے تین او بی سی اور ایس سی کیٹیگری سے ہیں جبکہ ایک برہمن ہے۔ چنانچہ ، بی جے پی کے زیر اقتدار اترپردیش کے ساتوں مرکزی وزراء کی یہ آؤٹ ریچ مشق اسمبلی انتخابات سے قبل پارٹی کو اپنی ذات کے مساوات میں توازن قائم کرنے میں مدد دے گی۔

 بی جے پی نے اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات کی تیاری شروع کر دی ہے اور نڈا نے اپنی انتخابی حکمت عملی کو بہتر بنانے کے لیے ریاست کے پارٹی ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ مختلف گروپوں میں ملاقاتیں کیں۔

پچھلے دنوں ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں ایک نو سالہ بچی کے ساتھ عصمت دری اور مار کر جلا دینے کے انسانیت سوز واقع

پچھلے دنوں ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں ایک نو سالہ بچی کے ساتھ عصمت دری اور مار کر جلا دینے کے انسانیت سوز واقع

(اردو اخبار دنیا)پچھلے دنوں ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں ایک نو سالہ بچی کے ساتھ عصمت دری اور مار کر جلا دینے کے انسانیت سوز واقعہ نے ہر اس شخص کو جس کے سینے میں دھڑکنے والا دل اور حساس دل و دماغ ہے اسے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسی حیوانیت پر غم وغصہ کی کیفیت طاری ہونا فطری ہے ۔
غالباََ دارلحکومت میں ہونے کی وجہ سے فوری ردعمل سامنے آئے ہیں ، متعدد سیاسی پارٹیوں اور انسانی حقوق کے ادارے اس کا نوٹس لیتے ہوئے خاطی پولیس افسران کے خلاف ایکشن اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‌ "سیاسی مفادات کی برآوری" کے لئے اظہار ہمدردی ہو یا انسانی جذبے کے تحت، یہ بہرحال قابل ستائش ہے ۔
از خود نوٹس لینے والے اداروں میں ایس سی ایس ٹی کمیشن بھی ہے اور ان کا یہ اقدام قابل ستائش ہے۔

بلا تفریق مذہب ذات برادری اور علاقہ ہم سب مذکورہ بالا واقعہ کی مذمت کرتے ہیں اور اس خاندان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنا ہمارا انسانی اور سماجی فریضہ ہے۔
ایسے واقعات اور ان پر سماج کے متعدد تنظیموں اداروں اور سیاسی پارٹیوں کی یکجہتی جب سامنے آتی ہے تو ایک سوال پریشان کرتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسی ہی ظلم و زیادتی جب ہوتی ہے تو اس کے خلاف غم وغصہ، مظلوم کے ساتھ ہمدردی اور ظالم کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا۔ سیاسی پارٹیوں کی خاموشی کے اسباب کیا ہیں؟ اس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ پچھلے چند سالوں کے دوران یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اقلیتوں کے مسائل پر بیان دینا حتی کہ ان کے دستوری حقوق کے حوالے سے یکجہتی کا مظاہرہ کرنا بھی اکثریتی طبقے کو ناراض کرنا ہے ۔
دوسری وجہ ہے دستوری پیچیدگی۔ اقلیتوں پر ظلم و زیادتی کے خلاف قوانین موجود ہیں۔ تاہم "اقلیتوں" میں عمومیت کی وجہ سے موثر اقدام نہ اٹھاۓ جانے کے خدشات کے پیش نظر اقلیتوں میں سے دلتوں کے لئے خصوصی ایکٹ بنایا گیا۔ عملی طور پر اس پر کس قدر عملدرآمد ہو رہا ہے اس سے قطع نظر، دلت اتیاچار ایکٹ کا فائدہ بہر حال دلتوں کو ہوا۔ اب حقیر ترین سمجھی جانے والی اس مخلوق کو اونچی ذات والے انسان ماننے کو مجبور ہیں۔ اب کرسی، صوفہ یا تخت پر بیٹھے کسی اونچی ذات کے سامنے کسی دلت کو فرش پر بیٹھنے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔ اب کسی دلت کو ابے تبے اور بدتمیزی سے مخاطب نہیں کیا جاتا۔ اور اگر ایسا کیا جاتا ہے یا گھوڑی سے اتار دیا جاتا ہے یا ان کے گاؤں کے بجلی کنکشن کاٹ دیا جاتا ہے تو ایسا کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔

ہم امریکہ اور یورپ سے اس قانون کا موازنہ نہیں کر سکتے جہاں کسی سیاہ فام کو نیگرو یا کسی اور توہین آمیز لفظ سے مخاطب کرنا قانونی جرم ہے اور امریکہ میں جرم جرم ہے بلا رو رعایت جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیتا ہے۔ پھر بھی دلت اتیاچار قانون قابل ستائش ہے۔

مسلمان بھی اس ملک میں اقلیت ہیں بلکہ اقلیتوں میں سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ تاہم دلتوں کی طرح ان کے لئے خصوصی مراعات یا مسلم اتیاچار قانون نہیں ہے اور اس کی وجہ دستور ہند کا وہ شق ہے جس کا مفہوم ہے کہ کسی بھی مذہب کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاۓ گا۔‌ یعنی مسلمان کے نام پر کوئی تفریق نہیں کی جاۓ گی۔ نہ حق میں اور نہ خلاف کوئی کام کیا جاۓ گا۔‌
اس دستوری پیچیدگی کی وجہ سے مسلمانوں کو کئی قسم کی مراعات سے محروم ہونا پڑتا ہے ۔ سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی حالت دلتوں کی بہ نسبت ہر فیلڈ میں ابتر ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کے ساتھ مذہب مربوط ہے اس لئے مسلمانوں کے لئے دلتوں کی طرح علحدہ تعلیم ، سرکاری ملازمت اور روزگار کے مواقع میں ریزرویشن نہیں، (ہاں اقلیتوں کے ضمن میں مسلمان مستفید ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں) مسلم اتیاچار قانون نہیں، مسلم اکثریتی علاقوں کے پولیس اسٹیشنوں میں مسلم افسران کی تعیناتی نہیں وغیرہ وغیرہ۔
مجھے اپنے دوست ننکا یادو کی آج سے دس سال پہلے کی وہ بات یاد آرہی ہے جو اس نے ایس سی/ ایس ٹی ریزرویشن کے تعلق سے کہی تھی کہ آنے والے پانچ سات سال بعد آپ دیکھیں گے کہ ہر بلوک میں بی ڈی او اور سی او اور دیگر محکموں میں افسران پولیس تھانے میں تھانیدار اور دیگر نچلی ذات کے لوگ ملیں گے اسی طرح ضلع اور ریاست کے محکموں میں ہمارا وجود محسوس کیا جاۓ گا۔ اس نے کہا تھا کہ ہمارے اس وجود کے بعد ایف آئی آر کرنے سے انکار کرنا آسان نہیں ہوگا۔
بدقسمتی سے مسلمانوں کے سامنے دستور کا وہ شق پیش کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ ٢٠٠٨ سے ٢٠١٤ تک زیر غور رہنے اور متعدد بار ترمیم کے باوجود کانگریس پارٹی اقلیت ' مخالف/ مسلم مخالف ٹارگیٹڈ کمیونل رائٹ ڈرافٹ ' پارلیمنٹ میں پیش نہیں کر سکی۔

اقلیتوں کے لیے خصوصی مراعات کا جہاں تک معاملہ ہے حکومت کی اسکیموں سے عیسائی، جین، بودھ اور سکھ کی تنظیمیں، بہت فعال و متحرک رہنے کی وجہ سے ، زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا لیتی ہیں۔ ہماری ملی تنظیمیں مستحقین کو بر وقت ان لائن اپلائی کرنے یا اسکول و ہسپتال کے لئے حکومتی فنڈ حاصل کرنے میں پیچھے رہتی ہیں۔ ان کے پاس ایسا کوئی میکانزم نہیں ہے جس سے وہ بر وقت مستحق لوگوں کو متنبہ کریں اور اپلائی کرنے میں مدد کریں۔

دہلی کی ریزیڈینٹس ایسوسی ایشنوں نے حج ہاوس کے تعمیری منصوبے کو مسنوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حج ہاؤس کی تعمیر سے علاقے میں فسادات برپا ہونے کا خدشہ ہے۔بھارتی دارالحکومت دہلی کے جنوب مغربی علاقے

دہلی کی ریزیڈینٹس ایسوسی ایشنوں نے حج ہاوس کے تعمیری منصوبے کو مسنوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حج ہاؤس کی تعمیر سے علاقے میں فسادات برپا ہونے کا خدشہ ہے۔بھارتی دارالحکومت دہلی کے جنوب مغربی علاقے(اردو اخبار دنیا)دہلی کی ریزیڈینٹس ایسوسی ایشنوں نے حج ہاوس کے تعمیری منصوبے کو مسنوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حج ہاؤس کی تعمیر سے علاقے میں فسادات برپا ہونے کا خدشہ ہے۔بھارتی دارالحکومت دہلی کے جنوب مغربی علاقے دواریکا کی ریزیڈینشیئل تنظیموں نے اپنے علاقے میں حج ہاؤس کی مجوزہ تعمیر کی مخالفت کرتے ہوئے دہلی کے لیفٹنٹ گورنر انیل بیجل کو ایک مکتوب بھیجا ہے اور ان سے مطالبہ کیاہے کہ حج ہاؤس کے لیے جو اراضی دی گئی ہے اسے منسوخ کردیا جائے۔ 'آل دواریکا ریزیڈٹنس فیڈریشن' (اے ڈی آر ایف) نے اس سلسلے میں گورنر کو خط بھیجنے کے ساتھ ہی چھ اگست جمعے کے روز مقامی لوگوں کی ایک میٹنگ بھی طلب کی ہے۔ اس عوامی میٹنگ میں اس بات پر غور کیا جائے گا کہ اگر گورنر نے حج ہاؤس کی تعمیر پر روک نہ لگائی تو اس کا اگلا قدم کیا ہونا چاہیے۔ اس خط پر اے ڈی آر ایف کے سکریٹری بی پی وشنو کے دستخط ہیں، جس میں کہا گیا ہے، ''دورایکا ویسٹ اور ساؤتھ ضلعے کے رہائشیوں کے ساتھ ساتھ دہلی کی 360 کھاپ پنچائیتیں حج ہاؤس کی تعمیر کی مخالف ہیں۔ اگر دواریکا میں حج ہاؤس کی تعمیر ہوئی تو اس سے امن و قانون کے علاوہ معاشرے میں بھائی چارہ، ہم آہنگی اور امن کے خراب ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔'' اس خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اس علاقے میں حج تعمیر ہونے سے، ''مذہبی فسادات برپا ہونے، ہندوؤں کی نقل مکانی اور شاہین باغ، جعفر آباد اور کشمیر جیسی صورتحال کی پیدا ہونے کے تمام خدشات موجود ہوں گے۔'' دہلی کے شاہین باغ اور جعفر آباد جیسے علاقوں میں شہریت سے متعلق قانون کے خلاف دھرنے ہوئے تھے جس کی حکمراں جماعت بی جے پی اور اس کی حمایت یافتہ سخت گیر ہندو تنظیموں نے سخت مخالفت کی تھی اور حج ہاؤس کی مخالفت کے لیے ان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ بھارتی دارالحکومت دہلی شہر، جو کسی زمانے میں مسلم تہذیب و ثقافت کے لیے معروف تھا، میں کوئی باقاعدہ حج ہاؤس نہیں ہے اسی لیے دہلی کی حکومت نے دواریکا کے سیکٹر 22 میں حج ہاؤس کی تعمیر کے لیے تقریباً پانچ سو مربع میٹر کی زمین مختص کی تھی۔ یہ علاقہ ایئر پورٹ سے قریب ہے تاکہ عازمین حج کی نقل و حمل میں آسانی ہو سکے۔ گورنر ہاؤس کی جانب سے ابھی تک اس مکتوب کے بارے میں کوئی بیان نہیں آیا ہے تاہم اے ڈی آر ایف کے صدر اجیت سوامی نے بھی بھارتی میڈیا سے بات چیت میں اس خط کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقامی لوگوں کو حج کے دوران ٹریفک سے پیدا ہونے مسائل پر زیادہ تشویش ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''دواریکا میں تقریباً پندرہ لاکھ لوگ رہتے ہیں اور اگر وہاں حج ہاؤس تعمیر ہوتا ہے تو تمام پڑوسی ریاستوں سے بسیں آئیں گی۔ حکومت آخر ٹیکس ادا کرنے والوں کا پیسہ صرف ایک برادری کے لیے عمارت بنانے پر کیوں خرچ کر رہی ہے؟'' اس دوران مقامی بی جے پی کے رہنماؤں نے اس کے خلاف احتجاج میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم بعض غیر سرکاری تنظیموں نے اس مکتوب پر یہ کہہ کر اعتراض کیا ہے کہ اے ڈی آر ایف غلط پراپیگنڈہ پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ معروف سماجی کارکن شبنم ہاشمی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ انہیں حج ہاؤس کی تعمیر میں کوئی دلچسپی نہیں ہے تاہم، ''یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ اس کی وجہ سے فسادات کیسے ہوں گے؟ اے ڈی آر ایف مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا رہی ہے جو ایک مجرمانہ فعل ہے۔ ہم اس خط کے انتہائی فرقہ وارانہ مواد کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔'' گزشتہ روز ہی بھارت نے پاکستان میں ایک مندر کے انہدام پر سخت رد عمل ظاہر کیا تھا لیکن دوسری جانب خود حکمراں جماعت بی جے پی اپنے ہی ملک میں مسلمانوں کے لیے ایک حج ہاؤس کی تعمیر کی مخالفت کر رہی ہے۔

ہندوستان میں بنا ہوا پہلا طیارہ بردارجہاز وکرانت آزمائش کے مرحلے میں

ہندوستان میں بنا ہوا پہلا طیارہ بردارجہاز وکرانت آزمائش کے مرحلے میں

ہندوستان میں بنا ہوا پہلا طیارہ بردارجہاز وکرانت آزمائش کے مرحلے میں
ہندوستان میں بنا ہوا پہلا طیارہ بردارجہاز وکرانت آزمائش کے مرحلے میں

نئی دہلی(اردو اخبار دنیا)

وکرانت ہندوستان میں بناہواپہلا طیارہ برداربحری جہازہے۔اب اس کی آزمائش بھی ہورہی ہے۔ ہندوستان کی وزارت دفاع نے اعلان کیا کہ جنوبی ہندکے شہر کوچی کے ایک شپ یارڈ میں تیار کردہ طیارہ بردار جہاز وِکرانت سمندر میں داخل کردیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق 40 ہزار ٹن وزنی اور 262 میٹر طویل ’آئی اے سی وکرنت‘ میں طیاروں کی پرواز کے لیے ترچھے ڈیک ہیں۔ یہ جلد از جلد آیندہ سال سے استعمال میں آئے گا۔ وزیر اعظم نریندر مودی ’’میک ان انڈیا‘‘ کے نعرے کے تحت دفاعی ساز و سامان کی مقامی طور پر تیاری میں مصروف ہیں۔

وکرانت کی اسمبلنگ میں استعمال ہونے والی تقریباً 75 فیصد اشیا اندرون ملک ہی تیار کردہ ہیں۔ چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے بحر ہند میں اپنی موجودگی کو تقویت دے رہا ہے۔

چین کی آبدوزیں ہندوستان کے پڑوسی ملک سری لنکا کی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہو چکی ہیں۔

اب ہندوستانی بحریہ طیارہ بردار جہازوں کے علاوہ 40 سے زائد جہاز تیار کر رہی ہے۔ وہ چین کی بحری پیشرفت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے مقامی انفرا اسٹرکچر کی مدد سے اپنی بحری قوت کو تقویت دے رہی ہے۔ (ایجنسی ان پٹ )


امیرشریعت سابع حضرت مولاناسید محمد ولی رحمانی رح

امیرشریعت سابع حضرت مولاناسید محمد ولی رحمانی رح

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

============================

امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے ساتویں امیر شریعت ، امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی نوراللہ مرقدہ کے نامور صاحبزادے، ممتاز عالم دین ، تصوف وتز کیہ کی دنیا کی عظیم شخصیت ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری ، رحمانی تھرٹی اور رحمانی فاؤنڈیشن کے بانی ، جامعہ رحمانی مونگیر اور درجنوں اداروں کے سرپرست ، خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب کا ۳؍اپریل دن کے ڈھائی بجے پٹنہ کے پارس ہوسپیٹل میں انتقال ہو گیااناللہ وانا الیہ راجعون، تجہیزو تکفین۲۱؍شعبان ۱۴۴۲ھ مطابق۴؍اپریل۲۰۲۱ء بروزاتواربوقت سوا بارہ بجے خانقاہ رحمانی مونگیر میں ہوئی،نماز جنازہ حضرت صاحب کے خلیفہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری مولانا محفوظ عمرین رحمانی نے پڑھائی،لاکھوں کا مجمع حضرت صاحب کے اس آخری سفر کا چشم دید گواہ رہا ،امارت شرعیہ کے ذمہ داران،کارکنان اور قضاۃ حضرات بھی اس آخری سفر میں شریک ہوئے،سرکار نے بھی رسمی اعزاز میں کوتاہی نہیں کی ، جنازہ کی نماز کے قبل ترنگا اوڑھاکر گارڈ آف آنر پیش کیاگیا ،بعد نماز مغرب تعزیتی اجلاس خانقاہ رحمانی کی تاریخی جامع مسجد میں ہوا،جس میں حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی نائب امیر شریعت ،مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی ،مولانا ابو طالب رحمانی ،مولانا خالد ندوی غازیپوری،مولانا مفتی نذر توحید مظاہری وغیرہ کے ساتھ راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی )نے بھی خطاب کیا،مولانا عمرین محفوظ رحمانی کی پُر اثر اور رُلا دینے والی دعا پر اس مجلس کا اختتام ہوا،حضرت کے پسماندگان میں دو صاحبزادے مولانااحمدولی فیصل رحمانی ، جناب حامد ولی فہد رحمانی اورایک صاحبزادی ہیں۔

حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی( ولادت : ۵؍جون ۱۹۴۳ ء) بن امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی(۱۹۱۲۔۱۹۹۱) بن مولانا سیدمحمد علی مونگیری(۱۸۴۶۔۱۹۲۷) کی تعلیم اور تربیت ابتدا میں خانقاہ رحمانی کے احاطہ میں چل رہے پرائمری اسکول میں ہوئی ، مولوی حبیب الرحمن اورماسٹر فضل الرحمن کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے نامور والد کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہ کیا ، جامعہ رحمانی مونگیر میں مشکوٰۃ شریف تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۶۱ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور۱۹۶۴ء میں دارالعلوم دیوبند سے علوم متداولہ کی تکمیل کی اور ان دونوں اداروں سے کسب فیض اور خاندانی تعلیم وتربیت کی وجہ سے زبان ہوش مند اور فکر ارجمند سے مالا مال ہوئے ۔۱۹۶۷ء میں امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب کی ادارت کے ساتھ ساتھ انہوں نے جامعہ رحمانی میں تدریس اور فتوی نویسی کا کام بھی شروع کیا ، ۱۹۶۹ء میں جامعہ رحمانی کی نظامت کے عہدہ پر فائز ہوئے ، ۱۹۷۰ء میں ایم اے کیا ،۱۹۷۴ ء میں ودھان پریشد کے رکن منتخب ہوئے ، اسی سال جامعہ رحمانی کے ترجمان صحیفہ کی ادارت سنبھالی ، حج وعمرہ کا پہلا سفر۱۹۷۵ ء میں ہوا ، اسی سال کویت بھی تشریف لے گئے ، ۱۹۷۹ء کا سال روس کے سفر،۱۹۸۴ ء روزنامہ ایثار پٹنہ کی اشاعت ، ۱۹۸۵ء بہار ودھان پریشد کے ڈپٹی چیر مین ،۱۹۹۱ ء خانقاہ رحمانی کی سجادہ نشینی ، ۲۰۰۵ء نائب امیر شریعت کی حیثیت سے نامزدگی اور ۱۹۹۶ء کورحمانی فاؤنڈیشن کے قیام کی وجہ سے مولانا کی حیاتی تقویم میں خاص اہمیت حاصل ہے ، جبکہ ۱۹۸۹ء جان لیواحملہ ، ۱۹۹۱ ء والد امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی اور۱۹۹۵ والدہ کی وفات ، ۱۹۹۶ء بیٹے خالد رحمانی کی حادثاتی موت اور۲۰۰۸ بھائی محمد وصی کی موت کی وجہ سے غم والم کا سال رہا، ۲۰۱۰ ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کورٹ کے ممبر منتخب ہوئے ۔

آپ کی تالیفات وتصنیفات میں مدارس میں صنعت وحرفت کی تعلیم ، خیر مقدم ، شہنشاہ کونین کے دربار میں، حضرت سجاد۔ مفکر اسلام، یادوں کا کارواں ، آپ کی منزل یہ ہے ، بیعت عہد نبوی میں ،تصوف اور حضرت شاہ ولی اللہ کے علاوہ ایک درجن سے زائد رسائل موجود ہیں ، جو آپ کی فکری بصیرت تحریری انفرادیت ، سیاسی درک اور درد ملت کی شاہد ہیں ، ان کے علاوہ بے شمار مضامین و مقالات جومختلف اخبارات و رسائل میں طبع ہوئے ، ابھی جمع نہیں کیے جا سکے ہیں۔

حضرت مولانا کی شخصیت ہمہ جہت تھی ، ان کی پوری زندگی ملت کی خدمت سے عبارت تھی ، خانقاہ رحمانی ، جامعہ رحمانی مونگیر ، ودھان پریشد ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ، امارت شرعیہ ، درجنوں مدارس کی سر پرستی اور رحمانی تھرٹی کے حوالہ سے ان کی خدمات کے نقوش واضح اور دوپہر کے آفتاب کی طرح روشن ہیں ۔ وہ ایک تحریکی مزاج آدمی تھے ۔جس کام کا بیڑا اٹھا لیتے ،اسے پایہ تکمیل تک پہونچا کردم لیتے تھے ، استقلال ، استقامت ، عزم بالجزم اور ملت کے مسائل کے لئے شب و روز متفکر اور سرگرداں رہنا حضرت مولانا کی خاص صفت تھی ، وہ ایک اصول پسند انسان تھے اور دوسروں کو بھی اصول پسند ؛ بلکہ اصولوں پرعامل دیکھنا پسند کرتے تھے ، مزاج میں سنجیدگی تھی؛ لیکن موقع بموقع اپنی ظرافت سے مجلس کو زعفران زار بھی بنانا انہیں خوب آتا تھا ، مولانا کے اوپر کام کا بوجھ بے پناہ تھا، عمر کی آٹھویں دہائی میں صحت میں بھی اتار چڑھاؤ آتا رہتا تھا ، ان کی قوت ارادی مضبوط اور کام کے تئیں لگن اتنی مستحکم تھی کہ ان کے ساتھ چلتے ہوئے بہت لوگوں کو پسینہ آنے لگتا تھا ۔

امارت شرعیہ کے ساتویں امیر شریعت کی حیثیت سے مفکراسلام حضرت مولانامحمد ولی رحمانی(۱۹۴۳ء تا۲۰۲۱ء) نوراللہ مرقدہ کاانتخاب ارریہ میں ۲۹؍نومبر ۲۰۱۵ء کوعمل میں آیا تھا، ۳؍اپریل ۲۰۲۱ء کو حضرت کے وصال کے بعد یہ دور اختتام کو پہونچا، اس کے قبل حضرت صاحب ۳؍اپریل ۲۰۰۵ء کو نائب امیر شریعت نامزدہوئے تھے، اس حیثیت سے دس سال سات ماہ انہوں نے خدمات انجام دیں،۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۵ء سے ۲۸؍نومبر تک وہ چھٹے امیر شریعت کے انتقال کے بعد سے امیر شریعت کے انتخاب تک''مثل امیر شریعت''امارت شرعیہ کی خدمات انجام دیتے رہے، کیوں کہ دستور امارت شرعیہ کے مطابق امیر شریعت کے وصال کے بعد نائب امیر شریعت ''مثل امیر شریعت ''ہوتاہے اوراس کا حکم امیر شریعت کے حکم کی طرح نافذ العمل ہوتاہے۔اس کے قبل ۲۲؍شعبان ۱۳۷۶ تا ۳؍رمضان۱۴۱۱ء مسلسل چونتیس (۳۴)سال وہ چوتھے امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے دست بازوبن کے امارت کے کاموں کو آگے بڑھانے میں لگے رہے۔امیر شریعت کے لیے حضرت صاحب کا انتخاب اس لیے قطعا نہیں ہوا تھا کہ وہ چوتھے امیر شریعت کے صاحب زادہ تھے، بلکہ اس کے پیچھے نصف صدی کی ان کی تاریخی خدمات تھیں۔

ساتویں امیر شریعت کا دور مسعود پانچ سال چار ماہ چھ دن رہا،امارت شرعیہ کی تاریخ میں امیر شریعت اول حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادریؒ کادور امارت سب سے کم تین سال تین ماہ ستائیس دن ہے، اس کے بعد ساتویں امیر شریعت کا دور ہے، اس مختصر دور میں حضرت نے امارت شرعیہ کے استحکام، تحفظ اور بقا کے لئے متعدد اقدام کئے، تنظیم امارت کو مضبوط کرنے کے لئے ہرضلع میں صدر سکریٹری اورفعال کمیٹی کا انتخاب عمل میں آیا، بڑی تعداد میں مبلغین کی بحالی عمل میں آئی، تاکہ تنظیم وتبلیغ کے کاموں کو زمینی سطح پر وسعت دی جاسکے، اس کے لئے دربھنگہ ،مدھوبنی،مشرقی چمپارن، مغربی چمپارن،سیتامڑھی، مظفرپور، سوپول، سہرسہ، مدھے پورہ میں دودوروز قیام کرکے آپ نے امارت شرعیہ کے تنظیمی کاموں کو مضبوطی عطا کی،جھارکھنڈ میں امارت شرعیہ کے کاموں کو وسعت دینے کے لئے انتقال سے ایک ہفتہ قبل پانچ روز قیام کیاتھا اورمختلف سطح پر کام کو آگے بڑھانے کے منصوبوں کو آخری شکل دی تھی، اس سلسلے کا آخری پراءو اڈیشہ تھا، رمضان بعد اس کی ترتیب بنی ہوئی تھی لیکن موت نے اس کا موقع نہیں دیا، دارالقضاء کے کاموں کوو سعت بخشی اوراب ارسٹھ(۶۸) دارالقضاء کام کررہے ہیں، تعلیمی میدان میں امارت پبلک اسکول کے مبارک سلسلہ کا آغاز کیا ، گریڈیہہ کے بن کھجنجو اورپسکانگری رانچی میں نئے اسکول کھولے گئے، امارت انٹر نیشنل اسکول کی بنیاد اربارانچی میں ڈالی گئی ،پہلے سے چل رہے تمام تعلیمی اداروں کو معیاری بنانے کے سلسلے میں ضروری اورمناسب اقدامات کئے گئے، طلبہ وطالبات کے لئے الگ الگ نظام بنایاگیا، بنیادی دینی تعلیم کے فروغ ،عصری تعلیمی اداروں کے قیام اوراردو کی بقاء وتحفظ اورترویج واشاعت کے لئے پورے بہار اورجھارکھنڈ میں تحریک چلائی گئی اورضلعی سطح تک کی تعلیمی تنظیم قائم کی گئی ،بہار میں اس کے دوسرے مرحلہ کا آغاز ہوچکاتھاکہ اس عظیم حادثہ فاجعہ کی وجہ سے اس پروگرام کو ملتوی کرنا پڑا،بنیادی دینی تعلیم کے فروغ کے لئے خود کفیل نظام تعلیم کے جامع منصوبہ کو جو اکابر امارت نے بہت پہلے ترتیب دیا تھا، تھوڑے اضافہ کے ساتھ نظام تعلیم کے راہنمااصول کے نام سے شائع کراکر بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ میں تقسیم کرایاگیا، اردو کو داخلی سطح پر مضبوط اورسرکاری سطح پر حقوق کی یافت کے لئے اردو کارواں کا قیام عمل میں آیا، جس نے حضرت صاحب کی توجہ سے دوماہ کے اندر ہی اپنی ایک شناخت بنالی،حضرت امیر شریعت ؒ کے اس جملہ نے کہ'' اردو کو اب دودھ پینے والے مجنوں کی ضرورت نہیں، خون دینے والے مجنوں کی ضرورت ہے''،ضرب المثل کی شکل اختیار کرلی۔ دفتری کاموں میں تیزی لائی گئی، اورجمودوتعطل کو دور کرنے کی ہرممکن کوشش کی گئی، امارت شرعیہ کے دوسرے تعلیمی اورتکنیکی اداروں ،خدمت خلق کے شعبوں کو چوکس ،مستعد اور مزید نفع بخش بنانے کا کام کیاگیا ۔

دفتری کاموں سے الگ ملی معاملات میں بھی ساتویں امیر شریعت کے دور میں مثالی کام ہوا، ۱۵؍اپریل ۲۰۱۸ء کو گاندھی میدان میں ''دین بچاءو دیش بچاء و'' کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا،یہ تاریخ کا پہلا واقعہ تھاکہ گاندھی میدان مسلمانوں سے بھردیاگیاتھا، سیاسی لوگوں کی نیندیں اس تاریخی کامیابی سے اڑگئی تھیں اورسیاسی سطح پر اس کے بڑے مثبت اوردیرپا اثرات مرتب ہوئے تھے،بڑی سیاسی پارٹیوں کے راہنمائوں نے اس عظیم کامیابی پر مبارک باد دیتے ہوئے کہاتھاکہ اب سیاسی قیادت بھی آپ کے ہاتھ ہے، حضرت صاحب نے دلت مسلم اتحاد کے لئے بھی زمینی سطح پر کام کیا اوران کے راہنمائوں کے ساتھ کئی میٹنگیں کیں۔

سی اے اے ،این آرسی اوراین پی آر کے مرحلہ کے سامنے آنے کے پہلے ہی آپ کی دوررس نگاہوں نے آنے والے طوفان کا اندازہ لگالیاتھا اورکاغذات وغیرہ کی تیاری کے لئے امارت شرعیہ نے مہم کاآغاز کردیا تھا، پھر جب سی اے اے کا معاملہ آیاتو حضرت کی مضبوط قیادت میں پورے ہندوستان میں تحریک چلائی گئی اوربہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ میں قائم تقریبا تمام احتجاج ومظاہرہ کی سرپرستی امارت شرعیہ نے کی، تین طلاق کے مسئلہ پر پورے ہندوستان میں جو تحریک چلائی گئی اس میں امارت شرعیہ کی فعال اورمضبوط شراکت رہی، خواتین کے اتنے کامیاب جلوس نکلے جس کی مثال ہندوستانی تاریخ میں نہیں ملتی، دستخطی مہم کی کامیابی کا سہر ا بھی حضرت امیر شریعت کے سرجاتاہے۔

حضرت ہی کے دور مسعود میں امارت شرعیہ ٹرسٹ کا قیام عمل میں آیا،سرکاری طورپر اسے رجسٹرڈ کرایاگیا، رقومات کی منتقلی (کیش لیش) چیک کے ذریعہ ہونے لگی، بیت المال کے پورے نظام کو سرکاری ضابطے اوردستور کے مطابق کیاگیا، اورانکم ٹیکس میں چندہ دہندگان کو رعایت دینے کے لئے کئی سرکاری ضابطوں پر عمل کیاگیا۔

مرکزی حکومت کی طرف سے نئی تعلیمی پالیسی کا مسودہ سامنے آیا تو حضرت نے تفصیل سے اس کا جائزہ لیا، اہل علم کو بلاکر اس پر میٹنگ کروائی اور ترمیمات سرکار کو روانہ کیا، سرکاری سطح پراس مسودہ کو آخری شکل دی گئی اورسرکارنے منظور کرلیا توپھر سے حضرت نے اس کی خامیاں اجاگر کیں، امارت شرعیہ کے ذریعہ طویل قانونی مسودہ کا اردو میں ترجمہ کراکر لوگوں تک پہونچایاگیا،بہار اورجھارکھنڈ کے خصوصی مشاورتی اجتماع کے صدارتی خطاب میں اس پر نقد کیا اوراس کی خامیاں لوگوں تک پہونچائیں۔

اس پانچ سالہ دور امارت میں شعبہ نشرواشاعت سے کئی معیاری کتابیں طبع ہوئیں، ان میں لڑکیوں کا قتل عام، اصلاح معاشرہ کی شاہ راہ ،حضرت سجاد مفکراسلام، مسلم پرسنل لا اورہندوستان ،قانون قضاء کی شرعی وتاریخی اہمیت ،خطبات جمعہ، حج اورعیدین کے احکام ومسائل ،مساجد کی شرعی حیثیت اورائمہ کرام کی ذمہ داریاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

امارت شرعیہ کے ترجمان نقیب کو انتہائی معیاری بنانے پر آپ نے خصوصی توجہ دی، مضامین کے انتخاب، ادارئیے، سیٹنگ،کاغذ وطباعت تک پر آپ کی نگاہ رہتی تھی اوربڑی شدت سے ہرہفتے اس کا انہیں انتظار رہتاتھا، انتقال سے چند گھنٹے قبل آپ نے نقیب کے کاغذ وغیرہ کے بارے میں اپنے رفقاء سے دریافت کیا، آکسیجن لگے رہنے اورآئی سی یو میں داخل ہونے کے باوجود ان کی خواہش نقیب کے تازہ شمارہ کو پڑھنے کی تھی، جس کی اجازت ڈاکٹروں نے نہیں دی، نقیب بارہ صفحات پر آتاتھا، اسے سولہ صفحات کا کیا، خود حضرت ایک زمانہ میں نقیب کے مدیر رہ چکے تھے اوراصغر امام فلسفی کے دور میں نقیب کا کام حضرت کے ذمہ رہا،جناب شاہد رام نگری کے دور میں ان کو ضروری مشورے دیا کرتے تھے،بلکہ اداریوں پر اکثروبیشتر عنوان حضرت ہی کے منتخب کردہ ہوتے تھے۔

امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی ؒپورے ہندستان ؛ بلکہ عالم اسلام میں بھی اپنی ملی تعلیمی ، سماجی اور سیاسی خدمات کی وجہ سے خاص شناخت رکھتے تھے ، جرأت کردار، استقامت علی الحق اور ملت کی سر بلندی کے لئے ہردم سرگرم عمل رہنے والی اس عظیم شخصیت نے اپنی خدمات کے گہرے اور ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں ، آل انڈیا مسلم پرسل لا بورڈ، مسلم مجلس مشاورت ، امارت شرعیہ ، رحمانی تھرٹی ، رحمانی فاؤنڈیشن ، خانقاہ رحمانی ، جامعہ رحمانی مونگیر ، ودھان پریشد کی ممبری اور اس کے نائب صدر ہونے کی حیثیت سے آپ کی خدمات و قیع بھی ہیں اور وسیع بھی ، جس کام کو ہاتھ میں لیا ، پورا کر کے چھوڑا ، پریشانیاں آئیں ، طوفان اٹھے ، موجوں نے سمت سفر کو بدلنا چاہا ؛لیکن حضرت صاحب کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی ، جان کو خطرہ لاحق ہوا ، زندگی میں غم والم کے مراحل آئے ، بیماریاں اور جسمانی اعذار کی وجہ سے مہینوں صاحب فراش رہناپڑا؛ لیکن ہر حال میں ملت کی فکر دامن گیر رہی ، معاشرہ کی اصلاح کی جدوجہد جاری رہی ، پرسنل لا بورڈ پر ہونے والے ہر حملے کا منہ توڑ جواب دیا، جسٹس کاٹجو نے اپنے فیصلے کی اصلاح کی، حکومت اور سرکاری عہدیداروں کو آر ٹی ای ، وقف ایکٹ ، ڈائرکٹ ٹیکسز کوڈجیسے موضوعات پر گھٹنے ٹیکنے پڑے،مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے صد سالہ اجلاس میں وزیر اعلیٰ کی بہار میں قانون و انتظام کی بگڑتی صورت حال پر سخت تنبیہ کی، حضرت نے ثابت کردیا کہ قوت مڑ جانے کا نام نہیں، موڑ دینے کا نام ہے ، انہوں نے اقبال کے مردمومن کی صفت'' زمانہ با تو نہ ساز د تو با زمانہ ستیز'' پر عمل کرکے ملت کے لئے عمدہ مثال پیش کی ، جب لوگ ''چلوتم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی ' ' کے نعرے بلند کر رہے تھے ، حضرت مولانا نے ملت کے مفاد میں طوفان کے رخ موڑنے کی مسلسل ،مربوط اور منظم جدوجہد جاری رکھی۔پورے ہندستان نے ان امور میں آپ کی جرأت وعزیمت کا لوہامانا ۔ آپ کے پانچ سالہ دور امارت میں امارت شرعیہ نے ہر اعتبار سے ترقی کے نئے رکارڈ قائم کیے ۔

اللہ رب العزت کو جس انسان سے جو کام لینا ہوتا ہے ، اس کے لئے قدرت و صلاحیت ، طاقت و استقامت اور رجال کار بھی فراہم کرتا ہے ، ملک و ملت کی ہر دور میں یہی تاریخ رہی ہے ۔ حضرت مولانا کو بھی اللہ تعالی نے موثر گفتگو ، بے مثال خطابت ، لا جواب نثر نگاری کی صلاحیت سے مالا مال کیا تھا، ان کی گفتگو مدلل ،تحریر باوزن ، اور تقریر''ان من البیان لسحرا'' کی تصویر ہوتی تھی ، سنتے رہئے اور سردھنتے رہئے ، قوت سماعت بھی لطف اندوز اورقوت عمل بھی متحرک اور بیدار اور ان سب کے ساتھ تصوف وتزکیہ کے ماہر اور حسن کردار کا مظہر جس کی وجہ سے لوگوں پر خاص اثر اور کیف طاری ہوتا تھا ، اور لاکھوں کا مجمع آپ کی گفتگو سننے اور آپ کی ایک جھلک پانے کے لئے بے چین رہتا تھا۲۹ / نومبر۲۰۱۵ کو التمش ملیہ کالج زیرو مائل ارریہ میں منعقد اجلاس عام کومثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ۔ جس میں محتاط اندازے کے مطابق ساڑھے تین لاکھ سے زائدلوگ سرد موسم میں آپ کی تقریر سننے کے لئے دیر رات تک جمے رہے اور ہلنے کا نام نہیں لیا ۔ایسی ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیت کا اٹھ جانا علمی، ملی، تعلیمی سیاسی اور سماجی اعتبار سے بڑا خسارہ ہے۔

امریکہ میں طیارہ حادثہ، چھ افراد ہلاک

امریکہ میں طیارہ حادثہ، چھ افراد ہلاک

جہاز کا حادثہ
جہاز کا حادثہ 

(اردو اخبار دنیا) 

  واشنگٹن: امریکہ کے الاسکا میں پیش آئے ایک طیارہ حادثے میں چھ افراد کی موت ہوگئی ہے۔

الاسکا پبلک میڈیا نیوز چینل نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ڈی ہیوی لینڈ بیور طیارہ جمعرات کے روز تقریبا 19:20 بجے کوسٹ گارڈ کو ایمرجنسی سگنل بھیجنے کے بعد کیچیکن قصبے کے قریب گر کر تباہ ہوگیا۔ نیوز چینل کے مطابق حادثے کی اطلاع ملنے کے بعد امدادی ٹیم کے دو تیراک موقع پر پہنچے، لیکن کوئی زندہ نہیں پایا گیا۔ ابھی تک اس حادثے کی وجوہات کا پتہ نہیں چل سکا ہے


اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...