Powered By Blogger

ہفتہ, اگست 14, 2021

لاک ڈاؤن کا قومی پرچم کے کاروبار پر اثر ، جھنڈا بنانے والے کاروباری نے بیان کیا اپنا درد

(اردو اخبار دنیا)کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن نے جہاں عام زندگی اور کاروبار کو متاثر کیا ہے۔ وہی اس کا قہر ان خاندان پر بھی برپا ہوا ہے۔ جو عوامی سطح پر حب الوطنی کے جذبے کے اظہار کیلئے قومی جھنڈے بنانے کا کام کرتے تھے۔ سال میں دو مرتبہ 26 جنوری اور 15 اگست کے موقع پرترنگے جھنڈےکے ذریعے لوگ ملک کے تئیں اپنی محبت کا اظہار کرتے تھے۔ لیکن کورونا وائرس اور لاک کی آفت سے یہ کاروبار بھی بچ نہیں سکا۔ ممبئی میں کئی ایسے خاندان ہیں جو اپنے گھروں میں قومی پرچم بنانے کا کام انجام دیتے ہیں۔

لاک ڈاؤن نے اس گھریلو صنعت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ ممبئی کے کرلا علاقے کے قریش نگر میں رہنے والی فرزانہ کا کہنا ہیکہ ہر سال تقریباً 20 لاکھ جھنڈوں کے آرڈر دستیاب ہوتے تھے لیکن گذشتہ سال سے جھنڈوں کی مانگ میں بھاری کمی آئی ہے۔ اس سال 20 لاکھ کی جگہ صرف بیس ہزار جھنڈے بنانے کا آرڈر ملا ہے۔ فرزانہ جیسے کئی خاندان کرلا اور ممبئی کے مختلف علاقوں میں قومی پرچم بنانے کا کام کرتے ہیں لاک ڈاؤن کی وجہ سے قومی پرچم کی مانگ میں گراوٹ کے سبب ان کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔واضح رہے کہ قومی پرچم بنانے والے یہ خاندان ممبئی کے بازاروں میں پرچم سپلائی کرتے ہیں اور اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔

لاک ڈاؤن نے اس گھریلو صنعت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔



فرزانہ کا کہنا ہیکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ممبئی اور مہاراشٹر میں اسکول اور کالج بند ہونے کی وجہ سے قومی پرچم کی فروخت میں گراوٹ درج کی گئی ہے اسکولوں اور کالج میں قومی تقریبات بھی منائی نہیں جارہی ہے اور بجے بھی اسکول نہیں جارہے ہیں۔ ایسے میں قومی پرچم کی فروخت میں زبردست گراوٹ درج کی گئی ہے۔ قومی پرچم کی فروخت میں آنے والی گراوٹ کا سیدھا اثر ان خاندان پر بڑا ہے جو سال میں دو مرتبہ قومی تہواروں کےموقعوں پر ترنگا جھنڈا بناتے اور فروخت کرتے ہیں ۔

پی ایم مودی کا اعلان ، 14 اگست کو ‏Partition Horrors Remembrance Day ‎منایا جائے گا

(اردو اخبار دنیا)نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے 14 اگست کو ملک بھر میں 'وبھاجن وبھیشیکا اسمرتی دیوس' Partition Horrors Remembrance Day منانے کا اعلان کیا ہے۔ سنیچر کو انہوں نے ٹویٹ کیا کہ یہ دن بنٹوارے کے دوران لوگوں کی جدوجہد اور قربانی کی یاد میں منایا جائے گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس سے امتیازی سلوک اور بددیانتی کا زہر کم ہوگا۔ ملک میں 75 واں یوم آزادی 15 اگست کو منایا جائے گا۔


وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹویٹ کیا ، 'ملک کی تقسیم کے درد کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ نفرت اور تشدد کی وجہ سے ہمارے لاکھوں بہنوں اور بھائیوں کو بے گھر ہونا پڑا اور یہاں تک کہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ان لوگوں کی جدوجہد اور قربانی کی یاد میں 14 اگست کو ' Partition Horrors Remembrance Day' کے طور پر منانے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔




وہیں ایک اور ٹویٹ میں ، وزیر اعظم نریندر مودی نے لکھا ، 'یہ دن نہ صرف ہمیں امتیازی سلوک ، دشمنی اور بددیانتی کے زہر کو ختم کرنے کی ترغیب دے گا بلکہ اس سے اتحاد ، سماجی ہم آہنگی اور انسانی جذبات کو بھی تقویت ملے گی۔'

آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی ذمہ داریاں

(اردو اخبار دنیا)از: ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی

ایڈیٹر:ہفت روزہ آب حیات بھوپال ایم پی

یہ ملک ہندوستان جس کے بارے میں ہمارے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ مجھے ہندوستان سے ٹھنڈی ہوائیں آرہی ہیں جس کا نقشہ علامہ اقبال نے ان الفاظ میں کھینچا ہے ؎

میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے

میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے

ہم اس ملک میں آئے تو اپنے ساتھ انصاف، اخوت، مساوات، علم و فن، ثقافت و تہذیب، امن و رواداری، محبت و انسانیت کی روشنی اور خدمت و تعمیر کا جذبہ لائے اور ہم نے ان اوصاف کو یہاں کے لوگوں پر خوب لٹایا اور فیاضی کے ساتھ لٹایا۔ اس کے عوض میں یہاں کی زرخیز مٹی نے علم و حکمت کے جو ذخیرے اپنے اندر محفوظ رکھے تھے، ہمارے قدموں میں ڈال دیئے۔ ہم نے یہاں کے ذرے ذرے سے محبت کی۔ یہاں کے چپہ چپہ کو اپنے جذبۂ عشق کی سجدہ گاہ بنایا۔ یہاں کی محبت ریز سرزمین نے ہمارے دلوں کو جیت لیا اور اس سرزمین نے ہمارے سروں پر شفقت و عنایت کا ہاتھ رکھا۔ ہمارے حوصلوں، ہماری امنگوں کو رعنائیاں اور شادابیاں عطا کیں، ہم نے اسے وطن کا پر عظمت مقام دے دیا۔ اس کی خدمت ہماری سعادت بن گئی، اس کی حفاظت اور اس کا احترام ہمارے لئے سر مایۂ افتخار بن گیا، اس کی آغوش ہمارے لئے شفقت و محبت بن گئی۔ ہم نے یہاں کے سرد و گرم کو برداشت کیا، طوفان، مصائب کا سامنا کیا، ہمیشہ خارزار کو گلستان بنانے کی کوشش کی اوروں کی جانب گل پھینکتے رہے، تاریخ کی ایک لمبی مسافت ہے جو ہم نے اس سرزمین میں عظمت و سربلندی کے لہراتے ہوئے پرچم کے سایہ میں طے کی ہے۔ یہاں کی گلریز وادیوں نے ہمارے پاؤں چومے اور سنگلاخ پہاڑیوں نے جھک کر ہمارے قدموں کو بوسے دیئے۔ مئی 1857ء کی تاریخ ہمارے اس پروقار سفر کی آخری سرحد ثابت ہوئی۔ پھر کچھ ضمیر فروشوں نے اپنی قوم، اپنے مذہب اور اپنے وطن کا سودا کیا جس کے نتیجے میں انگریزوں نے تقریباً 90 سال تک بڑے آن و بان اور شان و شوکت کے ساتھ یہاں کے ذرہ ذرہ پر حکومت کی۔ انہوں نے اپنی حکومت و اقتدار کے زمانہ میں ہندوستانیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ ہمارے آبا و اجداد نے ہندوستان کی عظمت اور آزادی کی پامال کرنے والی سفید فام قوم سے مقابلہ کے لئے اپنے برادران وطن کا انتظار کئے بغیر جنگ آزادی کے میدان میں تنہا کود گئے۔ ہم نے وطن کی عظمت اور آزادی کو پامال کرنے والی سفید فام قوم کو اپنی رگوں کے خون کے آخری قطرے تک برداشت نہیں کیا۔ انگریزوں نے ہمارے اور برادران وطن کے درمیان پھوٹ ڈالنا شروع کیا اور اس نے Divide Rool کی پالیسی اپنائی۔ انگریزوں نے نفاق کے شعلوں کو بھڑکانے کے لئے یہ عملی اقدام کیا کہ پہلے مسلمانوں کو کچلا اور ہندوؤں کو آگے بڑھایا اور پھر ہندوؤں کی ہمت شکنی کی اور مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی۔ 15 اگست 1947ء کی درمیانی شب میں ہمارا ملک فرنگیوں کے قبضہ و تسلط سے آزاد ہوگیا اور وطن کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ تقسیم کے درد ناک نتائج کو ہم نے دیکھا۔ جمعیۃ العلماء چیختی رہی کہ اس ملک کو تقسیم ہونے سے بچا لو لیکن تقسیم کے لئے مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ عام آدمی انصاف کرنے نہیں بیٹھتا، نہ اس کی رسائی غیر مسخ شدہ تاریخ تک ہو پاتی ہے اور اس اجتماعی جھوٹ کی تہہ تک جو حقیقت کے برعکس مسلمانوں کے خلاف پھیلایا گیا کہ مسلمان پاکستان بنانے کے باوجود یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور حکومت ان کی منہ بھرائی کر رہی ہے۔ برادران وطن نے تھوڑی دیر کے لئے بھی یہ نہیں سوچا کہ منہ بھرائی کا نتیجہ پسماندگی، تنزلی، خستہ حالی اور افلاس نہیں ہوتا۔ ہندوستانی مسلمانوں پر جو الزام لگائے گئے ان کے ازالے یا صفائی کی ہم نے بھی کوئی وقیع کوشش نہیں کی۔ اس طرح دونوں قوموں کے درمیان تلخی بڑھتی چلی گئی حالانکہ اس ملک میں ہم اقلیت میں ضرور ہیں لیکن ہماری اتنی بڑی اقلیت ہے کہ اکثریت کے بعد اس کا دوسرا نمبر ہے۔ بقول حضرت علی میاں ندوی علیہ الرحمہ کہ اس کو اقلیت کہنا بھی صحیح نہیں بلکہ اس کو ملت کہنا چاہئے اور ہم وہ ملت ہیں جو خدا کا واضح پیغام رکھتی ہے جو آخری آسمانی کتاب کی حامل ہے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی دولت ہمارے پاس ہے۔ نوع انسانی کے لئے رحمت و ہدایت کا عظیم سرمایہ اسوۂ رسول، حیات صحابہ اور مثالی و معیاری انسانوں کے کردار و عمل کا عظیم ذخیرہ ریکارڈ موجود ہے۔ اس لئے ہمیں تو چاہئے تھا کہ اپنے بساط بھر اکثریت کی بدگمانی کو دور کرتے اس سے ان کی عداوت دور ہوتی۔ شاید ہم بھول گئے یا حالات نے ہمیں بھلا دیا کہ اس ملک میں ہمیں کیا کرنا چاہئے کہ ہم نے دعوت سے نہ مثال سے نہ حسن معاملات سے نہ خوبی سیرت سے برادران وطن کا دل جیتنے کی کوشش کی۔ کیا تویہ کیا کہ ہم نے ہندوستان میں آکر اس مساوات کو بھول گئے جو ہمارا طرۂ امتیاز تھی، ہم نے اس غیر منصفانہ اور ظالمانہ تقسیم کو ایک حد تک اپنا لیا جو ہندوستان میں ہزاروں سال سے رائج تھی، ہم نے ان کو وہ پیغام نہیں پہنچایا جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم تک پہنچا، ہم نے اللہ کے کلمہ کو خود اپنے ذات ہی تک محفوظ و محدود رکھا، ہم نے یہ بھی نہیں کیا کہ ہم اہل وطن سے قریب ہوتے، ان کو جانتے، پہچانتے، ان کے ساتھ اچھے روابط و تعلقات قائم کرتے، انسانی بنیادوں پر ان کے کام آتے، ان کو ان کی زبان میں پریم و شانتی اور امن کا پیغام دیتے۔ انسانیت کی خدمت کرکے ان کے دلوں میں اپنی جگہ بناتے۔ عوام کی بات تو چھوڑ دیں، ممبر آف پارلیامنٹ سطح کے لوگ بھی اسلام اسلامی عقیدہ، اسلامی اخلاق، اسلامی عبادات اور اسلامی معاملات سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں۔ وہ قرآن کو مذہبی کتاب کی طرح ایک کتاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اوتار اور مسجد کو مندر کی طرح پوجا کا ایک جگہ (استھل) اور نماز کو مندر میں کی جانے والی پوجا کا ایک طریقہ سمجھتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر پارلیامنٹ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی قانون بنتا ہے، عدالتوں سے قرآن و حدیث کے خلاف کوئی فیصلہ آتا ہے تو کیا اس میں ہمارا قصور نہیں ہے؟ سینکڑوں سال ہوگئے، ہمیں اس ملک میں رہتے ہوئے اور یہاں کے غیر مسلموں کے شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے۔ ہم آج تک انہیں یہ نہیں بتا سکے کہ قرآن کیا ہے؟ حدیث کیا ہے؟ نماز کیا ہے؟ زکوٰۃ کیا ہے؟ روزہ کیا ہے؟ حج کیا ہے؟مسجد کیا ہے؟ اذان کیا ہے؟ نکاح کیا ہے؟ طلاق کیا ہے؟ وراثت کیا ہے، چار شادیوں کا مسئلہ کیا ہے، دفنانے میں حکمت کیا ہے؟ ختنہ کا فائدہ کیا ہے؟ پردہ کا مقصد کیا ہے؟ داڑھی کا معاملہ کیا ہے؟ ہمارے ملک کے چوٹی کے لیڈران اسلام سے کتنے واقف ہیں؟ اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ مسلم مطلقہ عورت کے گزارہ کو لے کر ہندوستان میں ایک جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ یہ تین طلاق چار نکاح اور متبنی کا مسئلہ کوئی نیا نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً یہ آواز خاص خاص موقعوں پر اٹھتی رہتی ہے اور ہم نے ہمیشہ اس آواز کو دبایا ہے اور اب بھی دبا دیں گے۔ لیکن اصل مسئلہ ہماری اپنی ذات کا ہے۔ ہندوستان میں گزارہ بھتہ کو لے کر جنگ چھڑی ہوئی تھی، اس وقت کے وزیر اعظم تھے مرحوم راجیو گاندھی۔ اس مسئلہ کے حل کے لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داروں اور وزیر اعظم راجیو گاندھی کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ چل رہا تھا۔ رمضان کا مہینہ آگیا، اگلی ملاقات کے لئے جو دن طے ہوا وہ رمضان کا تھا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر اس وقت حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی علیہ الرحمہ تھے۔ انہوں نے راجیو گاندھی سے کہا کہ ہم لوگوں کو رمضان میں دہلی آنا مشکل ہے، کیوں کہ گرمی بہت سخت ہے، رمضان کے علاوہ کوئی اور دن بات چیت کے لئے رکھ لیا جائے۔ اس پر راجیو گاندھی نے جو جواب دیا اس سے اس سطح کے لیڈروں کی اسلام سے عدم واقفیت کا اندازہ ہم سب لگا سکتے ہیں اور یہ بات خوب اچھی طرح سوچ سکتے ہیں کہ ایسے ناواقف شخص کے فیصلے ہمارے مذہبی معاملات میں کیسے صحیح ہوسکتے ہیں۔ راجیو گاندھی جی نے کہا مولانا صاحب

راہول گاندھی کیس میں این سی پی سی آر کا فیس بک انڈیا کو نوٹس ، 17 اگست کو پیش ہونے کو کہا : ‏NCPCR notice

نئی دہلی: (اردو اخبار دنیا)ان دنوں مرکزی حکومت اور کانگریس کے درمیان سوشل میڈیا پر شدید لڑائی جاری ہے۔ دریں اثنا ، یہ خبر ہے کہ ٹوئٹر کے بعد راہل گاندھی کے خلاف ڈیجیٹل پابندی مزید سخت ہو سکتی ہے۔

نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) نے بھی راہول گاندھی کے فیس بک اکاؤنٹ پر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی نے ریپ متاثرہ کے والدین کی شناخت ظاہر کر کے پوکسو قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کے لیے این سی پی سی آر نے فیس بک انڈیا کے سربراہ کو نوٹس بھیجا ہے۔ فیس بک انڈیا کے سربراہ کو 17 اگست کی شام 5 بجے پیش ہونے کا نوٹس دیا گیا ہے۔

اس سے قبل ٹوئٹر راہل گاندھی کے اکاؤنٹ کو لاک کر چکا ہے اور نہ صرف راہل گاندھی بلکہ 10 سے زیادہ کانگریس لیڈروں کا ٹویٹر اکاؤنٹ لاک ہے۔ اس کے ساتھ ہی کانگریس کے کئی آفیشل ٹوئٹر ہینڈلز کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ راہل گاندھی اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ کے بند ہونے کے بعد مسلسل حکومت پر حملہ کر رہے ہیں۔ راہول گاندھی نے کل ٹوئٹر پر تعصب کا الزام بھی لگایا تھا۔ ساتھ ہی راہل نے کہا تھا کہ ٹویٹر صرف وہی سنتا ہے جو حکومت چاہتی ہے۔

بی جے پی نے بھی راہول گاندھی کے الزامات کا جواب دیا۔ بی جے پی کے ترجمان اور بہار حکومت میں وزیر شاہنواز حسین نے کہا کہ ٹوئٹر اور بی جے پی کے درمیان کیا تعلق ہے۔ ساتھ ہی بی جے پی یووا مورچہ کے صدر تیجسوی سوریا نے کہا کہ راہل نے عصمت دری کی شکار کی تصویر شیئر کرکے ملک کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے

شاطر لٹیروں نے 50 لاکھ روپے کے ایک کلو سونے کی ڈالی ڈکیتی ، پولیس نے کیا گرفتار

ممبئی (اردو اخبار دنیا)پولیس زون 10 کی حراست میں اور ان کے چہرے کالے کپڑے سے ڈھکے ہوئے یہ وہی ساتوں مجرم ہیں جو 19 جولائی 2021 کو ممبئی میں اندھیری ہائی وے پر ایک بس میں سفر کر رہے ایک جویری سے ایک کلو سونا لے کر فرارہو گئے تھے جس کے بعد اس پوری واردات کو لے کر اندھیری پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔پولیس کے مطابق چوری شدہ ایک کلو سونے کی کل قیمت 50 لاکھ کے قریب ہے۔ ان ساتوں ڈاکوؤں کی گرفتاری کے بعد اس گینگ کی موڈ آپریشن کے تعلق سے پولیس نے کہا ہے کہ اس شا طرگینگ کے تمام ممبران اپنے شکار کا پہلے سے اندازہ لگاتے تھے اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ ڈکیتی کو انجام دیتے تھے۔

جیسا کہ شکار سے بیگ چھیننے کا کام کون کرے گا پھر کس کا سامان چوری یا چھینا گیا ہے جب وہ شخص یا تاجر شور مچانے کی کوشش کرے گا تو کون متاثرہ کی مدد کرے گا۔صرف یہی نہیں عام لوگوں کے ہجوم کی بجائے ، اس گینگ نے اپنے تمام سرگرم ممبران کو متاثرہ کے ساتھ کھڑا کرنے اور ہجوم کا حصہ بننے کا منصوبہ کرتے تھےپولیس نے ان سات ملزمین سے 475 گرام سونا ضبط کیا ہے۔ ملزمین میں 6 ممبئی کے رہائشی ہیں اور ایک ملزم راجستھان کا ہے۔ ان سب کے خلاف پہلے ہی کئی سے کئی مقدمات درج ہیں۔



مہندر مورے پر دوکریمنل کیس درج ہیں۔ منیج مینڈھیکر پر تین مقدمات .امین شیخ پر نو مقدمات ششی کانت پولورکر پر چار . وجے کمار گپتا پر 12 مقدمات جبکہ سنگھ راجپوت پر ایک مقدمہ درج ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ ممبئی پولیس ساتوں ملزمین کے خلاف درج مختلف مقدمات کے حوالے سے MCOCA کے تحت ان کے خلاف کارروائی کرنے کی بھی تیاری کر رہی ہے۔ اس پورے واردات کو حل کرنے کے بعد ممبئی پولیس نے عام لوگوں سے اپیل کی ہے کہ چاہے آپ پیدل چل رہے ہوں یا کسی گاڑی یا بس سے سفر کر رہے ہوں۔اس دوران اگر آپ کے پاس کوئی بیگ یا پاؤچ ہے تو اسے بہت مضبوطی سے پکڑلیں یا اسے محفوظ جگہ پر

پاکستان میں آج منایا جارہا ہے 74 واں جشن آزادی

پاکستان میں آج منایا جارہا ہے 74 واں جشن آزادی

سبز رنگ میں نہایا پاکستان
سبز رنگ میں نہایا پاکستان
(اردو اخبار دنیا)

 

کراچی / لاہور / پشاور / کوئٹہ / اسلام آباد: آج پاکستان میں جشن یوم آمادی منایا جارہا ہے،جس کا سلسلہ کل رات کو شروع ہوگیا تھا۔مختلف شہروں میں  رات 12 بجتے ہی  جشن آزادی کا آغاز ہوتے ہی شاندار آتش بازی اور چراغاں کر کے 74ویں آزادی کا جشن منایا گیا۔

جشن آزادی کی مناسب سے شہر شہر جیوے پاکستان کے نعروں کی گونج اور سبز ہلالی پرچموں کی بہار ہے جبکہ ہر شخص نےقومی نغمے سُن کر اور پاکستان کے حق میں‌ نعرے لگا کر وطن سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔

کراچی تا کشمور اور گوادر سے خنجراب تک ہر طرف وطن سے محبت کا اظہار کیا جارہا ہے اور پاکستانی قوم آج یوم آزادی روایتی شان و شوکت سےمنارہی ہے جس کی وجہ سے فضاؤں میں پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند ہورہے ہیں۔

چودہ اگست کی مناسبت سے گلیوں اور محلوں کو جھنڈیوں سے سجایا گیا ہے جبکہ بچوں سمیت تمام عمر کے لوگوں نے اپنے سینے پر بیج سجا لیے تو کسی نے وطن سے محبت کا اظہار پوسٹرز بنا کر کیا۔

 ملک کے تقریباً تمام ہی بڑے شہروں میں جشن آزادی کی مناسبت سے شاندار آتش بازی کا مظاہرہ کیا گیا۔

شہری لاہور میں مینار پاکستان، کراچی میں فائیو اسٹار چورنگی پر پاک سر زمین پارٹی کی جانب سے شاندار آتش بازی کا اہتمام کیا گیا، جس کو دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں پہنچے جبکہ نوجوان نے موٹرسائیکلوں پر نکل پر قومی پرچم تھام کر مارچ کیا۔

 آج دن کا آغاز ملک اور قوم کی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کے لئے خصوصی دعاؤں کے ساتھ ہوگا، مزار قائد اور مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی پر وقار تقریبات منعقد کی جائیں گی جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21،21 توپوں کی سلامی دی جائے گی۔


خاتون خواجہ سرا نے کھولا ریستوراں

خاتون خواجہ سرا نے کھولا ریستوراں

خاتون خواجہ سرا نے کھولا ریستوراں
خاتون خواجہ سرا نے کھولا ریستوراں
  • (اردو اخبار دنیا)

یہ ایک حقیقت ہے کہ خواجہ سرا(Transgender)بھی ہمارے معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں، تاہم معاشرہ انہیں کبھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا ہے۔

خواجہ سرا عام طور پر ہمیں تالی بجانے والے بھکاری کی شکل میں نظر آتے ہیں، چند پیسے سڑکوں پر مانگ کراپنی روزہ مرہ کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔

خواجہ سرا کو اگرچہ سماج کا سب سے کمترحصہ سمجھا جاتا رہا ہے تاہم اب خواجہ سرا بھی سماج کی آنھکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلے کرنے لیے تیار ہو رہے ہیں۔

اب وہ تجارت میں بھی داخل ہو رہے ہیں اور سیاست میں بھی اپنی شمولیت کا حصہ دکھا رہے ہیں۔ آئیے ایسے ہی ایک خواجہ سرا عروج حسین کی کہانی سناتے ہیں۔

قومی دارالحکومت نئی دہلی سے متصل ریاست اترپردیس کے ضلع گوتم بدھ نگر کے شہرنوئیڈا کی خاتون خواجہ سراعروج حسین ایک ریستوراں شروع کر اپنی روز مرہ کی زندگی گزار رہی ہیں۔

خیال رہے کہ خواجہ سرا عروج حسین کی عمر اس وقت 27 برس ہے، اب وہ اپنی کمیونٹی کے لیے ایک مثال بن گئی ہیں۔ عروج کا کہنا ہے کہ اسے اپنے آپ پر فخر ہے کہ وہ اپنے ریستوران کو خود چلارہی ہے ، سوسائٹی کے بنائے ہوئے دقیانوسی تصورات کو توڑ رہی ہیں۔

وہیں اب عروج اپنے معاشرے کے لوگوں کے لیے ایک مثال بن گئی ہیں۔

عروج ایک ریستوراں کو بطور ٹرانس وومن(Trans woman )چلا رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے معاشرے کی زیادتی سے تنگ اآکر ریستوراں کا کام شروع کیا ہے۔ فی الوقت ان ریستوراں نوئیڈا کے سیکٹر 119 میں ہے۔ ان کے ریستوراں سب کے ساتھ یکساں برتاو کیا جاتا ہے۔

اس کا نام اسٹریٹ ٹیمپٹیشن ( Street Temptations )ہے۔

عروج نے بتایا کہ وہ بھی ایک عام بچے کی طرح پیدا ہوئی تھیں، آہستہ آہستہ اسے احساس ہونے لگا کہ اس کا جسم صرف لڑکوں جیسا ہے، لیکن جذبات لڑکیوں کی طرح ہیں۔

اس کی وجہ سے اسے خاندان اور معاشرے میں بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ عروج نے بتایا کہ اس کا خاندان، دوست سب چاہتے تھے کہ وہ لڑکے کی طرح برتاؤ کرے۔ تاہم مرد والی شبیہ سے ہمیشہ ناخوش رہیں۔

اگرچہ انھوں نے ایسا کرنے کی بہت کوشش کی ، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ 22 سالوں تک ایک لڑکے کی طرح رہیں، کام کی جگہ پر مرد ملازم کے طور پر کام کیا ، لیکن ہمیشہ اسے تنگ کیا جاتا رہا۔

عروج حسین نے اسکول کی تعلیم کے بعد ہوٹل مینجمنٹ کا کورس کیا اور 2013 میں نئی دہلی آگئی۔

یہاں بھی انٹرنشپ کے دوران ان کے ساتھ جسمانی زیادتی کی گئی، انہیں ذہنی اور جسمانی ٹارچرکا سامنا کیا گیا۔

عروج نے بالآخر پریشان ہو کر اپنے آپ کو لوگوں سے دور رکھنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد اس نے ہمت جمع کی اور سوچا کہ اسے کچھ الگ کرنا چاہئے جوسماج اور معاشرے کے لیے ایک مثال بن جائے۔ 

سنہ 2014 میں عروج نے خود کو تبدیل کرنے کے لیے سائیکومیٹرک ٹیسٹ کروانے کے بعد لیزر تھراپی سےعلاج کروایا۔

اس دوران وہ تنہائی محسوس کرتے ہوئے گھر میں بند رہیں۔ ان پر متعدد مرتبہ خودکشی  کے خیالات بھی آئے تھے۔ اب عروج اپنے جسمانی بناوٹ کی وجہ سے خوش ہیں۔

انھوں نے کئی سال کی جدوجہد کے بعد 22 نومبر 2019 میں ریستوراں شروع کیا۔

اس وقت سات افراد کی ایک ٹیم ریستوراں میں کام کرتی ہے، جس میں دو شیف ہیں۔

ذرائع کے مطابق عروج حسین کے ریستوراں کے سارے ملازم خواجہ سرا ہیں۔

عروج ہر شہر میں اپنے ریستوران کے برانچ کھولنے کی خواہش رکھتی ہیں، جسے صرف خواج سرا ہی چلائے۔

اس ضمن میں عروج کہتی ہیں کہ اس کے پیچھے ایک اہم مقصد یہ تھا کہ تمام خواجہ سرا خود سماج کا ایک حصہ سمجھ کر زندگی گزاریں، تاکہ خواجہ سرا کمیونٹی کا کوئی بھی فرد خود کو کمزور نہ سمجھے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...