Powered By Blogger

اتوار, اگست 15, 2021

وائس مقابلہ مصوری کے نتائج،توحید،سمیدھااور ساکشی اول

وائس مقابلہ مصوری کے نتائج،توحید،سمیدھااور ساکشی اول

آوازدی وائس مقابلہ مصوری کے نتائج،توحید،سمیدھااور ساکشی اول
آوازدی وائس مقابلہ مصوری کے نتائج،توحید،سمیدھااور ساکشی اول
(اردو اخبار دنیا)

 

منجیت ٹھاکر / نئی دہلی

ایک طویل غوروفکر کے بعد ، آواز-دی وائس کا پینٹنگ کم سلوگن مقابلہ بالآخر اختتام کو پہنچا۔ مقابلے کا نتیجہ اتوار کو سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کی جانب سے یوم آزادی کی تقریبات کے بعد اعلان کیا گیا۔ اس مقابلے میں ہزاروں بچوں نے حصہ لیا۔

ماہرین کی ٹیم نے ان میں سے 300 کو شارٹ لسٹ کیا۔ ان میں سے جمشید پور کے محمد توحید خان سینئر کیٹگری (کلاس 11 ویں - 12 ویں) میں پہلے نمبر پر رہے۔ گریٹر نوئیڈا کی سمیدھا شریواستو آٹھویں ، نویں اور دسویں جماعت میں اول رہیں۔ سمیدھا کلاس 7 کی طالبہ ہیں۔ جبکہ پمپری چنچواڑ کی ساکشی سومیشور ٹرمبیکے جونیئر کیٹیگری (کلاس 4 سے کلاس 7) میں پہلے نمبر پر رہی۔

ان تمام مقابلوں کو 10 ہزار روپے کا نقد انعام دیا گیا ہے۔

نتائج کا اعلان کرتے ہوئے سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے نہ صرف مقابلے میں حصہ لینے والوں کے روشن مستقبل کی خواہش کی بلکہ انہیں بہتر شہری بننے کا مشورہ بھی دیا۔

دوسرے نمبر پر بچے

، سینئر زمرہ (کلاس 11 ویں - 12 ویں)

محمد شکیل - کلاس 12 ویں - نئی دہلی۔

کلاس 8 ، 9 اور 10۔

آنچل کماری - کلاس 9 - تیج پور (آسام)

جونیئر زمرہ (کلاس 4 سے کلاس 7) اگمپریت سنگھ - کلاس 5 - نئی دہلی

جسلین کور - کلاس 5 - نئی دہلی

تیسرے مقام پر سینئر زمرہ (کلاس 11 ویں - 12 ویں)

شبھم کمار گری - 12 ویں - چترنجن (مغربی بنگال)

کلاس 8 ، 9 اور 10۔

جپنور کور - کلاس 8 - ہاتھرس (اتر پردیش)

جونیئر زمرہ (کلاس 4 سے کلاس 7)

تنئے مہیش گاڈگے - کلاس 6 - پونے

اس کے علاوہ بچوں کے جوش اور ان کی تصاویر کے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے آواز - دی وائس کی انتظامیہ نے ہر کیٹیگری میں 10 بچوں کو حوصلہ افزائی انعامات دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ان سب کو 500 روپے کا نقد انعام دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شرکت کرنے والے تمام طلباء کو شرکت کا سرٹیفکیٹ بھی فراہم کیا گیا ہے۔

حوصلہ افزائی کے انعامات جونیئر زمرہ (کلاس 4 سے کلاس 7)

گورما وانچو - 6 - گریٹر نوئیڈا

حوریہ خاتون انصاری - 6 - لکھنؤ۔

جویریہ ارشد - 6 - لکھنؤ۔

زین العابدین - 6 - لکھنؤ۔

نیاتی متل - 6 - غازی آباد۔

سمیک جین - 4 - پونے

راجیو مشرا - 7 - لکھنؤ۔

ایکانشی گوئل - 5 - دہلی۔

محمد صفیان - 4 - حیدرآباد۔

آشیکا رستوگی - 6 - لکھنؤ۔

کلاس 8 ، 9 اور 10۔

نیلنجنا ماگو- 8 ویں نئی ​​دہلی

مکل جوہری - 10 ویں - پریاگ راج۔

شریانسی جین - 8 ویں - بہرائچ۔

سجل لونیا - 10- نئی دہلی۔

اودے ورما- 10- گروگرام

پرشانت پانڈے - 9 - لکھنؤ۔

شبھم مشرا - 9 - کانپور۔

سریشتی بھاردواج - 8 - پریاگ راج۔

بھوی بھلا - 9 - نئی دہلی۔

لولی کماری - 9 - نئی دہلی۔

سینئر زمرہ (کلاس 11 ویں - 12 ویں)

راکیش کمار 12 ویں جموں

پرگتی شرما - 12 ویں - علی گڑھ۔

اکشیتا کھنہ - 11 واں - گوتم بدھ نگر۔

نیشو نیگی - 11 واں - گروگرام۔

پریرنا کیلاش واگھ - 12 ویں - ممبئی۔

ویبھوی لگاد - 12 ویں - پونے۔

دانش سونکر - 11 واں - نئی دہلی۔

خوشی گجنان قدم - 12 ویں - امراوتی۔

ورشا - 12 ویں - نئی دہلی۔

 


کیوں ہوتی ہیں؟ کیوں نہیں ہونی چاہیے ہندو مسلم شادیاں

کیوں ہوتی ہیں؟ کیوں نہیں ہونی چاہیے ہندو مسلم شادیاں

کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں

mustafa-ali-sarwari
محمد مصطفی علی سروری
فرزانہ کی عمر (24) سال سے تجاوز کرچکی تھی۔ #آندھرا پردیش کے جس گاوں میں اس لڑکی کا خاندان رہتا ہے وہاں پر عام طور پر #لڑکیوں کی اس عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی شادیاں ہوجایا کرتی تھیں۔ فرزانہ کے والد نے بھی اپنی لڑکی کی #شادی کے لیے تیاریاں کر رکھی تھیں کہ جب بھی بچی کی شادی ہوگی تو وہ دھوم سے اس کی شادی کریں گے۔ انہوں نے بچی کی شادی کے لیے 10 تولہ سونے کے #زیورات خرید رکھے تھے اور ساتھ ہی کچھ پیسے بھی جمع کر رکھے تھے لیکن ان سب کے باوجود فرزانہ کی شادی نہیں ہوسکی۔
فرزانہ کی شادی کے لیے اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس کے لیے مناسب رشتہ نہیں مل رہا تھا۔ لوگ اگرچہ لڑکی کو دیکھنے کے لیے آتے لیکن اس کے بعد پھر جواب دیتے بول کر ایسے چلے جاتے کہ فون بھی نہیں کرتے۔فرزانہ کے والد صاحب ایسا نہیں تھا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنی لڑکی کے رشتے کے لیے اخبار میں ضرورت رشتے کا اشتہار بھی دیا تھا اور رشتہ طئے کروانے والے مشاطہ حضرات کی خدمات بھی حاصل کی تھیں۔
کوئی کہتے تھے کہ فرزانہ پر اثرات ہے۔ کسی کے نزدیک فرزانہ کا رنگ کم ہونا، اس کے رشتے کی رکاوٹ بن رہا ہے، کسی کے لیے فرزانہ کا قد کا کم ہونا اور اس کے وزن کا زیادہ ہونا مسئلہ تھا۔ #فرزانہ کی والدہ نے ہائی اسکول کے بعد اپنی بچی کو اسکول جانے نہیں دیا اور اس کو ایک دینی #مدرسہ میں داخل کروادیا جہاں سے اس نے کئی برس تعلیم بھی حاصل کی۔
فرزانہ کے والد کی اپنی علاقے میں جتنے لوگوں سے بھی جان پہچان تھی اُن سب کو وہ اپنی #لڑکی کی شادی کے لیے ذکر کرتے تھے۔ مقامی مسجد اور مدرسہ کے ایک مولانا نے انہیں ایک #وظیفہ بھی لکھ کر دیا تھا کہ روزانہ پڑھنے کا معمول رکھیں ان شاء اللہ جلد ہی شادی کے لیے اللہ رب العزت آسانیاں پیدا کرے گا۔
دوسری طرف فرزانہ کی والدہ کو یقین ہوتا جارہا تھا کہ ان کی لڑکی پر اثرات ہیں جس کی وجہ سے اس کی شادی میں رکاوٹ ہو رہی ہے ۔ کسی نے ان کو مشورہ دیا کہ اگر وہ اچھے عامل سے رجوع ہوکر اپنی لڑکی کا #علاج کرواتے ہیں تو فائدہ ہوسکتا ہے۔ بس اسی خیال کے ساتھ انہوں نے ایک #عامل بابا سے رجوع ہونے کا فیصلہ کیا۔ تلگو زبان کے ایک اخبار میں ایک بابا کا اشتہار آیا تھا جس میں شادی اور روزگار کے لیے شرطیہ علاج کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
بابا شہر #حیدرآباد آئے ہوئے تھے۔ ان سے علاج کروانے کے لیے فرزنہ کے والدہ اس کو لے کر حیدرآباد پہنچتی ہیں۔ جہاں پر #اترپردیش کے بابا ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ بابا کی بھاری فیس دینے کے بعد فرزانہ کی والدہ اپنی بیٹی کو لے کر بابا سے ملی۔ انہوں نے تعویذ بھی دی اور پڑھ کر پھونک بھی ماری اور یقین دلایا کہ اب فرزانہ کی شادی جلد ہوجائے گی کیونکہ انہوں نے علاج شروع کردیا ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ فرزانہ کو ان کے پاس آتے رہنا ہوگا تاکہ وہ علاج پورا کرسکیں۔
فرزانہ کی والدہ نے صاف کہہ دیا کہ وہ آندھرا پردیش سے سفر کر کے حیدرآباد آئے ہیں اس لیے زیادہ حیدرآباد میں زیادہ دن نہیں ٹھہر سکتے۔ تب بابا نے کہا کہ فرزانہ کا باقی کا علاج وہ فون پر کریں گے۔ فرزانہ اپنی ماں کے ساتھ واپس گائوں چلی جاتی ہے۔ اب بابا روزانہ فون پر فرزانہ کا علاج کرنے لگے۔ بابا کا فون آتا تو خود فرزانہ کی ماں اس کو بات کرنے کو کہتی۔ یوں یہ علاج کا سلسلہ چل پڑا۔ 
پھر ایک دن فرزانہ جو اپنے بھائی اور باپ کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلتی تھی اچانک اپنے گھر میں سے کسی کو کچھ بتائے بغیر غائب ہوجاتی ہے۔ ماں باپ اور رشتہ دار پریشان ہوکر ہر جگہ تلاش کرتے ہیں جب فرزانہ کا کہیں پتہ نہیں چلتا تو مجبور ہوکر اس کے گھر والے پولیس میں شکایت درج کرواتے ہیں۔
قارئین یہاں تک تو قصے میں وہ باتیں تھیں جو لوگوں نے بتائی۔ ہم نے صرف لڑکی کا نام تبدیل کردیا لیکن اب آگے کی تفصیلات کے لیے ہم باضابطہ طور پر ممبئی سے شائع ہونے والے اردو اخبار ممبئی اردو نیوز کا حوالہ دے رہے ہیں۔
4؍ اگست 2021 کی اشاعت میں اردو کے اس اخبار نے اپنے رپورٹر شبیر شاد کی ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی، جس کے مطابق سہارنپور کا ایک نوجوان آصف جھاڑ پھونک کا کام کرتا ہے۔
وہ اسی دھندے کے لیے وجئے واڑہ گیا تھا جہاں پر اس کی ملاقات 24 سالہ لڑکی سے ہوئی۔ اس نے لڑکی کو اپنی محبت میں گرفتار کرلیا اور شادی کا وعدہ اور اقرار کر کے سہارنپور لے آیا۔ لڑکی اپنے گھر سے 10 تولہ سونا بھی ساتھ لائی تھی۔ آصف لڑکی کو ضلع کے کئی مقامات پر کرایہ کے گھروں میں رکھتا رہا اور جب لڑکی نے شادی کے لیے اصرار کیا تو اس کو گھمانے کے بہانے لے کر گیا اور جمنا ندی میں دھکا دے دیا۔ 
آصف لڑکی سے شادی کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس لیے اس نے لڑکی کو جمنا ندی میں دھکا دے ڈالا۔ ملزم کی نشاندہی کے بعد پولیس نے غوطہ خوروں کی مدد سے لڑکی کی نعش کو جمنا ندی سے نکال لیا اور ملزمان کے قبضے سے 10 تولہ سونا بھی برآمد کرلیا۔
قارئین ذرا غور کریں جب ہم مسلمانوں نے خود اپنے ہی معاشرے میں لڑکیوں کی شادی کو رنگ روپ، قد اور خوبصورتی سے جوڑ دیا تو اس کے کتنے سنگین نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ یہاں تک لڑکیوں کی شرطیہ شادی کروانے والے ڈھونگی بابائوں کا کاروبار اور اس کاروبار کے بہانے لڑکیوں کا استحصال کا سلسلہ چل پڑا ہے۔
دیر سے سہی اب مسلمانوں میں مسلم لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکیوں کے ساتھ شادی کے مسئلے پر احباب لب کشائی کر رہے ہیں لیکن اصل مسئلہ مرض کی صحیح تشخیص اور اس کے صحیح علاج کا ہے۔
یقینا دین اسلام سے دوری اس مسئلہ کا ایک اہم سبب ہے۔ لیکن دین اسلام کی تعلیمات کے باوجود مسلم معاشرے میں لڑکیوں کی شادی کو جس قدر پیچیدہ بنادیا گیا۔ اس کا سدباب کیے بغیر مسئلے کو حل کرنا ممکن نہیں ہے۔
انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے 25؍ جون 2021ء کو بنگلور سے ایک خبر شائع کی تھی۔ Karnataka "Honor Killing”: Dalit Youth Muslim girls stabbed”  اس سرخی کے تحت خبر میں بتلایا گیا کہ شمالی کرناٹک کے علاقے وجئے پورہ ضلع میں ایک 18 سالہ مسلم لڑکی 19 سال کے ایک دلت آٹو ڈرائیور کے ساتھ عشق میں گرفتار ہوگئی تھی۔
لڑکی کے مسلمان گھر والوں نے ہندو لڑکے اور اس کے گھر والوں کو وارننگ بھی دی لیکن ایک دن جب مسلم لڑکی ہندو لڑکے کے ساتھ ایک کھیت میں بیٹھی ہوئی تھی تو پتہ چلنے پر لڑکی کے گھر والوں نے غیرت کے مارے اپنی بچی اور اس کے ساتھ لڑکے کو بھی سب کے سامنے #قتل کرڈالا۔ پولیس نے لڑکی کے والد، بھائی اور اس کے دو بہنوئیوں کو قتل کے الزام میں گرفتار کر کے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔
قارئین صرف مسلم لڑکیوں کی ہندو لڑکوں کے ساتھ شادی مسئلہ نہیں، بلکہ مسلم لڑکوں کا ہندو لڑکیوں کے ساتھ شادی کرنا بھی ایک خطرناک اور سنگین مسئلہ ہے جس کا مسلم کمیونٹی کو تدارک کرنا ضروری ہے۔ ایک ایسے پس منظر میں جب فرقہ وارانہ ماحول گرم ہے، ایسے واقعات ہندو مسلم منافرت کو بڑھاتے ہیں۔ دوفرقوں اور مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان خلیج کو مزید بڑھاتے ہیں۔
دو ایک واقعات کہہ کر ہم کب تک مسلم سماج میں شادیوں کے مسئلے کو نظر انداز کریں گے۔ خدارا سونچئے۔ آنکھیں کھولیے گا اور ہر فرد اپنے طور پر اس حوالے سے کام کرے۔ کیونکہ شادی مسئلہ بن گئی ہے تو ہماری شادیاں صرف دولہا، دلہن اور قاضی تین ہی فریق نہیں ہوتے بلکہ ایک اہم فریق تو دعوتیوں کا ہوتا ہے اور ان کو بھی اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔
29؍ جولائی  2021ء کو اخبار ٹائمز آف انڈیا ، بجنور، اتر پردیش سے ایک خبر شائع کی تھی جس کی سرخی  Woman crashes Muslim Partner’s Nikah, Walks away with him in Bijnor” تھی۔ 
خبر کی تفصیلات کے مطابق 26؍ جولائی کو بجنور کے مندوار علاقے میں اجمل احمد نام کے 25 سالہ نوجوان کی نکاح کی تقریب جاری تھی۔ عین نکاح سے پہلے ایک ہندو لڑکی پولیس کے اہلکاروں کے ساتھ نکاح کی محفل میں پہنچ جاتی ہے اور پھر پولیس اہلکار اجمل احمد کو اپنے ساتھ لے کر چلے جاتے ہیں۔ پولیس کے حوالے سے اخبار نے لکھا ہے کہ بجنور کے رہنے والا اجمل دراصل دہلی میں لوگوں کی حجامت بنانے کا کام کرتا ہے اور دہلی میں قیام کے دوران اس کی پہچان اپنے ہی سیلون کی 22 سالہ لڑکی سنتوش کماری کے ساتھ ہوگئی۔ اس کے بعد دونوں ایک ساتھ ایک ہی گھر میں رہنے لگے تھے۔
پھر ایک دن اجمل لڑکی کو کچھ بتائے بغیر اپنے گائوں بجنور آگیا تھا۔ جہاں پر اس کے گھر والوں نے اس کی شادی ایک مسلم لڑکی سے طئے کردی تھی۔ لیکن سنتوش کماری کو جیسے ہی اجمل کی شادی کے بارے معلوم ہوا وہ پولیس کے پاس رجوع ہوکر ثبوت پیش کردی کہ وہ اور اجمل ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور اجمل نے اس سے شادی کا وعدہ بھی کیا تھا اور وہ دہلی میں ایک ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ اب وہ اجمل کو پولیس کی موجودگی میں اس کی نکاح کی محفل سے اپنے ساتھ لے کر دہلی چلی گئی اور پولیس کے مطابق وہ لوگ دہلی میں شادی کرنے والے ہیں۔ 
اس واقعہ کا بھی نوٹ لیں کہ کس طرح مسلم لڑکے شادی کی عمر کو پہنچ گئے ہیں لیکن گھر والے مختلف بہانوں اور وجوہات کے سبب ان کی شادیوں میں تاخیر کر رہے ہیں۔ پہلے بہن کی شادی، پھر بھائی کا نمبر آئے گا۔ پہلے گھر خریدنا ہے پھر شادی کرنا ہے۔ ایسے ہی ہزار بہانوں سے جب لڑکوں کی شادی میں تاخیر کی جارہی ہے تو لڑکے بھی اپنی حاجات کی تکمیل کے لیے شریعت کے دائرے سے باہر راستے تلاش کر رہے ہیں۔
ایسے میں ماں باپ، لڑکا لڑکی، ان کے رشتہ دار اور شادیوں کی دعوتوں میں بڑے اہتمام سے شرکت کرنے والے تمام افراد کی ذمہ داری ہے وہ مسلم معاشرے میں نکاح کو آسان بنانے کے لیے کام کریں۔ نکاح کو آسان بنانے سے مراد صرف کسی تقریب کو آسان بنانا نہیں ہے۔ اول تو بچوں کی صحیح تربیت کرنا، دوم ان کے بالغ ہونے کے بعد اسلامی شعائر کے مطابق نکاح کا انتظام کرنا اور سب سے اہم بات نکاح کے لیے مال و دولت، حسب و نسب ، رنگ روپ کے بجائے دینداری کی بنیادوں پر رشتے کو ترجیح دینا شامل ہے۔
سمینارس، مباحثوں اور تقاریر سے نہ تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور نہ ہی صرف علمائے کرام اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔ جب تک مسلم سماج کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرے گا تب تک اس مسئلہ کا سدباب ممکن نہیں۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو ایسی فہم و فراست عطا فرمائے کہ ہم اپنی غلطیوں کا خود احتساب کرسکیں اور دوسروں سے شکوے و شکایات کے بجائے اپنے دامن میں خود جھانک سکیں۔ آمین یا رب العالمین ۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)

خواجہ معین الدین چشتی درگاہ: کمیٹی کی میٹنگ 16 اگست کو، جھالر-چبوترہ تنازعہ پر ہوگا تبادلہ خیال

  • (اردو اخبار دنیا)

اجمیر: راجستھان میں اجمیر کی مشہور صوفی خواجہ معین الدین حسن چشتی کی درگاہ کا انتظام سنبھالنے والی کمیٹی کی میٹنگ 16 اگست کو ہوگی۔ میٹنگ کی صدارت کمیٹی صدر امین پٹھان کریں گے۔ درگاہ کے ناظم کی جانب سے کمیٹی ارکان کو ایجنڈا ارسال کیا جاچکا ہے۔ میٹنگ میں درگاہ کے ترقیاتی کاموں کے ساتھ درگاہ کے پیچھے جھالرا چتوبرے کے تنازع پر بھی تبادلہ خیال ہوگا۔ بتایا جارہا ہے کہ میٹنگ درگاہ کے نزدیک غریب نواز گیسٹ ہاؤس میں ہوگی۔

درگاہ کمیٹی کی میٹنگ ایسے وقت ہو رہی ہے جب اجمیر میں محرم (منی عرس) چل رہا ہے اور 16 تاریخ کو خواجہ غریب نواز کی 9 ہجری 1443 کی پہلی ماہانہ چھٹی بھی ہوگی۔ ایسے میں درگاہ کے ارکان میٹنگ میں حصہ لینے کے ساتھ ماہانہ چھٹی میں بھی شرکت اور درگاہ میں حاضری دے سکیں گے۔

آج علی الصبح بابا فرید کا چلہ کھول دیا گیا جو تین دن کھلا رہے گا۔ محرم کے دوران کھلے چلے پر زیارت کے لئے درگاہ میں بھی عقیدت مندوں کی قطار بند بھیڑ جمع ہے۔ بابا فرید کی درگاہ پاکستان کے پاک پٹن میں ہے جہاں ان دنوں عرس چل رہا ہے

گرل فرینڈ کی شادی میں انٹری، لڑکے نے بیک وقت منگیتر اور محبوبہ سے شادی کرلی

  • (اردو اخبار دنیا)

دنیا بھر میں محبت کسی اور سے اور شادی کسی اور سے جیسے واقعات بے شمار پائے جاتے ہیں لیکن انڈونیشیا میں حال ہی میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ انڈونیشیا کی مغربی ریاست نوگاتینگارا میں 20 سالہ کورک اکبر کی شادی ان کی منگیتر سے کی جارہی تھی کہ عین اسی لمحے کورک کی محبوبہ بھی شادی کی تقریب میں پہنچ گئیں۔

لڑکے کی محبوبہ نے اس کی ہونے والی بیوی کو اپنے تعلق کے حوالےسے بتایا اور شادی کی اجازت مانگی جس پر دُلہن نے بھی اپنے ہونے والی شوہر سے تعلق توڑنے سے انکار کردیا۔

رپورٹ کے مطابق حیرت انگیز طور پرکورک اکبر کی منگیتر نے اس کی محبوبہ کو بھی اپنے ہونے والے شوہر سے شادی کی اجازت دے دی جس پر لڑکے نے بیک وقت دونوں سے شادی کرلی۔

کورک اکبر کی منگیتر کا کہنا تھا کہ شوہر کی محبوبہ کو ہماری شادی کی اطلاع سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے ملی۔

کورک کی اہلیہ کی جانب سے محبوبہ سے شادی کی اجازت پر لڑکے کے اہل خانہ بھی حیرت میں مبتلا ہوگئے تاہم انہوں نے شادی کرنے کی اجازت دے دی

۔

ہندوستان کی جنگ آزادی میں علماء و اسلامی مدارس کا کردار

  • (اردو اخبار دنیا)

تحریر: حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی

ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں خاص کر علما کا رول(Role)انتہائی اہمیت رکھتا ہے ساتھ ہی ساتھ مدارس اسلامیہ بھی اس میں شانہ بشانہ شامل تھے۔ جنگ آزادی کی داستان بہت طویل اور انتہائی دردناک ہے جس کا احاطہ ایک چھوٹے سے مقالہ میں ممکن نہیں۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کی ایک سچی حقیقت یہ بھی ہے کہ علماے کرام نے اس جنگ کو جہاد کا نام دیا تھا، 1857ء میں علامہ فضل حق خیر آبادی، مولانا لیاقت اللہ الہٰ آبادی، مولانا احمد اللہ مدراسی وغیرہ وغیرہ علما نے فتویٰ جہاد دیا اور اس کی خوب تشہیر (Publicity)پورے ملک میں کی جس سے پورے ملک میں آزادی کی لہر دوڑ گئی۔ علماے کرام کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں نے بھی اس جنگ آزادی میں دل و جان سے حصہ لیا اور انتہائی درجہ کی تکلیفیں برداشت کیں اور ہزاروں علماے کرام کو انگریزوں نے جوش انتقام میں پھانسی پر لٹکا دیا اور علما نے بڑے عزم و حوصلہ سے مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندوں کو قبول کر لیا تب جاکر 15؍ اگست 1947ء کو ہندوستان کو آزادی ملی۔ اور آج ہم ہندوستان کی کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔

پر افسوس! اس وقت ہمارا ملک جس بحرانی دور سے گزر رہاوہ ہم سب پر عیاں ہے فرقہ پرست عناصر اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے نا قانون کا خیال کر رہے ہیں اور نا ہی انسانیت کے اصولوں کو مان رہے ہیں، اسلام اور مسلمانوں کو ہر ممکن نقصان پہنچا رہے ہیں۔ فرقہ پرست اور متعصب لوگ مدارس اسلامیہ اور مساجد و مسلمانوں کے خلاف ایک منظم تحریک چلائے ہوئے ہیں، جب سے مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بنی ہے، اس کے بعد سے مدارس، مساجد اور مسلمانوں کے کردار کو مسخ کیا جارہا ہے اور اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی مہم میں زبردست شدت آئی ہوئی ہے۔ فرقہ پرست لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات نے مدرسوں کے وجود کے لیے خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ گزشتہ 3؍جولائی 2015 کو حکومت مہاراشٹر کی جانب سے ریاست کے مدارس اسلامیہ کے متعلق جو فیصلہ آیا اس پر پورا ہندوستان تقریباً یک زبان ہوگیاکہ یہ فیصلہ مدارس کے خلاف ہے۔ اور اب تو آ سام،یوپی وغیرہ وغیرہ نے تو مدارسِ اسلامیہ کو ختم کرنے پر پوری طاقت لگائی ہوئی ہے اللہ خیر فرمائے آمین.

کہا جارہاہے کہ مدرسوں کا وجود ملک کی سا لمیت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ وہاں دہشت گردوں کوپنا ہ دی جاتی ہے او ران کے تربیت کا اہتمام کیا جاتاہے۔ مزید یہ ان جگہوں میں جہاد کے لیے ذہن سازی کی جاتی ہے اور ماحول تیار کیا جاتا ہے۔ لیکن ان جھوٹے اور شرمناک الزامات کے ٹھوس ثبوت تو کیا جزوی ثبوت بھی پیش نہیں کئے گئے۔ (اورانشاء اللہ قیامت تک نہ پیش کرسکیں گے)اس کے باوجود مختلف ذرائع ابلاغ، پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا سے مدرسوں کے خلاف شر انگیز مہم مسلسل جاری ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آزاد ہندوستان میں ان ہی مدارسِ اسلامیہ اور علمائے کرام کاکردار نمایاں تھا۔ ملک کو آزاد کرانے والے ان ہی مدارس کے پروردہ تھے۔ 1857ء میں انگریزوں نے ہندوستان سے اسلام کو نیست ونابود کرنے کا بگل بجا دیا تھا۔ ہزاروں علما تختہ دار پر چڑھائے گئے تھے۔

جنگِ آزادی میں علماء کا کردار

یہ بڑا المیہ اور سانحہ ہے کہ آج ہماری نوجوان نسل بہت ہی کم جانتی ہے کہ جنگِ آزادی میں علما کا کوئی کردار و کارنامہ رہا ہے۔ جب کہ سچائی یہ ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان کی حکومت مسلمانوں سے چھینا تھا اس لیے دوسری قوموں کے مقابلے میں مسلمانوں نے آزادی کے لیے بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں۔ بڑے بڑے علمائے اسلام نے جنگ آزادی کا بگل بجایا اور خود پیش پیش رہے۔ جنگِ آزادی کے دوران اور شکست کے بعد گرفتار یوں کے وقت طرح طرح کی مصیبتیں اٹھائیں اور صابر و شاکر رہے اور ملک و ملت کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی پیچھے نہ ہٹے۔ ان عظیم المرتبت علمائے اسلام میں چند کا مختصر تذکرہ ملاحظہ فرمائیں۔

علامہ فضلِ حق خیرآبادینے1857 کی تحریک میں نمایاں حصہ لیا۔ مسلمانوں کو عزت و آبرومندانہ زندگی بسر کرنے کے لیے ایک باقاعدہ جہاد کا فتویٰ تیا ر کیا۔ جگہ جگہ دورے کئے اور دہلی پہنچ گئے۔ مولانا فضل حق کے مشورے سے صرف لال قلعہ کی پوشیدہ مجلسوں تک محدود نہ تھے۔ وہ جنرل بخت خاں سے ملے، مشورے ہوئے۔ آخر میں بعد نماز جمعہ دلی کی جامع مسجد میں علما و عوام کے کثیر اژدہام کے سامنے زبردست تقریر کی اور فتویٰ پیش کیا۔ گرفتار ہوئے، مقدمہ چلا، انگریز ججوں کے سامنے پیش کئے گئے۔ جس مخبرنے عدالت میں مولانا پر اعتراض پیش کیا تھا آپ کی علمی ہیبت سے لرز اٹھا اور کہنے لگاکہ یہ وہ شخص نہیں ہے جس نے فتویٰ جہاد پر دستخط کیا تھا۔ علامہ نے بلا لو مۃ الائم انگریز کچہری کو للکارا اور کہامخبر جو بیان پہلے دے چکا ہے وہی صحیح ہے اور اب میری صورت دیکھ کر مرعوب ہوگیاہے اورجھوٹ بول رہا ہے۔ سنو، جہاد کا فتویٰ میں نے دیا ہے اور میں اب بھی اپنے فتویٰ پر قائم ہوں اور اس سلسلے میں میں نے اپنے فیصلہ سے سرمو انحراف نہیں کیا۔ دریائے شور(کالا پانی) کی سزا ہوئی۔ جزیرہ انڈمان بھیجے گئے جہاں انگریزوں نے آپ پر آپ کے ساتھیوں پر سخت ظلم و ستم ڈھایا۔ انڈمان میں ہے 12؍صفر 1227ھ کو آپ کا انتقال ہوا۔

حضرت مولانا کفایت علی کافی مرادآبادی:1857ء سے قبل آگرہ اکبر آباد میں قیام تھا۔ انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ صادر فرمایا۔ بریلی کے اطراف میں جہاد کے لیے دورے کئے۔ حویلی مرادآباد میں فرنگی سامراج کے خلاف علمِ جہاد بلند فرمایا۔ جدھر آپ کا رخ ہوا برطانوی سامرج کو شکست کا سامنا ہوا۔ سلطان بہادر شاہ ظفر نے آپ کو دہلی بلایا اور جہاد کے لیے مشورے کئے۔ مولانا نے جنرل بخت خان، شیخ افضل صدیقی، شیخ بشارت علی خاں، مولانا سبحان علی، نواب مجدالدین، مولانا شاہ احمد اللہ مدراسی کی معیت میں مختلف محاذوں پر انگریزوں کوشکستیں دیں۔ رام پور، مرادآباد کے اکثر معرکے سر کئے۔ بالآخر انگریزوں نے 6؍رمضان 1274ھ/30؍اپریل 1858ء کو اپنے پٹھو کلال فخرالدین اور دیگر دغا بازوں کی سازش کے ذریعہ گرفتار کرکے مرادآباد جیل سے متصل بر سرعام تختہ دار پر لٹکادیا۔ پھانسی کے وقت مولانا مندرجہ ذیل اشعار ترنم سے بڑے ہی والہانہ انداز میں پڑھ رہے تھے۔

کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا

پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا

ہم سفیرو باغ میں ہے کوئی دم کے چہچہے

بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا

اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو

اس تنِ بے جان پر خالی کفن رہ جائے گا

سب فنا ہوجائیں گے کافی ولیکن حشر تک

نعت حضرت کا زبانوں پہ سخن رہ جائے گا

مولانا رضا علی خان عابدی: مجدد دین و ملت امام احمد رضا خاں کے دادا بزرگوار نے فرنگی تسلط کے خلاف مجاہدین آزادی کے ساتھ تحریک آزادی میں بھر پور حصہ لیا۔ بریلی میں آپ کا مکان اور مسجد انقلابیوں کا مرکز تھا۔ مولانا عنایت احمد کا کوروی، نواب خان بہادر کی قیادت میں جگہ جگہ ان کے ساتھ رہے۔ جنرل ہڈسن نے آپ کا سر قلم کرنے کا انعام پانچ سو روپئے رکھا تھا۔ مشہور مورخ ملی سن لکھتا ہے:بریلی کے اندر لوگوں میں برطانوی حکام کے خلاف جو یورش پھیلی اس کے تمام تر ذمہ دار بخت خاں اور اس کا ساتھی ملا شاہ علی رضا علی ولد حافظ کا ظم علی تھے جو بریلی کے عوام کو برطانوی حکام کے خلاف مقابلہ کرنے پر بے حد بر افروختہ کیا۔ اگر ملا رضا بریلوی اپنے عقیدت مندوں سمیت ہمارا مقابلہ نہ کرتا تو بریلی شہر پر ہمارا قبضہ بالکل آسان تھا۔%

*مولانا عبد الجلیل علی گڑھی :* تحریک آزادی 1857ء میں مجاہدین نے انگریزوں کو علی گڑھ سے بے دخل کر دیا تو قیادت کا بار مولانا عبد الجلیل علی گڑھی کے حوالے کیا گیا۔ دوبارہ انگریزوں نے علی گڑھ پر چڑھائی کی تو دشمن سے مقابلہ میں بہت سے مجاہدین شہید ہوگئے۔ مولانا عبد الجلیل بھی ان شہدا میں شامل تھے۔ جامع مسجد علی گڑھ میں دفن ہوئے۔ مولانا امام بخش صہبائی دہلوی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی مہاجر مکی، مولانا ڈاکٹر وزیر خان بہاری، مولانا مظفر حسین کاندھلوی، مولانا رضی الدین بدایونی بھی جامع مسجد علی گڑھ میں مدفون ہوئے۔

*مجاہد اعظم مولانا سید احمد اللہ شاہ مدراسی:* 1857ء میں انگریزوں کے خلاف علمِ جہاد بلند کرکے تحریک کے قائد اعظم کی حیثیت سے بخت خان کے دست راست بن کر دہلی پہنچے۔ بخت خان کے مشورے سے علامہ فضل حق نے بعد نماز جمعہ جامع مسجد دہلی میں جہاد کی اہمیت پر شعلہ بار تقریر کی اور اس کے لیے فتویٰ جہاد مرتب کیا۔ مفتی صدرالدین آزردہ، ڈاکٹر وزیر خاں، سید مبارک شاہ، احمداللہ شاہ مدراسی نے اس پر اپنے دستخط کئے اور مختلف مقامات پر لڑائی میں شرکت کی۔ آگرہ میں انگریزی استبداد سے ٹکرائے پھر کانپور میں برطانوی اقتدار کے پرخچے اڑائے، پھر لکھنؤ میں محاذ فتح کئے اور جنرل کولن کیمبل کو دوبارہ شکست دی۔ پھر فیض آباد میں فرنگی سامراج کا ستیا ناس کیا۔ الغرض برطانوی اقتدار کے پرخچے اڑانے والوں میں آپ کا نام سر فہرست ہے۔ تن من دھن سب کچھ ملک و ملت پر نثار کرکے بالآخر شاہجہاں پور کے میدان کارزار میں داد شجاعت دیتے ہوئے 13؍ذیقعدہ 1275ھ کو جام شہادت نوش فرما گئے۔

*مفتی صدرالدین خان آزردہ:*
انگریزوں کا اقتدار بڑھتا دیکھا تو تحریکِ آزادی کا علم اٹھا کر فتویٰ جہاد نشر کیا۔ مجاہدین و اکابرین تحریکِ آزادی کی قیادت کی۔ عظیم الشان کتب خانہ جو زندگی بھر کی تلاش کا حاصل تھا فتویٰ جہاد پر دستخط کرنے کے جرم میں جائیداد کے ساتھ ضبط ہوگیا۔ گرفتار ہوئے۔ جائیدادتو مل گئی لیکن ظالم انگریزوں نے کتب خانہ واپس نہ کیا۔ شعر گوئی میں کمال رکھتے تھے۔ بروز جمعرات 24؍ربیع الاول 1285ھ بستی نظام الدین اولیا دہلی میں داعی اجل کو لبیک کہا۔

*مفتی عنایت احمدکاکوروی:*
علی گڑھ میں ہی سرکار انگریزی میں مفتی و منصف کے منصب پر مقرر کئے گئے۔ ایک سال کے بعد بریلی تبادلہ ہوا جہاں اکابر علما و رہنما اصحاب کی سرکردگی میں تحریک انقلاب کی سلسلہ جنبانی جاری تھی۔ مفتی عنایت احمد بھی شب و روز بریلی کے انقلابی گروہ کی مشاورتی مجالس میں شرکت کرنے لگے اور نواب خان بہادر خان کی قیادت میں جہاد حریت تنظیم کے لیے سرگرم عمل ہوئے۔ روہیل کھنڈ اوربریلی مجاہدین آزادی کا عظیم مرکز تھا اور اس علاقہ میں اینٹی برٹش تحریک کے قائد امام احمد رضا کے دادا مولانا رضا علی خاں صاحب تھے۔ مجاہدین کے لیے کھانا اور سواری کے جانور کے انتظام میں وہ پیش پیش تھے۔ مجاہدین کے لشکر میں شامل ہوکر محاربات میں علما حصہ لینے لگے۔ جگہ جگہ خان بہادر خان کے دست راست بنے۔ کمال جرأت و ہمت سے لڑتے رہے۔ جنرل بخت خان بریلی پہنچے اور دارالتخت دہلی کے مرکزی محاذ پر شرکت کے لیے رام پور یوسف علی خان نے جنگ آزادی میں مجاہدین کی اعانت سے انکار کیا تو جنرل بخت خاں نے فوج کشی کردی۔ اس جنگ میں بھی مفتی عنایت احمدنے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مولوی سرفراز علی صاحب کے مشورے سے مرادآباد ہوتے ہوئے دہلی گئے۔ وہاں ابھی تک ہنگامہِ کارزار گرم تھا۔ مفتی صاحب میدان شجاعت میں تیغ آزمائی بھی کرتے رہے اور مجلس مشاورت میں خاص طور سے شرکت فرمارہے۔ مفتی صاحب نے دوسرے رہنما ئے حریت کی معیت میں محاربہِ بریلی میں اول اول فتح حاصل کی لیکن وطن دشمن غداروں کی ناپاک حرکات کی وجہ سے بالآخر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ شہیدانِ حریت کے ارواح پر رحمت کے پھول نچھاور ہونے کی دعائے خیر کرتے ہوئے میدان سے رخصت ہوگئے۔ مفتی عنایت احمد صاحب انگریزی تسلط کے بعد گرفتار کر لیے گئے۔ کالا پانی کی سزا تجویز ہوئی۔ 1858ء میں کالا پانی بھیج دئے گئے۔ وہاں پہلے سے حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی، مولانا مفتی مظہر کریم دریاآبادی موجود تھے۔ زنداں کی تکلیف اور غریبی الوطنی کے باوجود حفظ قرآن پاک بھی کیااور سیرت نبوی میں ’’حبیب اللہ‘‘ وغیرہ کتابوں کی مدد و مراجعت کی تالیف کی۔ 1277ھ/1860ء ایک انگریز افسر جس کی فرمائش پر دو دن زنداں تقویم بلدان ترجمہ کیا اور حافظ وزیر علی داروغہ جیل کی کوشش سے رہا کئے گئے۔ کاکوری میں تھوڑا عرصہ قیام کے بعد کانپور چلے آئے۔ اسی سال ’’مدرسہ فیض عام‘‘ قائم کیا۔ مولانا لطف اللہ علی گڑھی مشہور زمانہ عالم و بزرگ مدرسہ کے پہلے فارغ طالب علم تھے۔ 1279ھ میں بذریعہ پانی جہاز حج و زیارت کے ارادے سے روانہ ہوئے۔ 11؍شوال المکرم 1279ھ /17؍ اپریل 1863ء کو جہاز پہاڑ سے ٹکرا کر ڈوب گیا۔ مفتی صاحب حالتِ نماز احرام باندھے ہوئے غریقِ رحمت ہوئے۔ آپ کی کل تصانیف کی تعداد بیس ہے۔ (جنگ آزادی کے مشاہیر علمائے اہلِ سنت، مفتی مجاہد حسین حبیبی۔ آل انڈیا سیرت کولکاتا مغربی بنگال)

یہ ملک تمہارا نہیں یہ ملک ہمارا بھی ہے۔ اس ملک کی آزادی کے لیے ہم نے بھی جان گنوائی ہے۔

*تاریخ (History) کی اہمیت:*

*علامہ اقبال نے کہاہے:*

"جس طرح ایک شخص کی زندگی میں حافظہ (Memory) کی زبردست اہمیت ہے، حافظہ (یادداشت) اگر کم ہوجائے یا بالکل ختم ہوجائے تو اس کی زندگی اس کے لیے بے معنی ہوجائے گی۔ اس طرح ایک قوم یا ملت کی زندگی میں تاریخ کی زبردست اہمیت ہے۔ کیونکہ اگر اس کی تاریخ گم ہوجائے گی یا گمنامی میں چلی جائے گی، دفن ہوجائے گی تو اس قوم کی زندگی بھی بے معنی اور بے کار ہوکر رہ جائے گی”-

*انگریزوں کی چال، مدارس کا زوال، علما کا کمال*

جنگِ آزادی کے وقت علم دین کے مراکز مدارسِ اسلامیہ اجڑنے لگے تھے۔ پھرباقاعدہ حکومت کے زیر نگرانی ان قلعوں پر یلغار کر دی گئی۔ عیسائی مشنریوں کا ایک سیلاب امڈ پڑا تھا جو ہندوستان کے بھولے بھالے اور ناواقف مسلمانوں کو اپنے دامِ فریب میں جکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اگر یہ مدارس اور ان کے فارغین یعنی علمانہ ہوتے، چھوٹے چھوٹے مکاتب، بڑے بڑے مدارسِ اسلامیہ اور عظیم الشان دینی ادارے نہ ہوتے تو شاید یہ لوگ اپنے فریب میں کامیاب ہوجاتے۔ اہلِ نظر، اہلِ علم جانتے ہیں کہ ہندوستان میں انگریزوں کی عمل داری سے پہلے دہلی، آگرہ، لاہور، ملتان، گجرات، جون پور، بریلی، لکھنؤ، خیرآباد، پٹنہ اسی طرح مدراس اور بنگال وغیرہ کے بہت سے مقامات میں مدارس علم و فن کا مرکز تھے جنہیں مسلمانوں نے چھ سو سال سے اپنے خونِ جگر سے سینچا تھا اور ان کے سلاطین و امرا نے ان کے پھیلانے میں اخراجات اور ضروریات کے لیے بڑی بڑی جائیدادیں اور اوقاف مقرر کئے تھے۔ (سید محبوب رضوی:تاریخ دیوبند/۳۰۵، شائع کردہ :علمی مرکز دیوبند)

ہندوستان پر عملاً تسلط قائم کرلینے کے بعد انگریزوں نے پورے منصوبے بند طریقے پر قدیمی مدارس کے نظام کو تہ و بالا کر دیا اور بالواسطہ ایسی صورتیں اختیار کیں جن سے خاص طور پر مسلمانوں کے خالص دینی علوم روز بروز تنزل اور اضمحلال کا شکار ہوتے گئے۔ (جیسے آج حکومت ہند منصوبہ بند طریقے اختیار کر رہی ہے) ملکی زبانوں کی جگہ انگریزی ملک کی سرکاری زبان بن گئی اور حکومت کی سرپرستی میں قدیم مدارس کی جگہ نئے اسکولوں کو بالا دستی حاصل ہوگئی۔ ( سید محبوب رضوی: طبع دوم1972، تاریخ دیوبند /316، شائع کردہ :علمی مرکز، دیوبند)۔ دشمنانِ اسلام اس راز سے واقف ہیں کہ جب تک یہ سیدھا سادہ بوریہ پر بیٹھنے والا مولوی اس معاشرے میں موجود ہے، مسلمانوں کے دلوں سے ایمان نکالا اور کھرچا نہیں جا سکتا۔ لہٰذا دشمنانِ اسلام نے اس کے خلاف پروپیگنڈہ پھیلادیا ہے اور پوری مشینری لگائے ہوئے ہیں۔ مدارسِ اسلامیہ دین کے مضبوط قلعے ہیں۔ ہندوستان میں جو دینی تعلیم، دینی ماحول اور دینی فضا نظر آرہی ہے یہ ان ہی مدارس کی دین ہے۔ ان کی قدر کرنی چاہیے اور ان پر کسی طرح سے کوئی آنچ آئے تو مسلمانوں کو تڑپ جانا چاہیے۔ یہی مسلمانوں کی غیرت دینی کا تقاضہ بھی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو آزادی کی داستانیں بتائیں، کتابیں پڑھوائیں جیسے
*’’ فضل حق سن 57‘‘*
، *’’ مسلمان مجاہدین‘‘* اور انگریز رائٹر مسٹر ایڈورڈ ٹامسن کی کتا ب *’’تصویر کا دوسرا رخ‘‘* اور بہت سی کتابیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہندوستان کی آزادی کی جنگ میں مسلمانوں کا بہت خون بہا ہے ان گنت داستانیں بھری ہیں ایک غیر مسلم رائٹر لکھتا ہے کہ ’’ ایک اندازہ کے مطابق 1857ء میں پانچ لاکھ مسلمانوں کو پھانسیاں دی گئیں۔ جو بھی مسلمان انگریزوں کے ہاتھ لگ گیا اس کو ہاتھی پر بیٹھایا گیا اور درخت کے نیچے لے گئے پھند ہ اس کی گردن میں ڈال کر ہاتھی کو آگے بڑھا دیا گیا، لاشیں پھندے میں جھول گئیں، آنکھیں ابل پڑیں، زبان منھ سے باہر نکل آئی‘‘(مسلمان مجاہدین، علمائے اہل سنت کی بصیرت و قیادت ص:70)۔ ہم سب کو چاہیئے کہ موجودہ حالات سے گھبرائیں نہیں، حالات پر کڑی نظر رکھیں اور حکمت و ایمانی بصیرت سے مردانہ وار مقابلہ کریں۔

دنیا سے آج پوچھو، پیچھے نہیں تھے ہم ٭ انگریز لے رہا تھا جب امتحان ہمارا

زد میں بھی گولیوں کی مقصد نہ ہم چھوڑا ٭ قیدوں میں بھی نہ بدلا عزم جواں ہمارا

ریلوں میں، راستوں میں، جیلوں میں، محفلوں میں ٭ نعرہ تھا ہم کو دے دو ہندوستاں ہمارا

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ٭ ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

*مسلمانوں کےتمام مسائل کا حل تعلیم میں ہے۔*
آرٹیکل 301میں کہا گیا ہے کہ ہر اقلیت چاہے وہ مذہبی یا لسانی ہو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق تعلیمی ادارے قائم کرے او رچلائے۔ تعلیم ہی بے یارومددگار مسلم قوم کے لیے نسخہ کیمیا ہے اور اس کی بھی ذمہ داریاں قائدین اور علمائے کرام پر ہے۔ اللہ ہم تمام لوگوں کواپنی ذمہ داری لینے اور نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! ثم آمین!!
حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ اسلام نگر کپالی وایا مانگو جمشیدپور جھارکھنڈ پن کوڈ 831020, رابطہ 09279996221,


جشن آزادی: مودی کا لال قلعے پرآٹھویں بارپرچم لہرانے کے بعد قوم سے خطاب

جشن آزادی: مودی کا لال قلعے پرآٹھویں بارپرچم لہرانے کے بعد قوم سے خطاب

لال قلعہ پر پرچم کشائی
لال قلعہ پر پرچم کشائی
  • (اردو اخبار دنیا)

وزیراعظم نریندر مودی 75 ویں یوم آزادی کے موقع پر آٹھویں بار لال قلعے پر پرچم لہرانے کے بعد قوم سے خطاب کیا۔وزیر اعظم مودی نے لال قلعہ سے کہا ' 75 ویں یوم آزادی آپ کو اور ان تمام لوگوں کو بہت بہت مبارک ہو پر ہندوستان سے محبت کرتے ہیں اور دنیا میں جمہوریت سے محبت کرتے ہیں۔ آج ، آزادی کے امرت مہوتسو کے مقدس تہوار پر ، ملک ان تمام آزادی پسندوں اور بہادر ہیروز کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہے جنہوں نے قوم کے دفاع میں اپنی جانیں قربان کیں۔’

 آزادی کو ایک عوامی تحریک بنانے والے باپو ہوں یا نیتا جی جنہوں نے سب کچھ قربان کیا ، بھگت سنگھ ، آزاد ، بسمل اور اشفاق اللہ خان ، جھانسی کی لکشمی بائی یا چتور کی رانی کناما ، نہرو ، سردار پٹیل ، ملک کے پہلے وزیر اعظم نہرو ہوں یا پھر امبیڈکر ج۔ملک ہر شخص اور شخصیت کو یاد کر رہا ہے. ملک سب کا مقروض ہے۔

مودی نے کہا ، 'نوجوان نسل کے کھلاڑی اور ہمارے کھلاڑی جنہوں نے اولمپکس میں ہندوستان کا نام روشن کیا ہے اس ایونٹ میں موجود ہیں۔ میں ملک کے لوگوں اور ہندوستان کے کونے کونے میں موجود لوگوں سے چند لمحوں کے لیے تالیاں بجا کر ہمارے کھلاڑیوں کا احترام کرنا چاہتا ہوں۔

 ہندوستان کے کھیلوں کا احترام ، ہندوستان کی نوجوان نسل کا احترام ، ان نوجوانوں کا اعزاز جنہوں نے ہندوستان کو فخر کیا ، کروڑوں دیش کے لوگ آج تالیاں بجاتے ہوئے ملک کے نوجوانوں کا احترام کر رہے ہیں۔ خاص طور پر کھلاڑیوں کو ، ہم فخر کر سکتے ہیں کہ انہوں نے نہ صرف دل جیتے ہیں ، انہوں نے ہندوستان کی نوجوان نسل کو آنے والی نسلوں کے لیے بھی متاثر کرنے کا ایک بڑا کام کیا ہے۔

 مودی نے کئی اہم باتیں کہی ہیں

۔ 1. ہر سال 14 اگست کو تقسیم کی خوفناک یادوں کو یا کیا جائے گا۔ہم نے اس کو بہت جلد بھلا دیا ہے حالانکہ یہ سب سے بڑا سانحہ ہے۔ آزادی کے بعد یہ لوگ بہت جلد بھول گئے۔ کل ہی ہندوستان نے ایک جذباتی فیصلہ لیا ہے۔ اب سے ہر سال 14 اگست کو تقسیم کا دن کے طور پر یاد کیا جائے گا۔تقسیم کے وقت غیر انسانی حالات سے گزرے ، مظالم سہے ، ان کی آخری رسومات عزت کے ساتھ نہیں ہوئیں۔ انہیں ہماری یادوں میں زندہ رہنا چاہیے۔ اس دن کا تعین ہر ہندوستانی کی جانب سے ایسے لوگوں کے لیے قابل احترام خراج تحسین ہے۔

۔ 2۔کورونا ویکسین میں خود کفیل بنیں۔ مودی نے کہا ، 'کورونا کا دور ملک کے سامنے ایک چیلنج کے طور پر آیا ہے جو ترقی کی طرف گامزن ہے۔ یہ جنگ بھی صبر سے لڑی گئی ہے۔ ہمارے سامنے کئی چیلنجز تھے۔ ہم اہل وطن نے ہر شعبے میں غیر معمولی رفتار سے کام کیا ہے۔ ہمارے تاجروں کی محنت کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان کو ویکسین کے لیے کسی دوسرے ملک پر انحصار نہیں کرنا پڑا۔

 ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ اگرہندوستان کی اپنی ویکسین نہ ہوتی تو کیا ہوتا۔ پولیو ویکسین کو حاصل ہوئے کتنے سال گزر چکے ہیں؟ اتنے بڑے بحران میں ، جب پوری دنیا میں وبا ہے ، ہم ویکسین کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ چاہے ہندوستان کو مل جائے یا نہ ملے ، یا کب۔ لیکن آج ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کا سب سے بڑا ویکسینیشن پروگرام ہمارے ملک میں جاری ہے۔

 ہمارے ہاں وہ سہولیات نہیں جو امیر ممالک کو حاصل ہیں۔ دوسری طرف ہماری آبادی بھی بہت ہے۔ ہمارا طرز زندگی بھی مختلف ہے۔ ہم عام کوششوں کے بعد بھی بہت سے لوگوں کو نہیں بچا سکے۔ جس نے اتنے بچوں کے سروں کو چھوا وہ چلا گیا۔ جس نے اسے پالا ، وہ اس کا اصرار پورا کرنے گیا۔ یہ ناقابل برداشت درد اور تکلیف ایک ساتھ رہے گی۔

 مودی ہر بار ایک مختلف پگڑی پہن کر لال قلعہ آئے۔ لال قلعے پر ترنگا لہرانے کے دوران مودی کا لباس بھی خاص ہے۔ ہر بار وہ مختلف قسم کی پگڑی پہنے دیکھا جاتا ہے۔ اس بار اس نے زعفرانی پگڑی پہن رکھی ہے۔

اسی طرح ان کی تقریر کی لمبائی بھی ہر بار مختلف رہی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے 15 اگست 2020 کو ساتویں مرتبہ لال قلعے سے جھنڈا لہرایا۔ اس دن انہوں نے 86 منٹ قوم سے خطاب کیا۔

یہ ان کی تیسری بڑی تقریر تھی۔ اس سے قبل 2019 میں انہوں نے 93 منٹ بات کی۔

اس کے ساتھ ہی 2016 میں انہوں نے 96 منٹ تک ملک سے خطاب کیا۔

یہ ان کی اب تک کی سب سے طویل تقریر تھی۔ مودی نے 2014 سے 2020 تک 7 سالوں میں لال قلعہ سے 9 گھنٹے 24 منٹ کی بات کی ہے۔

لال قلعہ سے وزیراعظم نریندر مودی کی طویل ترین تقریر 2016 میں 96 منٹ تھی۔

 مودی نے 2015 میں جواہر لال نہرو کا ریکارڈ توڑ دیا تھا۔

۔ 2015 میں وزیر اعظم مودی نے 86 منٹ تک اپنی بات ملک کے عوام کے سامنے رکھی اور پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کا ریکارڈ توڑ دیا۔ نہرو نے 1947 میں لال قلعے سے 72 منٹ کی تقریر کی۔

 منموہن نے لال قلعے سے 10 بار قوم سے خطاب کیا۔

 دوسری طرف ، منموہن سنگھ نے لال قلعے سے 10 بار قوم سے خطاب کیا۔ ان کی تقریر 50 منٹ کی تھی صرف دو بار۔ باقی آٹھ بار تقریر کا وقت 32 سے 45 منٹ کے درمیان رہا۔

 ڈاکٹر منموہن سنگھ کی طرف سے لال قلعے سے دی گئی تمام 10 تقریریں ایک گھنٹے سے بھی کم لمبی تھیں۔

 اٹل بہاری واجپائی نے 6 بار قوم سے خطاب کیا۔

 سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جو اپنی تقریروں کے لیے مشہور تھے ، انہوں نے یوم آزادی کے موقع پر طویل تقریر نہیں کی۔ انہوں نے لال قلعہ سے 6 مرتبہ قوم سے خطاب کیا۔

انہوں نے 1998 میں 17 منٹ ، 1999 میں 27 منٹ ، 2000 میں 28 منٹ ، 2001 میں 31 منٹ ، 2002 میں 25 منٹ اور 2003 میں 30 منٹ تقریریں 

خوابوں کو پورا کرنے کا وقت آ چکا ! ' یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی کا قوم سے خطاب

خوابوں کو پورا کرنے کا وقت آ چکا ! ' یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی کا قوم سے خطابنئی دہلی:(اردو اخبار دنیا) وزیر اعظم نریندر مودی نے یوم آزادی کے موقع پر اہل وطن کو مبارکباد دی ہے۔ اتوار کو ایک ٹوئٹ پیغام میں وزیر اعظم نے کہا ''آپ سب کو 75 ویں یوم آزادی کی بہت بہت مبارکباد۔ آزادی کے امرت مہوتسو کا یہ سال ہم وطنوں میں نئی ​​توانائی اور نیا شعور پیدا کرے۔ جئے ہند!''

ملک بھر میں 75 ویں یوم آزادی جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے۔ قوم آزادی کا 'امرت مہوتسو' منا رہی ہے اور پورا ملک حب الوطنی کے جذبے سے شرابور ہے۔ ملک بھر میں پرچم کشائی اور دیگر پروگرام منعقد کئے جا رہے ہیں۔ اس موقع پر مرکزی تقریب دارالحکومت کے تاریخی لال قلعہ میں منعقد کی جا رہی ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل پر قومی پرچم لہرا کر قوم سے خطاب کر رہے ہیں۔

لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ملک آج اپنے 75ویں یوم آزادی کے موقع پر جنگ آزادی کے شہیدوں کو یاد کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہاتما گاندھی، نیتا جی سبھاش چندر بوس، بھگت سنگھ، رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خاں، رانی لکشمی بائی، پنڈت جواہر لال نہرو، بابا صاحت امبیڈکر سمیت دیگران کو ملک یاد کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جیت ہار تو ہوتی رہی لیکن دل میں بسی آزادی کی خواہش نے کبھی دم نہیں توڑا۔

وزیر اعظم مودی نے کہا کہ کورونا کے عہد میں ملک کے ڈاکٹروں، سائنسداروں نے ویکسین بنانے کا کام انجام دیا اور کروڑوں لوگوں نے لمحہ لمحہ عوامی خدمت کی۔ آج ملک کے کئی علاقوں میں سیلاب، لینڈ سلائڈنگ کے سبب کئی لوگوں کی جان چلی گئی، ملک ان کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ اس دوران انہوں نے اولمپکس میں تمغہ جیتنے والے کھلاڑیوں کو بھی مبارک باد پیش کی۔

پی ایم مودی نے کہا کہ تقسیم کا درد اب بھی ہندوستان کے سینے کو چھلنی کرتا ہے، یہ گزشتہ صدی کا عظیم سانحہ ہے۔ ہندوستان نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر سال 14 اگست کو تقسیم کی ہولناک یادوں کے دن کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ جن لوگوں نے تقسیم کے وقت مظالم کو برداشت کیا اب ان لوگوں کا احترام کیا جائے گا۔

پی ایم مودی نے کہا کہ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ہندوستان میں کم تعداد میں لوگ کورونا سے متاثر ہوئے ہیں لیکن یہ کہنا کہ ہمارے سامنے کوئی چیلنج نہیں تھا، یہ بھی غلط ہوگا۔ اپنی تمام تر کوششوں کے بعد بھی ہم بہت سے لوگوں کو نہیں بچا سکے، کئی بچوں کے سروں سے سایہ اٹھ گیا، پی ایم مودی نے کہا کہ آنے والے 25 سال ہمارے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔

پی ایم مودی نے کہا کہ امرت کال کا مقصد ملک میں جدید ترین سہولیات ہونا ہے، ہمیں کسی سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ ملک کے لئے جو خواب ہم نے دیکھیں ہیں وہ اس وقت تک پورے نہیں ہوں گے جب تک محنت نہ کی جائے۔ پی ایم مودی نے کہا کہ ہمیں اپنے اہداف کے حصول کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا، ہمارے پاس ایک لمحہ بھی گنوانے کے لئے نہیں ہے۔ ہمارے ملک اور ہمیں خود کو بدلنا ہوگا اور اپنے خوابوں کو پورا کرنا ہوگا۔

'سبکا ساتھ، سبکا وکاس، سبکا وشواس اور سب کا پریاس'

وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ہم سبکا ساتھ، سبکا وکاس اور سبکا وشواس کے مشن کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے اس نعرے میں 'سبکا پریاس' بھی شامل کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سات سالوں میں حکومت کی کئی اسکیموں کے ذریعے عام لوگوں تک مدد پہنچی ہے۔

پی ایم مودی نے کہا کہ اب ہمیں 100 فیصد کا ہدف مقرر کرنا ہے، ہر گاؤں تک سڑکیں، ہر ایک کا بینک اکاؤنٹ ہونا چاہیے، ہمیں یہ ہدف پورا کرنا ہے۔ پی ایم مودی نے کہا کہ اب غریبوں کو غذائیت سے بھرپور چاول دیے جائیں گے، مڈ ڈے میل کے چاول کو بھی اس مشن میں شامل کیا جائے گا۔ سال 2024 تک ہر اسکیم کے تحت فراہم کئے جانے والے چاول کو غذائیت بخش بنایا جائے گا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...