Powered By Blogger

پیر, اگست 16, 2021

محمد طالبان : رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم پر ۔ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

(اردو اخبار دنیا)تاریخ کا مشہور واقعہ ہےـ ہجرتِ مدینہ کے آٹھویں سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخل ہوئےـ آپ نے پوری کوشش کی کہ قتل و غارت گری بالکل نہ ہو ـ ایک فوجی ٹکڑی کے کمانڈر نے جوش میں کہہ دیا : الیوم یوم الملحمۃ (آج کشت و خون کا دن ہے) آپ کو خبر ملی تو آپ نے انھیں معزول کردیا اور فرمایا : الیوم یوم المرحمۃ ( آج رحم و کرم کا دن ہے)ـ اس موقع پر آپ نے عام معافی کا اعلان کردیا : جو اپنے گھر میں رہے اس کے لیے امن ہےـ جو مسجدِ حرام میں پناہ لے اس کے لیے امن ہےـ جو ہتھیار ڈال دیے اس کے لیے امن ہے ـ جو ابو سفیان ( جو اُس وقت تک مسلمانوں کے دشمنوں کے سردار تھے) کے گھر میں پناہ لے اس کے لیے امن ہےـ مکہ میں داخلہ کے وقت کچھ لوگوں نے مزاحمت کی ، صرف ان سے مقابلہ کیا گیا ، باقی تمام لوگوں کو معافی دے دی گئی ـ ان میں وہ لوگ بھی تھے جنھوں نے مکی عہد کے 13برس اور ہجرتِ مدینہ کے بعد 7 برس مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے اور ستانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی، لیکن عام معافی میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا گیاـ فتح کے بعد آپ نے اعلانِ عام کردیا : جَآءَ الۡحَـقُّ وَزَهَقَ الۡبَاطِلُ‌ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ كَانَ زَهُوۡقًا.( الإسراء : 81) " حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے ۔ " یہ اتنا عظیم الشان واقعہ تھا کہ تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ـ تمام مؤرخین ، چاہے وہ غیر جانب دار ہوں یا مخالف ، سب نے اس واقعہ کو سراہا ہے اور اس پر آپ کو خراجِ تحسین پیش کیا ہےـ

رسول اللہ ﷺ کے جانشینوں نے پھر اسی کردار کا مظاہرہ کیا ہےـ طالبان نے کابل میں فاتحانہ داخلہ سے پہلے عام معافی کا اعلان کیا ہےـ ان کے ترجمان نے کہا ہے کہ عوام ، افغان حکومت کے عملہ اور کارندوں ، اتحادی افواج کے لیے کام کرنے والوں، سب کے لیے معافی ہےـ عوام کے مال و جان کی حفاظت ہماری بنیادی ذمے داری ہےـ ان کا یہ پیغام سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر نشر کیا گیاـ انھوں نے کہا کہ مجاہدین خزانہ ، عوامی سہولیات ، سرکاری دفاتر اور آلات ، پارکس ، سڑکوں اور پل وغیرہ پر خاص توجہ دیں گے ۔ یہ عوامی املاک ہیں ، ان کا تحفظ کیا جائے گا اور انہیں برباد کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ آف افغانستان ان تمام افراد کے لیے اپنے دروازے کھولتی ہے جنہوں نے ماضی میں حملہ آوروں کے لیے کام کیا اور ان کی مدد کی ، یا جو اب بھی کرپٹ افغان حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں ـ ہم ان کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہیں اور انہیں دعوت دیتے ہیں کہ وہ قوم اور ملک کی خدمت کے لیے آگے آئیں ۔

طالبان کے زوال اور عروج میں ہمارے لیے متعدد اسباق موجود ہیں :

(1) ایمان و یقین کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہےـ اس کے سامنے تمام طاقتیں ہیچ ہیں ـ امریکہ نے طالبان کی حکومت اکھاڑ پھینکی ، اس کے بعد 20 برس تک ان پر آگ اور بارود کی بارش کی ، زبردست بم باری کی ، طرح طرح کے بھیانک اسلحہ ان پر آزمائے ، لیکن وہ افغانوں کا بال بیکا نہ کرسکا ، اس لیے کہ وہ اللہ کا سہارا تھامے ہوئے تھے اور اس سے بڑا اور کسی کا سہارا نہیں ـ

(2) کام یابی قربانیوں کے بعد حاصل ہوتی ہےـ طالبان نے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں ـ وہ حکومت سے محروم کیے گئےـ ان کا بڑے پیمانے پر قتلِ عام کیا گیاـ انہیں قید کرکے دردناک سزائیں دی گئیں ـ وہ گھر سے بے گھر اور اپنی املاک سے محروم کیے گئےـ لیکن انھوں نے صبر کیا ، ڈٹے رہے اور قربانیاں پیش کرتے رہے ، بالآخر منزل نے ان کے قدم چومے اور کام یابی کا سہرا انہیں پہنایا گیاـ

(3) اپنا نصب العین درست رکھنا چاہیے اور منزل پر نگاہیں جمانی چاہییں ـ راستے جتنے بھی پُر خطر ہوں ، منزل جتنی بھی دور ہو ، کوئی حرج نہیں ـ طالبان کو دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں 20 برس لگ گئے ، لیکن نہ وہ تھکے ، نہ گھبرائے ، نہ انھوں نے سستی اور تن آسانی کا مظاہرہ کیا ، بلکہ دھیرے دھیرے وہ منزل کی طرف بڑھتے رہے، یہاں تک کہ اسے پالیاـ

(4) مشن کی تکمیل کے لیے طاقت کا حصول ضروری ہےـ جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہےـ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَاَعِدُّوۡا لَهُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّةٍ وَّمِنۡ رِّبَاطِ الۡخَـيۡلِ تُرۡهِبُوۡنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَاٰخَرِيۡنَ مِنۡ دُوۡنِهِمۡ‌ ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَهُمُ‌ ۚ اَللّٰهُ يَعۡلَمُهُمۡ‌ؕ (الانفال :60) " اور تم لوگ ، جہاں تک تمہارا بس چلے ، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیّا رکھو ، تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے ، مگر اللہ جانتا ہے ۔" طالبان نے اس اصول کو اپنایاـ انھوں نے ایمانی طاقت کے ساتھ مادّی طاقت بھی حاصل کرنے کی کوشش کی ـ اس طرح انھوں نے اپنے دشمنوں پر اپنی دھاک اور ہیبت طاری کردی ـ

(5) طالبان نے ثابت کردیا کہ امّتِ مسلمہ کو عروج اور غلبہ اسی طریقے سے اور اسی راہ پر چل کر حاصل سکتا ہے جس پر چل کر ابتدائی صدیوں میں حاصل ہوا تھاـ امت کی بھلائی نہ دیگر تہذیبوں کو اختیار کرنے میں ہے نہ دیگر مذہبی گروہوں کے نقشِ قدم کی پیروی میں ـ کام یابی، غلبہ اور عروج آج بھی اللہ کی اطاعت اور خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے نقشِ قدم کی پیروی کرنے میں ہےـ


آندھرا پردیش میں آج سے اسکول اور کالجس کی کشادگی

آندھرا پردیش میں آج سے اسکول اور کالجس کی کشادگی(اردو اخبار دنیا)کوویڈ قواعد کے تحت ہر کلاس میں 20 طلبا کی اجازت ۔ 6 فیٹ کا فاصلہ رہے گا
حیدرآباد۔/15 اگسٹ، ( سیاست نیوز) کورونا کی امکانی تیسری لہر کے خطرہ کے باوجود آندھرا پردیش حکومت کے فیصلہ کے مطابق کل 16 اگسٹ سے اسکول اور کالجس کی کشادگی عمل میں آئے گی۔ آن لائن کلاسیس کی جگہ آف لائن کلاسیس کا کوویڈ قواعد کے ساتھ آغاز ہوگا۔ حکومت نے کوویڈ پازیٹیویٹی شرح 10 فیصد سے کم علاقوں میں اسکول و کالجس کی کشادگی اور باقاعدہ کلاسیس کے آغاز کے احکام جاری کئے ۔ سکریٹری محکمہ تعلیم راج شیکھر نے رہنمایانہ خطوط جاری کئے جس کے مطابق ہر کلاس میں 20 طلبہ کی اجازت رہے گی اور ہر طالب علم کے درمیان 6 فیٹ کا فاصلہ رہے گا۔ کلاس میں زائد طلبہ کی صورت میں 2 یا 3 بیاچس کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ ہر ہفتہ ایک بیاچ کے 2 طلبہ اور ایک ٹیچر کا کورونا ٹسٹ لازمی طور پر کرایا جائے گا۔ ان میں سے کسی ایک کے پازیٹیو ہونے پر باقی تمام کا ٹسٹ کرانے ہدایت دی گئی ہے۔ دوپہر کے کھانے کا نظم بیاچس کی شکل میں کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ طلبہ کو اسکول چھوڑنے آئے والدین و سرپرستوں میں اگر کورونا کی علامات پائی جائیں تو ایسے طلبہ کا ٹسٹ کیا جائے۔ حکومت سے اسکولوں کی کشادگی پر طلبہ اور سرپرستوں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ طلبہ اور ان کے سرپرستوں میں خوف کا ماحول ہے اور اندیشہ ہے کہ بڑی تعداد میں طلبہ اسکول اور کالجس کو حاضر نہیں ہوں گے

اتوار, اگست 15, 2021

جشن آزادی کے موقع پر جامعہ اشاعت العلوم سمستی پور میں پرچم کشائی

(اردو اخبار دنیا)سمستی پور: 15 اگست (پریس ریلیز)

یوم آزادی کے موقع پر جامعہ اشاعت العلوم سمستی پور،کر ہوا برہیتا کلیانپور، سمستی پور میں تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات نیز کثیر تعداد میں مقامی لوگوں نے شرکت کی، پرچم کشائی جامعہ ہذا کے نائب ناظم جناب ماسٹر محمد امتیاز صاحب کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس موقع پر طلبہ نے قومی ترانہ پڑھا اور مختلف موضوعات پر آزادی کی نسبت سے محمد آفتاب ، محمد حذیفہ، محمد شاھد،محمود اللہ،محمد مہتاب اور محمد توحید وغیرہ نے اپنے اپنے انداز میں حصہ لیکر شرکاء پروگرام کو مسرور کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ ۱۸۵۷ء سے پہلے متعدد بار جنگیں ہوئیں لیکن کوئ خاص کامیابی نہیں ملی جب حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے صاحب زادہ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے علی الاعلان جنگ کا فتوی دیا تو مدارس اسلامیہ کے علما صلحا نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا پھر ۱۸۵۷ء سے لیکر ۱۵اگست ۱۹۴۷ء تک میں ان ناپاک انگریزوں کو بھگا کر ہی دم لیا

جامعہ کے بانی وناظم قاری ممتاز احمد جامعی جنرل سکریٹری الامداد ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کی غیر موجودگی میں ذمہ داری کو بخوبی انجام دیتے ہوئے

جامعہ کے نائب ناظم ماسٹر امتیاز صاحب نے تمام شرکا اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا جن میں بطورخاص حضرت حافظ محمد فخر عالم صاحب امام وخطیب کرھوا مسجد اور محمد مستقیم صاحب وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں اور پروگرام کو کامیاب بنانے میں جامعہ کے اساتذہ کرام جناب مولانا محبوب عالم صاحب قاسمی اور حافظ محمد گلزار صاحب وغیرہ پیش پیش رہے.

چیف جسٹس آف انڈیا نے ایوان پارلیمنٹ میں بحث کی حالیہ سطح پر اٹھائے سوالات ، کہی یہ بڑی بات

چیف جسٹس آف انڈیا نے ایوان پارلیمنٹ میں بحث کی حالیہ سطح پر اٹھائے سوالات ، کہی یہ بڑی باتنئی دہلی (اردو اخبار دنیا): چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) این وی رمن نے حالیہ برسوں میں قانون سازی کے عمل کے دوران پارلیمنٹ میں بحث کی سطح پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ آج بنائے گئے قوانین میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جسٹس رمن نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام 75 ویں یوم آزادی کے پروگرام میں اپنے درد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نہ تو قانون بنانے کے دوران پارلیمنٹ میں مکمل بحث ہوتی ہے اور نہ ہی بحث کی سطح پرانے قانون سازوں کی طرح ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل پارلیمنٹ میں قوانین کی منظوری کے دوران وسیع اور تفصیلی بحث کی ایک صحت مند روایت تھی ، جس کی وجہ سے عدالتوں کے لئے ان قوانین کے مقصد کو سمجھنا ، تشریح کرنا اور جاننا آسان ہوتا تھا ، لیکن آج کل اس میں گراوٹ آئی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف مارکسسٹ کے ایم رامامورتی کے صنعتی تنازعات بل اور حقائق کی سطح پر بحث کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح کی بحث کے بعد منظور شدہ قوانین کے نفاذ کے بعد عدالتوں پر اس کی تشریح کا بوجھ کم ہوتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آج کل بنائے گئے قوانین مبہم ہیں ، جو نہ صرف حکومت کو تکلیف کا باعث بنتے ہیں ، بلکہ عام لوگوں کو بھی پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔

چیف جسٹس نے پارلیمنٹ میں قانون منظور کرانے کے حالیہ طریق کار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ لیکن اب افسوسناک صورتحال ہے۔ اب ہمیں قوانین میں ابہام نظر آتا ہے۔ آج کے قوانین میں اس کا فقدان ہے۔ قوانین میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ قانون کس مقصد کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس سے مقدموں کی تعداد بھی بڑھتی ہے اورساتھ ساتھ عوام کو بھی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دانشوروں اور وکلاء ممبران کی کمی ہے۔


چیف جسٹس کے اس ریمارک کو پارلیمنٹ میں تعطل کے درمیان بحث کے بغیر بلوں کی منظوری کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ وکلاء کو عوامی زندگی میں آنے کی تلقین کرتے ہوئے جسٹس رمن نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ قانونی پیشہ سے تعلق رکھنے والی برادری کے افراد سماجی اور عوامی زندگی میں سامنے آئیں ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ زیادہ تر مجاہدین آزادی وکالت کے پیشے سے وابستہ لوگ تھے ، جیسے مہاتما گاندھی ، پنڈت نہرو ، سردار پٹیل ، راجندر پرساد ، جنہوں نے نہ صرف آزادی کے لیے اپنا پیشہ ترک کیا بلکہ اپنی جائیداد اور خاندان کو بھی خیر باد کہہ دیا ۔


ان مثالوں کے ساتھ چیف جسٹس نے وکلاء پر زور دیا کہ وہ سماجی اور عوامی زندگی میں شامل ہوں اور اپنے پیشے میں قید رہنے ، پیسہ کمانے اور آرام کی زندگی گزارنے کی بجائے ملک کی خدمت کریں ۔ سالیسیٹر جنرل تشار مہتا اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سینئر ایڈوکیٹ وکاس سنگھ نے بھی اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔

دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کا ملک کی جنگ آزادی میں تاریخی کردار جدوجہد آزادی 1803 سے 1947 تک : ایک جائزہ ( مولانا سید ارشد مدنی

(اردو اخبار دنیا)مولانا) سیدارشدمدنی
جدوجہد آزادی ہی نہیں ملک کی کوئی بھی تاریخہندوستان کے علمائے کرام کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی، خواہ وہ ملی یا قومی قیادت و سیادت ہو یا آزادیئ وطن کے لئے میدان جنگ میں کود پڑنا، کسی تحریک کی قیادت ہو یا پھر کسی مصیبت اور پریشانی کے وقت میں لوگوں کی مدد و غمگساری، ہر میدان میں علماء نے اہم کارنامے انجام دئے ہیں اور حکومتِ وقت کے سامنے سینہ سپر ہوکر حق اور سچ بات رکھی ہے،ایک بڑی تاریخی سچائی یہ ہے کہ ہندوستان کی آزاد ی کی تحریک علماء اور مسلمانوں نے شروع کی تھی اور یہاں کے عوام کو غلامی کا احساس اس وقت کرایا جب اس بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں رہا تھا، ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے عَلمِ بغاوت علماء نے ہی بلند کیا تھا اور جنگ آزادی کا صوربھی انہوں نے ہی پھونکا تھا۔
ہندوستان کے بے شمار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی پہلی آزادی کی لڑائی 1857ء میں لڑی گئی تھی، لیکن یہ بات اپنی تاریخ اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔ آزادی کی تاریخ 1857ء سے نہیں بلکہ1799ء میں اس وقت شروع ہوئی جب سلطان ٹیپو شہیدؒ نے سرنگاپٹم میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا، جس وقت ان کے خون میں لتھڑی ہوئی لاش پر انگریز فوجی نے کھڑے ہوکر یہ بات کہی تھی کہ 'آج سے ہندوستان ہمارا ہے' اس کے بعدہی انگریزیہ کہنے کی ہمت پیدا کر پائے کہ 'اب کوئی طاقت ہمارا مقابلہ کرنے والی، ہمارے پنجے میں پنجہ ڈالنے والی نہیں ہے' اور پھر انہوں نے عملی طورپرچھوٹے چھوٹے نوابوں اور راجاؤں کو شکست دیکر ان کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کردیا۔
ٹیپو سلطانؒ کی شہادت اور انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے بعدعلمائے کرام نے غلامی کی آہٹ کو محسوس کرلیا تھا اور اس کے بعد سے ہی جہادِ آزادی کاآغاز ہوا، جب انگریز نے1803ء میں دہلی کے اندر یہ اعلان کیا کہ 'خلق خدا کی، ملک بادشاہ کا' لیکن آج سے حکم ہمارا ہے، اس دن اس ملک کے سب سے بڑے عالم دین اور خدارسیدہ بزرگ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے بڑے بیٹے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلویؒ نے دلّی میں یہ فتوی دیا کہ 'آج ہمارا ملک غلام ہوگیا اور اس ملک کو آزاد کرانے کے لئے جہاد کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے' یہ جراء تمندانہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا کہ اس عالم دین کے علاوہ ہندوستان کے اندر کوئی ایسا نہیں تھا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقابلہ میں اپنی زبان سے آزادیئ وطن کے لیے جہادکا اعلان کرسکتا تھا۔
اس فتویٰ کی پاداش میں ان کو بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں، انھیں زہر دے دیا گیا، ان کی جائداد کو قرق کرلیا گیا، ان کی آنکھوں کی بینائی اس زہر سے جاتی رہی، ان کو دلّی شہر سے در بدر کردیا گیا،وہ ان تمام سخت ترین حالات میں بھی انھوں نے اپنی موت سے پہلے دو روحانی شاگردپیدا کردیئے، ایک حضرت سیّد احمد شہید رائے بریلویؒ اور دوسرے شاہ اسماعیل شہیدؒ، ان لوگوں نے پورے ملک کے دورے کئے اور مسلمانوں سے جہاد کی بیعت اور اس کا عہد لیا کہ وہ ہمارے ساتھ ملک کی آزادی کے لیے اپنی جان قربان کردیں گے۔
اس کے بعد بالاکوٹ کے میدان میں ہزاروں مسلمان ان دونوں صاحبان کے ساتھ سب سے پہلی آزادیئ وطن کی جنگ میں شہید ہوئے،یہ سب سے پہلا آزادیئ وطن کے لئے جہاد تھا جو دوسرے جہاد آزادی (1857ء) کا مقدمہ تھا،جو لوگ وہاں اس وقت ناکامی کے بعد واپس ہوئے ان لوگوں نے واپس آکر پھر اِکائیوں کو جمع کیا اور افراد کو تیار کیا،اورچھبیس سال کی محنت کے بعد1857ء میں دوبارہ آزادیئ وطن کے لئے جہاد شروع ہوا جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوئے لیکن مسلمان زیادہ تھے اور ہندو کم تھے۔
آزادیئ وطن کے لئے یہ دوسرا جہادبھی ناکام ہوا، اس جہاد کی پاداش میں علماء کو گرفتار بھی کیا گیا اور کچھ علماء نے اپنے آپ کو نظر بند کرلیا، جب یہ علماء تین چار سال کے بعد جیل سے باہر نکلے اور عام معافی کا اعلان ہوا تو انھوں نے بڑی عجیب و غریب چیز دیکھی کہ وہ یتیم جن کے باپ جامِ شہادت نوش کرگئے، انگریز کی دشمنی کی وجہ سے ان کے یتیم بچے سڑکوں پر ہیں، ان کے سرپر کوئی ہاتھ رکھنے والا نہیں ہے، ان حالات کا فائدہ اٹھاکر انگریزوں نے فکری محاذ پربھی اپنی لڑائی تیز کردی، چنانچہ کرسچن اسکول، عیسائی پوپ اور چرچ کے لوگ باہر نکل کر ان یتیموں کا ہاتھ پکڑتے اور کہتے کہ ہمارے ساتھ چلو ہم تم کو کھانا،رہائش اور تعلیم مفت دیں گے،مقصد ذہنی اعتبار سے ان کو انگریز بنانا تھا۔ یہ وہ بچے تھے جن کے آباء واجداد نے انگریز دشمنی میں جہاد آزادی میں جامِ شہادت نوش کیا لیکن اب انہیں کی اولاد انگریزوں کے ہاتھ میں تھی اور وہ ان کو فکری اعتبار سے اپنا غلام بنانا چاہتے تھے، ان حالات کو دیکھ کر علماء کرام سرجوڑ کر بیٹھے اور فیصلہ لیا کہ دو جہادوں میں مجاہدین شہید کر دئے گئے اب ہمیں آزادیئ وطن کے لئے ایسی فیکٹری کی ضرورت ہے جہاں اپنے ملک ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے مجاہدین تیار کئے جائیں، چنانچہ مکمل سات سال کے بعد 1866ء میں انھوں نے دارالعلوم دیوبند کی بنیادرکھی اور بالکل وہی نعرہ دیا کہ ہم بچوں کومفت کھانااور رہائش کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے آراستہ کریں گے اوران بچوں کو ان کے آباء اجداد کی طرح جہادِ آزادی کے لئے مجاہد بنائیں گے، لیکن یہ تو فقیر اور بوریا نشین تھے،توان لوگوں نے مفت طعام وقیام کے ساتھ مفت تعلیم کابھی پلان کیسے تیار کیا؟ یہ قابل حیرت بات تھی کہ ان لوگوں نے مدرسہ بنایا اور قوم کو پیغام دیا کہ 'اگر غلامی کی لعنت کی زنجیر توڑ کر آزاد ہونا ہے تو اس مدرسہ کو زندہ رکھیں' پھر لوگوں نے دل کھول کر اس کی مدد کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند برسوں کے اندر بخارا، سمرقند، تاشقند، اور ہندوستان کے شہر شہر سے لڑکے جمع ہونا شروع ہوگئے جن کو مفت تعلیم دی جاتی تھی، انھوں نے قوم کو یہ بتلایا کہ اگر یہ مدرسہ زندہ ہے تو آپ زندہ ہیں، اور آپ کی اولاد زندہ ہے، آپ کے گھر میں اسلام کی روشنی زندہ ہے، اور آپ آزاد ہیں۔

جنگ آزادی، اسلام کی آبیاری،وطن کی حفاظت، اسلام دشمن طاقتوں سے لوہا لینے کیلئے ایک تحریک کی شکل میں مجاہدین آزادی کو پیدا کرنے کے لئے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی گئی اور پھردارالعلوم دیوبند نے ایسے سپوتوں کو پیدا کیا جنھوں نے اس ملک کے اندر آزادیئ وطن کی آگ جلائی، اگر پوچھا جائے کہ ان میں سب سے پہلے سپوت اور دارالعلوم دیوبند کا سب سے مایہئ ناز سرمایہ کون ہے؟ تو جواب ' حضرت شیخ الہندؒ ' ہوگا، جو دیوبند کے رہنے والے مولانا محمود حسن صاحب ہیں، پستہ قد، دُبلا پتلا آدمی لیکن اس شخص کے دل کے اندر کیسی آزادیئ وطن کی آگ تھی جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا، صوبہ جات
متحدہ کا انگریز گورنر مسٹن کہتاتھا:
'اگر شیخ الہند کو جلاکر راکھ کردیا جائے تو ان کی راکھ کے اندر سے بھی انگریز دشمنی کی بو آئے گی'۔
انھوں نے 'ریشمی رومال' کی تحریک چلاکر انگریزوں کو حیران کردیا اور ان کو آخر تک معلوم نہیں ہوا یہ تحریک کون چلارہے ہیں، انگریز حضرت مولانا عبیدا للہ سندھیؒ اور دوسرے علماء کو اس تحریک کا سربراہ سمجھتے رہے لیکن شیخ الہندؒ کا دماغ تھا جو انگریزوں کی سمجھ سے بالاتر تھا اور انہوں نے سینکڑوں ایسے جیالے اور جید علماء پیدا کئے کہ جنہوں نے انگریزی حکومت کی ناک میں دم کردیا تھا، شیخ الہندؒ کے ساتھ مالٹا میں اسیر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ بھی تھے جو شیخ الہندؒ کے خاص شاگر اور خاص خادم کا درجہ رکھتے تھے، انہوں نے شیخ الہندؒ کی خاطر جیل جانا ضروری سمجھا اور شیخ الہندؒ کی خدمت کے لئے جیل کی صعوبتوں کو کاٹا۔
شیخ الہندؒ آگے چل کر دارالعلوم کے سب بڑے استاذ بنے، ساتھ ہی انھوں نے آزادیئ ہند کے لئے اپنے شاگردوں کی ایک ٹیم اور جماعت تیار کرکے باضابطہ تحریک ِ آزادی شروع کی، تاریخ میں یہ تحریک 'تحریک ریشمی رومال' کے نام سے مشہور ہے، شیخ الہندؒ نے اس تحریک میں رنگ و روغن بھرنے کے لئے حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو کابل بھیجا، دوسری طرف شیخ الہندؒ خلافت ِ اسلامیہ سے تعاون حاصل کرنے کے لئے حجاز مقدس تشریف لے گئے، شیخ الہندؒ کی یہ تحریک اگر کامیاب ہوگئی ہوتی تو ہندوستان کب کا آزاد ہوگیا ہوتا لیکن قدرت ابھی اور قربانیاں چاہتی تھی، شریف ِ مکہ کی غداری کی وجہ سے ریشمی خطوط (ریشمی رومال تحریک کے خطوط)پکڑے گئے اور حجاز مقدس ہی سے آپ کو گرفتار کرلیا گیا، گرفتاری کے بعد آپ کو مالٹا بھیج دیا گیا، شیخ الہندؒ جب مالٹا سے رہا ہوکر آئے تو عا م منظر نامہ بدل چکا تھا،س لئے انھوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے دوسرا طریقہ اختیار کیا اور جمعیۃ علماء ہند کو مشورہ دیا کہ وہ انڈین نیشنل کانگریس کا ساتھ دے اور تشدد کو چھوڑ کر عدم تشدد کا نعر ہ لگائے، شیخ الہندؒ کی وفات کے بعد ان کے شاگرد خاص رفیق مالٹا حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور شیخ الہندؒ کے شاگرد حضرت مفتی کفایت اللہ صاحبؒ وغیرہ نے ان کے نقش قدم پر چل کر تحریک ِ آزادی کو آگے بڑھایا۔
یہ ایک سوال ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی ضرورت کیوں پڑی اور شیخ الہندؒ نے اس کو کانگریس کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مشورہ کیوں دیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جدوجہد آزادی میں کوئی ایسی مشترکہ تحریک نہیں تھی، جس کے بینر تلے مسلک و مذہب کی قید سے آزاد ہوکر محض ایک ہندستانی ہونے کی بنیاد پر یہ لڑائی لڑی جائے، ملک کا یہی نقشہ تھا کہ23/ نومبر1919ء میں بمقام دہلی 'خلافت کانفرنس' ہوئی، جس میں ملک کے کونے کونے سے علمائے کرام تشریف لائے، ایک جگہ سرجوڑ کر بیٹھے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ حضرت شیخ الہندؒ کی مالٹا کی جیل سے رہائی کی اطلاعات آرہی ہیں اس لئے ایک ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہئے جس پر حضرت شیخ الہندؒ ہندوستان آکر مکمل آزادیئ وطن کی تحریک کو چلا سکیں، چنانچہ اسی وقت فیصلہ لیا اور امرتسر میں ہندوستان کے ممتاز علماء نے جمع ہو کر 'جمعیۃ علماء' کی بنیاد 1919ء میں رکھی اور شیخ الہندؒ کے شاگرد حضرت مفتی کفایت اللہ صاحبؒ کو عارضی صدر بنایا گیا، حضرت شیخ الہندؒ 1920ء میں مالٹا سے ہندوستان تشریف لائے اور اسی سال دہلی میں جمعیۃ علماء ہند کا دوسرا سالانہ جلسہ ہوا جس میں ان کو جمعیۃ علماء ہند کا مستقل صدر بنایا گیا آپ نے اپنے خطبہئ صدارت میں خاص طور پر علماء کو جھنجوڑا اور فرمایا کہ اسلام ایک کامل ومکمل مذہب ہے اور تمام اجتماعی اور انفرادی شعبوں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے جو لوگ مدرسوں میں سبق پڑھا کر اپنے حجروں میں بیٹھے رہنے کو اسلام کے حق کی ادائیگی کے لئے کافی سمجھتے ہیں وہ لوگ اسلام کے پاک وصاف دامن پر داغ لگا رہے ہیں، اس اجلاس کے 12/ روز کے بعد حضرت شیخ الہندؒ کا انتقال ہوگیا۔حضرت شیخ الہندؒ کے بعد جمعیۃ علماء ہند نے حالات کے مزاج کو سمجھتے ہوئے فراست ایمانی پر مبنی ایک حکمت عملی اختیار کی اور فرقہ وارانہ ذہنیت کے پھیلتے زہریلے اثرات کو روکنے کے لیے برادران وطن پر مشتمل تنظیم کانگریس سے اتحاد کرکے، ملک کی مکمل آزادی کے لئے فرقہ و مذہب کی قید سے آزاد ہوکرلڑائی شروع کی۔

آزادیئ ملک کی خاطر جیل کی صعوبتیں
حضرت شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے آزادی کے حوالے سے اپنے استاذ کی کڑھن اور بے چینی کو جذ ب کرلیا تھا، چنانچہ انھوں نے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ، حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے سینہ اور دل کے اندر استعماری قوتوں کے خلاف جو آگ سمائی ہوئی تھی اس کو اور تیز تر کردیا اور جہاد آزادی کے لئے سینہ سپر ہوگئے، اُستاذِ محترم کے دنیا سے چلے جانے کے بعد حضرت مدنیؒ مکمل طور پر ملک کو آزادی دلانے میں لگ گئے، اپنے اُستاذ کی فکر کو آگے بڑھانا حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا ایسا کارنامہ رہا جس کی نظیر ملنی مشکل ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ نے اپنی ۰۸/سالہ زندگی میں کم وبیش ۹/سال انگریز کی جیل میں گذارے ہیں، یعنی یوں سمجھئے کہ ہر آٹھ دن کے اندر آپ کا ایک دن جیل میں گذرا ہے، اور اس کے اندر قید تنہائی بھی ہوئی، صعوبتیں اور مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ہے، حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ کس جیل میں آپ کو سب سے زیادہ تکلیف ہوئی؟ تو فرمایا کہ سابرمتی جیل گجرات کے اندر قید بڑی بامشقت تھی۔

سیکولر دستور بنوانے میں جمعیۃ علماء ہند کا کردار
ان کی قیادت میں جیسے جیسے ملک کی آزادی قریب آتی گئی، یہ لوگ انڈین نیشنل کانگریس کے بنیادی لوگوں مثلاً موتی لال نہرو، جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی سے برابر عہد لیتے چلتے ہیں کہ ملک کی آزادی کے بعد ملک کا دستور سیکولر دستور بنے گا اور کانگریس بھی وعدہ کرتی ہے کہ مسلمانوں کی مسجدیں، مسلمانوں کے مدرسے، مسلمانوں کے امام باڑے، مسلمانوں کے قبرستان، مسلمانوں کی زبان، مسلمانوں کا کلچر، مسلمانوں کی تہذیب سب چیزیں محفوظ رہیں گی، اور ملک کا دستور سیکولر دستور بنے گا، ان لوگوں کا تیقن اور دانش مندی دیکھئے کہ یہ سمجھتے تھے کہ ملک کی اکثریت ہندو ہے، اور آج سے نہیں ہے، آٹھ سو سال اس ملک پر مسلمانوں نے حکومت کی ہے، اکثریت تو ہندو ہی کی تھی، وہ بدل تو نہیں گئی تھی؛ لیکن دستور ہندوستان کا سیکولر ہونا چاہئے، اللہ نے ان کو عجیب وغریب عقل ودانش سے نوازا تھا، اتفاق کی بات ہے کہ ملک آزاد ہوا، اور تقسیم ہوگیا اسلام کے نام پر ایک دوسرا ملک بن گیا، اس ملک کے بن جانے کے بعد قدرتی طور پر یہ مسئلہ اُٹھنا تھا کہ جب اسلام کے نام پر مسلمانوں نے اپنا ایک حصہ لے لیا ہے، تو اس ملک کو ہندو اسٹیٹ بننا چاہئے، چنانچہ ہندؤوں کے قد آور لوگ جو برابر آزادی میں شریک تھے، اُنہوں نے ہی یہ آواز اُٹھائی کہ اب ملک کا دستور سیکولر اسٹیٹ نہ بن کرکے ایک ہندو اسٹیٹ ہونا چاہئے، جمعیۃ کے اکابرین اس رائے کے خلاف کھڑے ہوگئے، کہ جو ہم سے وعدے کئے تھے، اُن وعدوں کو پورا کرو، کیوں کہ اگر ملک تقسیم ہوا ہے تو تم نے دستخط کئے ہیں، ہم نے نہیں۔اس لئے اس ملک کا دستور سیکولر بنے گا۔جمعیۃ علماء ہند کا مطالبہ اتنا مظبوط تھا کہ اس مطالبہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنا پڑا اور ملک کا دستور سیکولر دستور بنا۔
(مولانا)سید ارشدمدنی
صدرجمعیۃعلماء ہند

کشمیر میں سخت سیکورٹی انتظامات کے سائے میں یوم آزادی تقاریب منعقد

سری نگر: (اردو اخبار دنیا)وادی کشمیر میں اتوار کو ملک کے 75 ویں یوم آزادی کی تقریبات سخت سیکورٹی بندوبست کے بیچ منائی گئیں۔ اس موقع پر سب سے بڑی تقریب گرمائی دارالحکومت سری نگر میں واقع شیر کشمیر کرکٹ اسٹیڈیم میں منعقد ہوئی، جہاں یونین ٹریٹری کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے پرچم کشائی کی۔ وادی کشمیر میں امسال یوم آزادی کے موقع پر موبائل انٹرنیٹ خدمات معطل نہیں کی گئیں۔ کشمیر زون پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے پہلے ہی اعلان کیا تھا کہ یوم آزادی کے موقع پر انٹرنیٹ خدمات معطل ہوں گی نہ ہی لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر کوئی پابندیاں۔

تاہم امسال بھی یوم آزادی کے موقع پر وادی بھر میں سناٹا چھایا رہا۔ کاروباری سرگرمیاں معطل رہیں اور سڑکیں سنسان نظر آئیں۔ جموں و کشمیر حکومت نے 'آزادی کا امرت مہا اتسو' کے ایک حصے کے طور پر سبھی تعلیمی اداروں کو یوم آزادی کے موقع پر ترنگا لہرانے کی ہدایت دی تھی۔ جنوبی ضلع پلوامہ کے ترال میں واقع گورنمنٹ گرلز ہائر سکینڈری سکول میں منعقدہ یوم آزادی کی تقریب کے موقع پر اسکول کے پرنسپل مظفر وانی، جو حزب المجاہدین کے مہلوک کمانڈر برہان وانی کے والد ہیں، نے ترنگا لہرایا۔

لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کڑے سیکورٹی بندوبست کے بیچ راج بھون سے ہائی سیکورٹی زون علاقہ سونہ وار میں واقع شیر کشمیر کرکٹ اسٹیڈیم پہنچے اور پرچم کشائی کے بعد وہاں موجود شرکاء سے خطاب کیا۔ شیر کشمیر اسٹیڈیم میں منعقدہ تقریب میں بہت کم تعداد میں شرکا موجود تھے جنہوں نے کورونا وبا کے پیش نظر گائیڈ لائنز پر عمل کرتے ہوئے فیس ماسک بھی لگا رکھے تھے اور وہ سماجی فاصلے کا خیال رکھتے ہوئے ایک کے بعد ایک سیٹ پر بیٹھے تھے۔

تقریب کے بحسن و خوبی انجام پذیر ہونے کو ممکن بنانے کے لئے ڈرونز کا استعمال کیا گیا نیز نزدیک میں واقع سلیمان ٹینگ پہاڑی پر ماہر نشانہ بازوں کو تعینات کیا گیا تھا۔ یوم آزادی کی تقریبات کے احسن انعقاد اور ملی ٹنٹوں کی طرف سے حملوں کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے اتوار کو وادی بھر میں سیکورٹی فورسز ہائی الرٹ پر تھے۔ سری نگر میں یوم آزادی کی تقریب کو پرامن طریقے سے انجام دینے کے لئے ڈرونز کا بھی استعمال کیا گیا اور حساس علاقوں میں فقیدالمثال سیکورٹی بندوبست کیا گیا تھا۔ سری نگر میں جگہ جگہ پر ناکے بٹھائے گئے تھے جو آنے جانے والوں کی تلاشی اور ضروری پوچھ گچھ کرتے تھے۔

اسٹیڈیم کی طرف آنے والی سڑکوں کو سیل کر دیا گیا تھا اور سری نگر کے حساس علاقوں میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے اور جگہ جگہ پر ناکے بٹھائے گئے تھے جن پر تعینات سیکورٹی اہلکار ہر آنے جانے والوں کی تلاشی اور ضروری پوچھ گچھ کرتے تھے۔ سیول لائنز علاقوں میں سیکورٹی فورسز کے سینئر افسروں کو بھی گشت کرتے ہوئے دیکھا گیا اور بھاری تعداد میں سیکورٹی فورسز اہلکار تعینات کئے گئے تھے

یو این آئی اردو کے ایک نامہ نگار جنہوں نے اتوار کی صبح سری نگر کے کچھ علاقوں کا دورہ کیا کو کئی مقامات پر ناکہ لگائے سیکورٹی فورسز کو اپنا شناختی کارڈ دکھانا پڑا جس کے بعد ہی ان کو آگے بڑھنے کی اجازت دی گئی۔ وادی کے دیگر ضلع صدر مقامات میں بھی یوم آزادی کی تقاریب کے احسن انعقاد کے لئے سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے اور صدر مقامات میں داخل ہونے والے پوائنٹس پر ناکے لگائے گئے تھے۔

یوم آزادی پر مشتعل کسانوں نے پرامن طور پر ترنگا لہرایا ، پولیس نے لی راحت کی سانس

یوم آزادی پر مشتعل کسانوں نے پرامن طور پر ترنگا لہرایا ، پولیس نے لی راحت کی سانس

نئی دہلی(اردو اخبار دنیا): دہلی پولیس نے اتوار کو راحت کی سانس لی کیونکہ یوم آزادی کے موقع پر دارالحکومت میں کسانوں کے احتجاج سے متعلق کوئی پروگرام نہیں تھا۔ کسان رہنما جو مہینوں سے نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، نے دہلی کی سرحد میں کوئی پروگرام منعقد نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ دہلی اور اتر پردیش اور ہریانہ کی سرحدوں پر دھرنے پر بیٹھے کسانوں کی سلامتی سے متعلق فکرمند دہلی پولیس نے اتوار کو وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر کے بعد راحت کی سانس لی۔

واضح رہے یوم جمہوریہ کی تقریبات کے موقع پر گزشتہ سل لال قلعہ پر ہنگامہ ہوا تھا۔ اس وجہ سے دہلی پولیس کچھ ناخوشگوار واقعہ ہونے کے امکان سے پریشان تھی۔ اس کے پیش نظر سیکورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ سنگھو بارڈر اور غازی پور سمیت کسی بھی سرحد پر کسانوں کے احتجاج سے متعلق کوئی ناخوشگوار واقعہ کی رپورٹ نہیں موصول ہوئی ہے۔ سب کچھ پرامن طریقے سے ختم ہوا۔ کسان رہنماؤں نے دھرنے کے مقامات پر قومی پرچم لہرایا۔

شہید بھگت سنگھ ، چندرشیکھر آزاد ، مہاتما گاندھی کے علاوہ نیتا جی سبھاش چندر بوس، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر جنہوں نے ملک کی آزادی کے لیے قربانیاں دیں، انہیں یاد کیا۔ کئی مقامات پر پرچم لہرانے کے بعد کسانوں نے حب الوطنی کے گیت گائے اور شہداء کے اعزاز میں نعرے بلند کیے۔ کسان شکتی سنگھ کے صدر پشپندر چودھری نے 'یواین آئی' کو بتایا کہ غازی پور سرحد پر دھرنا کے مقام پر قومی پرچم لہرانے کے بعد آزادی کے لیے جان دینے والے عظیم شخصیات کو یاد کیا گیا۔

پشپندر چودھری نے بتایا کہ مہینوں سے دھرنا دے رہے مشتعل کسانوں کا 15 اگست کو دہلی کی سرحد میں داخل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور زیادہ تر کسان رہنماؤں نے اعلان کیا تھا کہ وہ دھرنے پر ترنگا جھنڈا لہرائیں گے اور اس مقدس قومی مقام تیوہار میں شرکت کریں گے۔

انہوں نے بتایا کہ دہلی کی حدود سے باہر اتر پردیش اور ہریانہ میں ریلیاں نکالنے اور مقامی سطح پر حکومت تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے پروگرام منعقد کیے گئے۔ کئی علاقوں میں کسانوں نے پرچم کشائی کے بعد ریلیاں نکالیں۔ تمام پروگرام پرامن طریقے سے مکمل ہوئے۔ زیادہ سے زیادہ چوکسی اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کی جا رہی تھی کہ شرارتی عناصر کو کوئی موقع نہ ملے۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ کسان رہنماؤں نے دہلی میں پروگرام منعقد نہ کرنے اور دھرنے کے مقامات پر پرامن طور پر پرچم لہرا کر جشن آزادی میں حصہ لینے کی بات کی تھی، لیکن ماضی کا تجربہ اس کے برعکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 26 جنوری کے مقابلے میں یوم آزادی کی تقریبات کے بعد بھی دارالحکومت کی سرحدوں پر چوکسی برتی گئی۔ خصوصی مانیٹرنگ مسلسل کی جا رہی ہے تاکہ پچھلی بار کی طرح ناخوشگوار واقعہ کو انجام نہ دیا جاسکے۔


اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...