Powered By Blogger

منگل, اگست 31, 2021

ناندیڑمیونسپل کارپوریشن کی حدود میں اضافہ ‘اور پیربرہان نگر اور نئی آبادی کے گھرمالکان کے لئےا چھی خبر


ناندیڑ:30اگست۔ (اردو دنیا نیوز۷۲)آج 30اگست کوناندیڑواگھالہ شہرمیونسپل کارپوریشن کے اجلاس عام کا آن لائن انعقاد عمل میں آیا ۔جس میںناندیڑمیونسپل کارپوریشن کی حدود میں اضافہ ور جو افراد میونسپل کارپوریشن کی زمین پر کئی سال قبل قبضہ کرکے مکانات تعمیر کرکے آباد ہوچکے ہیںایسے تمام علاقوں کے قبضہ داروں کوانکی زمینات کی رجسٹری کرکے دینے کی قرارداد بھی بہ اتفاق آراءمنظور کی گئی۔

آج کے اجلاس کی صدارت میئر محترمہ موہنی یونکر نے کی جبکہ کمشنر ڈاکٹرسنیل لہانے بھی شریک تھے ۔آج کے اجلاس کے ایجنڈے کے مطابق ناندیڑمیونسپل کارپوریشن کی حدود میںتوسیع کی گئی ۔ شہرسے متصل پاوڑے واڑی ‘نصرت پور اور ہساپورگرام پنچایتوں کے کچھ علاقوں کوکارپوریشن حدود میں شامل کرنے کی قرارداد منظورکی گئی ۔

واڑی بزرگ گرام پنچایت کے سروے نمبرگٹ نمبر6تا53‘71‘73تا76 ‘193 ‘194‘ 196‘197’198‘207 ‘ تا227‘نصرت پور گرام پنچایت حدود کے گٹ نمبر3‘4‘ 5‘6اور ہساپور گرام پنچایت حدود کے 18‘19‘20‘ 21‘22/1اور23 گٹ کوبھی میونسپل کارپوریشن میں شمولیت کی گئی ہے ۔اس کے بعدا ب حکومت کی منظوری کیلئے تجویز روانہ کی جائے گی ۔ جس کے بعدا س علاقہ کی میونسپل کارپوریشن میں شمولیت ہوگی ۔اگر منظوری مل جاتی ہے تو آئندہ میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں اس علاقہ کے ووٹرس اپنے حق رائے کااستعمال کریں گے۔

اس طرح وہ ناندیڑکارپوریشن کے ووٹرس بن جائیںگے ۔ نئے علاقوں کی شمولیت اور ووٹرس کی تعداد میں اضافہ کے بعد آئندہ الیکشن میں ان علاقوں میں نئے وارڈوں کی تشکیل ہوگی اس طرح ناندیڑکارپوریشن کے ارکان کی تعدادمیں بھی اضافہ ہوگا ۔ فی الحال ناندیڑ کارپوریشن میں 81ارکان ہیں ۔آج کارپوریشن اجلاس میں ایک اہم قرارداد یہ بھی منظور ہوئی کہ جو شہریان کئی سال قبل کھلی پراراضیات بس گئے تھے او ر اپنے مکانات تعمیر کرلئے تھے لیکن ابھی تک انکے اراضیات کی رجسٹری نہیں ہوئی تھی ایسے املاک مالکان کو انکے مالکان حقو ق دینے کی قرارداد منظور کی گئی ۔ان علاقوں میں نئی آبادی ‘پیربرہان نگر کے علاوہ دیگر کچھ علاقے بھی شامل ہیں ۔

اردوگھر ناندیڑ کے مینجرسلیم خان مستعفی

  • ناندیڑ:30اگست۔ (اردو دنیا نیوز۷۲)حال ہی میںافتتاح ہونے والے اردوگھر ناندیڑ کے مینجر سلیم خان نے اپنی خانگی مصروفیات کے باعث اپنے عہدہ سے استعفیٰ د ے دیا ہے ۔ نئے مینجر کاتقرر ریاستی حکومت کے جی آر مورخہ 28جون اور21 جولائی 2021ءکے مطابق عمل میں آئے گا ۔

ضلع کلکٹر آفس ذرائع سے ملی اطلاع کے بموجب مستعفی مینجر سلیم خان نے تقریبادیڑھ سال خدمات انجام دیں ہیں۔مینجر کی مخلوعہ جائیداد پر تقررکے لئے جی آر میںدرج کردہ اصولوں اورشرائط کی بنیاد پرعمل کیاجائے گا۔ ضلع کلکٹر اردو گھر کی ثقافتی کمیٹی کے صدر ہے اسلئے انھیںتقررات کااختیار حاصل ہے ۔ مینجر کی مخلوعہ جائیداد کے لئے ریاستی اور مقامی سطح کے سب سے زیادہ تعدادمیں چھپنے اورفروخت ہونے والے اردو اخبارات میںاشتہار دیا جائے گا۔اورامیدواروں سے درخواستیں طلب کی جائیں گی ۔صرف وظیفہ یاب کلاس 2 آفسر جو اردو بولنا ‘ لکھنااورپڑھناجانتاہے ہی اہل ہوگا ۔ درخواستیں موصول ہونے پر انٹرویو کی بنیاد پرتقرر عمل میں آئے گا ۔ تقرر کی معیاد زائدسے زائد تین سال مقرر کی گئی ہے ۔ اورماہانہ اجرت 35000 روپے ہوگی ۔

واضح ہو کہ 14 جولائی 2021ءکو اردو گھر کاافتتاح عمل میں آیاتھا لیکن آج تک نہ تو لائبریری شروع ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی ثقافتی ‘ادبی‘ سماجی پروگرام ہوا ہے ۔ اردوگھر میں ایم پی ایس سی اور یوپی ایس سی امتحانات کے کوچنگ سنٹرتس کے شروع کرنے کااعلان بھی ہواتھالیکن اس تعلق سے ضلع کلکٹر آفس کے متعلقہ محکمہ سے کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے ۔اردوعوا م کلاسیس کا بے چینی سے انتظارکررہے ہیں۔

انڈیا میں ازدواجی ریپ کو جرم قرار دینے کے شور و غوغا میں اضافہ

  • انڈیا جہاں کا معاشرہ پدرشاہی روایات سے مضبوطی سے جُڑا ہوا ہے، وہاں شادی کے بندھن کا ایک خاص تقدس ہے، اس لیے شوہر کا بیوی کے ساتھ ریپ کو، یعنی ازدواجی ریپ یا زبردستی جنسی تعلقات بنانے کو، جرم نہیں سمجھا جاتا ہے۔لیکن حالیہ ہفتوں میں انڈیا کی مختلف عدالتوں نے اس معاملے میں متصادم فیصلے سنائے ہیں، جس کی وجہ سے ازدواجی ریپ کو جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی کی مہم میں ایک مرتبہ پھر سے تیزی آگئی ہے۔پچھلے ہفتے جمعرات کو چھتیس گڑھ کی ہائی کورٹ کے ایک جج، جسٹس این کے چندرا ونشی نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ‘بیوی سے مباشرت یا کسی بھی قسم کے جنسی ملاپ کو ریپ نہیں کہا جا سکتا ہے چاہے ایسا فعل بیوی کی مرضی کے خلاف زبردست ہی کیوں نہ کیا جائے۔’

جس خاتون کی شکایت پر اس جج نے فیصلہ سنایا اُس نے کہا تھا کہ اُس کے شوہر نے اُس کے ساتھ ‘غیر فطری جنسی فعل’ کیا تھا اور مختلف اشیا کے ذریعے اُسے ریپ کیا تھا۔

اس جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اس مرد کے خلاف غیر فطری جنسی فعل کے الزام کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے، تاہم جج نے اِس مرد کو بیوی کے ساتھ ریپ جیسے سنگین الزام سے بری کردیا کیونکہ انڈیا کے قوانین میں بیوی کے زبردستی جنسی تعلق بنانا جرم نہیں ہے۔سوشل میڈیا پر اس فیصلے پر سخت تنقید کی گئی۔ تنقید کرنے والوں میں جنسی تفاوت جیسے معاملات پر تحقیق کرنے والی کوٹا نیلیما بھی شامل ہیں، اُنھوں نے سوال اٹھایا کہ ‘عدالتیں عورت کی کہانی کب سننا شروع کریں گی۔’انھوں نے ایک ٹویٹ کے جواب میں کہا تھا ‘کیا انڈیا کی عدالت نر ہے؟ عدالت عورت کی کہانی کب سننا شروع کریں گی۔’ (بی بی سی ایسی ٹویٹس کی ذمہ دار نہیں ہے۔)

ان کی اس ٹویٹ کے جواب میں کئی لوگوں نے اپنے رد عمل میں کہا کہ انڈیا کے قوانین متروک ہیں اور ان میں بہتری کے لیے ترامیم کی ضرورت ہے۔ تاہم کئی ایسے بھی ٹویٹس تھے جو ان کی بات کی مخالفت میں تھے۔ایک ٹویٹ میں حیرانی اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ‘یہ کیسی بیوی ہوگی جو شادی کے بندھن میں جنسی تعلقات پر شکایت کرے گی؟’ ایک اور ٹویٹ میں کہا گیا تھا کہ ‘اُس کے (یعنی بیوی کے) کردار میں کچھ خرابی ہو گی۔’ ایک تیسرے ٹویٹ میں کہا گیا تھا کہ ‘ایسی بیوی جِسے اپنے فرائض کا علم نہیں ہے وہی اس قسم کے دعوے کرے گی۔’ایسی باتیں صرف سوشل میڈیا پر ہی نہیں ہو رہی ہیں، شادی کے بندھن میں ریپ یا ازدواجی ریپ کے اس متنازعہ موضوع پر اب عدلیہ بھی منقسم ہوتی نظر آرہی ہے۔

ابھی چند ہفتے پہلے کی بات ہے جب انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالا کی ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ شادی کے بندھن میں بیوی سے ریپ طلاق حاصل کرنے کے لیے ایک اہم وجہ بنتی ہے۔
کیرالا ہائی کورٹ کے دو ججوں، جسٹس اے محمد مشتاق اور اور کوثر اِدھپاگاتھ نے اپنے 6 اگست کے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ ‘ایک شوہر کا غیر مہذب مزاج جس میں وہ بیوی کی خود مختاری کا احترام نہ کرے، یہ ازدواجی ریپ کہا جائے گا۔ اگرچہ اس بنیاد پر اُسے سزا نہیں دی جا سکتی ہے، تاہم ایسے رویے کو جسمانی اور ذہنی ظلم کے زمرے میں شمار کیا جائے گا۔’ان ججوں نے وضاحت دی کہ شادی کے بندھن میں بیوی کا اُس وقت ریپ ہوتا ہے جب شوہر اُس کے جسم کو اپنی ملکیت سمجھے، اور مزید کہا کہ ‘اس طرح کی سوچ کی جدید سماجی علمِ قانون میں کوئی گنجائیش نہیں ہے۔’

جسٹس چندرا ونشی نے جس قانون کا اطلاق کیا وہ انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 375 ہے۔برطانوی نوآبادیاتی دور کا یہ قانون، جو سنہ 1860 سے انڈیا میں موجود ہے، کئی ‘استثنیٰ’ کا ذکر کرتا ہے – یعنی ایسے حالات جن میں جنسی تعلق بنانا جرم نہیں ہوتا ہے – اور ان میں سے ایک ‘اپنی بیوی کے ساتھ ایک آدمی کا جنسی تعلق’ جو کہ نابالغ نہیں ہے۔یہ خیال اس سوچ سے جُڑا ہوا ہے کہ جنسی تعلقات کے لیے رضامندی شادی میں ‘مضمر’ ہے اور بیوی بعد میں اس اجازت کو واپس نہیں لے سکتی ہے۔لیکن اس سوچ کو پوری دنیا میں تیزی سے چیلنج کیا گیا ہے اور کئی سالوں میں 100 سے زائد ممالک نے ازدواجی ریپ کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ برطانیہ نے بھی سنہ 1991 میں اسے کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘متصور رضامندی’ آج کل کے دور میں ‘سنجیدگی سے برقرار’ نہیں رہ سکتی ہے۔لیکن ازدواجی ریپ کو جرم قرار دینے کی ایک طویل اور مسلسل مہم کے باوجود انڈیا اُن 36 ممالک میں شامل ہے جہاں ازدواجی ریپ کی اجازت یا گنجائیش آج بھی کی قانون کی کتاب میں موجود ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں خواتین پُرتشدد شادیوں میں پھنسی رہ جاتی ہیں۔
ایک سرکاری سروے کے مطابق 31 فیصد شادی شدہ خواتین یعنی تقریباً ہر تین میں سے ایک کو، اپنے شوہروں کی جانب سے جسمانی، جنسی اور جذباتی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یونیورسٹی آف وارِک اور دہلی میں قانون کے پروفیسر اپیندر بخشی کہتے ہیں کہ ‘میری رائے میں اس قانون کو ختم کیا جانا چاہیے۔’
ان کا کہنا ہے کہ برسوں کے دوران انڈیا نے گھریلو تشدد اور جنسی ہراسانی کے خلاف قوانین لا کر خواتین کے خلاف تشدد سے نمٹنے میں کچھ پیش رفت کی ہے، لیکن ازدواجی ریپ کے بارے میں کوئی پیش رفت نہیں کی۔سنہ 1980 کی دہائی میں پروفیسر بخشی نامور وکلاء کے ایک گروپ کا حصہ تھے جنہوں نے ارکان پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی کو ریپ کے قوانین میں ترمیم کے لیے کئی سفارشات پیش کی تھیں۔
انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘انہوں نے (یعنی ارکانِ پارلیمان نے) ازدواجی ریپ کو کالعدم قرار دینے کے علاوہ باقی ہماری تمام تجاویز کو قبول کر لیا۔’
ان کی بعد ازاں حکام سے ازدواجی ریپ کو جرم قرار دینے کی کوششیں بھی ناکام ثابت ہوئیں۔
پروفیسر بخشی نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا کہ وقت صحیح نہیں ہے۔ ‘لیکن شادی میں مساوات ہونی چاہیے اور ایک فریق کو دوسرے پر حاوی ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ آپ اپنے شریکِ حیات سے جنسی خدمات کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔’
حکومت نے مسلسل دلیل دی ہے کہ ازدواجی قانون کو جرم قرار دینے سے شادی کے بندھن کا ادارہ کو ‘غیر مستحکم’ ہو سکتا ہے اور یہ کہ عورتیں اس قانون کا مردوں کو ہراسں کرنے کے لیے غلط استعمال کر سکتی ہیں۔
لیکن حالیہ برسوں میں بہت سی ناخوش بیویوں اور وکلاء نے عدالتوں سے اِس ‘توہین آمیز قانون’ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی انڈیا کو ازدواجی ریپ کو جرم قرار نہ دینے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بہت سے ججوں نے بھی اعتراف کیا ہے کہ وہ ایک قدیم قانون کی طرف مائل ہیں جس کی جدید معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور انہوں نے پارلیمنٹ سے ازدواجی ریپ کو جرم قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
sمِس نیلیما کا کہنا ہے کہ موجودہ قانون خواتین کے حقوق کی ‘صریحاً خلاف ورزی’ ہے اور یہ مردوں کو ‘غیر فطری جنسی تعلقات’ کے لیے استثنیٰ فراہم کرتا ہے اور اس کے علاوہ عدالتی مقدمات کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ایک بنیادی وجہ بھی یہی قانون ہے۔
‘انڈیا کے پاس بظاہر بہت جدید ہونے کا ایک چہرہ ہے، لیکن اگر اس چہرے کی سطح کو ذرا سے بھی کھرچیں تو آپ اصلی چہرہ دیکھتے ہیں۔ عورت اپنے شوہر کی ملکیت بنی ہوئی ہے۔ ہندوستان میں ریپ کو عموماً جرم قرار دیا جاتا ہے اس لیے نہیں کہ عورت نے اس کی خلاف ورزی کی، بلکہ اس لیے کہ وہ دوسرے مرد کی ملکیت ہے۔’
نیلیما کا کہنا ہے کہ ‘انڈیا کا ایک آدھا حصہ جو مرد کی آبادی پر مشتمل ہے، وہ آزاد ہوا جب انڈیا سنہ 1947 میں آزاد ملک بن گیا تھا، باقی خواتین – آدھا ملک ابھی آزاد ہونا باقی ہے۔ ہماری امید عدلیہ سے ہے’۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ حوصلہ افزا ہے کہ کچھ عدالتوں نے ‘اس استثنیٰ کی غیر فطری حیثیت کو تسلیم کیا ہے’۔ لیکن یہ ‘چھوٹی جیتیں ہیں جن پر دوسرے مخالف قانونی فیصلے غالب ہیں۔’
‘یہاں مداخلت کی ضرورت ہے اور (اِس قانون کا) ہماری زندگی میں تبدیل ہونا ضروری ہے.’
‘اس کو پہلے ہی حل کرلینا چاہیے تھا۔ ہم آئندہ نسلوں کے لیے نہیں لڑ رہے، ہم ابھی بھی تاریخ کی غلطیوں سے لڑ رہے ہیں۔ اور یہ لڑائی اہم ہے۔’

منی لانڈرنگ کیس، جیکولین فرنینڈس سے پوچھ گچھ

 اداکارہ جیکولین فرنینڈس سے منی لانڈرنگ کے ایک کیس میں بطور گواہ پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق منی لانڈرنگ کیس میں جیکولین کو اینفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے طلب کیا تھا۔

 

بتایا جارہا ہے کہ مذکورہ کیس کروڑوں کی بھتہ خوری کے ریکیٹ کا ہے جسے سکیش چندراشیکر نامی شخص چلاتا ہے جس پر بھارت کے الیکشن کمیشن کو بھی رشوت دینے کا الزام ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کیس میں جیکولین فرنینڈس ملزم نہیں بلکہ ان سے پوچھ گچھ بطور گواہ کی گئی ہے۔

کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونا کسی زہریلے سانپ کے ڈسنے جیسا ہوتا ہے، تحقیق

کورونا وائرس سے بہت زیادہ بیمار ہونا بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ کو کسی بہت زہریلے سانپ نے ڈس لیا ہو۔یہ دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔نیویارک کی اسٹونی بروک یونیورسٹی کی تحقیق میں کورونا وائرس کے مریضوں میں ایک ایسے انزائمے کو شناخت کیا گیا جو جسم میں اس طرح تباہی مچاتا ہے جیسے کسی زہریلے سانپ کے زہر میں موجود اعصاب پر اثرانداز ہونے والا زہریلا مادہ۔

 

تحقیق میں کووڈ کے مریضوں کے 2 گروپس سے حاصل کیے گئے خون کے نمونوں کا تجزیہ کرنے پر اس انزائمے sPLA2-IIA کی گردش کو دریافت کیا گیا جو بیماری کی سنگین شدت کی پیشگوئی کرسکتا ہے۔

اس مقصد کے لیے جنوری سے جولائی 2020 کے دوران اسٹونی بروک یونیورسٹی میں زیرعلاج رہنے والے کووڈ مریضوں کے میڈیکل چارٹس اور ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔اسی طرح جنوری سے نومبر 2020 کے دوران اسٹونی بروک اور بینر یونیورسٹی میڈیکل سینٹر میں زیرعلاجج رہنے والے 154 مریضوں کے نمونے بھی حاصل کی گئے۔

 

محققین کا کہنا تھا کہ یقیناً گروپس میں شامل افراد کی تعداد زیادہ نہیں تھی مگر ہر مریض کے تمام کلینکل پیرامیٹرز کو دیکھ کر ان کو پیش آنے والے حالات کو مدنظر رکھا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ اکثر تحقیق میں برسوں تک کام جاری رکھا جاتا ہے مگر ہم نے آئی سی یو میں رئیل ٹائم میں یہ کام کیا۔محققین مشین لرننگ الگورتھمز کی مدد سے مریضوں کے ہزاروں ڈیٹا پوائنٹس کا تجزیہ کرنے کے قابل ہوئے، روایتی عنار جیسے عمر، جسمانی حجم اور پہلے سے مختلف بیماریوں کے ساتھ انہوں نے بائیو کیمیکل انزائموں پر بھی توجہ مرکوز کی۔

 

انہوں نے دریافت کیا کہ صحت مند افراد میں sPLA2-IIA انزائمے کی مقدار آدھا نانوگرام فی ملی لیٹر تھی جبکہ کووڈ کی سنگین شدت کرنے والے مریضوں میں یہ مقدار 10 نانوگرام فی ملی میٹر تھی۔انہوں نے بتایا کہ کووڈ کے باعث ہلاک ہونے والے کچھ مریضوں میں اس انزائمے کی مقدار اب تک کی سب سے زیادہ دریافت ہوئی۔اس انزائمے کے بارے میں یہ پہلے سے معلوم ہے کہ یہ بیکٹریل بیماریوں کے خلاف دفاع میں اہم کردار ادا کرتا ہے جبکہ صحت مند افراد میں اس کا اجتماع کی سطح کم ہوتی ہے۔محققین نے بتایا کہ جب یہ انزائمے زیادہ مقدار میں گردش کرنے لگے تو اس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اہم اعضا کی غلافی جھلیوں کو ٹکڑے ٹکرے کردے۔

انہوں نے کہا کہ یہ انزائمے وائرس کو مارنے کی کوشش کرتا ہے مگر ایک مخصوص موقع پر یہ اتنی زیادہ مقدار میں خارج ہوتا ہے کہ حالات بدترین سمت کی جانب بڑھنے لگتے ہیں، کیونکہ یہ مریض کے خلیات کی جھلیوں کو تباہ کرکے متعدد اعضا کے افعال فیل کرنے اور موت کا باعث بن جاتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس انزائمے کی روک تھام کے لیے دستیاب علاج سے مریضوں میں کووڈ کی شدت کو بڑھنے سے روکنے یا موت سے بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس انزائمے کی جینیاتی خاصیت سانپ کے زہر میں موجود بنیادی انزائمے سے ملتی لتی ہے، جس طرح زہر جسم سے گزرتے ہوئے مسلز کے افعال کو ناکارہ بناتا ہے، ایسے ہی کووڈ کے مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ لگ بھگ ایک تہائی مریضوں کو لانگ کووڈ کا سامنا ہوتا ہے اور ان میں سے بیشتر بیماری سے قبل جسمانی طور پر کافی متحرک ہوتے ہیں مگر بیماری کے بعد 100 گز چلنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔

 

محققین کے مطابق اگر انزائمے کی مقدار بیماری کے بعد بھی زیادہ ہو تو یہ بھی لانگ کووڈ کی ایک ممکنہ وجہ ہوسکتی ہے۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف کلینکل انویسٹی گیشن میں شائع ہوئے۔

پیر, اگست 30, 2021

کورونا ویکسین سے نیوزی لینڈ میں ہوئی پہلی موت، ’فائزر‘ لینے والی خاتون ہلاک

  • کورونا سے نمٹنے کے معاملے میں نیوزی لینڈ کی تعریف پوری دنیا میں ہو رہی ہے اور دیگر ممالک کے مقابلے نیوزی لینڈ میں کورونا سے ہوئی اموات کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ اس درمیان ایسی خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ نیوزی لینڈ میں کورونا ویکسین لینے کے بعد پیدا سائیڈ افیکٹس سے پہلی موت واقع ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں نیوزی لینڈ کی وزارت صحت نے جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ ’فائزر‘ کورونا ویکسین سے ایک خاتون کی موت ہو گئی ہے۔ حالانکہ وزارت نے خاتون کی عمر کے تعلق سے کوئی جانکاری نہیں دی۔

نیوزی لینڈ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ کووڈ-19 ویکسین سیکورٹی نگرانی بورڈ کے جائزہ کے بعد پتہ چلا ہے کہ خاتون کی موت کا سبب مائیکارڈیٹس ہے۔ مائیکارڈیٹس کو فائزر کے کووڈ ویکسین کا ایک سائیڈ افیکٹ مانا جاتا ہے۔ مائیکارڈیٹس کی وجہ سے دل کے پٹھوں میں سوجن کا مسئلہ ہو جاتا ہے۔ یہ دل کے نظام کو متاثر کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے دل کو خون کے پمپنگ کرنے میں مشکلیں آتی ہیں۔ پھر دھڑکن کی بے ضابطگی کا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ مائیکارڈیٹس کی وجہ سے دل کے پٹھوں کو آکسیجن والے خون کو پمپ کرنے میں زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، جو دل کے سوجن کی وجہ بنتی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ نیوزی لینڈ میں کورونا ڈیلٹا ویریئنٹ نے گزشتہ کچھ ہفتوں میں پریشانی بڑھا دی ہے۔ نیوزی لینڈ کے آکلینڈ میں ڈیلٹا ویریئنٹ کی وجہ سے دو ہفتہ کا لاک ڈاؤن بھی لگایا گیا ہے۔ بہر حال، ورلڈ میٹر کے مطابق نیوزی لینڈ میں کووڈ-19 کے اب تک 3519 معاملے سامنے آ چکے ہیں۔ ان 3519 معاملوں میں 25 کورونا متاثرہ لوگوں کی جان چلی گئی ہے، جبکہ 2890 افراد نے کورونا کو شکست دے دی ہے۔ فی الحال نیوزی لینڈ میں 603 کورونا کے سرگرم کیسز موجود ہیں جن کا ابھی علاج چل رہا ہے

ای ڈی نے مہاراشٹر کے وزیر انل پرب اور شیوسینا کے دیگرلیڈران کو بھیجانوٹس

ممبئی، 30 اگست (اردو دنیا نیوز۷۲) انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے مہاراشٹر کے وزیر انل پرب اور دیگر شیو سینا رہنماؤں کو منی لانڈرنگ معاملے میں پیش ہونے کے لیے نوٹس جاری کیاہے۔شیو سینا کے رکن پارلیمنٹ سنجے راؤت نے پیر کو کہا کہ ای ڈی کی جانب سے جاری نوٹس ‘ڈیتھ وارنٹ’ نہیں ہے بلکہ سیاسی کارکنوں کے لیے ‘پریم پتر’ ہے۔

انہوں نے کہا کہ مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) حکومت کی مضبوط دیوار کو توڑنے کی ناکام کوششوں کے بعد ایسے محبت ناموں کی آمد میں اضافہ ہوگیا ہے لیکن حکومت بہت مضبوط اور ناقابل تسخیر ہے۔مسٹر راؤت نے کہا کہ مسٹر پرب کو بی جے پی لیڈروں نے نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نوٹس کا جواب دیں گے اور ای ڈی کے ساتھ تعاون کریں گے۔

بی جے پی کی سابقہ ​​اتحادی شیو سینا اب مہاراشٹر میں این سی پی اور کانگریس کے ساتھ اقتدار میں ہے۔ انہوں نے مہاراشٹر میں مندروں کو دوبارہ کھولنے کے لئے احتجاج کرنے پر بی جے پی پر نشانہ لگایا اور کہا کہ ریاست میں مندرکووڈ پابندیوں کی وجہ سے بند ہیں۔انہوں نے کہا کہ مہاراشٹر حکومت مرکز کی ہدایات پر عمل کررہی ہے، جس میں ریاستوں کو آئندہ تہواروں سے پہلے احتیاط برتنے اورکورونا وائرس کے انفیکشن پھیلنے کے امکان کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مرکزی حکومت بھی ‘ہندوتوادی’ (ہندو نواز) ہے۔

ہریانہ میں پولیس کی جانب سے کسانوں پر لاٹھی چارج کے بارے میں پوچھے جانے پر مسٹر راؤت نے کہا کہ بی جے پی کو کسانوں کے بہائے گئے خون کی قیمت چکانی ہوگی

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...