Powered By Blogger

جمعہ, ستمبر 03, 2021

پولیس اہلکاروں کا چلتا پھرتا رسوئی گھر، ملے گا گرم کھانا

نئی دہلی، 3ستمبر (اردو دنیا نیوز۷۲) دہلی پولیس کے جوانوں کو خصوصی ڈیوٹی کے دوران اب کھانے پینے کی پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ من پسند گرما گرم کھانا ایک موبائل کال یا میسج پر ان کے سامنے حاضر ہوگا۔دوارکا کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس سنتو ش کمار مینا نے جمعہ کو بتایا کہ ضلع میں پائلٹ پروجیکٹ یعنی تجرباتی طورپر ایک ’موبائل کینٹین وین‘ یعنی ’چلتی پھرتی رسوئی‘ کی شروعات کی گئی ہے۔ پولیس اہلکاروں سے فیڈبیک لینے کے بعد سینئر عہدیداران کی طرف سے اس انتظام کا جائزہ لیا جائے گا۔ اگر رپورٹ مثبت آئی تو دہلی پولیس اس سہولت کی دیگر اضلاع تک توسیع کرے گی۔

انہوں نے بتایا کہ نئی پہل سے خصوصی مواقع پر امن و قانون انتظامات سنبھالنے یا باقاعدہ گشت کی مصروفیت کے دوران پولیس اہلکاروں کو کئی کئی گھنٹے پہلے پیک کئے گئے کھانا کھانے کی مجبوری نہیں رہے گی۔ موبائل کینٹین انچارج کے موبائل نمبر پر صرف ایک مسیج یا کال کرنا ہوگا اور ڈیوٹی کی جگہ پر تازہ اور ترما گرم کھانا مل جائے گا۔ سہولت حاصل کرنے کے لئے ڈیوٹی پوائنٹ انچارج/کمپنی کمانڈر سے کھانا پہنچانے کی درخواست کرنی ہوگی۔

مسٹر مینا نے بتایا کہ موبائل کینٹین کے ذریعہ سے تازہ کھانا کے علاوہ ٹھنڈا اور گرم پانی، دیگر مشروبات پولیس اہلکاروں کو دستیاب ہوں گے۔ اس کا استعمال کرنے والے پولیس اہلکار سے وقت وقت پر رائے لی جائے گی اور اسی کی بنیاد پر اگر ضرورت ہوئی تو تبدیلیاں کی جائیں گی۔انہوں نے بتایا کہ مختلف سہولیات سے لیس ایک ٹاٹا۔407 گاڑی میں کھانے کے لئے ٹیبل، پانی کی مشین (گرم اور ٹھنڈا) اور کھانے کے ذخیرہ کے لئے مناسب انتظامات کئے گئے ہیں۔

خیال رہے کہ فسادات، بھیڑ انتظامات، مذہبی اجلاسوں، مختلف تہواروں، سیاسی ریلیوں، بین ریاستی سرحدوں پر امن و قانون انتظامات قائم رکھنے کے لئے تعینات پولیس اہلکاروں کو مجبوراً باسی کھانا مجبور ی بن جاتا ہے اور انہیں ناشتے پانی کی مشکلا ت سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔

دہلی اسمبلی سے لال قلعہ تک جانے والا خفیہ راستہ دریافت، سامنے آئی تصویریں

دہلی اسمبلی سے لال قلعہ کی طرف جانے والے ایک خفیہ راستہ کا پتہ چلا ہے جس کے بارے میں کئی بار باتیں تو ہوتی تھیں، لیکن کچھ بھی مصدقہ نہیں تھا۔ جمعرات کے روز دہلی اسمبلی میں غار جیسا ایک اسٹرکچر دریافت ہوا ہے جس کے بارے میں دہلی اسمبلی اسپیکر رام نواس گویل نے کہا کہ غار اسمبلی کو لال قلعہ سے جوڑتا ہے اور مجاہدین آزادی کی آمد و رفت کے وقت انگریزوں کے ذریعہ لوگوں کے غصے سے بچنے کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا تھا۔

اسپیکر رام نواس گویل کا کہنا ہے کہ ’’جب میں 1993 میں رکن اسمبلی بنا تو یہاں موجود ایک غار کے بارے میں افواہ اڑی کہ لال قلعہ تک جاتی ہے اور میں نے اس کی تاریخ دریافت کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس سلسلے میں کوئی واضح اشارہ نہیں ملا۔‘‘ گویل نے مزید کہا کہ ’’اب ہمیں غار کا منھ مل گیا ہے، لیکن ہم اسے آگے نہیں کھود رہے ہیں کیونکہ میٹرو پروجیکٹ اور سیور بنانے کی وجہ سے غار کے سبھی راستے تباہ ہو گئے ہیں۔‘‘

تاریخ سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے اسپیکر رام نواس گویل نے کہا کہ جس عمارت میں اس وقت دہلی اسمبلی ہے، اس کا 1912 میں راجدھانی کولکاتا سے دہلی منتقل کرنے کے بعد مرکزی اسمبلی کی شکل میں استعمال کیا گیا تھا۔
بعد میں 1926 میں یہ ایک عدالت کی شکل میں تبدیل ہو گیا تھا اور انگریزوں نے مجاہدین آزادی کو عدالت میں لانے کے لیے اس غار کا استعمال کیا تھا۔ گویل مزید بتاتے ہیں کہ ’’ہم سبھی یہاں پھانسی کے کمرے کی موجودگی کے بارے میں جانتے تھے، لیکن اسے کبھی نہیں کھولا۔ اب آزادی کا 75واں سال تھا اور میں نے اس کمرے کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ہم اس کمرے کو مجاہدین آزادی کے مندر کی شکل میں بدلنا چاہتے ہیں،

تاکہ انھیں خراج عقیدت پیش کیا جا سکے۔‘‘ اسمبلی اسپیکر رام نواس گویل نے کہا کہ ملک کی آزادی سے جڑے دہلی اسمبلی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ان کا ارادہ اگلے یوم آزادی تک سیاحوں کے لیے پھانسی کا کمرہ کھولنے کا ہے اور اس کے لیے کام شروع ہو چکا ہے۔

،تصویر کا کیپشن

یہ سرنگ برطانوی عہد کی اس عمارت کے نیچے ملی ہے

کسی خفیہ سرنگ سے زیادہ پرکشش، مہم جو اور پراسرار شاید ہی کوئي دوسری چیز ہو۔

حال ہی میں برطانوی عہد کے بنے ہوئے بھارتی پارلیمان کے نیچے ملنے والی راہ داری نے ہر قسم کے اندازوں کو پر دے دیے۔

یہ عمارت سنہ 1911 کی ہے جب برطانیہ نے بھارتی دارالحکومت کلکتہ (اب کولکتہ) سے دہلی منتقل کی اور یہ اپنے عہد کے بہترین فن تعمیر کا نمونہ ہے۔

بڑے محراب نما راستے سے گزریں تو آّ پ کو سخت لکڑیوں کی دروازے اور کھڑکیاں نظر آئیں گی جو کہ شاہ ایڈورڈ کی شاہانہ سطوت کا کلاسیکی نمونہ ہیں۔

یہ سرنگ پارلیمان کی کوٹھریوں کے نیچے ہے اور اب یہ دہلی کی مقامی حکومت کا دفتر ہے۔

آپ کے اندازے کے مطابق اس میں داخل ہونے کا دروازہ خفیہ ہے۔ آّپ ایک سبز قالین کو ہٹاتے ہیں تو آپ کو ایک کنڈی نظر آتی ہے۔

اس میں اپنا سر ڈال کر میں نے ایک خالی چیمبر دیکھا جو کہ پانچ فیٹ گہرا اور 15 فیٹ چوڑا اور امید کے مطابق مزید ایک راہداری اس چیمبر کے نیچے تھی۔

تصویر کا کیپشن
سبز قالین کے نیچے سے راستہ جاتا ہے

اس سرنگ کا پتہ اسمبلی کے سپیکر رام نواس گوئل نے چلایا۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے اس کی موجودگی کے بارے میں اپنے سٹاف سے افواہیں سنی تھیں۔

ان کے خیال میں جب پارلیمان سنہ 1926 میں نئی عمارت میں منتقل ہو گيا تو سرنگ کی موجودگي کا کوئی برا مقصد رہا ہوگا اور یہ عمارت عدالت میں تبدیل کر دی گئي۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے قیدیوں کو لال قلعے سے لایا جاتا تھا۔ لال قلعہ مغل دور کی قلع بند عمارت ہے جہاں برطانوی حکومت سیاسی قیدیوں کو رکھتی تھی۔

مسٹر گوئل نے کہا: ’وہ انھیں سرنگ کے ذریعے عدالت میں لاتے تھے اور اسی راستے پھانسی کے لیے لے جائے جاتے تھے وہاں ایک کمرہ تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس سرنگ کو آنے والی نسلوں کے لیے بچا کررکھنا چاہیے تاکہ وہ یہ جانیں کہ مجاہدین آزادی کو برطانوی حکومت میں کس قسم کے مظالم کا سامنا تھا۔

فطری طور پر میں سرنگ میں جانا چاہتا تھا۔ میں چیمبر میں کود گیا اور یہ راہ داری بس ایک آدمی کے لیے مناسب تھی تقریباً تین مربع فیٹ۔

،تصویر کا کیپشن
مسٹر گوئل کا کہنا ہے کہ انھوں نے سٹاف سے اس بابت افواہیں سنی تھیں

یہ کئی اینٹ کی دیواروں سے ہوتی ہوئی گزری، فرش ملبے اور اوبر کھابڑ گڑھے سے ہوکر اسمبلی کے چیمبر تک گئي۔

یہ تقریبا 25 فیٹ لمبی سرنگ ہے اور اچانک ایک دیوار پر ختم ہو جاتی ہے۔

مسٹر گوئل کا کہنا ہے ’آگے مزید کھود نا تقریباً ناممکن ثابت ہوا ہے کیونکہ نئی عمارتوں کی بنیادوں اور فلائی اورز کے پایوں اور سیور اور دوسری چیزوں نے اس کا راستہ مسدود کر دیا ہے۔‘

لیکن جو کچھ بچا ہے اسے وہ تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ ’یہ ہندوستان کی جنگ آزادی کا ایک اہم حصہ ہے۔ میں اس سرنگ کو محفوظ کروں گا تاکہ کبھی کبھی ہندوستانی اسے دیکھ سکیں۔‘

اس کے باہر کھلی دھوپ میں میری ملاقات تاریخ داں ولیم ڈیلرمپل سے ہوئي۔ انھوں نے کہا: ’دہلی زیر زمین راستوں کی کہانیوں سے بھرا ہوا ہے۔ بعض بڑی بڑی حویلیوں سے سرنگیں لال قلعے تک جاتی تھیں اور 18ویں صدی میں انھی سرنگوں سے مغل شہزادوں کے بچ کے نکلنے کی کہانیاں بھی ہیں۔‘

لیکن ڈیلرمپل مسٹر گوئل کی کہانی پر یقین کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

،تصویر کا کیپشن
میری فطری خواہش اس میں اترنے کی تھی

’اس بات کا سوال ہی نہیں ہے کہ مجاہد آزادی کو اس عمارت میں پھانسی دی جاتی ہو۔‘ اور وہ اس پر بھی سوال کرتے ہیں کہ آخر برطانوی حکومت لال قلعے سے یہاں تک چار کلو میٹر کی سرنگ صرف قیدیوں کے لانے لے جانے کے لیے کیوں بنائے گي؟

’اس پر زبردست صرفہ آئے گا اور اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں کیونکہ برطانوی حکومت کے پاس اتنا اختیار اور ایسی فوج تھی جو قیدیوں کو سڑکوں اور گلیوں سے بغیر کسی خوف کے ہانکتی ہوئی لا سکتی تھی۔‘

ان کا خیال ہے کہ یہ سرنگ اس سے قبل سنہ 1857 کی ہو سکتی ہے جو کہ برطانیہ کا زیادہ کشت و خون والا دور تھا۔

بھارت میں اس جنگ کو ’پہلی جنگ آزادی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ برطانیہ میں اسے ’بغاوت‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

یہ 19 ویں صدی میں دنیا بھر میں برطانیہ کے خلاف ہونے والی سب سے بڑی بغاوت تھی جوکہ سپاہیوں کی سرکشی سے شروع ہوئي اور مکمل بغاوت میں تبدیل ہو گئی۔

،تصویر کا کیپشن
تاریخ داں ڈیلرمپل کا خیال ہے کہ یہ پرانی سرنگ ہو سکتی ہے

ڈیلرمپل کا کہنا ہے کہ ’جہاں آج یہ عمارت ہے وہاں (1857 میں) ایک اہم میدان جنگ تھا۔ آج سامراجی عمارتوں اور ہرے بھرے لان والا علاقہ ہے لیکن پہلے یہ جھلسا ہوا جنگ کا میدان تھا۔ یہ دو فوج کے درمیان کا علاقہ تھا اور یہیں بھارت میں برطانیہ کے مقدر کا فیصلہ ہوا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کی طرح یہاں بھی سرنگیں اور جوابی سرنگیں بنائی گئي تھیں اور شب خون میں دشمن کی فوج کے پیچھے پہنچنے کی کوششیں ہوتی تھیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’1857 کی بغاوت ایک اہم واقعہ تھا جسے برطانیہ کی تاریخ میں تقریباً بھلا دیا گیا ہے۔

،تصویر کا کیپشن
بعض پہیلیاں حل نہیں ہوتی اور یہ ان میں سے ایک ہو سکتی ہے

’یہ برطانوی حکومت کا تاریک ترین دور تھا جس میں لاکھوں بے قصور ہندوستانیوں کو انتقام پر اتری ہوئی برطانوی فوج نے موت کے گھاٹ اتر دیا تھا۔ یہ سرنگ اس دور کی بہیمانہ یاد تو ہو سکتی ہے کیونکہ اس بغاوت کو انتہائی بے دردی کے ساتھ کچل دیا گيا تھا۔‘

لیکن اس کے باوجود یہ سرنگ یوں ہی کوئی تہہ خانہ بھی ہو سکتی ہے۔ بہرحال بعض تاریخي اسرار کبھی حل نہیں ہوتے

جمعہ کی دوپہر نیوزی لینڈ کے سپرمارکیٹ میں دہشت گردانہ حملہ، دہشت گرد ہلاک

  • 0
    Shares

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے جمعہ کے روز اس بات کی تصدیق کر دی کہ آکلینڈ کے نیو لن سپر مارکیٹ میں پیش آیا پرتشدد حملہ ایک سری لنکائی شہری کے ذریعہ کیا گیا ’دہشت گردانہ حملہ‘ تھا۔ اس دہشت گرد کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ خبر رساں ایجنسی سنہوا کی ایک رپورٹ کے مطابق ایمبولنس سروس سینٹ جانس کے ایک ترجمان نے کہا کہ دوپہر تقریباً 2.40 بجے ہوئے حملے میں کم از کم 6 لوگ زخمی ہو گئے جن میں تین کی حالت سنگین ہے۔

وزیر اعظم آرڈرن نے ویلنگٹن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ایک تشدد پسند شخص نے آکلینڈ میں نیو لن کاؤنٹ ڈاؤن میں بے قصور نیوزی لینڈ باشندوں پر دہشت گردانہ حملہ کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ حملہ تشدد آمیز تھا، یہ بے وقوفی والا قدم تھا اور مجھے افسوس ہے کہ ایسا ہوا۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ پولیس نے حملے کے تقریباً ایک منٹ کے اندر جرائم پیشہ کو گولی مار دی۔

جیسنڈا آرڈرن کے مطابق حملہ آور ایک سری لنکائی شہری تھا جو 2011 میں نیوزی لینڈ آیا تھا اور 2016 سے نیوزی لینڈ پولیس کے ذریعہ اس کی اسلامک اسٹیٹ سے متاثر نظریہ کے لیے سخت نگرانی کی جا رہی تھی۔ حالانکہ یہ ابھی تک نامعلوم ہے کہ یہ شخص نیوزی لینڈ کا شہری ہے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں : گائے واحد جانور ہے جو آکسیجن لیتی ہے اور آکسیجن ہی خارج کرتی ہے! الہ آباد ہائی کورٹ
نیوزی لینڈ کے پولیس کمشنر اینڈریو کوسٹر نے بھی اس تعلق سے ایک پریس کانفرنس کیا ہے جس میں تصدیق کی ہے کہ حملے کے پیچھے موجود شخص اپنے نظریات کو لے کر سخت نگرانی میں تھا۔ حملے سے قبل اس شخص نے گلین ایڈن سے مغربی آکلینڈ کے لن مال میں کاؤنٹ ڈاؤن تک کا سفر کیا تھا۔ جس پر نگرانی ٹیموں کے ذریعہ باریکی سے نظر رکھی جا رہی تھی۔ وہ کاؤنٹ ڈاؤن سپر مارکیٹ میں داخل ہوا جہاں اسے ایک چاقو ملا۔ کوسٹر کے مطابق نگرانی ٹیم اس کے کافی قریب تھی، اور جب ہنگامہ شروع ہوا تو انھوں نے کارروائی کی۔ کاسٹر نے کہا کہ جب وہ شخص چاقو لے کر ان کے پاس پہنچا تو اس کا گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔

مسلح پولیس نے سیکورٹی کے تحت آس پاس کی سڑکوں کو بند کر دیا ہے۔ جمعہ کا حملہ نیوزی لینڈ کے سب سب خراب دہش گردانہ حملے کے دو سال بعد پیش آیا ہے، جب 2019 میں کرائسٹ چرچ میں دو مساجد میں ایک سفید فام بندوق بردار نے 51 مسلم نمازیوں کا قتل کر دیا تھا۔

خبر غم: ناندیڑ کے نوجوان محمد الطاف احمد کا اچانک انتقال

ناندیڑ:3. ستمبر۔(اردو دنیا نیوز۷۲)نہایت ہی افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ میڈیکل شعبہ سے وابستہ ناندیڑ کے معروف ایم آر آئی ٹیکنیشن محمد ارشاد احمد گلبرگوئی کے چھوٹے بھائی محمد الطاف احمد گلبرگوئی ساکن ہتائی، ناندیڑ کا آج بتاريخ 3 ستمبر 2021 بروز جمعہ کو ہارٹ اٹیک کے باعث قضائے الٰہی سے انتقال ہو گیا ہے۔ (انا لله وانا اليه راجعون)۔

مرحوم نہایت ملنسار، صوم و صلوۃ کے پابند اور نیک طبیعت کے مالک تھے۔ الله تعالیٰ، مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں مقام عطاء فرمائے۔ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اور جملہ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔ مرحوم، محمد عبدالباقی صاحب گلبرگوئی مرحوم کے چھوٹے فرزند اور حکیم محمد عبدالسّلیم صاحب گلبرگوئی مرحوم کے بھتیجے تھے۔

ان شآء الله! مرحوم کی نماز جنازہ آج بعد نماز عصر بمقام گنج شہیداں کربلا، ہتائی، ناندیڑ میں ٹھیک 5:30 بجے ادا کی جائے گی اور تدفین متّصل قبرستان میں عمل میں آئے گی۔

کولکتہ ممتازشاعر،ادیب اورصحافی قیصرشمیم کا انتقال

کولکتہ ممتازشاعر،ادیب اورصحافی قیصرشمیم کا انتقال

مرحوم قیصر شمیم
مرحوم قیصر شمیم

 کولکتہ:بنگال کے ممتاز شاعر، ادیب مترجم اور صحافی قیصر شمیم کا آج بروز جمعہ بتاریخ 03 ستمبر 2021ء انتقال ہوگیا۔ انا لله و انا الیه راجعون

 اس خبر نے اہل کولکتہ کو غمزدہ کردیا ہے۔مرحوم تقریبا پندرہ دنوں سے شدید علیل تھے۔ انھیں بغرض علاج لائف کیئر نرسنگ ہوم میں داخل کیا گیا۔ افا قہ کے بعد وہ گھر آ گئے تھے لیکن 3 دن قبل ان پر برین ہیمرج کا شدید حملہ ہوا۔ اس کے بعد وہ جانبر نہ ہو سکے۔ مرحوم کے پیس ماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک فرزند ہے۔

 قیصر شمیم کا اصل نام عبد القیوم خان ہے۔ ان کی تاریخ پیدائش 02 اپریل 1936ء ہے۔ 1951ء سے جون 1957 تک وہ میدان کسی کے نام سے لکھتے رہے۔ جولائی 1957 ء تا حال قیصر شمیم کے نام سے معروف ہیں ۔ نصف درجن سے زائد کتابوں کے مصنف رہ چکے ہیں ۔ 

متعدد کتابوں کے مؤلف بھی ہیں جب کہ مختلف اخبارات و رسائل سے صحافی وابستگی بھی رہی ۔ مرحوم مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے وائس چیر مین بھی رہ چکے ہیں اور انھیں مغربی بنگال اردو اکاڈمی کی طرف سے انھیں عبد الرزاق ملیح آبادی ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ بے شمار اداروں کی طرف سے ان کی پذیرائی کی جا چکی ہے۔ وہ سرگرم ادبی ادارہ ہوٹہ رائٹرس ایسوی ایشن کے بانی بھی ہیں۔

نماز جنازہ آج مکہ مسجد گھوش لین میں اور تدفین بعد نماز مغرب آندول قبرستان میں ہوگی۔ احباب سے مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے درخواست ہے۔


ختم نہیں ہوئی ہے کورونا کی دوسری لہر۔ ہیلتھ سکریٹری

ختم نہیں ہوئی ہے کورونا کی دوسری لہر۔ ہیلتھ سکریٹری

خطرہ ابھی باقی ہے
خطرہ ابھی باقی ہے

(اردو دنیا نیوز۷۲): نئی دہلی

مرکزی حکومت نے تہوار کے سیزن سے پہلے ایک بار پھر لوگوں کو کورونا کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ جمعرات کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے مرکزی صحت کے سکریٹری راجیش بھوشن نے کہا کہ دوسری لہر ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ وزارت صحت نے تہواروں کے دوران بڑے اجتماعات سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

بھوشن نے کہا کہ اگر کسی تقریب میں جانا ضروری ہے تو مکمل ویکسینیشن کے بعد ہی جائیں۔ سیکرٹری صحت نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ تہوار گھر پر منائیں ، سماجی دوری پر عمل کریں اور ویکسینیشن اپنائیں۔

۔ 42 اضلاع میں روزانہ 100 سے زائد کیسز آرہے ہیں

 بھوشن نے مزید کہا کہ 10 مئی سے ملک میں کورونا مثبتیت کی شرح میں کمی آئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ ہفتے ملک بھر میں رپورٹ ہونے والے کل کورونا کیسز میں سے 69 فیصد کیس صرف کیرالہ سے آئے ہیں۔ اس وقت ایک لاکھ سے زائد ایکٹو کیسز ہیں۔ جون میں 279 اضلاع میں روزانہ 100 سے زائد کیسز موصول ہو رہے تھے۔ اب بھی 42 اضلاع میں روزانہ کورونا کے 100 سے زائد نئے کیس رپورٹ ہو رہے ہیں۔

۔ 4 ریاستوں میں فعال کیسز کی تعداد 10 ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہے

 انہوں نے کہا کہ مہاراشٹر ، کرناٹک ، تمل ناڈو اور آندھرا پردیش میں فعال کیسز کی تعداد 10 ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہے۔ دوسری ریاستوں میں یہ تعداد 10 ہزار سے کم ہے۔ اب تک ملک میں کورونا کے ڈیلٹا مختلف قسم کے تقریبا 300 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ ملک کی صرف 16 فیصد آبادی کو ویکسین کی دونوں خوراکیں ملی ہیں۔

ملک کی 54 فیصد بالغ آبادی کو ویکسین کی پہلی خوراک ملی ہے۔ 16 فیصد بالغ آبادی نے ویکسین کی دونوں خوراکیں لی ہیں۔ سکم ، دادرا اور نگر حویلی اور ہماچل پردیش میں 18 سال سے زائد عمر کی 100 فیصد آبادی کو ویکسین کی پہلی خوراک ملی ہے۔ سکم میں 36 فیصد ، دادرا اور نگر حویلی میں 18 فیصد اور ہماچل پردیش میں 32 فیصد نے ویکسین کی دوسری خوراک حاصل کی ہے۔

 میزورم ، لکشدیپ ، دمن اور دیو ، لداخ اور تریپورہ میں ، 85 فیصد سے زیادہ آبادی کو ویکسین کی پہلی خوراک ملی ہے۔ اگست کے مہینے میں ہی ملک میں 18.38 کروڑ لوگوں کو ویکسین کی خوراک ملی ہے۔ اگست میں روزانہ اوسطا.2 59.29 لاکھ افراد کو ویکسین دی گئی ہے۔ اس مہینے کے آخری ہفتے میں روزانہ 80 لاکھ سے زائد خوراکیں دی جا رہی تھیں۔

ہفتہ وار مثبت شرح 3 فیصد سے کم

 یہ 9 واں ہفتہ ہے جب ملک میں ہفتہ وار مثبت شرح 3 فیصد سے کم رہی ہے۔ ملک کے 38 اضلاع میں ہفتہ وار مثبت شرح 5-10 کے درمیان ہے۔ سکریٹری صحت راجیش بھوشن نے کہا کہ تمام ممالک اپنی آبادی ، معیشت اور سماجی نظام کو محفوظ رکھنے کے مقصد سے کام کرتے ہیں۔ ان مقاصد کو پورا کرنے کے بعد ، ہم دوسرے ممالک کو ویکسین دینے کے بارے میں سوچیں گے۔

 وزیر صحت نے کیرالہ سے ملحقہ ریاستوں کے بارے میں جانکاری حاصل کی۔

مرکزی وزیر صحت منسوخ مانڈاویہ نے کیرالہ کی سرحد سے متصل تمل ناڈو اور کرناٹک کے وزیر صحت سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ کیرالہ میں بڑھتے ہوئے کیسز کے ساتھ دوسری ریاستوں میں کووڈ -19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔

 نیتی آیوگ کے رکن اور کوویڈ 19 ٹاسک فورس کے سربراہ ڈاکٹر وی کے پال نے کہا کہ گنیش چتورتی ، دیپاولی اور عید میلاد انبی آرہی ہے۔ ہم سب سے اپیل کرتے ہیں کہ گھروں میں رہیں اور تہوار کو محفوظ طریقے سے منائیں۔


تعلیم مسلمانوں میں انقلاب برپا کرسکتی ہے:ڈاکٹرعبدالقدیر

تعلیم مسلمانوں میں انقلاب برپا کرسکتی ہے:ڈاکٹرعبدالقدیر

ڈاکٹر عبدالقدیر
ڈاکٹر عبدالقدیر

 

کرناٹک کے بیدر کے شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنز کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر نے کمزور تعلیمی ریکارڈ رکھنے والے ہزاروں طلبا کی مدد کی ہے اور ڈراپ آؤٹ کرنے والوں نے اکیڈمک انٹینسیو کیئر یونٹ، اے آئی سی یو کے اپنے دلچسپ تصور سے زندگی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

آفرین حسین نے انجینئر سے ماہر تعلیم بننے والے ڈاکٹر عبدالقدیر سے اپنے نئے تصورات سے مسلمانوں کے تعلیمی معیار کو فروغ دینے کی کوششوں کے بارے میں بات کی۔انٹرویو کے اقتباسات

سوال :کوویڈ19 وبا کے دوران، ہم نے آئی سی یو کی اصطلاح عام طور پر استعمال ہوتے ہوئے سنی ہے لیکن آپ کا آئی سی یو کچھ منفرد اور غیر سننے والا ہے، براہ کرم ہمیں اس کے بارے میں بتائیں۔

جواب: اے۔ آئی سی یو کا مطلب اکیڈمک انٹینسیو کیئر یونٹ ہے۔ اے آئی سی یو کا مقصد سست سیکھنے والوں کو ان کی بنیادی باتوں خاص طور پر ریاضی اور زبانوں کو پکڑنے میں مدد کرنا ہے۔اے آئی سی یو کا محکمہ 15 سال سے شاہین کا حصہ رہا ہے۔

ہمارے ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی طلبا ٹیوشن کا انتخاب کرتے تھے جس سے ہمیں اس کے بارے میں برا لگتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیوشن کے خاتمے کے لئے اے آئی سی یو لایا گیا تھا۔

اے آئی سی یو کا آغاز ان طلبا کے لئے علاج اور خصوصی کلاسوں کے طور پر کیا گیا تھا جنہیں اساتذہ کی طرف سے کچھ اضافی دیکھ بھال اور توجہ کی ضرورت تھی۔اے آئی سی یو کا جواب کیسا ہے؟ کیا ٹیوشن کا خاتمہ اے آئی سی یو کا بنیادی مقصد تھا؟

جواب:میں کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے کامیابی سے ٹیوشن کا خاتمہ کیا ہے۔ ٹیوشن ایک کمزوری ہے؛ ہر ادارے کو اپنا اے آئی سی یو رکھنے کی سمت میں کام کرنا چاہئے تاکہ ان کے طلبا ٹیوشن کے لئے نہ جائیں۔

پورے ہندوستان میں ہمارے پاس اے آئی سی یو کے تقریبا 12 محکمے ہیں جو ڈراپ آؤٹ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اے آئی سی یو ہماری طاقت ہے جس نے بہت سے ڈاکٹروں، انجینئروں اور افسران کو پہنچایا ہے۔

سوال:شاہین گروپ کے اداروں کا آغاز بیدر میں ہوا اور اس کی شاخیں تقریبا پورے کرناٹک میں پھیلی ہوئی ہیں، اس توسیع کے پیچھے کیا محرک تھا؟

جواب:شاہین صرف ایک ادارہ نہیں ہے، یہ ایک ثقافت ہے۔ شاہین میں ہم صرف ڈاکٹر اور انجینئر نہیں بناتے بلکہ اپنے طلبا کو شکر گزار ہونے کا طریقہ سکھاتے ہیں۔ج

ہم ایک طرز زندگی سکھاتے ہیں جس کی انہیں کامیاب مستقبل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم اس ثقافت کو پورے ملک میں پھیلانا چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستان بھر میں ہماری ٤٠ سے زیادہ شاخیں ہیں۔

سوال : ہمیں اپنے بارے میں کچھ بتائیں، شاہین گروپ کے اداروں کا آغاز کیسے ہوا۔ آپ اس ادارے کو مالی طور پر کیسے برقرار رکھتے ہیں؟

جواب:شاہین گروپ کے اداروں کی ابتدا ایک ذاتی واقعے پر مبنی ہے۔

میرے چھوٹے بھائی نے تعلیم چھوڑ دی ہم نے اسے حیدرآباد کے ایک اسکول میں داخل کرانے کی بہت کوشش کی لیکن اس نے جانے سے انکار کردیا۔

یہ سب کچھ مجھے یہ سوچنے پر لگا کہ جب میں اپنے چھوٹے بھائی کے تعلیمی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اپنا وقت اور پیسہ لگا رہا تھا تو ان لوگوں کے بارے میں کیا جو اس کا متحمل نہیں ہو سکتے،۔

 وقت اور پیسہ۔ اس سب کے بارے میں سوچنے کے بعد شاہین کنڈر گارٹن کا آغاز یکم دسمبر 1989 ء کو ایک چھوٹے سے کمرے میں صرف 17 طلبا اور ایک استاد کے ساتھ کیا گیا۔ اب ہمارے پاس 20,000 سے زائد طلبا اور تقریبا 1500 ملازمین کا عملہ ہے۔

 اس وقت میں ایک جاپانی کمپنی ماروبینی کارپوریشن کے ساتھ بطور انجینئر کام کر رہا تھا۔ میں نے اسکول کی ترقی پر مکمل توجہ مرکوز کرنے کے لئے اپنی ملازمت چھوڑ دی۔ نہ بجٹ اور نہ ہی کوئی منصوبہ بندی کے ساتھ، میں نے صرف اپنی ترغیب کے ساتھ شاہین گروپ کے اداروں کا آغاز کیا۔

ہم طلباء سے جو فیس وصول کرتے ہیں وہ واحد وسیلہ ہے۔

ہم 20 فیصد طلبا کو بھی مدد فراہم کرتے ہیں جو مالی طور پر کمزور ہیں۔ مجھے مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور پھر بھی ہم اس مہم کو برقرار رکھنے اور آگے بڑھانے میں کامیاب رہے ہیں۔

 شاہین گروپ کے اداروں کی خصوصیت یہ ہے کہ تمام مذاہب اور معاشی پس منظر کے طلبا مل کر تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اس سے بھائی چارے کو فروغ ملا ہے۔

شاہین گروپ کے اداروں کو کرناٹک کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ راجیوتساوا ایوارڈ بھی ملا ہے۔ گلبرگہ یونیورسٹی نے مجھے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا ہے۔ ان تمام پیش رفتوں نے میرے حوصلے بلند کیے ہیں۔

سوال:ملک کی ترقی اور معاشرے اور خاص طور پر مسلم کمیونٹی کے لئے تعلیم کتنی اہم ہے؟

جواب: یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمیں کمیونٹی کو تعلیم کی اہمیت کی وضاحت کرنی ہوگی۔ دنیا بھر میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اگر کم سے کم پیسہ، کوششیں اور وقت کے ساتھ خاطر خواہ تبدیلی لانا ہے تو یہ یقینی طور پر تعلیم کے ذریعے ہے اور اس کے بعد تعلیم انتہائی ضروری ہے۔

سوال : پیغام جو آپ نوجوانوں، مسلم کمیونٹی کے ساتھ شیئر کرنا چاہتے ہیں؟

جواب: میں اس حقیقت پر زور دینا چاہوں گا کہ تعلیم ایک ضروری ذریعہ ہے جو اس تبدیلی کے لئے درکار ہے جو ہم اپنے معاشرے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ والدین کو اپنے بچوں کی تعلیم پر کسی بھی چیز سے زیادہ توجہ مرکوز کرنی چاہئے کیونکہ نوجوان ہمارا مستقبل ہے اور ہم اسی صورت میں ترقی کرسکتے ہیں جب نوجوان ترقی کریں۔


اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...