Powered By Blogger

ہفتہ, ستمبر 04, 2021

دہلی فساد: ’ایسا لگتا ہے جیسے چارج شیٹ کسی ٹی وی پروگرام کی اسکرپٹ ہے‘، عمر خالد کے وکیل کی عدالت میں دو ٹوک

دہلی فسادات کو لے کر گزشتہ کچھ دنوں سے ہو رہی سماعتوں میں دہلی پولیس کو خوب پھٹکار لگی ہے۔ آج پھر جب دہلی کی ایک عدالت میں فسادات کو لے کر سماعت ہو رہی تھی تو جے این یو کے سابق طالب علم عمر خالد کے وکیل تریدیپ پائس نے دہلی پولیس کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس چارج شیٹ میں جس طرح سے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش ہوئی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رپورٹ بنانے والے افسران کے دماغ میں ’فرقہ واریت‘ بھری ہوئی تھی۔ وکیل نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ چارج شیٹ ’فیملی مین‘ یا پھر کسی ٹی وی پروگرام کی اسکرپٹ جیسی ہے۔

 

دہلی کی ایک ٹرائل کورٹ میں عمر خالد کی ضمانت عرضی پر چل رہی سماعت کے دوران وکیل تریدیپ پائس نے اپنی یہ باتیں جج کے سامنے رکھیں۔ عدالت اب پیر کے روز ایک بار پھر عمر خالد کی ضمانت عرضی پر سماعت کرے گا۔ آج کی سماعت کے دوران عمر خالد کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل پر بغیر کسی ثبوت کے اتنے سارے الزامات عائد کر دیے گئے ہیں۔ انھوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ چارج شیٹ کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہ رات 9 بجے والے ٹی وی شو کی اسکرپٹ ہے۔ یہ پوری طرح سے تصورات پر مبنی ہے۔

سماعت کے دوران تریدیپ پائس نے گواہوں پر بھی انگلی اٹھائی اور کہا کہ ان سے جھوٹے بیان دلائے جا رہے ہیں، جو کہ خالد کے خلاف سازش کا حصہ ہے۔ چارج شیٹ کا ایک حصہ پڑھ کر سناتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’بھارت تیرے ٹکڑے ہوں گے، یہ جملہ کہاں سے ملا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ٹی وی پروگرام کی اسکرپٹ لکھی گئی ہے۔ 2016 میں خالد پر جو کیس درج کیا گیا تھا، اس کی چارج شیٹ میں کہیں بھی بھارت تیرے ٹکڑے ہوں گے کا نعرہ لگانے کی بات نہیں تھی۔‘‘ وکیل نے ساتھ ہی کہا کہ اینٹی سی اے اے مظاہرہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ دہلی پولیس نے یہ کام انجام دیا ہے۔

خبر غم:ناندیڑ کے مشہور تاجر محمد عبدالصمد(لال داڑھی زردہ)کا انتقال

ناندیڑ:4.ستمبر۔(اردو دنیا نیوز۷۲)انتہائی افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کےناندیڑ کے مشہور تاجر و مخلص شخصیت جناب محمد عبدالصمد صاحب (لال داڑھی زردہ) نائب صدر مجلس انتظامیہ مدینۃ العلوم سوسائٹی ناندیڑ کا آج 4 ستمبر کی رات اِنتقال ہوگیا ہے

ان کی نمازِ جنازہ و تدفین بروز آج بروزِہفتہ بتاریخ 4 ستمبر 2021 بعد نمازِ ظہر مکّہ مسجد چوك ناندیڑ عمل میں آئیگی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کو اپنے قرب و جوار میں جگہ عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل دے

جمعہ, ستمبر 03, 2021

چین میں ٹی وی پر عورتوں سے مشابہہ مرد دکھانے پر پابندی عائد ستمبر 3, 2021

بیجنگ، 3 ستمبر (اردو دنیا نیوز۷۲) چینی حکومت نے ٹیلی ویژن (ٹی وی) پر عورتوں سے مشابہہ مرد یا مخنث افراد سے ملتے جلتے انداز اپنانے والے مرد حضرات سمیت سیاسی و ثقافتی طنز کرنے والے مردوں کو دکھانے پر پابندی عائد کردی۔خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ (اے پی) کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ نے ’قومی بحالی شباب‘ پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے مذکورہ پابندیوں کا اعلان کیا۔چینی صدر نے تعلیم، کاروبار، ثقافت اور مذہب جیسے معاملات پر حکومتی کنٹرول بڑھانے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ اسکرین پر غیر مہذب مردوں کو دکھانے سے منفی اثرات پڑتے ہیں۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق ریڈیو اور ٹیلی وژن کے معاملات دیکھنے والے حکومتی ادارے ’نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی وژن ایڈمنسٹریشن‘ (این آر ٹی اے) کی جانب سے تمام نشریاتی اداروں کو جاری کردہ ہدایت نامے میں کہا گیا کہ عورتوں سے مشابہت رکھنے والے مرد حضرات کو اسکرین پر نہ دکھایا جائے۔ہدایت نامے میں واضح طور پر مخنث افراد کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا لیکن بتایا گیا کہ ایسے مرد حضرات کو ٹی وی پر دکھانا بند کیا جائے، جن کی شکل و صورت صنف نازک سے ملتی جلتی ہو۔ادارے کی جانب سے جاری ہدایت نامے میں واضح طور پر ٹی وی چینلز کو کہا گیا کہ عریانیت کی تشہیر کرنے والی انٹرنیٹ و شوبز شخصیات کو دکھانے سے گریز کیا جائے۔

سرکاری ادارے نے ٹی وی چینلز کو تجویز پیش کی ہے کہ وہ صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے چینی ثقافت کو دکھائیں، تاکہ قومی بحالی شباب تحریک کو آگے بڑھایا جا سکے۔اسی حوالے سے ’رائٹرز‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ چینی حکومت نے ان تمام مرد آرٹسٹ کو ٹی وی پر نہ دکھانے کی ہدایات جاری کی ہیں جو ثقافت و سیاست کو غلط انداز میں پیش کرنے سمیت خواتین یا مخنث افراد سے مشابہت رکھتے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹی وی اینڈ ریڈیو کے ریگولیٹ ادارے نے نشریاتی اداروں کے جاری ہدایت نامے میں سخت تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ خلاف ورزی کرنے والے ٹی وی چینلز کے خلاف کارروائی بھی کی جائے گی۔

ادارے کی جانب سے جاری ہدایت نامے میں زنانہ مشابہت رکھنے والے آرٹسٹ کو غیر صحت مند معاشرے کا باعث قرار دیا گیا۔چینی حکومت کی جانب سے مذکورہ قدم ایک ایسے وقت میں اٹھایا گیا، جب کہ حال ہی میں حکومت نے بچوں کی آن لائن گیمنگ تک رسائی بھی محدود کی تھی۔حکومت نے حال ہی میں 18 سال سے کم عمر بچوں کے لیے ہفتے میں صرف تین گھنٹے تک آن لائن گیم کھیلنے کے احکامات جاری کیے تھے جب کہ اسکول کے اوقات میں آن لائن گیم پر مکمل پابندی ہوگی۔علاوہ ازیں حکومت نے عریانیت پھیلانے کے الزاام میں حال ہی میں مختلف چینی سوشل ویب سائٹس سے انٹرٹینمنٹ اداروں کے اکاو?نٹس بھی بند کردیے تھے۔چینی حکام کا خیال ہے کہ مقامی مرد آرٹسٹ جنوبی کورین اور جاپانی آرٹسٹوں کی نقل کرتے ہوئے عورتوں سے مشابہہ انداز اور فطرت اپناتے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پھیلنے کے امکانات ہیں۔

دہلی فسادمعاملہ :پولس کی ناقص و ناکام تفتیش کی وجہ سے تاریخ میں یاد رکھا جائے گا:سیشن جج

عدالت کے فیصلہ سے ہمارے موقف کو تقویت ملی کہ دہلی پولس نے ناقص تفتیش کرکے مسلمانوں کو پھنسایا ، مولانا ارشد مدنی

دہلی فساد معاملے کی سماعت کرنے والے کرکاڈومہ سیشن عدالت کے  جج ونود یادو نے نا کافی ثبوت و شواہد اور ناقص تفتیش کی بناء پر تین مسلم نوجوانوں کو مقدمہ سے ڈسچارج کردیا یعنی اب ان ملزمین کو مقدمہ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ملزمین میں عام آدمی پارٹی کے کونسلر طاہر حسین کے بھائی شاہ عالم کے ساتھ راشد سیفی اورشاداب  شامل ہیں ،عدالت نے انہیں مقدمہ سے بری کرتے ہوئے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ ’’دہلی پولس کی ناقص و ناکام تفتیش کی بناء پر دہلی فساد تاریخ میں یاد رکھا جائے گاــ‘‘

 

ملزمین پر تعزیرات ہند کی دفعات 147,148,149,436, 427 (فسادات برپا کرنا،گھروں کو نقصان پہنچانا،غیر قانونی طور پر اکھٹا ہونا )اور پی ڈی پی پی ایکٹ کی دفعہ 3,4 کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا تھا ۔ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے مقرر کردہ وکیل ظہیر الدین بابر چوہان اور ان کے معاون وکلاء دنیش تیواری وغیرہ نے الزامات پر بحث کرتے ہو ئے عدالت کو بتایا   کہ دہلی پولس نے نہایت ناقص تفتیش کی ہے ، ملزمین کے خلاف جھوٹے ثبوت و شواہد اکھٹا کیئے  اور انہیں پھنسایا گیا ۔ وکلاء نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزمین کے خلاف صرف پانچ لوگوں نے گواہی دی ہے جس میں چار پولس والے شامل ہیں جبکہ ایک عام شہری ہے ، انہوںنے عدالت کو مزید بتایا کہ دو سو لوگوں کے ہجوم میں سے صرف انہیں تین لوگوں کی نشاندہی کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملزمین کو منظم طریقے سے مقدمہ میں پھنسایا گیا ہے۔ حالانکہ سرکاری وکیل نے ملزمین کو مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی سخت مخالفت کی لیکن عدالت نے دفاعی وکلاء کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے تینوں ملزمین کو دیال پور پولس اسٹیشن مقدمہ (چاند باغ ) سے  ڈسچارج کردیا اور پولس کی ناقص تفتیش پر سخت برہمی کااظہاربھی کیا ۔

 

عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ یہ مقدمہ ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کے پیسوں کی بربادی ہے کیونکہ تفتیش صحیح رخ پر نہیں کی گئی۔عدالت نے مزید کہا کہ یہ تفتیشی ایجنسی کی ناکامی ہے کہ انہوں نے سائنسی طریقہ کار اختیار نہیں کیا ، بس عدالت کی آنکھ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔عدالت نے اپنے فیصلہ میں مزیدکہا کہ ایسا لگتا ہے کہ دہلی پولس بس اضافی چارج شیٹ داخل کرنے میں مصروف ہے ، مقدمہ کی سماعت شروع کرنے میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہے، ملزمین جیلوں میں بند ہیں اور تاریخ پر تاریخ دینے سے عدالت کا قیمتی وقت برباد ہورہا ہے ۔عدالت نے مزید کہا کہ مقدمہ درج کرنے میں ہونے والی تاخیر اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ پولس کانسٹبل نے گڑ بڑ ی کی ہے اور ملزمین کو پھنسانے کی کوشش کی ہے۔عدالت نے اپنے فیصلہ میں دہلی پولس کی جانب سے کی جانے والی غیر پیشہ وارانہ تفتیش پر سخت برہمی کا اظہار کیا  ۔اسی دوران دہلی ہائی کورٹ نے بھی دوملزمین فرقان اور صالحین کی ضمانت منظورکرلی ہے ۔

اس پر اپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ہم تو پہلے دن سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ دہلی پولس نے جانبدارانہ تفتیش کی اور مسلمانوں کو گرفتار کیا، عدالت نے خود اس بات کو نوٹ کیا کہ دہلی پولس نے نہایت ناقص تفتیش کی ہے ۔ خصوصی جج کے تبصرے سے ہمارے موقف کو تقویت ملی ہے کہ دہلی فسادات میں مسلمانوں کی جان و مال کو لوٹا گیا اور پھر انہیں ہی گرفتارکرلیا ، مولانا مدنی نے کہا کہ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ دہلی فسادمیں جو مظلوم ہیں جس پر ظلم ہوا پولس نے اسے ہی ظالم اورمجرم بناکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جبکہ اس فسادکی سازش رچنے والے آج بھی آزادگھوم رہے ہیں۔

پولیس اہلکاروں کا چلتا پھرتا رسوئی گھر، ملے گا گرم کھانا

نئی دہلی، 3ستمبر (اردو دنیا نیوز۷۲) دہلی پولیس کے جوانوں کو خصوصی ڈیوٹی کے دوران اب کھانے پینے کی پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ من پسند گرما گرم کھانا ایک موبائل کال یا میسج پر ان کے سامنے حاضر ہوگا۔دوارکا کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس سنتو ش کمار مینا نے جمعہ کو بتایا کہ ضلع میں پائلٹ پروجیکٹ یعنی تجرباتی طورپر ایک ’موبائل کینٹین وین‘ یعنی ’چلتی پھرتی رسوئی‘ کی شروعات کی گئی ہے۔ پولیس اہلکاروں سے فیڈبیک لینے کے بعد سینئر عہدیداران کی طرف سے اس انتظام کا جائزہ لیا جائے گا۔ اگر رپورٹ مثبت آئی تو دہلی پولیس اس سہولت کی دیگر اضلاع تک توسیع کرے گی۔

انہوں نے بتایا کہ نئی پہل سے خصوصی مواقع پر امن و قانون انتظامات سنبھالنے یا باقاعدہ گشت کی مصروفیت کے دوران پولیس اہلکاروں کو کئی کئی گھنٹے پہلے پیک کئے گئے کھانا کھانے کی مجبوری نہیں رہے گی۔ موبائل کینٹین انچارج کے موبائل نمبر پر صرف ایک مسیج یا کال کرنا ہوگا اور ڈیوٹی کی جگہ پر تازہ اور ترما گرم کھانا مل جائے گا۔ سہولت حاصل کرنے کے لئے ڈیوٹی پوائنٹ انچارج/کمپنی کمانڈر سے کھانا پہنچانے کی درخواست کرنی ہوگی۔

مسٹر مینا نے بتایا کہ موبائل کینٹین کے ذریعہ سے تازہ کھانا کے علاوہ ٹھنڈا اور گرم پانی، دیگر مشروبات پولیس اہلکاروں کو دستیاب ہوں گے۔ اس کا استعمال کرنے والے پولیس اہلکار سے وقت وقت پر رائے لی جائے گی اور اسی کی بنیاد پر اگر ضرورت ہوئی تو تبدیلیاں کی جائیں گی۔انہوں نے بتایا کہ مختلف سہولیات سے لیس ایک ٹاٹا۔407 گاڑی میں کھانے کے لئے ٹیبل، پانی کی مشین (گرم اور ٹھنڈا) اور کھانے کے ذخیرہ کے لئے مناسب انتظامات کئے گئے ہیں۔

خیال رہے کہ فسادات، بھیڑ انتظامات، مذہبی اجلاسوں، مختلف تہواروں، سیاسی ریلیوں، بین ریاستی سرحدوں پر امن و قانون انتظامات قائم رکھنے کے لئے تعینات پولیس اہلکاروں کو مجبوراً باسی کھانا مجبور ی بن جاتا ہے اور انہیں ناشتے پانی کی مشکلا ت سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔

دہلی اسمبلی سے لال قلعہ تک جانے والا خفیہ راستہ دریافت، سامنے آئی تصویریں

دہلی اسمبلی سے لال قلعہ کی طرف جانے والے ایک خفیہ راستہ کا پتہ چلا ہے جس کے بارے میں کئی بار باتیں تو ہوتی تھیں، لیکن کچھ بھی مصدقہ نہیں تھا۔ جمعرات کے روز دہلی اسمبلی میں غار جیسا ایک اسٹرکچر دریافت ہوا ہے جس کے بارے میں دہلی اسمبلی اسپیکر رام نواس گویل نے کہا کہ غار اسمبلی کو لال قلعہ سے جوڑتا ہے اور مجاہدین آزادی کی آمد و رفت کے وقت انگریزوں کے ذریعہ لوگوں کے غصے سے بچنے کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا تھا۔

اسپیکر رام نواس گویل کا کہنا ہے کہ ’’جب میں 1993 میں رکن اسمبلی بنا تو یہاں موجود ایک غار کے بارے میں افواہ اڑی کہ لال قلعہ تک جاتی ہے اور میں نے اس کی تاریخ دریافت کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس سلسلے میں کوئی واضح اشارہ نہیں ملا۔‘‘ گویل نے مزید کہا کہ ’’اب ہمیں غار کا منھ مل گیا ہے، لیکن ہم اسے آگے نہیں کھود رہے ہیں کیونکہ میٹرو پروجیکٹ اور سیور بنانے کی وجہ سے غار کے سبھی راستے تباہ ہو گئے ہیں۔‘‘

تاریخ سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے اسپیکر رام نواس گویل نے کہا کہ جس عمارت میں اس وقت دہلی اسمبلی ہے، اس کا 1912 میں راجدھانی کولکاتا سے دہلی منتقل کرنے کے بعد مرکزی اسمبلی کی شکل میں استعمال کیا گیا تھا۔
بعد میں 1926 میں یہ ایک عدالت کی شکل میں تبدیل ہو گیا تھا اور انگریزوں نے مجاہدین آزادی کو عدالت میں لانے کے لیے اس غار کا استعمال کیا تھا۔ گویل مزید بتاتے ہیں کہ ’’ہم سبھی یہاں پھانسی کے کمرے کی موجودگی کے بارے میں جانتے تھے، لیکن اسے کبھی نہیں کھولا۔ اب آزادی کا 75واں سال تھا اور میں نے اس کمرے کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ہم اس کمرے کو مجاہدین آزادی کے مندر کی شکل میں بدلنا چاہتے ہیں،

تاکہ انھیں خراج عقیدت پیش کیا جا سکے۔‘‘ اسمبلی اسپیکر رام نواس گویل نے کہا کہ ملک کی آزادی سے جڑے دہلی اسمبلی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ان کا ارادہ اگلے یوم آزادی تک سیاحوں کے لیے پھانسی کا کمرہ کھولنے کا ہے اور اس کے لیے کام شروع ہو چکا ہے۔

،تصویر کا کیپشن

یہ سرنگ برطانوی عہد کی اس عمارت کے نیچے ملی ہے

کسی خفیہ سرنگ سے زیادہ پرکشش، مہم جو اور پراسرار شاید ہی کوئي دوسری چیز ہو۔

حال ہی میں برطانوی عہد کے بنے ہوئے بھارتی پارلیمان کے نیچے ملنے والی راہ داری نے ہر قسم کے اندازوں کو پر دے دیے۔

یہ عمارت سنہ 1911 کی ہے جب برطانیہ نے بھارتی دارالحکومت کلکتہ (اب کولکتہ) سے دہلی منتقل کی اور یہ اپنے عہد کے بہترین فن تعمیر کا نمونہ ہے۔

بڑے محراب نما راستے سے گزریں تو آّ پ کو سخت لکڑیوں کی دروازے اور کھڑکیاں نظر آئیں گی جو کہ شاہ ایڈورڈ کی شاہانہ سطوت کا کلاسیکی نمونہ ہیں۔

یہ سرنگ پارلیمان کی کوٹھریوں کے نیچے ہے اور اب یہ دہلی کی مقامی حکومت کا دفتر ہے۔

آپ کے اندازے کے مطابق اس میں داخل ہونے کا دروازہ خفیہ ہے۔ آّپ ایک سبز قالین کو ہٹاتے ہیں تو آپ کو ایک کنڈی نظر آتی ہے۔

اس میں اپنا سر ڈال کر میں نے ایک خالی چیمبر دیکھا جو کہ پانچ فیٹ گہرا اور 15 فیٹ چوڑا اور امید کے مطابق مزید ایک راہداری اس چیمبر کے نیچے تھی۔

تصویر کا کیپشن
سبز قالین کے نیچے سے راستہ جاتا ہے

اس سرنگ کا پتہ اسمبلی کے سپیکر رام نواس گوئل نے چلایا۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے اس کی موجودگی کے بارے میں اپنے سٹاف سے افواہیں سنی تھیں۔

ان کے خیال میں جب پارلیمان سنہ 1926 میں نئی عمارت میں منتقل ہو گيا تو سرنگ کی موجودگي کا کوئی برا مقصد رہا ہوگا اور یہ عمارت عدالت میں تبدیل کر دی گئي۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے قیدیوں کو لال قلعے سے لایا جاتا تھا۔ لال قلعہ مغل دور کی قلع بند عمارت ہے جہاں برطانوی حکومت سیاسی قیدیوں کو رکھتی تھی۔

مسٹر گوئل نے کہا: ’وہ انھیں سرنگ کے ذریعے عدالت میں لاتے تھے اور اسی راستے پھانسی کے لیے لے جائے جاتے تھے وہاں ایک کمرہ تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس سرنگ کو آنے والی نسلوں کے لیے بچا کررکھنا چاہیے تاکہ وہ یہ جانیں کہ مجاہدین آزادی کو برطانوی حکومت میں کس قسم کے مظالم کا سامنا تھا۔

فطری طور پر میں سرنگ میں جانا چاہتا تھا۔ میں چیمبر میں کود گیا اور یہ راہ داری بس ایک آدمی کے لیے مناسب تھی تقریباً تین مربع فیٹ۔

،تصویر کا کیپشن
مسٹر گوئل کا کہنا ہے کہ انھوں نے سٹاف سے اس بابت افواہیں سنی تھیں

یہ کئی اینٹ کی دیواروں سے ہوتی ہوئی گزری، فرش ملبے اور اوبر کھابڑ گڑھے سے ہوکر اسمبلی کے چیمبر تک گئي۔

یہ تقریبا 25 فیٹ لمبی سرنگ ہے اور اچانک ایک دیوار پر ختم ہو جاتی ہے۔

مسٹر گوئل کا کہنا ہے ’آگے مزید کھود نا تقریباً ناممکن ثابت ہوا ہے کیونکہ نئی عمارتوں کی بنیادوں اور فلائی اورز کے پایوں اور سیور اور دوسری چیزوں نے اس کا راستہ مسدود کر دیا ہے۔‘

لیکن جو کچھ بچا ہے اسے وہ تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ ’یہ ہندوستان کی جنگ آزادی کا ایک اہم حصہ ہے۔ میں اس سرنگ کو محفوظ کروں گا تاکہ کبھی کبھی ہندوستانی اسے دیکھ سکیں۔‘

اس کے باہر کھلی دھوپ میں میری ملاقات تاریخ داں ولیم ڈیلرمپل سے ہوئي۔ انھوں نے کہا: ’دہلی زیر زمین راستوں کی کہانیوں سے بھرا ہوا ہے۔ بعض بڑی بڑی حویلیوں سے سرنگیں لال قلعے تک جاتی تھیں اور 18ویں صدی میں انھی سرنگوں سے مغل شہزادوں کے بچ کے نکلنے کی کہانیاں بھی ہیں۔‘

لیکن ڈیلرمپل مسٹر گوئل کی کہانی پر یقین کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

،تصویر کا کیپشن
میری فطری خواہش اس میں اترنے کی تھی

’اس بات کا سوال ہی نہیں ہے کہ مجاہد آزادی کو اس عمارت میں پھانسی دی جاتی ہو۔‘ اور وہ اس پر بھی سوال کرتے ہیں کہ آخر برطانوی حکومت لال قلعے سے یہاں تک چار کلو میٹر کی سرنگ صرف قیدیوں کے لانے لے جانے کے لیے کیوں بنائے گي؟

’اس پر زبردست صرفہ آئے گا اور اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں کیونکہ برطانوی حکومت کے پاس اتنا اختیار اور ایسی فوج تھی جو قیدیوں کو سڑکوں اور گلیوں سے بغیر کسی خوف کے ہانکتی ہوئی لا سکتی تھی۔‘

ان کا خیال ہے کہ یہ سرنگ اس سے قبل سنہ 1857 کی ہو سکتی ہے جو کہ برطانیہ کا زیادہ کشت و خون والا دور تھا۔

بھارت میں اس جنگ کو ’پہلی جنگ آزادی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ برطانیہ میں اسے ’بغاوت‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

یہ 19 ویں صدی میں دنیا بھر میں برطانیہ کے خلاف ہونے والی سب سے بڑی بغاوت تھی جوکہ سپاہیوں کی سرکشی سے شروع ہوئي اور مکمل بغاوت میں تبدیل ہو گئی۔

،تصویر کا کیپشن
تاریخ داں ڈیلرمپل کا خیال ہے کہ یہ پرانی سرنگ ہو سکتی ہے

ڈیلرمپل کا کہنا ہے کہ ’جہاں آج یہ عمارت ہے وہاں (1857 میں) ایک اہم میدان جنگ تھا۔ آج سامراجی عمارتوں اور ہرے بھرے لان والا علاقہ ہے لیکن پہلے یہ جھلسا ہوا جنگ کا میدان تھا۔ یہ دو فوج کے درمیان کا علاقہ تھا اور یہیں بھارت میں برطانیہ کے مقدر کا فیصلہ ہوا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کی طرح یہاں بھی سرنگیں اور جوابی سرنگیں بنائی گئي تھیں اور شب خون میں دشمن کی فوج کے پیچھے پہنچنے کی کوششیں ہوتی تھیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’1857 کی بغاوت ایک اہم واقعہ تھا جسے برطانیہ کی تاریخ میں تقریباً بھلا دیا گیا ہے۔

،تصویر کا کیپشن
بعض پہیلیاں حل نہیں ہوتی اور یہ ان میں سے ایک ہو سکتی ہے

’یہ برطانوی حکومت کا تاریک ترین دور تھا جس میں لاکھوں بے قصور ہندوستانیوں کو انتقام پر اتری ہوئی برطانوی فوج نے موت کے گھاٹ اتر دیا تھا۔ یہ سرنگ اس دور کی بہیمانہ یاد تو ہو سکتی ہے کیونکہ اس بغاوت کو انتہائی بے دردی کے ساتھ کچل دیا گيا تھا۔‘

لیکن اس کے باوجود یہ سرنگ یوں ہی کوئی تہہ خانہ بھی ہو سکتی ہے۔ بہرحال بعض تاریخي اسرار کبھی حل نہیں ہوتے

جمعہ کی دوپہر نیوزی لینڈ کے سپرمارکیٹ میں دہشت گردانہ حملہ، دہشت گرد ہلاک

  • 0
    Shares

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے جمعہ کے روز اس بات کی تصدیق کر دی کہ آکلینڈ کے نیو لن سپر مارکیٹ میں پیش آیا پرتشدد حملہ ایک سری لنکائی شہری کے ذریعہ کیا گیا ’دہشت گردانہ حملہ‘ تھا۔ اس دہشت گرد کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ خبر رساں ایجنسی سنہوا کی ایک رپورٹ کے مطابق ایمبولنس سروس سینٹ جانس کے ایک ترجمان نے کہا کہ دوپہر تقریباً 2.40 بجے ہوئے حملے میں کم از کم 6 لوگ زخمی ہو گئے جن میں تین کی حالت سنگین ہے۔

وزیر اعظم آرڈرن نے ویلنگٹن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ایک تشدد پسند شخص نے آکلینڈ میں نیو لن کاؤنٹ ڈاؤن میں بے قصور نیوزی لینڈ باشندوں پر دہشت گردانہ حملہ کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ حملہ تشدد آمیز تھا، یہ بے وقوفی والا قدم تھا اور مجھے افسوس ہے کہ ایسا ہوا۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ پولیس نے حملے کے تقریباً ایک منٹ کے اندر جرائم پیشہ کو گولی مار دی۔

جیسنڈا آرڈرن کے مطابق حملہ آور ایک سری لنکائی شہری تھا جو 2011 میں نیوزی لینڈ آیا تھا اور 2016 سے نیوزی لینڈ پولیس کے ذریعہ اس کی اسلامک اسٹیٹ سے متاثر نظریہ کے لیے سخت نگرانی کی جا رہی تھی۔ حالانکہ یہ ابھی تک نامعلوم ہے کہ یہ شخص نیوزی لینڈ کا شہری ہے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں : گائے واحد جانور ہے جو آکسیجن لیتی ہے اور آکسیجن ہی خارج کرتی ہے! الہ آباد ہائی کورٹ
نیوزی لینڈ کے پولیس کمشنر اینڈریو کوسٹر نے بھی اس تعلق سے ایک پریس کانفرنس کیا ہے جس میں تصدیق کی ہے کہ حملے کے پیچھے موجود شخص اپنے نظریات کو لے کر سخت نگرانی میں تھا۔ حملے سے قبل اس شخص نے گلین ایڈن سے مغربی آکلینڈ کے لن مال میں کاؤنٹ ڈاؤن تک کا سفر کیا تھا۔ جس پر نگرانی ٹیموں کے ذریعہ باریکی سے نظر رکھی جا رہی تھی۔ وہ کاؤنٹ ڈاؤن سپر مارکیٹ میں داخل ہوا جہاں اسے ایک چاقو ملا۔ کوسٹر کے مطابق نگرانی ٹیم اس کے کافی قریب تھی، اور جب ہنگامہ شروع ہوا تو انھوں نے کارروائی کی۔ کاسٹر نے کہا کہ جب وہ شخص چاقو لے کر ان کے پاس پہنچا تو اس کا گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔

مسلح پولیس نے سیکورٹی کے تحت آس پاس کی سڑکوں کو بند کر دیا ہے۔ جمعہ کا حملہ نیوزی لینڈ کے سب سب خراب دہش گردانہ حملے کے دو سال بعد پیش آیا ہے، جب 2019 میں کرائسٹ چرچ میں دو مساجد میں ایک سفید فام بندوق بردار نے 51 مسلم نمازیوں کا قتل کر دیا تھا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...