Powered By Blogger

اتوار, ستمبر 05, 2021

ہندوستان میں کورونا کے 42766 نئے معاملے، 308 افراد کی موت

نئی دہلی: گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں کورونا وائرس کے 42766 نئے کیس درج ہوئے ہیں ، جبکہ 38091 افراد نے وبا کو شکست دی ہے۔ ہفتے کے روز ملک میں 71 لاکھ 61 ہزار 760 افراد کو کورونا کی ویکسین دی گئی۔ اب تک ملک میں 68 کروڑ 46 لاکھ 69 ہزار 760 افراد کو ویکسین دی جا چکی ہے۔

اتوار کی صبح مرکزی وزارت صحت کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا کے 42766 نئے معاملوں کی آمد کے ساتھ متاثرہ افراد کی تعداد تین کروڑ 29 لاکھ 88 ہزار 673 ہو گئی ہے۔ اس دوران 38 ہزار 91 مریضوں کی صحت یابی کے بعد اس وبا کو شکست دینے والے افراد کی کل تعداد تین کروڑ 21 لاکھ 38 ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔

اسی عرصے میں فعال معاملے 4367 بڑھ کر 4 لاکھ 10 ہزار 048 ہو گئے ہیں۔ اس دوران 308 مریضوں کی موت کی وجہ سے اموات کی تعداد بڑھ کر 405989 ہوگئی ہے۔ ملک میں فعال معاملوں کی شرح بڑھ کر 1.24 فیصد ہو گئی ہے جبکہ صحت یاب ہونے کی شرح 97.42 فیصد اور اموات کی شرح 1.34 فیصد ہے۔

مہاراشٹرا میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران فعال معاملات 1560 بڑھ کر 55559 ہو گئے ہیں۔ دریں اثنا ، ریاست میں 2506 مریضوں کی صحت یابی کے بعد ، کورونا کو شکست دینے والے لوگوں کی تعداد بڑھ کر 6288851 ہوگئی ہے ، جبکہ 64 مریضوں کی موت کے باعث اموات کی تعداد بڑھ کر 137707 ہوگئی ہے

گوروگرام: موبائل کوڈنگ سکھا رہے ہیں ہندی زبان کے ٹیچر

گوروگرام: موبائل کوڈنگ سکھا رہے ہیں ہندی زبان کے ٹیچر

گوروگرام: موبائل کوڈنگ سکھا رہے ہیں ہندی زبان کے ٹیچر
گوروگرام: موبائل کوڈنگ سکھا رہے ہیں ہندی زبان کے ٹیچر

شاہنوازعالم، گروگرام

ایک استاد اگر چاہ لے تو وہ بچوں کو کیا کچھ نہیں سکھا سکتا ہے، حتیٰ کہ لسانیات کا استاد بچوں کو کمپیوٹر کی بھی تعلیم دے سکتا ہے۔ایسا ہی کارنامہ انجام دینے والے ایک استاد منوج لاکڑا ہیں، جن کا تعلق ریاست ہریانہ کے ضلع گوروگرام سے ہے، جو کہ بنیادی طور پرہندی زبان کے ٹیچر ہیں مگر وہ بچوں کو موبائل کوڈنگ سکھا رہے ہیں۔

اگر کوئی یہ سوال کرے کہ ہندی اور کمپیوٹر کوڈنگ کا آپس میں کیا تعلق ہے تو یقینی طور پر جواب ملے گا کہ کوئی تعلق نہیں ہے۔اس خیال کو منوج لاکڑا نےغلط ثابت کر دکھایا ہے کہ ہندی زبان اور کمپوٹر کا آپس میں تعلق نہیں ہے۔انھوں نے ایک ایسا ایپ بنایا ہے، جس پر سرکاری اسکول کے طلبا موبائل کی کوڈنگ کرتے ہیں۔

ہریانہ ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن نے ان کے بنائے ہوئے ایپ بچوں کو  لیے سرکاری طور پر منظوری دے دی ہے۔

کون ہیں منوج لاکڑا

منوج لاکڑا ہندی میں پوسٹ گریجویٹ اور ہیں وہ گورنمنٹ سینئر سیکنڈری اسکول باج گیرہ میں بطور بنیادی ہیڈ ماسٹر تعینات ہیں۔ مثبت سوچ کے حامل منوج لاکڑا ہمیشہ تعلیمی و سماجی کاموں میں خود کو مصروف رکھنے کے ساتھ ساتھ طلباء کو کوڈنگ اور موبائل ایپ ڈیولپمنٹ میں مدد کرتے ہیں۔

آئی ٹی کے کام میں ان کی خصوصی معاونت کے لیے انہیں حکومت ہند کی جانب سے قومی ٹیچر ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

'مڈ ڈے میل ہریانہ ایپ' کو منوج لاکڑا کی رہنمائی میں ان کی کلاس کے چار طلباء نے مل کر تیار کیا ہے۔اس کی وجہ سے ہریانہ کے ہزاروں اساتذہ کے ساتھ ساتھ دیگر ریاستوں کے اساتذہ کو بھی بہت فائدہ ہوا ہے۔اس ایپ کو ہریانہ کے محکمہ تعلیم نے اپنایا اور تمام سرکاری اسکولوں میں نافذ کیا گیا ہے۔

طلباء نے کمپوزٹ ایولیویشن ایپ، فیس رجسٹرایپ، فنڈ اینڈ اسٹاک رجسٹر ایپ، اسکاؤٹ اینڈ گائیڈایپ، پراگتی پتھ ایپ وغیرہ بھی تیار کیا ہے۔طلباء نے اسکول کی ویب سائٹ، ای میگزین ، بلاگ تعلیمی کھیل ، سرکاری اسکولوں کی گوگل میپنگ وغیرہ پر کام کیا ہے۔منوج لاکڑا کا کہنا ہے کہ ہندی میرا بنیادی مضمون ہے، لیکن مجھے ٹیکنالوجی بہت پسند ہے۔

awaz

بچوں کے ساتھ لاکڑا 

سوشل میڈیا، یوٹیوب اور آن لائن پلیٹ فارم کے ذریعے انھوں نے خود موبائل کوڈنگ اور ایپ ڈیزائننگ کے بارے میں علم حاصل کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ طلباء کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے میں گروپ میں کام کرتا ہوں۔انھوں نےاب تک ایک درجن ایپس اور بہت سی ویب سائٹس تیار کی  ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے بہت سے طلباء نے ضلع ، ریاستی اور قومی سطح کے جواہر لال نہرو سائنس نمائش مقابلہ ، ایس سی ای آر ٹی اور این سی ای آر ٹی میں مسلسل تین سالوں تک انعامات جیتے ہیں۔ ان کے طالب علم ہمانشو نے این سی آر ٹی کی پہلی تا دسویں جماعت(ہندی اور انگریزی) کی سبھی کتابوں کو 'پریوڈک ٹیبل آف کیو آر کوڈڈ بکس' میں تبدیل کیا ہے۔

اس کے علاوہ ان کے طلبا نے تقریباً دو درجن کیو آر کوڈڈ چارٹ بنائے ہیں۔جس میں ملک کے وزیر اعظم ، صدر ، عظیم سائنسدان ، نوبل انعام یافتہ ، عظیم کھلاڑی ، ملک کا نقشہ، کی ندیاں ، درخت اور پودھے بنائے ہیں۔

بنا بجلی والا موبائل ٹی وی

وہیں منوج لاکڑا کی رہنمائی میں طلبا نے بنا بجلی والا موبائل ٹی وی بھی بنایا ہے، جس کی مدد سے ہریانہ کے دیہی علاقوں کے اسکول کو آسانی سے اسمارٹ کلاس رومز میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ یہ ٹی وی سیٹ موبائل سے چلتا ہے جس میں بجلی کے کنکشن کی ضرورت نہیں ہے۔منوج لاکڑا کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے یہ موبائل ٹی وی ہریانہ کے تقریباً 1800 اسکولوں میں مفت فراہم کیا ہے تاکہ بچوں کے کلاس رومز کو اسمارٹ کلاس روم میں تبدیل کیا جاسکے۔

ہندوستانی مسلمانوں پر تشدد عالمی برادری کا توجہ دینا ضروری

ہندوستانی مسلمانوں پر تشدد عالمی برادری کا توجہ دینا ضروری

افسوس کہ متاثرہ چوڑی فروش کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کیا جاتا ہے

Apoorvanand

پروفیسر اپوروانند

مدھیہ پردیش کے اندور اور راجستھان کے اجمیر میں حالیہ عرصہ کے دوران جو واقعات پیش آئے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آخر دنیا کو کیوں فوری طور پر اقلیتوں بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی حالت ِزار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پہلے اندور کے واقعہ پر بات کرتے ہیں جہاں ایک مسلم چوڑی فروش Bangle Seller پر حملہ کیا گیا، اسے شدید زدوکوب کیا گیا۔ اس سے رقم چھین لی گئی۔ اس کے سامان کو توڑ پھوڑ دیا گیا۔ نوجوان مسلم چوڑی فروش کو زدوکوب کئے جانے کا ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگیا۔
اس واقعہ کو لے کر مدھیہ پردیش میں مسلمانوں نے بھرپور اور پرامن طریقے سے احتجاج کیا اور مسلم قائدین پولیس کو حملہ آوروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کیلئے مجبور کرنے میں کامیاب رہے۔ ملزمین کی ویڈیو میں پہلے ہی شناخت ہوچکی تھی۔ پولیس نے چند لوگوں کی گرفتاری کا دعویٰ بھی کیا جس کیلئے پولیس کی ستائش کی گئی کیونکہ اندور مدھیہ پردیش میں ہونے اور وہاں بی جے پی حکومت کے باوجود پولیس نے منصفانہ طور پر کارروائی کی۔ ہمیں تو یہی بتایا گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ بعض اشرار کی جانب سے کی گئی شرپسندی کا یہ واقعہ بالکل الگ نوعیت کا ہے۔ اب دیکھتے ہیں اس سارے معاملے میں قانون کیا کرتا ہے اور عوام ؟نفاذ قانون کی ایجنسیوں سے کیا چاہتے ہیں؟ معاشرہ میں ہمیشہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں رہتا لیکن اگر ریاستی مشنری غیرجانبدارانہ طور پر کام کرتی ہے تو آپ کو فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
پھر سارا بوجھ قانون پر پڑتا ہے پھر لا اینڈ آرڈر مشنری کام کرتا شروع کرتی ہے لیکن افسوس کہ متاثرہ چوڑی فروش کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کیا جاتا ہے اور اس کے خلاف POCSO کے تحت مقدمہ درج کرلیا جاتا ہے جو ایک سنگین قانون ہے۔
اس قانون کے ساتھ ساتھ غریب چوڑی فروش کے خلاف تعزیرات ہند کی 7 دفعات کے تحت مقدمات درج کردیئے جاتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ چوڑی فروش پر خود کو ایک ہندو کے طور پر پیش کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی الزام عائد کردیتے ہیں کہ چوڑی فروش نے ایک لڑکی سے دست درازی کی۔
ریاستی وزیر داخلہ اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ یہ کہتے ہوئے بھی حملہ کو معقول فرار دیتے ہیں کہ یہ ان مقامی لوگوں کی حرکت ہے جو لڑکی کیساتھ دست درازی کی اطلاع پر شدید برہم ہوگئے تھے۔لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ ایک جھوٹ ہے کیونکہ جو ویڈیو منظر عام پر آیا اس میں حملہ آور چوڑی فروش کے ساتھ گالی گلوچ کررہے تھے۔ اس پر طنز و طعنوں کے تیر برسا رہے تھے۔
فحش کلامی کررہے تھے لیکن ان لوگوں کو مارپیٹ کے دوران یہ کہتا نہیں سنا گیا کہ تو نے ایک لڑکی کے ساتھ دست درازی کی بلکہ وہ صرف اس کی مسلم شناخت کو چھپانے کا ذکر کرتے ہوئے اسے اپنی برہمی کی وجہ قرار دے رہے تھے۔ واقعہ کے بعد اس کی کوئی اور وجہ بتانا جھوٹ کے سواء کچھ نہیں۔اگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے۔
معمول سے ہٹ کر ہے تب ہندوستانی ٹی وی چیانلوں کا سامنے آکر اس کے ایک الگ تھلگ واقعہ ہونے سے متعلق شبہات کو دور کرنا ہے، یہ بھی نوٹ کرنے کی بات ہے۔ ان ٹی وی چیانلوں کو بھی ہندو لڑکیوں اور ہندو خواتین کے خلاف ایک خطرناک سازش کی بو آئی اور ان لوگوں نے شاید اسے Bangle Jihad کا نام دے دیا۔
ان لوگوں نے یہ اعلان کردیا کہ چوڑی فروش کے بھیس میں مسلمان ہندو لڑکیوں اور خواتین پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ بھی ایک لو جہاد ہے۔اشرار اور ٹی وی چیانلوں کے اس نظریہ پر آپ انگشت بہ دندان رہ جائیں گے۔ ہم میں کئی اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔ منہار ہماری بستیوں اور گھروں میں آیا کرتے۔
ان لوگوں کا ہمارے گھروں میں باقاعدہ آنا جانا ہوتا۔ ہماری مائیں، بہنیں اور دوسری خواتین ان کی رنگ برنگی ، چمکتی دمکتی چوڑیوں سے بھری ٹوکریوں کی طرف بڑی تیزی سے جھپکتی، ان منہار کی ٹوکریوں میں صرف چوڑیاں ہی نہیں ہوتی بلکہ بندیاں بھی ہوتی پھر چکانے کا سلسلہ شروع ہوتا۔ کورونا وائرس وباء کی پہلی لہر کے دوران بھی ایسی کئی رپورٹس منظر عام پر آئی تھیں جس میں بتایا گیا کہ مسلم سبزی فروشوں کو ہندو محلہ جات سے واپس کردیا گیا۔
ان پر حملے کئے گئے ہم نے ان رپورٹس کو پڑھا اور پھر فراموش بھی کردیئے۔ ہمارا خیال یہی تھا کہ یہ دراصل ایک عارضی دماغی خلل ہے اور کورونا وباء کے خوف سے یہ پیدا ہوئی ہے۔ ہم نے دہلی کے اتم نگر میں سڑکوں پر کاروبار کرنے والے مسلمانوں پر حملوں کو بھی ایک الگ تھلگ واقعہ قرار دے کر نظرانداز کردیا تھا۔ نرسنگھانند سے قبل زی ٹی وی اور اس جیسے دوسرے تھے۔
انہوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی جانب سے کئے جارہے مختلف خود ساختہ جہادوں کی فہرست پیش کی تھی۔ پہلے لوجہاد کے بارے میں ان ٹی وی چیانلوں نے لوگوں کو بتایا ، ان کے دماغ خراب کئے پھر اراضی جہاد (لینڈ جہاد) اور پھر یوپی ایس سی جہاد جیسا لفظ بھی وہ منظر عام پر لے آئے۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ خود اندور میں دیوالی کے ماہ میں پٹاخے فروخت کرنے والے مسلم دکان داروں کو دھمکیاں دی گئیں اور انہیں ہندو دیوی دیوتاؤں کے نام کے پٹاخے اپنی دکانوں میں رکھنے کے خلاف انتباہ دیا گیا۔
ہم نے مظفر نگر میں اپنی مہم بھی دیکھا جہاں مسلمانوں کو انتباہ دیا گیا کہ وہ مہندی والوں کا کاروبار نہ کریں۔ بہرحال اس طرح کے بیانوں سے برپا کیا جانے والا تشدد فوری برپا نہیں کیا جاتا بلکہ مسلمانوں کے خلاف ایک سرگرم اور وسیع تر منافرت پر مبنی مہم چلائی جارہی ہے۔ انہیں مجرموں کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اُکسایا جارہا ہے۔
اس کام میں بہت ہی منظم ٹولیاں مصروف ہیں اور ہر طرف ان کی نظریں ہیں۔ اس سلسلے میں تسلیم کا واقعہ بہترین مثال ہے۔ چوڑیاں فروخت کرنے والے تسلیم کو کس طرح پکڑا گیا، مارا پیٹا گیا، اسے لوٹا گیا، اس کے سامان کو توڑا پھوڑا گیا۔ برسر عام اسے ذلیل و رسواء کیا گیا۔ اس پرتشدد واقعہ کو ڈیجیٹلائزڈ کرکے ہر طرف پھیلا گیا۔
دوسری طرف بیمار ذہنوں کیلئے ایک بے بس و مجبور مسلم چوڑی فروش تسلیم کی پٹائی و رسوائی ذہنی لذت کا باعث بن رہی ہے اور مسلمانوں میں خوف پیدا ہورہا ہے۔
اب مسلم کمیونٹی کے لیڈروں کا کام تبدیل ہوچکا ہے۔ غنڈوں کو سزا دلانے کی بجائے کسی بھی طرح تسلیم کو قانونی کارروائی سے بچانا ہے۔ اس کی ضمانت کے بارے میں سوچنا ہے اور قانونی طور پر مقدمہ لڑنا ہے۔ پولیس تو یہی کہے گی کہ وہ اب زیادہ کچھ نہیں کرسکتی کیونکہ ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے۔ فیصلہ تو عدالتوں کا کرنا ہے۔
یہ کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی، یہ نہ صرف تسلیم کے بارے میں ہے بلکہ انصاف کے خواہاں مسلمانوں کے بارے میں بھی ہے، اس کمیونٹی لیڈر کو معلوم ہوا ہے کہ ان کے اور ان کے معاون کارکنوں کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی گئی جو مخالف سی اے اے ؍ این آر سی احتجاجی مظاہروں میں سرگرم تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کیلئے مسلم جہدکار اگر انصاف طلب کرتے ہیں تو ان کے ساتھ ایسا کیا جائے گا، انہیں مختلف جھوٹے مقدمات میں ماخوذ کیا جائے گا۔ ایک طرف سے یہ ان کے خلاف انتقامی کارروائی ہے۔
یہ واقعہ تو بی جے پی کی زیرقیادت ریاست مدھیہ پردیش میں پیش آیا لیکن راجستھان میں بھی جہاں کانگریس کا اقتدار ہے۔ مسلم بھکاری اور اس کے خاندان کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ کافی چیخ و پکار کے بعد پولیس نے غنڈوں کے خلاف مجبوراً تعزیرات ہند کی دفعہ 151 کے تحت مقدمہ درج کیا اور پھر ان غنڈوں کو گرفتار کرکے فوری رہا بھی کردیا گیا۔ یہ صرف مگرمچھ کے آنسو بہانے کے مترادف ہے۔
پولیس اس معاملے میں سخت کارروائی کرسکتی تھی۔ پولیس اور ریاستی حکومت کا تساہل ہریانہ سے لے کر دہلی اور اندور سے لے کر اجمیر تک موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ یہ مختلف افراد پر برپا کیا جانے والا تشدد ہے لیکن یہ کوئی عام تشدد نہیں بلکہ منافرت پر مبنی جرائم ہیں۔
ان لوگوں پر اس لئے حملے نہیں کئے جارہے ہیں کہ وہ AB یا C ہے بلکہ انہیں اس لئے حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ یہ حملے ہندوستان کی روایت اور سکیولر اُصولوں پر ہندوستان کی بنیاد پر حملے ہیں۔ دستور ہند ملک کے مسلمانوں کو ایک باوقار زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے۔ اسی طرح کی حرکات کو اسٹیٹ آف انڈیا پر حملے سمجھنا چاہئے۔

مظفرنگر میں کسان مہا پنچایت کا انعقاد

مظفرنگر میں کسان مہا پنچایت کا انعقاد

آج ہوگی مہا پنچایت
آج ہوگی مہا پنچایت

مظفر نگر : آواز دی وائس مرکزی حکومت کے تین زرعی قوانین کے خلاف آج اتر پردیش کے مظفر نگر میں کسان مہا پنچایت کا انعقاد کیا جائے گا۔ متحدہ کسان مورچہ شہر کے جی آئی سی گراؤنڈ میں منعقد ہونے والی اس مہا پنچایت کا اہتمام کر رہا ہے۔ دعوی کیا جاتا ہے کہ اس میں ملک بھر سے 5 لاکھ کسان پہنچیں گے۔ بھارتیہ کسان یونین کے صدر نریش ٹکیت کے بیٹے گورو خود اس ایونٹ کو سنبھال رہے ہیں۔

مہا پنچایت کے لیے زمین کے کنارے ایک اسٹیج بنایا گیا ہے۔ یہ پلیٹ فارم تقریبا سو فٹ لمبا اورسو فٹ چوڑا ہے۔ اونچائی 10 فٹ ہے۔ یہاں سے مہا پنچایت میں آنے والے کسانوں سے خطاب کیا جائے گا۔ سامنے زمین پر خیمے بھی لگائے گئے ہیں۔ ترنگا زمین میں 100 فٹ کی بلندی پر ایک بڑے کھمبے پر لہرا رہا ہے۔ ’

دعوی ہے کہ ملک کے کونے کونے سے کسان مہا پنچایت پہنچیں گے۔ ان کے یہاں رہنے اور کھانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ بی کے یو لیڈر گورو ٹیکیٹ خود نظام کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں مختلف مقامات پر 500 دکانوں میں کھانے کے انتظامات کئے گئے ہیں۔ ہر بھنڈارا میں حلوائیوں سمیت دس افراد مصروف ہیں۔ اسٹورز کے علاوہ 5 ستمبر کو 110 دیہات سے کھانا آئے گا۔ دیگر جگہوں پر بھٹی بھی لگائی گئی ہے۔


سینئر شہریان کو ایس ٹی بس میں مفت سفر کی سہولت

ناندیڑ:4 ستمبر۔ (اردو دنیا نیوز۷۲)مہاراشٹراسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن (ایس ٹی) کی جانب سے 65سال سے زائدشہریان کو سال میں 4000 کلومیٹر تک بس میں مفت سفر کی سہولت کااعلان کیا ہے۔ اس کےلئے شہریان کو اسمارٹ کارڈ بنونا پڑے گا۔ یہ کارڈ ایس ٹی محکمہ کی جانب سے جاری کئے جارہے ہیں ۔

شہریان کو اپنے آدھارکارڈ‘الیکشن کارڈ یاالیکشن کی سلیپ اور 55 روپے لے کر قریبی ایس ٹی ڈپو جانا ہوگا اور ساتھ میں موبائل فون رکھناضروری ہے ۔ ایس ٹی ڈپو آفس کے اوقات صبح دس بجے تا شام چھ بجے تک مقرر ہیں۔ان اوقات میں سینئر شہریان ڈپوکے تعلقہ سکشن میں پہونچ کر اپنااسمارٹ کارڈ تیار کرواسکتے ہیں۔

روزانہ رائی دانہ کھانے سے جسم میں کیا تبدیلی آتی ہے؟

سرسوں سے حاصل ہونے والے بیج رائی کہلاتے ہیں، ان بیجوں سے جہاں سرسوں کا تیل حاصل کیا جاتا ہے وہیں اِن کے براہ راست استعمال سے صحت پر بے شمار فوائد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں، رائی کے دانے صحت کے لیے نہایت مفید ہیں۔

غذائی ماہرین کے مطابق رائی دانے میں جُز ’ گلوکوسینولیٹ‘ (glucosinolate) پایا جاتا ہے جو کہ رائی کو منفرد ذائقہ دیتا ہے، رائی دانے میں موجود مرکبات انسانی جسم بالخصوص بڑی آنت میں سرطانی خلیوں سے بچاؤ ممکن بناتے ہیں، رائی کے بیجوں میں فائبر کم اور کاربوہائیڈریٹس زیادہ پائے جاتے ہیں۔

غذائی ماہرین کے مطابق رائی دانے میں صحت کے لیے بنیادی جز سمجھے جانے والے فیٹی ایسڈز بھی پائے جاتے ہیں، اس میں اومیگا3، سیلینیم، مینگنیز، میگنیشیم، وٹامن B1، کیلشیم، پروٹین اور زِنک بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے۔

ماہرین کی جانب سے رائی دانے کو روزانہ کی بنیاد پر خوراک میں شامل کرنا اور اس سے مستفید ہونا تجویز کیا جاتا ہے۔رائی دانے کے روزانہ کی بنیاد پر حاصل ہونے والے بے شمار طبی فوائد اور رونما ہونے والی جسمانی تبدیلیاں مندرجہ ذیل ہیں۔

بہتر نظام ہاضمہ

ہاضمے کی بہتر کارکردگی کے لیے رائی دانہ بہترین سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ انسانی جسم میں میٹابولزم کے عمل کو مضبوط بناتے ہیں اور ہاضمے کے مسائل کو کم کرتے ہیں، اس کے نتیجے میں انسان کا جسمانی وزن کم ہوتا ہےخصوصاً باہر نکلا پیٹ اندر جانے لگتا ہے۔

جوڑوں کے درد کا علاج

کیلشیم اور میگنیشیم سے بھرپور ہونے کے سبب یہ عمر بڑھنے کے ساتھ خواتین کو ہڈیوں سے متعلق مسائل سے محفوظ رکھتے ہیں، چہرے سے جھریوں کا خاتمہ کرتے ہیں۔کمر کے درد یا پٹھوں کی اکڑن کے مسئلے سے دوچار فراد رائی کے دانے چبا لیں، اس سے درد میں کمی آئے گی اور پٹھوں کی سختی اور سوجن کم ہوگی۔

کینسر سے نجات

رائی دانوں کے اندر ایسے انزائمز enzymes پائے جاتے ہیں جو بڑی آنت کے سرطان کا خاتمہ کرتے ہیں، یہ سرطانی خلیوں کو بڑھنے اور پیدا ہونے سے روکنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سوزش اور انفیکشن کا علاج رائی دانوں میں سیلینیم ہوتا ہے، جو دمے کے حملوں اور جوڑوں کے گٹھیا کے درد کی شدت کو کم کر دیتا ہے۔

رائی دانے سوزشوں بالخصوص چنبل کے نتیجے میں ہونے والے زخموں اور انفیکشنز کا مقابلہ کرنے کی بھرپورصلاحیت رکھتے ہیں۔

بلڈ پریشر کے مسائل میں معاون

رائی دانے میں موجود میگنیشیم فشار خون کو کم کرتا ہے اور یہ آدھے سر کے درد کی شدت میں بھی کمی لاتا ہے۔

وائرل انفیکشن، الرجی میں افاقہ

رائی دانوں کی یہ خاصیت ہے کہ یہ نزلے کی شدت کو کم کرتے ہیں اور سانس کی نالی میں تنگی سے نجات حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

اگر کسی کو مٹی سے الرجی کے سبب سانس لینے میں دشواری پیش آتی ہے تو وہ رائی کے بیج چبالے، افاقہ ہوگا۔

برطانیہ کے پہلے انڈین رکن پارلیمان جن کے لیے قائد اعظم نے بھی مہم چلائی تھی

برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے حال میں ایشیائی نسل کے ساجد جاوید کو ملک کا نیا وزیر صحت مقرر کیا ہے۔ وہ برطانوی کابینہ میں ایشیائی نسل کے تیسرے وزیر ہیں۔ یہ برطانیہ کے سیاسی اور انتخابی نظام میں ایشیائی نژاد آبادی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی علامت ہے۔برطانیہ میں ایک طویل عرصے سے انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیشی نژاد برطانوی شہری انتخابی سیاست میں حصہ لیتے آئے ہیں لیکن کم لوگوں کو اس کا علم ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں سب سے پہلے منتخب ہونے والے ایشیائی نژاد، ممبئی کے دادا بھائی نوروجی تھے جو سوا سو برس قبل 1892 میں لندن کے ایک اہم حلقے سے منتخب ہو کر پارلیمنٹ پہنچے تھے۔

دادا بھائی نوروجی ممبئی کے ایک نسبتًا غریب پارسی گجراتی خاندان میں 4 ستمبر 1825 میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے تعلیم ایلفنسٹن انسٹی ٹیوٹ سکول میں حاصل کی۔ وہ 28 برس کی عمر میں برطانیہ کے زیر انتظام چلنے والے ممبئی کے ایلفنسٹن کالج کے پہلے انڈین پروفیسر مقرر ہوئے جہاں وہ ریاضی اور فزکس پڑھاتے تھے۔انھوں نے بڑودہ کے مہاراجہ کے دیوان کے طور پر بھی کچھ عرصے تک کام کیا تھا۔ وہ ایک ترقی پسند قوم پرست تھے ۔وہ انڈیا کی سب سے پرانی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے بانیوں میں تھے ۔انھیں انڈیا کی آزادی کی جد وجہد کے ابتدائی اہم ترین رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔

1855 میں پہلی بار برطانیہ گئے
مورخ دینیار پٹیل لکھتے ہیں کہ ’برطانیہ میں وہاں کی دولت اور خوشحالی کو دیکھ کر ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس کے بعد وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے رہے کہ آخر ان کا ملک اتنا افلاس زدہ کیوں ہے۔‘
’انھوں نے دوعشرے تک ملک کی معیشت کا گہرا مطالعہ کیا اور سامراجی برطانیہ کے اس نظریے کو مسترد کر دیا کہ نوآبادیاتی نظام عوام کے لیے خوشحالی کا ضامن ہے۔‘دادا بھائی نے ’پاورٹی اینڈ ان برٹش رول ان انڈیا‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ کس طرح انڈیا کی دولت رفتہ رفتہ برطانیہ منتقل ہورہی ہے ۔ اس میں انھوں نے انڈیا میں ہونے والی پیداوار اور منافع کا مفصل حساب پیش کیا تھا۔


انھوں نے تخمینہ لگایا تھا کہ برطانیہ ہر برس تین سے چار کروڑ پاؤنڈ مالیت کی دولت انڈیا سے اپنے یہاں منتقل کر رہا ہے جس سے انڈیا میں بڑے پیمانے پر غربت پھیل رہی ہے۔انسائکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق ’اس وقت انڈیا کی 25 کروڑ کی آبادی برطانوی سامراج کی آبادی کا اسی فیصد تھی لیکن برطانوی پارلیمان میں ان کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔ دادا بھائی دوبارہ برطانیہ آئے۔ انھوں نے برطانوی سامراج کے ایک شہری کے طور پر کئی بار انتخاب لڑا اور شکست ہوئی۔ انہیں ان انتخابات میں شدید نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔‘
1886 میں وہ کنزرویٹیو پارٹی کے مضبوط گڑھ ہوبرن سے لبرل پارٹی کے امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے اور پھر ہار گئے۔ اس وقت وزیر اعظم لارڈ سیلس بیری نے کہا ’انگریزوں کا حلقہ ایک سیاہ فام شخص کو منتخب کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘

دادا بھائی نے ہار نہیں مانی۔ وہ ہاؤس آف کامنز یعنی ایوان نمائندگان کے 1892 کےانتخابات میں دوبارہ کھڑے ہوئے۔ اس بار وہ جیت گئے ۔ ان کی جیت صرف پانچ ووٹوں سے ہوئی تھی۔انجیل پر ہاتھ رکھ کر حلف لینے سے انکار کر دیاcیہ وہ برس تھا جب پاکستان کے مستقبل کے قائد اعظم محمد علی جناح تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ پہنچے تھے۔ ایک نوجوان سٹوڈنٹ کے طور پر انھوں نے انڈین اور انڈیا سے متعلق معاملات میں گہری دلچسپی لینی شروع کی تھی۔
انھوں نے دادا بھائی نوروجی کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ 1892 کے انتخابات میں دادا بھائی جب امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے تو نوجوان طالب علم محمد علی جناح نے اپنے دوسرے طالب علم ساتھیوں کے ساتھ ان کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان کی انتخابی کامیابی کے لیے دن رات کام کیا۔
بالآخر اس بار دادا بھائی کو انتخاب میں کامیابی حاصل ہوئی اور وہ برطانیہ کی تاریخ میں سب سے پہلے منتخب ہونے والے ایشیائی رکن پارلیمان بنے۔
برطانیہ کی پارلیمنٹ میں حلف برداری کی تقریب میں انھوں نے عیسائیوں کی مذہبی کتاب انجیل پر ہاتھ رکھ کر حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد انھیں ان کے پارسی مذہب کی کتاب خوردہ اویستا پر حلف لینے کی اجازت دی گئی تھی۔
فنس بری کے ٹاؤن ہال میں ایک تختی لگی ہوئی ہے جس میں انھیں ہاؤس آف کامنس میں منتخب ہونے والے پہلے ایشائی کے طور پر یاد کیا گیا ہے۔
ایک نوآبادیاتی شہری کھلے عام برطانوی سامراج پر سنگین الزام لگانے کی جرات کیسے کر سکتا ہے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...