
جا رہے تھے تاہم ان تمام خبروں کی حقیقت سامنے آگئی ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ یہ سب خبریں بالکل جھوٹی ہیں لہذاعوام ایسی خبروں پر کان نہ دھریں ۔
جا رہے تھے تاہم ان تمام خبروں کی حقیقت سامنے آگئی ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ یہ سب خبریں بالکل جھوٹی ہیں لہذاعوام ایسی خبروں پر کان نہ دھریں ۔
اردو دنیا نیوز۷۲ نئی دہلی
آج کے دور میں سوشل میڈیا بہت بڑی طاقت اور ذریعہ بن گیا ہے ،اپنی بات کو دنیا تک پہچانے کا ایک آسان راستہ۔ ۔اس کا دارومدار آپ پر ہے کہ اس کا استعمال کیسا ہوتا ہے۔ منفی یا مثبت۔ آپ اس کے استعمال سے کوئی غلط فہمی دور بھی کرسکتے ہیں اور پیدا بھی کرسکتے ہیں ۔اپنی بات اور آواز دنیا میں پھیلانے کا سب سے مقبول پپلٹ فارم ہے۔ جس کو اب پیغمبر اسلام کے یوم ولادت یعنی میلاد النبی کے موقع پر ان کی تعلیمات سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
اسی کے پیش نظر رسول اللہﷺ کی تعلیمات اور سیرت طیبہ کو عام کرنے کے غرض سے سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے ”نبی رحمت ؐ“ کے نام سے ٹیوٹر پر ٹرینڈ رکھا جا رہا ہے۔ ٹرینڈ کیلئے 11؍ ربیع الاول مطابق 18؍ اکتوبر بروز پیر شام سات بجے کا وقت طے کیا گیا ہے۔
در اصل ماہ ربیع الاول اسلامی مہینوں میں اس اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں حضرت محمد رسول اللہﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی، جو ساری کائنات کیلئے رحمت بنا کر بھیجے گئے اور جن کے تشریف لانے سے سسکتی بلکتی انسانیت کو نئی زندگی ملی۔
اس کا اعلان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کیا ہے۔ بورڈ کے سکریٹری مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی نے کہا ہے کہ کہ نبیٔ رحمت ؐ کی بعثت سے قبل پوری دنیا ظلمت کدہ بن چکی تھی، ہر طرف قتل وغارت گری، لوٹ مار، ظلم و ستم کا دور دورہ تھا، لڑکیوں کی پیدائش کو معیوب سمجھا جاتا تھا اور انہیں پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا، انسان انسانیت کی سطح سے نیچے گرچکا تھا۔
ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہﷺ کو سارے عالم کیلئے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا۔ آپ ؐ کی تشریف آوری یقیناً پوری انسانیت کے لئے باعث رحمت تھی۔ آپ کی آمد سے ایک طرف جہاں معبودان باطل منہ کے بل گر پڑے اور توحید و رسالت کا پرچم بلند ہوا تو وہیں دوسری طرف ظلم وستم کے بادل چھٹ گئے اور عدل وانصاف کا نظام قائم ہوا۔ آپ ؐ نے انسانوں کو انسانیت کا درس دیا، اپنی تعلیمات سے لوگوں کو جینے کی راہ دکھائی، دنیا کو امن و امان اور اطمینان و سکون کا پیغام دیا۔
مولانا نے فرمایا کہ آپ ؐ نے زندگی کے ہر گوشے میں رہبری فرمائی اور سب کو برابری کا درجہ دیا۔ آپ نے بتایا کہ سارے انسان آپس میں برابر ہیں، کسی گورے کو کالے پر، مالدار کو غریب پر، عربی کو عجمی پر، آقا کو غلام پر اور بادشاہ کو عامی پر ہرگز فوقیت حاصل نہیں، نگاہ خداوندی میں وہی شخص محترم ومکرم ہے جو اس سے ڈرتا ہے اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتا ہے۔
مولانا رحمانی نے فرمایا کہ آپ ؐ کو اللہ تعالیٰ نے نسلِ انسانی کے لیے بہترین نمونہ بنایا ہے۔ آپ ؐ کا طور طریقہ فطرت اور عقل کے عین مطابق ہے۔ محسن انسانیتؐ کے معمولات زندگی تاقیامت شعار و معیار ہیں۔ پوری انسانیت کیلئے صبح قیامت تک نبی کریمؐ کی سنت و شریعت ہی مشعلِ راہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیرت النبیؐ کا ہر گوشہ تابناک اور ہر پہلو روشن ہے۔ آپ کی مبارک زندگی کا ایک ایک حصہ یومِ ولادت سے لے کر روزِ رحلت تک احادیث شریفہ اور روایات کے ذریعے محفوظ کردیا گیا ہے تاکہ اس سے رہنمائی حاصل کی جاسکے۔
وقت سے پہلے ان شاء اللہ بورڈ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے ہیش ٹیگ کا اعلان کیا جائے گا اور بورڈ کے آفیشل ٹیوٹر ہینڈل سے ٹیوٹ کیا جائے گا۔
مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی نے تمام برادران اسلام بالخصوص ملی و سماجی تنظیموں کے ذمہ داران، سوشل ایکٹیوسٹ اور نوجوانان ملت سے اپیل کی کہ وہ اس ”نبی رحمت ؐ ٹیوٹر ٹرینڈ“ میں بھرپور حصہ لیکر محبت رسولﷺ کا ثبوت دیں۔اس آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے آفیشیل ٹیوٹر لنک( https://twitter.com/AIMPLB_Official) کو فولیا کیا جاسکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں چند افراد ایک لڑکی کا برقعہ اور حجاب اترواتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جب اس کی پڑتال کی گئی تو انکشاف ہوا کہ ویڈیو میں برقعہ اور حجاب میں دکھ رہی لڑکی غیر مسلم ہے۔
ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کے اسلام نگر میں ایک لڑکی کو نقاب پہنے ہوئے چند مسلمانوں نے روکا۔ جب اس سے پوچھ تاچھ کی گئی تو معلوم ہوا کہ لڑکی اور اس کے ساتھ موجود لڑکا دونوں غیر مسلم ہیں اور اپنی شناخت چھپانے کے لیے لڑکی نے برقعہ اور حجاب پہن رکھا تھا۔
بھوپال کے اسلام نگر میں اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کا انکشاف ہوا جب ایک غیر مسلم لڑکے کو اس کی غیر مسلم لڑکی دوست کو برقعہ اور حجاب کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔
مقامی لوگوں نے لڑکی کو برقعہ اور حجاب اتارنے کے لیے کہا کہ اس سے ان کے مذہب اسلام کی بدنامی ہوگی۔
تفصیلات کے مطابق مدھیہ پردیش کا دارالحکومت بھوپال تاریخی شہر ہے اور اس کے تاریخی ہونے کی وجہ سے یہاں پر نوابوں کی بنائی کی عمارتیں ہیں جہاں لوگ سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں۔
انہی تفریح گاہوں پر ایک ایک جوڑے کو اسلام نگر کے کچھ مسلمانوں نے شک کی بنیاد پر پکڑا تو معلوم ہوا کہ لڑکا اور لڑکی دونوں غیر مسلم ہیں اور لڑکی نقاب پہن کر لڑکے کے ساتھ گھوم رہی ہے جس پر اسلام نگر کے کچھ مسلمانوں نے اعتراض کیا اور اس غیر مسلم لڑکی اور لڑکے پر مسلم قوم کو بد نام کرنے کا الزام لگاتے ہوئے لڑکی کا نقاب اتروا دیا۔
ذرائع کے مطابق لڑکا اور لڑکی دونوں غیر مسلم ہیں اور یہ دونوں یہاں اسلام نگر میں گھومنے کی غرض سے آئے تھے۔ اس دوران لڑکی نے اپنی شناخت چھپانے کے لیے برقعہ اور حجاب پہن رکھا تھا جس پر وہاں کے مقامی مسلم افراد اعتراض کیا۔
’پیٹرول 137 کا ہو گیا۔۔۔‘ آج یقیناً آپ کو اکثر افراد یہ جملہ کہتے دکھائی دیں گے۔ یہ جملہ سوال بھی ہو سکتا اور غم کا اظہار بھی۔
اس اضافے کا اصل غم اس وقت مزید بڑھ سکتا ہے جب بیچ سڑک آپ کی بائیک رک جاتی ہے اور ’ریزرو‘ کا سوئچ آن کرنا پڑتا ہے۔ یا آپ کی گاڑی کی ریزرو کی لائٹ آن ہونے لگتی ہے۔پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں گذشتہ کئی ہفتوں سے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور سنیچر کو ہونے والے بڑے اضافے کے بارے میں سوچ سوچ کر ہی اکثر افراد کو خول اٹھ رہے ہیں۔اب گاڑیاں چلانے والے پیٹرول اور ڈیزل بھرواتے وقت اپنی جیبوں کو بھی دیکھتے ہیں اور مہنگائی میں مزید اضافے کا امکان پورے مہینے کے بجٹ کو خراب کرنے کے لیے کافی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اب بھی صارفین کے لیے ’ریلیف‘ کا خیال رکھ رہی ہے۔
اگر حالیہ اضافے سے متعلق جاری ہونے والے اعلامیے پر غور کریں تو اس میں وزارت خزانہ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ‘حکومت نے عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی قیمتوں کے باعث پیدا ہونے والے دباؤ کا سامنا کیا اور صارفین کے لیے ‘زیادہ سے زیادہ ریلیف’ فراہم کرنے کی کوشش کی۔’پاکستان میں تیل کی مصنوعات میں اضافے اور اس کے نتیجے میں بڑھتی مہنگائی پر تو پاکستان میں سوشل میڈیا پر آئے روز ٹرینڈز بنتے ہیں اور صارفین اس حوالے سے اپنی رائے اور غصے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔لیکن اس حالیہ اضافے کا اثر آپ کو اس وقت سوشل میڈیا پر جاری اس بحث سے ہی نظر آ جائے گا۔ لیکن اس بحث میں کودنے سے پہلے ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر اضافے کی وجوہات کے علاوہ کیا اس اضافے میں پاکستان کی حکومت کی کارکردگی کا بھی کوئی عمل دخل ہے؟ اور اس کے عام آدمی پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
’مہنگائی اور افراط زر کی وجہ سے عام آدمی پر بوجھ کئی گنا بڑھ جاتا ہے‘
معاشی امور کے ماہر عابد قیوم سلہری نے بی بی سی کے اعظم خان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بات تو واضح ہے کہ گذشتہ برس کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے لیے تیل پیدا کرنے والے ممالک نے طلب کے مقابلے میں رسد کم کر دی ہے جس سے ان مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔‘ان کے مطابق ’آئندہ سردیوں میں صورتحال مزید خراب نظر آئے گی۔‘
ادھر معاشی امور کے ماہر ثاقب شیرانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت سبسڈی نہیں دے پا رہا ہے جس کی وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اثر براہ راست صارفین کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔‘ان کے مطابق ’پاکستان نے اگرچہ ان مصنوعات پر ٹیکسز کم عائد کر رکھے ہیں مگر عالمی سطح پر بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے یہ اثر صارفین تک منتقل کیا جا رہا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ پاکستان میں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بہت کم ہیں مگر مہنگائی اور افراط زر کی وجہ سے عام آدمی پر اس کا کئی گنا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔‘
غریب اور امیر کے لیے تیل کی قیمت علیحدہ علیحدہ بھی ہو سکتی ہیں؟
عابد قیوم سلہری کے مطابق یہ ممکن ہے کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ زیادہ آمدنی والے اور مہنگی گاڑیوں کے مالکان کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں زیادہ کر دی جائیں اور عام آدمی جیسے موٹر سائیکل، رکشے اور چھوٹی گاڑی والوں کے لیے سبسڈی کا اعلان کیا جائے۔ان کے مطابق ’حکومت کے لیے مہنگے داموں تیل خرید کر سستی قیمت پر دینے کا آپشن ناممکن ہو گا تو ایسے میں حکومت ایسے افراد کی ایک فہرست مرتب کر سکتی ہے اور گاڑیوں کی رجسٹریشن اور شناختی کارڈ نمبر سے عام آدمی کے اکاؤنٹ میں یہ سبسڈی ٹرانسفر کی جا سکتی ہے۔‘
’لینڈ کروزر اور موٹر سائیکل والے کے لیے یکساں قیمت پر پیٹرول کی فروخت تو معاشی انصاف نہیں ہو گا۔‘
کیا پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا موازنہ دیگر ممالک سے کرنا درست ہے؟
معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے حکومت کی جانب سے ملک میں پٹرول کی خاص کر خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم قیمت کے دعوے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسے ان ممالک میں مہنگائی سے موازنے کو غلط قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت یہ موازنہ صرف پیٹرول کی قیمت پر کیوں کر رہی ہے؟
’حکومت کو یہ موازنہ تمام روزمرہ استعمال کی چیزوں پر کرنا چاہیے تو پھر پتا چلے گا کہ پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی کیا بلند ترین سطح ہے اور اس کے مقابلے میں دوسرے ملک خاص کر خطے کے ملک پاکستان سے بہتر پوزیشن میں ہیں۔‘
انھوں نے کہا ’حکومت کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ اس وقت چینی اور گندم کی قیمت انڈیا اور بنگلہ دیش میں کس سطح پر ہے اور ہم اس وقت کس قدر مہنگی گندم اور چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔‘
ڈاکٹر اکرام نے کہا یہ موازنہ اس لیے بھی صحیح نہیں ہے کہ صرف پٹرول کی قیمت کو الگ سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ اسے بحیثیت مجموعی معیشت کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ضرورت کی چیزوں کی خریداری کا تعلق قوت خرید سے ہے۔ پاکستان میں قوت خرید کم ہوئی ہے جس کا تعلق ملک کی فی کس آمدن سے ہے۔ پاکستان کی فی کس آمدن کا موازنہ بنگلہ دیش اور انڈیا سے کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان اس لحاظ سے دونوں ممالک سے کتنا پیچھے ہے۔‘
’اب شادی اور عشق اپنے ہی شہر میں کیجیے، پیٹرول بہت مہنگا ہو چکا‘
پاکستان میں پیٹرولیم کی مصنوعات میں اضافے کے بعد سنیچر کی صبح سے ہی سوشل میڈیا اور خاص طور پر ٹوئٹر پر صارفین اس حوالے سے اظہار خیال کر رہے ہیں۔
مقامی ٹی وی چینل ہم سے وابستہ صحافی شفا یوسفزئی نے بڑھتی قیمتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ انھوں اپنی گاڑی میں پیٹرول ڈلوا کر اسے گھر کے اندر کھڑا کر دیا ہے۔
ایک صارف نے وزیر اعظم عمران خان کی ماضی کی حکومت کے خلاف ایک تقریر میں سے کچھ حصہ ویڈیو کی صورت شیئر کیا جس میں عمران خان کہہ رہے کہ ’جب حکمران کرپشن کرتا ہے، وہ آپ کے اوپر ٹیکس لگاتا ہے اس کی چوری کی قیمت ہم مہنگائی کے ذریعے ادا کرتے ہیں۔‘
اقصیٰ جمالی نے لکھا کہ ’آہستہ آہستہ یہ قیمت ہزار روپے فی لیٹر تک پہنچ جائے گی۔‘ایک صارف نے پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے پیش نظر یہ مشورہ دیا ہے کہ ’اب شادی اور عشق اپنے ہی شہر میں کیجیے، پیٹرول بہت مہنگا ہو چکا ہے۔‘’ان پاپولر‘ نامی صارف نے عمران خان کی تقریر کا صرف ایک جملہ شیئر کیا جس میں انھوں نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں ان کو رلاؤں گا۔‘
سعودی عرب میں آج سے کورونا قواعد میں نرمی
دہلی میں چرچ کی زمین جعلی کاغذات پر فروخت اصل ملزم یوپی سے گرفتار
دہلی پولیس کے اقتصادی کرائم برانچ کے ایڈیشنل کمشنر آف پولیس آر کے سنگھ نے ہفتے کے روز بتایا کہ شورل بوبی داس کو اتر پردیش کے باندا ضلع سے گرفتار کیا گیا ہے۔ اس پردارالحکومت کے پوش سول لائنز علاقے میں 24 ، راج پور روڈ پر 1.27 ایکڑ چرچ اراضی جعلی پاور آف اٹارنی (جی پی اے) کی بنیاد پر فروخت کرنے کا الزام ہے۔ اس سے قبل 16 مئی 2011 کو شریک ملزم جان آگسٹین کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ شورل تب سے فرار تھا اور پولیس اسے تلاش کررہی تھی۔
مسٹر سنگھ نے کہا کہ اقتصادی کرائم برانچ کے اے سی پی ناگن کوشک کی نگرانی میں سب انسپکٹر آنند پرکاش اور سنجے کمار کی ٹیم نے 14 اکتوبر کو باندا سے ملزم شورل کو گرفتار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ویمنس کرسچن ٹمپیرنس آف انڈیا کی صدر سولوچنا پرکاش کی شکایت پر 14 جولائی 2007 کو شمالی دہلی ضلع کے سول لائن پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی گئی۔ تعزیرات ہند کی دفعات 420،467، 468،471 اور 120- بی کے تحت درج مقدمہ بعد میں اقتصادی کرائم برانچ کو منتقل کر دیا گیا۔
مسٹر سنگھ نے کہا کہ شریک ملزم جان پر چرچ کی قیمتی زمین کی خرید و فروخت کا حق ہونے کے جھوٹے دعوے کرنے کا الزام ہے۔ اس نے 6 اپریل 2005 کو جی پی اے کے ذریعے شورل کو زمین فروخت کر دی۔ شورل نے رواں سال 29 جولائی کو رمیش اگروال نامی شخص کو زمین فروخت کی تھی۔ رمیش نے اسے 11 نومبر کو سنیل کمار نامی شخص کو فروخت کیا۔ بعد میں سنیل نے وہی زمین سنجے جین اور نینا جین اور دیگر کو فروخت کی۔
ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے! Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...