Powered By Blogger

پیر, نومبر 08, 2021

مجلس اتحاد المسلمین شاجاپور کا بڑھتا کارواں

مجلس اتحاد المسلمین شاجاپور کا بڑھتا کارواں

شاجاپور (ایم پی) 7 نومبر (پریس ریلیز) مدھیہ پردیش کے ضلع شاجاپور کی پنچایت کھوکھرا کے گاؤں اسلام نگر میں اتوار کو عبدالواحد پٹیل کی زیر صدارت مجلس اتحاد المسلمین کے مقامی یونٹ کی میٹنگ منعقد ہوئی۔
میٹنگ میں بتایا گیا کہ کالا پیپل تحصیل کے اندر مجلس اتحاد المسلمین کے کارکنان دل و جان سے محنت کر رہے ہیں۔ گھر گھر، گاؤں گاؤں جا رہے ہیں اور عوام کو اپنے حق اور انصاف سے آگاہ کر کے پارٹی سے جوڑ رہے ہیں۔
کالا پیپل اسمبلی حلقے کے کارکنان نے بتایا کہ آئندہ الیکشن میں اگر مجلس اتحادالمسلمین الیکشن لڑتی ہے تو اس کے امیدوار کی جیت یقینی ہے۔ ان شاء اللہ
میٹنگ میں کھوکھرا کلاں سے شہزاد قریشی، حاجی جاوید، نفیس انصاری، اسلم خان، شریف علی، ماجد بیگ۔ گالبی سے انصار خان، عبدالواحد پٹیل، عبدالجبار بھائی اور آس پاس کے تمام ذمے داران نے شرکت کی۔


دارالعلوم دیوبند نےاٹھایا اہم قدم ، اسمبلی الیکشن تک کیمپس میں سیاستدانوں کے داخلے پرپابندی

دارالعلوم دیوبند نےاٹھایا اہم قدم ، اسمبلی الیکشن تک کیمپس میں سیاستدانوں کے داخلے پرپابندیدارالعلوم دیوبند نے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے اسمبلی الیکشن تک اپنے کیمپس میں سیاستدانوں کےداخلے پرپابندی لگادی ہے۔تاکہ تعلیمی ادارے کاتقدس برقرار رَہے۔ اس فیصلہ کا مقصددارالعلوم دیوبندکا نام سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیے جانے کے امکان کو رد کرناہے۔ حالانکہ دارالعلوم کے احاطے میں کسی کے آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی، لیکن انتظامیہ کی طرف سے کوئی بھی ان سیاستدانوں سے ملاقات نہیں کرسکےگا۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں بھی دارالعلوم دیوبند نے یہی مؤقف اختیارکیاتھا۔

کیا اپنی پالیسی پر عمل کرنا جرم ہے ؟ مہتمم ابوالقاسم نعمانی کے وضاحتی بیان آجانے کے بعد کوئی فتین اور شرانگیز ہی غلط تبصرہ کرسکتاہے ! انوار الحق قاسمی ناظم نشر و اشاعت جمعیة علماء ضلع روتہٹ نیپال

کیا اپنی پالیسی پر عمل کرنا جرم ہے ؟ مہتمم ابوالقاسم نعمانی کے وضاحتی بیان آجانے کے بعد کوئی فتین اور شرانگیز ہی غلط تبصرہ کرسکتاہے ! انوار الحق قاسمی ناظم نشر و اشاعت جمعیة علماء ضلع روتہٹ نیپال

چوں کہ یہ دور' اتر پردیش الیکشن' کی تیاری کا چل رہا ہے۔اس موقع سے تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران سیاسی دورے پر ہیں۔ہرایک کا کہیں نہ کہیں اتر پردیش کے عوام کے مابین خطاب ہورہاہے اور ہر ایک اپنی جیت کے لیے لوگوں کو اپنی طرف مائل کررہے ہیں۔

چند دنوں قبل ایم آئی ایم کے صدر ،ایم پی اسدالدین اویسی بھی اتر پردیش انتخاب کے پیش نظر سہارنپور،مظفر نگر کے سیاسی دورے پر تھے اور ان کا بھی دونوں جگہ عوام کے مابین سیاسی خطاب ہوا۔چوں کہ ضلع "سہارنپور'ہی میں 'دیوبند' واقع ہے اور یہیں ایشیا کا عظیم علمی ادارہ 'دارالعلوم'بھی ہے؛اس لیے مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر اسد الدین اویسی کی خواہش ہوئی کہ دارالعلوم دیوبند کے قرب و جوار میں پہنچ کر،دارالعلوم کی زیارت نہ کرنا،میرے لیے باعثِ حرماں نصیبی ہے؛اس لیے انہوں نے پانچ افراد پر مشتمل ایک وفد دارالعلوم بھیجا،جس میں اسدالدین کے ایک نمائندہ "مہتاب چوہان صدر مغربی یوپی مجلس اتحاد المسلمین'بھی تھے۔

یہ وفد دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابو القاسم نعمانی کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا،اور مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر،بیرسٹر اسدالدین اویسی کی دارالعلوم آمد کے سلسلے میں گفتگو کیا اور اویسی کو دارالعلوم بلائے جانے کی درخواست کی؛مگر دارالعلوم دیوبند کے مہتمم وشیخ الحدیث مفتی ابو القاسم نعمانی نے کہا: کہ ابھی اتر پردیش الیکشن کو لے کر سیاسی سرگرمیاں زور وشور پر ہے،ہر پارٹی کے لیڈران ان دنوں اپنے پرچار اور تشہیر میں مصروف ہیں،اور دارالعلوم کا یہ ضابطہ اور دستور ہے کہ یہاں انتخابی موسم میں سیاسی لیڈروں کو آنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے اور نہ ہی یہاں کے ذمہ داران ان سے ملتے ہیں؛اس لیے اس ضابطے کی روشنی میں،میں ابھی انہیں دارالعلوم آنے کی اجازت نہیں دیتا ہوں۔

بس اتنی سی بات پر سوشل میڈیا پر اس قدر ہنگامہ کہ دارالعلوم کے مہتمم مفتی ابو القاسم نعمانی نے مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر اسد الدین اویسی کو دارالعلوم آنے کی اجازت نہیں دی،اور بعض ناہنجاروں نے تو اپنی بات کو دارالعلوم کے مہتمم کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھا:کہ مفتی صاحب نے کہا :کہ ہم اویسی سے ملنا بھی گوارہ نہیں کرتے ہیں،یہ ایک محض جھوٹی بات ہے،جسے ان بد بختوں نے مہتمم صاحب کی جانب منسوب کیاہے، اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماچکے ہیں:کہ کاذبین پر اللہ کی لعنت ہے،جھوٹوں کے لیے اس سے بڑی وعید اور کیا ہوسکتی ہے؟

بعض قلم کاروں نے لکھا کہ عوام میں اب یہ بات بھی ہونے لگی ہے کہ مہتمم صاحب نے اسد الدین اویسی کو دارالعلوم آنے کی اجازت صرف اس لیے نہیں دی ہے،کہ اسدالدین اویسی کا تعلق بریلوی مکتب فکر سے ہے،اگر ان کا تعلق بریلوی مکتب فکر کے بجائے،دیوبندی مکتبہ فکر سے ہوتا،تو پھر مہتمم صاحب انہیں دارالعلوم دیوبند آنے کی اجازت ضرور دیتے؛بل کہ انہیں شوق سے دارالعلوم بلاتے۔

یہ بات مجھے اب تک سمجھ میں نہیں آرہی کہ اکثر لوگ ظاہری باتوں کے مقابلے میں ذہن میں مخفی اور پوشیدہ باتوں اور خیالوں کی طرف کیوں زیادہ دیکھتے ہیں؟مفتی صاحب نے تو بس اتنا ہی کہا ہے:کہ دارالعلوم دیوبند کا دستور ہے کہ دارالعلوم کے ذمہ داران انتخابی زمانے میں سیاسی لیڈروں کو یہاں آنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں،اس لیے میں انہیں فی الحال دارالعلوم آنے کی اجازت نہیں دیتاہوں۔

یہ مفتی صاحب کی ظاہری بات ہے،جس کی طرف دیکھتے ہوئے لوگوں کو یہ بات کہنی چاہئے تھی کہ مہتمم صاحب نے دارالعلوم کی پالیسی کے تحت فی الحال مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر اسد الدین اویسی کو دارالعلوم آنے کی اجازت نہیں دی ہے؛پھر جب انتخابی زمانہ ختم ہو جائے گا،اور اسدالدین اویسی کو دارالعلوم آنے کی خواہش ہوگی،تو مہتمم صاحب انہیں ضرور بلائیں گے اور ان کا پرزور استقبال بھی کریں گے۔

ان باتوں کے بجائے ان باتوں کی طرف ذہن منتقل کرنا( کہ مہتمم صاحب نے اسدالدین اویسی کو دارالعلوم آنے کی اجازت صرف اس لیے نہیں دی ہے کہ وہ بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں،اور اس لیے بھی کہ مہتمم صاحب کو اسد الدین اویسی پسند نہیں ہیں)جن کی طرف مفتی مہتمم صاحب کا (جہاں تک میرا خیال ہے)خیال بھی نہیں گیاہوگا،کا قائل ہونا،اور انہیں چرچے میں لانا انتہائی غلط بات ہے۔

"الحکم یدار علی الظاہر'لوگوں کو چاہیے کہ ظاہری باتوں کی طرف دیکھیں !اور ظاہری باتوں ہی کے پیش نظر اپنی رائے قائم کریں اور ہرگز ذہنی اور خیالی باتوں کی طرف اپنا ذہن منتقل نہ کریں ؛کیوں کہ کیا ضروری ہے کہ جن چیزوں کی طرف آپ کا ذہن گیاہے،ان کی طرف متکلم کا بھی ذہن گیاہو؟ہوسکتاہے کہ ان کی طرف متکلم کا معمولی بھی ذہن نہ گیا ہواور وہ چیزیں متکلم کے حاشیہ خیال میں بھی نہ آئی ہوں؛اس لیے ان سب چیزوں سے لوگوں کو بہت بچنے کی ضرورت ہے۔

اور کیاکسی ادارہ کے ذمہ داران کا اپنی پالیسی کے تحت آنے کی اجازت نہ دیناجرم ہے؟ اپنی پالیسی پر عمل کرنااور اس کے مطابق کسی کو آنے کی اجازت نہ دینا قطعی جرم نہیں ہے؛اس لیے لوگوں کو چاہئے کہ مہتمم صاحب کے حوالے سے بدگمان نہ ہوں،حسن ظن رکھیں!اسی میں بھلائی ہے۔

مہتمم صاحب نے تو اپنا وضاحتی بیان بھی دے دیا ہےکہ ہم نے اپنی پالیسی کے مطابق مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر اسد الدین اویسی کو دارالعلوم آنے کی اجازت نہیں دی ہے اور یہی بات ہم نے ان کے نمائندوں سے بھی کہا ہے،اس کے علاوہ اور کوئی دوسری بات نہیں ہوئی ہے۔اب اگر کوئی اپنی طرف سے کچھ کہہ رہا ہے،تو یہ ان کا ذاتی فعل ہے،اس میں میرا کیا قصور ہے؟

میرا خیال ہے کہ حضرت مہتمم صاحب کی طرف سے وضاحتی بیان آجانے کے بعد اب سوائے فتین اور شرانگیز کے کوئی بھی غلط تبصرہ نہیں کرسکتا ہے۔

یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر اسد الدین اویسی مسلمانوں کے ایک اچھے قائد ہیں،اور وہ مسلمانوں کی صحیح ترجمانی بھی کرتے ہیں،ان کی عزت اور حوصلہ افزائی ہر ایک مسلمان کو کرنی چاہئے۔میرا خیال ہے کہ یہ نوجوان قائد ،مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی اکثر مسلمانوں کے قلوب میں نمایاں خدمات کی وجہ سے اپنی جگہ بناچکے ہیں۔

ایسی بات نہیں ہے کہ مہتمم صاحب کو اسد الدین اویسی سے کوئی عناد اور دشمنی ہے،جس کی بنا مہتمم صاحب نے انہیں دارالعلوم آنے کی اجازت نہیں دی،بل کہ مہتمم صاحب کو بھی ان سے محبت ہےاور ان کی عظمت ان کے دل میں بھی ہے،مہتمم صاحب نے انہیں صرف اپنی پالیسی کی بنا منع کیا ہے۔

مہتمم صاحب اگر پالیسی کے خلاف عمل کرتے ہوئے اسد الدین اویسی کو دارالعلوم دیوبند آنے کی اجازت دیتے ،تو پھر آئندہ کےلیے یہ پالیسی کی مخالفت کا عمل مہتمم صاحب کے لیے باعث مصیبت ہوتا۔

کیوں کہ آئندہ جوں ہی دیگر سیاسی لیڈران کے سامنے پالیسی کی بات آتی،تو وہ فوراً کہہ دیتے کہ آپ کی پالیسی کیسی ہے ،جو صرف ہم لوگوں کے لیے ہے،یعنی غیر مسلم لیڈروں کےلیے،ابھی اسد الدین اویسی دارالعلوم آئے،تو کیوں آئے؟کیاان کے لیے یہ پالیسی نہیں تھی؟الغرض ہندو، مسلم کی بحث جاری ہوجاتی۔اس لیے مفتی صاحب نے جو کیا ہے،بہت ہی اچھا کیا ہے،پالیسی پر عمل کرنا یہ اچھی بات ہے۔

نوٹ بندی کا فیصلہ ، جس کے فائدے عوام کو آج تک سمجھ میں نہیں آئے ... سید خرم رضا

نوٹ بندی کا فیصلہ ، جس کے فائدے عوام کو آج تک سمجھ میں نہیں آئے ... سید خرم رضا

پانچ سال قبل جب وزیر اعظم مودی نے اپنے قوم سے خطاب میں یہ اعلان کیا کہ آج رات بارہ بجے سے پانچ سو اور ہزار روپے کے نوٹ کاغذ ہو جائیں گے۔ اس اعلان کے بعد ملک میں ایک افرا تفری کا عالم تھا، کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہوگا، خود حکمراں جماعت کے کئی رہنما اس فیصلے کی مخالفت کر رہے تھے اور ان کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا جبکہ کچھ نے اس کی تفصیلات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی کہ اس سے کالا دھن ختم ہو جائے گا، اس سے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ جائے گی اور نہ جانے کیا کیا فائدے گنوا دیئےمیں نے بھی گھبراہٹ میں دفتر سے اہلیہ کو فون کیا اور کہا کہ کوشش کرو کہ جو پیسے گھر میں ہیں اس کا کچھ سامان منگوا لو، لیکن پہلی مرتبہ پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے خوشی اور اطمینان کا احساس ہوا۔ بہر حال کرنسی بدلنے کے تعلق سے وضاحتیں آنی شروع ہو گئیں۔ پھر صبح ہوئی تو بینکوں کے باہر لمبی لمبی لائنیں نظر آنے لگیں۔ صحافی ہونے کی وجہ سے لوگ ہم سے زیادہ جاننا چاہتے تھے۔ کچھ دنوں بعد یہ خبریں گشت کرنے لگیں کہ کسی نے پانی میں اپنی ساری رقم بہا دی ہے، عورتوں کو مجبورا اپنے شوہر کو وہ بتانا پڑا جو وہ عام حالات میں نہیں بتاتی ہیں کہ ان کے پاس کتنی جمع پونجی ہے اور قطاروں میں کئی لوگوں کی موت واقع ہو گئی۔

اس کے ساتھ ایک بہت ہی عجیب فیصلہ سامنے آیا کہ حکومت دو ہزار روپے کا نوٹ لا رہی ہے، یہ بات اس لئے عجیب لگی کہ پانچ سو اور ہزار کے نوٹ کو ختم کرتے ہوئے یہ دلیل دی گئی تھی کہ اس سے بدعنوانی رک جائے گی لیکن ان کو ختم کر کے بڑی کرنسی کو شروع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بدعنوان افراد کے لئے اب کم جگہ میں زیادہ پیسہ رکھنے اور دینے کی سہولت مل گئی، ابھی تک ہم یہ سنتے رہے ہیں کہ بڑی کرنسی سے بدعنوانی کو فروغ ملتا ہے۔ لیکن اس تعلق سے ابھی تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔

کہا یہ گیا کہ دہشت گردی کی کمر ٹوٹ جائے گی جوکہ آج تک ٹوٹی نظر نہیں آئی۔ کیونکہ دہشت گرد ہمارے فوجیوں اور پولیس والوں کو اب بھی شہید کردیتے ہیں اور ان ظالموں کے ظلم میں کوئی کمی نظر نہیں آئی۔ زمین جائداد کی خریداری میں لوگ آج بھی نقد کا استعمال کر رہے ہیں اور ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اس میں سفید کرنسی صرف اتنی ہی ہو جتنی سرکاری طور پر لازمی ہے۔

کہا یہ جا رہا ہے کہ کیش لیس یعنی کارڈ وغیرہ سے خریداری میں اضافہ ہوا ہے جس سے شفافیت آ ئی ہے۔ کارڈ اور ڈیجیٹل طریقوں سے لین دین میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس میں نوٹ بندی کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اس میں اگر کوئی کردار ہے تو سماج کی ترقی، ٹیکنالوجی کی ترقی اور کورونا وبا۔ کورونا وبا کے دوران لوگوں نے جو گھر بیٹھ کر سامان منگوایا اور ان کو جن لوگوں نے رقم ٹرانسفر کی ہے اس سے ضرور ڈیجیٹل پیمنٹ کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔

نوٹ بندی کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا لیکن اس کے نقصانات بہت ہوئے ہیں۔ گھروں سے پیسہ غائب ہو گیا، چھوٹے کاروبار تباہ ہو گئے، قومی معیشت کو زبردست نقصان ہوا جو کہ جلد ابھرتی نظر نہیں آ رہی۔ یہ وہ فیصلہ تھا جس کے فائدہ عوام کو آج تک سمجھ میں نہیں آئے۔


شیر میسورحضرت ٹیپو سلطان شہیڈ اولین مجاہد آزادی اور مذہبی رواداری کے علمبردار تھے

شیر میسورحضرت ٹیپو سلطان شہیڈ اولین مجاہد آزادی اور مذہبی رواداری کے علمبردار تھےمرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام 'سلطان ٹیپوؒ ٹیوٹر مہم'کا اعلان، اہل وطن سے شرکت کی اپیل
بنگلور (پریس ریلیز) شیر میسور حضرت ٹیپو سلطان شہید رحمۃ اللہ علیہ برصغیر کے وہ اولین مجاہد آزادی اور شہید آزادی ہیں، جنہوں نے آزادی کی پہلی شمع جلائی اور حریت فکر، آزادی وطن اور دین اسلام کی فوقیت و فضیلت کے لیے اپنی جان نچھاور کردی تھی۔ حضرت ٹیپو سلطان شہید ؒنے حق و باطل کے درمیان واضح فرق و امتیاز قائم کیا اور پرچم آزادی کو ہمیشہ کے لیے بلند کیا تھا اور اسی پرچم کو بلند کرتے کرتے جام شہادت نوش فرمالی۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر محمد فرقان نے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ ایک نرم دل، عدل پرور، مساوات، مذہبی رواداری کے علمبردار اور مذہبی تعصب سے پاک بادشاہ تھے۔ وہ ایک ایماندار اور روشن خیال حکمراں تھے، جنہوں نے اپنے دورِ حکومت میں نہ صرف بین المذاہب رواداری کو باقی رکھا بلکہ اس کی جڑوں کو مستحکم کرتے ہوئے ہندوؤں کو اپنی فوج اور انتظامیہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز بھی کیا۔ اسکے علاوہ حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ نے اپنے دور حکومت میں جہاں مختلف مسجدیں بھی تعمیر کیں وہیں اپنے ہندو رعایا کو مندر قائم کرنے کیلئے اجازت دیں اور سہولیات فراہم کیں۔ محمد فرقان نے فرمایا کہ لیکن افسوس کہ ادھر چند سالوں سے کچھ فرقہ پرست عناصر حضرت کی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ان پر بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہیں۔ جس سے عموماً اہل وطن بالخصوص نوجوان نسل میں شک و شبہات پیدا ہونے کا خطرہ لاحق ہوتا جارہا ہے۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ کی اصل سیرت کو عام کرنے اور فرقہ پرست طاقتوں کو منھ توڑ جواب دینے کیلئے مرکز تحفظ اسلام ہند کی جانب سے'سلطان ٹیپوؒ'کے نام سے ٹیوٹر مہم چلائی جارہی ہے۔ ٹرینڈ کیلئے 10 / نومبر 2021ء بروز بدھ شام 6:00 بجے کا وقت طے کیا گیا ہے۔وقت سے پہلے ان شاء اللہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے ہیش ٹیگ کا اعلان کیا جائے گا اور مرکز کے آفیشل ٹیوٹر ہینڈل سے ٹیوٹ بھی کیا جائے گا۔ مرکز کے ڈائریکٹر محمد فرقان نے تمام اہل وطن بالخصوص برادران اسلام سے اپیل کی کہ وہ اس 'سلطان ٹیپوؒ ٹیوٹر ٹرینڈ' میں بھرپور حصہ لیں اور حضرت کی سیرت کو عام کریں۔ مندرجہ ذیل لنک کے ذریعے مرکز کے آفیشیل ٹیوٹر ہینڈل کو فالوو کرسکتے

یوپی الیکشن 2022 : بی جے پی کو 400 سیٹوں پرشکست کاسامناکرناپڑےگا ، اکھلیش یادوکادعویٰ

یوپی الیکشن 2022 : بی جے پی کو 400 سیٹوں پرشکست کاسامناکرناپڑےگا ، اکھلیش یادوکادعویٰامبیڈکر نگر(ایجنسی) سماجوادی پارٹی سربراہ اکھلیش یادو نے کہا کہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں نئی تاریخ لکھی جائے گی اور بی جے پی کو 400 سیٹوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھانو متی اسمارک پی جی کالج میں منعقد جنادیش مہا ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اکھلیش نے کہا کہ عوام میں بی جے پی کے سلسلے میں کافی ناراضگی ہے۔ بی جے پی کا صفایا یقینی ہے۔ انتخابات میں پچھڑوں کا انقلاب ہوگا۔ اور سال 2022 میں بڑی تبدیلی دستک دے گی۔ تبدیلی کا پیغام پورے ملک میں جارہا ہے۔ عوام 400 سیٹو ں پر بی جے پی کو شکست سے دو چار کریں گے۔ اس موقع پر بی ایس پی کے سینئر لیڈر و سابق وزیر لال جی ورما اور اچل راج بھر نے سماج وادی پارٹی کی رکنیت حاصل کی۔ اکھلیش نے ایس پی حکومت میں مہنگائی سے عوام کو نجات دلانے اور بنکروں۔غریبوں کی بجلی شرحوں میں راحت دلانے کا تیقن دیا۔ بنکروں کو فلیٹ ریٹ پر بجلی ملے گی۔ پرانی پنشن بحال کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اور ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے نظریات پر چلنے سے ہی مساوی سماج کی تعمیر کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے ملک کی سیاست میں تبدیلی لانے کی کوشش کی تھی۔ آج ذات، مذہب میں تقسیم کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہمیں جمہوریت اور آئین کو بچانے کی جدوجہد کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سماج وادی پارٹی کو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت مل رہی ہے۔ بی جے پی جہاں انتخاب ہاری ہے وہاں قیمتوں میں کمی آئی ہے۔ بی جے پی اترپردیش میں شکست سے دوچار ہوگی تو یہاں بھی مہنگائی کم ہوجائے گی۔ سابق وزیر اعلی نے کہا کہ بی جے پی حکومت نے سماج کے سبھی طبقات کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ کسانوں کو برباد کیا ہے۔ بی جے پی کی تین انجن کی حکومت یعنی مرکزی حکومت، ریاستی حکومت اور لکھیم پور کھیری کے وزیر سبھی نے کسانوں کو کچلنے کا کام کیا ہے۔ کسان کی آمدنی دو گنی نہیں ہوئی۔ انسانی حقوق کمیشن نے پولیس حراست میں ہوئی اموات پر سب سے زیادہ نوٹس اترپردیش حکومت کو دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حکومت نے غریبوں سے ووٹ لیا۔ امیروں سے نوٹ لیا اور سرکاری ملکیت کو فروخت کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ غریبوں کے مفاد میں سماجوادی پارٹی کی جتنی اچھی اسکیمات تھیں وہ سب بی جے پی حکومت نے بند کردی ہیں۔ لال سلنڈر تقسیم کرنے والوں نے اس کی قیمت آسمان تک چڑھا دی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مہنگائی کم کرنے کے لئے بی جے پی حکومت سلنڈر کا نام اور رنگ تبدیل کردے۔ پٹرول 100 روپئے کو عبور کرچکا ہے۔ اس حکومت میں بجلی کے بل کا کرنٹ غریبوں کو لگ رہا ہے

اتوار, نومبر 07, 2021

ابو ظفر سراج الدین محمد شاہ ظفر کی 159 ویں یوم وفات کے موقع پر بہادر شاہ غازی ... بہادر

ابو ظفر سراج الدین محمد شاہ ظفر کی 159 ویں یوم وفات کے موقع پر بہادر شاہ غازی ... بہادر

آخری مغل بادشاہ ابوظفر سراج الدین محمد بہاد ر شاہ غازیؔ (ثانی) ہندوستان کے بیسویں اور آخری مغل شہنشاہ تھے، لیکن ان کے والد اکبر شاہ ثانی ممتاز محل کے فرزند کو اپنا جانشین بنانا چاہتے تھے مگر جب ولی عہد مرزا جہانگیر بخت نے ریزیڈنٹ پر حملہ کے باعث جلاو طنی کے عالم میں 18؍جولائی 1821ء کو آخری سانس لی، تب لعل بائی کے بطن سے پیدا بہادر شاہ ظفر کے لیے تخت شاہی کی راہ ہموار ہوگئی، 28؍ستمبر 1837ء کو وہ مغلیہ مسند پر متمکن ہوئے، لیکن وظیفہ خوار بادشاہ کو وراثت میں ایسی نام نہاد حکومت ملی جس کی طاقت اور دائرہ اختیار کمپنی کے کوتوال سے بھی کم تھی۔

بہادر شاہ ظفر ایک نرم دل، غریب پرور، شاعرا نہ اور صوفیانہ مزاج کے پیکر تھے، جنہوں نے مروجہ علوم کے علاوہ فنون حرب گھوڑ سواری، تلوار بازی، تیر اندازی اور آتشیں اسلحہ پر مکمل دسترس حاصل کی، خصوصاً وہ ایک بہترین نشانہ باز اور اعلیٰ گھوڑ سوار تھے، جن کا شمار اس عہد میں ہندوستان کے ڈھائی گھوڑ سواروں میں ہوتا تھا، ان کے بعد دوسرا نمبر مرزا جہانگیر بخت (بھائی) جبکہ آدھا نمبر پر مہاراشٹر کا گھوڑ سوار کا تھا۔

ہرعروجے را زوال است کے مماثل مغلیہ سلطنت بھی وقت کے پہیہ کے ساتھ آہستہ آہستہ اپنے زوال کی طرف گامزن تھی اسی اثنا میں یکایک میرٹھ سے قبل از وقت پہلی ملک گیر جنگ آزادی 10؍مئی1857ء کے شعلے بھڑ ک اٹھے۔ بغاوت کے علم بلند کرنے والے دیسی سپاہیوں نے درگاہ شاہ پیر صاحب پر روزہ افطار کرکے 11؍مئی کی صج جب دہلی کی دہلیز پر قدم رکھا، تب شہنشاہ ہند سراج الدین محمد بہاد رشاہ ظفر اس جھرونکھے میں تشریف فرما تھے جہاں کبھی مغل شہنشاہ شاہجہاں بیٹھ کر عوام سے روبرو ہوتے تھے۔ اچانک ان کی نظریں آسمان میں اٹھتے گرد وغبار کی طرف اٹھی تو انہوں نے رسالہ دار کو سوار بھیج کر ماجرہ جاننے کی کوشش کی، تو معلوم ہوا کہ میرٹھ کے باغی سپاہیوں کا لاؤ ولشکر ہے جو کمپنی بہادر سے بغاوت کرکے عالم پناہ کے حضور میں پیش ہونے کے لیے متمنی ہے۔

بہرکیف تقربیاً شام چار بجے سپاہیوں نے حضورِمعلی سے مل کر التجا کی کہ وہ ان کے سروں پر ہاتھ رکھیں اور انقلابی تحریک کی عنان سنبھالیں،جو اس پیرانہ سالی میں سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا مگر 82 ؍سالہ ضعیف العمر تاجدار ہند کچھ لیت ولعل کے بعد رضامند ہوگئے اور پھر پلٹ کر نہیں دیکھا۔ ان کی حکمت عملیوں نے باغی فوجیوں کے حوصلوں میں ایک نئی جان پھونک دی، چنانچہ دلّی میں جوق درجوق انقلابیوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا، جن میں سب سے اہم نام عظیم انقلابی بخت خاں کا ہے، موقع ومحل کے مدنظر بادشا ہ سلامت نے انگریزوں کے خلاف راجپوتانہ سمیت تمام ریاستوں کو تعاون کے لیے خطوط روانہ کیے، مگر ان کے خون اتنے سفید ہوچکے تھے کہ انہوں نے ان کا جواب دینا بھی گوارا نہ کیا۔

گنگا-جمی تہذیب کے علمبردار عالم پناہ کے حکم سے بخت خاں نے 9؍جولائی کو ڈھنڈورا پٹوایا کہ جو گائے ذبح کرے گا وہ توپ کے منھ سے اڑایا جائے گا۔ 19؍جولائی 1857ء کو بخت خان اور اس کے فوجیوں نے انگریزوں کے چھکے چھڑاتے ہوئے مغربی چوکیوں پر قبضہ کر لیا، مگر انگریز ہار کہاں ماننے والے تھے، انہوں نے اپنے نمک خواروں کے ذریعہ 7؍اگست کو انقلابیوں کے اسلحہ خانہ میں آگ لگ لگوادی جس میں کافی جانی نقصان ہوا، آخرکار جیون لعل، رجب علی، مرزا الہٰی بخش کی ٹولیوں اور غدار ہندوستانی ریاستوں کے فرماں رواؤں کی بدولت ایسٹ انڈیا کمپنی نے دلّی کی اینٹ سے اینٹ بجادی، دل برداشتہ بہادر شاہ ظفر نے قلعہ چھوڑ کر ہمایوں کے مقبرے میں جانے کا فیصلہ کیا، بخت خاں اپنے مورچہ پے ڈٹا ہوا تھا جیسے ہی اس نے سنا وہ ویسے ہی بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا، جہاں پناہ کو زمینی حقائق سے روبرو کرا کر اپنے ساتھ چلنے کی گزارش کی تو بادشاہ سلامت نے جواب دیا کہ ہم ہمایوں کے مقبرے جاتے ہیں، تم کل صبح وہاں آؤ۔

قابل ذکر امر ہے کہ قلعہ سے نکل کر بہادر شاہ ظفر سیدھے درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء پہنچے اور وہاں خواجہ شاہ غلام حسن سے ملاقات کی۔ پریشان حال شہنشاہ نے مختصر گفتگو کرنے کے بعد بتایا کہ جب تیمور نے قسطنطنیہ پر یلغار کی تھی تو اس نے وہاں کے سلطان با یزید یلدرم سے پیغمبر اکرم ﷺ کے خط کے بال حاصل کیے تھے، جو اب تک مغل بادشاہوں کے پاس محفوظ تھے لیکن اب میرے لیے آسمان کے نیچے یا زمین کے اوپر کوئی جگہ نہیں بچی، اس لیے میں یہ امانت آپ کے حوالے کر رہا ہوں تاکہ یہ محفوظ رہے۔

خواجہ شاہ غلام حسن نے وہ بال ان سے لے کر درگاہ کی تجوری میں رکھ دیئے، بھوک سے بے حال بادشاہ سلامت نے روکھی سوکھی روٹی کے چند لقمے نوش فرماکر ہمایوں کے مقبرے کی جانب رخ کیا۔ اگلے روز 21؍ستمبر 1857ء کو وعدے کے مطابق جنرل بخت خاں، ڈاکٹر وزیر خاں اور مولانا فیض احمد بدایونی بہادر شاہ ظفر سے ملے، مگر بادشاہ سلامت اپنے فریبی سمدھی مرزا الٰہی بخش کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکے تھے، دلّی کو چھوڑنے کو راضی نہ ہوئے، اس طرح انہوں نے خود انگریزوں کو دنیا کی تیسری بڑی طاقت مغلیہ سلطنت کے آخری حکمراں کی باقی ماندہ عظمت واحترام کو پیروں تلے روندنے کا موقع فراہم کر دیا۔ مایوس بخت خاں بادشاہ کو ان کے حال پہ چھوڑ کر اپنی فوج کے ساتھ مشرقی دروازے سے دریا کی طرف اتر گیا، مرزا الٰہی بخش نے فوراً اس کی خبر برٹش خیمہ کو پہنچائی تو ہڈسن آخری تاجدار ہند کو گرفتار کرنے کے لیے پہنچ گیا۔

بہادر شاہ ظفر، ز ینت محل اور شہزادے جواں بخت نے جان بخشی کے وعدے پرخود کو ہڈسن کے حوالے کر دیا، حراست کے دوران بہادر شاہ ظفر کو ہر لمحہ ذلت کے گھونٹ پینے کے علاوہ مختلف روحانی اور جسمانی اذیتیں جھیلنی پڑیں، مگر جب بے رحم ہڈسن نے مرزا مغل، مرزا خضرسلطان اور مرزا ابوبکر کو گولی مار کر ان کا سرتن سے جد ا کرکے بادشاہ کو بطور نذرانہ پیش کیا، تو ایک عمر رسیدہ مقید بادشاہ کی زبان سے برجستہ نکلا کہ ''تیموری نسل کے غیور شہزادے اپنے بڑوں کے سامنے اسی طرح سرخرو ہوتے ہیں۔'' اس طرح ایک لاچار و بے بس بادشاہ جیت گیا اور ہڈسن ہار گیا۔

27؍جنوری 1858ء کو صج 11؍بجے بہا در شاہ ظفر کے نمائشی مقدمہ کی سماعت ایک خود ساختہ ملٹری کمیشن نے شروع کی۔ پنجاب کمشنر لارنس کے حکم پر عدالت نے 2؍اپریل 1858ء کو جلاوطنی کی سزا سنائی۔ مورخہ 7؍کتوبر 1858ء بادشاہ سلامت، اہلیہ زینت محل، دو بیٹے مرزا جواں بخت اور مرزا شاہ عباس سمیت 35 ؍شاہی افراد کو بذریعہ بیل گاڑیوں دلّی سے کلکتہ روانہ کیا، مگر خوفزدہ فرنگیوں نے حفاظتی نقطہ نظر کے مدنظر انہیں اثنائے راہ ملک کی مختلف چھاؤنیوں میرٹھ و الٰہ آباد وغیرہ میں ٹھہرایا، میرٹھ کینٹ میں واقع ایک مسجد ان کے قیام کی گواہ تھی، 83 سالہ ناتواں بادشاہ سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے کلکتہ پہنچے۔ جنہیں 4؍دسمبر کو ہگلی کی ڈائمند بندر گاہ سے رنگون بھیجا گیا، چھ دن کی مسافت طے کرنے بعد ان کا مگویرا (Magoera) جہاز10 ؍دسمبر کو لنگر انداز ہوا، کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا منتظم تھا، اس نے بندرگاہ پر شہنشاہ اور ان کے خاندانی افراد کو اپنی تحویل میں لیا، جنہیں اس نے مختلف خیموں نیز ایک گیراج میں رکھنے کے بعد ساگون کی ایک عمارت میں منتقل کر دیا۔

ہندوستان کے آخری مغل حاکم بہادر شاہ ظفر کی صحت قید وبند کی زندگی سے مزید خراب ہوگئی۔ ان کا گلا فالج کا شکار ہوگیا، جہاں پناہ کو 6 ؍نومبر 1862ء کو فالج کا تیسرا دورہ پڑا اور 7 ؍نومبر کی صبح 5؍بجے 87 ؍سال کی عمر میں انہوں نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا، شہزادہ جوان بخت اور حافظ محمد ابراہیم دہلوی نے غسل دیا، سرکاری بنگلے کے پیچھے قبر کھودی گئی، ڈیوس کے مطابق ان کے جنازے میں تقریباً 100 ؍لوگ شامل تھے۔ شام 4 ؍بجے جسد خاکی کو سپرد خاک کر دیا گیا، تدفین کے بعد گور ہموار کردی گئی، جس کا علم 132 سال تک کسی کو نہیں ہوا۔ 1991ء میں ایک یادگاری ہال کا سنگ بنیاد رکھنے کی کھدائی کے دوران ایک زیر زمین قبر نکلی، نشانیوں اور باقیات سے تصدیق ہوئی کہ یہ سراج الدین بہادر شاہ ظفر کی آخری آرام گاہ ہے۔ 1994ء میں ان کے مقبرے کی تزئین وآرائش کی گئی۔ جس کی ہر اینٹ بہادر شاہ ظفر کی عظیم قربانی کو یاد کرتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ

کتنا بدنصیب ہے ظفر دفن کے لیے

دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں


اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...