Powered By Blogger

ہفتہ, نومبر 20, 2021

مصر میں شادی کا جشن ماتم میں تبدیل دلہن کا رخصتی کے چند گھنٹے بعد انتقال

مصر میں شادی کا جشن ماتم میں تبدیل دلہن کا رخصتی کے چند گھنٹے بعد انتقالقاہرہ : مصر میں المنیا گورنری میں ایک شادی کی تقریب ماتم میں تبدیل ہوئی۔ شادی کے دوران رخصتی کے چند گھنٹے بعد دلہن دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئی جس سے جشن ماتم میں تبدیل ہوگیا۔تفصیلات کے مطابق منیا گورنری کی سیکیورٹی سروسز کو ایک رپورٹ موصول ہوئی جس میں بتایا گیا تھا کہ المنیا کے وسط میں واقع گاؤں ریدا میں ایک خاتون اپنے گھر کے اندر دم توڑ گئی ہے۔فورسز نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر 20 سالہ خاتون جسے اپنی شادی کے چند گھنٹے بعد اچانک دل کا دورہ پڑا تھا کی موت کی تصدیق کی۔تحقیقات کے دوران دلہن کے والد نے تصدیق کی کہ ان کی بیٹی کسی پرانی بیماری یا کسی اور قسم کی بیماری میں مبتلا نہیں تھی اور وہ شادی سے پہلے اپنی معمول کی زندگی گذار رہی تھی۔

جمعہ, نومبر 19, 2021

زرعی قانون کو واپس لینے پر جے ایم ایم - کانگریس - آر جے ڈی کا ملا جلا ردعمل ، جے ایم ایم نے کہا ، تکبر کے سامنے جدوجہد کی جیت

زرعی قانون کو واپس لینے پر جے ایم ایم - کانگریس - آر جے ڈی کا ملا جلا ردعمل ، جے ایم ایم نے کہا ، تکبر کے سامنے جدوجہد کی جیت

رانچی: مودی حکومت کے لائے گئے تین زرعی قوانین کے خلاف ملک بھر کے کسان دہلی کی سرحد پر احتجاج کر رہے تھے۔ آخر کار ایک سال بعد مرکز کی مودی حکومت کسانوں کے سامنے جھک گئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ کو زراعت کے تینوں قوانین کو واپس لینے کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ہی جھارکھنڈ کی غیر بی جے پی سیاسی جماعتوں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تینوں قوانین کو واپس لینے کو بی جے پی کی شکست اور عوام کی جیت قرار دیا ہے۔

تکبر کے سامنے جدوجہد کی جیت : جے ایم ایم

حکمراں جھارکھنڈ مکتی مورچہ نے ٹویٹ کیا ہے کہ تکبر کے سامنے آج جدوجہد کی جیت ہوئی ہے۔ پورے ملک کے کسانوں کو سلام۔ تینوں کالے قوانین واپس کر دیے گئے۔

دستبرداری کا اعلان صرف انتخابی چال: کانگریس

کانگریس کے ورکنگ صدر بندھو ٹرکی نے کہا کہ تین کسان مخالف زرعی قوانین کو واپس لینے کے اعلان کو انتخابی چال قرار دیا گیا ہے۔ اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اگلے سرمائی اجلاس میں قانون کی تنسیخ کا باقاعدہ عمل مکمل ہو جائے گا۔ لیکن اس سے پہلے حکومت اور حکمراں جماعت کے لوگوں نے اپنے تین کارپوریٹ پسند قوانین کو لاگو کرنے کے لیے کسانوں پر بہت زیادہ مظالم ڈھائے ہیں۔ ٹھیک ہے، ہندوستانی کسانوں کی بڑی جیت!مودی سرکار کو آخر جھکنا پڑا! انہوں نے کہا کہ کسانوں کو سال بھر میں بہت نقصان اٹھانا پڑا اور کسانوں کے کئی اہم سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔


کسانوں کو کم سمجھنے والے لوگ ہار گئے: آر جے ڈی


آر جے ڈی کے ریاستی صدر ابھے سنگھ نے کہا کہ یوپی انتخابات کے پیش نظر مرکزی حکومت کسانوں کے سامنے ہار گئی ہے۔ مرکز نے یہ فیصلہ یوپی انتخابات کو دیکھ کر لیا ہے، لیکن جب تک تین بل کابینہ سے واپس نہیں کیے جاتے، آر جے ڈی کا احتجاج جاری رہے گا۔ ابھے نے کہا کہ یہ کالا قانون سرمایہ داروں کو خوش کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ کسانوں کو کم سمجھنے والے آج ہار گئے ہیں۔

زرعی قوانین کی واپسی کو بادشاہت کی شکست اور جمہوریت کی فتح قرار دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر صحت نے بھی سوال اٹھایا ہے۔ انہوں نے سوال کیا ہے کہ حیرت کی بات ہے کہ انہوں نے تحریک میں شہید ہونے والے کسانوں، خوراک کے عطیات دینے والوں اور عام لوگوں کی تکالیف کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ اس نے کسانوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کیوں نہیں کی؟ ملک کی پارلیمنٹ کا قیمتی وقت اور پیسہ ضائع کرنے والے تین کالے قوانین کا ذمہ دار کون ہے؟

حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری ؒمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری ؒ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
دار العلوم دیو بند کے مؤقر استاذ ، معاون مہتمم، جمعیت علماء ہند (مولانا محمود مدنی گروپ کے) صدر، جمعیت علماء ہند کی جانب سے متفقہ طور پر منتخب امیر الہند، کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کے ناظم، جامعہ قاسمیہ گیا ، جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ کے سابق استاذ، اسلاف کی نشانی، تواضع، خاکساری، انکساری میں ممتاز حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری نے ۲۱؍ مئی ۲۰۲۱ء مطابق ۸؍ شوال ۱۴۴۲ھ کومیدانتا اسپتال گڑگاؤں ہریانہ میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا، رمضان کے مغفرت والے دوسرے عشرہ میں حضرت قاری صاحب کو کوڈ کی شکایت ہوئی، آکسیجن لیبل گرتا چلا گیا، کمزوری بڑھتی رہی، گھر پر رکھ کر علاج کرانا ممکن نہیں ہوا تو ۱۸؍ مئی ۲۰۲۱ء کو میدانتا میں داخل کیا گیا، بہترین علاج ، ڈاکٹروں کی غیر معمولی توجہ ، تیمار داروں کی مثالی خدمت اور مخلصین ومعتقدین کی دعا ئیں، ملک الموت کو اپنے کام سے نہ روک سکیں اور روکا جا بھی تو نہیں سکتا ، کیوں کہ فرمان الٰہی ہے، جب اللہ کا مقرر کردہ وقت آجاتا ہے تو وہ ٹلتا نہیں ہے ، جنازہ کی نماز دو بار ہوئی، پہلی نماز جنازہ مرکزی دفتر جمعیت علماء ہند بہادر شاہ ظفر مارگ نئی دہلی میں اور دوسری دار العلوم دیوبند کے احاطہ مولسری میں ادا کی گئی، دوسری نماز جنازہ صدر المدرسین دار العلوم دیو بند اور حضرت قاری صاحب کے برادر نسبتی حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ صدر جمعیت علماء نے پڑھائی اور مزار قاسمی میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ، ایک بیٹی اور دو نامور صاحب زادے مولانا مفتی سید محمد سلمان منصور پوری اور قاری مفتی سید محمد عفان کو چھوڑا، مولانا سید محمد سلمان منصور پوری جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد میں مفتی ،مدرس اور بہت ساری کتابوں کے مصنف ومؤلف ہیں، وہاں کے ترجمان ندائے شاہی کے مدیر اور بافیض عالم ہیں، قاری مفتی محمد سید عفان جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں صدر المدرسین اور استاذ حدیث ہیں۔
 حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان بن نواب محمد عیسی (م ۱۹۶۳) کی ولادت ۱۲؍ اگست ۱۹۴۴ء کو ان کے آبائی گاؤں منصور پور ضلع مظفر نگر اتر پردیش میں ہوئی، وہ اپنے دو بھائی حافظ محمد موسی اور حافظ محمد داؤد کے بعد تیسرے نمبر پر تھے، آپ کا خاندانی تعلق سادات حسینیہ بارہہ کی ایک شاخ سے تھا، آپ کے والدنے اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ اور قرآن کریم کا حافظ بنانے کے لئے نقل مکانی کرکے دیو بند میں سکونت اختیار کی، اور برسوں کرایہ کے مکان میں گذار دیا ، علماء دیو بند سے تعلق کی وجہ سے ان کا انتقال دیو بند میں ہی ہوا، اور مزار قاسمی میں وہ بھی مدفون ہیں۔ اللہ رب العزت نے ان کے تینوں بچوں کو حافظ بنادیا اور حضرت قاری صاحب کو اللہ نے جو لحن داؤ دی عطافرمائی تھی اس کی وجہ سے وہ حضرت مولانا کے بجائے قاری صاحب سے مشہور تھے، اور کہنا چاہیے کہ بڑے علماء میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کے بعد حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب ہی دیو بند میں اس لفظ سے جانے جاتے تھے، قرآن کریم سے حضرت قاری صاحب کو والہانہ تعلق تھا اور جس لحن میں وہ اس کی تلاوت کرتے تھے، اس نے اس لفظ کو قاری صاحب کے نام کا سابقہ بنا دیا اور پوری زندگی ’’قاری‘‘ کے سابقہ کے ساتھ ہی وہ جانے پہچانے گئے۔
قاری صاحب کی ابتدائی تعلیم مدرسہ حسینہ منصور پور میں ہوئی ، حفظ قرآن کریم کی تکمیل بھی آپ نے اسی مدرسہ سے کی، عربی اول سے لے کر دورۂ حدیث تک کی تعلیم دار العلوم دیو بند میں پائی ۱۹۶۵ء مطابق ۱۴۸۵ء میں یہیں سے  سند فراغت پائی ،فراغت کے بعد پھر تجوید کی طرف متوجہ ہوئے او ر۱۹۶۶ء میں یہیں سے قراء ت سعبہ عشرہ کی تکمیل کی اور اس فن میں کمال پیدا کیا۔ 
تدریسی زندگی کا آغاز حضرت مولانا قاری فخر الدین ؒ خلیفہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی (۱۹۷۵-۱۸۸۹) کے قائم کردہ مدرسہ قاسمیہ گیا سے کیا، ۱۹۶۷ء سے ۱۹۷۲ء تک پانچ سال یہاں مقیم رہے، یہاں سے مستعفی ہو کر جامعہ اسلامہ جامع مسجد امروہہ کو اپنی تدریس کا میدان عمل بنایا ، آپ ہی کے دور میں اس ادارہ میں النادی الادبی قائم ہوئی، یہاں آپ کے ذمہ سنن ابو داؤد ، جلالین اور مختصر المعانی وغیرہ کا درس تھا۔
 ۱۹۸۲ء میں انقلاب دار العلوم کے بعد پورے ہندوستان سے نامور اساتذہ چن چن کر دار العلوم دیو بند لائے گئے، حضرت قاری صاحب ان میں سے ایک تھے، ہدایہ، مشکوٰۃ ، مؤطا امام مالک وغیرہ کا درس آپ سے متعلق تھا، معاون مہتمم اور کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کے ناظم کی ذمہ داری اس پر مستزاد تھی، مشہور تھا کہ حضرت قاری صاحب کو تقریر کا جو بھی موضوع دے دیجئے بات تحفظ ختم نبوت کے ذکر کے بغیر نامکمل رہتی تھی، یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم نبوت ہونے سے جو ان کو والہانہ عشق تھا، یہ اس کا مظہر ہوا کرتا تھا، آپ کا درس رطب ویابس سے پاک سہل اور آسان زبان میں ہوتا تھا، درسی تقریر ہویا جلسہ کی، آپ ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے، جس کی وجہ سے آپ کی تقریر کا نقل کرنا آسان ہوجاتا تھا، عربی زبان وادب میں وہ حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی ؒ کے شاگرد تھے، اور عربی میں زبان وبیان پر قدرت تھی ، النادی الادبی کے سالانہ اجلاس میں عربی میں آپ کی تقریر سے طلبہ بہت مستفید اور مستفیض ہوا کرتے تھے۔
 آپ کی انتظامی صلاحیت کے بھی اکابر دار العلوم قائل تھے، اسی وجہ سے آپ کو ۱۹۸۶ء میں کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کا ناظم ، ۱۴۱۵ھ میں ناظم اعلیٰ دار الاقامہ ، ۱۹۹۷ء میں دار العلوم کے نائب مہتمم، ۲۰۲۰ء  مطابق صفر ۱۴۴۲ھ میں معاون مہتمم بنایا گیا ، آپ نے ان تمام ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی انجام دیا، تحفظ ختم نبوت کے حوالہ سے آپ کی خدمت انتہائی وقیع ہیں، انہوں نے رجال کار کی فراہمی اور اس موضوع پر کتابوں کی تالیف اور محاضرات کا اہتمام کیا، کئی جگہوں پر قادیانیوں کو منہ کی کھانی پڑی اور کئی جگہ وہ بھاگ کھڑے ہوئے، اس موضوع پر حضرت قاری صاحب کے محاضرے بڑی علمی، منطقی اور مخالفین کے حق میں دندان شکن ہیں۔
 جمعیت علماء کے پلیٹ فارم سے بھی آپ نے جو خدمات پیش کیں وہ لائق تحسین ہیں، ۱۹۷۹ء میں قاری صاحب نے جمعیت کی تحریک ’’ملک وملت بچاؤ‘‘ کے ایک جتھے کی قیادت کی ، گرفتار ہوئے اور کئی دن تک تہاڑ جیل میں رہنا پڑا۔ 
۵؍ اپریل ۲۰۰۸ء کو جمعیت کے ایک گروپ کے آپ صدر منتخب ہوئے، ۲۰۱۰ء میں جمعیت کے دونوں گروپ نے آپ کو امیر الہند منتخب کیا اور مانا،اپنی تیرہ سالہ صدارت میں جمعیت یوتھ کلب اور جمعیت اوپن اسکول کے قیام پر آپ نے اپنی توجہ مرکوز کی اور اسے مختلف ریاستوں میںپھیلانے کا کام کیا۔
حضرت قاری صاحب کا اصلاحی تعلق شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا ؒ (۱۹۸۲-۱۸۹۸) تھا، حضرت کے حکم پر فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ (۲۰۰۶-۱۹۲۸) سے منسلک ہو گئے، اور انہیں سے خلافت پائی، شادی حضرت مدنی ؒ کی صاحب زادی سے تھی ، اس لیے مدنی خاندان سے مصاہرت کا تعلق تھا، جس کا حضرت بہت پاس ولحاظ رکھا کرتے تھے۔
 میری ملاقات تو ۱۹۸۲ء سے ہی تھی، لیکن مجھے ان سے شاگردی کا شرف حاصل نہیں ہو سکا، البتہ دو طویل ملاقاتیں یاد داشت کا حصہ ہیں، ایک ملاقات بھاگلپور سے دہلی تک سفر کے دوران رہی اور حسب توفیق خدمت کا موقع ملا ، اس سفر میں حضرت کے ارشادات سے مستفیض ہوتا رہا، آدمی کی پہچان سفر میں زیادہ ہوتی ہے ، میں نے اس سفر میں حضرت کو سنجیدہ ، بردبار، اصول پسند ، نرم دم گفتگو پایا، دو سری طویل ملاقات دہلی سے قطر تک کے سفر میں رہی ، موقع تھا لجنۃ اتحاد علماء المسلمین سے متعلق سے کانفرنس کا ، ڈاکٹر یوسف قرضاوی کی تحریک اور ڈاکٹر محی الدین قرۃ داعی کی دعوت پر ہندوستان سے بڑے اور جید علماء کے ساتھ یہ حقیر بھی مدعو تھا، حضرت قاری صاحب حضرت مولانا ارشد مدنی، مولانا سید سلمان حسینی ندوی، مولانا بدر الحسن قاسمی کویت بھی شریک تھے، اس موقع سے حضرت قاری صاحب کا خطاب بڑا وقیع ہوا تھا، اتفاق سے میری والدہ کا انتقال ہو گیا ، اور میں دوسرے روز پروگرام کے اختتام سے قبل ہی واپس ہو گیا، یہ لجنہ کا بنیادی تشکیلی اجلاس تھا، جس میں ہندوستان کے لیے بھی کمیٹی بنی تھی اور اب اس کے کئی اجلاس ہو چکے ہیں،دوسرے علماء کے ساتھ حیدر آباد سے مولانا عمر عابدین اور بیگوسرائے سے مفتی خالد حسین قاسمی نیموی اس کے رکن ہیں۔
 اس دور قحط الرجال میں حضرت قاری مولانا سید محمد عثمان صاحب کا وصال دار العلوم دیو بند ہی نہیں پورے ہندوستان کی علمی ، ملی، دینی، تعلیمی دنیا کا عظیم خسارہ ہے، اللہ رب العزت غیب سے اس کی تلافی کی شکل پیدا فرمادیں، حضرت کے درجات بلندکریں اور پس ماندگان کو صبر جمیل سے نوازے ۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ تعالیٰ علی النبی الکریم وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین ۔

بڑی خبر : وزیراعظم مودی نےکیا اعلان ، تینوں زرعی قوانین ہوں گے واپس

بڑی خبر : وزیراعظم مودی نےکیا اعلان ، تینوں زرعی قوانین ہوں گے واپسنئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی (Prime Minister Narendra Modi) نے قوم کے نام خطاب کرتے ہوئے بڑا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے تینوں زرعی قوانین (Three Farm Laws) کو واپس لے لیا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ حکومت اس بار کے پارلیمنٹ سیشن میں (Parliament Session) تینوں زرعی قانون کو واپس لے لے گی اور آئندہ سیشن میں اس بارے میں ضروری عمل مکمل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت لاکھ کوشش کے باوجود کسانوں کے گروپ (Farmers Protest) کو سمجھا نہیں پائی اور ملک کے باشندودں سے معافی مانگتا ہوں کہ ہماری ہی کوشش میں کوئی کمی رہی ہوگی۔ وزیر اعظم نے مظاہرین کسانوں سے کہا کہ گرو پرو کے موقع پر آپ اپنے گھر اور کھیت پر لوٹیں۔ وزیر اعظم مودی نے کہا- زرعی بجٹ کو 5 گنا بڑھا دیا وزیر اعظم نریندر مودی (Prime Minister Narendra Modi) نے کہا کہ مرکز کے زرعی بجٹ کو پانچ گنا بڑھا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ہماری حکومت نے کسانوں کے کھاتے میں ایک کروڑ 62 لاکھ روپئے ڈالے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی 22 کروڑ سوائل ہیلتھ کارڈ تقسیم کئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ہماری حکومت کسانوں کے مفاد میں کام کر رہی ہے۔وزیر اعظم مودی نے کہا 'ہماری حکومت خاص طور پر چھوٹے کسانوں کی فلاح کے لئے گاوں - غریب کے روشن مستقبل کے لئے پوری ایمانداری سے ہماری حکومت یہ قانون لے کرآئی ہے۔ ہم اپنی کوششوں کے باوجود کچھ کسانوں کو نہیں سمجھا پائے۔ بھلے ہی کسانوں کا ایک طبقہ ہی مخالفت کر رہا تھا۔ سائنسدانوں، زرعی قوانین ماہرین نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔ ہم نے کسانوں کی باتوں اور ان کے ترکوں کو سمجھنے میں بھی کوئی کسر نہیں باقی رکھا۔ قانون کے جن التزامات پر انہیں اعتراض تھا، اس پر بھی بات کی۔ میں آج ملک کے باشندوں سے معافی مانگتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم کچھ کسانوں کو سمجھا نہیں پائے'۔

وزیر اعظم مودی نے زرعی قوانین پر کہی یہ بڑی بات وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ 'کسانوں کی صورتحال کو سدھارنے کی بڑی مہم کے تحت تین زرعی قوانین لائے گئے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ چھوٹے کسانوں کو مزید طاقت ملے اور انہیں پیداوار کی مناسب قیمت ملے۔ برسوں سے یہ مطالبہ، ملک کے زرعی ماہرین، تنظیم اور سائنسداں کر رہے تھے۔ پہلے بھی کئی حکومتوں نے غوروخوض کیا تھا۔ اس بار بھی پارلیمنٹ میں بحث ہوئی اور قانون لائے۔ ملک کے کونے کونے میں کسان تنظیموں نے استقبال کیا اور حمایت دی۔ میں آج سن سبھی کی حمایت کے لئے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں'۔

جمعرات, نومبر 18, 2021

بہارپنچایت انتخابات کے عجب غضب نتائج ، پوتے کو ملی جیت اور دادا کو شکست مظفر پور، 18 نومبر(انڈیا نیرٹیو)

بہارپنچایت انتخابات کے عجب غضب نتائج ، پوتے کو ملی جیت اور دادا کو شکست مظفر پور، 18 نومبر(انڈیا نیرٹیو)

بہار میں پنچایت انتخابات کے دوران عجیب و غریب نتائج دیکھنے کو مل رہے ہیں، ایک ہی خاندان کے کئی افراد انتخابی میدان میں قسمت آزما رہے ہیں تو وہیں خاندان کے کسی ممبر کو جیت مل رہی ہے تو کوئی انتخاب ہار رہا ہے۔ بدھ کے روز یہاں ووٹوں کی گنتی کے دوران چترسی پنچایت سے ایسی ہی ایک خبر سامنے ا?ئی ہے جہاں پوتے نے مکھیا کا عہدہ جیت لیا، لیکن دادا الیکشن ہار گئے۔

جہاں اورائی میں ساس اوربہو اورمکھیا عہدہ کی لڑائی بھی دلچسپ رہی، وہیں مینا پور کے مکھیا عہدہ کے لئے میدان میں اترے دادا۔ پوتا کی لڑائی بھی کافی مز یدار رہی۔ بدھ کے روز ہوئی ووٹوں کی گنتی میں پوتے دیواکر کمار نے مکھیا کے عہدے پر کامیابی حاصل کی جب کہ دادا مہانند رائے انتخاب ہار گئے۔

واضح ہو کہ سبکدوش ہونے والے مکھیا مہانند رائے سمیت کئی دوسرے امیدوار مکھیا کے عہدے کے لیے قسمت آزما رہے تھے۔ جہاں دیواکر کمار نے ببیتا دیوی کو شکست دے کر مکھیا کا عہدہ اپنے نام کر لیا۔ لیکن اس انتخابی میدان میں دادا پوتے کی لڑائی بھی دلچسپ رہی۔

26 پنچایتوں میں صرف ایک سبکدوش مکھیا سنگیتا دیوی ہرسر پنچایت سے دوبارہ مکھیا بننے میں کامیاب ہوئی۔ دیواکر کمار سمیت کئی امیدوار مکھیا بننے میں کامیاب رہے۔ 26 پنچایتوں میں سے 25 نئے انتخابی میدان میں مکھیا اپنی قسمت آزمانے میں کامیاب ہوئے۔ حالانکہ کئی مکھیا آمنے سامنے کی لڑائی میں بھی نظر نہیں آئے

آل انڈیاملی کونسل بہارکی ضلعی کمیٹیوں کی تشکیل نوکاعمل جاری

آل انڈیاملی کونسل بہارکی ضلعی کمیٹیوں کی تشکیل نوکاعمل جاریملک کی معروف ملی تنظیم آل انڈیاملی کونسل بہارکی ضلعی کمیٹیوں کی تشکیل نوکاعمل جاری ہے،ریاست بہارکی مختلف اضلاع کی کمیٹیاں تشکیل دینے کے بعدآج 18/نومبر2021کوسیوان ضلع کی ملی کونسل کی تشکیل کے لیے ایک انتخابی نشست منعقدہوئی،جس کی صدارت اسسٹنٹ جنرل سکریٹری آل انڈیاملی کونسل حضرت مولاناسیدمصطفی رفاعی قادری ندوی جیلانی نے کی،مولانارفاعی قادری اس موقع پربیان کرتے ہوئے کہاکہ تقویٰ انسانی زندگی کا سب سے قیمتی زیوراورسب سے زیادہ گراں قدر متاع ہے۔ اگر انسان بڑاہی دولت مند اور حیثیت ووقار کا مالک ہے لیکن وہ'لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ'کا اقرار نہیں کرتا تو جس طرح اس کی دولت مندی اس کی حیثیت، اس کا وقار، اس کا جاہ وجلال اور اس کی شان وشوکت کسی کام کی نہیں بالکل اسی طرح اگر کوئی'لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ'کا اقرار کرتا ہے لیکن اس کے دل میں تقوی کی جوت اور خوشبو نہیں، اس کے اندر تقویٰ کی روشنی نہیں جگمگاتی اور اس کے من میں خداترسی کا جذبہ نہیں تو وہ بھی اللہ کی نظر میں قابل احترام نہیں، حقیقت تویہ ہے کہ جس مسلمان کے اندر تقویٰ اور پرہیزگاری کی خوبی نہیں پائی جاتی، وہ صرف نام کا مسلمان ہے، کام کا نہیں۔ایسا کیوں؟ ایسا اس لیے کہ اگر مسلمان ایک جسم ہے تو تقویٰ اس کی روح ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جس جسم کے اندر روح نہیں وہ جسم کسی کام کا نہیں۔ اس طرح اگر کہاجائے کہ مسلمان تقویٰ کے بغیر لاش بیجا ن ہے تو اس میں ذرابھی مبالغہ آرائی نہیں۔ جبکہ آل انڈیاملی کونسل کے قومی نائب صدر حضرت مولاناانیس الرحمن قاسمی نے نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ملک اس وقت بڑے نازک دورسے گزررہاہے،ایسے وقت میں ہمارامتحدرہنابہت ضروری ہے،آل انڈیاملی کونسل نے ہمیشہ ملک کی ملت کی صحیح رہنمائی کی ہے اوران شاء اللہ آئندہ بھی کرتارہے گا،تنظیم کومضبوط کرنے کے لیے علاقائی کمیٹیاں تشکیل دینابہت ضروری ہے، اس وقت پورے ملک میں ملی کونسل تشکیل نوعمل جاری ہے اوراسی کڑی کومضبوط کرنے کے لیے ہم نے بہار میں ضلعی کمیٹیوں کی تشکیل کاسلسلہ شروع کیاہے،اب تک الحمدللہ بہارکے اکثراضلاع کمیٹیاں تشکیل پاچکی ہیں،اسی سلسلے کوآگے بڑھاتے ہوئے آ ج ہم ضلع کی کمیٹی کی تشکیل کررہے ہیں۔اس موقع پر جناب نجم الحسن نجمی صاحب چیرمین نجم فاؤنڈیشن نے ملی کونسل کے مقاصداورطریقہ کار پرروشنی ڈالی اورتعلیم کی اہمیت بیان کی، اس نشست میں،صہیب رحمانی صاحب آرگنائزآل انڈیاملی کونسل بہار،رئیس الاعظم، فقیہ الدین،عطاء الصمد،نعمت اللہ خان،احسان اللہ،اظہاراحمد،تقی امام،عبدالرحمن،ضیاء الحق،محمدذبیح اللہ،مولانامطیع الرحمن،شاہداقبال،عمران حسین،عبدالستار،محمدظفرامام،محمدنوشادعالم،اظہرامام، محمدراشد،نسیم کوثر،عبدالقیوم،ابوالکلام، محمدامان اللہ، شاہ نورعالم،خورشیدانور،شکیل احمد اورشہرکے معززین حضرات شریک تھے۔

تریپوره فسادات : فساد کی وجہ جان کر ہوجائیں گے حیران ، جانئے کیا ہے سچائی ؟ انڈیا نیرٹیو

تریپوره فسادات : فساد کی وجہ جان کر ہوجائیں گے حیران ، جانئے کیا ہے سچائی ؟ انڈیا نیرٹیو

تریپورہ فسادات کی کہانی ایک داستان کی طرح ہے۔ مطلب جتنے لوگ، اتنی باتیں، کبھی آپ نے سوچا ہے کہ تریپورہ فساد کی اصل وجہ کیا ہے؟ تریپورہ فساد میں ملوث کون لوگ ہیں؟ تریپورہ کے اصل ساکن کون ہیں؟

ان سب کا جواب اگر ایک سطر میں بیان کیاجائے تو یہی ہے کہ تریپورہ کے اصل لوگ محض چند فیصد ہیں۔ باقی بنگلہ دیشی ، پریپورہ میں بھرے پڑے ہیں۔ آپ سب کو یاد ہوگا کہ بنگلہ دیش میں درگا پوجا پر کافی ہنگامہ ہوا تھا، اور چند متشدد اور جھوٹی شہرت کے بھوکے لوگوں نے ہندو مسلم کا بہانہ بنا کر فساد برپا کردیا تھا۔ اس فساد نے قرب و جوار میں ایک مذہبی آگ لگا دی تھی۔ تریپورہ میں بھی بہت بڑی تعداد میں لوگ بنگلہ دیش سے بھاگ کر آباد ہوئے ہیں۔ دونوں فسادات ایک ساتھ آگے چل کر ایک بھیانک شکل اختیار کیا اور تریپورہ کا حادثہ پیش آیا۔ اس میں ہندو مسلم کا کوئی زمینی مسئلہ نہیں ہے بلکہ دو ملکوں اور متشدد لوگوں کی گہری چال ہے تاکہ ملک میں ہندو مسلم بھائی چارگی میں کمی آئے اور باہر کی طاقت اس سے فائدہ اٹھا کر ہمارے خلاف باتیں کریں۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان میں ہندو مسلم کی بھائی چارگی صدیوں پر محیط ہے۔ ہندو اور مسلم دونوں کو مل کر اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی بحالی کے لیے کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہندواور مسلم اتحاد اور اتفاق ، ایک ساتھ مل کر قوم و ملک کی ترقی میں معاون ہوسکے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...