Powered By Blogger

جمعرات, نومبر 25, 2021

مال حرام اور بد نصیب انسان شمشیر عالم مظاہری دربھنگویامام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار حرام مال کمانا، حرام غذا کھانا، حرام کا پیسہ جمع کرنا، حرام کے پیسے سے مکان گاڑی، لباس اور دوسری ضروریات خریدنا، یہ چیز آج ہمارے معاشرے میں عام ہوگئی ہے

مال حرام اور بد نصیب انسان 
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار 
حرام مال کمانا، حرام غذا کھانا، حرام کا پیسہ جمع کرنا، حرام کے پیسے سے مکان گاڑی، لباس اور دوسری ضروریات خریدنا، یہ چیز آج ہمارے معاشرے میں عام ہوگئی ہے۔ لوگ اپنا اسٹیٹس اور سوسائٹی میں جھوٹی عزت بنانے کے لیے حلال اور حرام میں کوئی امتیاز نہیں کرتے، ہمارے اندر مال کی ہوس اتنی عام ہو گئی ہے کہ ہم نہیں، پیسہ کمانے والی مشینیں بن کر رہ گئے ہیں، ہمیں تو پیسہ چاہیے خواہ وہ پیسہ کسی بھی طریقے سے آئے، اللہ تعالی کے حکم توڑ کر آئے کسی کا حق دبا کر آئے! چوری، ڈاکہ، غصب،ونہب،  اور ملاوٹ کرکے آئے رشوت، فراڈ،  اور یتیموں، بیواؤں، بھائی، بہنوں کا حق دبا کر آئے ہیروئن، افیون شراب بلکہ اپنی عزت و آبرو بیچ کر آۓ بس پیسہ آنا چاہیے تاکہ ہم شادی غمی کے موقع پر اپنی جھوٹی عزت کا بھرم قائم رکھ سکیں۔ ہم ہر سال نئے ماڈل کی گاڑی خرید سکیں، ہم کسی مالدار علاقہ میں شاندار بنگلہ خرید سکیں، ہمارے بچے مہنگے انگلش اسکولوں میں تعلیم حاصل کر سکیں، مگر ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ ہم نے رشوت کے پیسے،  منشیات کی دولت سے،  فراڈ اور غصب کے روپے سے معاشرے میں تو اپنی ناک اونچی کرلیں،  مگر یہ حرام مال آخرت میں ہماری ناک کٹنے  کا ذریعہ بن جائے گا۔  یہ حرام مال ہمیں جہنم میں لے جانے کا سبب بن سکتا ہے۔  یہ حرام مال ہمارے تمام نیک اعمال کو تباہ کر سکتا ہے۔ 
ابو داؤد میں حدیث شریف ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص گناہ سے مال کماتا ہے پھر وہ اس سے عزیزوں کی امداد کرتا ہے یا صدقہ خیرات کرتا ہے یا اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے یہ سب کچھ قیامت کے دن جمع کیا جائے گا اور اس کے ساتھ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
بیہقی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
لا یدخل ا لجنۃ جسد غذی بالحرام۔ وہ جسم جنت میں نہیں جائے گا جس نے حرام غذا سے پرورش پائی ۔ یوں تو یہ احادیث ہم سب کے لئے اپنے اندر عبرت کا سامان رکھتی ہیں لیکن وہ حضرات جو عبادت بھی کرتے ہیں۔ حرام مال بھی کھاتے ہیں،  صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں، اور رشوت بھی کھاتے ہیں،  انہیں خاص طور پر یہ سوچنا چاہیے کہیں حرام کمائی ہمیں جہنم میں لے جانے کا ذریعہ نہ بن جائے آخرت میں تو جو کچھ ہو گا۔ سو ہوگا۔  آج دنیا میں بھی ہماری دعاؤں میں جو اثر نہیں رہا تو اس کی بڑی وجہ بھی حرام ذریعہ معاش ہے۔ 
چیخ چیخ کر، ہاتھ لمبے کر کے، زور زور سے دعائیں کی جاتی ہیں، ہزاروں کا مجمع دعاؤں پر آمین آمین کہتا ہے، مگر ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں، نہ کافر مغلوب ہوتے ہیں، نہ مشرک نیست و نابود ہوتے ہیں، نہ دہشت گرد فنا ہوتے ہیں،نہ ظالموں سے ہم کو نجات ملتی ہے،نہ چوروں اور ڈاکوؤں سے ہم کو چھٹکارا ملتا ہے، نہ مہنگائی ختم ہوتی ہے، نہ بیماریوں سے شفا ملتی ہے، نہ آپس کے جھگڑے اور لڑائیاں ختم ہوتی ہیں، تو اس کی بہت بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ہر طرف حرام کی کثرت ہے، چند خوش قسمت افراد کے سوا پوری کی پوری قوم سر سے پاؤں تک حرام میں ڈوبی ہوئی ہے۔
مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 
ومطعمہ حرام و مشربہ حرام و ملبسہ حرام و غذی بالحرام فانی یستجاب لذالک ۔جس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام، اور غذا حرام ہو،  تو ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہوگی۔
انفرادی اور اجتماعی مسائل کے بارے میں ہماری دعائیں کیسے قبول ہوں گی جب کہ حرام کو ہم نے اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں جا بجا حلال مال اختیار کرنے کی تاکید اور حرام سے اجتناب نہ کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں اور قرآن وسنت میں واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ آدمی حرام ذرائع سے مال جمع نہ کرے ۔
قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے۔
اور نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کا ناحق اور نہ پہنچاؤ ان کو حاکموں تک، کہ کھا جاؤ کوئی حصہ لوگوں کے مال میں سے ظلم کرکے (ناحق) اور تم کو معلوم ہے ۔ (سورۃ البقرۃ)
 ایک جگہ یتیموں کا مال ناحق کھانے پر اس طرح نکیر فرمائ گئی: 
جو لوگ کہ کھاتے ہیں مال یتیموں کا ناحق وہ لوگ اپنے پیٹوں میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب داخل ہوں گے آگ میں (سورۃ النساء) 
ایک جگہ ارشاد ہے : اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طور پر نہ کھاؤ مگر یہ کہ تجارت ہو آپس کی خوشی سے (سورۃ النساء) 
بد نصیب انسان ! حرام کھانے والا ایسا بد نصیب ہے کہ اس کی نہ تو نماز قبول ہوتی ہے نہ نیک اعمال اور صدقہ و خیرات قبول ہوتا ہے نہ اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ، یہ تمام وعیدیں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہیں
ارشادات نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم 
جو حرام کا ایک لقمہ بھی کھائے گا اس کی چالیس راتوں کی نمازیں قبول نہیں ہوگی (مسند فردوس دیلمی)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے موقع پر یوں فرمایا :
جو شخص دس درہم میں کوئی کپڑا خریدے اور اس میں ایک درہم حرام کا ہو تو اللہ تعالی اس کی کوئی نماز قبول نہ فرمائیں گے جب تک وہ کپڑا اس کے اوپر رہے گا (مسند امام احمد)
جو بندہ حرام لقمہ اپنے پیٹ میں ڈال لیتا ہے تو اس کے چالیس دنوں کا کوئی نیک عمل قبول نہیں ہوتا (طبرانی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالی پاکیزہ ہے اور وہ پاکیزہ مال کے علاوہ کوئی اور مال ( اپنے دربار میں)  قبول نہیں کرتا اور اللہ تعالی نے ( پاکیزہ چیزیں استعمال کرنے کے بارے)  میں مومنین کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو دیا ہے۔  چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا: اے رسولو! کھاؤ عمدہ  پاکیزہ چیزوں میں سے اور کام کرو نیک بے شک میں تمہارے کام سے واقف ہوں ۔ اور اے ایمان والو ہماری عطا کردہ پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا ذکر فرمایا جو ( مثلاً ) لمبے سفر کے دوران غبار آلود اور پراگندہ بال ہونے کی حالت میں اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا مانگے کہ اے میرے رب اے میرے رب لیکن اس کا کھانا پینا اور لباس حرام ہو اور اس کی حرام سے پرورش ہوئی ہو تو کہاں اس کی دعا قبول ہو سکتی ہے ؟ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگرچہ انسان کی ظاہری حالت قابل رحم کیوں نہ ہو لیکن حرام مال میں ملوث ہونے کی وجہ سے وہ شخص اللہ کے رحم وکرم اور نظر کرم سے محروم کر دیا جاتا ہے اور اس کی دعا قابل قبول نہیں ہوتی
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )  کی جان ہے آدمی اپنے پیٹ میں حرام لقمہ ڈالتا ہے جس کی وجہ سے چالیس روز تک اس کا کوئی عمل اللہ کے یہاں قبول نہیں ہوتا اور جس شخص کا گوشت پوست حرام سے پروان چڑھا ہو تو اس کے لئے تو جہنم ہی مناسب ہے ( التر غیب والترہیب)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ایسا بدن جنت میں نہیں جائے گا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہو  (الترغیب والترہیب) 
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ وسلم نے متنبہ فرمایا: تم حرام مال جمع کرنے والے پر رشک نہ کرو اس لیے کہ اگر وہ اس مال سے صدقہ کرے گا تو وہ قبول نہ ہوگا اور بقیہ مال بھی اسے جہنم تک لے جانے کا تو شہ بن جائے گا ( الترغیب والترہیب) 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی اپنے منہ میں مٹی بھر لے یہ اپنے منہ میں حرام مال داخل کرنے سے بہتر ہے ( شعب الایمان) 
ان روایات سے یہ معلوم ہو گیا کہ حرام مال کا استعمال شریعت کی نظر میں سخت ناپسندیدہ ہے اور آخرت میں بدترین عذاب کا موجب ہے ۔ 
 حرام کا چسکا ۔ 
یہ ساری وعیدیں اپنی جگہ مگر صورتحال یہ ہے کہ جن لوگوں کو حرام کا چسکا لگ جاتا ہے انہیں حلال میں تو مزہ ہی نہیں آتا بلکہ انہیں حرام ہی میں لذت آتی ہے شاید اسی لئے ہمارے بعض بزرگوں کا طریقہ یہ رہا ہے کہ وہ جب مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے مسجد کے باہر جوتے اتارتے ہیں تو انہیں چوروں کے لیے حلال کر جاتے ہیں اور ان کا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ جوتے چوری سے محفوظ رہتے ہیں اور اس کی وجہ  وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ چونکہ چور کے منہ کو تو حرام لگا ہوا ہے اور اسے حرام ہی کی تلاش ہے اگر اسے حلال کی تلاش اور طلب ہوتی تو وہ محنت کرتا،  مزدوری کرتا، ٹھیلہ لگاتا، ٹوکری اٹھاتا، ملازمت کرتا،  مگر چوری نہیں کرتا لیکن اسے تو حلال کی تلاش ہی نہیں بلکہ صرف حرام کی طلب ہے تو جب آپ نے اپنے جوتے اس کے لیے حلال کر دیئے تو وہ انہیں ہاتھ بھی نہیں لگا ئے گا اس لیے نہیں کہ اسے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ جوتے مالک نے میرے لیے حلال کر دیئے ہیں بلکہ اس لئے کہ اس کا مزاج اور معدہ اس قدر خراب ہو چکا ہے کہ وہ حلال غذا کو قبول ہی نہیں کرتا جیسے بیماری کی وجہ سے بعض لوگوں کا معدہ خراب ہو جاتا ہے تو پھر وہ اچھی غذا کو قبول ہی نہیں کرتا ۔ اسی طرح کا معاملہ ایک بھنگی کا مشہور ہے کہ ہمہ وقت گندگی اور نجاست میں رہنے کی وجہ سے اس کی قوت شامہ ایسی بگڑ گئی تھی کہ اب وہ خوشبو کو برداشت ہی نہیں کر سکتا تھا چنانچہ جب ایک روز وہ عطر فروشوں کے بازار سے گزرا تو بے ہوش کر گر پڑا لوگوں نے اسے ہوش میں لانے کے لئے بڑے جتن کئے مگر کوئی تدبیر بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی اتفاق سے اسی وقت اس کے کسی ہم پیشہ شخص کا وہاں سے گزر ہوا اس نے مجمع لگا ہوا دیکھا تو قریب جاکر صورتحال معلوم کی کہ اس کا ایک بھائی بے ہوش پڑا ہے اور کسی صورت ہو ش میں نہیں آ رہا تو وہ خاموشی سے وہاں سے کھسک گیا اور کہیں سے تھوڑی سی نجاست لے آیا جب اس نے وہ نجاست اپنے بے ہوش بھائی کے ناک سے قریب کی اور اس کا اثر اس کی قوت شامہ نے محسوس کیا تو وہ ایک دم ہوش میں آگیا یہی مثال حرام خور کی ہے زندگی بھر حرام خوری میں مبتلا رہنے کی وجہ سے اسے ناجائز مال میں لذت محسوس ہونے لگتی ہے لیکن یہ لذت اسے اس لئے محسوس ہوتی ہے کہ اس نے حلال روزی کی نورانیت اور برکت اور لذت کو پوری طرح محسوس ہی نہیں کیا اگر ایسا ہوجائے اور وہ کچھ وقت کے لئے حرام کو چھوڑ کر حلال پر اکتفا کر لے تو وہ قلب و دماغ میں حلال کی ایسی خوشبو اور نورانیت محسوس کرے گا کہ زبان حال و قال سے پکار اٹھے گا 
میں دن رات رہتا ہوں جنت میں گویا  ، میرے باغ دل میں وہ گلکاریاں ہیں ۔ لیکن ان بدنصیبوں کو حرام چھوڑنے اور حلال پر اکتفا کرنے اور اس کی روحانی کیفیات سے لطف اندوز ہونے کا کبھی موقع ہی نہیں ملا اس لیے یہ گندگی اور نجاست کے دریا ہی میں خوش ہیں اور اسے اپنی قابلیت اور ذہانت و چالاکی سمجھتے ہیں ۔
حرام غذا 
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا غلام محنت مزدوری کر کے کھانے کی چیز آقا لا کردیتا تو تحقیق فرماتے ٹھیک ہوتی تو کھالیتے ورنہ واپس کر دیتے  ایک روز حسب معمول کھانا لا کر دیا صدیق اکبر نے بغیر تحقیق کے کھا لیا غلام نے تعجب سے معلوم کیا آج آپ نے تحقیق کیے بغیر ہی کھا لیا فرمایا بھوک بہت لگی تھی اس لیے بھول گیا کہاں سے لائے تھے اور یہ کھانا کیسا تھا؟  غلام نے عرض کیا زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کیا کرتا تھا کسی کو شفا ہوگی اس نے کچھ دینے کا وعدہ کیا تھا آج اتفاق سے ادھر گزر تو اس کے یہاں ولیمہ کی دعوت ہو رہی تھی اس میں سے مجھے بھی دے دیا یہ وہی کھانا تھا اب کیا تھا صدیق اکبر کا رنگ متغیر ہو گیا پریشان ہوگئے کہ آج حرام غذا پیٹ میں چلی گئی اور اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم نے فرمایا اس جسم کے لئے جنت حرام ہے جس کی پرورش حرام غذا سے ہوئی ہو حلق میں بار بار انگی ڈال کر قے فرمائ اور جب تک سارا نہ نکال دیا  چین نہ آیا
(زید بن ارقم) 
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنا جائزہ لے کہ جو پیسے اس کے پاس آ رہے ہیں اور جو کام وہ کر رہا ہے ان میں کہیں حرام مال کی آمیزش تو نہیں ہے نہ جانے کتنے کام ایسے ہیں جن کے ذریعہ نادانستہ طور پر اور غیر شعوری طور پر ہمارے حلال مال میں حرام کی آمیزش ہو جاتی ہے اور بزرگوں کا مقولہ ہے کہ جب کبھی کسی حلال مال کے ساتھ حرام مال لگ جاتا ہے تو حرام حلال کو بھی تباہ کر کے چھوڑتا ہے یعنی اس حرام مال کے شامل ہونے کے نتیجے میں حلال مال کی برکت اس کا سکون اور راحت تباہ ہوجاتا ہے اس لیے ہر شخص اس کی فکر کرے اور ہر شخص اپنے ایک ایک عمل کا جائزہ لے اور اپنی آمدنی کا جائزہ لے کہ ہمارے حلال مال میں کہیں کوئی حرام مال تو شامل نہیں ہو رہا ہے اللہ تعالی ہم سب کو اس فکر کی توفیق عطا فرمائے آمین

ویسے آج ہی 24 نومبر 1952 اردو ادب کی ممتاز شاعرہ محترمہ پروین شاکر صاحبہ کی بھی یومِ پیدائش ہے،

پروین شاکر کی یوم پیدائش پر خصوصی تحریر
✍️خرّم ملک کیتھوی
موبائل - 9304260090

ویسے آج ہی 24 نومبر 1952 اردو ادب کی ممتاز شاعرہ محترمہ پروین شاکر صاحبہ کی بھی یومِ پیدائش ہے،
پروین شاکر کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوپاتی ہے
انگریزی ادب اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی  ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں
پروین کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی جس سے بعد میں طلاق لے لی۔
شاعری میں آپ کو احمد ندیم قاسمی صاحب کی  سرپرستی حاصل رہی۔ آپ کا بیشتر کلام اُن کے رسالےفنون میں شائع ہوتا رہا۔
شاکر کی شاعری میں سب سے اہم موضوعات محبت، نسائی، اور سماجی محاذ ہیں، اگرچہ انہوں نےکبھی کبھی دوسرے موضوعات پر بھی لکھا. ان کا کام اکثر رومانیت پر مبنی تھا، پیار، خوبصورتی اور ان کے تضادات کے تصورات کی تلاش میں وہ ہمیشہ سرگرداں رہیں۔۔۔۔
ادب میں آپکی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے آپ کو
Pride of Performance Award (1976) اور Adamjee Award سے نوازا

تخلیقات
خوشبو (1976ء)،
صد برگ (1980ء)،
خودکلامی(1990ء)،
انکار (1990ء)
ماہ تمام (1994ء)

انکی شاعری کا موضوع محبت اور عورت ہے

26 دسمبر 1994ء کو ٹریفک کے ایک حادثے میں اسلام آباد میں ، بیالیس سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا  ملیں۔ لواحقین میں ان کے بیٹے کا نام مراد علی ہے۔

بدھ, نومبر 24, 2021

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے✍️ ڈاکٹر مولانا محمدعالم قاسمیجنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہارامام وخطیب جامع مسجد دریاپور سبزی باغ ، پٹنہ

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
✍️ ڈاکٹر مولانا محمدعالم قاسمی
جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار
امام وخطیب جامع مسجد دریاپور سبزی باغ ، پٹنہ
اکیسویں صدی کے آتے ہی دنیا بہت بدل گئی ہے، ہائی ٹیک دور، ڈیجیٹل آلات اورہرکس وناکس تک اسمارٹ فون کی رسائی نے قدیم اقدار وروایا ت کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ پل پل کی نقل وحرکت کو شیئر کرنے کی عادت نے ایسا عموم حاصل کرلیا ہے کہ شہرت وریاکاری اورتصویر کشی کے مسائل اب صر ف زینت کتاب ہیں، خواص خدام کے ذریعہ اور بغیر خدم وحشم والے کسی نہ کسی ذریعہ اس شوق کو پورا کرلیتے ہیں، تحریری فتویٰ کی رسم بھی صرف ہندی علماء میں باقی ہے۔ اس سے احتراز کرنے والے کو لوگ ترقی یافتہ دنیا سے غافل یا ایک صدی قبل کاانسان باور کرتے ہیں۔ مگر اس چکاچوند دنیا سے الگ تھلک ، شہرت وناموری سے کوسوں دور اپنی دنیا میں مگن ، سادگی منکسرالمزاجی اورنرم مزاجی کے حامل جن چند انفاس قدسیہ کو حالیہ قریب میں دیکھا ان میں سے ایک مولانا ضیاء الرحمن قاسمی ، پتونا ، بسفی مدھوبنی ہیں۔ جو حالیہ دنوں 14 نومبر 2021 کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے، آپ کی نماز جنازہ آپ کے منجھلے صاحبزادے ڈاکٹر مولانا محمد رضوان قاسمی نے پڑھائی اوراپنے آبائی گاؤں پتونا کی سرزمین میں آسودۂ خاک ہوگئے_ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے__آپ کی عمر بوقت رحلت 80 سال سے متجاوز تھی ۔مگر باعتبار سند کم ، اپنی عمر میں بتانے میں بہت محتاط تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ کہیں کسی کی نظر نہ لگ جائے۔ 
آپ سیدھے سادے خاکسار منکسرالمزاج انسان تھے۔نیک طبیعت کے نرم دل آدمی تھے، نیک اطوار تھے، پاک باز تھے، وضع دار تھے اورخاندانی شرافت کا نمونہ تھے، صاف دل تھے ، حسد وکینہ سے پاک تھے، گلہ وشکوہ سے محفوظ تھے۔ تواضع میں حد اعتدال سے بھی متجاوز تھے۔ اپنے شاگروں اور چھوٹوں کی بھی بات بہت غور سے سنتے ، اورجو کہہ دیتا اس پر یقین کرلیتے۔ اسی تواضع میں بے اعتدالی کااثر تھاکہ قدیم فاضل دیوبند ہونے کے باوجود میں نے کبھی کسی بھی موقع پر کوئی وعظ ونصیحت یا تقریر کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ گوشہ نشیں تنہائی پسند تھے۔ عام بھیڑ بھاڑ سے الگ رہتے تھے، مگر کوئی ملنے جاتا توبڑی خندہ پیشانی سے ملتے اور سب کی بات سنتے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے والد گرامی کے ہم عصر تھے، ان سے قربت کے ساتھ مجھے بھی اپنا عزیز سمجھتے اورگھنٹوں بات کرتے، یہاں تک کہ میرے بڑے صاحبزادے سے بھی نہایت ہی بے تکلفی سے گھنٹوں بات کرتے، اسی باعث ہرشخص انہیں اپنا سرپرست سمجھتا اور اپنے دل کی بات کہتا۔ آپ بے ضرر اوربے نفس انسان تھے، کفایت شعاری اور قناعت پسند ی کے خوگر تھے اوراپنے عمل سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتے، اگر کسی نے کوئی کام کہدیا تو چاہے جتنی مشقت ہو اس کے لئے انتھک کوشش کرتے، آپ ایک چلتی پھرتی انجمن تھے۔ اگرکسی نے روک کر کچھ کہنا چاہا تو اس وقت تک ان کی بات سنتے جب تک کہ کہنے والا خود نہ تھک جائے۔ اس میں اپنے کام کو بھی بھول جاتے، غض بصر پر اتنا سختی سے عمل پیرا تھے کہ آپ ہمیشہ خمیدہ گردن ہی چلتے، شرم وحیا حد سے زیادہ تھی۔ دوسروں کی بہت رعایت کرتے، اور ایسی کسر نفسی تھی کہ عام فرد کے لئے آپ کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ 
مولانا موصوف کا آبائی تعلق ضلع مدھوبنی کا مسلم اکثریتی حلقہ بسفی کے پتونا گاؤں کے شمالی محلہ سے ہے۔ جو اب قاسمی محلہ سے مشہور ہے۔ اس گاؤں کے لوگ عمومی طورپر سیدھے شمار ہوتے ہیں اوردینی تعلیم کا ماحول بھی بہت قدیم ہے۔ مولانا کے والد منشی عبدالطیف قدیم پڑھے لکھے تھے۔ مگر باضابطہ سند یافتہ کے طورپر قاری ابراہیم ہوئے، جو بنارس کے مدرسہ سے حافظ وقاری تھے۔ ان کی کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے۔ انہوں نے حافظ مہرحسین کو بنارس پڑھنے کیلئے بھیجاجو بڑی محنت سے بڑے باکمال حافظ قرآن ہوئے۔ محلہ کے ماحول کو بدلنے میں ان کی بڑی محنت ہے۔ ان کی کوئی صلبی اولاد نہیں ہے۔ مگرشاگردوں کا لمبا سلسلہ ہے۔ انہوں نے نئی مسجد تعمیر کی اور اپنے گاؤں میں ہی تعلیم دینا شروع کیا۔ نہایت بافیض ثابت ہوئے ، اور ان کی محنت سے صرف ایک محلہ میں50 حفاظ کرام تیار ہوئے، جن میں سے ایک یہ حقیر راقم الحروف بھی ہے۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا اور15 فضلائے دیوبند ہوئے۔جس کی بنیاد پر اس محلہ کا نام قاسمی محلہ رکھ دیاگیا۔ فضلائے دیوبندکی پہلی کڑی کے طورپر قاری شعیب قاسمی اور مولانا ضیاء الرحمن قاسمی ہیں۔ ان کے بعد پھر سلسلہ چل پڑا۔ 
مولانا موصوف کی حتمی تاریخ ولادت تو معلوم نہیں ہوسکی چونکہ کئی مرتبہ پوچھنے کے بعد بھی انہوں نے ٹال دیا اورسند میں بعد میں انہوںنے جاکر اندراج کرایاتھا۔ مگر اتنی بات طے ہے کہ میرے والد گرامی سے دو سال چھوٹے تھے اورمیرے والد کی تاریخ ولادت ان کی ڈائری کے مطابق 1939 ہے۔ اس اعتبار سے مولانا کی تاریخ ولادت 1941 کے قریب ہوتی ہے۔ ابتدائی تعلیم گاؤ ں میں ہوئی پھر مدرسہ بشارت العلوم کھرما پتھرا دربھنگہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دیوبند چلے گئے۔ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کا انتقال 1957 میں ہوگیا۔ ان کے بعد شیخ الحدیث فخرالمحدثین مولانا سید فخرالدین احمد مراد آبادی (1889-1972) ہوئے۔انہیں کے دور میں 1970 کے قریب فراغت ہوئی۔ 
فراغت کے بعد اپنی خدمت کا میدان پٹنہ کو بنایا۔ سبزی باغ کی جامن گلی میں اپنے استاد کے نام پر مدرسہ فخرالعلوم قائم کیا۔ مولانا کاظم قاسمی بھیروا کو یہاں لائے ، پھر مالیات کی فراہمی لوگوں کے تعاون سے خود کرتے اور وہ درس دیتے، کچھ دنوں بعد مولانا کاظم قاسمی مدرسہ حسینہ رانچی چلے گئے اورآپ اپنے گاؤں کے بورڈ کے مدرسہ میںبحال ہوگئے۔ جس سے 2011 میں ریٹائر ہوئے۔ مگر اپنے گاؤں کے مدرسہ سے منسلک ہونے کے باوجود پٹنہ سے رشتہ بدستور باقی رہا، اورسال کا کم ازکم 4 مہینہ پٹنہ میں ضرور گزرتا۔ شعبان، رمضان، شوال کے بعد ذی قعدہ میں واپس جاتے اور پھر گاہے بگاہے بھی آتے رہتے۔ مدرسہ کے مالیات کی فراہمی میں ہمیشہ منہمک رہتے۔پٹنہ کے چپہ چپہ سے واقف تھے اور پورا پٹنہ پیدل ہی روند ڈالتے، پٹنہ جنکشن سے سبزی باغ پیدل گھنٹوں میں پہنچتے، چونکہ درمیان میں بہت سے لوگوں سے ملتے جلتے آتے، آپ کسی چیز کے پابند رہنا نہیں چاہتے، اپنی مرضی سے رہنا ، اپنی مرضی کاکام کرنا، یہاں تک کہ عبادت میںبھی ان سے پابندی نہیں ہوپاتی، پٹنہ میں ان کاقیام جناب شمس الہدیٰ استھانوی مرحوم کے اخبار ’’ہمارا نعرہ‘‘ کے دفتر میں رہتا۔چونکہ وہ دفتر رات بھرکھلارہتا اورانہیں رات میں کسی بھی وقت آنے کی پوری آزادی ہوتی۔ 
مولانا موصوف کا پہلا نکاح اپنے ماموں کی دختر سے نرائن پور پوپری میں ہوا۔ مگرایک سال بعد ہی وہ راہی بقا ہوگئیں۔ تو دوسرا نکاح 1970 کے قریب کٹھیلا بسفی کے جناب ظہور احمد کی صاحبزادی سے ہوا، جو خوشحال اور بااثرفرد تھے۔ ان سے تین صاحبزادے ہوئے، بڑے مولانا محمدسلمان قاسمی ہیں جو ماشاء اللہ حافظ قرآن اورفاضل دیوبند اورامارت سے مفتی بھی ہیں۔ مگر اپنے والد کی طرح گوشہ نشیں تنہائی پسند ہیں اورشہرت وناموری سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ مدرسہ احمدیہ مدھوبنی میں استاد ہیں اورمدرسہ کی چہاردیواری میں اپنے کو محصور کرلیا ہے۔ وہ ہمارے دیرینہ رفیق بھی ہیں۔ 
دوسرے صاحبزادے ڈاکٹر مولانا محمد رضوان قاسمی ہیں جو ماشاء اللہ حافظ قرآن، فاضل دیوبند اور سند یافتہ حکیم ہیں، بیدار مغز اورہوش مند عالم دین ہیں، ساتھ ہی ملنسار ، خوش اخلاق اور خوش مزاج ہیں۔ علماء نواز ہیں اورسماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ خوشحال ہیں، دربھنگہ میں اپنے ذاتی مکان میں مطب چلاتے ہیںجو اہل علم کا مرکز بناہوا ہے۔ تیسرے صاحبزادے حافظ محمد حسان ہیں جو اپنے گاؤں میں مدرسہ چلاتے ہیں۔ بڑے ہنس مکھ اورملنسار ہیں۔ لوگوں سے بڑی محبت سے ملتے ہیں، اور علماء کے قدردان ہیں۔اس طرح مولانا موصوف کو اللہ تعالیٰ نے صالح اولاد سے نوازا ہے اورسب دنیوی نعمت سے بھی سرفراز ہیں۔  ایک صاحبزادی ہوئی جو کم سنی میں جنت نشیں ہوگئیں۔ اہلیہ محترمہ بحمداللہ باحیات اور بعافیت ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت وعافیت سے رکھے۔ مولانا کے گھر سے میرا گہرا تعلق ہے اور اپنے گھر کی طرح ہی سمجھتا ہوں۔
مولانا ضیاء الرحمن قاسمی جیسے سادہ لوح سیدھے سادے بے لوث انسان بہت کم ملتے ہیں۔ جو سب کو اپنا سمجھے ، سب کو گلے سے لگائے، اور ہرشخص کی کامیابی پر خوش ہوں۔ ان کے دل میں سب کے لئے جگہ تھی۔ اسی لئے سبھی لوگ انہیں اپنا سرپرست سمجھتے ۔
شعر:
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشہ کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

حسرت  نے لا رکھا  تیری بزم خیال میں
گلدستۂ نگاہ سویدا کہیں جسے

٭٭٭

انسانی بالوں کی خرید و فروخت کا شرعی حکم از : ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ آب حیات بھوپال ایم پی

انسانی بالوں کی خرید و فروخت کا شرعی حکماز: ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ آب حیات بھوپال ایم پی 9826268925
آج کل عورتوں کے بال جو کنگھی میں آتے ہیں، یا پھر انہیں کاٹ کر بیچا جاتا ہے اس بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ انسانی بالوں کی خریدوفروخت شرعاً جائز نہیں ہے، اس لئے عورتوں کا کنگھی میں ٹوٹے ہوئے بالوں کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ انسانی جسم کا حصہ ہونے کی وجہ سے قابل احترام ہیں، نیز اجنبی مرد کے لئے عورت کے ٹوٹے ہوئے بالوں کو دیکھنا بھی جائز نہیں ہے، اس لیے سر میں کنگھی کرتے ہوئے عورتوں کے جو بال گر جائیں انہیں کسی جگہ دفنا دینا چاہیے،اگر دفنانا مشکل ہوتو کسی کپڑے وغیرہ میں ڈال کر ایسی جگہ ڈال دیے جائیں جہاں کسی اجنبی کی نظر نہ پڑے۔ الدرالمختار (ردالمحتارص نمبر58 ج5)
اس بارے میں حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ "انسان کے اعضاء واجزاءانسان کی اپنی ملکیت نہیں ہیں جن میں وہ مالکانہ تصرف کرسکے، اسی لئےایک انسان اپنی جان یا اپنے اعضاء و جوارح کو نہ بیچ سکتا ہے نہ کسی کو ہدیہ اور ہبہ کے طور پر دے سکتا ہے،اور نہ ان چیزوں کو اپنے اختیار سے ہلاک وضائع کر سکتا ہے۔ شریعت اسلامیہ کے اصول میں تو خود کشی کرنااور اپنی جان یا اعضاء رضاء کارانہ طور پریا بقیمت کسی کو دے دینا قطعی طور پر حرام ہی ہے جس پر قرآن و سنت کی نصوص صریحہ موجود ہیں،تقریبا دنیا کے ہر مذہب و ملت اور عام حکومتوں کے قوانین میں اس کی گنجائش نہیں، اس لیے کسی زندہ انسان کا کوئی عضو کاٹ کر دوسرے انسان میں لگا دینا اس کی رضامندی سے بھی جائز نہیں۔ شریعت اسلام نے صرف زندہ انسان کے کارآمد اعضاء ہی کا نہیں بلکہ قطع شدہ بے کار اعضاء و اجزاء کا استعمال بھی حرام قرار دیا ہے، اور مردہ انسان کے کسی عضوکی قطع و برید کو بھی ناجائز کہاہے،اوراس معاملے میں کسی کی اجازت اور رضامندی سے بھی اس کے اعضاء و اجزاء کے استعمال کی اجازت نہیں دی،اور اس میں مسلم و کافر سب کا حکم یکساں ہے، کیونکہ یہ انسانیت کا حق ہے جو سب میں برابر ہے۔
تکریم انسانی کو شریعت اسلام نے وہ مقام عطا کیا ہے کہ کسی وقت کسی حال کسی انسان کے اعضاء واجزاء حاصل کرنے کی طمع دامن گیر نہ ہو، اور اس طرح مخدوم کائنات اور اعضاء عام استعمال کی چیزوں سے بالاتر ہیں جن کو کاٹ چھانٹ کر یا پیس کر غذاؤں اور دواؤں اور دوسرے مفادات میں استعمال کیا جاتا ہے، اس پر ائمہ اربعہ پوری امت کے فقہاء متفق ہیں، اور نہ صرف شریعت اسلام بلکہ شرائع سابقہ اور تقریباً ہر مذہب و ملت میں یہی قانون ہے

مودی حکومت تین زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کر چکی ہے۔ اس کے باوجود فی الحال کسان تحریک جاری رکھنے کا اعلان کسان لیڈروں نے کیا ہے۔ کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے کہا کہ حکومت نے اعلان کیا ہے تو وہ قرارداد لا سکتے ہیں، لیکن ایم ایس پی اور 700 کسانوں کی موت بھی ایک ایشو ہے۔

26 جنوری سے پہلے ہمارے مطالبات مان لیے گئے تو ہم چلے جائیں گے ، ورنہ ... ' ، راکیش ٹکیت کا الٹی میٹم

مودی حکومت تین زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کر چکی ہے۔ اس کے باوجود فی الحال کسان تحریک جاری رکھنے کا اعلان کسان لیڈروں نے کیا ہے۔ کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے کہا کہ حکومت نے اعلان کیا ہے تو وہ قرارداد لا سکتے ہیں، لیکن ایم ایس پی اور 700 کسانوں کی موت بھی ایک ایشو ہے۔ حکومت کو اس پر بھی بات کرنی چاہیے۔ 26 جنوری سے پہلے تک اگر حکومت ہماری بات مان جائے گی تو ہم چلے جائیں گے۔ الیکشن کے تعلق سے ہم انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کے بعد بتائیں گے۔

اس سے ایک دن قبل لکھنؤ میں ہوئی کسان مہاپنچایت میں راکیش ٹکیت نے کہا تھا کہ جب تک حکومت بیٹھ کر ہر مسئلہ پر بات نہیں کرے گی، تب تک کسان اپنے گھروں کو نہیں جائیں گے۔ جدوجہد ختم کرنے کا اعلان حکومت ہند نے کیا ہے، کسان نے نہیں۔ راکیش ٹکیت نے مزید کہا تھا کہ صرف معافی مانگنے سے کام نہیں چلے گا۔ بیج بل، ایم ایس پی گارنٹی، آلودگی بل، دودھ پالیسی، بجلی شرح جیسے کئی ایشوز ہیں جن کا حل نکلنا باقی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو 17 بل پارلیمنٹ میں لائے جا رہے ہیں، انھیں بھی نافذ نہیں ہونے دیا جائے گا۔

پٹنہ کی سڑکوں پر لالو یادو کا الگ انداز دیکھا گیا ، خود جیپ چلا کر لوگوں کو حیران کر دیا , ویڈیو دیکھیں

پٹنہ کی سڑکوں پر لالو یادو کا الگ انداز دیکھا گیا ، خود جیپ چلا کر لوگوں کو حیران کر دیا , ویڈیو دیکھیں

راشٹریہ جنتا دل کے صدر اور بہار کے سابق وزیر اعلی لالو یادو کا بدھ کو رابڑی کی رہائش گاہ پر ایک الگ ہی روپ دیکھنے کو ملا۔ سابق سی ایم کھلی جیپ میں گاڑی چلاتے ہوئے ڈاکٹر راجندر پرساد کے مجسمے کے پاس گئے۔ پھر گاڑی واپس کی اور واپس آگئے۔ اس دوران پارٹی کے حامی زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ خود جیپ چلاتے ہوئے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لالو نے لکھا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والا ہر شخص کسی نہ کسی شکل میں ڈرائیور ہوتا ہے۔

ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لالو نے لکھا، 'آج برسوں بعد اپنی پہلی کار چلا رہا ہوں۔ اس دنیا میں پیدا ہونے والے تمام لوگ کسی نہ کسی شکل میں ڈرائیور ہیں۔ آپ کی زندگی میں محبت، ہم آہنگی، یگانگت، مساوات، خوشحالی، امن، صبر، انصاف اور خوشی کی گاڑی ہمیشہ مزے سے چلتی رہے

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے✍️ ڈاکٹر مولانا محمدعالم قاسمیجنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہارامام وخطیب جامع مسجد دریاپور سبزی باغ ، پٹنہ

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
✍️ ڈاکٹر مولانا محمدعالم قاسمی
جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار
امام وخطیب جامع مسجد دریاپور سبزی باغ ، پٹنہ
اکیسویں صدی کے آتے ہی دنیا بہت بدل گئی ہے، ہائی ٹیک دور، ڈیجیٹل آلات اورہرکس وناکس تک اسمارٹ فون کی رسائی نے قدیم اقدار وروایا ت کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ پل پل کی نقل وحرکت کو شیئر کرنے کی عادت نے ایسا عموم حاصل کرلیا ہے کہ شہرت وریاکاری اورتصویر کشی کے مسائل اب صر ف زینت کتاب ہیں، خواص خدام کے ذریعہ اور بغیر خدم وحشم والے کسی نہ کسی ذریعہ اس شوق کو پورا کرلیتے ہیں، تحریری فتویٰ کی رسم بھی صرف ہندی علماء میں باقی ہے۔ اس سے احتراز کرنے والے کو لوگ ترقی یافتہ دنیا سے غافل یا ایک صدی قبل کاانسان باور کرتے ہیں۔ مگر اس چکاچوند دنیا سے الگ تھلک ، شہرت وناموری سے کوسوں دور اپنی دنیا میں مگن ، سادگی منکسرالمزاجی اورنرم مزاجی کے حامل جن چند انفاس قدسیہ کو حالیہ قریب میں دیکھا ان میں سے ایک مولانا ضیاء الرحمن قاسمی ، پتونا ، بسفی مدھوبنی ہیں۔ جو حالیہ دنوں 14 نومبر 2021 کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے، آپ کی نماز جنازہ آپ کے منجھلے صاحبزادے ڈاکٹر مولانا محمد رضوان قاسمی نے پڑھائی اوراپنے آبائی گاؤں پتونا کی سرزمین میں آسودۂ خاک ہوگئے_ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے__آپ کی عمر بوقت رحلت 80 سال سے متجاوز تھی ۔مگر باعتبار سند کم ، اپنی عمر میں بتانے میں بہت محتاط تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ کہیں کسی کی نظر نہ لگ جائے۔ 
آپ سیدھے سادے خاکسار منکسرالمزاج انسان تھے۔نیک طبیعت کے نرم دل آدمی تھے، نیک اطوار تھے، پاک باز تھے، وضع دار تھے اورخاندانی شرافت کا نمونہ تھے، صاف دل تھے ، حسد وکینہ سے پاک تھے، گلہ وشکوہ سے محفوظ تھے۔ تواضع میں حد اعتدال سے بھی متجاوز تھے۔ اپنے شاگروں اور چھوٹوں کی بھی بات بہت غور سے سنتے ، اورجو کہہ دیتا اس پر یقین کرلیتے۔ اسی تواضع میں بے اعتدالی کااثر تھاکہ قدیم فاضل دیوبند ہونے کے باوجود میں نے کبھی کسی بھی موقع پر کوئی وعظ ونصیحت یا تقریر کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ گوشہ نشیں تنہائی پسند تھے۔ عام بھیڑ بھاڑ سے الگ رہتے تھے، مگر کوئی ملنے جاتا توبڑی خندہ پیشانی سے ملتے اور سب کی بات سنتے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے والد گرامی کے ہم عصر تھے، ان سے قربت کے ساتھ مجھے بھی اپنا عزیز سمجھتے اورگھنٹوں بات کرتے، یہاں تک کہ میرے بڑے صاحبزادے سے بھی نہایت ہی بے تکلفی سے گھنٹوں بات کرتے، اسی باعث ہرشخص انہیں اپنا سرپرست سمجھتا اور اپنے دل کی بات کہتا۔ آپ بے ضرر اوربے نفس انسان تھے، کفایت شعاری اور قناعت پسند ی کے خوگر تھے اوراپنے عمل سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتے، اگر کسی نے کوئی کام کہدیا تو چاہے جتنی مشقت ہو اس کے لئے انتھک کوشش کرتے، آپ ایک چلتی پھرتی انجمن تھے۔ اگرکسی نے روک کر کچھ کہنا چاہا تو اس وقت تک ان کی بات سنتے جب تک کہ کہنے والا خود نہ تھک جائے۔ اس میں اپنے کام کو بھی بھول جاتے، غض بصر پر اتنا سختی سے عمل پیرا تھے کہ آپ ہمیشہ خمیدہ گردن ہی چلتے، شرم وحیا حد سے زیادہ تھی۔ دوسروں کی بہت رعایت کرتے، اور ایسی کسر نفسی تھی کہ عام فرد کے لئے آپ کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ 
مولانا موصوف کا آبائی تعلق ضلع مدھوبنی کا مسلم اکثریتی حلقہ بسفی کے پتونا گاؤں کے شمالی محلہ سے ہے۔ جو اب قاسمی محلہ سے مشہور ہے۔ اس گاؤں کے لوگ عمومی طورپر سیدھے شمار ہوتے ہیں اوردینی تعلیم کا ماحول بھی بہت قدیم ہے۔ مولانا کے والد منشی عبدالطیف قدیم پڑھے لکھے تھے۔ مگر باضابطہ سند یافتہ کے طورپر قاری ابراہیم ہوئے، جو بنارس کے مدرسہ سے حافظ وقاری تھے۔ ان کی کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے۔ انہوں نے حافظ مہرحسین کو بنارس پڑھنے کیلئے بھیجاجو بڑی محنت سے بڑے باکمال حافظ قرآن ہوئے۔ محلہ کے ماحول کو بدلنے میں ان کی بڑی محنت ہے۔ ان کی کوئی صلبی اولاد نہیں ہے۔ مگرشاگردوں کا لمبا سلسلہ ہے۔ انہوں نے نئی مسجد تعمیر کی اور اپنے گاؤں میں ہی تعلیم دینا شروع کیا۔ نہایت بافیض ثابت ہوئے ، اور ان کی محنت سے صرف ایک محلہ میں50 حفاظ کرام تیار ہوئے، جن میں سے ایک یہ حقیر راقم الحروف بھی ہے۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا اور15 فضلائے دیوبند ہوئے۔جس کی بنیاد پر اس محلہ کا نام قاسمی محلہ رکھ دیاگیا۔ فضلائے دیوبندکی پہلی کڑی کے طورپر قاری شعیب قاسمی اور مولانا ضیاء الرحمن قاسمی ہیں۔ ان کے بعد پھر سلسلہ چل پڑا۔ 
مولانا موصوف کی حتمی تاریخ ولادت تو معلوم نہیں ہوسکی چونکہ کئی مرتبہ پوچھنے کے بعد بھی انہوں نے ٹال دیا اورسند میں بعد میں انہوںنے جاکر اندراج کرایاتھا۔ مگر اتنی بات طے ہے کہ میرے والد گرامی سے دو سال چھوٹے تھے اورمیرے والد کی تاریخ ولادت ان کی ڈائری کے مطابق 1939 ہے۔ اس اعتبار سے مولانا کی تاریخ ولادت 1941 کے قریب ہوتی ہے۔ ابتدائی تعلیم گاؤ ں میں ہوئی پھر مدرسہ بشارت العلوم کھرما پتھرا دربھنگہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دیوبند چلے گئے۔ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کا انتقال 1957 میں ہوگیا۔ ان کے بعد شیخ الحدیث فخرالمحدثین مولانا سید فخرالدین احمد مراد آبادی (1889-1972) ہوئے۔انہیں کے دور میں 1970 کے قریب فراغت ہوئی۔ 
فراغت کے بعد اپنی خدمت کا میدان پٹنہ کو بنایا۔ سبزی باغ کی جامن گلی میں اپنے استاد کے نام پر مدرسہ فخرالعلوم قائم کیا۔ مولانا کاظم قاسمی بھیروا کو یہاں لائے ، پھر مالیات کی فراہمی لوگوں کے تعاون سے خود کرتے اور وہ درس دیتے، کچھ دنوں بعد مولانا کاظم قاسمی مدرسہ حسینہ رانچی چلے گئے اورآپ اپنے گاؤں کے بورڈ کے مدرسہ میںبحال ہوگئے۔ جس سے 2011 میں ریٹائر ہوئے۔ مگر اپنے گاؤں کے مدرسہ سے منسلک ہونے کے باوجود پٹنہ سے رشتہ بدستور باقی رہا، اورسال کا کم ازکم 4 مہینہ پٹنہ میں ضرور گزرتا۔ شعبان، رمضان، شوال کے بعد ذی قعدہ میں واپس جاتے اور پھر گاہے بگاہے بھی آتے رہتے۔ مدرسہ کے مالیات کی فراہمی میں ہمیشہ منہمک رہتے۔پٹنہ کے چپہ چپہ سے واقف تھے اور پورا پٹنہ پیدل ہی روند ڈالتے، پٹنہ جنکشن سے سبزی باغ پیدل گھنٹوں میں پہنچتے، چونکہ درمیان میں بہت سے لوگوں سے ملتے جلتے آتے، آپ کسی چیز کے پابند رہنا نہیں چاہتے، اپنی مرضی سے رہنا ، اپنی مرضی کاکام کرنا، یہاں تک کہ عبادت میںبھی ان سے پابندی نہیں ہوپاتی، پٹنہ میں ان کاقیام جناب شمس الہدیٰ استھانوی مرحوم کے اخبار ’’ہمارا نعرہ‘‘ کے دفتر میں رہتا۔چونکہ وہ دفتر رات بھرکھلارہتا اورانہیں رات میں کسی بھی وقت آنے کی پوری آزادی ہوتی۔ 
مولانا موصوف کا پہلا نکاح اپنے ماموں کی دختر سے نرائن پور پوپری میں ہوا۔ مگرایک سال بعد ہی وہ راہی بقا ہوگئیں۔ تو دوسرا نکاح 1970 کے قریب کٹھیلا بسفی کے جناب ظہور احمد کی صاحبزادی سے ہوا، جو خوشحال اور بااثرفرد تھے۔ ان سے تین صاحبزادے ہوئے، بڑے مولانا محمدسلمان قاسمی ہیں جو ماشاء اللہ حافظ قرآن اورفاضل دیوبند اورامارت سے مفتی بھی ہیں۔ مگر اپنے والد کی طرح گوشہ نشیں تنہائی پسند ہیں اورشہرت وناموری سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ مدرسہ احمدیہ مدھوبنی میں استاد ہیں اورمدرسہ کی چہاردیواری میں اپنے کو محصور کرلیا ہے۔ وہ ہمارے دیرینہ رفیق بھی ہیں۔ 
دوسرے صاحبزادے ڈاکٹر مولانا محمد رضوان قاسمی ہیں جو ماشاء اللہ حافظ قرآن، فاضل دیوبند اور سند یافتہ حکیم ہیں، بیدار مغز اورہوش مند عالم دین ہیں، ساتھ ہی ملنسار ، خوش اخلاق اور خوش مزاج ہیں۔ علماء نواز ہیں اورسماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ خوشحال ہیں، دربھنگہ میں اپنے ذاتی مکان میں مطب چلاتے ہیںجو اہل علم کا مرکز بناہوا ہے۔ تیسرے صاحبزادے حافظ محمد حسان ہیں جو اپنے گاؤں میں مدرسہ چلاتے ہیں۔ بڑے ہنس مکھ اورملنسار ہیں۔ لوگوں سے بڑی محبت سے ملتے ہیں، اور علماء کے قدردان ہیں۔اس طرح مولانا موصوف کو اللہ تعالیٰ نے صالح اولاد سے نوازا ہے اورسب دنیوی نعمت سے بھی سرفراز ہیں۔  ایک صاحبزادی ہوئی جو کم سنی میں جنت نشیں ہوگئیں۔ اہلیہ محترمہ بحمداللہ باحیات اور بعافیت ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت وعافیت سے رکھے۔ مولانا کے گھر سے میرا گہرا تعلق ہے اور اپنے گھر کی طرح ہی سمجھتا ہوں۔
مولانا ضیاء الرحمن قاسمی جیسے سادہ لوح سیدھے سادے بے لوث انسان بہت کم ملتے ہیں۔ جو سب کو اپنا سمجھے ، سب کو گلے سے لگائے، اور ہرشخص کی کامیابی پر خوش ہوں۔ ان کے دل میں سب کے لئے جگہ تھی۔ اسی لئے سبھی لوگ انہیں اپنا سرپرست سمجھتے ۔
شعر:
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشہ کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

حسرت  نے لا رکھا  تیری بزم خیال میں
گلدستۂ نگاہ سویدا کہیں جسے

٭٭٭

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...