Powered By Blogger

اتوار, دسمبر 05, 2021

جامعہ ملیہ: ریسرچ اسکالرروبینا وزیر اعظم رسرچ فیلو شپ کے لیے منتخب

جامعہ ملیہ: ریسرچ اسکالرروبینا وزیر اعظم رسرچ فیلو شپ کے لیے منتخب

جامعہ ملیہ: ریسرچ اسکالرروبینا وزیر اعظم رسرچ فیلو شپ  کے لیے منتخب
جامعہ ملیہ: ریسرچ اسکالرروبینا وزیر اعظم رسرچ فیلو شپ کے لیے منتخب

 

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالر محترمہ روبینا وزیر اعظم رسرچ فیلو شپ (پی ایم آر ایف) کے لیے منتخب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے لیے یہ امر باعث افتخار ہے کہ شعبہ الیکٹریکل انجینئر نگ کی پی ایچ ڈی اسکالر محترمہ روبینا کو مئی دوہزار اکیس مہم کے لیے راست داخلہ زمرے میں مؤقر وزیر اعظم رسرچ فیلوشپ(پی ایم آر ایف)کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

پروفیسر نجمہ اختر،شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اس اعزاز کے لیے انھیں مبارک دی اور امید ظاہر کی کہ معیاری تحقیقی ماحصل کے ذریعہ وہ اسے درست ثابت کریں گی۔

پروفیسر منا خان،صدر شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کہا کہ اسکالر کو اس فیلوشپ کے تحت پہلے دوسال ستر ہزار روپئے،تیسرے سال پچھتر ہزار روپئے اور چوتھے اور پانچویں سال میں علی الترتیب اسّی ہزار روپئے ملیں گے۔اس کے علاوہ، اس اسکیم کے تحت اسکالر ہر سال دولاکھ روپئے کی رسرچ گرانٹ (پانچ سال میں دس لاکھ) کی بھی اہل ہے۔

محترمہ روبینا کی تحقیق

”Development of Smart Capacitive Sensors for Condition Monitoring of Electrical Apparatus in Smart Grids"

پر مبنی ہوگی۔اس کا بنیادی مقصد ٹراسفرما اور گیس موصل سوئچ گیئر (جی آئی ایس)جیسے اہم برقی آلات و اوزارکے لیے اعلی جامد اور متحرک خصوصیات والی آن لائن درستگی کی دیکھ ریکھ والے کیپی سیٹؤ محاس وضع کرنا ہے۔

اس کا زیادہ تر استعمال خرد ساخت کی حامل سینسنگ فلم کے ساتھ اپلی کیشنز کو زیادہ تر متوازی پلیٹ اور مستوی بین ڈیجیٹل کیپی سیٹؤ محاس کے ساتھ سمجھنے کے لیے ہوتاہے۔اگر چہ آج کل خرد ساختی مادے محسوساتی اطلاقات کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں اور نینو مٹیریل کا استحکام اپلی کیشن کے لیے اہم ہے۔محققین حسیت پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جنھیں جدید ترقی یافتہ آئی سی آلات سے نمٹا جاسکتا ہے لیکن استحکام کی کمی کے باعث محاس کی خراب کارکردگی کو آئی سیز سے سمجھنا اور حل کرنا مشکل ہے۔

محترمہ روبینا، شعبہ الیکٹریکل انجینرنگ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر طارق الاسلام کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کررہی ہیں ۔ وہ ’ڈیزائن،ماڈلنگ پر کام کرنے کے ساتھ اسمارٹ گرڈ میں چند اہم معیارات کے غیر رابطے والی پیمائش کے لیے اعلی کارکردگی کے حامل کیپی سیٹؤ محاس وضع کرنے پر کام کریں گی۔‘اسمارٹ گرڈ کے سینسر س کواعلی درجہ حرارت اور برقناطیسی رو والے مخل موسم اور سخت حالات کو جھیلنا پڑتاہے۔

 اس تحقیق سے نئے کیپی سیٹؤ محاس کی تیاری کا راستہ صاف ہوگا جو سستا بھی ہوگا اور جسے نصب کرنا بھی آسان ہوگا اور جو اپلی کیشن کے تقاضوں کو پورا بھی کرے گا۔

روبینا نے اس کامیابی اور اعزاز پر پروفیسر اے۔قیو۔انصاری،کوآرڈی نیٹر پی ایم آر ایف اسکیم،صدر شعبہ،ڈین فیکلٹی آف انجینرئنگ اینڈ ٹکنالوجی،نگراں اور شعبے کے دیگر اراکین کا شکریہ ادا کیا۔

 قابل ذکر ہے کہ دسمبر دوہزار بیس مہم کی لیٹریل داخلہ اسکیم میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چھے رسرچ اسکالر پی ایم آر ایف کے لیے منتخب ہوئے تھے جن میں سے پانچ طالبات تھیں۔

بہترین صلاحیتوں کو رسرچ کے میدان میں لے آنا اس پرکشش فیلوشپ اسکیم کی اصل تحریک ہے تاکہ اختراعیت و جدت کے ذریعہ ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔ بجٹ دوہزار اٹھارہ۔انیس میں اس اسکیم کا اعلان ہوا تھا۔


اپنے کو ہلاکت میں مت ڈالیے______مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہہر چیز کی رفتار کا ایک معیار ہے، مقررہ رفتار سے آگے بڑھنے کا عمل تیز رفتاری کہلاتا ہے

اپنے کو ہلاکت میں مت ڈالیے______
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ہر چیز کی رفتار کا ایک معیار ہے، مقررہ رفتار سے آگے بڑھنے کا عمل تیز رفتاری کہلاتا ہے ، یہ ہر حال میں مضر اور بعض حالتوں میں مہلک ہے،اعتدال اور میانہ روی سے توازن باقی رہتا ہے، تیز رفتاری عموماً توازن کو ختم کردیتی ہے ، اس کے نتیجے میں ایسے حادثات پیش آتے ہیں جس کے پیچھے آہ ونالہ، گریہ زاری، تباہی وبربادی کی ایک داستان رقم ہوتی ہے ۔
 شمالی ہندوستان میں ٹریفک کا نظام بد سے بد تر ہے ، یہاں ٹریفک کا سب سے بڑا اصول ہے کہ جس طرح گاڑی نکال سکو نکال لو، دائیں بائیں اور سائڈ تک کی پرواہ نہیں کی جاتی، بس والے گاڑی اسٹینڈ پر مسافروں کے حصول کے لیے بہت دھیرے دھیرے گاڑی چلاتے ہیں اور شہر سے نکلنے کے بعد سرپٹ دوڑا نا شروع کرتے ہیں تاکہ منزل پر پہونچ کر ان کا ٹائم کہیں فیل نہ ہوجائے، اس دوڑ میں وہ تیز رفتاری کے سارے رکارڈ توڑنے کی کوشش کرتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی ریس چل رہی ہے، اس کے نتیجے میں وہ کبھی کبھی مسافروں کو ان کی منزل سے دور اتارتے ہیں اور اس تیزی میں اتارتے ہیں کہ مسافر گرتے گرتے بچتا ہے،کبھی کبھی تو بچے اور خواتین منہہ کے بل گرجاتے ہیں اور ڈرائیور گاڑی لے کر ایک دو تین ہو جاتا ہے ، یقینا سارا قصور ڈرائیور کا ہی نہیں ہوتا ، ان لوگوں کا بھی ہوتا ہے جو سڑک کے کنارے دکانیں لگا کر بیٹھ جاتے ہیں ، بے جگہ گاڑیاں کھڑی کر دیتے ہیں،جس سے سڑکوں کی وسعت سمٹ جاتی ہے اور آمد ورفت میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
سڑک کے کنارے حکومت کی جانب سے مختلف انداز کے بورڈ لگے ہوتے ہیں،مثلا تیز رفتاری موت ہے، دھیرے چلئے گھر پر آپ کا انتظار ہو رہا ہے، حادثوں سے بچئے، لیکن اس قسم کے بورڈ کو پڑھنے کی فرصت کسے ہے ، زندگی بھاگم بھاگ میں گذر رہی ہے اور تیز رفتاری ہماری جانیں لے رہی ہے ، ٹریفک کے اصولوں کی پابندی کرکے ہم بہت سارے حادثات سے بچ سکتے ہیں، ٹریفک پولس ، گاڑی ڈرائیور اور عام انسان کو اس معاملہ میں زیادہ حساس اور فعال ہونے کی ضرورت ہے، ورنہ حادثات کو روکنا مشکل ہوگا ، ہمارے یہاں حادثہ کے بعد روپے تقسیم کرنے کا بھی رواج ہے ، انسانی جان انمول  ہے اس کا کوئی معاوضہ ہوہی نہیں سکتا، اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔
حادثے زندگی کی بڑی حقیقت ہیں، ہنستی ، کھیلتی ، چلتی پھرتی ، دوڑتی بھاگتی زندگی کب حادثے کی چپیٹ میں آجائے، کہنا مشکل ہے ، یہ حادثے دبے پاؤں آتے ہیں اور گھر کا گھر اجاڑ دیتے ہیں،یقینا جس کا وقت آگیا، وہ چلا جائے گا؛ لیکن ہمیں وقت کا پتہ نہیں، اس لیے ہم حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے پابند ہیں، ان حادثوں میں ہماری بے احتیاطی کا بھی کم عمل دخل نہیں ہے، احتیاط میں لا پرواہی بظاہر حادثے کا سبب ہوتی ہے، نئی نسلوں کی عجلت پسندی غلط سمت میں گاڑی چلانا ، نابالغ ڈرائیور، بغیر ہیلمٹ اور بیلٹ کے ڈرائیوری ، سڑکوں پر بے ترتیب گاڑیاں کھڑی کرنا اور ٹریفک ضابطوں کی ان دیکھی کی وجہ سے بھی حادثے رو نما ہوتے ہیں، ایک اندازہ کے مطابق سڑک حادثے میں روزانہ چار سو زندگیاں ختم ہو جاتی ہیں۔
یہ حادثے ستر فی صدر گاڑی چلانے والوں کی غلطی سے ہوا کرتے ہیں، سڑکوں کی بد حالی، پُل کی تاریکی ، موٹر سائیکل کی لہیریا چال، ایڈونچر کا شوق بھی سڑک حادثوں کا سبب بنتا ہے ، سڑکوں پر بجلی کے پول اور درختوں کی موجودگی بھی ا ندھیرے میں کئی زندگی کونگل جاتی ہے ، اور زندگی نے ایک بار موت کو گلے لگا لیا تو وہ لوٹ نہیں سکتی ہے، زندگی قیمتی ہے، ٹریفک ضابطوں کی پابندی کرکے بظاہر اسے بچایا جا سکتا ہے، لیکن ہندوستان میں نقل وحمل کے جو ضابطے ہیں، وہ کاغذی ہیں، ان پر عمل نہیں ہوتا ہے، جو چاہے جس طرح چاہے گاڑی بھگا تا رہتا ہے، سڑکوں پر سگنل کی پرواہ کیے بغیر گاڑی بڑھا لینا عام سی بات ہے، ٹریفک پولیس غیر تربیت یافتہ ہے اور گاڑی روک کر دس بیس روپے وصول کر سارے ضابطے دھرے رکھنے میں طاق ہے ، یہ ساری بے اصولی اپنے کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے، اس لیے اپنی حفاظت کے لیے ٹریفک اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے، جب تک ہم حساس نہیں ہوں گے، اور یہ سارے سسٹم بدلے نہیں جائیں گے ، حادثے نہیں رک سکتے ،اور پتہ نہیں کب ہماری باری آجائے اس لیے ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح پر توجہ دینی چاہیے، حقوق وفرائض کی ادائیگی کا خیال رکھنا چاہیے ، اللہ کے حقوق بھی اور بندوں کے حقوق بھی، نہ معلوم کب موت کا فرشتہ روح کو قفس عنصری سے لیکر اڑ جائے، اللہ رب العزت سے حادثاتی موت سے پناہ بھی چاہنی چاہیے اور آمد ورفت کے اصول وضوابط پر سختی سے عمل کرنا چاہیے ، تاکہ حادثوں سے بچنا ممکن ہو سکے

آل انڈیا مسلم پر سنل لا ءبورڈ :کچھ توقعات اور خواہشات

آل انڈیا مسلم پر سنل لا ءبورڈ :کچھ توقعات اور خواہشات

آل انڈیا مسلم پر سنل لا ءبورڈ :کچھ توقعات اور خواہشات
آل انڈیا مسلم پر سنل لا ءبورڈ :کچھ توقعات اور خواہشات

 

wwww

پروفسر اختر الواسع،نئی دہلی

 بمبئی میں دسمبر 1972ءمیں مسلمانوں کے تمام مذہبی فرقوں کے رہنما اور نمائندے اور سیاسی جماعتوں کے قائدین جمع ہوئے تھے اور انہوں نے ایک ایسے وقت میں جب یکساں سِوِل کوڈ کی بعض حلقوں کی طرف سے پُرزور حمایت ہو رہی تھی، مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی باتیں ہو رہیں تھیں، ایک غیرسرکاری تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نام سے بنائی۔ راقم الحروف نے بھی اس کنوینشن کے ذمہ داروں کی دعوت پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈینٹس یونین کے اس وقت کے صدر (آج کے گورنر کیرالہ) جناب عارف محمد خاں کے ساتھ طلبہ یونین کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے شرکت کی تھی اور بورڈ کے قیام کے تجویز کی تائید میں تقریر بھی کی تھی۔ اس بات کو کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ بالکل صحیح بات ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ ہندوستانی مسلمانوں کا ایک ایسا ادارہ اور تنظیم ہے جس پر مسلمان سب سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ بورڈ کے قیام کا اصل مقصد مسلمانوں کے عائلی قوانین کا تحفظ رہا ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ حالات نے بورڈ کو اس پر مجبور کیا کہ وہ وسیع تر معنوں میں مسلمانوں کے جان و مال اور حقوق کا تحفظ بھی اپنے دائرے کار میں شامل کر لے۔

کورونا کی عالمی وبا کے سبب ایک طویل عرصہ کے بعد 20 اور 21 نومبر کو کانپور میں بورڈ کا دو روزہ اجلاس ہوا۔ پورے ملک سے 100 سے زائد اراکین، عہدیدارن، علما اور دانشوران شریک ہوئے۔ نئے عہدیداران کا انتخاب عمل میں آیا، مختلف مسائل پر بات چیت ہوئی اور آخر میں قراردادوں کی منظوری کے بعد اجلاس ختم ہوا۔ ملک کے سلگتے ماحول میں مسلمانوں کو بورڈ سے جو امیدیں تھیں، اس میں مایوسی ہوئی۔ اجلاس میں یکساں سول کوڈ، جبراً مذہب تبدیلی، لوجہاد، سی اے اے، این آر سی،ماب لنچنگ، بے قصوروں کی گرفتاری اور دیگر اہم ایشوز پر غور و خوض تو ہوا ۔

غور کریں تو پتہ چلے گا کہ ملت کی زبوں حالی، مظلومی اور بے چارگی کو دیکھتے ہوئے عائلی قوانین میں انصاف اور حقوق کی بازیابی کے لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا۔بعد ازاں بورڈ کے تمام عہدیداران اور اراکین نے فیصلہ کیا تھا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ خود کو صرف شرعی اور عائلی مسائل تک محدود نہیں رکھے گا بلکہ مسلمانوں کا تحفظ، حقوق کی بازیابی اور ہمہ جہت ترقی کو یقینی بنانے کے لئے بھی کام کرے گا۔ اس کے لئے جامع حکمت عملی وضع کی گئی، افراد تیار کئے گئے اور ان کو ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ اس طرح ملت کا یہ کاررواں آگے بڑھتا رہا اور کامیابیاں ملتی رہیں۔ بنیاد گزاروں نے سنگلاخ راہ سے گزر کر مسلمانوں کوانصاف دلایا۔ منزل کی جدوجہد میں وہ زخمی بھی ہوئے، لیکن کبھی آبلہ پائی کی شکایت نہیں کی اور نہ وہ اس سے ڈرے۔

کانپوراجلاس میں دو روز تک غور و خوض کے بعد 11 قراردادیں منظور کی گئیں اور اعلامیہ جاری کیا گیا۔ یکساں سول کوڈ کو لے کر چل رہے عمل پر جو قرارداد پاس ہوئی ہے اس میں اگرچہ سبھی مذاہب کے آئینی حقوق کا تذکرہ تو کیا گیا ہے اور یکساں سول کوڈ کو نہ ماننے کی بات کہی گئی ہے لیکن دوسرے مذاہب کے لوگوں کےساتھ مل کر جس حکمت علمی کو تیار کرنا چاہیے اس کے لئے کسی کوشش کا کوئی اشارہ نہیں ملتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی گیان واپی مسجد اور شاہی عیدگاہ متھرا کے سلسلے میں فرقہ پرست عناصر، خاص طور پر ہندومہاسبھا کی جانب سے شرانگیزی پر لگام لگانے کا مطالبہ تو کیا گیا ہےلیکن 1991ء کے اس قانون کے حوالے سے جو 15؍اگست 1947ء کو جو عبادت گاہ جیسی تھی اور جس کی تھی اس کو باقی رکھنے کی بات کی گئی تھی اس پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا کوئی عندیہ سامنے نہیں آیا۔ جب کہ یہ اس لئے ضروری ہے کہ ملک میں متھرا اور کاشی کو لے کر شرپسند جو آوازیں اٹھا رہے ہیں وہ نہ صرف دستورِ ہند کے منافی ہیں بلکہ 1991ء میں پارلیمنٹ کے ذریعے پاس کئے گئے قانون کے بھی خلاف ہے اور اس طرح کی آوازیں اور شرپسندانہ اقدامات لاء اینڈ آرڈر (نظم و نسق) کا مسئلہ ہے۔

اس لئے سپریم کورٹ سے فوری رجوع کرنا چاہیے۔ اسی طرح اسلاموفوبیا اور توہین رسالت کے بڑھتے معاملات کے خلاف قانون بنانے کا موقف اختیار کیا گیا ہے۔ مذہب کی تبلیغ کرنا آئین کے مطابق بنیادی حق ہے،مسلمانوں نے کبھی بھی زبردستی، لالچ یا دباؤ دے کر کسی کا مذہب تبدیل نہیں کرایا۔ اسی لیے ملک میں طویل مدت تک حکومت کرنے کے باوجود مسلمان اب بھی اقلیت میں ہیں۔ کسی نے ابھی تک اس طرح کی شکایت نہیں کی ہے کہ اس کا کسی نے جبراً مذہب تبدیل کرایا،اس لئے جبراً تبدیلی مذہب کو بے بنیاد بتایا گیا۔ تمام مکاتب فکر کی نمائندگی کرنے والی اس طاقتور تنظیم نے مولانا کلیم صدیقی، ڈاکٹر عمر گوتم سمیت مسلم مبلغین کی گرفتاریوں کا حوالہ دیتے ہوئے، انہیں جبری تبدیلی مذہب کے جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کی بات تو کہی ، لیکن اس سےنمٹنے پر کوئی خاص زور نہیں دیاجب کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو اور ملت کی تمام جماعتوں کو مل جل کر نہ صرف ان لوگوں اور ان کے اہل خانہ کی بھرپور مدد میں آگے آنا چاہیے اور اس ظلم و نا انصافی کے خلاف قانونی لڑائی کو ان کی طرف سے اپنے ہاتھ میں لینا چاہیے۔ ان کے اہلِ خانہ اور وہ خود کس کرب سے گزر رہے ہوں گے اس کا اندازہ راقم الحروف کو اس لئے ہے کہ وہ خود بھی1973ء سے 1974ءکے بیچ سات مہینے تک میٖسا(MISA) کے تحت قیدوبند کیا اذیتوں سے دو چار رہا ہے۔

کانپور اجلاس میں خوشی کی بات ہے کہ ایک بار پھر مولانا سید رابع حسنی ندوی صاحب بورڈ کے صدر بنائے گئے، جب کہ جمعیۃ علما ء ہند کے سر براہ مولانا ارشد مدنی نائب صدر اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جنرل سکریٹری منتخب کئے گئے ۔راحت کی بات یہ بھی ہے کہ پہلی بار بورڈ میں مختلف سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والی 30مسلم خواتین کو رکنیت دی گئی اور 3خواتین کو ایگزیکٹو کمیٹی ممبران کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ ہمیں اس بات کی اس لئے خوشی ہے کہ ابھی کچھ دنوں پہلے ہی اپنے ایک کالم میں ہم نے اس طرف بورڈ کے ذمہ داروں کی توجہ دلائی تھی۔

بلاشبہ اسےہندوستان کی اعلیٰ اسلامی تنظیم میں مسلم خواتین کو بااختیار بنانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔یہ سبھی تعلیم یافتہ اور تجربہ کار خواتین ہیں، جو بورڈ کے موقف کو پوری قوت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں گی اور اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ وہ عورتیں جن کو اسلامی تعلیمات کے منافی رویہ رکھنے والے مردوں کے ہاتھوں بے چارگی کا سامنہ کرنا پڑ رہا ہے ان کی پریشانیوں کا حل ڈھونڈھا جائے اور ان کے مسائل و مصائب کو جاننے کے لئے ایک عملی کوشش کی جائے، اس کے لئے بورڈ کو علیحدہ سے ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے۔

ہم آخر میں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ ’’مسلمانوں کی امیدوں کا اکلوتا مرکز‘‘ ہے جسے ہر اعتبار سے مضبوط و مستحکم ہونا چاہیے۔ ملت پیچھے آنے کو تیار بیٹھی ہے، شرط ہے کہ قیادت مناسب حکمت عملی کے اس کی رہنمائی کرے۔

نوٹ: مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔ 

ہفتہ, دسمبر 04, 2021

ہندوستان کے بنیادی ڈھانچے پر 100 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کا ہدف : مودی

ہندوستان کے بنیادی ڈھانچے پر 100 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کا ہدف : مودی
دہرادون:
 وزیر اعظم نریندر مودی نے ہفتہ کو کہا کہ ہندوستان جدید انفراسٹرکچر پر 100 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کے ارادے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہندوستان کی پالیسی رفتار، طاقت، کام سے دوگنا یا تین گنا تیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ سڑکوں اور رابطوں کی ترقی خطے میں سیاحت، زیارت اور دیگر اقتصادی سرگرمیوں کی ترقی کا باعث بنتی ہے، معیشت مضبوط ہوتی ہے۔
مسٹر مودی یہاں اسمبلی انتخابات کی سمت بڑھ رہے اتراکھنڈ میں 18000 کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھنے اور افتتاح کرنے کے بعد ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہےتھے، انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے اتراکھنڈ میں ایک لاکھ کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کو منظوری دی ہے۔ یہاں کی حکومت 'ان اسکیموں کو زمین پر لا رہی ہے'۔
مسٹر مودی نے کہا کہ اس صدی کے آغاز میں اس وقت کے اٹل بہاری واجپئی کی حکومت نے ہندوستان میں رابطے بڑھانے کی مہم شروع کی تھی۔ وزیر اعظم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ واجپئی حکومت کے دوران شروع کی گئی ہائی وے ڈیولپمنٹ مہم کو بعد کی حکومت نے تتر بتر کر دیا۔
انہوں نے کہا، "لیکن ان کے بعد ملک میں 10 سال ایسی حکومت رہی ، جس نے ملک کا قیمتی وقت برباد کیا، دس سال تک ملک میں انفراسٹرکچر کے نام پر گھپلے ہوتے رہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی حکومت نے انفراسٹرکچر کی ترقی کے کام کو ایک بار پھر تیز کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم نے ملک کو ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کے لیے دگنی محنت کی اور آج بھی کر رہے ہیں۔
آج مجھے بہت خوشی ہے کہ دہلی-دہرا دون اقتصادی راہداری منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ اس سے باغپت سے لے کر شاملی تک اتراکھنڈ اور دہلی کے درمیان واقع اضلاع میں اقتصادی ترقی کو تقویت ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ جب یہ ہائی وے پراجیکٹ تیار ہو جائے گا تو دہلی سے دہرادون کے سفر میں لگنے والا وقت تقریباً آدھا رہ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کیدار وادی اس حقیقت کی ایک مثال ہے کہ سڑک کے رابطے میں اضافہ سیاحت اور یاترا میں تیزی کا باعث بنتا ہے۔ کیدارناتھ سانحہ سے پہلے 2012 میں پانچ لاکھ 70 ہزار لوگوں نے درشن کئے تھے ۔ اس وقت یہ ایک ریکارڈ تھا۔

پیام صبا میرے مطالعہ کی روشنی میں✍️ عبدالرحیم ابن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیا”پیام صبا” برادر محترم جناب کامران غنی صبا کا پہلا شعری مجموعہ ہے اور اس کی اشاعت محکمہ کابینہ سکریٹیریٹ حکومت بہار کے مالی تعاون سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی نے کی ہے۔

پیام صبا میرے مطالعہ کی روشنی میں

✍️ عبدالرحیم ابن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیا
”پیام صبا” برادر محترم جناب کامران غنی صبا کا پہلا شعری مجموعہ ہے اور اس کی اشاعت محکمہ کابینہ سکریٹیریٹ حکومت بہار کے مالی تعاون سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی نے کی ہے۔ اس کی قیمت محض200/-روپیہ ہے ۔ اس کو بک امپوریم ،سبزی باغ پٹنہ، ناولٹی بکس، قلعہ گھاٹ، دربھنگہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ شعری مجموعہ کو المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ دربھنگہ کے زیر اہتمام ٢٠١٧ء میں شائع کیا گیا ہے۔ کامران غنی صبااردو شعر و ادب کا ایک ایسا نام ہے جو کم وقت اور کم عمر میں ہی میں اپنی ایک شناخت قائم کر چکا ہے۔ جن لوگوں نے کامران غنی صبا کو نہیں دیکھا ہے وہ یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ شاید وہ کوئی عمر دراز شاعر ہوں گے۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہے۔ کامران غنی صبا نے کتاب کا انتساب خدا کے نام کیا ہے جبکہ عام طور پر لوگ اپنے ماں باپ یا استاد کے نام کرتے ہیں مگرکامران غنی صبا کی فکر کتنی بلند ہے کہ انہوں نے انتساب کو خدا ئے برتر کے نام کیا ہے۔ حرف آغاز میں انہوں نے اپنی بات بہت ہی سلیقہ سے پیش کی ہے۔کتاب کے پہلے حصہ میں نظم”مجھے آزاد ہونا ہے” (جو کامران غنی صبا کی شناخت اور پہچان کا ذریعہ بنی) کے تعلق سے ڈاکٹر اقبال واجد، ڈاکٹر عبدالرافع، ڈاکٹر منصور خوشتر، نسترن احسن فتیحی، ڈاکٹر احسان عالم، سیدہ تسکین مرتضی، انور الحسن وسطوی، حسیب اعجاز عاشر، سیدہ زہرہ عمران اورسلمان فیصل کے مضامین شامل ہیں۔ دوسرے باب میں حمد ، نعت، منقبت ہیں جو ٦ ہیں ۔ التجا، لب پہ ذکر حبیب خدا چاہئے، نہ طلب ہے نام و نمود کی، ایک ایسی نعت پاک لکھا دے مرے خدا، جب روح جسم سے ہو خدایا جدا مری، حسین سا کوئی ہے بتائو…..

اس کے بعد والے باب میں نظمیں ہیں جن کی تعداد بیس ہے۔ کچھ نظمیں پابند ہیں، کچھ معریٰ اور کچھ آزاد، لیکن سبھی نظموں میں تسلسل روانی اور موسیقیت ہے۔الفاظ اتنے عام فہم ہیں کہ عام قارئین بھی اسے سمجھ سکتے ہیں۔ ایک نظم امی کے نام ہے، جو ان کی سالگرہ پر کامران غنی نے پیش کی تھی:

پیاری امی!
سالگرہ پر
آپ کو کون سا تحفہ دوں میں؟
پھول تو کل مرجھا جائیں گے
اور خوشبو بھی اڑ جائے گی
پیاری امی ! سالگرہ پر
لفظوں کی میں کچھ سوغاتیں
لے کر خدمت میں حاضر ہوں
لفظ دعائوں کی صورت میں
لفظ عقیدت، لفظ محبت
بابری مسجد کی شہادت پر بھی آپ کی ایک نظم ہے جس کے چند اشعار یہ ہیں:
تئیس سال ہوئے آج ہی کا دن تھا جب
ہمارے ملک میں جمہوریت کا قتل ہوا
تم پھر یہ جھوٹ نہ بولو ہمارے ہم وطنو!
”ہمارے ملک میں جمہوریت سلامت ہے”
مرا وجود، عید کا چاند، ایک باپ کی بیٹے کو نصیحت، محبت ایک عبادت ہے، گیت (ہندوستانی بچوں کے لئے) جیسی اہم نظمیں بھی اس مجموعہ میں شامل ہیں۔

آخری باب میں ٢٨ غزلیں ہیں۔ کامران غنی صبا اچھی نظموں کے ساتھ اچھی غزلیں بھی کہتے ہیں۔ تمام غزلیں بھی خوب ہیں۔ زندگی کتنا آزمائے گی، سجدہ شوق میں سر میراجھکا ہے کیا، چلو کہ جسم کا رشتہ تمام کرتے ہیں، ہم ان کی بارگاہ میں شام و سحر گئے جیسے اہم عنوان کی غزلیں موجود ہیں۔ سب پر تبصرہ سے مضمون کے طویل ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ کامران غنی صبا صرف ایک اچھے شاعر ہی نہیں ہیں بلکہ ایک اچھے استاد بھی ہیں اور نتیشور کالج مظفرپور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ صحافت ، شعر وشاعری ، درس و تدریس سارا کام ایک ساتھ انجام دے رہے ہیں جو سب کے بس کا نہیں ہے۔ روز نامہ پندار کے ادبی صفحات کے بھی انچارج ہیں۔ اردو نیٹ جاپان کے مدیر اعزازی بھی ہیں۔ ابھی پی ایچ۔ڈی پٹنہ یونیورسیٹی سے کر رہے ہیں۔

باب کے آخر میں شاعر کا مختصر تعارف بھی ہے ۔ کتاب کا سرورق بہت عمدہ ہے ۔ طباعت بھی اچھی ہے۔ کتاب کے بیک کور پر سلمیٰ بلخی کے تاثرات پیش کیے گئے ہیں۔ سلمیٰ بلخی کامران غنی صبا کی والدہ ہیں وہ لکھتی ہیں ”کامران کو اشعار فہمی اور شعر گوئی کی صفت ورثے میںملی ہے۔ ان کا نام (کامران) ایک بڑے عالم اور بزرگ سید اسمٰعیل شمسی روح نے رکھا تھا۔”

کامران غنی صبا ایک اچھے ، بااخلاق انسان ہیں اور ہر کسی کو عزت و احترام دینا جانتے ہیں۔ اللہ ان کے شعری مجموعہ ”پیام صبا” اور کامران غنی صبا کو بھی مقبولیت عطا کرے۔ آمین۔

تحریر : عبدالرحیم ابن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیا

عکس مطالعہ____________مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہڈاکٹر محمد عارف حسن وسطوی بن انوارالحسن وسطوی بن محمد داؤد حسن مرحوم، ساکن حسن منزل آشیانہ کالونی روڈ نمبر 6 حاجی پور ویشالی بڑی تیزی سے نئی نسل کے اہل قلم کے درمیان اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں،

عکس مطالعہ____________
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ڈاکٹر محمد عارف حسن وسطوی بن انوارالحسن وسطوی بن  محمد داؤد حسن مرحوم، ساکن حسن منزل آشیانہ کالونی روڈ نمبر 6 حاجی پور ویشالی بڑی تیزی سے نئی نسل کے اہل قلم کے درمیان اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں، لکھنا ،پڑھنا ،پڑھانا ان کو ورثہ میں ملا ہے، انہوں نے پروفیسر عبدالمغنی حیات اور ادبی کارنامے پر ڈاکٹر ممتاز احمد خاں مرحوم سابق  ایسوسی ایٹ پروفیسر بہار یونیورسٹی مظفر پور کی نگرانی میں اپنا مقالہ مکمل کیا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ،ان کی پہلی تالیف داؤد حسن زبان خلق کے آئینے میں 2018 میں منظر عام پر آئی تھی ،جو ان کے کے داداپر مختلف اہل قلم کے ذریعہ لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے، 2019 میں ان کا تحقیقی مقالہ پروفیسر عبدالمغنی ناقدو دانشور کے عنوان سے سامنے آیا اور 2020 میں ان کے مضامین کے مجموعہ عکس مطالعہ نے قارئین ناقدین اور مبصرین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے سال بہ سال تالیفات و تصنیفات کی طباعت کا یہ عالم رہا تو ان کی نگارشات سے اہل علم و فن کو فائدہ پہنچے گا اور بعید نہیں کہ اردو دنیا میں وہ اپنے نامور والد کے صحیح جانشین ثابت ہوں گے، حالانکہ یہ مقام حاصل کرنا آسان نہیں ہے، انوارالحسن وسطوی کو پروفیسرثوبان فاروقی جیسے دیدہ ور نے باباہائے اردو ویشالی کہا ہے ،ڈاکٹر عارف حسن وسطوی کی طرف ارباب دانش و بینش  پوری طرح متوجہ ہیں، تبھی تو 2019 میں دو ایوارڈ سے نوازے گئے ،ایک اکبر رضا جمشید اردو ادبی ایوارڈ بہار و جھارکھنڈ اور اردو ادب ایوارڈ برائے مجموعی کارکردگی ،آخرالذکر ایوارڈ ہمنشیں بہار نے انہیں دیا تھا ۔
عکس مطالعہ ایک سہ بابی کتاب ہے، جس میں مضامین بھی ہیں تبصرے بھی ،دو مضامین مسائل اردو سے متعلق بھی شامل کتاب ہیں، مضامین والے حصے میں شاد عظیم آبادی، سلطان اختر ،ذکی احمد ذکی، پروفیسر شاہد علی، احمد اشفاق کی شاعری ،شین مظفر پوری ،مناظر عاشق ہرگانوی،بختیار ر احمد کی انشائیہ نگاری، کلیم عاجز کی مکتوب نگاری ،سید عبدالرافع کی صحافتی خدمات ،مولانا آزاد کا پھول پودوں سے شوق ،کرشن چندر کا افسانہ کالو بھنگی ، مولانا حسرت موہانی اور جنگ آزادی جیسے متنوع قسم کے مضامین شامل ہیں ،پروفیسر عبدالمغنی پردو مضمون شخصیت اور جہتیں اور ان کی نثر نگاری پراس مجموعہ میں شامل ہیں ،مجتبیٰ حسین، تیری یاد شاخ گلاب ہے، مولانا رضوان القاسمی ؛ایک جوہر کمیاب شخصیت اور پروفیسر قمر اعظم ہاشمی کی یاد میں، یاد رفتگاں کے قبیل کے مضامین ہیں ،جن میں ان کی علمی ،ادبی اور تعلیمی خدمات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے، یہ باب اٹھارہ  مضامین کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، جس کا سلسلہ صفحہ146 پر جا کر ختم ہوتا ہے، اس باب کا آغاز صفحہ نمبر 16 سے ہوا ہے ۔
تبصرے والے حصے میں اقبال شاعر اور دانشور ،حرف آگہی،امعان نظر، ڈاکٹر ممتاز احمد خاں ایک شخص ایک کارواں، مناظر عاشق ہرگانوی کی نعت گوئی میں ندرت ، مولانا ابوالکلام آزاد اور ان کا نظریہ تعلیم، سید اجمل فرید؛ یادیں، باتیں ،بہار میں اردو صحافت :سمت ورفتار،مناظر عاشق ہر گانوی کا ناول ،شبنمی لمس کے بعد ،متاع لوح و قلم، بدر محمدی کی شاعری خوشبوکے حوالے سے، انوار قمر، صدبرگ سخن ہائے گسترانہ، صدائے گوہر، سہرے کی ادبی معنویت، اردو ادب ترقی پسندی سے جدیدیت تک اور خیال خاطر ،اس باب میں اٹھارہ کتابوں پر تبصرہ ہے، عارف حسن نے ڈاکٹر ممتاز احمد خاں، مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی،بدر محمدی ،ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق ،ڈاکٹر زہرا شمائل ،ڈاکٹر احسان عالم ،ڈاکٹر منصور خوشتر ،پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی ،مولانا سید مظاہر عالم قمر ،سید مصباح الدین احمد، بختیار احمد ،ڈاکٹر محمد گوہر ،ڈاکٹر امام اعظم ،پروفیسر توقیر عالم اور مولانا رئیس اعظم سلفی کی تخلیقات ،تصنیفات ، تالیفات اور تحقیقات پر اپنے قلم کی جولانی دکھائی ہے اور ان کی تخلیقی ،تنقیدی اور تحقیقی  در وبست کو اجاگر کرنے کے ساتھ فکری اور فنی حیثیت کو بھی قاری کے سامنے رکھا ہے، اس مجموعہ کا اختتام اردو کے مسائل پر کیا گیا ہے، جس کا عنوان ہے  عوامی سطح پراردو زبان کے فروغ میں درپیش مسائل اور ان کا حل  نیز نئی نسل کی اردو سے بڑھتی دوری، اسباب اور سد باب اسے مسک الختام کہنا چاہئے۔
’’عکس مطالعہ ‘‘کا حصہ مضامین والا ہو یاتبصرہ والا دونوں میں ڈاکٹر عارف حسن نے اعتدال اور توازن کے ساتھ اپنا مطالعہ پیش کردیا ہے، ان کے تبصرہ والے مضامین کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے صرف گل چینی ہی نہیں کی ہے؛ بلکہ جہاں کہیں کوئی غلطی نظر آئی، کسی جھول پر نظر ٹک گئی تو انہوں نے برملا اس کا اظہار کردیا ہے ، تنقید کرتے وقت زبان شستہ  رکھی گئی ،سوقیانہ اور شخصیت کو مجروح کرنے والے الفاظ سے انہوں نے گریز کیا ہے ،بات ساری کہہ گئے ہیں؛ لیکن اسلوب ،پیرایہ بیان، جملوں کا انتخاب اس طرح کیا ہے کہ کسی کو اپنی  ہتک عزتی کا احساس نہیں ہوتا ؛بلکہ وہ لب لعل وشکر خارا کی طرح ایک قسم کی مٹھاس لئے ہوے ہے،ان کے الفاظ اور جملوں میں ترسیل کی جو صلاحیت ہے وہ قاری کو اس کے اندرون تک پہنچا دیتی ہے، انہوں نے خود بھی لکھا ہے کہ’’ اعتدال کی راہ ہر جگہ روا رکھی گئی ہے،‘‘ یہی اعتدال اس کتاب کی خصوصیت ہے ۔
 دوسری خصوصیت’’عکس  مطالعہ‘‘ کے مضامین کا تنوع ہے ،جس میں ادب ،شاعری ،خاکے انشائیے ،سبھی کچھ سما گئے ہیں ،ان پر قلم اٹھانے کا مطلب سیدھا سیدھا یہ ہے کہ مضمون نگار کا مطالعہ ان اصناف ادب کے سلسلے میں وسیع ہے ،جن میں گہرائی بھی ہے اورگیرائی بھی ، دو سوچونسٹھ صفحات کی  اس کتاب کا انتساب مصنف نے اپنے دادا مرحوم کے نام کیا ہے، شروع میں حرف افسرابراہیم افسر کا ہے ، اور پیش لفظ مصنف کے قلم سے ہے ،کتاب کی قیمت 160 روپے زائد نہیں مناسب ہے، کتاب المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام روشان پرنٹرس نئی دہلی سے چھپی ہے، آپ اگر پٹنہ میں رہتے ہیں تو بک امپوریم پٹنہ سے خرید سکتے ہیں ،کتاب مصنف کے پتہ کے ساتھ ممتاز اردو لائبریری ساجدہ منزل باغ ملی حاجی پور اور نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی بکساما،ویشالی  سے بھی مل سکتی ہے۔

سورج گرہن کے بارے میں کیا کہتے ہیں NASA سائنسدان ؟ جانیے کیاہیں خرافات اور کیا ہیں حقائق ؟

سورج گرہن کے بارے میں کیا کہتے ہیں NASA سائنسدان ؟ جانیے کیاہیں خرافات اور کیا ہیں حقائق ؟یہ سال کا وہ وقت ہوتا ہے جب چاند سورج اور زمین کے درمیان حرکت کرتا ہے۔ جسے سورج گرہن کہا جاتا ہے۔ جبکہ انٹارٹیکا زمین پر وہ واحد جگہ ہوگی جہاں ہفتہ یعنی 4 دسمبر کو مکمل سورج گرہن کا تجربہ ہو گا۔ سورج گرہن کے دوران سورج، چاند اور ہمارا سیارہ (زمین) کے اوپر ایک سیدھی لکیر میں سامنے ہوگا۔ اس واقعہ سے کئی ممالک اور بالخصوص ہندوستان میں لوگ کئی باتوں کا ذکر کرتے ہیں، جن میں سے بہت سی خرافات بھی ہوتی ہیں۔ دوسری جانب جزوی سورج گرہن سینٹ ہیلینا، نمیبیا، لیسوتھو، جنوبی افریقہ، جنوبی جارجیا اور سینڈوچ آئی لینڈ، کروزیٹ آئی لینڈ، فاک لینڈ آئی لینڈ، چلی، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں رہنے والے لوگوں کو نظر آئے گا۔ اطلاع کے مطابق 4 دسمبر کو طلوع آفتاب یا غروب آفتاب سے پہلے سورج گرہن کا واقعہ رونما ہوسکتا ہے۔ ناسا کے سائنسدانوں نے سورج گرہن کے بارے میں کئی حقائق کی نشاندہی کی ہے۔ آپ کی سالگرہ کے چھ ماہ بعد یا آپ کی سالگرہ پر سورج گرہن صحت خراب کی علامت ہے؟ ناسا (NASA) کے مطابق یہ نجومیوں کے درمیان ایک عام عقیدہ ہے۔ مکمل سورج گرہن اور آپ کی صحت کے درمیان کوئی فزیکل تعلق نہیں ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کی صحت اور چاند کے درمیان کوئی رشتہ نہیں کے برابر ہے۔ لوگوں سے بات چیت کے دوران وقتاً فوقتاً اس طرح کی باتیں سننے کو مل سکتے ہیں، لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مکمل سورج گرہن نقصان دہ شعاعیں پیدا کرتا ہے جو اندھے پن کا سبب بن سکتے ہیں؟ ناسا کے سائنسدانوں کے مطابق مکمل سورج گرہن کے دوران جب چاند کا سایہ سورج کو مکمل طور پر ڈھانپ لیتا ہے، تو وہ برقی مقناطیسی شعاعیں خارج کرتا ہے۔ یہ بعض اوقات سبز رنگت کی بھی ہوتی ہے۔ سائنسدانوں نے اس تابکاری کا صدیوں سے مطالعہ کیا ہے۔ سورج کی روشنی سے دس لاکھ گنا زیادہ بیہوش ہونے کی وجہ سے، کورونل لائٹ میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو 150 ملین کلومیٹر خلا کو عبور کر سکے اور ہمارے گھنے ماحول میں گھس سکے اور وہ اندھے پن کا باعث بن سکے۔

تاہم اگر آپ مکمل ہونے سے پہلے سورج کو دیکھتے ہیں، تو آپ کو شمسی سطح کی ایک جھلک نظر آئے گی اور اس سے آنکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے، حالانکہ عام انسانی جبلت کا ردعمل یہ ہے کہ کسی بھی شدید نقصان کے واقع ہونے سے پہلے فوری طور پر نظریں ہٹا لیں۔

قومی، بین الااقوامی، جموں و کشمیر کی تازہ ترین خبروں کے علاوہ تعلیم و روزگار اور بزنس کی خبروں کے لیے نیوز18 اردو کو ٹویٹر اور فیس بک پر فالو کریں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...