Powered By Blogger

منگل, دسمبر 07, 2021

بابری مسجد کا یوم شہادت تلنگانہ میں کسی احتجاج کے بغیر گزرگیاتعلیمی اور تجارتی ادارے کھلے رہے ،چارمینار کے اطراف پولیس کی چوکسی ، مکہ مسجد کے مصلیوں کی تلاشی جان

بابری مسجد کا یوم شہادت تلنگانہ میں کسی احتجاج کے بغیر گزرگیاتعلیمی اور تجارتی ادارے کھلے رہے ،چارمینار کے اطراف پولیس کی چوکسی ، مکہ مسجد کے مصلیوں کی تلاشی جان

حیدرآباد۔6 ۔ ڈسمبر (سیاست نیوز) بابری مسجد کی شہادت کو آج 29 سال مکمل ہوگئے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم جماعتوں ، تنظیموں اور قیادت کے دعویداروں نے اس غم کو بھلادیا ہے۔ 6 ڈسمبر کو ہر سال قومی سطح پر مسلم جماعتوںکی جانب سے یوم سیاہ کی اپیل کی جاتی رہی ہے لیکن اس مرتبہ حیرت انگیز طور پر ملک بھر میں کسی اہم تنظیم نے یوم سیاہ کی اپیل نہیں کی ۔ یوم سیاہ کے سلسلہ میں مسلمانوں سے اپیل کی جاتی رہی کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنے کاروبار بند رکھتے ہوئے مسجد کی شہادت کے غم کو تازہ رکھیں۔ تلنگانہ میں 6 ڈسمبر کا دن عام دنوں کی طرح گزر گیا اور کسی بھی علاقہ میں مسلمانوں نے اپنے کاروبار بند نہیں کئے۔ مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے زیادہ تر اسکولس اور کالجس معمول کے مطابق کام کرتے رہے ۔ حیرت تو اس بات پر رہی کہ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے جس سیاسی قائد نے بابری مسجد کی شہادت کے خلاف بطور احتجاج ریاستی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا تھا، ان کے قائم کردہ تعلیمی ادارے بھی آج معمول کے مطابق کھلے رہے ۔ ہندوستان بھر میں مسجد کی شہادت کے خلاف وزارت سے وہ پہلا استعفیٰ تھا ۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں کسی بھی مقام پر سیاہ پرچم تک نہیں لہرائے گئے اور دکانات و تجارتی ادارے کھلے رہے۔ کسی بھی جماعت یا تنظیم کی جانب سے یوم سیاہ کی اپیل نہیں کی گئی جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے بھی بابری مسجد کا غم منانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ۔ بابری مسجد کے مسئلہ پر ہر سال گورنر کو یادداشت پیش کرنے والے قائدین بھی اس مرتبہ خاموش رہے ۔ 6 ڈسمبر کے پیش نظر پولیس کی جانب سے کل رات سے ہی پرانے شہر کے حساس علاقوں میں چوکسی اختیار کرلی گئی تھی۔ تاریخی چارمینار اور مکہ مسجد کے اطراف بھاری تعداد میں پولیس کو تعینات کیا گیا تھا لیکن چارمینار کے اطراف صبح سے ہی معمول کے مطابق کاروبار شروع ہوگیا اور دوپہر تک چھوٹے کاروباری ہی خود اس بات پر حیرت میں تھے کہ پولیس کی زائد فورس کیوں تعینات کی گئی ہے۔ نماز ظہر کے وقت مکہ مسجد کے دونوں باب الداخلوںکو بند کرتے ہوئے پولیس مصلیوں سے پوچھ تاچھ کے بعد جانے کی اجازت دے رہی تھی ۔ گنجان مسلم آبادی والے علاقوں میں بعض ملی حمیت رکھنے والے تاجروں نے اپنے طور پر کاروبار کو بند رکھا تھا اور بعض تعلیمی اداروں نے تعطیل کا اعلان کیا تھا۔ شہر میں سعید آباد کے علاقہ میں آج کل جماعتی احتجاجی جلسہ عام منعقد کیا گیا جبکہ خواتین کی جانب سے قنوت نازلہ ادا کی گئی۔ پولیس نے 6 ڈسمبر کے عام حالات کی طرح گزرجانے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔ عام مسلمانوں کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو صرف انتخابات سے عین قبل بابری مسجد کی یاد آتی ہے۔ ر

پیر, دسمبر 06, 2021

بابری مسجد کا پیغام ہندی مسلمانوں کے نام بقلم : حمزہ اجمل جونپوریالسلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ میرے عزیز ہندستانی بیٹوں

بابری مسجد کا پیغام ہندی مسلمانوں کے نام 

بقلم : حمزہ اجمل جونپوری

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ میرے عزیز ہندستانی بیٹوں 
میری شہادت کو 29 سال گزر گئے ہیں اور آج میری شہادت کی برسی ہے مجھے دکھ نہیں کہ میری شہادت ہو گئی ہاں مجھے فخر ہے کہ میں نے ہندستانی مسلمانوں کو بیدار کر دیا اگرچہ میں عدالت میں جیت گئی تھی لیکن ظالموں سے انصاف کی امید رکھنا بھی گناہ ہے سو میں جیسے پہلی تھی ویسی اب بھی ہوں یہاں اللہ کے لئے سجدہ ہوتا تھا اور اللہ کے لئے ہی ہوگا میری شہادت کا تعلق کسی جبر اور ظلم کی داستان بھی ہے لیکن میری شہادت کا مطلب جس کے واسطے میں قربان ہوئی وہ اللہ کی ذات ہے اور مجھے کامل یقین ہے کہ وہ مجھے دوبارہ عزت بخشے گا میری شہادت کا تعلق سوئے ہوئے ہندستانی مسلمانوں کی قیادت سے بھی ہے اور ہندستانی مسلمانوں سے بھی ہے، مجھے گلہ نہیں کہ آپ لوگ میدان عمل میں نہیں آئے کیوں کہ آپ سیاسی اور سماجی اعتبار سے ٹوٹے اور بکھرے ہوئے ہو، مجھے جو مناسب لگا میں نے کیا اگر میری شہادت سے آپ لوگوں کو بیداری ملت کی بیداری ہے، اگر ملت میری اس قربانی سے بیدار ہوئی تو میں یہ سمجھوں گی کہ میری قربانی ضائع نہیں ہوئی اور اسلام تو وہ پودا ہے جس کو جتنا کانٹا جائے اسکی شاخیں اتنی زیادہ مضبوط اور وسیع تر  ہوتی ہے اس میں اتنے ہی زیادہ کونپل پھوٹتی ہے، میں بھی اسی اسلام کی ایک شاخ ہوں آج مجھے کاٹا گیا ہے تو کیا ہوا کل کو مجھے پہلے سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہونا ہے،  آج میری شہادت کا دن ہے اور قوم کا بچہ بچہ اس دن کو ایک بلیک ڈے کی طرح مناتا ہے جو کہ میرے لئے ایک عزم اور حوصلہ ہے. 
میرے بیٹوں میری شہادت پر غم زدہ ہونا آپ پر لازم ہے لیکن اس ارادے کے ساتھ کہ مجھے تعمیر کرو گے میری شہادت کا مطلب تھا کہ میری بہنیں کاشی و متھرا اور اس جیسی دیگر مساجد کی حفاظت کے لئے مسلمان تیار رہیں سیاسی اور سماجی اعتبار سے اخوت و محبت کے اعتبار سے تم سیاسی اعتبار سے کمزور تو ہوئے ہو لیکن ختم نہیں اگر تو اسکی بحال کے لیے مستعد ہو جاؤ گے تو تمہیں وہ وقار ضرور حاصل ہوکر رہیگا جو تم نے کھویا ہے۔
میری دونوں بہنیں کاشی و متھرا ظالموں کے نرغے میں ہے، قبل اسکے کہ ان کی ذات کو نقصان پہنچے اتپ میدان عمل میں ڈٹ جائیں، صف آرا ہوجائیں، ورنہ اللہ نا کرے انہیں کچھ ہوا تو تمہاری زندگی میں محض بلیک ڈے کا اضافہ ہی ہوگا نا کہ مجھے آزاد کرانے کا جگر پیدا۔
میرے بیٹوں تمہارے عزم واستقلال میں مجھے اپنی آزادی کی تصویر نظر آتی ہے، میرے لاڈلوں اور اسلام کے جیالوں میں وہ جوش نظر آ رہا، جس کے لئے میں نے قربانی دی ہے میرے جگر گوشوں تمہاری جد و جہد ضرور رنگ لائے گی کیوں کہ ناانصافی کا بھانڈا پھوٹ کر رہتا ہے اور انصاف کا ترازو ہی بلند ہوتا ہے، اگر چہ کچھ تاخیر سے ہی کیوں نہ ہو۔
میرے بچوں مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ اب ماں گود میں پلتا شیر خوار بچہ بھی میری آزادی کے عزم کے ساتھ جوان ہوتا ہے اور میری تعمیر نو کے حوصلے سے دنیا میں آنکھ کھولتا ہے۔
لیکن میرے پیاروں مجھے آپ سے ایک شکایت ہے کہ تم مجھے باقی دنوں میں بھول جاتے ہو، کیوں کرتے ہو ایسا؟ میں بھی تو اسلام کی ایک فرد ہوں مجھے یاد کر لیا کرو میری روح کو تسکین ملتی ہے اور امید کی کرن بھی ۔

ہندوستان کی دفاعی قوت میں اضافہ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ہندوستان کو چین نے تیزی سے آنکھ دکھانا شروع کر دیا ہے اس کی وجہ سے سرحد پر تناؤ میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ اس کے رشتے کبھی بھی استوار نہیں رہے،

ہندوستان کی دفاعی قوت میں اضافہ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 ہندوستان کو چین نے تیزی سے آنکھ دکھانا شروع کر دیا ہے اس کی وجہ سے سرحد پر تناؤ میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ اس کے رشتے کبھی بھی استوار نہیں رہے، جس کے نتیجے میں کئی جنگیں ہندوپاک کے درمیان ہو چکی ہیں، اور اب بھی سر حد پر ہمارے جوان ملک کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں، ایسے میں ہندوستان کی دفاعی قوت کا مضبوط ہونا انتہائی ضروری تھا۔لڑاکو طیارہ رافیل کے باوجود ضرورت اس بات کی تھی کہ ہمارے پاس دور تک مار کرنے اور دشمنوں کے ہوائی حملوں کا منہہ توڑ جواب دینے کے لیے ایسے میزائیل ہوں جو دور تک اپنے نشانے تک پہونچنے کی صلاحیت رکھنے والے اور دشمنوں کے میزائیل کو نشانے تک پہونچنے سے قبل ہی خاکستر کر دیں، اس سلسلے میں ہندوستان نے روس سے ایک معاہدہ کیا تھا، جس کی مخالفت امریکہ کی جانب سے ہو رہی تھی، ہندوستان نے اس مخالفت کی پرواہ کیے بغیر روس سے میزائیل کو مار گرانے والا ایس۴۰۰ایر ڈیفنس میزائل سسٹم کو حاصل کرنے میں  کامیابی حاصل کی ہے ، ہندوستان نے انتالیس (۳۹) ہزار کروڑ روپے میں اس سسٹم کو حاصل کیا ہے ، اس سسٹم کی بڑی خوبی یہ ہے کہ ایک ساتھ چھتیس(۳۶) لڑاکو طیارے گرا سکتا ہے ، یہ چھ سو کلومیٹر دور تک آنے والے حملہ آورطیارے اور میزائیل کو گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے، تیس کلو میٹر دور تک نشانہ لگا سکتا ہے، ۸-۴؍ کلو میٹر فی سکنڈ کی رفتار سے یہ حملہ کرتا ہے، اس میں نصب بارہ گن ایک ساتھ تین تین نشانوں کونیست ونابود کر سکتا ہے، اس میزائل کی صلاحیت پاکستان اور چین میں متعین فضائی دفاعی سسٹم سے دو گنی ہے ، اس سسٹم کے حصول سے خطے میں طاقت کا توازن قائم ہوگا، اور ہماری ہوائی افواج کے حوصلے بلند ہوں گے، اس لیے اس سسٹم کے حصول پر حکومت لائق ستائش ہے، اے پی جے عبد الکلام نے کہا تھا کہ صلح کی میز پر بھی طاقتور ہونا ضروری ہے، ورنہ کمزوروں کی کوئی سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا، اسی احساس کے ساتھ عبد الکلام نے ’’اگنی‘‘ ملک کو فراہم کرایا تھا اور اب اسی احساس کے ساتھ یہ نیا میزئیل سسٹم ہماری فضائی طاقت کا حصہ بنا ہے۔

ملعون وسیم رضوی ہندو مذہب اختیار کر لیا ملعون وسیم رضوی ہندو بن گیاملعون وسیم رضوی ہندو بن گیا

ملعون وسیم رضوی ہندو مذہب اختیار کر لیا ملعون وسیم رضوی ہندو بن گیا

ملعون وسیم رضوی ہندو بن گیا

لکھنو_ شیعہ وقف بورڈ کا سابق چیئرمین ملعون وسیم رضوی آج (پیر کو) اسلام چھوڑ کر ہندو بن گیا ۔ قرآن پاک کی آیات حذف کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دینے والا ملعون وسیم رضوی نے ہندو مذہب قبول کرلیا۔ اتر پردیش کے غازی آباد میں داسنا دیوی مندر شیو شکتی دھام کے مہنت یتی نرسمہانند گری مہاراج نے ملعون وسیم رضوی کو سناتن دھرم میں شامل کرلیا۔ ہندو مذہبی رہنماؤں کی بڑی تعداد نے وسیم رضوی کے ہندو بننے کا خیرمقدم کیا ہے۔ملعون وسیم رضوی کی کتاب پر بھی کافی تنازعہ ہوا تھا

کچھ دن قبل ملعون وسیم رضوی نے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ انہیں مرنے کے بعد دفنانے کے بجائے ہندو رسم و رواج کے مطابق سپرد خاک کیا جائے۔ قبل ملعون وسیم رضوی نے ایک ویڈیو بھی جاری کی تھی، اس سے قبل ہی مذہبی رہنماؤں نے کہا تھا کہ انہیں قبرستان میں دفنانے کی جگہ نہیں دی جائے گی۔ اسی لیے انہوں نے کہا ہے کہ ان کی موت کے بعد ان کی آخری رسومات ادا کی جائیں۔ صرف مہنت یاتی نرسمہانند گری مہاراج کو ہی اپنی چتا کو آگ دینا چاہیے۔

بابری مسجد شہادت کی 29 ویں برسی ، مظلومین کو ابھی بھی انصاف کا انتظار

بابری مسجد شہادت کی 29 ویں برسی ، مظلومین کو ابھی بھی انصاف کا انتظار

ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے شہراجودھیا میں29سال قبل اتوار 6دسمبر 1992کو تاریخی بابری مسجد کو شہید کردیا گیا ، سپریم کورٹ نے9،نومبر 2019 کواجودھیامیں 1949میں مسجد میں مورتیاں رکھے جانے اور مسجد کی شہادت کو غیر قانونی فعل قراردیتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا تھا،لیکن حتمی فیصلہ میں رام مندر کی تعمیر کا حکم دے دیا۔واضح رہے کہ ممبئی فسادات کی تحقیقات کرنے والے بمبئی ہائی کورٹ کے جسٹس بی این سری کرشنا کے کمیشن نے بھی مسجد میں 1949میں مورتیاں رکھنا اور 1992میں مسجد کی مسماری کو غیر قانونی قراردیتےہوئے بی جے پی لیڈر ایل کے اڈوانی کی رتھ یاترا کو مسجد کی مسماری کے لیے ذمہ دار قراردیاتھا۔

دراصل1992میں مسجد کی مسماری کے بعد ملک بھر میں تشددپھوٹ پڑا تھا ،لیکن ملک کے تجارتی مرکز عروس البلاد ممبئی میں بڑے پیمانے پر تشددپھوٹ پڑا تھا،شہر میں دسمبر 1992اور جنوری 1993 میں ہوئے دودورکے فسادات کی تحقیقات کے لیے حکومت نے بمبئی ہائی کورٹ کے سٹنگ جج جسٹس بی این سری کرشنا کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا جنہوں نے پانچ سال بعد ایک منصفانہ رپورٹ پیش کی تھی ،کمیشن کی سفارشات کے باوجود قصورواروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

جسٹس سری کرشنا نے اپنی رپورٹ میں بابری مسجد کی شہادت اور رام جنم بھومی کے لیے شروع کی جانے والی تحریک کو ہی بنیاد قراردیا تھا،انہوں نے سپریم کورٹ کے ذریعہ 1949میں بابری مسجد میں مورتیاں رکھنے اور مسجد کی شہادت کو غیرقانونی قراردینے کو ایک تاریخی فیصلہ بتایا ہے۔

اس کمیشن کی کارروائی کی پہلے دن سے رپورٹنگ کرنے والے اور رپورٹ کے اردومترجم معروف صحافی جاویدجمال الدین نے کہاکہ سری کرشناکمیشن نے واضح کردیا تھا کہ 1980کے عشرہ میں رام مندر کی تحریک شروع کی گئی اورایک بار پھر ہندووادی (ہندوﺅں کی فرقہ پرست جماعتوں،تنظیموں)نے اجودھیا میں بابری مسجد کی جگہ مجوزہ رام مندر کی تعمیر کرنے کی مہم شروع کردی۔ان کا دعویٰ تھا کہ یہ بھگوان شری رام کی جائے پیدائش ہے۔دوسری جانب ظاہر سی بات تھی کہ مسلمان ایک انچ زمین دینا نہیں چاہتے تھے۔

جاوید جمال الدین نے مزید کہاکہ رپورٹ کے مطابق اس تنازعہ نے اس وقت سنگین ر خ اختیار کرلیا ،جب عدلیہ کی جانب سے مقدمہ میں کافی تاخیر ہوگئی اور سیاسی مفاد کے لیے اس معاملہ کو ایک نیار خ80کی دہائی میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے دیا اور اس کے سربراہ ایل کے اڈوانی نے رام جنم بھومی۔ بابری مسجد تنازعہ پرہندوﺅں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے رتھ یاترا نکالی اور اس دوران جگہ جگہ پرفسادات ہوئے تھے۔آخر انہیں بہار میں گرفتار کیاگیاتھا،لیکن تب تک رام مندر کی مہم تیزہوچکی تھی۔

انہوں نے یہ بھی کہاکہ جسٹس سری کرشنا نے رپورٹ میں تاریخی حوالے پیش کرتے ہوئے کہاکہ ملک سے برطانوی سامراج کو باہر نکالنے کے لیے ہندوﺅں اور مسلمانوں نے متحد ہوکر آپسی ملنساری کے ساتھ جدوجہد کی تھی۔اس اتحاد واتفاق کو محمدعلی جناح کے "دوقومی نظریہ " نے تباہ وبربادکردیا۔ جس کے نتیجہ میں سیاسی طورپرملک کی تقسیم ہوگئی اور سرحد کے دونوں جانب لاکھوں معصوم اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا گیا۔ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ دیگر فرقے کی اکثریت اور اثرورسوخ رکھنے والے علاقوںمیں رہائش پذیر تھے۔انہوں نے ملک کی آزادی اور اس آئین کو تسلیم کرلیا تھا ،جس نے اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ رعایتیں بھی دی تھیں۔ ایک وقفہ کے ساتھ اقلیتی فرقہ کو دیئے جانے والے خصوصی اختیارات نے ان کی نفسیات پر گہرا اثر کرنا شروع کیا۔ہندووں میں یہ خوف پایا جانے لگا کہ جلد ہی وہ اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔ اس سوچ نے صورت حال کو کافی بگاڑدیا اور "ہم اور وہ " کی نفسیات پنپنے لگی۔اس کا سیاسی فائدہ مفاد پرستوں نے اٹھایا اور ہندوﺅں کے ایک طبقہ نے متعدد مساجد کو آزاد کرانے کے لیے مہم شروع کردی ،جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ مسلم دورحکومت میں انہیں مندر سے ہی مسجد میں تبدیل کردیا گیا تھا ،اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جانے لگی تھی اور 1949سے پھر ایک بارہندووادی (ہندوﺅں کی فرقہ پرست جماعتوں، تنظیموں)نے اجودھیا میں بابری مسجد کی جگہ مجوزہ رام مندر کی تعمیر کرنے کی مہم شروع کردی۔ان کا دعویٰ تھا کہ یہ بھگوان شری رام کی جائے پیدائش ہے۔دوسری جانب ظاہر سی بات تھی کہ مسلمان ایک انچ زمین دینا نہیں چاہتے ہیں۔

جاویدجمال الدین نے مزید کہا کہ کمیشن نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ان تحریکوں کی وجہ سے ملک کے مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہونے لگا تھا جبکہ تحریک کے رہنماءاشتعال انگیزی سے باز نہیں آرہے تھے اور اسی وجہ سےدونوں فرقوں کے درمیان خلیج بڑھتی چلی گئیں،جس کا ہندوستان کی ہم آہنگی اور بھائی چارہ پر کافی بُرا اثر ہوا ۔ان زخموں کو بھرنے کے لیے ایک عرصہ درکار ہوگا۔معروف صحافی کا کہنا ہے کہ" 6دسمبر 1992کے بعد میرے جیسے ہزاروں افراد عدم تحفظ کا شکار ہوگئے تھے ،لیکن رپورٹ کے منظرعام آنے پر اس ملک کے آئین ،سیکولرزم اور جمہوریت پر اعتماد بحال ہوا ہے ۔لیکن افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ سری کرشنا کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی ہیں ،ان میں سے صرف محکمہ پولیس کو بہتر کرنے اور جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے لیس کیا گیا،مگر قصورواروں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی اور سیکڑوں متاثرین انصاف سے محروم ہیں۔جوکہ فسادیوں کے ساتھ ساتھ پولیس کے ظلم وستم کا شکار بنے تھے۔ایسے افراد کی طویل فہرست ہے۔اور یہ لوگ انصاف کے منتظر ہیں۔

اتوار, دسمبر 05, 2021

شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی (پیدائش: 5 دسمبر 1898ء ) پورا نام شبیر حسین خاں جوش ملیح آبادی اردو ادب کے نامور اور قادر الکلام شاعر تھے۔ آپ آفریدی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میری خوش نصیبی یہ ہے کہ میں جوش صاحب کے وطن ملیح آباد کئ مرتبہ گیا ہوں،

جوش ملیح آبادی کے یومِ پیدائش پر خصوصی تحریر

تحریر - خرّم ملک کیتھوی
موبائل - 9304260090



شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی (پیدائش: 5 دسمبر 1898ء )
 پورا نام شبیر حسین خاں جوش ملیح آبادی اردو ادب کے نامور اور قادر الکلام شاعر تھے۔ آپ آفریدی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 
میری خوش نصیبی یہ ہے کہ میں جوش صاحب کے وطن ملیح آباد کئ مرتبہ گیا ہوں، 

آپ 5 دسمبر 1898ء کو اترپردیش ہندوستان کے مردم خیز علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کر کے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جوش نہ صرف اپنی مادری زبان اردو میں ید طولیٰ رکھتے تھے بلکہ آپ عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی پر عبور رکھتے تھے۔ اپنی اِسی خداداد لسانی صلاحیتوں کے وصف آپ نےقومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپور علمی معاونت کی۔نیز آپ نے انجمن ترقی اردو ( کراچی) اور دارالترجمہ (حیدرآباد دکن) میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ 22 فروری 1982ء کو آپ کا انتقال ہوا۔

جوش نے شعری فضا میں آنکھ کھولی۔ جوش کی شاعری تیرہ سال سے شروع ہوگئی تھی۔ ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاح لی،

تصانیف 

آپ کثیر التصانیف شاعر و مصنف تھے۔ آپ کے شعری مجموعوں اور تصانیف میں مندرجہ ذیل نام اہم ہیں۔

روح ادب
آوازہ حق
شاعر کی راتیں
جوش کے سو شعر
نقش و نگار
شعلہ و شبنم
پیغمبر اسلام
فکر و نشاط
جنوں و حکمت
حرف و حکایت
حسین اور انقلاب
آیات و نغمات
عرش و فرش
رامش و رنگ
سنبل و سلاسل
سیف و سبو
سرور و خروش
سموم و سبا
طلوع فکر
موجد و مفکر
قطرہ قلزم
نوادر جوش
الہام و افکار
نجوم و جواہر
جوش کے مرثیے
عروس ادب (حصہ اول و دوم)
عرفانیات جوش
محراب و مضراب
دیوان جوش

نثری مجموعے 

مقالات جوش
اوراق زریں
جذبات فطرت
اشارات
مقالات جوش
مکالمات جوش
یادوں کی برات (خود نوشت سوانح)

اہم اعزازات 
پدم وبھوشن، 1954

ہلال امتیاز، 2013

اقبال کے بعد جوش ؔ نظم کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔
آپ کو شاعر انقلاب بھی کہا جاتا ہے،

برصغیر کے ممتاز شاعر جوش ملیح کو گزرے اکتیس برس ہوگے لیکن ان کی یادیں ابھی ہمارے دلوں میں نقش ہیں ہم کبھی بھی ان کی خدمات کو فراموش نہیں کرسکتے۔ تقسیم ہند کے چند سال بعد وہ پاکستان ہجرت کرگئے ان کا مجموعہ کلام لگ بھگ چوبیس مضامین پر مشتمل ہے۔جوش نے تحریک آزادی میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے
آپ 22 فروری 1983 کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے،

گزر رہا ہے ادھر سے تو مسکراتا جا
چراغِ مجلسِ روحانیاں جلاتا جا

متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد میں ' 6 دسمبر ' کو کرشن کی مورتی نصب کریں گے ! ہندوتوا تنظیموں کا اعلان

متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد میں ' 6 دسمبر ' کو کرشن کی مورتی نصب کریں گے ! ہندوتوا تنظیموں کا اعلان

متھرا: یوپی کے متھرا میں 6 دسمبر کو شاہی عید گاہ مسجد میں کرشن کی مورتی نصب کرنے اور گنگا جل چڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ اس طلاع کے بعد شہر بھر میں انتظامیہ کی جانب سے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ مسجد کے ارد گرد یوپی پولیس، پی اے سی اور آر اے ایف کے جوانوں کو تعینات کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ ایودھیا کی بابری مسجد کی جگہ پر مندر تعمیر کا آغاز ہونے کے بعد ہندوتوادی تنظیموں کے حوصلے بلند ہیں اور اب ان کی نظریں دوسرے متنازعہ مذہبی مقامات کو حاصل کرنے پر مرکوز ہیں۔ اس کے علاوہ یوپی میں آئندہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر برسراقتدار جماعت بی جے پی کی جانب سے بھی اس مسئلہ کو طول دیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں یوپی کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے ٹوئٹ کر کے ایودھیا کے بعد متھرا میں کرشن جنم بھومی مندر تعمیر کا اشارہ کیا تھا۔

ہندوتوا تنظیموں کے اس اعلان کے بعد متھرا میں سخت چوکسی برتی جا رہی ہے۔ مسجد کی جانب جانے والے ہر شخص کا شناختی کارڈ چیک کیا جا رہا ہے اور جامہ تلاشی بھی لی جا رہی ہے۔ متھرا پولیس سوشل میڈیا پر بھی کڑی نگرانی رکھ رہی ہے۔

ایس ایس پی متھرا کے مطابق اب تک سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز پوسٹ کرنے پر شہر کے گووند نگر اور کوتوالی پولیس تھانہ میں 4 ایف آئی آر درج ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 6 دسمبر کو شاہی عیدگاہ مسجد اور شری کرشن رام جنم بھومی کے مقام پر گاڑیوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد رہے گی۔ اس کے لئے باضابطہ طور پر ٹریفک ایڈوائیزری بھی جاری کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ 6 دسمبر کو بابری مسجد کی برسی کے موقع پر متھرا میں چار ہندوتوا تنظیمیں اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا، شری کرشن جنم بھومی نرمان نیاس، نرائنی سینا اور شری کرشن مکتی دل نے شاہی عید گاہ میں جلابھیشیک (گنگا جل چڑھانے) کا اعلان کیا ہے۔ وہیں اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا نے انتظامیہ سے مسجد میں کرشن کی مورتی نصب کرنے کی اجازت طلب کی۔ تاہم انتظامیہ نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...