Powered By Blogger

جمعرات, دسمبر 09, 2021

اجتماعی زندگی کے تقاضے ______مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اجتماعی زندگی کے تقاضے ______
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ فرد کی سوچ اپنے خاندان سے آگے نہیں بڑھ پاتی وہ اپنی ذات میں جیتا ہے، اپنے بال بچوں کے بارے میں سوچتا ہے، اس کے غور وفکر کا دائرہ انتہائی محدود ہوتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میں اچھا تو سب اچھا، اس کی منصوبہ بندی اور ترقیاتی کام بھی اسی دائرہ میں محدود ہوتا ہے، سماج میں اس قسم کے افراد کثرت سے پائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے خود غرضی عام ہو رہی ہے اور اپنا مفاد، اپنا بھلا سے بات آگے نہیں جاتی ۔
 اجتماعی زندگی میں انسان کی سوچ اپنی ذات خاندان؛ بلکہ رشتہ داری سے آگے بڑھ کر ملی ، سماجی اور معاشرتی دائرے میں آگے بڑھتی ہے، اس کے غور وفکر کا دائرہ وسیع ہوتا ہے، اور وہ اپنا نقصان کرکے بھی ملک وملت کے مفاد کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتا ہے اور اس کی عملی حصہ داری اس میں ہوتی ہے ، ایسے لوگ اس بات پر قادر ہوتے ہیں کہ مختلف طبقات کو جوڑ کر ایک ایسا اجتماعی نظام وجود میں لائیں، جس میں تشاور، توافق اور تعاون کا جذبہ پایا جاتا ہو، ایسے لوگ ملک وملت کے لیے انتہائی نفع بخش ہوتے ہیں، وہ بیج کی طرح کھیت میں دفن ہو کر سر سبز وشاداب فصلوں کے لہلہانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
 انفرادی سوچ کو اجتماعی رخ دینے اور مختلف طبقات کو جوڑنے میں بڑی اہم چیز آپس کا مشورہ ہے ، یہ مشورہ عمومی ہونا چاہیے اور جن لوگوں کی اس ہدف تک پہونچانے میں ضرورت ہے سب کو جوڑ لینا چاہیے، اس سے ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھتا ہے اور کام کو عملی طور پر زمین میں اتارنے میں مدد ملتی ہے ، کاموں اور تنظیمی ڈھانچوں کے اعتبار سے کسی کا بڑا چھوٹا ہونا انتظامی ضرورت ہے، لیکن اجتماعی کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ مشوروں میں لوگوں کو شریک کیا جائے، پھر یہ مشورے بند کمروں میں سازشوں کی طرح نہ کیے جائیں، ان میں کُھلا پن لایا جائے، سب کی سنی جائے اور فیصلہ اکثریت پر نہیں قوت دلیل کی بنیاد پر کیا جائے، مشورے کے اس عمل سے مزاجی ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنے کے جذبے کو فروغ ملے گا، اسی کو اصطلاح میں توافق کہتے ہیں۔
مشورے اور موافقت کے بعد ضروری ہے کہ ایک مہم اور ٹیم کے طور پر کام کو آگے بڑھانے میں لگ جایا جائے، اورمربوط انداز میں کام کیا جائے، کام جس قدر آگے بڑھے اس کی اطلاع بھی ٹیم کے افراد کو رہے، تاکہ کام کے آگے بڑحنے پر حوصلہ افزائی کی جائے اور اگر کہیں کوئی رکاوٹ آ رہی ہے تواس کو دور کرنے کے لیے سب مل کر کوشش کریں۔
اسلام اجتماعی زندگی کا سب سے بڑا داعی ہے، اس کی عبادتیں اجتماعی زندگی گذارنے کا مظہر اتم ہیں، نماز با جماعت پڑھی جائے، مہینہ بھر کا روزہ ایک ساتھ رکھا جائے، کعبہ، منیٰ، عرفہ، مزدلفہ ہر دن اپنی جگہ پر موجود ہونے کے باوجود حج کے لیے پانچ دن کی تخصیص کا مفہوم بھی یہی ہے کہ اجتماعی طور پر اس عبادت کو انجام دیا جائے۔
 اجتماعی زندگی کو برپا کر نے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ زندگی کے دوسرے کاموں کی طرح ہمارے لیے نمونہ عمل ہے، مومنین کے لیے انتہائی شفیق ، رحم دل بلکہ رحمۃ للعالمین نرم دل بنایا گیا تاکہ لوگ ان کے گرد جمع ہوجائیں ، لوگوں کو معاف کرنے اوران کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کی ہدایت دی گئی ، مشورہ کرنے پر زور دیا گیا، اور پھر جب فیصلہ ہوجائے تو اسے اللہ پر بھروسہ کرکے کر گزرنے کی بات کہی گئی ۔
واقعہ یہی ہے کہ قائدین کا نرم دل ہونا ضروری ہے ، اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کی یہ صفت خاص بیان کی کہ اللہ رب العزت نے اپنی رحمت سے آپ کو نرم دل بنایا، اگر آپ سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے چَھٹ جاتے۔
 غلطیاں کام کرنے والے سے ہی ہوتی ہیں، شیخ سعدی نے لکھا ہے کہ ’’نہ کردن یک عیب وکردن صد عیب است‘‘یعنی اگر آپ کام نہیں کرتے تو یہ ایک عیب ہے کہ لوگ آپ کو ناکارہ کہہ کر گذر جائیں گے، لیکن اگر آپ تعمیری کاموں میں لگے ہوئے ہیں تو لوگ دس عیب نکالیں گے ، تنقیدیں کریں گے ، برا بھلا کہیں گے ، ظاہر ہے آپ اور ہم سب انسان ہیں، اس کے اثرات دل ووماغ پر پڑنا فطری ہے، اس سے حوصلے ٹوٹتے ہیں، کام کا جذبہ سرد پڑتا ہے، یہ اثرات دل ودماغ پر کم پڑیں یا نہ پڑیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے ساتھیوں کو معاف کر نے کا مزاج بنایا جائے، پھر چوں کہ ان کے طرز عمل سے اجتماعی کاموں میں رخنہ پیدا ہو گیا ہے ، اس لیے صرف دل سے معاف کر نا کافی نہیں ہے ، ان کے لیے مغفرت کی دعا بھی کرنی چاہیے، آپ کے معاف کرنے سے دنیاوی طور پر کام میں خلل نہیں واقع ہوگا اور آپ کی دعاء مغفرت اسے آخرت کے باز پرس سے بچانے کا سبب بنے گا۔
 معاف کرنے اور مغفرت کی دعا کرنے کے بعد بھی اجتماعی نظام کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ان کو مشورے میں شریک کیا جائے، تاکہ وہ یہ نہ محسوس کریں کہ مجھے چھانٹ دیا گیا ہے ، چھانٹنے کے عمل سے بھی آدمی ٹوٹ کرانفرادی زندگی کی راہ پر چل پڑتا ہے، جو اجتماعی زندگی کو سبوتاژ کرنے کا عمل ہے ۔
 اتنے مراحل کے بعد جب مشورہ سے کوئی بات طے ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرکے کام کا آغاز کردیا جائے اور اب لیت ولعل کا سہارا نہ لیا جائے، اللہ پر بھروسہ ہمارے کام کی اساس ہے، اخلاص کے ساتھ اس راہ پر آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔بہت سارے لوگ اس کے بعد بھی کوشاں ہوتے ہیں کہ جو دن مقرر کیا گیا ہے اس تک پہونچنے میں رکاوٹیں کھڑی کریں اور ان کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ غیر ضروری مشورے دے کر کامیابی کے یقین کو تذبذب میں ڈالنے اور شکوک وشبہات پیدا کرنے میں اپنے تئیں ان کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے مفاد کے لیے اجتماعی منصوبوں کو انفرادیت کی طرف لے جائیں تاکہ ان کی اہمیت برقرار رہے۔ایسے لوگ اجتماعی زندگی کے تقاضوں کو نہیں سمجھتے ، وہ اپنے خول سے باہر نہیں نکل پاتے، بظاہر وہ اجتماعی زندگی سے جُڑے ہوتے ہیں، لیکن وہ اندرہی اندر اجتماعیت کو فنا کے گھاٹ اتارنے کے لیے کام کرتے ہیں، ایسے لوگوں سے ہمہ وقت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔
اجتماعی زندگی کی سب سے چھوٹی اکائی خاندان ہوتا ہے اور سب سے زیادہ جھگڑے اجتماعی زندگی کے تقاضوں کی ان دیکھی کی وجہ سے ہی پیدا ہوتے ہیں، خاندان کا سربراہ اگر ان امور کی رعایت کرے، ہرکام میں گھر کے لوگوں سے مشورہ لینے کے ساتھ ان کی بھول چوک کو نظر انداز کرنے کا مزاج  بنالے تو یہ جھگڑے ختم ہوجائیں گے ، لیکن وہاں بھی اپنی سرخروئی اور گارجین سے قریب ہونے کی خواہش کی وجہ سے افراد ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور خاندان ٹوٹ کر رہ جاتا ہے ، آج خاندانی انتشار اور بکھراؤ کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہاں بھی اجتماعی زندگی کے تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا جارہا ہے۔
 اجتماعی زندگی کو مضبوط ، مربوط اور مستحکم کرنے کے لیے انابت الی اللہ بھی انتہائی ضروری ہے، کیوں کہ لوگوں کے قلوب تو اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہیں، سارے کام اسی کی مرضی اور مشیت سے ہوتے ہیں، ہمیں چوں کہ اللہ کی مرضی کا پتہ نہیں اس لیے اسباب کے اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، نتیجہ وہی آنا ہے جو مرضی مولیٰ ہے۔
 اجتماعی کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ملکی قوانین کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے، اور منصوبہ بندی کرتے وقت مضبوطی سے قوانین کی پاسداری کی جائے، یقینا بہت سارے لوگ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے پر یقین رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ہمیں پریشانیوں کا سامنا ہے، بلکہ رکاوٹیں اجتماعی کاموں پر کھڑی کی جا رہی ہیں، لیکن ہمارا عمل ملکی قوانین کے دائرے میں ہونا چاہیے، ہمارے بڑوں نے یہی سکھایا ہے اور یہی وقت کا تقاضہ بھی ہے۔

بدھ, دسمبر 08, 2021

اومیکرون کی دہشت_______ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہدنیا ابھی کورونا کی دہشت اور وحشت سے پورے طور پر نکلی بھی نہیں تھی کہ اب اس کے نئے

اومیکرون کی دہشت_______
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
دنیا ابھی کورونا کی دہشت اور وحشت سے پورے طور پر نکلی بھی نہیں تھی کہ اب اس کے نئے ویرینٹ اومیکرون نے پوری دنیا کو دہشت میں مبتلا کر دیا ہے ، یہ ویرینٹ جنوبی افریقہ میں پایا گیا ہے اور تیزی سے اپنے پاؤں پھیلا رہا ہے ، جس کی وجہ سے تمام حکومتوں نے کورونا سے راحت کے بعد بدلی ہوئی پالیسی پر سے نظر ثانی کا کام شروع کر دیا ہے ۔
ابھی چند دن قبل وزارت داخلہ، خارجہ اور محکمۂ صحت سے متعلق مشترکہ مشاورتی میٹنگ میں بین الاقوامی پروازوں کو پھر سے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، لیکن نئے ویرینٹ سے پیدا شدہ خطرات کی وجہ سے وزیر اعظم نے اس فیصلے پر نظر ثانی کی ہدایت دی ہے اور بیرون ملک سے آنے والوں کی جانچ اور گہری نظر رکھنے کی ضرورت پرزور دیا ہے ، اس نئے ویرینت اور میکرون نے جنوبی افریقہ کے بعد ہانگ کانگ، بوٹسوانہ، اسرائیل، اور بلیجیم تک کا سفر طے کر لیا ہے ، حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے برطانیہ، آسٹرلیا، کینڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی اور ہالینڈ نے نو افریقی ممالک سے یسوتھو، اسواتینی، موربیقی، مالی اور بوتسوانہ سے آنے والی پروازوں پر پابندی لگا دی ہے ، خبر یہ بھی ہے کہ اب اس فہرست میں امریکہ، سعودی عرب، سری لنکا، برازیل ، ایران ، یمن ، متحدہ عرب امارات سمیت کچھ دوسرے ممالک بھی شامل ہو گیے ہیں، ہندوستان حالات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے، اس معاملہ میں حزب مخالف بھی حکومت کے ساتھ ہے اور اس سے چوکنا رہنے اور متاثرہ ملکوں سے پروازوں کو روکنے کی ضرورت بتائی ہے ، اس سلسلے میں حکومت نے جو اقدام کیے ہیں اس کے پیش نظر ۴۸؍ گھنٹے قبل کی کوڈ ٹسٹ رپورٹ دینی ہوگی ، اور چودہ دن تک کو رنٹائین رہنا ہوگا۔عام شہریوں سے بھی وزیر اعظم نے اپیل کی ہے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل جاری رکھیں، جسمانی فاصلے اور ماسک لگانا بھی احتیاطی تدابیر کا حصہ ہے، اسے اپنا نا چاہیے اور اس معاملہ میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔

مولانا مظہرالحق عربی و فارسی یونیورسیٹی سے عالم،فاضل اور بی ایڈ کے امتحان کی تاریخوں کا اعلان،کب سےہوگا امتحان جانیں یہاں

مولانا مظہرالحق عربی و فارسی یونیورسیٹی سے عالم،فاضل اور بی ایڈ کے امتحان کی تاریخوں کا اعلان،کب سےہوگا امتحان جانیں یہاں

پٹنہ ، 5 دسمبر (اردو دنیا نیوز ۷۲) مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسیٹی پٹنہ نے مختلف شعبوں میں امتحان کی تاریخوں کا اعلان کیا ہے ، جس میں بی اے ، بی کام ، عالم سال اول سال دوم ، فاضل، بی ایڈ سال اول سال دوم ، ایم بی اے ، پی جی وغیرہ شامل ہے

عالم سال اول ، سال دوم اور فاضل کا امتحان اسی مہینے  13 دسمبر سے شروع ہوگا اور 21 دسمبر تک چلے گا ، جبکہ بی ایڈ کا امتحان جنوری میں لیا جائے گا


وارانسی : مسجد کو زعفرانی رنگ سے پینٹ کرنے کے خلاف احتجاج ، اب پرانے رنگ میں تبدیل

وارانسی : مسجد کو زعفرانی رنگ سے پینٹ کرنے کے خلاف احتجاج ، اب پرانے رنگ میں تبدیل

اتر پردیش،وارانسی کے شری کاشی وشواناتھ دھام کی افتتاحی تقریب کو یادگار اور عظیم الشان بنانے کے لیے وارانسی ضلع انتظامیہ نے رات دن ایک کر دیا ہے۔ میداگین بلانالہ سے وشواناتھ دربار کی طرف جانے والی سڑک کے دونوں اطراف کی عمارتوں کو زعفرانی رنگ سے پینٹ کیا جا رہا ہے۔ عمارتوں کی پینٹنگ کے دوران، بلانالہ کے قریب واقع مسجد کو بھی زعفرانی رنگ سے پینٹ کر دیا گیا تھا۔ یہ دیکھ کر مسجد سے وابستہ لوگوں نے احتجاج کیا۔

جیسے ہی معاملہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، تنازعہ کو روکنے کے لیے منگل کو دوبارہ مسجد کو سفید رنگ سے پینٹ کروایا جا رہا ہے۔ مسجد انتظامیہ سے وابستہ عہدیداروں کا الزام ہے کہ ان سے پوچھے بغیر وارانسی ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے مسجد کو پینٹ کروا دیا۔ اس سے ماحول خراب ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں شری کاشی وشوناتھ مندر کے ایگزیکٹیو آفیسر کا کہنا ہے کہ فی الحال ہمیں کوئی تحریری اعتراض نہیں ملا ہے۔ مسجد کو زافرانی کے رنگ سے نہیں پینٹ کیا گیا ہے۔ میداگین سے لے کر گودولیا تک تمام عمارتوں پر پینٹ کیا گیا ہے۔ یہ کسی مذہبی جذبات سے متاثر ہو کر نہیں کیا گیا بلکہ یکسانیت کے لیے سڑک کنارے تمام عمارتوں کو ایک ہی رنگ سے پینٹ کیا جا رہا ہے۔ مسجد کو پرانے پینٹ سے دوبارہ پینٹ کیا جا رہا ہے۔

13 دسمبر کو وزیر اعظم نریندر مودی شری کاشی وشواناتھ دھام کا افتتاح کریں گے۔ افتتاح کے پیش نظر ان دنوں مندر کے اندر اور ارد گرد تیاریاں جاری ہیں۔ کاشی وشوناتھ دھام جانے والی سڑک کو بھی سجایا جا رہا ہے۔ اس کے تحت مائدہگین سے چوک تک سڑک کے دونوں اطراف واقع عمارتوں کو زافرانی رنگ میں پینٹ کیا جا رہا ہے۔

منگل, دسمبر 07, 2021

امارتِ شرعیہ کی جانب سے اٹھا یا گیا اہم قدم!


امارتِ شرعیہ کی جانب سے اٹھا یا گیا اہم قدم!

ارریہ6دسمبر: امیرشریعت لگاتارامارت کومستحکم اوروسیع کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔چمپارن کے بعدارریہ میں دارالقضاء کاقیام عمل میں آچکاہے۔اس موقعہ پرامیرشریعت نے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ دار القضاء کا وجود اس سر زمین پر اللہ کی رحمت اور اسلامی نظام عدل کی بین علامت ہے ، ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم سب کا فریضہ ہے کہ اگر ہمار ے درمیان کوئی نزاع ہو جائے تو اس کو اللہ اور رسول کے احکام کے ذریعہ حل کرائیں اور دار القضاء ایسی جگہ ہے ، جہاں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے مطابق معاملات کا حل کیا جاتا ہے ۔ اس لیے ہم سب کو چاہئے کہ اپنے عائلی معاملات دار القضاء کے ذریعہ حل کرائیں ۔

 

ارریہ کے بیر نگر بسہریا میں دار القضاء کے قیام کے موقع پر منعقد اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایاہے کہ دار القضاء ایسی جگہ ہے ، جہاں ہر ایک کو انصاف ملتا ہے ، یہاں نہ کوئی ہارتا ہے نہ کوئی جیتتا ہے بلکہ دونوں فریق انصاف پاتے ہیں اور دونوں جیت کر اٹھتے ہیں ، جس کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے وہ شریعت کے مطابق اپنا حق پانے کے اعتبار سے جیتتا ہے اور جس کے خلاف فیصلہ ہوتا ہے ، وہ بھی حقدار کا حق مارنے کے گناہ سے محفوظ رہتا ہے ۔اوراس طرح دونوں خیر کو حاصل کرتے ہیں۔دارا لقضاء کا قاضی انصاف کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق فریقین کے بیانات سنتا ہے اور ان کے مسائل کا حل نکالتا ہے ، دار القضاء میں صرف فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ مسائل اور مشکلات کاحل نکالا جاتا ہے۔آپ نے کہا کہ امارت شرعیہ وہ واحد ادارہ ہے ، جس نے امت کے سبھی مسائل کو بڑے سلیقے سے حل کیا ہے ، اور وقت کے تقاضوں کے پیش نظر ہر ممکن اقدام کیا ہے ۔

آپ نے امارت شرعیہ کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ امارت شرعیہ صرف چاند دیکھنے اور قومی محصول لینے کا ادارہ نہیں ہے ۔ بلکہ امارت شرعیہ وہ ادارہ ہے ، جس پر لوگوں کا اعتماد اور بھروسہ ہے اور جو ہر میدان میں مسلمانوں کی رہنمائی کرتی ہے ۔امارت شرعیہ وہ ادارہ ہے ، جس نے امت کی اجتماعیت اور اتحاد کو برقرار رکھا ہے اور اپنے دائرہ کار میں لوگوں کے لیے ایک امیر شریعت کی ماتحتی میں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی شریعت کے دائرے میں گزارنے کو امارت شرعیہ نے ممکن بنایا ہے۔یہ امارت شرعیہ کے قیام کا بنیادی مقصد ہے ۔آپ نے مزید کہا کہ امت کی رہنمائی اور اس کی خدمت کے لیے امارت شرعیہ کے خدام ہمیشہ تیار رہتے ہیں ، جہاں بھی جیسی بھی ضرورت درپیش ہوئی امارت شرعیہ کے ارکان لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوئے ۔انہوں نے آپسی انتشار و افتراق ختم کر کے امت کے وسیع تر مفاد میں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ امارت شرعیہ کا اہم مشن اتحاد بین المسلمین ہے ۔

 
انہوں نے تعلیم کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر دور میں تعلیم و تربیت کی ضرورت رہی ہے ، جس قوم نے تعلیم و تربیت پر توجہ دی وہ کامیاب ہوئی ، بغیر تعلیم کے ہمارا گزارا نہیں ہو سکتا ۔ آپ نے نہ صرف لڑکوں بلکہ لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کی بھی اپیل کی۔خیال رہے کہ بیر نگر بسہریا میں دار القضاء کے قیام کے ساتھ ساتھ یہاں تعلیمی مکتب اور سلائی سنٹر کا قیام بھی حضرت امیر شریعت مد ظلہ العالی کے ہاتھوں ہوا۔ امارت شرعیہ سے تربیت یافتہ عالم دین مولانا عبد التواب صاحب کو دارا لقضاء بیر نگر بسہریا کا قاضی شریعت مقرر کیا گیااور حضرت امیر شریعت نے اپنے ہاتھوں سے انہیں پورے مجمع کے سامنے سند قضا دیتے ہوئے ان کے قاضی ہونے کا اعلان کیا۔ اجلاس میں حضرت امیر شریعت کے علاوہ قاضی شریعت مرکزی دار القضاء مولانا محمد انظار عالم قاسمی صاحب ، مولانا مفتی محمد سہراب ندوی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ، مولانا مفتی شمیم اکرم رحمانی معاون قاضی شریعت امارت شرعیہ کے علاوہ مولانا عتیق اللہ رحمانی قاضی شریعت ارریہ ،قاضی ارشد قاسمی قاضی شریعت پورنیہ،مولانا فیاض عالم قاسمی قاضی شریعت مدھے پورہ ،مولانا اسعد عثمانی قاضی شریعت قاضی شریعت جوگبنی نے بھی قضاء کے مختلف پہلوؤں پر خطاب کیا۔اور دار القضاء کی اہمیت و ضرورت کو لوگوں کے سامنے تفصیل سے رکھا ۔پروگرام کے انتظام و انصرام میں مولانا سعوداللہ رحمانی،مولانا ابوذر مفتاحی نے اہم رول اداکیا۔یہاں دارا لقضاء کے قیام سے علاقہ کے لوگ بہت خوش ہیں،

حضرت امیر شریعت اور امارت شرعیہ کے اکابر علماء کرام کا مقامی لوگوں نے پر جوش طریقہ سے استقبال کیا اور حضرت امیر شریعت مد ظلہ کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کر کے اپنی عقیدت و محبت اور خلوص کا ثبوت پیش کیا۔ نیز اجلاس عام میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شریک ہوکر امارت شرعیہ سے اپنی قلبی وابستگی اور حضرت امیر شریعت مد ظلہ العالی کی سمع طاعت کا عہد کیا ۔اور امارت شرعیہ کے مقاصد کی تکمیل میں اپنا ہر طرح کے تعاون دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ واضح ہو کہ بیر نگر بسہریا کے پروگرام سے قبل حضرت امیر شریعت نے مہدی پوربازار سوپول اور امان اللہ پٹی میں منعقد نشستوں سے بھی خطاب کیا ۔

گروگرام : اب نماز پر کوئی ہنگامہ نہیں ہوگا ، میٹنگ ان 18 مقامات پر ہندو مسلم متفق میں

گروگرام : اب نماز پر کوئی ہنگامہ نہیں ہوگا ، میٹنگ ان 18 مقامات پر ہندو مسلم متفق میں

گروگرام میں عوامی مقامات پر نماز کو لے کر تنازع ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ اس مسئلہ پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آنے والے ہندو اور مسلم گروپوں نے نماز کے لیے 18 جگہوں پر اتفاق کیا ہے۔ ان میں سے 12 مقامات مساجد اور 6 عوامی میدان ہیں۔ وقف بورڈ کی اراضی ملتے ہی 6 عوامی مقامات پر نماز بھی روک دی جائے گی۔ ہندو سنگھرش سمیتی نے بھی کہا ہے کہ اس معاہدے کے ساتھ ہی تنازعہ ختم ہو گیا۔

گروگرام انتظامیہ کے ساتھ مشترکہ میٹنگ میں دونوں برادریوں کے نمائندوں نے نماز پڑھنے کے لیے نئی جگہوں پر اتفاق کیا، جس میں 12 مساجد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، چھ عوامی مقامات مختص کیے گئے ہیں جہاں کمیونٹی کی جانب سے حکام کو ان مقامات کے استعمال کے لیے قانونی کرایہ ادا کرنے کے بعد نماز ادا کی جائے گی۔

معاہدے کے بعد، 20 عوامی مقامات پر نماز نہیں پڑھی جائے گی جہاں اکثر مظاہرے ہوتے تھے، خاص طور پر سیکٹر 37 کے مقام پر، جہاں گزشتہ جمعہ کو صورتحال غیر مستحکم ہوگئی تھی۔ مساجد کے علاوہ، میٹنگ میں منظور شدہ یہ 6 جگہیں ہیں - اٹلس چوک گراؤنڈ، پیپل چوک ہڈا لینڈ صنعت وہار فیز 2، اسپائس جیٹ آفس ہڈا زمین صنعت وہار کے سامنے، لیزر ویلی گراؤنڈ، ہڈا زمین گالف کورس روڈ، سیکٹر 42 اور سیکٹر 69 ہڈا لینڈ۔
ہندو سنگھرش سمیتی کے صدر مہاویر بھردواج نے کہا کہ 12 مساجد کے علاوہ، ہم نے چھ عوامی میدانوں پر اتفاق کیا ہے، جنہیں ہمارے مسلمان بھائی یا امام تنظیم ہر جمعہ کو کرایہ پر دینے پر راضی ہیں۔ وہ ان جگہوں کو اس وقت تک استعمال کریں گے جب تک کہ ان کی وقف بورڈ کی جائیدادیں خالی نہیں کر دی جاتیں یا انہیں دی جاتی ہیں۔ ان 18 منظور شدہ جگہوں میں سے کسی پر کوئی اعتراض یا مداخلت یا احتجاج نہیں ہوگا۔ ہمارے لیے اس تصفیے سے مسئلہ ختم ہو گیا ہے۔

واضح رہے کہ نماز کو لے کر گزشتہ ایک ماہ سے تنازع چل رہا تھا۔ تاہم تصفیہ کے بعد اب امن کی امید کی جا سکتی ہے۔ لیکن پولیس کسی بھی قیمت پر سست نہیں ہوگی۔ گروگرام پولیس نے کہا کہ وہ اب بھی تمام مقامات پر سیکورٹی کو یقینی بنائے گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ شہر میں کوئی خلل یا کشیدگی نہ ہو۔

بابری مسجد کا یوم شہادت تلنگانہ میں کسی احتجاج کے بغیر گزرگیاتعلیمی اور تجارتی ادارے کھلے رہے ،چارمینار کے اطراف پولیس کی چوکسی ، مکہ مسجد کے مصلیوں کی تلاشی جان

بابری مسجد کا یوم شہادت تلنگانہ میں کسی احتجاج کے بغیر گزرگیاتعلیمی اور تجارتی ادارے کھلے رہے ،چارمینار کے اطراف پولیس کی چوکسی ، مکہ مسجد کے مصلیوں کی تلاشی جان

حیدرآباد۔6 ۔ ڈسمبر (سیاست نیوز) بابری مسجد کی شہادت کو آج 29 سال مکمل ہوگئے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم جماعتوں ، تنظیموں اور قیادت کے دعویداروں نے اس غم کو بھلادیا ہے۔ 6 ڈسمبر کو ہر سال قومی سطح پر مسلم جماعتوںکی جانب سے یوم سیاہ کی اپیل کی جاتی رہی ہے لیکن اس مرتبہ حیرت انگیز طور پر ملک بھر میں کسی اہم تنظیم نے یوم سیاہ کی اپیل نہیں کی ۔ یوم سیاہ کے سلسلہ میں مسلمانوں سے اپیل کی جاتی رہی کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنے کاروبار بند رکھتے ہوئے مسجد کی شہادت کے غم کو تازہ رکھیں۔ تلنگانہ میں 6 ڈسمبر کا دن عام دنوں کی طرح گزر گیا اور کسی بھی علاقہ میں مسلمانوں نے اپنے کاروبار بند نہیں کئے۔ مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے زیادہ تر اسکولس اور کالجس معمول کے مطابق کام کرتے رہے ۔ حیرت تو اس بات پر رہی کہ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے جس سیاسی قائد نے بابری مسجد کی شہادت کے خلاف بطور احتجاج ریاستی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا تھا، ان کے قائم کردہ تعلیمی ادارے بھی آج معمول کے مطابق کھلے رہے ۔ ہندوستان بھر میں مسجد کی شہادت کے خلاف وزارت سے وہ پہلا استعفیٰ تھا ۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں کسی بھی مقام پر سیاہ پرچم تک نہیں لہرائے گئے اور دکانات و تجارتی ادارے کھلے رہے۔ کسی بھی جماعت یا تنظیم کی جانب سے یوم سیاہ کی اپیل نہیں کی گئی جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے بھی بابری مسجد کا غم منانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ۔ بابری مسجد کے مسئلہ پر ہر سال گورنر کو یادداشت پیش کرنے والے قائدین بھی اس مرتبہ خاموش رہے ۔ 6 ڈسمبر کے پیش نظر پولیس کی جانب سے کل رات سے ہی پرانے شہر کے حساس علاقوں میں چوکسی اختیار کرلی گئی تھی۔ تاریخی چارمینار اور مکہ مسجد کے اطراف بھاری تعداد میں پولیس کو تعینات کیا گیا تھا لیکن چارمینار کے اطراف صبح سے ہی معمول کے مطابق کاروبار شروع ہوگیا اور دوپہر تک چھوٹے کاروباری ہی خود اس بات پر حیرت میں تھے کہ پولیس کی زائد فورس کیوں تعینات کی گئی ہے۔ نماز ظہر کے وقت مکہ مسجد کے دونوں باب الداخلوںکو بند کرتے ہوئے پولیس مصلیوں سے پوچھ تاچھ کے بعد جانے کی اجازت دے رہی تھی ۔ گنجان مسلم آبادی والے علاقوں میں بعض ملی حمیت رکھنے والے تاجروں نے اپنے طور پر کاروبار کو بند رکھا تھا اور بعض تعلیمی اداروں نے تعطیل کا اعلان کیا تھا۔ شہر میں سعید آباد کے علاقہ میں آج کل جماعتی احتجاجی جلسہ عام منعقد کیا گیا جبکہ خواتین کی جانب سے قنوت نازلہ ادا کی گئی۔ پولیس نے 6 ڈسمبر کے عام حالات کی طرح گزرجانے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔ عام مسلمانوں کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو صرف انتخابات سے عین قبل بابری مسجد کی یاد آتی ہے۔ ر

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...