Powered By Blogger

بدھ, دسمبر 15, 2021

اسمبلی میں وندے ماترم مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اسمبلی میں وندے ماترم 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
جد یو اور بی جے پی کی مخلوط حکومت نے بی جے پی کے ایجنڈا پر کام شروع کر دیا ہے ، اسی کی ایک کڑی حالیہ اسمبلی اجلاس کا آغاز واختتام وندے ماترم سے کرنا ہے، مجلس اتحاد المسلمین کے ریاستی صدر اور رکن اسمبلی جناب اختر الایمان نے اس معاملہ پر اپنا احتجاج اسمبلی میں درج کرایا،یہ اچھی بات ہے، سارے اعمال کو آنکھ بند کرکے سہہ لینے سے فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں، اختر الایمان پر مختلف ارکان نے جو تبصرے کیے وہ قابل مذمت ہیں واقعہ یہ ہے کہ وندے ماترم میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ ہمارے مذہبی معتقدات اور دستور میں دیے گئے مذہبی آزادی کے تصورات سے میل نہیں کھاتے ، اس لیے اس کے اسمبلی میں گائے جانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مسلمانوں کی واضح سوچ شریعت کی روشنی میں یہ ہے کہ ملک ہمیں محبوب ہے، لیکن یہ معبود نہیں ہے، اس لیے ہم کسی ایسی بات کو نہیں دہرا سکتے جس سے معبود ہونا ثابت ہوتا ہو۔ حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم نے اس واقعہ کا سخت نوٹس لیا ہے، وزیر اعلیٰ اور اسمبلی کے صدر نشیں (اسپیکر) سے آئندہ اس قسم کی حرکتوں پر روک لگانے کی اپیل کی ہے، تاکہ سیکولرزم کے بنیادی ڈھانچہ کو دھکانہ لگے، یوں بھی اختیاری چیزوں کو لازم کرنا دستور ہند کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

منگل, دسمبر 14, 2021

*تحریک پیام انسانیت سب کی ضرورت*حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں۔آپ کا دائرہ کار بہت وسیع ہے

*تحریک پیام انسانیت سب کی ضرورت*
حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں۔آپ کا دائرہ کار بہت وسیع  ہے۔ تحریر وتقریر کے ذریعہ ہی نہیں بلکہ تحریک کے ذریعہ بھی آپ نےملک وملت کی آبیاری کی  ہے۔اور ایک ایسی تحریک کی بنیاد ڈالی دی ہے جو ملک ہند میں تمام تحریکوں کی  بڑی  ضرورت ہے۔دعوت وتبلیغ کے ذریعہ جہاں آپ نے مسلمانوں کے مابین اصلاح وتربیت کابڑاکام کیا ہے وہیں تحریک پیام انسانیت کے ذریعہ برادران وطن کے دلوں کوبھی رام کیا ہے۔اپنے ملک کی مسموم فضا کو خوشگوار بنانے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔
   برادران وطن میں اسلام کا جامع تعارف پیش کردینا یہ آپ کا بڑا کارنامہ ہےاور یہ سب کچھ تحریک پیام انسانیت کےاسٹیج سے ہی ممکن ہوسکا ہے۔درحقیقت یہ  آپ کی دعوتی کوشش کی تمہید ہے۔دعوت الی اللہ کے لیے اس دھرتی کوہموار کرنے کے لئے آپ نے اس تحریک سے بڑا کام لیا ہے۔ تحریک پیام انسانیت دراصل اسی کاوش وکوشش کا نام ہے۔
اس تحریک ابتدائی محنت ۱۹۵۰ ء سے ہی شروع ہوئی ہے،ملک کی تقسیم کے بعد ہندو مسلم کے مابین ایک بڑی خلیج پیدا ہونے لگی تھی، اس کو پاٹنا ازحد ضروری تھا،حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کی دور بیں نگاہیں اسے دیکھ رہی تھیں اور اس ضرورت کو شدت کےساتھ آپ محسوس کررہے تھے، تقریر وتحریر کے ذریعہ اس اہم کام کی طرف لوگوں کو متوجہ کررہے تھے، باضابطہ تحریک کی شکل میں اس کا آغاز ۱۹۷۴ ءمیں الہ آباد سے آپ نے کیا اور یہ کہاکہ اب بہت دیر ہوچکی ہے۔میں تحریکی آدمی نہیں ہوں باوجود اس کی شدید ضرورت ہے۔لٹریچر تیار کیا گیا،اور برادران وطن میں اسے پہونچانے کی منظم کوششیں ہوئیں، علاقے میں اس عنوان پر دورے شروع ہوئے،  جلسے منعقد کئے گئے، برادران وطن کو اس میں شامل کیا گیا، ان کے سامنے انسانیت کی بات پیش کی گئی، سب سے پہلا پروگرام الہ آباد میں منعقد کیا،یہاں سے پیام انسانیت تحریک کا پورے ملک میں تعارف شروع ہوا،حضرت علی میاں پوری زندگی اس تحریک کی اہمیت ضرورت سے روشناس کراتے رہے،آپ کا انتقال ہوا، تو آپ کے پوتے حضرت مولانا عبداللہ حسنی ندوی رحمہ اللہ علیہ اس تحریک کو ملک بھر میں لیکر گئے، اسفار کئے، اراکین کی ایک بڑی ٹیم کھڑی کردی، ملک کے کونے کونے میں لوگ اس تحریک سے متعارف ہوئے۔
۳۰/جنوری ۲۰۱۳ءمیں حضرت مولاناعبداللہ حسنی صاحب اس دارفانی سے کوچ کرگئے،حضرت مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی مدظلہ العالی اس تحریک کے معتمد عمومی منتخب کئے گئے ہیں۔آپ نے بھی بڑی محنت کی ہے، پورے ملک کو تین زون میں تقسیم کیا ہے،سال بھر میں تینوں زون کی تین مٹنگیں ہوتی ہیں، پھر آخری نششت حضرت علی میاں رحمۃ اللہ کی خانقاہ پر سالانہ کارگزاری کے نام پر منعقد کی جاتی ہے۔کشمیر سے لیکر کنیا کماری تک کے لوگ ایک ساتھ وہاں جمع ہوتے ہیں اور سال بھر کی کارگزاری پیش کی جاتی ہے۔بحمداللہ یہ اس وقت بہت تناور اور مضبوط درخت میں تبدیل ہوگیا ہے، باوجود اس کے جو خواب حضرت علی میاں رحمۃ اللہ نے اس تحریک کے حوالہ سے دیکھا تھا وہ ہنوز شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ہے۔
ایک انٹرویو میں اس تحریک کا تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے:پیام انسانیت کی تحریک ملک کے تمام دینی تعلیمی علمی کوششوں اورتحریکوں کے لیے ایک حصار کی حیثیت رکھتی ہے "(بحوالہ تعمیر حیات ۱۰/جنوری ۱۹۹۱ء )
افسوس کے ساتھ یہ ہمیں کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم نے حضرت علی میاں کے اس پیغام کی لاج نہیں رکھی ہے،اور پیام انسانیت کو اپنی تنظیم اور تحریک کے لئے حصار کی حیثیت نہیں دی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آئے دن یکے بعد دیگرے سبھی تحریکوں اور تنظیموں کی زمین ملک میں تنگ کی جارہی ہے۔اور مختلف قسم کی پابندیوں کا انہیں سامنا ہے۔ہم نے تحریک پیام انسانیت کو فقط حضرت علی میاں کی ایک تحریک سمجھا ہے،جبکہ حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے اسے سب کی ضرورت کہا ہے۔
حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ تحریک پیام انسانیت کوہر تحریک کا خادم اور معاون سمجھتے، اس لیے آپ نے اسے تحریکات کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم کے طور پر پیش کیا اور ہر تحریک کے لیےملک میں اسے ضروری قراردیاہے۔
الہ آباد سے آپ نے اس کا باضابطہ آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر دعوت اورہر تحریک کو ملک میں پیام انسانیت کاخیر مقدم کرنا چاہئے ۔حضرت کہتے ہیں:اس کی حیثیت وہ ہےجو کسی فراش یا سقہ یا زمین برابر کرنے والے یا شامیانہ لگانے والے کی ہوتی ہے جس کے بعد کوئی جلسہ یا اجتماع ہوسکتا ہے خواہ وہ خالص مذہبی نوعیت کا ہویا تعلیمی بحث ومذاکرہ کا(حوالہ سابق )
الہ آباد کو حضرت علی میاں خدا کی نگری کہتے تھے، وہاں سے آپ نے اس تحریک کو شروع کرکے ملک وملت کو بڑا پیغام دیا ہے، اور صاف لفظوں میں بھی کہا ہے کہ اگر ملک میں دعوت کا حق ادا کرنا یے تو اس تپتی زمین کو پیام انسانیت کے چھینٹوں سے نرم کرنے کی شدید ضرورت ہے۔اس کے بغیر دعوت کا کام بھی اس زمین پر مشکل اور ٹیڑھی کھیر ہے۔
موجودہ حالات ہمارے سامنے ہیں۔دعوت کے نام پر علماء کرام کی ایک جماعت اپنے ملک میں سلاخوں کے پیچھے ہے۔بہت دیر ہوچکی ہے۔آج الہ آباد بھی پریاگ راج میں بدل گیا ہے۔حضرت علی میاں کی اس تحریک کو سمجھنے کا اب وقت نہیں رہا ہے بلکہ اسے عملی طور پر حرز جاں بنانے کی ضرورت ہے۔
ناامیدی کے لئے اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔آج کے دن جہاں ہمیں جمعہ کی نماز سے گروگرام میں روکا جارہا ہے وہیں گردوارہ سے نماز کی پیشکش بھی ہورہی ہے۔ حضرت علی میاں رحمۃ نے بھی تحریک کی ابتدائی مرحلے میں ان جیسے واقعات کا مشاہدہ کیا اور آپ ناامید نہیں تھے، اپنی تقریر میں کہتے ہیں؛
انسانی سوسائٹی اس وقت سخت خطرے سے دوچار ہے اور موت وزیست کی کشمکش میں گرفتار ہےیہ حقیقت اپنے اپنےزمانے میں پیغمبروں نے بیاں کی تھیں اور ان کے لیے سخت جد وجہد کی تھی یہ حقیقتیں ابھی زندہ ہیں لیکن سیاسی تحریکوں مادی تنظیموں اور قومی خود غرضیوں نے گرد وغبار کا ایسا طوفان کھڑا کر دیا ہے کہ یہ روشن حقیقتیں ان کے اوٹ میں اوجھل ہوگئی ہیں لیکن انسانی ضمیر ابھی مردہ اور انسانی ذہن ابھی مفلوج ومعطل نہیں ہوا ہے،اور پوری بے غرضی، پورے یقین اور خلوص کے ساتھ ان حقیقتوں کو عام فہم اور دل نشیں انداز میں بیان کیا جائے تو انسانی ضمیر وذہن اپنا کام کرنے لگتا ہے، اور بڑی گرم جوشی سے ان حقیقتوں کا استقبال کرتا ہے اور بعض وقت تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان تقریروں میں اس کے دل کی ترجمانی اور اس کے درد کا مداوا ہے"(بحوالہ تعمیر حیات ۱۰/جنوری ۱۹۹۱ء )
آج ہماری ساری کاوشیں اور کوششیں بیکار ہیں اور بے سود ثابت ہورہی ہیں۔ملک میں ڈھیر ساری تنظیمیں ہیں جو یہ شکایت کررہی ہیں کہ حکومت ہمارے حقوق پر قذغن لگارہی ہے۔آئے دن آئے ہائے ہم کرتے ہی رہتے ہیں۔ایسے میں اگر ہم نے بنیادی محنت نہیں کی تو کوئی بھی ہمارا کچھ سننے والا نہیں ہے ۔آئیے اس بنیادی محنت سے ہم اپنے کام کی ابتدا کرتے ہیں، ان شاء  اللہ العزیز پورے ملک کو ہم اس طریقے پر صراط مستقیم تک لاسکتے ہیں ۔
آو ملکر انقلاب تازہ تر پیدا کریں 
دہر پر اس طرح چھاجائیں کہ سبھی دیکھا کریں۔
ہمایوں اقبال ندوی،ارریہ 
رابطہ، 9973722710

حج کے نام پر کروڑوں روپے کا دھوکہ دینے والے نوشاد کے فلیٹ سے نصف درجن پاسپورٹ ضبط

حج کے نام پر کروڑوں روپے کا دھوکہ دینے والے نوشاد کے فلیٹ سے نصف درجن پاسپورٹ ضبط

رانچی: حج پر بھیجنے کے نام پر کروڑوں روپے کی دھوکہ دہی کے ملزم نوشاد کو دھنباد سے گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے اس کے فلیٹ سے نصف درجن پاسپورٹ بھی ضبط کر لیے ہیں۔ تمام پاسپورٹ مختلف لوگوں کے ہیں۔ پولیس پاسپورٹ رکھنے والوں کی تلاش کر رہی ہے۔ اسی نوشاد کے پکڑے جانے کے بعد رانچی پولس اسے رات دیر گئے سرائی ڈھیلا تھانے سے رانچی لے آئی۔رانچی کے اورمانجھی تھانے میں دھوکہ دہی کے سلسلے میں دو معاملے درج ہیں۔ رانچی پولیس پچھلے دو تین ماہ سے نوشاد کی تلاش میں تھی۔

نوشاد پر رانچی، جمشید پور، لوہردگا، جامتارا، پلاموں، گریڈیہ اور دھنباد کے حاجیوں کو حج کے لیے بھیجنے کے نام پر رقم کی دھوکہ دہی کا الزام ہے۔ مقامی لوگوں نے اورمانجھی پولس اسٹیشن میں دی گئی شکایت میں الزام لگایا تھا کہ وہ رقم لے کر فرار ہوگیا۔
لیبیک ٹور اینڈ ٹریولز کمپنی کے نام سے حج یاترا کے لیے جاری کیے گئے پوسٹر میں دھنباد گووند پور کا پتہ دیا گیا تھا۔ پولس کو معلوم ہوا تھا کہ نوشاد ڈھائیا رہڑ گوڑہ کے گنپتی ٹاور میں چھپا ہوا ہے۔

پولیس تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ ارشاد عالم عرف نوشاد عالم 2014 سے حج کے نام پر دھوکہ دے رہے ہیں۔ الزام ہے کہ سال 2019 میں اس نے حج کے نام پر 58 لوگوں سے پیسے لیے تھے جس میں صرف 35 لوگوں کو حج پر بھیجا گیا تھا۔ سال 2014 میں پٹنہ میں اس نے نیشنل ٹور اینڈ ٹریول کے نام پر تین کروڑ روپے کی دھوکہ دہی کی تھی۔ اس کے بعد وہ نیپال فرار ہو گیا۔ اس وقت سے پولیس اس کی تلاش میں تھی۔

وزیر اعظم مودی نے نصف شب وزیر اعلی یوگی کے ساتھ کئے بنارس کے دیدار ، ریلوے اسٹیشن کا لیا جائزہ

وزیر اعظم مودی نے نصف شب وزیر اعلی یوگی کے ساتھ کئے بنارس کے دیدار ، ریلوے اسٹیشن کا لیا جائزہ

وارانسی: وزیر اعظم نریندر مودی اپنے پارلیمانی حلقہ وارانسی کے دورے پر ہیں۔ کاشی وشوناتھ کوریڈور کے افتتاح کے بعد وزیر اعظم نے پیر کی رات شہر میں ہونے والے اہم ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیا۔ ساتھ ہی انہوں نے نصف رات کو بنارس ریلوے اسٹیشن کا بھی جائزہ کیا۔ اس دوران وزیر اعظم کے ساتھ اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ بھی موجود تھے۔ پی ایم مودی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس سے متعلق تصاویر شیئر کی ہیں۔

وزیر اعظم مودی نے وزیر یوگی کے آدھی رات کو بنارس ریلوے اسٹیشن پر پہنچے کے دوران ٹویٹ کیا، 

"اگلا اسٹاپ...

بنارس اسٹیشن۔ ہم ریل رابطے بڑھانے کے ساتھ صاف، جدید اور مسافر دوست ریلوے اسٹیشنوں کی سمت میں کام کر رہے ہیں۔''


وزیر اعظم نے وارانسی میں کاشی وشوناتھ مندر کا دورہ کیا۔ کاشی میں جاری اہم ترقیاتی کاموں کا بھی جائزہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ اس مقدس شہر کے لیے بہترین ممکنہ بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جائے۔


وزیر اعظم مودی نے دیر رات گئے وارانسی میں بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور نائب وزرائے اعلیٰ کے ساتھ میٹنگ کی۔ انہوں نے ملاقات کے بعد کی ایک تصویر بھی شیئر کی ہے، جس میں بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا اور دیگر رہنما نظر آ رہے ہیں۔


اس سے پہلے وارانسی آئے وزیر اعظم نے گنگا آرتی اور لیزر لائٹ شو بھی دیکھا۔ اس دوران وزیر اعلی یوگی بھی ان کے ساتھ رہے۔ شہر میں پیر روز شیو دیپوتسو بھی منایا گیا۔


وزیر اعظم مودی نے کہا، "کاشی کی گنگا آرتی ہمیشہ اندرونی روح کو نئی توانائی سے بھر دیتی ہے۔ آج کاشی کے بڑے خواب کو پورا کرنے کے بعد، دشاسوامیدھ گھاٹ پر گنگا آرتی میں شامل ہوا اور ماں گنگا کی مہربانی کے لیے ان کے سامنے جھک گیا۔


وزیر اعظم نریندر مودی آج وارانسی میں بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ میٹنگ کریں گے۔ اس کے بعد سواروید مہامندر دھام، امرہاں میں منعقدہ پروگرام میں شرکت کریں گے۔ تقریباً ایک گھنٹہ مندر میں رہنے کے بعد ہیلی پیڈ سے بابت پور ہوائی اڈے کے لیے روانہ ہوں گے۔ اس کے بعد شام 5 بجے کے قریب طیارہ کے ذریعے دہلی کے لیے روانہ ہوں گے۔

پیر, دسمبر 13, 2021

بے کس اور بے بس قیدی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ جو لوگ مجرم ہیں، انہیں یقینا سزا ملنی چاہیے اور ہمارا ماننا ہے کہ اس میں قانون کو اپنا کام کرنے دینا چاہیے

بے کس اور بے بس قیدی 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 جو لوگ مجرم ہیں، انہیں یقینا سزا ملنی چاہیے اور ہمارا ماننا ہے کہ اس میں قانون کو اپنا کام کرنے دینا چاہیے ، لیکن پریشانی اس وقت محسوس ہوتی ہے جب مختلف قانون کے تحت لوگوں شکوک وشبہات کی بنیاد پر گرفتار کر لیا جاتا ہے اور زمانہ دراز تک چارج شیٹ داخل نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع بھی میسر نہیں آتا اور کہنا چاہیے کہ جیل میں انہیں سڑا دیا جاتا ہے ، قصور قانون کا نہیں اس سسٹم کا ہے ، جس کی وجہ سے پولیس من مانی کرتی ہے ، اپنی تحویل میں لے کر تعذیب کے ذریعہ جسے ان کی اصطلاح میں تھرڈ گریڈ کہا جاتا ہے ، نا کردہ گناہوں کا اقرار کراتی ہے ، پولیس تحویل میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی کہانی بار بار ہمارے سامنے آچکی ہے، اس لیے ملزم کے لیے عدالتی تحویل نسبتا راحت کا سبب ہوتا ہے اور وہ جسمانی اذیت سے بڑی حد تک محفوظ رہتا ہے ۔
 چارج شیٹ داخل بھی ہوجائے تو ہمارے یہاں انصاف کا حصول اس قدر مہنگا ہے کہ اوسط قسم کا انسان عدالت میں اپنی بے گناہی کے لیے وکلاء کی موٹی فیس ادا کرنے پر بھی قادر نہیں ہوتا، پھر بار بار جوتاریخیں پڑتی رہتی ہیں اس کے اخراجات الگ ہیں، صورت حال اس قدر خراب ہے کہ شاہ رخ خان کے بیٹے آرین خان کو منشیات کے ایک مبینہ معاملہ میں اٹھائیس روز لگ گئے، جب کہ ممبئی کے سرکردہ اور نامور وکلاء کی پوری ٹیم شاہ رخ خان نے کھڑی کر دی تھی ، ان کے وکیل تیش مانشندے نے بڑی اہم بات کہی کہ آرین خان خوش نصیب ہیں جنہیں بہترین قانونی ٹیم ملی، ظاہر ہے جیلوں میں بند دوسرے قیدی اس قدر خوش نصیب نہیں ہیں، اس کی تصدیق نیشنل کرائم رکارڈس بیورو (این سی آر بی) کی اس رپورٹ سے ہوتی ہے جو کئی سال کے بعد شائع ہوئی ہے ، اور جس میں ۳۱؍ دسمبر ۲۰۱۶ء تک کے ہی اعداد وشمار درج ہیں۔
 رپورٹ کے مطابق ملک کی چودہ سو جیلوں میں ۲۰۱۶ء تک چار لاکھ تینتیس ہزار قیدی تھے، ان مں سے جن پر جرم ثابت ہو چکا اورجنہیں سزا سنادی گئی ان کی تعداد ۱۳۵۶۸۳؍ تھی اور زیر سماعت قیدیوں کی تعداد ۲۹۳۰۵۸ تھی، اس کا مطلب ہے کہ ۶۷ ؍ فی صد قیدی زیر سماعت تھے۔ اسے اعداد وشمار کے اعتبار سے آپ دو تہائی بھی کہہ سکتے ہیں، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ۱۶۴۹ ؍ قیدی خواتین کے ساتھ ۱۹۴۲؍ بے گناہ اور معصوم بچے بھی جیل کی ہوا کھا رہے ہیں، ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اس ماں کے بچے ہیں جو قید ہیں، اور ان کے مقدمات زیر سماعت ہیں، جیل ضابطہ کے مطابق چھ سال تک وہ اپنی ماں کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
ان اعداد وشمار کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیدی خواتین سے زیادہ جیلوں میں بے گناہ معصوم بچے ہیں، ہم بار بار اس بات کو لکھ چکے ہیںکہ نصاف میں تاخیر بھی بے انصافی جیسا عمل ہے ، یقینا ہندوستانی عدلیہ پر ہمیں بھرسہ ہے ، لیکن انکوائری ، چارج شیٹ اور ٹرائل میں جو تاخیر ہوتی ہے اس کی وجہ سے جیلوں میں بند قیدی بے کس بھی ہیں اور بے بس بھی ، عدالت اور سسٹم کو اس پہلو بھی دھیان دینا چاہیے

مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضےڈاکٹر محمد حفظ الرحمن کی ایک قابل قدر کاوشکامران غنی صباشعبئہ اردو نیتیشور کالج مظفرپور

مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے
ڈاکٹر محمد حفظ الرحمن کی ایک قابل قدر کاوش

کامران غنی صبا
شعبئہ اردو نیتیشور کالج مظفرپور
............ 
کل الیکشن ڈیوٹی میں مظفرپور کے کٹرہ بلاک کے انتہائی دور افتادہ گاؤں "کٹائی" جانے کا اتفاق ہوا. گاؤں تک جانے کا راستہ انتہائی ناہموار، تکلیف دہ اور پریشان کن تھا لیکن الیکشن ڈیوٹی کا معاملہ ایسا ہے کہ آپ چاہ کر بھی جان نہیں چھڑا سکتے. البتہ گاؤں کے ماحول نے متاثر کیا. ایسے دور افتادہ اور وسائل سے محروم گاؤں میں کئی ایسے نوجوان ملے جو ملک کے بڑے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں. 
یہاں برادرم سیف الرحمن سے اتفاقی طور پر ملاقات ہو گئی. سیف الرحمن ملت ٹائمز سے وابستہ ہیں اور واٹس ایپ کے توسط سے رابطے میں رہتے ہیں. انہوں نے اپنے بھائی ڈاکٹر محمد حفظ الرحمن (جواہر لال نہرو یونیورسٹی) کی کتاب "مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے" پیش کی. موضوع میری دلچسپی کا تھا چنانچہ کتاب کا بیشتر حصہ وہیں پڑھ گیا. باقی گھر پہنچ کر مکمل کیا.
کتاب اپنے موضوع کے لحاظ سے گرچہ کوئی نئی نہیں ہے. اس موضوع پر بہت کچھ لکھا اور بولا جا رہا ہے لیکن اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ مصنف نے بہت ہی معروضیت کے ساتھ حقائق کا جائزہ لیا ہے اور صرف مسائل ہی نہیں رکھے ہیں، قابل عمل تجاویز بھی پیش کی ہیں. اس موضوع پر لکھنے اور بولنے والے زیادہ تر لوگ اعتدال و توازن برقرار نہیں رکھ پاتے ہیں. چنانچہ کچھ لوگ تنقید کا سہارا لے کر مدارس اسلامیہ اور ان کے اساتذہ کو تنقیص کا نشانہ بناتے ہیں وہیں مدارس سے وابستہ اہل علم حضرات پرانی کھینچی ہوئی لکیر سے ایک قدم بھی آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہوتے.
ڈاکٹر محمد حفظ الرحمن نے انتہائی خلوص اور درد کے ساتھ مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے بہت ہی مفید اور کارآمد مشورے پیش کیے ہیں.آج ہمارے یہاں ایسے افراد کی بہت کمی ہے جن کے اندر دینی غیر و حمیت کے ساتھ عصری آگہی بھی ہو.
مصنف نے کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے. پہلے باب میں "نصاب تعلیم" عنوان کے تحت درج ذیل عناوین قائم کیے گئے ہیں 
موجودہ علمی تحدیہ اور مدارس اسلامیہ
مشترکہ تعلیمی لائحہ عمل
تخص فی السیاسہ
تخصص فی القتصاد
تخصص فی الاجتماع
دوسرے باب میں "مشورے اور گزارشیں" عنوان کے تحت درج ذیل عناوین پر بہت ہی معروضیت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے:
انگریزی کے اساتذہ کی قلت کا مسئلہ 
فارسی کتب سے استفادہ میں مشکلات
انگریزی داں علماء اور مدارس و مساجد
نصاب میں تبدیلی کے مثبت اثرات
اتحاد ملت اور مدارس اسلامیہ
ہماری ترجیحات میں تبدیلی ضروری 
مدارس اسلامیہ اور عصری تعلیم 
اسلامی اقامت خانہ کا قیام 
دینی و اخلاقی تربیت 
مدرسہ اور مسجد کی نام گزاری 

اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اتنی بات تو بااطمینان کہی جا سکتی ہے کہ مصنف کے دل میں قوم کا درد ہے. پوری کتاب میں کہیں کوئی جذباتی جملہ نہیں ہے. کسی پر کوئی طعن و تشنیع نہیں ہے. اپنی بات کو منوانے کی کوئی ضد نہیں ہے بلکہ یہ اعتراف ہے:
آج ہم تاریخ کے اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہمیں کثیر جہتی نظریاتی اور علمی چیلنجز کا سامنا ہے. اس لیے مدارس اسلامیہ کے لیے ایسی تعلیمی پالیسی وضع کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے جو ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے والے افراد پیدا کر سکے..... اسی ضرورت کے احساس نے راقم الحروف کو خامہ فرسائی پر مجبور کیا. لہٰذا یہ کتاب اہل نظر کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے. راقم کو اس کا اصرار نہیں کہ اہل نظر اس کتاب کے ہر جز سے پوری طرح متفق ہوں، بلکہ اعتراف ہے کہ غور و خوض کا جب مرحلہ آئے گا تو تجربہ کار آنکھیں ان گوشوں کو دیکھ سکیں گی جو راقم کی نظر سے اوجھل رہ گئی ہیں. "
تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی و سیاسی پس منظر میں مدارس اسلامیہ کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے. دانشوران مدارس اگر وقت کی آواز کو وقت رہتے سمجھ کر مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنے میں کامیاب ہو پائیں تو ان شاء اللہ تاریکی کے بطن سے خوشگوار صبح نمودار ہوگی.
اللہ تعالی ڈاکٹر محمد حفظ الرحمن کی اس کاوش کو قبول فرمائے. میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب مدارس سے وابستہ ہر فرد اور قومی و ملی جذبہ رکھنے والے ہر شخص کو ضرور پڑھنی چاہیے. مصنف کا رابطہ نمبر ٩٩٩٠٤٥٧١٠٤

سعودی عرب نے تبلیغی جماعت اور دعوہ گروپ پر پابندی لگائی

سعودی عرب نے تبلیغی جماعت اور دعوہ گروپ پر پابندی لگائیریاض ،12دسمبر- سعودی عرب نے تبلیغی جماعت پر پابندیا ں عائد کی اور ان پر الزام لگا یا کہ وہ دہشت گردی کوہوا دینے میں نما یا رول ادا کیا ہے۔
ان کے پابندی کا اثر ہندستان میں بھی دیکھائی دے گا ۔ پچھلے سال ہندستانی حکومت نے تبلیغی جماعت کے صدر دفتر کو بند کردیا ۔ او ران کے سینئر رہنمائوں کو گرفتار کیا گیا ۔ کیونکہ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے کوروناوائرس پھیلانے کا کام کیا ۔ حالانکہ بعد میں عدالت سے انہیں راحت ملی ۔ سعودی عرب کی اسلامی امور کی وزارت نے تمام مساجد اور تبلیغی ررہنمائوں کو ہدایت دی کہ وہ اپنے جمعہ میں خطبہ کید وران بتلیغی اور دعوی گروپ پر پابندی کے سلسلے میں نمازیوں کو آگاہ کرے۔ ان سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ لوگوںکو تبلیغی جماعت کے مجلسوں میں شرکت کے بارے میں انتباہ کرے۔ اسلامی امور کے وزیر ڈاکٹر عبدالطیف الشیخ نے اپنے ہدایتی پیغام میں کہا کہ یہ جماعت لوگوںکو گمراہ کررہی ہے۔ اور انتہا پسندی کو بڑھاوا دے رہی ہے۔
حالانکہ وہ اس سے انکار بھی کررہے ہیں اس جماعت نے جو غلطیاں کی ہیں اس سے اسلامی معاشرہ خطرے میں پڑ گیا ہے اس لئے سعودی عرب نے تبلیغی جماعت او ردعوہ گروپ پرپابندی لگائی ہے ۔ چونکہ سعودی عرب وہابی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے وہ تبلیغی جماعت کے مخالف ہیں کیونکہ وہابی مسلک تبلیغی جماعت کے نظریہ کے خلاف ہے ۔
سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم عبدالعزیز بن باز نے 2016میں تبلیغی جماعت کے خلاف فتوی جاری کیا کیونکہ وہ اسلامی نظریہ کے خلاف کام کررہے ہیں۔ تبلیغی جماعت کی بنیاد ہندستان میں ایک سوسال پہلے مولانا محمد الیاس خنڈلوی نے شروع کی ۔ اور وہ اسلام کو اپنے صحیح روپ میں پیش کرنے کی کوشش کررہے تھے یہ تحریک میوات خطے سے شروع ہوئی او ربعد میں پورے ملک میں پھیل گئی اور دنیا کے مختلف ملکوں میں اس کا اثر رسوخ بڑھ گیا ہے۔ ملیشیاء ،انڈونیشیاء ،پاکستان اور بنگلہ دیش میں اس جماعت سے لاکھوں لوگ وابستہ ہیں ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...