Powered By Blogger

پیر, دسمبر 27, 2021

سعودی عرب میں تبلیغی جماعت پر پابندی___✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

سعودی عرب میں تبلیغی جماعت پر پابندی___
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
۱۰؍ دسمبر بروز جمعہ سعودی عرب کے منبر ومحراب سے جو اعلان کیا گیا اور خطبہ دیا گیا ، اس نے پوری دنیا کے انصاف پسند مسلمانوں کو سخت حیرت اور تعجب میں ڈال دیا ہے، سعودی عرب میں اسلامی معاملات کے کے وزیر ڈاکٹر عبد اللطیف الشیخ نے ایک ٹوئٹ کے ذریعہ مساجد کے ائمہ اور خطباء کو ہدایت دی کہ وہ مسلمانوں کو تبلیغی جماعت اور الدعوۃ کے خطرات سے آگاہ کریں، انہوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ تبلیغی جماعت دہشت گردی کا دروازہ ہے اور اس کے عقائد مشرکانہ ہیں، اتناہی نہیں وزیر کی ہدایت کے مطابق اس جماعت سے کسی بھی قسم کے تعلق کو ممنوع قرار دے دیاگیا ہے۔
تبلیغی جماعت مسلمانوں کے درمیان تذکیر کا کام کرتی ہے، اس کی تذکیر کادائرہ بھی چھ باتوں تک محدود ہے، ان میں ایک کلمہ پر محنت ہے، کلمہ مسلمانوں کے یہاں توحید کی علامت ، خدا کی عبادت اور رسول کی رسالت کے ماننے کا اعلان ہے۔ ایسے میں بھلا وہ لوگ کس طرح شرکیہ اعمال میں ملوث ہو سکتے ہیں جن کے مشن کی پہلی دفعہ توحید اور کلمہ ہے، ظاہر ہے اسے سعودی عرب کے وزیر امور اسلامی کی کم علمی اور جہالت ہی کہی جا سکتی ہے، ورنہ اس کی طویل خدمات لوگوں کو توحید کی دعوت اور شرکیہ اعمال سے اجتناب کا ہر دور میں مظہر رہی ہے۔
 رہ گئی دہشت گردی کی بات ، تو یہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ تبلیغی جماعت والے امور دنیا کی بات ہی نہیں کرتے، وہ تو مرنے کے بعد کی زندگی آخرت کو ہی اپناموضوع سخن بناتے ہیں اور ایک ایسے صالح معاشرہ کے وجود میں لانے کی بات کرتے ہیں جو نبوی طریقہ کار اور احکام خدا وندی کے مطابق ہو، ایسے میں اس پر دہشت گردی کا الزام لگانا انتہائی غلط ہے، اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے زمانہ میں جانچ ایجنسیوں کو ان کے پیچھے لگایا تھا کہ وہ ان کے کاموں کی تحقیق کریں، ایجنسیوں کی رپورٹ تھی کہ یہ توزمین کی بات ہی نہیں کرتے، صرف آسمان کی بات کرتے ہیں، اس لیے حکومت کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔
پھر سعودی عرب کوخطرات کیوں سمجھ میں آئے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کو مغربی آقاؤں کے حکم پر جس راہ پر لے جانا چاہتے ہیں، اس میں تبلیغ والوں کی اصلاحی وتذکیری تقاریر اور چلت پھرت رکاوٹ بن سکتی ہے، اس اندیشہ کے تحت اس پر پابندی لگانے کی بات مختلف لوگوں کی طرف سے ماضی میں بھی اٹھتی رہی ہے، جس کی مخالفت ہوتی رہی، اب جب کہ محمد بن سلمان اصلاح کے نام پر اسلامی قدروں کے اختتام کی کوشش کر رہے ہیں، امور اسلامی کے وزیر نے ولی عہد کو خوش کرنے کے لیے اس پابندی کا اعلان کر دیا ۔
دوسری وجہ یہ ہوئی کہ مسلمانوں ہی میں سے بعض جماعتیں اپنے افکار ونظریات کی ترویج واشاعت میں تبلیغی جماعت والے کو بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں، ان کی تحریروں اور تقریروں سے بھی تبلیغی جماعت کے خلاف ماحول بنا اتفاق سے ان کی پہونچ بھی سعودی وزارت میں مضبوط تھی، چنانچہ ان کی تحریر ، تقریر اور گفتگو نے بھی اپنا اثردکھایا اور سعودی وزارت امور اسلامیہ نے ان تحریروں سے متاثر ہو کر یہ قدم اٹھایا۔
 تبلیغی جماعت سے جو کام اصلاح کا اللّٰہ رب العزت نے لیا اور اب بھی جو کام ہو رہا ہے اس کی وجہ سے ہم اسے مفید جماعت سمجھتے ہیں، اور اس پر پابندی لگانا انتہائی غلط ہے،حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم نے سعودی سفارت خانے کو خط لکھ کر مطالبہ کیاہے کہ اس فیصلے کو ہر حال میں واپس لیاجائے ۔
سعودی عرب کی اس پابندی کی وجہ سے سعودیہ میں تبلیغ کا کام متاثر ہوگا، کیوں کہ وہاں شاہی حکومت ہے اور جمہوری حکومتوں کی طرح وہاں احتجاج کا کوئی موقع نہیں ہے ، البتہ مسلم تنظیموں اور جماعت کے ذمہ داروں کے ایک وفد کو متعلقہ وزیر سے ملاقات کرکے اپناموقف رکھنا چاہیے اوران کی غلط فہمی دور کرنی چاہیے، اس پابندی کے اثرات دوسرے ملکوں میں پڑنے کا امکان ہے، لیکن بہت زیادہ نہیں، کیوں کہ عرب حکمراں ولی عہد محمد بن سلمان کے ذریعہ کی جارہی تبدیلی اور سعودی عرب کے امتیازات وتشخصات کو ختم کرنے کی پالیسی سے پورے طور پر واقف ہیں اور اس پابندی کو وہ اسی نقطۂ نظر سے دیکھیں گے۔
ہندوستان میں فرقہ پرست طاقتیں ایک بار پھر سے اسے نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں، اس سے محتاط رہنے اور اس کے مضبوط دفاع کے لیے ملی تنظیموں کو آگے آنا پڑے گا، رہ گیے دوسرے ممالک ، مثلا پاکستان، بنگلہ دیش ، ملیشیا، انڈونیشیا تو وہاں سعودی عرب کی اس پابندی کاا ثر بالکل نہیں پڑے گا، کیوں کہ یہاں بادشاہت نہیں، جمہوریت ہے، حکومتیں انتخاب کے ذریعہ چن کر آتی ہیں، اور انتخاب میں ووٹ کی قوت وطاقت دیکھ کر پالیسیاں بنائی جاتی ہیں ، ان ملکوں میں تبلیغیوں کا دبدبہ ہے، اس لیے حکومت ایسے فیصلے کرنے کے پہلے بار بار سوچے گی۔

اتوار, دسمبر 26, 2021

الوداع بپن راوتمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

الوداع بپن راوت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 تینوں مسلح افواج کے سر براہ (C.D.S)بپن راوت ۸؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کو بارہ بج کر بیس منٹ پر نیل گیری کے جنگل میں ہیلی کاپٹر حادثہ میں جاں بحق ہو گیے، ان کے ساتھ ان کی اہلیہ مدھو لیکا راوت اور بارہ جاں باز فوجی افسران نے بھی وجود سے عدم کی راہ اختیار کرلی، پورا ملک سوگوار ہے، اگلے دن بپن راوت اور ان کی اہلیہ کو ستر توپوں کی سلامی کے بعدایک ہی چتا پر ان کی بیٹیوں نے منہہ میں آگ دے کر آخری رسم ادا کی ، یوں بھی جلنے کے لیے بچا ہی کیا تھا۔
ہندوستان کی تاریخ میں یہ کوئی پہلا فضائی حادثہ نہیں ہے، ۱۹۸۰ء میں اس وقت کے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے صاحب زادہ سنجے گاندھی، ۲۰۰۱ء میں سابق مرکزی وزیر مادھوراؤ سندھیا، ۲۰۰۲ء میں پارلیامنٹ کے صدر نشیں (اسپیکر)جی ایم سی بالیوگی، ۲۰۰۴ء میں میگھالیہ کے کابینی وزیر سی سنگما، ۲۰۰۵ء میں ہریانہ کے وزیر توانائی اوپی جندل، اور ۲۰۰۹ء میں آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ بھی فضائی حادثہ میں موت کی نیند سو چکے ہیں، ان سارے حادثات میں موسم کی خرابی کا بڑا دخل تھا، اس کے قبل ۲۲؍ نومبر ۱۹۶۳ء کو پونچھ میں ہونے والا ہیلی کاپٹر حادثہ سب سے بڑا فوجی حادثہ مانا جاتا رہاہے، جس میں فوج کے چھ بڑے افسران نے اپنی جان گنوائی تھی، اس کے قبل ۱۹۴۲ء میں بھی ایک فضائی حادثے میں لفٹنٹ جنرل اس ام ناگیش اور میجر جنرل کے ایس تِمیا کو بھی اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔
لیکن تمل ناڈو کے کنور میں حادثہ کے شکار ایم آئی ۱۷؍ وی-۵، ہیلی کاپٹر کا معاملہ ان سب حادثات سے الگ اس لیے ہے کہ یہ فضائیہ کا سب سے محفوظ ہیلی کاپٹر تھا، یہ خراب موسم میں پرواز اور ہیلی پیڈ کے بغیر بھی زمین پر اتارا جا سکتا تھا، یہ روسی ساخت کا ناقابل تسخیر ہیلی کاپٹر تھا، اتنے محفوظ سفر میں حادثہ کا پیش آجانا اور فوجیوں کا اس طرح جل جانا کہ اس کی شناخت ڈی این اے کے ذریعہ ہو، یہ بتاتا ہے کہ اگر شیشہ پلائی ہوئی دیوار میں بھی کوئی ہوگا تو موت اسے آلے گی اور سکنڈوں کی تاخیر اس میںنہیں ہوگی، جنرل بپن راوت ان کی اہلیہ اور ان کے رفقاء کی موت کا وقت اور جگہ متعین تھا، چنانچہ متعینہ وقت اور جگہ پر ملک الموت نے اپنا کام مکمل کر دیا اور ہندوستان ،فضائیہ کے کئی جاں بازوں سے محرو ہوگیا۔
 جنرل بپن راوت کو وزیر اعظم نریندر مودی نے دو سینئر افسران کو نظر انداز کرکے بری فوج کا سربراہ بنایا تھا، نظر انداز کیے جانے والے افسر میں ایک مسلمان بھی تھا، ملازمت سے سبکدوش ہونے کے قبل مرکزی حکومت نے ایک عہدہ ’’سی ڈی اس‘‘ کا وضع کیااور سبکدوشی کے بعد یکم جنوری ۲۰۲۰ء کو انہیں اس عہدے پر مامور کرکے تینوں بری، بحری اور فضائی افواج کا مشترکہ سربراہ بنا دیاگیا۔حالانکہ رسمی طو پر ہی سہی صدر جمہوریہ تینوں فوج کا سربراہ ہوتا ہے جو’’ سول‘‘ سے ہوتا ہے، اس کی وجہ سے فوج کی بغاوت اور مارشل لا کے لگانے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں، جیسا پڑوسی ملک میں بار بار ہوتا رہا ہے۔بپن راوت کے گذر جانے کے بعد نئے سربراہ کی تلاش جاری ہے۔

بڑی خبر۔کرناٹک میں رات کا کرفیو ۔ نئے سال کی پارٹیوں پرپابندی

بڑی خبر۔کرناٹک میں رات کا کرفیو ۔ نئے سال کی پارٹیوں پرپابندیبنگالورو: ملک میں اومیکرون کے کیسس کے بڑھتے ہوئے کیسس کے پیش نظرکئی ریاستوں میں پابندیاں اوررات کا کرفیو نافذ کیا جارہا ہے۔ اترپردیش، مدھیہ پردیش میں رات کے کرفیوکا اعلان کردیا گیا ہے تازہ طورپراب اس فہرست میں ریاست کرناٹک بھی شامل ہوچکا ہے۔ کرناٹک میں 28 ڈسمبرسے دس دنوں تک رات کا کرفیوعائد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں آج احکامات جاری کردئیے گئے۔ کرفیو کے اوقات رات دس بجے سے صبح پانچ بجے تک رہیں گے۔ اسی طرح حکومت نے سال نو کی پارٹیوں اورہجوم کے جمع ہونے پرپابندی لگادی ہے۔

کہیں ہم دوسروں کو یہی سب کچھ تو نہیں دے رہے ہیں؟ کامران غنی صبا

کہیں ہم دوسروں کو یہی سب کچھ تو نہیں دے رہے ہیں؟ 
کامران غنی صبا 

یہ بالکل فطری اصول ہے کہ ہم دوسروں کو وہی چیز دیتے ہیں جو ہماری فطرت سے ہم آہنگ ہو. چنانچہ جس کی طبیعت میں فیاضی ہوگی آپ دیکھیں گے کہ وہ غربت میں بھی فیاض ہوگا اور جس کی طبیعت میں بخالت ہوگی وہ دولت مند ہو کر بھی اپنی مٹھی کھولنے کو آمادہ نہیں ہوگا. جس کی طبیعت میں محبت ہوگی وہ نفرت تقسیم نہیں کر سکتا اور جس کی طبیعت میں نفرت ہو اس سے محبت کی توقع فضول ہے. پھر یہ بھی خوب اچھی طرح یاد رکھیے کہ فطرت کے اس اصول میں بھی عمل اور ردعمل ہے. یعنی ہم جو دوسروں کو دیتے ہیں وہی حاصل بھی کرتے ہیں. یعنی محبت تقسیم کرنے والوں کو محبت ملتی ہے، آسانیاں تقسیم کرنے والوں کو آسانیاں. نفرت کرنے والوں کو نفرت اور عداوت کرنے والوں کو بدلے میں عداوت ہی ملتی ہے. جو لوگ ہر وقت دوسروں کا گلہ شکوہ کرتے ہیں، کئی جگہ ان کے بھی گلے شکوے ہو رہے ہوتے ہیں. اسی طرح منفی تنقید کرنے والوں کی بھی تنقید ہی ہوتی ہے.
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا ہر عمل ردعمل کا بیج ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس بیج کو خلوص کی مٹی میں بویا جائے. بعض دفعہ ہمارا عمل مصنوعی بھی ہوتا ہے. ہم دوسروں کی تعریف اس لیے کرتے ہیں کہ ہماری بھی تعریف کی جائے، ہم انہیں لوگوں کے کام آتے جن سے ہمیں توقع ہو کہ وہ بھی ہمارے کام آئیں گے. ہم دوسروں سے معاملات اس کی حیثیت کے مطابق کرتے ہیں. یاد رکھیے ہم خود کو تو فریب میں مبتلا کر سکتے ہیں، فطرت کو نہیں. مصنوعی عمل آخر کار وہی نتیجہ دیتا ہے جس نتیجے سے بچنے کے لیے ہم تصنع کا سہارا لیتے ہیں.
بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اپنی تعریف سننے کے لیے کچھ اچھے کام کرتے ہیں لیکن انہیں اپنی توقعات کے مطابق تعریف نہیں مل پاتی. آخر کار وہ اپنی پیٹھ خود ہی تھپتھپانے پر مجبور ہوتے ہیں. موقع بے موقع اپنی کارکردگیوں کو خود ہی بیان کرتے ہیں. اس طرح شخصیت بری طرح مجروح ہوتی ہے. اصل تعریف تو یہ ہے کہ لوگ ہمارے غائبانے میں ہمیں اچھے نام سے یاد کرنے پر مجبور ہوں. ایک استاد کی اصل تعریف یہ ہے کہ اس کے طلبہ سکوت نیم شب میں اس کے لیے دعا مانگنے پر مجبور ہوں.
قصہ مختصر یہ کہ ہم اپنے اعمال کے اخروی نتائج پر یقین رکھیں یا نہ رکھیں. دنیا میں بھی ہمیں وہی کچھ ملتا ہے جو ہم دوسروں کو دیتے ہیں. اس اصول کی روشنی میں ہم اپنا محاسبہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں دوسروں سے کیا مل رہا ہے. اگر ہمیں دوسروں سے صرف شکایتیں، مایوسیاں اور محرومیاں مل رہی ہیں تو ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کہیں ہم بھی دوسروں کو یہی سب کچھ تو نہیں دے رہے ہیں.......؟

ہفتہ, دسمبر 25, 2021

*ملک کوآج مولاناآزاد کی خاص ضرورت*ہندو مسلم اتحاد کے بغیر ہمیں آزادی نہیں مل سکتی ہے،بلکہ اس کے بغیر انسانیت کے ابتدائی اصول بھی اپنے اندر نہیں پیدا کرسکتے ہیں۔

*ملک کوآج مولاناآزاد کی خاص ضرورت*
ہندو مسلم اتحاد کے بغیر ہمیں
  آزادی نہیں مل سکتی ہے،بلکہ اس کے بغیر انسانیت کے ابتدائی اصول بھی اپنے اندر نہیں پیدا کرسکتے ہیں۔
 اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اتر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہوکر یہ اعلان کردے کہ سوراج ۲۴/گھنٹے میں مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہوجائے تو میں سوراج سے دستبردار ہوجاوں گا مگر اس سے دستبردار نہیں ہوں گا،
کیونکہ اگر سوراج ملنے میں تاخیر ہوگی تو یہ بھارت کا نقصان ہوگا،لیکن ہمارااتحاد جاتارہا توعالم انسانیت کا نقصان ہوگا(خطبات آزاد:74)
مذکورہ بالا باتیں مولانا ابوالکلام آزاد نے دہلی کے اندر ۱۹۳۳ء میں انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس میں پیش کی ہے۔اس سے مولانا آزاد کی نگاہ میں ایسی آزادی دراصل غلامی کانام ہے،جو ملک میں رہنے والوں کوبانٹنے کے نام پر ملتی ہے۔یہ ہندو مسلم کے اتحاد کو پارہ کردیتی ہے اوردائمی غلامی کی طرف لوگوں کو ڈھکیل دیتی  ہے۔جواکثریت اور اقلیت میں بانٹ کر نفرت کی ایک بڑی دیوار کھڑی کردیتی ہے، اقلیت کا ملک میں جینا دشوارکردیتی ہے۔جس کا آج خوب سے خوب مشاہدہ بھی ہورہا ہے۔
آج جب کہ ملک آزاد ہوگیا ہے باوجود یہاں کے رہنے والوں میں غلامی اور محکومی کا احساس پیداہوگیا ہے،اس کی واحد وجہ اسی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش ہے جو اس وقت  تیز ہوگئی ہے۔
  یہ خبر جوآج گرم ہےکہ اپنےملک کی ریاست اترا کھنڈ کے ہری دوارمیں دھرم سنسد کا انعقاد کیا گیا ہے، اسمیں مسلمانوں کوکھلے عام  مارنے کاٹنے کی بات کی گئی ہے، اس طرح کی باتیں گزشتہ سات سالوں سے کھلے عام کی جارہی ہے، یہ دراصل اسی اتحاد کوپارہ کرنےکی کوشش اور ملک کو ازسر نو غلام بنانے کی ناپاک سازش ہے۔اس موقع پر دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ ہم اس کے لئے کیا کچھ کررہے ہیں۔یہ جو زخم لگانے کی بات کرتے ہیں ہم اس پر کون سامرہم رکھنے جاریے ہیں؟
صبح صبح جب انقلاب اخبار ہاتھ میں آیا تو پہلے صفحہ پر ہری دوار والی خبر ہے، تو وہیں افکار ونظریات والے صفحہ پر مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب غبار خاطر کا اقتباس بھی موجودہے۔اس سے مرض اور بیماری دونوں کی موجودگی ہمیں معلوم ہوتی ہے۔واقعی  حسن اجتماع قابل داد ہے۔
 ایڈیٹر انقلاب کو بہت بہت مبارکباد ہے کہ آپ نے بیماری کی صحیح دوا تجویز کی ہے۔
آج ملک کو غلامی سے نکالنے کے لئے انسانیت کی بات ضروری ہے۔یہی مشن مولانا ابوالکلام آزاد کا رہا ہے اوراسی پر علماء کرام یہاں گامزن رہے ہیں۔
حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے تو اس کےلئے پیام انسانیت کا باضابطہ ایک اسٹیج دیا ہےاوراس کےذریعہ نفرت پھیلانےوالوں کو ملک میں منھ توڑ جواب ملا ہے۔ مولانا علی میاں نے اس ملک کےمسلم باشندگان سے یہ  صاف صاف کہ دیا ہے کہ ملک
میں پیام انسانیت کے بغیر ہمارا کوئی بھی پروگرام کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔
مولانا آزاد نے اپنی تقریر وتحریر کے ذریعہ ملک میں انسانیت کی تحریک چلائی ہے،آپ کی پوری زندگی اورتمام علمی کاوش اس کی شہادت دیتی ہے۔ملک میں دعوت ہی نہیں بلکہ قیادت کیسے کی جاسکتی ہے اس کے لئے عملی نقوش چھوڑے ہیں۔
بالخصوص علماء کرام کو اس جانب متوجہ کرنے کی بھی آپ نے کوشش کی ہے،آپ کے خطوط میں بھی یہ افکار ملتے ہیں۔غبارخاطر،کاروان خیال اور برکات آزاد یہ سب مجموعہ خطوط ہیں۔انمیں غبار خاطر بہت معروف ہے،احمد نگر قلعہ میں آپ نے قید میں رہ کر اپنے افکارکو بذریعہ خط بنام مولانا حبیب الرحمن شیروانی قید کیا ہے۔حکیم اجمل صاحب اس کتاب کے مرتب ہیں۔
۱۹۴۶ء ہی میں آپ نے الہلال نکال کرہندو مسلم اتحاد کی طرف مسلمانان ہند کی توجہ مبذول کی ہے۔ الہلال کا مطالعہ یہ کہتا ہے کہ اسمیں جہاں سماجی ،سیاسی، تاریخی وعلمی مضامین ہیں وہیں اتحاد اورانسانیت کی بات موجود ہے۔
اورآپ کا خاص مشن ملک میں ہندو مسلم اتحادپراسمیں آپ کی خاص نظر ہے۔یہ اجتہادی کام نگاہ بد کا ملک میں شکار ہوا،وہ اسطور پرکہ جب انگریزوں نےاپنی نفرت کی کاشت کو مرجھاتے ہوئے دیکھا ،تواس کو بین کردیا،مگرمولانا آزاد تو صاحب ایمان اور پیدائشی مکی مسلمان تھے وہ کہاں رکنے والے تھے،اور کب خاموش بیٹھ جانے والےتھے،خاموش نہیں ہوئے،
بقول شاعر:
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں 
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے۔
"البلاغ "کے نام پر" الہلال" ہی دکھاتےرہے اوراپنے مشن کو چھاپتے رہے۔
(دارالعلوم ندوۃ العلماء کے سلیمانیہ ہاسٹل کی لائبریری میں "الہلال "اور "البلاغ" کے تمام شمارے مجلد موجود ہیں،کوئی خواہش مندہیں تو وہاں سےمستفید ہوسکتے ہیں)
مولانا آزاد کی تقریریں اور تمام تحریریں بھی اسی کا آئینہ دار ہیں۔آپ نے ملک میں قیادت کی مسلمانان ہند کو ایک نئی راہ سجھائی ہے،یہ آپ کااجتہادی کارنامہ ہے۔
اس وقت ملک کو مولانا آزاد کی سخت ضرورت ہے۔مولانا کی فکر ونظر کو اپنانے کی ہمیں شدید ضرورت ہے۔موجودہ نازک حالات سے نکلنے کی یہی راہ ہے،اس  سے موجودہ وقت میں بڑاکام لیا جاسکتا ہے۔
آج اس کی شدید ضرورت ہے کہ مولانا آزاد کی تحریر وتقریر کو عام کیا جائے اور اس سےبڑا کام لیا جائے۔
بڑی خوشی کی بات ہے کہ روزنامہ انقلاب کے ایڈیٹر جناب ایم ودود ساجد صاحب نے مولانا آزاد کی کتاب غبار خاطر سے اس کی ابتدا کردی ہے، اپنے اخبار میں سلسلہ وار اسے شائع کرنا شروع کیا ہے، 
اس کے لئے موصوف کو بہت بہت مبارکباد ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی 
جنرل سکریٹری، پورنیہ کمشنری، تنظیم ابنائے ندوۃ ریاست بہار 
رابطہ، 9973722710

پئے تفہیممفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

پئے تفہیم
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مظاہر حسن، قلمی نام مظہر وسطوی(ولادت ۷؍ دسمبر ۱۹۸۶) بن ماسٹر محمد انظار الحسن حسن پور وسطی مہوا، ویشالی کے رہنے والے ہیں، شعر وسخن کا ذوق دادا، داؤد حسن صاحب (م ۲۶؍ فروری ۲۰۱۸ئ) سے ورثہ میں ملا ہے، ان کے چچا انوار الحسن وسطوی کا شمار ہندوستان کے بڑے ادیب ،قلم کار، تنقید نگار اور اردو ادب کے بڑے خادموں میں ہوتا ہے، مظہر وسطوی قوس صدیقی پھلواری شریف کے شاگرد ہیں، درس تدریس کے ساتھ مشق سخن جاری ہے ، اصلا غزل کے شاعر ہیں، حمد ونعت اور نظم بھی کہہ لیا کرتے ہیں، ان کی شاعری پر ہندی ساہتیہ سمیلن کی جانب سے پروفیسر ثوبان فاروقی ایوارڈ ۲۰۱۸ء میں مل چکا ہے، بڑوں کی حوصلہ افزائی نے شعرو سخن کے میدان میں ان کے حوصلے کو بلندی عطا کی ہے، اور اسی بلند حوصلگی کا ثبوت ان کا یہ شعری مجموعہ’’پئے تفہیم‘‘ ہے۔
 پئے تفہیم کی شعری کائنات ایک حمد، دو نعت، پینسٹھ(۶۵) غزلوں اور سات نظموں پر مشتمل ہے، کتاب کا انتساب ’’نئی تشکیلات کے نمائندہ شاعر استاذ ذی وقار محترم قوس صدیقی کے نام‘‘ ہے، نثری حصہ میں مظہر وسطوی کے حرفِ ابتدا کے ساتھ ڈاکٹر بدری محمدی کا ’’مظہر وسطوی کے ذوق سخن کی بالیدگی‘‘ اور نذر الاسلام نظمی کی ’’پئے تفہیم -میری نظر میں ‘‘ بھی شامل کتاب ہے، ایک سو برانوے (۱۹۲) صفحات کی اس کتاب کے بتیس (۳۲) صفحات اس پر صرف ہوئے ہیں، ڈاکٹر بدر محمدی نے وسیع کینوس میں مظہر وسطوی کی شاعری کا جائزہ لیا ہے اور اس کے در وبست کو پیش کیا ہے ، جس سے قاری مظہر وسطوی کی شاعری سے اپنے کو قریب محسوس کرتا ہے، نذر الاسلام نظمی اچھا لکھتے ہیں، مختصر لکھنے کے عادی ہیں، بہت دنوں سے مضمون نگاری سے اپنا رشتہ توڑ رکھا تھا، مظہر وسطوی کی شاعری نے ان کو لکھنے پر مجبور کر دیا، یہ خود اپنے میں بڑی بات ہے، اس حوالہ سے اہل ادب ان کے شکر گذار ہیں، خواہش ہوتی ہے کہ وہ لکھتے رہیں اور اپنی ادبی ، فنی اور تنقیدی صلاحیتوں کو ضائع ہونے سے بچالیں۔
 اردو ڈائرکٹوریٹ ، محکمہ کابینہ سکریٹریٹ کے جزوی مالی تعاون سے اس کتاب کی طباعت ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے ہوئی ہے ، کاغذ ، طباعت، جلد اور سر ورق خوبصورت ہے ، البتہ پروف کی غلطیاں رہ گئی ہیں، نثر میں پروف کی غلطی سے بڑا فرق نہیں پڑتا، لیکن شعری مجموعے میں پروف کی غلطی قافیہ کو تنگ اور شعر کواوزان وبحور سے خارج کرنے کا کام کرتی ہے، اس لیے اس پر توجہ کی خاص ضرورت ہوتی ہے،کتاب ایک سو برانوے (۱۹۲) روپے دے کر بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ ، دفتر کاروان ادب حاجی پور اور نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی ، بکساما ویشالی 844122سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
مظہر وسطوی جوان سال ہیں، جوانوں کی ذہنی ترنگ عموما عشق ومحبت ، وارفتگی ، شوقِ فراواں کے گردگھومتی رہتی ہے، داغ اسکول کی طرح کاکل وگیسو اور سودائے قلب میں پنہاں محبت کا تذکرہ اب اس انداز میں نہیں ہوتا، کیوں کہ بقول فیض ’’اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘، یہ غم روزگار ہمارے دور کے شاعروں کو راتوں کی اختر شماری تک نہیں لے جاتا، وہ محبت کرتا ہے ، لیکن اتنا ٹوٹ کر بھی نہیں کہ مجنوں کی طرح صحرا نوردی پر اتر آئے اور فرہاد کی طرح دو دھ کی نہر نکالنے کی سعی لا حاصل میں اپنی توانائی لگا دے، پئے تفہیم کے شاعر مظہر وسطوی کے یہاں بھی محبت کی روداد ملتی ہے، تخیل کی وادی میں مٹر گشتی کرتے ہوئے وہ بہت کچھ سوچتے ہیں اور اسے شعر میں ڈھالتے رہتے ہیں، ان کے اشعار پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم میر وغالب کی صدی سے بہت دور آکر اپنی صدی میں جی رہے ہیں۔
 شاعر مستقبل کا پیغام بر ہویا نہیں وہ اپنے دور کا پیام بر ہوتا ہے، وہ جس دور میں جیتا ہے اس کی پوری عکاسی اس کی شاعری میں در آتی ہے، اسی کو ادباء عصری حسیت سے تعبیر کرتے ہیں، مظہر وسطوی کی شاعری میں عشق ومحبت کے ساتھ عصری حسیت پر مشتمل اشعار بھی ملتے ہیں، وہ اپنی شاعری میں عدالت کی بے حسی کا رونا روتے ہیں اور گناہ گاروں کو فرشتہ مان لینے پر ماتم کرتے ہیں، جب وہ شہروں کے احوال بتاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ’’ یہاں مظلوم لوگوں کی کراہیں بات کرتی ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ زمانے کی روش اس قدر خراب ہو گئی ہے کہ ترقی کوتھامے عذاب آرہا ہے، لوگوں نے آج جس کو مسیحا سمجھ لیا وہ تو کبھی انسانیت کا محافظ بھی نہیں رہا ہے ۔
 مظہر وسطی نے عصری حسیت کے ساتھ مذہبی اقدار واطوار کو بھی موضوع سخن بنا یا ہے، وہ کلام اللہ پڑھ کو پھونک دینے سے مدت تک پانی پر اثر رہنے کو شعر کے قالب میں ڈھالتے ہیں، نعرہ صلی علیٰ کو جہاں میں اپنے وجود وبقا کی ضمانت سمجھتے ہیں، ردائے فاطمہ اور رنگ فاطمہ کی بات کرتے ہیں تو تخیلات میں اسلامی افکار موجزن ہوتے ہیں، مذہبی روایات اور تاریخی واقعات کو شعر بند کرنے کے لیے جن الفاظ کا استعمال کرتے ہیں وہ ان کی دینی اور مذہبی شعور کو بتاتا ہے۔
مظہر وسطوی اپنی خودی اور خود داری کی حفاظت کرنے کے بھی قائل ہیں، گو وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ
بزرگوں سے سیکھا ہے طرزِ تمدن 
انا کو سرراہ سنگسار کرنا
لیکن وہ اپنی ’’انا‘‘ کو سنگسار نہیں کرتے وہ اسے اپنی شناخت قرار دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میرا محبوب جو مجھے سزادیتا ہے اس کی وجہ سے میری احساس انا مرنے نہیں پاتی، وہ اسے زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔
’’پئے تفہیم‘‘ کے اجراء کی باوقار تقریب مہوا میں منعقد ہوئی تھی، اس موقع سے جو پیغام میں نے بھیجا تھا اس پر اس تبصرہ کا اختتام کرتا ہوں۔ میں نے لکھا تھا کہ 
’’ آپ کی شاعری کو آپ ہی کے ذریعہ بار بار سن چکا ہوں، آپ کی شاعری بھی اچھی ہے اور پڑھنے کا انداز بھی عمدہ ہے، آپ اگر اپنی شاعری کو بے جوڑ سا ختیات کے خبط بے اصول تشکیلیات کے فتنے، ترقی پسندی، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کی گروہ بندی سے بچا سکے تو آپ کی شاعری دلوں تک پہونچے گی، آپ اس سے بڑا کام لے سکیں گے، آپ کے پاس توانائی بھی ہے اور وافر ذوق سفر بھی۔میری نیک دعائیں آپ کے ساتھ ہیں‘‘

مہاراشٹر کے بعد کل سے اترپردیش میں نافذ ہوگا نائٹ کرفیو ، حکومت نے جاری کی نئی گائیڈ لائنس

مہاراشٹر کے بعد کل سے اترپردیش میں نافذ ہوگا نائٹ کرفیو ، حکومت نے جاری کی نئی گائیڈ لائنس

لکھنؤ: 24؍دسمبر (ذرائع) ملک کی مختلف ریاستوں میں کووڈ کے معاملات میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے اتر پردیش کی یوگی حکومت نے ہفتہ کو ایک بڑا فیصلہ لیا ہے۔ یوگی حکومت نے 25 دسمبر سے ریاست بھر میں نائٹ کورونا کرفیو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رات کا کورونا کرفیو ہر روز رات 11 بجے سے صبح 5 بجے تک لاگو ہوگا۔ ساتھ ہی، کووڈ پروٹوکول کے ساتھ عوامی تقریبات جیسے شادی وغیرہ میں زیادہ سے زیادہ 200 لوگوں کی شرکت کی اجازت دی گئی ہے۔ منتظمین اس بارے میں مقامی انتظامیہ کو آگاہ کریں گے۔ نئی رہنما خطوط کے مطابق، بازاروں میں "ماسک نہیں، تو سامان نہیں' کے پیغام کے ساتھ بازاروں میں تاجروں کو بیدار کریں۔ کوئی دکاندار بغیر ماسک کے کسٹمرس کو سامان نہ دے۔ گلیوں/بازاروں میں ہر ایک کے لیے ماسک لازمی قرار دیا جائے۔ پولیس فورس کو مسلسل گشت کرنا چاہیے۔ پبلک ایڈریس سسٹم کو مزید موثر بنایا جائے۔ ملک کی کسی بھی ریاست یا بیرون ملک سے اتر پردیش کی سرحد پر آنے والے ہر فرد کی ٹریسنگ ٹیسٹنگ کی جانی چاہئے۔ بسوں، ریلوے اور ہوائی اڈوں پر اضافی چوکسی برتی جائے۔ مانیٹرنگ کمیٹیوں نے کورونا مینجمنٹ میں قابل تعریف کام کیا ہے۔

باہر سے آنے والے ہر فرد کا ٹیسٹ کیا جائے گا۔

تیسری لہر کے پیش نظر دیہاتوں اور شہری وارڈوں میں مانیٹرنگ کمیٹیوں کو دوبارہ ایکٹو کریں۔ باہر سے آنے والے ہر فرد کا ٹیسٹ کروائیں۔ ان کی صحت کی مسلسل نگرانی کی جانی چاہیے۔ لوگوں کو ضرورت کے مطابق کورنٹائن میں رکھا جائے۔ اسپتالوں میں داخل کیا جائے۔ کووڈ کی تیسری لہر کے امکان کے پیش نظر، ہم نے ماضی میں منظم تیاری کی ہے۔ جس کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔ ریاست کے تمام سرکاری/نجی طبی اداروں میں دستیاب طبی سہولیات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جانا چاہیے۔ صنعتی اکائیوں میں کووڈ ہیلپ ڈیسک اور ڈے کیئر سنٹر کو دوبارہ ایکٹو کریں۔ بتادیں کہ اتر پردیش ٹیسٹنگ اور امیونائزیشن 19 کروڑ 14 لاکھ 94 ہزار سے زیادہ کووڈ ویکسینیشن اور 9 کروڑ 14 لاکھ سے زیادہ ٹیسٹ کروا کر ملک میں پہلے نمبر پر ہے۔

12 کروڑ 41 لاکھ افراد کو ٹیکے لگائے گئے۔

یہاں 6 کروڑ 73 لاکھ 17 ہزار سے زیادہ لوگوں کو ویکسین کی دونوں خوراکیں دے کر کووڈ کا حفاظتی احاطہ فراہم کیا گیا ہے۔ جبکہ 12 کروڑ 41 لاکھ افراد کو ویکسین کی پہلی خوراک مل چکی ہے۔ اس طرح، ریاست کی کل آبادی میں سے جو ویکسینیشن کے لیے اہل ہیں، 84.23 فیصد نے پہلے اور 45.66 فیصد لوگوں کو حاصل کیا ہے۔ ویکسینیشن کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں تمام ضروری کوششیں کی جائیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...