Powered By Blogger

اتوار, جنوری 23, 2022

تذکرہ مشاہیر ادب- مشرقی مگدھمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

تذکرہ مشاہیر ادب- مشرقی مگدھ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ابو الکلام رحمانی (ولادت ۲؍ اگست ۱۹۴۹ئ) بن عبد الجبار ونبیہ خاتون مرحومین کی جائے پیدائش تو یحیٰ پور شیخ پورہ ہے ، لیکن اب مستقل رہائش ۳/۲۱ مومن پور کولکاتہ میں ہے، تعلیم ایم اے تک پائی ہے، مطلب ہے کہ خاصے پڑھے لکھے قلم کار ہیں، تحقیقی مقالے، ناول ، افسانے، انشائیے اور مزاحیہ کالم اخبارات ورسائل میں چھپنے کے بعد کتابی شکل میں بھی محفوظ ہیں، روزنامہ آبشار کو لکاتہ میں ان کا مزاحیہ کا لم ’’تکلف بر طرف‘‘ اور ہفتہ وار ’’میرا ملک‘‘ کولکاتہ میں ’’گستاخی معاف‘‘ کے عنوان سے جو کالم مقبول ہوتے رہے وہ در اصل انہیں کے لکھے ہوئے ہیں، جسے انہوں نے ’’رحمانی‘‘ اور ’’میرا جوگن‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر کروائے، اردو ادب کی جو خدمت انہوں نے کی ہے اس کے لیے بہار اردو اکیڈمی ، مغربی بنگال اردو اکیڈمی، ہولی برائٹ فاؤنڈیشن مٹیا برج، انجمن فکر جدید کولکاتہ وغیرہ نے انہیں انعامات واعزاز سے نوازا ہے ، ان کے تحقیقی مضامین کے تین مجموعے تحریر وتذکرہ ، تحقیق وتلاش اور تذکرہ مشاہیر ادب - مشرقی مگدھ ۷۴۰ ۱؍ تا ۱۹۶۰ء منظر عام پر آکر دادتحقیق قارئین سے وصول کر چکے ہیں، اس سلسلے کی تیسری کتاب تذکرہ مشاہیر ادب - مشرقی مگدھ ابھی میرے سامنے ہے، یہ در اصل ابو الکلام رحمانی صاحب کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جو انہوں نے پی اچ ڈی کے لیے پروفیسر ڈاکٹر عبد المنان صاحب کی نگرانی میں لکھا تھا، مقالہ بعض نا گزیر حالات کی وجہ سے یونیورسٹی سے سند قبول تو نہیں پا سکا، لیکن اس بہانے ایک اچھی تحقیقی وتاریخی کتاب ہمارے سامنے آگئی۔
 شیخ پورہ اور مشرقی مگدھ کا یہ ادبی منظر نامہ ابو الکلام رحمانی صاحب کے ’’کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘‘ سے شروع ہو کر سید عبد الرحیم کی ’’منزل‘‘ پر ٹھہرتا موضوع کتاب تک پہونچتا ہے، حصہ نثر میں اکیس(۲۱) شخصیات پر تحقیق کی روشنی ڈالی گئی ہے، شہود عالم شہود نے ابو الکلام بحیثیت انشائیہ نگار کی حیثیت سے ابو الکلام رحمانی کی انشائیہ نگاری پر ’’بھولا بسرا‘‘ کے ذیل میں جوروشنی ڈالی ہے، اسے بھی آخر میں کتاب کا حصہ بنا دیا گیا،اس طرح پوری کتاب دو سو ترسٹھ (۲۶۳) صفحات پر مشتمل ہے ۔ صفحہ ۲۶۴ پر ڈاکٹر شاہ تحسین احمد کی تصویر احسان شناشی کے طور پر دی گئی ہے، کیونکہ وہ ابوالکلام رحمانی کے استاذ پروفیسر شاہ مقبول احمد پچنوی کے صاحب زادہ ہیں اور ان کا خصوصی عملی تعاون شامل رہا ہے ، کتاب کے مندرجات سے یہ پتہ نہیں چل سکا کہ یہ تعاون تحقیق میں رہا ہے ، یا اشاعت میں، اس کتاب کی ناشرہ فرخندہ عزمی کلام ہیں جو ابو الکلام رحمانی صاحب کی دختر نیک اختر ہیں، اور پیشہ معلمی سے وابستہ ہیں۔
مگدھ کا اطلاق ایک زمانہ میں پورے جنوبی بہار پر ہوا کرتا تھا، یہ علاقہ انتہائی مردم خیز رہاہے، کیوں کہ اسی علاقہ میں دِسنہ ، استھانواں، ہرگاواں، گیلان، بہار شریف، اور نالندہ واقع ہے، جگر کی زبان میں کہیں تو سجدہ طلب راہ کا ہرذرہ لگتا ہے اور جدھر سے گذر جائیے وہ کوچہ جاناں کے حدود میں معلوم ہوتا ہے۔ اس علاقہ کی کئی نامور شخصیات پر تفصیلی کام ہوا تھا، لیکن آفتاب علم وفن کے ساتھ کئی ذرات تھے ، جو بعد میں ذرہ سے آفتاب بن گئے، ضرورت تھی کہ ان حضرات کے تذکرے بھی محفوظ ہوجائیں، تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے وہ مشعل راہ بن سکیں۔ ابو الکلام رحمانی کے مقدر میں اللہ رب العزت نے یہ کام رکھا تھا اور انہوں نے طویل محنت کے بعد اس کام کو مکمل کر دیا ۔
 یہ کتاب شیخ پورہ اور مشرقی مگدھ کے ادبی منظرنامہ کے دوسرے حصہ اور باب سوم سے شروع ہوتی ہے ، اس مقالہ کا پہلا حصہ ’’تذکرہ مشاہیر ادب شیخ پورہ ‘‘ کے عنوان سے ۲۰۰۵ء میں چھپی تھی، جو میری نظر سے نہیں گذری ، مشرقی مگدھ کے ادبی منظرنامہ کے حوالہ سے اس علاقہ کی ادبی قدر وقیمت عصری تقاضے ، عظیم آباداسکول کے اثرات کا ذکر کرکے باب سوم کو لپیٹ دیا گیا، اس کتاب کے چوتھے باب میں شیخ پورہ اور مشرقی مگدھ کی نثر نگاری کی اہم خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
تحقیق کا عمل چیونٹی کے منہ سے دانہ دانہ جمع کرنے کا عمل ہے، اس کام میں جو پریشانی ہوتی ہے اور کرب جھیلنا پڑتا ہے اسے کچھ وہی لگ سمجھ سکتے ہیں، جنہوں نے اس وادیٔ پُرخار میں کبھی قدم رکھا ہو، اس اعتبار سے جناب ابو الکلام رحمانی صاحب کی یہ کتاب قابل قدر بھی ہے اور لائق تحسین بھی، ان کے اندر قوت اخذ بھی ہے اور طاقت عطا بھی، اور پھر سید عبد الرحیم صاحب جیسا دست راست ان کو حاصل ہے اس لیے یہ کام اور بھی وقیع ہو گیا ہے۔
 تبصرہ نگار عموما خوگر مدح ہوتا ہے، لیکن اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان کمیوں اور کوتاہیوں کا بھی ذکر کردے جو اس نے دوران مطالعہ پایا، چنانچہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ
 جن ادباء وشعراء کی تاریخ ولادت ووفات تک یقینی رسائی نہیں ہو سکی ان کی زمانی تعیین بیسویں صدی کا اول نصف یا نصف ثانی لکھ کرکی گئی ہے ، کئی شعراء وادباء کی تاریخ ولادت ورحلت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے ، کئی میں ولادت کا ذکر ہے تو وفات غائب اور کہیں وفات کا ذکر ہے تو ولادت غائب ، ایسا کم لوگوں میں ہے، لیکن ہے، تذکرہ میں تاریخ ولادت ورحلت کا ذکر نہ ہو تو مضمون کے دُم بریدہ اور نا قص ہونے کا احساس ہوتا ہے، اہل علم کے نزدیک یہ تحقیق کا نقص سمجھا جاتا ہے، اس تحقیقی کتاب میں یہ نقص کھلتا ہے، کتاب کے سر ورق پر بارہ گاواں ومضافات کا نقشہ دیا گیا ہے جو معلوماتی اور گاؤں کی مکانی حیثیت کو سمجھنے مین معاون ہے، اس کتاب پر نظر ثانی وترتیب کا کام سید عبد الرحیم نے کیا ہے، ان کی محنت بھی قابل ستائش ہے۔
 اصلا کتاب کی طباعت ۲۰۱۴ء میں ہوئی، ہم تک تبصرہ کے لیے دیرمیں پہونچی ، کتاب ڈائمنڈ آرٹ پریس کولکاتہ سے چھپی ہے، قیمت پانچ سو روپے دو سو چونسٹھ صفحات کے لیے بہت زائد ہے، یوں بھی اردو کے قاری کی قوت خرید کم ہوتی ہے، بی ۳/ ۲۱ مومن پور روڈ کولکاتہ اور راپتی اپارٹمنٹ ۴۹ ڈنٹ مسن روڈ کولکاتہ ۲۳ سے حاصل کر سکتے ہیں، جن لوگوں کو علاقہ کی تاریخ ، تہذیب اورادبی خدمات کے جاننے کا شوق ہو ان کے لیے یہ کتاب بڑا علمی ذخیرہ ہے۔

ہفتہ, جنوری 22, 2022

عورتوں کے خلاف جرائممفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عورتوں کے خلاف جرائم
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 ہندوستان میں مرکزی حکومت کا ایک نعرہ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا بھی ہے، ہندو مذہب میں تو عورتوں کو دیوی سمجھا جاتا ہے بلکہ جتنی مورتیوں کی پوجا ہوتی ہے ان میںاکثر وبیشتر خواتین کے روپ میں ہی ہوتی ہیں، اس کے باوجود، اس ملک میں عورتوں کے خلاف جرائم کا گراف دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، بُلّی بائی اور سُلّی ڈیلس جیسے واقعات بھی جرائم کی فہرست میں آتے ہیں، اور جن پر قانونی داروگیر کا آغاز ہو چکا ہے ، لیکن بہت سارے واقعات ومعاملات میں انتہائی سست روی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے عورتوں کے خلاف مظالم اور جرائم کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔
 نیشنل کرائم رکارڈس بیورو نے اس سلسلے کے جو اعداد وشمار فراہم کیے ہیں، اس کے مطابق ۲۰۱۱ء میں عورتوں کے خلاف جرائم کی ۲۲۸۶۵۰؍ رپورٹیں درج کرائی گئی ، ۲۰۱۲ء میں اس میں ۴ء ۶؍ فی صد کا اضافہ درج کیا گیا ۔ ۲۰۱۵ء میں ۳۰۰۰۰۰ ، ۲۰۲۰ء میں ۳۷۱۵۰۱، واقعات کا سرکاری سطح پر اندراج ہو سکا، حالانکہ ۲۰۲۰ء میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے عورتوں کا باہر نکلنا بہت کم ہو گیا تھا۔
 ریاستی اعتبار سے خواتین کے خلاف جرائم کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ملکی سطح پر مجموعی خواتین کی تعداد میں سے صرف ۵ئ۷؍ فی صد مغربی بنگال میں رہتی ہیں، لیکن مغربی بنگال میں خواتین کے خلاف جرائم ۷ء ۱۲ فی صد ہوئے، آندھرا پردیش میں عورتوں کی مجموعی تعداد ۳ء ۷ ؍ فیصد ہے، لیکن وہاں ۵ء ۱۱؍ فی صد عورتیں مجرموں کے ہتھے چڑھیں، اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ خواتین کے خلاف جرائم اتر پردیش میں ۴۹۳۸۵، مغربی بنگال میں ۳۶۴۳۹، راجستھان میں ۳۴۵۳۵، مہاراشٹر میں ۳۱۹۵۴ ، مدھیہ پر دیش میں ۲۵۶۴۰ ہوئے  اور خواتین کو اس کا کرب جھیلنا پڑا۔
 یہ اعداد وشمار حتمی اور آخری نہیں ہیں، ان سے کئی گنا زیادہ جرائم کا ارتکاب ہوا ہوگا ، لیکن وہ پولیس کے یہاں درج نہیں کرائے گئے، اس لیے رکارڈ میں نہیں آسکے، ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت نے بیٹی بچاؤ کا جو نعرہ دیا ہے، اس کے لیے ضروری اقدام کیے جائیں اور خواتین کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ ورنہ جس طرح عورتوں کی عزت سے کھلواڑ کیا جا تا ہے، وہ اس ملک کی روایتی تہذیب کا جنازہ نکال کر رکھ دے گا، اور مغربی تہذیب سے قریب ہونے کی جو ہوا چل رہی ہے، اس میں سب کچھ خش وخاشاک کی طرح اڑ کر رہ جائے گا، عزت وآبرو بھی اور تہذیبی وثقافتی اقدار بھی۔

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیمپہلی سزا پانچ سال کی قیداز : مفتی ہمایوں اقبال ندوی گیاری ، ارریہ

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

پہلی سزا پانچ سال کی قید

از : مفتی ہمایوں اقبال ندوی 
گیاری ، ارریہ 

 یہ خبر پڑھ کر خوشی ہوئی ہے کہ ملک کی راجدھانی دہلی فساد کا نبٹارہ شروع ہوگیا ہے،
پہلی سزا ایک بھیڑ کی اگوائی کرنے والے کو پانچ سال کی قید کی شکل میں دی گئی ہے۔اس بھیڑ نے ایک بوڑھی خاتون پر حملہ کردیا تھا، اس خاتون کا جمع شدہ سارا اثاثہ ان بھیڑیوں نے لوٹ بھی لیا تھا۔

آج سے تقریبا دوسال قبل مورخہ۲۳/فروری ۲۰۲۰ء کو یہ فساد ملک کی راجدھانی میں منظم طور پر برپا کیا گیا۔اس کا مقصد خالص سیاسی تھا۔ بوڑھے، بچے، جوان اور نہتھےکمزور انسان پر مسلح ہوکر حملہ کیا گیا،۵۳/سے زائد لوگ مارے گئےاورسینکڑوں زخمی ہوئے، دکانیں لوٹ لی گئیں اور سینکڑوں مکانات جلادیےگئے،مساجد کو نقصان پہونچایا گیا اور قران کریم کی بھی بے حرمتی کی گئی۔

دہلی میں ١٩٨٤ء کے بعد ۲۰۲۰ءمیں یہ پہلا فسادرونما ہوا۔۱۹۸۴ءکےفسادکو"دہلی سکھ مخالف فساد "کےطور پر یاد کیا جاتا ہے اسی طرح ۲۰۲۰ء کے اس فساد کو" دہلی مسلم مخالف فساد" کے طور پر یاد کیا جاتا رہے گا۔

بے شرمی اور ڈھٹائی کی بات تو یہ رہی کہ اس کا الزام بھی مسلمانوں کے سر ہی مونڈھ دیا گیا۔اور اس عنوان پر جو گرفتاریاں ہوئیں وہ "سی اے" مخالف تحریک سے وابستہ لوگوں کی ہوئی اور فساد کا ماسٹر مائنڈ قراردیا، جبکہ پورا ملک ہی نہیں پوری دنیا دیکھ رہی تھی کہ فساد کی دھمکی مہینوں قبل سے دی جارہی تھی، حتی کہ ایک سادھوی نے کسان تحریک میں جاکر اس کی ذمہ داری بھی قبول کی کہ اور یہ کہا کہ اگر یہ احتجاج ختم نہیں ہوگا تو ایک اور جعفر آباد ہوگا۔دہلی کی سڑک پر برملا نعرے لگائے گئے اور گولی مارنے کی بات کہی گئی۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی باوجود اس کے اس کو ڈھکنے کی ناکام کوشش آج تک ہوتی رہی۔حتی کہ دلی پولیس کی چارج شیٹ میں اس فساد کومودی حکومت کے خلاف بڑی سازش قرار دیا گیا۔
اب یہ پردہ  دھیرے دھیرے اٹھتا چلاجارہا ہے،اور یہ خبر آگئی ہے کہ پہلی سزا پانچ سال کی قید کی شکل میں دی گئی ہے۔یہ پانچ کا عدد بھی قابل توجہ ہے۔فسادات سیاسی مقاصد کے لئے یا کسی اہم واقعہ سے توجہ مبذول کرانے کے لئے کرائے جاتے ہیں، تاکہ پانچ سال راج کریں یا ٹھاٹھ کے ساتھ ان پانچ سالوں میں راج پاٹھ کریں،
اب ایسے لوگوں کے لئے بنواس اور صعوبتوں کا فیصلہ آرہا ہے،عدالت کی طرف سے انہیں یہ کہا گیا ہےکہ آپ مجرم ہیں اور پانچ سال جیل نواس کریں،
دہلی فساد کے تعلق سے یہ پہلی سزا پانچ سال سے شروع ہوئی اور اصل مجرم کو عمر قید کی سزاملنی ہے،عدالت اپنا کام اسی طرح بحسن وخوبی نبھاتی رہی توملک میں ایسی گندی اور اوچھی سیاست کے لئے بھی کوئی جگہ نہیں ہےبلکہ ایسی سیاست کے لئے ملک میں عدالت تاعمر بنواس لکھ سکتی ہے ۔

جمعرات, جنوری 20, 2022

تصوف کا ایک اجمالی جائزہ" میرے مطالعہ کی روشنی میںعبد الرحیم برہولیاوی، استاد معھد العلوم الاسلامیہ، چک چمیلی، سرائے، ویشالی، بہار

تصوف کا ایک اجمالی جائزہ" میرے مطالعہ کی روشنی میں
عبد الرحیم برہولیاوی، استاد معھد العلوم الاسلامیہ، چک چمیلی، سرائے، ویشالی، بہار 
رابطہ نمبر: (9308426298)

ابھی میرے سامنے ڈاکٹر مولانا محمد عالم قاسمی، امام مسجد دریاپور، سبزی باغ پٹنہ کی تازہ تصنیف "تصوف کا ایک اجمالی جائزہ" ہے۔ اس سے پہلے مولانا محترم کی متعدد تصانیف؛ آسان عبادت، ہمارا پیارا دین اسلام (اول تا ششم)، متاع دین، نقوش تابندہ، وغیرہ شائع ہوکر مقبول عام ہوچکی ہیں۔
مولانا محترم نے اپنے آپ کو صرف دو رکعت کا امام ہونے تک قید کرکے نہیں رکھا؛ بلکہ ہر دم رواں، ہر دم  جواں رہنے کا ہنر سیکھا ہے۔  مولانا لکھتے پرھتے رہتے ہیں، گاہے بگاہے اخبارات میں بھی  چھپتے رہتے ہیں، ملی سماجی رفاہی کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں، ملی کونسل بہار کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں اور ائمۂ مساجد کو بیدار رکھنے کے لیے تنظیم تحریک ائمۂ مساجد کے کنوینر بھی ہیں۔
مولانا کی یہ کتاب ان لوگوں کے لیے بڑی کار آمد اور مشعلِ راہ ثابت ہوگی، جو لوگ بھاگ دوڑ اور مصروفیات کی اس بھیڑ بھاڑ میں  خود کے اندر خدا کا خوف اور  خدا کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مصنف نے کتاب کا انتساب ان پاکیزہ روحوں کے نام کیا ہے، جن کو دیکھ کر خدا یاد آجائے۔ اس کے  بعد صفحہ: 5 تا 10 فہرست عناوین ہے، پھر مصنف پر ایک نظر صفحہ: 11 پر درج ہے، جس میں مصنف کی تمام تفصیلات اور خدمات و اعزازات درج ہیں، منظوم کلام مولانا محمد جہانگیر تائب بہ عنوان"یہ عالم قاسمی اس دور کے مخدوم ملت ہیں" صفحہ: 12 تا 13۔ اس کے بعد مولانا ڈاکٹڑ  عبدالودود قاسمی کا بھی منظوم کلام " تری تخلیق کا پرچم سدا عالم میں لہرائے" صفحہ 14 پر ہے۔ صفحہ: 15 پر سوانحی خاکہ (منظوم ) پروفیسر عبدالمنان طرزی صاحب کا بھی مصنف کے لیے ہے، جو بہت خوب ہے۔ پھر منظوم ختم ہوکر حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب، نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڑیسہ جھارکھنڈ کی تقریظ ہے، جو صفحہ: 16 تا 19 ہے، حضرت مفتی صاحب نے بھی بہت خوب لکھا ہے، لکھتے ہیں: ہم جیسے اس فن کے ناواقف قاری کے لیے اس کتاب میں سارے مباحت کا سمجھنا آسان نہیں ہے، الوان وغیرہ کی بحث تو سر کے اوپر سے ہی گزر جاتی ہے؛ لیکن ہمارے دوست مولانا محمد عالم قاسمی چھپے رستم نکلے، انہوں نے ان مباحث کو پڑھا، سمجھا، زندگی میں برتا اور کتابی شکل میں مرتب کردیا اور ہم جیسے غافلین کے لیے تنبیہ کا اچھا خاصا سامان فراہم کردیا، اللّٰہ مولانا کو جزائے خیر دے اور اس کتاب کو قبول عام وتام سے نوازے۔ صفحہ: 19 تا 21 پروفیسر ڈاکٹر محمد عابد حسین، سابق صدر شعبۂ فارسی، پٹنہ یونیورسٹی کا مقدمہ درج ہے، اس میں لکھتے ہیں: "تصوف کا اجمالی جائزہ" میں مولانا محمد عالم قاسمی نے علمی اور نظری دلائل سے اسلام کی اس حقانیت کو واضح کیا ہے کہ حضرات صوفیائے کرام نے اعمال و اخلاق اور سیرت و کردار سے اسلام کی صداقت کو مبرہن اور اشکارا کیا ہے، اور افراط و تقریط سے بچتے ہوئے اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ تصوف یا طریقت شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے؛ بلکہ صحیح معنوں میں تصوف اسلام کا عطر ا ور اس کی روح ہے"۔ کلماتِ خیر کے عنوان سے حضرت مولانا ڈاکٹر سید شاہ تقی الدین احمد ندوی فردوسی منیری، خانقاہ منیر ن پٹنہ کی تحریر درج ہے، جو صفحہ: 21 تا 22 ہے، شاہ تقی الدین فردوسی صاحب لکھتے ہیں کہ: "تصوف کا ایک اجمالی جائزہ"  نام کی کتاب بہت ہی معلوماتی کتاب ہے، جس میں تصوف اور "رموزِ تصوف" کی حقیقت بیان فرماکر حضرت مولانا عالم قاسمی حفظہ اللّٰہ نے قا رئین کو ایک قیمتی تحفہ عطا فر مایا ہے"۔ صفحہ: 23 تا 24 کلمات دعائیہ پروفیسر ڈاکٹر سرور عالم ندوی، صدر شعبۂ عربی، پٹنہ یونیورسٹی درج ہے، پروفیسر صاحب کتاب کے متعلق لکھتے ہیں: "تصوف جیسے اہم اور مشکل فن کو آسان بنا کر اربابِ ذوق اور اصحابِ علم کے سامنے پیش کیا ہے، جن کا مطالعہ اس فن کی نزاکتوں اور باریکیوں، فوائد اور محاسن سے روشناس کرانے میں معاون ثابت ہو گا"۔ عرضِ مصنف صفحہ: 25 تا31 درج ہے، مصنف نے تصوف کے حوالے سے تفصیل سے اپنی گفتگو پیش کی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ: "خلاصہ یہ ہے کہ یہ موضوع خاصا الجھاؤ کا شکار ہوگیا ہے اور عام لوگ افراط و تفریط میں مبتلا ہیں؛ لہذا اسی افراط و تقریظ سے بچ کر راہِ اعتدال کو اس میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے"۔
صفحہ: 25 تا 168، 111 الگ الگ عنوانات سے مضامین ہیں، جو سب تصوف اور تزکیہ سے جڑے ہیں، سب پڑھنے کے لائق اور اپنی زندگی میں عمل میں لانے کے لیے راہ نما ہے، مولانا نے کسی واقعہ کو نقل کرتے وقت   حوالہ بھی درج کیا ہے، تصوف، تصوف کی تعریف، تصوف کیا ہے؟ صوفی، عرس کا تصور، شریعت و طریقت، بہار کی مشہور خانقاہوں کا ذکر اور پھر مشہور بزرگوں کا ذکر اور چشتیہ سلسلہ، تصوف کے مشہور چار سلاسل، توبہ اور تقوا کے فضائل وغیرہ جیسے اہم عنوانات اس کتاب میں شامل ہیں۔ صفحہ: 168 پر شیخ جنید بغدادی رح کا ذکر ہے، کتاب مطالعہ کے لائق ہے، سرِ ورق بہت ہی عمدہ ہے، بیک ٹائٹل پیج بھی خوبصورت ہے۔ کتاب کو اگر چند ابواب میں تقسیم کردیا جاتا تو استفادہ کرنا مزید آسان ہوجاتا، اور ہر قاری اپنے ذوق کے لحاظ سے بآسانی رجوع ہوسکتا۔ کتاب کی اشاعت سال 2019ء میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی سے ہوئی ہے، کمپوزنگ کا کام محمد امتیاز عالم ندوی نے کیا ہے، پروف کی غلطیاں نہیں ہیں،  قیمت 300 روپے بہت زیادہ نہیں ہے، مہنگائی کے اس دور میں اسے مناسب بھی کہا جاسکتا ہے۔ آپ بھی مصنف سے رابطہ کرکے ملک کے کسی صوبہ سے یا کسی بھی شہر میں بآسانی حاصل کرسکتے ہیں، اور ملک  پاکستان می بھی  ملک بک ڈپو اردو بازار لاہور، اور کشمیر کے لوگ قاسمی کتب خانہ جموں اور گلوبل بک سری نگر، پٹنہ کے لوگ بک امپوریم سبزی باغ سے اور دوسرے شہر کے لوگ  مصنف کے رابطہ نمبر سے بھی ملک کے کسی شہر میں آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔ مصنفِ کتاب سے رابطہ نمبر: 9431442423 ہے۔
************ ____________ ************

بدھ, جنوری 19, 2022

اپرنا یادو ہوئیں بی Aparna Yadav Joins BJP جے پی میں شامل ، ملائم سنگھ کی چھوٹی بہو کا اکھلیش یادو کو بڑا جھٹکا

اپرنا یادو ہوئیں بی Aparna Yadav Joins BJP جے پی میں شامل ، ملائم سنگھ کی چھوٹی بہو کا اکھلیش یادو کو بڑا جھٹکالکھنو: اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات (UP Assembly Polls 2022) سے قبل یوپی کی سیاست میں بڑی ہلچل ہوئی ہے۔ ملائم سنگھ یادو کی چھوٹی بہو اپرنا یادو (Aparna Yadav) آج یعنی بدھ کے روز بی جے پی میں شامل ہوگئیں۔ اپرنا یادو (Aparna Yadav Joins BJP) کی انٹری سے نہ صرف بی جے پی نے سماجوادی میں سیندھ ماری کی ہے، بلکہ ملائم سنگھ یادو کی چھوٹی بہو نے سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو کو بڑا جھٹکا دیا ہے۔ یوپی اسمبلی انتخابات 2022 سے پہلے بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد اپرنا یادو (Aparna Yadav News) نے کہا کہ میں بی جے پی کا بہت شکرگزار ہوں۔ میرے لئے ملک ہمیشہ سب سے پہلے آتا ہے۔ میں وزیر اعظم مودی کے کاموں کی تعریف کرتی ہوں۔ دراصل، اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو کی بہو اپرنا یادو آج یوپی کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ اور بی جے پی صدر سوتنتر دیو سنگھ کی موجودگی میں بی جے پی میں شامل ہوگئیں۔ واضح رہے کہ ملائم سنگھ یادو کے بیٹے پرتیک یادو کی بیوی اپرنا یادو لکھنو کینٹ اسمبلی حلقہ سے سماجوادی پارتی کے ٹکٹ پر 2017 اسمبلی انتخابات میں شکست کا سامنا کرچکی ہیں۔ بی جے پی کا دامن تھامنے کے بعد اپرنا یادو نے کہا کہ میں وزیر اعظم مودی کا اور قومی صدرجی کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ اترپردیش بی جے پی کے صدر سوتنتر دیو سنگھ، نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ اور انل بلونی کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ میں وزیر اعظم نریندر مودی جی سے پہلے سے ہی متاثر رہتی تھی، میرے لئے سب سے پہلے ملک ہے۔ اب میں قوم کی خدمت کے لئے نکلی ہوں۔ آپ کا تعاون لازمی ہے۔ یہی کہوں گی کہ جو بھی کرسکوں اپنی صلاحیت سے کروں گی۔ بی جے پی کے کئی وزرا-اراکین اسمبلی ہوچکے ہیں سماجوادی اترپردیش میں اسمبلی انتخابات 2022 کا اعلان ہوتے ہی سیاسی لیڈران کے پارٹی بدلنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ حکومت میں وزیر رہے سوامی پرساد موریہ، دھرم سنگھ سینی جیسے سینئر لیڈرسماجوادی پارٹی کا دامن تھام چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے کئی اراکین اسمبلی بھی سماجوادی پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں۔ دیگر چھوٹی جماعتوں کے موثر لیڈروں کا بھی پالا بدلنے کا سلسلہ شروع ہے۔

وزیر اعظم کی سیکوریٹیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

وزیر اعظم کی سیکوریٹی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 ہندوستان میں جن چند لوگوں کے تحفظ کے لیے حکومت فکر مند ہوتی ہے، ان میں ایک ملک کا وزیر اعظم ہے، تحفظ میں کوتاہی کے نتیجے میں ملک نے ۱۹۸۴ء میں اندرا گاندھی ۱۹۹۱ء میں راجیو گاندھی کو کھو دیا ان کے علاوہ ناتھو رام گوڈسے کے ذریعہ ۱۹۴۸ء میںمہاتما گاندھی، ۱۹۶۵ء میں پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ پرتاپ سنگھ کیرو، ۱۹۷۵ء میں وزیر ریل للت نرائن مشرا اور ۱۹۹۵ء میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بے انت سنگھ کا قتل اسی حفاظتی حصار کے کمزور ہونے کا نتیجہ تھا، ان حادثات سے سبق لے کر وزیر اعظم کے تحفظ کے لیے پورے حفاظتی گروپ کی تشکیل کی گئی ہے جسے ایس، پی، جی یعنی اسپیشل پروٹیکشن گروپ کہا جاتا ہے، یہ امیریکی سکریٹ سروس کے طرز پرتربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے مسلح ہوتے ہیں، یہ گروپ ۱۹۸۸ء میں بنایا گیا تھا، اس گروپ کا سالانہ بجٹ تین سو پچھہتر کروڑ رپے ہے، یہ ملک کا سب سے مہنگا اور مضبوط تحفظ کا نظام ہے۔
 وزیر اعظم جب کسی دورے پر جاتے ہیں تو ایس، پی جی کے ساتھ اے ایس ایل (ایڈوانس سیکوریٹی لیزن) ریاستی پولیس اور مقامی انتظامیہ بھی ایس پی جی کے معاون کے طور پر کام کرتی ہے، اور اسے ضروری مشورے دیتی ہے، اس طرح وزیر اعظم کے چاروں طرف چہار سطحی حفاظتی حصار ہوتا ہے؛ البتہ آخری فیصلہ ایس پی جی کا ہی ہوتا ہے ۔
 ۲۰۲۰ء میں مرکزی وزیر مملکت برائے امور داخلہ نے پارلیامنٹ میں اٹھائے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں بتایا تھا کہ وزیر اعظم کی سیکوریٹی پر روزانہ ایک کروڑ باسٹھ لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں، اتنے سارے اخراجات اور اتنے سخت تحفظ کے نظام کے باوجود وزیر اعظم کی سیکوریٹی میں اس قدر خامی رہ گئی کہ انہیں اپنا فیروز پور پنجاب کا دورہ ملتوی کرکے دہلی لوٹ جانا پڑا، یہ انتہائی حساس اور سنگین مسئلہ ہے، جس کا جواب پورا ملک جاننا چاہتا ہے ۔
اس سے قبل ۲؍ فروری ۲۰۱۹ء کو اشوک نگر مغربی بنگال ، ۲۶؍ مئی ۲۰۱۸ء شانتی نیکیتن، ۲۵؍ دسمبر ۲۰۱۷ء نوئیڈا اتر پردیش ، ۱۷؍ نومبر ۲۰۱۴ء وانکھیڈے اسٹیڈیم ممبئی میں وزیر اعظم کی سیکوریٹی میں خامیاںسامنے آئی تھیں، جس میں کئی بار انجانا شخص ان کے قریب پہونچ گیا تھا، ایک بار ان کا قافلہ بھی مہامایا فلائی اوور کی ٹریفک میں پھنس گیا تھا، گو یہ توقف صرف دو منٹ کا تھا۔خود وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی کئی موقعوں پر اس حصار کو توڑنے کا کام کیا ہے، با خبر ذرائع کے مطابق وشوناتھ کو ریڈور کے افتتاح کے موقع سے بنارس پہونچنے میں کئی بار انہوں نے سیکوریٹی نظام کی ان دیکھی کی، غیر ملکی مہمانوں کے استقبال کے موقع سے بھی ان کا رویہ پروٹوکول کے خلاف رہا ہے، ۲۰۱۹ء میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد سلمان کے دہلی پہونچنے پر ان سے گلے مل کر سیکوریٹی پروٹوکول کوانہوں نے خود سے توڑدیا تھا۔
 اسی طرح موسم کی خرابی کی وجہ سے فیروز پور جلسہ گاہ تک ان کا نہ پہونچنا بھی کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، ۲۰۱۶ء میں وہ بہرائچ کی ریلی میں موسم خراب ہونے کی وجہ سے نہیں پہونچ پائے تھے، ۵؍ اکتوبر ۲۰۱۴ء کو ناسک مہاراشٹر ، ۲۹؍ جون ۲۰۱۵ء کو وارانسی ، فروری ۲۰۱۹ء میں رودر پور اتراکھنڈ کی ریلیوں میں خراب موسم کی وجہ سے وزیر اعظم کا جانا نہیں ہو سکا تھا، لیکن انہوں نے فون پر خطاب کیا تھا اور پروگرام میں نہ آنے کی وجہ بھی بتادی تھی، پھر فیروز پور ریلی کو انہوں نے بذریعہ فون خطاب کیوں نہیں کیا؟
 یہ اور اس قسم کے بہت سارے سوالات لوگوں کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں، موسم خراب ہونے کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کے بجائے سڑک راستہ سے فیروز پور جانے کا فیصلہ وزیر اعظم کا اپنا ہو سکتا ہے، لیکن سیکوریٹی پر نگاہ رکھنا ایس پی جی کی ذمہ داری تھی، مقامی پولیس کو اس میں تعاون کرنا تھا، اس معاملہ میں ایس جی پی اس قدر طاقتور ہے کہ وہ سیکوریٹی کا حوالہ دے کروزیر اعظم کے سفر کو ملتوی کراسکتا ہے اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی ، لیکن ایس جی پی کو فیصلہ کرنے میں بیس(۲۰) منٹ لگ گئے اور وزیر اعظم کی گاڑی بیس(۲۰) منٹ تک ہائی وے پر کھڑی رہی، اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ جب موسم سازگار نہیں تھا تو ایک سو پچیس کلو میٹر کا فاصلہ بذریعہ سڑک طے کرنے کا فیصلہ ہی درست نہیں تھا، کیوں کہ اتنے طویل راستہ کو اتنی جلدی سیناٹائز کرنا ممکن نہیں تھا، پھر جب فیصلہ کر ہی لیا گیا تھا تو ہماری خفیہ ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں کہ انہیں صحیح صورت حال کا علم بیس منٹ بعد ہو سکا۔
 ہائی وے پر رکا وٹوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کسان اندولن پر بیٹھے ہوئے تھے، یہ اچانک سڑکوں پر کس طرح آگئے ، با خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کسان احتجاج کے لیے فیروز پور جا رہے تھے، پولیس نے وہاں جانے سے روکا تو وہ وہیں کے وہیں سڑک پر بیٹھ گیے، اس لیے سڑک جام ہو گیا، اگر ایسا ہے اور پولیس والوں کو معلوم تھا کہ اس راستہ سے وزیر اعظم کا قافلہ گذرنا ہے تو اسے سڑک سے ہٹا کردور بیٹھانا چاہیے تھا؛ تاکہ راستہ صاف رہے، اور وزیر اعظم کا قافلہ بحفاظت وہاں سے گذر جائے، بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا، وزیر اعظم کی سیکوریٹی کو یقینی نہیں بنایا جا سکا، اور وہ دہلی لوٹ گئے۔
 جہاں تک فون سے وزیر اعظم کے خطاب کا معاملہ ہے اس کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ کرسیاں خالی تھیں، وزیر اعظم کس سے خطاب کرتے، لوٹنے میں حفاظتی نظام کے ساتھ اس بات کا بھی بڑا دخل رہا ہو تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
 وجوہات کیا تھیں، اس پر ریاستی اور مرکزی حکومت دونوں نے جانچ کمیٹی تشکیل دی ہے،سپریم کورٹ نے سبکدوش جج کے ذریعہ اس کی تحقیق کا حکم دیاہے، اس معاملات سے متعلق حرکات سے متعلق حرکات وسکنات کے تمام دستاویز کو محفوظ رکھنے کو کہا گیا ہے، پنجاب سرکار نے ریاستی اور مقامی پولیس ذمہ داروں پر کاروائی بھی کی ہے، ان میں سے کئی معطل کیے جا چکے ہیں۔ ایجنسیوں کی رپورٹ یقینا الگ الگ ہی آئے گی، ریاستی سرکار کی رپورٹ میں سیکوریٹی ایجنسیوں کو مورد الزام گرداناجائے گا، اور مرکزی رپورٹ میں پنجاب سرکار کو ، ایک امید سپریم کورٹ کے سبکدوش جج سے ہے کہ وہ شاید حقیقت کا پردہ فاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں، بشرطیکہ وہ کسی دباؤ کے بغیر آزادانہ اورمنصفانہ جانچ پر قادر ہوں۔
وزیر اعظم کی سیکوریٹی کا معاملہ واقعتا بہت اہم ہے اور جو لوگ قصور وار ہیں ان کو سخت سزا ملنی چاہیے، لیکن جس طرح اس واقعہ پر سیاست ہو رہی ہے اور میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے ساتھ پانچ ریاستوں میں انتخاب کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا ہے، کانگریس اور بی جے پی دونوں اس واقعے کے حوالہ سے ووٹ کے حصول کی کوشش کرنے میں لگ گئی ہے، سیاست اسی کا نام ہے یہاں تو کفن کو بھی ووٹ کے لیے استعمال کرلیا جاتا ہے، یہ تو وزیر اعظم کی سیکوریٹی کا معاملہ ہے۔





مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مسلمان اعلیٰ تعلیم میں انتہائی پس ماندہ ہیں، ان کے یہاں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کی شرح صرف ۶ء ۱۶؍ فیصد ہے، جینیوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ لینے والوں کی شرح ۷۲؍ فی صد اور ہندؤوں میں داخلہ کا مجموعی فیصد ۸ء ۲۷؍ فی صد ہے، نیشنل سمپل سروے ۱۸-۲۰۱۷ء کے مطابق ستر فی صد مسلمان مالی دشواریوں کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں پیچھے رہ جاتے ہیں، بحالی اور تقرریوں میں ہو رہی نا انصافی کا خوف بھی انہیں اعلیٰ تعلیم سے دور رکھتا ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ اعلیٰ تعلیمی ادارے اپنی فیس میں اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کے لیے رعایتی فیس کا اعلان کریں، ہم جانتے ہیں کہ موجودہ دور میں یہ نا ممکن العمل تجویز ہے، لیکن اگر یونیورسٹی کے ذمہ داران کی توجہ اس طرف ہوجائے تو چنداں بعید بھی نہیں، اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے داخلہ نہ لینے کی ایک وجہ غربت وپس ماندگی ہے، واجبی تعلیم کے بعد ہمارے طلبہ اور نو جوانوں کو معاش کے حصول کے لیے تگ ودو کرنی پڑتی ہے، اگر وہ معاشی مشغولیت سے دور رہیں تو گھر والے فاقہ کشی کے شکار ہو جائیں گے، ایسے میں ایک ضرورت یہ بھی ہے کہ مختصر نصاب کے ذریعہ ان کو تعلیم دی جائے اور ان کی دلچسپی اس مختصر نصاب میں اس قدر ہو کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے پُر عزم ہوں۔
 ہمارے یہاں نصاب تعلیم اس قدر طویل ہے کہ کم وبیش تیس سال تو اس نصاب کی تکمیل میں لگ جاتے ہیں، چھوٹے کاروباری لوگ اس طرح کے تعلیمی نظام سے فائدہ اٹھاپا رہے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس اعلیٰ تعلیم کے لیے اتنا وقت ہے ۔ ایسے میں اعلیٰ تعلیم سے مسلمانوں کی دوری اور پس ماندگی کو دورکرنے کی صرف یہی ایک شکل ہے، جس کا ذکر اوپر کیا گیا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...