Powered By Blogger

بدھ, فروری 09, 2022

جمعیۃ علماء ہند کا اعلان - پابندی کی مخالفت کرنے والی طالب علم مسکان خان کو 5 لاکھ دیے جائیں گے

جمعیۃ علماء ہند کا اعلان - پابندی کی مخالفت کرنے والی طالب علم مسکان خان کو 5 لاکھ دیے جائیں گے

جمعیت علمائے ہند کے قومی صدر مولانا محمود مدنی نے کرناٹک کے اُڈپی کے مہاتما گاندھی کالج کی بی بی مسکان خان کو پانچ لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان۔ بی بی مسکان نے منگل کو کالج میں حجاب پر پابندی کے خلاف طالبات کے احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے مذہبی نعرے لگائے تھے۔ مولانا مدنی نے کہا ہے کہ ملک کی بیٹیوں کو اپنے آئینی اور مذہبی حقوق سے آگاہ ہونا چاہیے۔

بی بی مسکان کو مبارکباد دیتے ہوئے انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مذہبی حقوق کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ کیونکہ جو لوگ ملک کے آئین پر عمل کرتے ہیں، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، انہیں برابر کے حقوق حاصل ہیں۔

منگل, فروری 08, 2022

ہم مضطرب کیوں ہیں؟ کامران غنی صبا اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نتیشور کالج،مظفرپور

ہم مضطرب کیوں ہیں؟ 
کامران غنی صبا 
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نتیشور کالج،مظفرپور 
انسانوں کی اکثریت پریشان ہے. کسی کو روزگار کا مسئلہ ہے. جن کے پاس روزگار ہے وہ بھی پریشان ہیں،پروموشن نہیں ہو رہا ہے. دفتری مسائل ہیں. 
کسی کی اولاد ناخلف ہے. گھریلو جھگڑے ہیں. بیماریاں ہیں. کوئی قرض میں ڈوبا ہے. کسی کی تجارت نقصان میں جا رہی ہے. کوئی مقدمہ میں پھنسا ہوا ہے. کسی کے ساتھ ازدواجی زندگی کے مسائل ہیں. میاں بیوی کے جھگڑے ہیں. ساس بہو کی رنجشیں ہیں. 
کسی سے خیریت پوچھیے تو کہتا ہے "جس حال میں رکھے اللہ کا شکر ہے".... یہ "جس حال میں رکھے" کا سابقہ..... کہنے والے کا لہجہ..... شکر میں ناشکری کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے. پہلے ہم کچے مکانات میں رہتے تھے. اب بیشتر لوگوں کے پاس پکے مکانات ہیں. پھر بھی ہم تکلیف میں ہیں. کپڑے سال میں ایک یا دو بار بنتے تھے اب تو ہم بے ارادہ بھی کپڑے خریدتے ہیں. پھر بھی ناخوش ہیں. اکثر لوگوں کی طرز رہائش پہلے سے زیادہ اچھی ہوئی ہے لیکن ہم پہلے سے زیادہ پریشان بھی ہیں. کھانے کے لیے انواع و اقسام کی چیزیں اب سب کی دسترس میں ہیں لیکن بیماریاں بھی اسی تناسب میں بڑھی ہیں. ہر گھر میں کوئی نہ کوئی بیمار ہے. نوجوان لوگ ڈاکٹروں کا طواف کر رہے ہیں. ہم بظاہر مسکرا رہے ہیں لیکن اندر سے کرب میں ہیں. وجہ کیا ہے؟وجہ روپیہ پیسہ اور دولت ہے؟ شاید نہیں..... بلکہ یقیناً نہیں... کیونکہ روپیہ، پیسہ بیشتر لوگوں کے پاس پہلے سے زیادہ ہے. مسئلہ روزگار ہے؟ شاید مسئلہ روزگار بھی نہیں ہے کیونکہ پہلے بھی روزگار کے مسائل رہے ہیں. آج سے زیادہ رہے ہیں. بڑے بڑے گھر ایک فرد کی کمائی سے چلتے تھے.
ہر شخص اپنی زندگی کو پرسکون بنانا چاہتا ہے. سکون حاصل کرنے کی دھن میں وہ اضطراب خریدتا جاتا ہے. انسان سمجھتا ہے کہ مکان اچھا ہو جائے گا تو وہ خوش رہنے لگے گا. اس کے پاس گاڑیاں ہوں گی. عہدہ و منصب ہوگا، اچھی طرز رہائش ہوگی تو اس کی زندگی میں سکون آ جائے گا. جن کے پاس یہ سب کچھ ہے المیہ یہ ہے کہ وہ بھی سکون میں نہیں ہیں. جن کے پاس بظاہر سب کچھ ہے ان کی فکر میں اضطراب ہے. نیند میں اضطراب ہے. دولت اور عہدہ و منصب ختم ہو جانے کا اندیشہ یعنی بے سکونی ہے.
انسان کی زندگی میں بے سکونی اور اضطراب کی وجہ خواہشات اور توقعات ہیں. خواہشات اور توقعات جتنی زیادہ ہوں گی، اندیشہ خوف اور اضطراب اسی قدر زیادہ ہوگا. انسان اپنے حال سے مطمئن نہ ہو تو وہ پرسکون نہیں رہ سکتا. اپنے سے زیادہ پریشان حال لوگوں کو دیکھ کر صبر و سکون حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن ہم خود سے زیادہ خوشحال اور آسودہ لوگوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اور اپنا چین و سکون خود اپنے ہاتھوں غارت کر بیٹھتے ہیں. انسان خواہشات اور توقعات کی جتنی اونچی عمارت پر متمکن ہوگا عمارت کے منہدم ہونے کی صورت میں اس کی ہلاکت کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے. اپنی موجودہ حالت سے مطمئن نہ رہنے والے لوگ زندگی کی کسی بھی مرحلے اور کسی بھی حالت میں مطمئن نہیں ہو سکتے. "ہر حال میں اللہ کا شکر ہے" کہنا کوئی رسمی جملہ نہیں ہے. ہمارے ہر ہر عمل سے جب تک شکرگزاری کا اظہار نہ ہو شکر کا حق ادا نہیں ہوسکتا اور مصنوعی ناشکری کے اظہار کی سزا سوائے اضطراب کے اور کیا ہو سکتی ہے.

پیر, فروری 07, 2022

سَرقہ- ایک مذموم عملمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

سَرقہ- ایک مذموم عمل
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
 سَرقہ عربی زبان کا لفظ ہے اس کا اردو ترجمہ ’’چوری‘‘ معروف او رمتداول ہے،جس کا مطلب خفیہ طریقے سے کسی اور کی چیز اٹھا لینے کے ہیں،زمانہ قدیم میں چوری کی اصطلاح رات کی تاریکی میں گھر میں گھس کر مال واسباب غائب کرنے کے لیے بولا جاتا تھا، پھر چوری کا یہ عمل متعدی ہوا اور آنکھ جھپکی اور مال غائب کا رواج عام ہو گیا، اب نہ رات کی تاریکی کی ضرورت ہے اور نہ چپکے سے گھروں میں سیندھ لگانے کی اب تو آنکھ بند ڈبہ غائب کا محاورہ عام ہے اس کے مناظر مختلف اسفار میں سامنے آتے رہتے ہیں، آپ چوکنا نہیں ہیں ، سامان کی طرف سے غافل ہیں تو کہاں پر اور کس کے ذریعہ آپ کی جمع پونجی اور مال ومتاع اُچک لیا جائے، کہنا مشکل ہے، چوری کا یہ عمل شاعروں کے یہاں بھی بڑا مقبول رہا ہے، لیکن وہ کسی کا سامان نہیں چُراتے محبوبہ کی آنکھوں سے کاجل اور سرمہ چُرانے میں خاصی دلچسپی دکھاتے ہیں۔
 اب چوری کرنے والے سینہ زوری بھی کرتے ہیں، بلکہ اب توچوری سے زیادہ ڈکیتی نے رواج پالیا ہے اور بقول شاعر، رات کا انتظا کون کرے، آج کل دن میں کیا نہیں ہوتا، دن میں ہی لوگ ہتھیار سے لیس آتے ہیں اور سب کچھ لوٹ کر چلتے بنتے ہیں، عافیت پسند لوگ ان کے مزاحم ہونے سے گھبراتے ہیں، کیوں کہ مزاحمت کے نتیجے میں مال کے ساتھ جان کے چلے جانے کا خطرہ بھی رہتا ہے، پولیس اور حفاظتی دستے اس کو روک سکتے ہیں، لیکن عموما ہماری پولیس کی ناک کے نیچے ہی جرم ہو تاہے تو اس وقت متوجہ ہوتی ہے جب سب کچھ لُٹ چکا ہوتا ہے، بلکہ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جن علاقوں میں تھانہ قائم ہے وہاں جرائم کا گراف کچھ زیادہ ہی رہتا ہے ، کیوں کہ پولیس کی ملی بھگت سے جرائم پیشہ جرم کرتے ہیں، ملی بھگت کے بعد کس کی مجال ہے کہ جرائم کو روک دے، اسی بنیاد پر یہ مثل مشہور ہے کہ سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا۔
 چوری سے کتابوں کے چھاپنے کا بھی رواج بر صغیر ہند وپاک میں عام ہے، آپ لاکھ جملہ حقوق محفوظ لکھتے رہیں، مکتبہ اور کتب خانہ والوں کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا، اشاعتی اداروں کو اس کی وجہ سے سخت نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور جس نے اس کتاب پر کوئی رقم خرچ نہیں کی ، مصنف کو روائلٹی نہیں دی، وہ کتابیں بیچ بیچ کر وارے نیارے کر لیتا ہے ۔
 چوری کا یہ عمل تخیلات میں بھی ہوتا ہے، شعراء کے یہاں عموما اس عمل کو توارد سے تعبیر کرتے ہیں، ایک ہی قسم کا خیال دو شاعروں کے یہاں شعر میں بندھ گیا تو اسے اتفاق سمجھا جاتا ہے، توارد کا سہارا لے کر بہت سارے متشاعر تو مصرعہ کا مصرعہ اڑالے جاتے ہیں۔
 اردو نثر میں خیالات مستعار لینے کو ’’قوت اخذ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور اسے معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا ، ادب وشاعری اور مذہبی لٹریچر میں بھی اس کی بہت ساری مثالیں ہیں، لیکن نثر میں یہ عمل الفاظ وجملہ کی ساخت، تعبیرات کی تبدیلی کی وجہ سے چوری نہیں قرار دیا جاتا ، کیوں کہ تخیلات بھی بعینہ نہیں ہوتے، قلم کار اپنا دماغ لگا کر سابقہ تخیل کو پروان چڑھاتا ہے، اور اس طرح پیش کردیتا ہے کہ وہ بالکل نئی معلوم ہوتی ہیں، کبھی کبھی پیش یا افتادہ موضوع ہوتا ہے، ممکن ہے کسی نے اس پر کچھ لکھا بھی ہو، لیکن اس کی اپنی سوچ اور لکھنے کا انداز اس کو کہیں سے کہیں پہونچا دیتا ہے ۔
مذموم وہ حرکت ہے کہ کسی اہل قلم کا پورا کا پورا مضمون اڑا کر اپنے نام سے شائع کر لیا جائے، اپنا نام اس کے ٹائٹل پیج پر دینا ضروری ہوتو بھی اسی قدر دینا چاہیے، جتنا کام اس نے کیا ہے ، عربی واردو کتابوں کے جو ایڈیشن ورک ہوتے ہیں، ان میں ٹائٹل پر’’ تحقیق وتحشیہ‘‘ ،’’ نظر ثانی واضافہ‘‘ جیسے الفاظ لکھ کر واضح کر دیا جاتا ہے کہ اس نے کتنا کام کیا ہے ، بعض مصنفین کے یہاں یہ طریقہ بھی رائج ہے کہ وہ جب دوسروں کی تصنیفات وتالیفات کو مرتب کرتے ہیں تو باضابطہ پیش لفظ اور مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ میں نے اس تصنیف پر اس قسم کی محنت کی ہے ،اصل کتاب فلاں صاحب کی ہے، پوری پوری کتاب کے سرقہ کا یہ عمل آج کل ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے زیادہ ہوتا ہے ، ایک یونیورسیٹی میں جوکام ہو گیا ، اسی عنوان پر رجسٹریشن کراکر پورا مقالہ نام بدل کر داخل کر دیا جاتا ہے، اس عمل کو روکنے کے لیے کوششیں بہت ہوئیں ، یونیورسٹی میں جن موضوعات پرڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی اس کی فہرست کی اشاعت کی گئی ، قینچی کے کام کو روکنے کے لیے طویل اقتباس کے نقل پر بھی یک گونہ روک لگائی گئی ، لیکن یار لوگ کہاں ماننے والے ہیں۔
 اسی طرح جو کام ٹیم ورک نے کیا ہے ، اس کو بھی کسی ایک نام سے منسوب کر دینا ’’سرقہ‘‘ کے ذیل میں آتا ہے اس لیے کہ اجتماعی محنت کو انفرادی محنت قرار دینے کی جسارت کی گئی ہے ، سرکاری اداروں میں جو ورک شاپ ہوتا ہے اس میں بہت سارے شرکاء ہوتے ہیں، آپ نے دیکھا ہوگا کہ کتابوں پر تمام شرکاء کے نام شائع کیے جاتے ہیں، مثال کے طور پر ایک کتاب ہے ’’اردو زبان کا جادو‘‘ یہ کتاب فروغ اردو دہلی سے شائع ہوئی ہے، اس کا موضوع کھیل کھیل میں تدریس تھا، سو لن ہماچل پردیش میں میرے ساتھ درجن بھر لوگ اس ورک شاپ میں تھے، اس لیے میرے لیے یہ درست نہیں ہوگا کہ میں اسے اپنی کتاب قرار دوں، یہ صرف میری نہیں پورے ورک شاپ کے شرکاء کی محنت کا نتیجہ ہے، ایمانداری یہ ہے کہ سب کی محنت کو سراہا جائے اور اگر چیز چھپ رہی ہے تو سب کا نام دیا جائے، کم از کم پیش لفظ اور مقدمہ میں اس کا ذکر ضرور آنا چاہیے۔
 آج کل ایک طریقہ دوسرے کے مضامین کے طویل اقتباسات نقل کرنے کا ہے ، یہ طویل اقتباسات اس لیے نقل کیے جاتے ہیں کہ اپنے مطالعہ کا رعب قارئین پر ڈالا جائے اور اقتباس نقل کرکے مقالہ او رمضمون کو طویل کیا جائے، اقتباسات کا نقل کرنا ’’سرقہ‘‘ نہیں ہے بشرطیکہ آپ نے اسے واوین کے درمیان نقل کیا ہے ، ایمانداری سے مصنف اور اس کی کتاب کا حوالہ دیا ہے ، لیکن اگر آپ نے بغیر واوین کے اقتباسات کواپنے مضمون کا جزو بنا لیا تو یہ سرقہ ہے اور مذموم ہے، خود میرے ساتھ یہ ہو چکا ہے کہ میرا پورا مضمون جوپہلے سے مطبوعہ ہے ، دینی تعلیم اور فکر معاش، اسے ایک صاحب نے پورے کا پورا اپنے نام سے شائع کر دیا ، مضمون قارئین کو پسند آیا تو کئی رسائل میں چھپا۔
 اس کا مطلب یہ نہیں ہے ، مثل اور محاورہ کو بھی واوین کے درمیان ڈالے بغیر نقل نہ کیا جائے، ظاہر ہے اسے بھی کسی نے وضع کیا ہوگا، لیکن وہ اب زبان وادب کی میراث اور جاگیر ہو گئی ، ان کے واضع کا نام بھی معلوم نہیں ہے، اس لیے ان محاوروں اور ضرب الامثال کے استعمال کو ’’سرقہ‘‘ کی فہرست میں نہیں رکھا جا سکتا ، اس لیے اسے نہ تو واوین میں لینے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی وضاحت کی۔
آج کل سرقہ کا ایک اور طریقہ رواج پا گیا ہے اور وہ ہے دوسروں کی تحریر ، تبصرےاور پوسٹس کو اپنے نام سے فارورڈ کرنا، بعض لوگ تو اس قدر جری ہوتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر اپنا نام لکھ کر دوسروں کی تحریر کو آگے بھیج دیتے ہیں، فارورڈ کیا کرتے ہیں اور مقصد اپنے کو نمایاں کرنا ہوتا ہے اور شاباشی بٹورنا ہوتا ہے اور یہ سب وہ اس عمل پر چاہتے ہیں جو انہوں نے کیا ہی نہیں ہے ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآ ن کریم میں درد ناک عذاب کا اعلان کیا ہے، سورہ آل عمران آیت نمبر ۱۸۸ میں ہے : ’’ وہ لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں، آپ انہیں عذاب سے بری نہیںسمجھئے، ان کے لیے تو درد ناک عذاب ہے‘‘ علامہ ابن عبد البر ؒ نے ابو عمر کا یہ قول نقل کیا ہے کہ علم کی برکت اس میں ہے کہ ہر چیز کو اس کے قائل کی طرف منسوب کیا جائے، چنانچہ امام قرطبی ؒ نے تفسیر کے مقدمہ میں ہی یہ بات واضح کر دی ہے کہ میں اقوال کو ان کے قائلین کی طرف ہی منسوب کروں گا، امام نووی ؒ نے نشان العارفین میں لکھا ہے کہ علماء کرام کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ وہ فوائد کو اس کے قائل کی طرف ہی منسوب کرتے ہیں، علامہ البانی ؒ نے دوسرے کی چیزوں کو بغیر اس کی طرف منسوب کرنے کو چوری قرار دیا ہے، اور اسے شرعا نا جائز بتایا ہے۔
 سرقہ کی تفصیلات اور بھی ہیں، شریعت میں بعض شرائط وقیود کے ساتھ اس کے لیے ہاتھ کاٹنے تک کی سزا مقرر ہے اور ایک ہاتھ کاٹنے پر وہ باز نہیں آیا تو یہ سزااور حدود وبارہ بھی جاری کی جائے گی ، میں بالکل یہ نہیں کہتا کہ اس مضمون میں سرقہ کی جتنی قسموں پر کلام کیا گیا ہے ، سب حد کے دائرہ میں آتے ہیں، بعض میں حد ہے ، بعض میں تعزیر ہے، اور بعض میں ہندوستانی قوانین کے اعتبار سے سزائیں مقرر ہیں، لیکن اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ چوری اور سرقہ چاہے جس قسم کا بھی ہو یہ عند اللہ اور عند الناس مذموم عمل ہے، اس سے باز آنا چاہیے۔

اتوار, فروری 06, 2022

ایس پی کے بڑھتے کارواں کو دیکھ لوگوں کو دھمکایا جارہاہے : اکھلیش

ایس پی کے بڑھتے کارواں کو دیکھ لوگوں کو دھمکایا جارہاہے : اکھلیش
آگرہ:
 سماج وادی پارٹی(ایس پی) سربراہ اکھلیش یادو نے اتوار کو دعوی کیا کہ جیسے جیسے یوپی اسمبلی انتخابات کے دوران انتخابی تشہیر میں عوامی حمایت میں اضافہ ہورہا ہے ایس پی کے لوگوں اور حامیوں کو ریاست کے مختلف حصوں میں دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے آگرہ کے باہ اور اعتماد پور میں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اکھلیش نےکہا' میں لگاتار یہ سن رہا ہوں کہ جیسے جیسے عوامی کی انتخابی مہم کو عوامی حمایت بڑھ رہی ہے اس کے نتیجے میں ایس پی کے لوگوں کو دھمکایا اور خائف کیاجارہا ہے۔انہوں کارکنوں کو آگاہ کیا کہ آپ کے پاس موبائل ہے اگر کوئی آپ کو دھمکی دیتا ہے فورا اس کا ویڈیو بنالیجئے۔
بھارت رتن لتا منگیشکر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اکھلیش نے کہا کہ جب ایس پی کی ریاست میں حکومت بنے گی تو معروف گلوکارہ کی یاد و اعزاز میں یوپی میں بڑے پیمانے پر کام کیا جائے گا۔اکھلیش نے کہا کہ میں یہاں آپ سے یہ اپیل کرنے آیا ہوں کہ یہ الیکشن تنہا یوپی کا الیکشن نہیں ہے۔یہ الیکشن ملک کے مستقبل کا الیکشن ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) نے پولیس نظام کو بھی چوپٹ کردیا ہے۔'سماج وادی پارٹی نے ڈائل 100سروس کا آغاز کیا تھا تاکہ دیہی علاقوں میں رہنے والے افراد بحران میں پولیس کو کال کرسکیں۔ڈائل100اب بھی جاری ہے لیکن بابا(وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ)ٹائر نہیں تبدیل کیا بلکہ 100کو112سے تبدیل کردیا اور پولیس کا کباڑا کردیا۔ انہوں نے کہا کہ یوپی میں نظم ونسق کی بہتری کے لئے ایس پی حکومت پولیس فورس کی گاڑیوں میں اضافہ کرے گی۔
ایس پی سربراہ نے الزام لگایا کہ کورونا بحران کے دوران بی جے پی حکومت علاج کے لئے دوا، آکسیجن اور علاج فراہم کرنے میں ناکام رہی۔'اگر اس وقت کوئی متاثرین کے کام آیا تو وہ ایس پی میعاد کار میں شروع کی گئی ایمبولنسز ہی تھیں۔ایمبولنس گاڑیاں عوام کے درواز دروازے پہنچ رہی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ایس پی نگراں ملائم سنگھ یادو نے رام منوہر لوہیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کا لکھنؤ میں قیام کیا۔ہم نے ریاست میں طبی سہولیات کو تقویت فراہم کی۔بی جے پی نے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی کے نام پر ایک یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا لیکن اس کی تعمیر نہیں کراسکی۔
اکھلیش نےکہا کہ جب سماج وادی پارٹی اقتدار میں آئے گی سابق وزیر اعظم کے آبائی وطن بٹیشور میں ان کے نام کی یونیورسٹی تعمیر کرائے گی۔انہوں نے کہا کہ صارفین کو بہتر پاور سپلائی کے لئے اگگر ضرورت پڑی تو مزید سب اسٹیشن قائم کئے جائیں گے۔ اکھلیش نے کہا کہ وزیر اعلی گرمی نکالنے کی بات کررہے ہیں میں گرمی کے بارے میں نہیں جانتا لیکن جب ایس پی کی حکومت بنے گی تو ہم بھرتیاں نکالیں گے۔

نقوش آگہیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

نقوش آگہی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 محمد وارث حسن کے اصلی اور وارث ریاضی کے قلمی نام سے اہل علم وادب کی دنیا میں مشہور اور معارف اعظم گڈھ کے حلقۂ قارئین میں خاص طور سے مقبول ومعروف شاعر، ادیب، ناقد اور محقق کا وطن سکٹا علاقہ دیوراج مغربی چمپارن ہے، ۲؍ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو شیخ اسماعیل بن شیخ عنایت حسین کے گھر پر اس عالم گیتی میں آنکھیں کھولیں ۱۹۶۵ء میںد ار العلوم دیو بند سے فارغ ہو ئے ، بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے اردو فارسی میں فاضل اور بہار یونیورسٹی مظفر پور سے فارسی زبان وادب سے ایم اے کیا، فرسٹ ڈویزن حاصل کرنے والوں میں تین ہی ان سے آگے بڑھنے کی ہمت جُٹا پائے، زمانہ دراز تک دار العلوم بسوریا کے استاذ اور ذمہ دار رہے، حرف آرزو (۲۰۱۲) نقوش افکار (۲۰۱۶) اور نقوش آگہی (۲۰۲۱) میں منظر عام پر آئی، نقش آرزو زیر طبع ہے اور دیار حرم کا سفر نامہ ’’چند دن دیار حرم میں‘‘ اور مشاہیر کے خطوط ’’پیام شوق‘‘ کے نام سے زیر ترتیب ہیں، شاعری، نثر نگاری کے ساتھ اس عمر میں تحقیق کا کرب جھیلتے رہتے ہیں، ان کی عمر دیکھیے اور حوصلہ دیکھیے، ہم جیسے لوگوں کو تو یہ سب دیکھ کر کم عمری میں ہی پسینہ آنے لگتا ہے۔
’’ نقوش آگہی‘‘ مولانا وارث ریاضی کے مقالات ومکتوبات کا مجموعہ ہے، مقالات میں تحقیق کا عمل دیکھنے کی چیز ہے، بلکہ نئی نسل کو اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے کہ تحقیق اس طرح کرتے ہیں، بہار میں قاضی عبد الودود کے بعد تحقیق کا عمل کمزور پڑا ہے، پی اچ ڈی کے نام پر جو تحقیق ہو رہی ہے وہ یا تو قینچی کا عمل ہے یا بقول گوپی چند نارنگ ، دفتیوں کے بیچ کچھ اوراق لکھے ہوئے ہوتے ہیں، ایسے میں وارث ریاضی کی تحقیق اس رسم کہن کو بچائے ہوئے ہے، جس میں جاں سوزی اور جاں کاہی کرکے چیونٹی کے منہہ سے دانہ دانہ جمع کیا جاتا تھا۔ 
تین سو بیس صفحات کی اس کتاب کا انتساب دار المصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڈھ کے ترجمان معارف کے نام ہے، جس نے مولانا وارث ریاضی کو پرورش لوح وقلم کے جذبہ والہانہ سے سرشار کیا، کتاب کا مقدمہ ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی نے لکھا ہے، مولانا محمد عمیر الصدیق ندوی نے ’’اپنی بات‘‘ کہی ہے اور ’’عرض مصنف‘‘ میں وارث ریاضی صاحب نے ان آٹھ مقالوں کا تعارف اس طرح کرایا ہے کہ قاری اس کے مندرجات تک جلد از جلد پہونچنے کے لیے بیتاب ہوتے ہیں، یہ مقالات حضرت جگر مراد آبادی کی شاگردی کا مسئلہ حقیقت کے آئینے میں ، عمر ہا باید کے مرد پختہ کار آید چنیں  حضرت مولانا سید نظام الدین ؒکی شاعری ایک تجزیاتی مطالعہ ، بہار کی ایک قدیم دینی درسگاہ ، درست گفت محدث کہ قوم ازوطن است، استدراک، سرہند شریف کا ایک مبارک سفر ، کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں ، موضوعات کا پتہ چلتا ہے، عمر ہا باید کے مرد پختہ کار آید چنیں ، درست گفت محدث، اور استدراک نظریہ قومیت پر مولانا حسین احمد مدنی اور علامہ اقبال کے دریان جو اختلاف تھا اس پر ہے بہار کی قدیم درسگاہ میں جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
مکتوب بنام مشاہیر میں دس لوگوں کے نام خطوط ہیں، یہ خطوط مسرور حسین، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، عطا عابدی، مولانا ضیاء الدین اصلاحی، ف، س اعجاز ، خلیق انجم، مولانا محمد عمیر الصیدق ندوی، پروفیسر ریاض الرحمن خان شیروانی، خورشید اکبر اور ابرار رحمانی کے نام ہیں، جو سب کے سب علم وفضل کے ماہ نجوم ہیں، یہ مکتوبات بھی علمی ، تحقیقی ہیں، ان میں وارفتگی قلب ونظر کا اظہار کم ہے تحقیق کی شمع اس طرح روشن کی گئی ہے کہ بہت ساری چیزیں جو تاریکی میں تھیں روشنی میں آگئی ہیں۔
 تیسرا باب ’’بغیر لفظ باب‘‘ کے رشحات نقد ونظر ہے، جو اصلا مصنف کی کتاب نقوش افکار پر لکھے گیے ، تبصروں کا مجموعہ ہے، یہ کل چودہ تبصرے ہیں، حوصلہ افزائی اور ذرہ نوازی کے لیے ایک نمبر پر اس حقیر کی تحریر کو جگہ دی گئی ہے جو نقیب میں شائع ہوئی تھی، البتہ مولانا وارث ریاضی صاحب اور پروف ریڈر راجو خان پر اللہ رب العزت کی محبت اس قدر غالب ہے کہ میرا نام فہرست  اور مضمون دونوں جگہ ثناء اللہ لکھ دیا گیا ہے، اللہ بڑا نام ہے، مگر مجھ جیسے گناہ گار کے نام کا وہ جز نہیں بن سکا، بڑے بھائی ماسٹرمحمد ضیاء الہدیٰ مرحوم سے قافیہ ملانے کے چکر میں والد صاحب نے میرا نام محمد ثناء الہدیٰ رکھ دیا، اور اسی نام سے بندہ لوگوں میںجانا جاتا ہے۔
میر ے علاوہ جن لوگوں کے تبصرے اس کتاب میں شامل ہیں، ان میں پروفیسر ریاض الرحمن خان شیروانی، نوشاد منظر، مولانا غطریف شہباز ندوی ، راجو خان، ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی، اسعد اللہ، مولانا عمیر الصدیق ندوی، شکیل رشید، پروفیسر فاروق صدیقی ، ڈاکٹر رضاء الرحمن عاکف، ثناء اللہ ثنا دوگھروی، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد، ظفر حسین کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں، ان حضرات نے نقوش افکار کے در وبست اور خوبیوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔
 ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی نے مقدمہ میں لکھا ہے کہ ’’یہ مجموعہ مقالات زبردست علمی تحقیقات وافادیت سے مملو ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔تین سو بائیس صفحات پر مشتمل اس مجموعہ کی قیمت تین سو روپے ہے، دار المصنفین اعظم گڈھ ، بک امپوریم سبزی باغ ، اور خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹںہ سے کتاب مل سکتی ہے، میں اس تبصرہ کو مولانا عمیر الصدیق ندوی کے ان دعائیہ کلمات پر ختم کرتا ہوں، مولانا نے لکھا ہے کہ
’’اس کتاب کے مضامین اور مکاتیب کو پڑھ کر دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اردو ادب وشعر کی صلاح وفلاح اور علم کی مقصدیت اور اس کی اصل افادیت ونافعیت اور ادب کی بقاء ترقی واستحکام کے لیے وارث ریاضی صاحب کی حیات وخدمات میں برکات کی بارش کرتا رہے، زخموں کی مہر وماہ سے علم کے بام پر جشن چراغان وہ یوں ہی بناتے رہیں۔ ‘‘(آمین)

جمعہ, فروری 04, 2022

شکر گذاری___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

شکر گذاری___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اللّٰہ رب العزت نے اس کائنات کو بنایا اور وہ تمام چیزیں فراہم کیں جو اسباب کے درجہ میں زندگی گذارنے کے لیے ضروری ہیں ، پھر جب یہ کائنات سج سنور کر انسان کے رہنے کے لائق ہوئی تو حضرت آدم علیہ السلام اور ماں حوا کو روئے زمین پر بھیجا؛ تا کہ اس دنیا میں نسل انسانی کو فروغ ہو اور یہ کائنات آباد و شاداب رہے ، چنانچہ انسانوں نے پوی دنیا کو آباد کیا ، قدرت نے جو زمین میں مخفی صلاحیتیں رکھی تھیں ان کو کام میں لا کر اسے ترقی کے بام عروج پر پہونچا دیا ، اب انسان ظلوم و جہول یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب میں نے کیا اور یہ ساری رونق ہمارے دم سے ہے ، وہ یہ بھولتا جا رہا ہے کہ یہ ساری چیزیں اللّٰہ نے ہمارے لیے مسخر کی تھیں ، اس لیے ہم اس کو کام میں لا کر نیا جہان بناتے رہے ، لیکن اگر اللّٰہ ہوا کو روک دیتا ، آکسیجن ہماری ناک سے نہیں گذرتا، پانی کے سوتے خشک ہو جاتے ، زمین سے غلے نہیں اگتے اور ارد گرد کا ماحول خراب ہو تا تو ہم یہاں کام کیا کرتے ؟ اپنی ہی زندگی دشوار تھی ، ایسے میں انسان گھٹ گھٹ کر مر جا تا ، اللّٰہ رب العزت نے اپنی ان نعمتو ں کے بارے میں واضح کیاکہ اگر تم اللّٰہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے ، اللّٰہ تعالیٰ نے سورہ رحمن میں اپنی مختلف قسم کی نعمتوں کا بار بار ذکر کیا اور فرمایاکہ تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤگے۔
ان نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اللّٰہ رب العزت کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمارے لیے ان چیزوں کو مسخر کر دیا ، اللّٰہ رب العزت نے اس شکر گذاری پر نعمتوں میں اضافہ کا اعلان کیا ہے اور ناشکری پر سخت عذاب کی وعید وارد ہوئی ، لیکن انسان انتہائی نا شکرا واقع ہوا ہے ، عام حالات میں ان نعمتوں کی طرف اس کا ذہن منتقل ہی نہیں ہو تا ،خیال اس وقت آتا ہے جب اک ا ک بوند پانی اور ایک ایک سانس کی لمبی قیمت چکانی ہوتی ہے اور تب جا کر انسان کی سمجھ میں آتا ہے کہ اگر ہم پوری زندگی ساری کائنات کی نعمتوں کو چھوڑ کر انہیں دو چیزوں کی شکر گذای میں اپنا سب کچھ قربان کر دیں تو بھی شکر ادا کرنے کا ہم حق ادا نہیں کر سکتے ، واقعہ یہ ہے کہ دنیا کے سارے درخت کا قلم اورتمام سمندر کے پانی کو روشنائی کے طور پر استعمال کر لیں تو بھی مالک حقیقی اور پروردگار عالم کا حق ہم ادا نہیں کر سکتے ، اس لیے بندہ کو چاہئے کہ وہ ہر حال میں شکر ادا کرتا رہے ، مصیبت آئے تو صبر کرے اور آسائش میں ہو تو شکر کرے ، پھر اس شکر کی ادائیگی کی توفیق بھی اللّٰہ نے دی ، اس لیے اس توفیق پر بھی شکر اداکرے اور کرتا رہے ، فلاسفہ کے یہاں دور و تسلسل ممنوع اور محال ہو تو ہوا کرے ، اللّٰہ رب العزت کے شکر کے باب میں تو تسلسل ہی اصل ہے، ہر دم ، ہر آن اور ہروقت اللّٰہ کی تعریف میں رطب اللسان رہے ،یہی اللّٰہ کا حق ہے اور بندے کی سر بلندی کا مدار و معیاربھی اسی پر ہے۔

جمعرات, فروری 03, 2022

مولانا محمد یحیٰ بھاممفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا محمد یحیٰ بھام
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
جنوبی افریقہ کے نامور عالم دین ، امیر خدمت العوام ، صدر لینیسیا مسلم اسکول، استاذ لینیسیا مسلم ایسوسی ایشن  حضرت مولانا ابر ارلحق حقی رحمۃ اللہ علیہ کے دست گرفتہ ، اشرف المدارس اور جامع مسجد اشرفیہ کے بانی، بر صغیر ہند وپاک اور بنگلہ دیش کے علمائ، مدارس اور دینی اداروں کے قدر داں مولانا محمد یحیٰ بھام کا ۲؍ جمادی الثانی ۱۴۴۳ھ مطابق ۶؍ جنوری ۲۰۲۲ء کو طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا، ان کی رہائش جنوی افریقہ کے شہر لینیسیا میں تھی، اور وہیں دعوت وتذکیر اور بیعت وارشاد کا کام کرتے تھے، دس سال سے زیادہ عرصہ سے وہ کڈنی کے مریض تھے اور روزانہ ڈائی لاسس ہوتا تھا، اس کے باوجود ان کی قوت فکر وعمل میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں تھی، جنونی افریقہ کے علماء میں انہیں امتیاز حاصل تھا۔
 مولانا یحیٰ بھام کے آباؤاجداد اصلا گجرات کے رہنے والے تھے، انہوں نے نقل مکانی کرکے لینیسیا کو اپنا مستقر بنایا، مولانا کی پیدائش وہیں ہوئی، مولانا نے اپنی تعلیم ادارہ دعوۃ الحق ہردوئی اور جامعہ عربیہ ہتھورہ باندہ سے مکمل کی اور ان بزرگوں کی مجلس سے جو کچھ پایا تھا اسے افریقہ کے مسلمانوں میں بانٹنے کے لیے پوری زندگی وہیں قیام کیا، جمعیت علماء جنوبی افریقہ ٹرانزوال سے بھی ایک عرصہ تک وابستہ رہے۔
 جب جمعیت علماء اٹرا نزوال نے ہندوستانی مدارس کے علماء کو شناخت نامہ دینا بند کر دیا تو انہوں نے جمعیت علماء کی اس فکر سے اختلاف کیا اور کئی بڑے علماء کے ساتھ انہوں نے بھی جمعیت سے علاحدگی اختیار کی اور سخت دباؤ کے باوجود علماء ومدارس کے لیے شناخت نامہ جاری کرنا شروع کیا اور پوری زندگی اس پر عامل رہے، بڑی مخالفت کے باوجود ان کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی اورپائے ثبات میں کوئی لرزش نہیں آئی، وہ کہا کرتے تھے کہ میں مدارس کی چٹائی کا پروردہ ہوں، میں ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تو دوسطر کی کوئی تحریر بھی نہیں دے سکتا، میں اتنا تو کرہی سکتا ہوں، میں اسے کرتا رہوں گا۔
مولانا کے اس طرز عمل سے ہندوستانی مدارس کے ذمہ داران اور علماء ان سے انتہائی قریب ہوتے چلے گیے اور کہنا چاہیے کہ ان کی حیثیت مرجع کی ہو گئی، جہاں علماء جا کر عافیت محسوس کرتے ان کے اخلاق سے متاثرہوکر ان کے گرویدہ ہو جاتے۔
 جس زمانہ میں میری آمد ورفت جنوبی افریقہ تھی، سال میں کئی کئی ملاقاتیں ان سے ہو جاتیں، وہ امارت شرعیہ سے واقف تھے، اور اس کی خدمت کو محبت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، امارت شرعیہ کے لیے جو کچھ ان سے ممکن تھا، کیا کرتے تھے، کم سے کم اتنا تو ضرور کرتے تھے کہ ہم کسی سے ملاقات کریں تو اس کے سامنے مجھے اپنا تعارف نہ کرانا پڑے۔
مولانا یحیٰ بھام نے جنوبی افریقہ میں دینی علوم کے فروغ اور دعوت وتبلیغ کے میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں، ان کی مسجد، مدرسہ اور خانقاہ بھی تھی اور انہوں نے جنوبی افریقہ جیسے ملک میں اسلامی شعار پر لوگوں کو باقی رکھنے کے لیے کامیاب جد وجہد کی، وہ وہاں کی دینی مجلسوں کی جان تھے، وہ ایک زمانہ تک ’’خدمت العوام‘‘ تنظیم کے امیر رہے، صدر لینیسیا مسلم اسکول کی حیثیت سے اسلامی ماحول میں بنیادی دینی تعلیم کے فروغ کے لیے کام کیا، ایک زمانہ تک لینیسیا مسلم ایسوسی ایشن میں استاذ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں، اور کہنا چاہیے کہ پوری زندگی دعوت وتبلیغ ، تعلیم وتدریس کے ذریعہ بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لانے کا کام کیا۔
لمبا قد، کھلتا رنگ ، چوڑی پیشانی ، گھنی ڈاڑھی، ابرو کشیدہ ، پنج گوشی ٹوپی کبھی کبھی سر پر عمامہ اس وضع قطع اور حلیہ میں مولانا انتہائی وجیہ نظر آتے ، چہرہ پر ایک رعب، ہونٹوں پر تبسم کی غیر مرئی لہریں ہوتیں جو دیکھتا دیکھتا ہی رہ جاتا، جب تک کوئی دور دور سے دیکھتا تو مرعوب رہتا، قریب ہوتا تو ان کی شفقت بے پایاں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، شرعی علوم اور بدلتے ہوئے حالات پر ان کی گہری نظر تھی، حکمت ومصلحت اور حق گوئی کے مدارج ان کے یہاں الگ الگ تھے، کسی بھی حال میں وہ ان کو خلط ملط نہیں ہونے دیتے، وہ موبائل کے بہت استعمال اور سوشل میڈیا سے بہت جڑے رہنے کے قائل نہیں تھے، لیکن علماء کے لیے بے خبری کو مضر سمجھتے تھے، چنانچہ مختلف ذرائع سے وہ دنیا کے احوال سے واقف رہتے، نجی مجلسوں میں جنچی تلی رائے دیتے، شیخ مجلس کی آراء بھی جاننا چاہتے، بات معقول ہوتی تو اپنی رائے بدلنے میں انہیں تامل نہیں ہوتا، ان کے چلنے پھرنے ، بولنے چالنے سب میں تواضع کا غلبہ ہوتا، ان کے اندر علم کی بڑائی کا خیال نہیں تھا، وہ قرآن کریم کی آیت وَفَوْقَ کَلُّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْم کے قائل تھے، قرآن واحادیث کے علاوہ کسی اور چیز کو وہ آخر ی نہیں سمجھتے، علمائ، فقہاء کی آراء کی ان کے نزدیک بڑی قدر تھی، وہ فقہ حنفی پر عامل تھے، لیکن اس میں متشدد نہیں تھے، اس سلسلے میں جو علماء کی رائے ہے کہ امکان دوسری طرف بھی حق کا ہے، البتہ ہم جس پر عامل ہیں وہ مرجح ہے، وہ اختلاف رائے کو انتشار کا ذریعہ بنانے سے پوری زندگی گرازاں رہے۔
 ایسی با فیض شخصیت کا جدا ہونا علمی اور دعوتی میدان کا بڑا خلا ہے، جسے مدتوں محسوس کیا جائے گا، خصوصا ہندوستانی مدارس کے لیے جنوبی افریقہ ان کی ذات شجر سایہ دار تھی، اس سایہ سے محرومی کے غم نے ان کی جدائی کے غم کو دوبالا کر دیا ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مولانا کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کے سیئات سے در گذر کرے، اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔ ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...