Powered By Blogger

جمعرات, فروری 10, 2022

اسد الدین اویسی نے کہا : داڑھی میری ، ٹوپی میری ، برقع میرا ، کسی کو کیا کرنا

اسد الدین اویسی نے کہا : داڑھی میری ، ٹوپی میری ، برقع میرا ، کسی کو کیا کرنااترپردیش میں اسمبلی انتخابات کی سرگرمیاں عروج پر ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ووٹروں لو لبھانے کیلئے پوری طاقت جھونک رہی ہیں ۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بھی اس مرتبہ یوپی کے انتخابی میدان میں اتری ہوئی ہے ۔ اسی سلسلہ میں اسد الدین اویسی نے بدھ کو بلاری اسمبلی حلقہ میں ایک انتخابی ریلی کو خطاب کیا اور لوگوں سے اے آئی ایم آئی کو کامیاب بنانے کی اپیل کی ۔اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اور ممبر پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے خطاب کرتے ہوئے کرناٹک میں جاری حجاب تنازع کا معاملہ بھی اٹھایا ۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یوپی کی خواتین سے کہا کہ وہ حجاب اور برقع پہن کر ووٹ ڈالنے جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ حجاب اور برقع پہننا تو ہمارا حق ہے ، آئین میں ہمارا بنیادی حق ہے ، میں کیا پہنتا ہوں ، کیا کھاتا ہوں ، کسی کو جھانکنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ‘میری بیٹی کیا پہنے گی ، میری ماں کیا پہنے گی ، میری بہن کیا پہنے گی ، میری خالہ کیا پہنے گی ، ارے تو اپنے گھر کی فکر کر ، میرے پیچھے کیوں پڑا ہے، کیا ہم پوچھ کر پہنیں کے کیا پہننا ہے’ ۔

بدھ, فروری 09, 2022

تنقید پارےمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

تنقید پارے
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ڈاکٹر عشرت بیتاب بنیادی طور پر استاد ہیں، پوری زندگی سرکاری طور پر معلم رہے، پڑھا ، پڑھایا، لڑکوں کو کام کے لائق بنایا، ان کی حیثیت سے مغربی بنگال خصوصا آسنسول اور اس کے نواح میں مردم ساز استاذ کی رہی ہے ، انہوں نے اپنی سر پرستی ، سربراہی میں تربیت کرکے کتنوں کو ادیب، شاعر، مضمون نگار اور مقالہ نویس بنا دیا، میں نے بذات خود ان کے شاگردوں کو ان پر جان چھڑکتے دیکھا ہے، جان چھڑکنا ایک محاورہ ہے جو خدمت کے لیے آخر حد تک تیار رہنے کے لیے بولا جاتا ہے۔
 ڈاکٹر عشرت بے تاب نے افراد سازی کے ساتھ کتاب کی تصنیف وتالیف پر بھی اپنی توجہ مرکوز رکھی، وہ مسلسل لکھتے رہے ہیں، پیرانہ سالی ، ضعف ونقاہت، کمر کے درد، چلنے پھرنے میں دشواری کے باوجود آج بھی ان کا قلم رواں دواں ہے، ان کی کئی کتابیں ،سفر جاری ہے ، محب الرحمن کوثر-تخلیقی سفر ایک جائزہ، سہیل واسطی کے افسانے، ادبی میزان مقبول عام ہیں، مغربی بنگال کے ادبی افق کا وہ ایک روشن ستارہ ہے ، ستارے کی روشنی بہت نہیں ہوتی ، لیکن اندھیری رات میں اس کی روشنی گھٹاٹوپ اندھیرے کو ہم پر مسلط ہونے سے محفوظ رکھنے کا کام کرتی ہے ۔
 تنقید پارے ڈاکٹر عشرت بے تاب کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، جو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون سے اشاعت پذیر ہوا ہے ، دو سو چھبیس صفحات پر مشتمل اس مجموعہ کی قیمت ایک سو تینتالیس روپے ہے، جو یقینی طور پر قومی کونسل کی ہدایت پر رکھی گئی ہوگی، ورنہ اتنی ضخیم کتاب اتنی کم قیمت پر اب کہاں ملتی ہے ، طباعت ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کی ہے ، جس کی طباعت او رمارکیٹنگ مشہور ہے اور ان دنوں اہل قلم کی وہ پہلی پسند بن گئی ہے۔ ٹائٹل تجریدی آرٹ کا عمدہ نمونہ ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑ سے آبشار جاری ہے اور وہ اوپر سے نیچے کی طرف آکر زمین پر پھیلتا جا رہا ہے ، تجریدی آرٹ کے سلسلے میں ، میں انتہائی بد ذوق واقع ہوا ہوں، شاید اس آرٹ سے قارئین کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مصنفین کے اعلیٰ ارفع خیالات کو تبصرے، تجزیے، طنز ومزاح، گوشۂ اطفال، شخصیات اور شعری ونثری ادب کے ذریعہ عام قاری کو سمجھانے کے لیے پانی کی طرح رواں دواں کر دیا ہے، اب جس کا جی چاہے اس سے فیض پالے۔
کتاب کا انتساب ڈاکٹر عشرت بے تاب نے بیٹیوں کے نام نہیں بہوؤں کے نام کیا ہے ، ان کا احساس ہے کہ وہ ان کے لیے بیٹیوں سے کم نہیں ہیں، بیٹیاں جب سسرال چلی جاتی ہیں تو ساری خدمت بہوئیں ہی کرتی ہیں، جو عقل مند ہوتے ہیں وہ بہوؤں کو بیٹیاں ہی سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی محبت بوڑھے سسر کو حاصل ہو جاتی ہے ، عشرت بے تاب صاحب کے عقل مند ہونے میں کسی کو کیا شبہہ ہو سکتا ہے۔
 پوری کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے، شروع کے تین ابواب شخصیات ، شعر وادب اور تبصرہ میں چھ چھ مضامین شامل ہیں، چوتھا باب اطفال سے متعلق ہے اس میں چار مضامین ہیں، آخر کے دو باب میں امام اعظم کو ہمہ جہت شخصیت کا مالک ، مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کو قدآور شخصیت ، عاصم شہنواز کو فعال اور متحرک ، شمیم انجم وارثی کو انفرادی شخصیت ، ڈاکٹر علی شیر خان کو وقت کا بشر، اور انجم روحان کو نئی نسل کا نمائندہ فنکار قرار دیا گیا ہے، شعر وادب کے باب میں انتظار حسین ، پریم چند، شان بھارتی، خان شین کنور، امان اللہ ساغر اور طلعت انجم فخر کی شعری وادبی جہات کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ تبصرہ کے باب میں امام اعظم کے تمثیل نو، حسین الحق کے اردو فکشن ہندوستان میں اور سید شاہد اقبال کی نشتر تحقیق کے در وبست کا جائزہ لیا گیا ہے ، مناظر عاشق ہرگانوی کی افسانوی جہتیں، ادبی آبیاری اور ان کے افسانے اور تجزیے نامی کتاب پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے ، یہ تینوں کتابیں علی الترتیب عدد امناط صفی الرحمن راعین اور عرش منیر کی ہیں۔
 باب اطفال میں مناظر عاشق ہرگانوی کو بچوں کی نفسیات کا عالم ، رونق جمال کو بچوں کا من پسند ادیب ، نذیر احمد یوسفی کو گنجینۂ اطفال کا ایک روشن باب اور معراج احمد معراج کو گلشن اطفال کا نمائندہ فنکار قرار دیا گیا ہے، اس باب کے مندرجات شخصیات والے باب میں سما سکتے تھے، الگ کرنے کا مقصد شاید یہ ہو کہ ادب اطفال کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی جا سکے۔
تجزیہ کے باب میں اشتیاق سعید کے حاضر غائب، مشتاق انجم کے خواب دریچہ اور سلیم سرفراز کے بد دعا کرنے والے پر ڈاکٹر عشرت بے تاب نے قلم اٹھا یا ہے، یہ باب تبصرہ نہیں بھی ڈا لا جا سکتا تھا۔
 طنز ومزاح میں پطرس بخاری، مناظر عاشق ہرگانوی اور بازغ بہاری کے طنز ومزاج کا فنی اور تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے، اس باب کو تبصرے میں شامل کرنے سے کتاب سہ بالی ہو سکتی تھی۔
کتاب کے مندرجات علمی ہیں، لیکن شکوہ یہ ہے کہ پروف پر توجہ بالکل نہیں دی گئی ہے ، بے پناہ غلطیاں رہ گئی ہیں، جس کی وجہ سے قاری کا ذہن بوجھل ہوتا ہے۔ ملنے کے پتے آٹھ درج ہیں، اگر آپ پٹنہ میں ہوں تو کتاب گھر، سبزی باغ۔ کولکاتہ میں ہوں تو عثمان بک ڈپو، کولو ٹولہ اور آسنسول میں ہوں تو حنفی بک ڈپو، ریل پار کے ٹی روڈ سے حاصل کر سکتے ہیں۔

جمعیۃ علماء ہند کا اعلان - پابندی کی مخالفت کرنے والی طالب علم مسکان خان کو 5 لاکھ دیے جائیں گے

جمعیۃ علماء ہند کا اعلان - پابندی کی مخالفت کرنے والی طالب علم مسکان خان کو 5 لاکھ دیے جائیں گے

جمعیت علمائے ہند کے قومی صدر مولانا محمود مدنی نے کرناٹک کے اُڈپی کے مہاتما گاندھی کالج کی بی بی مسکان خان کو پانچ لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان۔ بی بی مسکان نے منگل کو کالج میں حجاب پر پابندی کے خلاف طالبات کے احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے مذہبی نعرے لگائے تھے۔ مولانا مدنی نے کہا ہے کہ ملک کی بیٹیوں کو اپنے آئینی اور مذہبی حقوق سے آگاہ ہونا چاہیے۔

بی بی مسکان کو مبارکباد دیتے ہوئے انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مذہبی حقوق کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ کیونکہ جو لوگ ملک کے آئین پر عمل کرتے ہیں، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، انہیں برابر کے حقوق حاصل ہیں۔

منگل, فروری 08, 2022

ہم مضطرب کیوں ہیں؟ کامران غنی صبا اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نتیشور کالج،مظفرپور

ہم مضطرب کیوں ہیں؟ 
کامران غنی صبا 
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نتیشور کالج،مظفرپور 
انسانوں کی اکثریت پریشان ہے. کسی کو روزگار کا مسئلہ ہے. جن کے پاس روزگار ہے وہ بھی پریشان ہیں،پروموشن نہیں ہو رہا ہے. دفتری مسائل ہیں. 
کسی کی اولاد ناخلف ہے. گھریلو جھگڑے ہیں. بیماریاں ہیں. کوئی قرض میں ڈوبا ہے. کسی کی تجارت نقصان میں جا رہی ہے. کوئی مقدمہ میں پھنسا ہوا ہے. کسی کے ساتھ ازدواجی زندگی کے مسائل ہیں. میاں بیوی کے جھگڑے ہیں. ساس بہو کی رنجشیں ہیں. 
کسی سے خیریت پوچھیے تو کہتا ہے "جس حال میں رکھے اللہ کا شکر ہے".... یہ "جس حال میں رکھے" کا سابقہ..... کہنے والے کا لہجہ..... شکر میں ناشکری کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے. پہلے ہم کچے مکانات میں رہتے تھے. اب بیشتر لوگوں کے پاس پکے مکانات ہیں. پھر بھی ہم تکلیف میں ہیں. کپڑے سال میں ایک یا دو بار بنتے تھے اب تو ہم بے ارادہ بھی کپڑے خریدتے ہیں. پھر بھی ناخوش ہیں. اکثر لوگوں کی طرز رہائش پہلے سے زیادہ اچھی ہوئی ہے لیکن ہم پہلے سے زیادہ پریشان بھی ہیں. کھانے کے لیے انواع و اقسام کی چیزیں اب سب کی دسترس میں ہیں لیکن بیماریاں بھی اسی تناسب میں بڑھی ہیں. ہر گھر میں کوئی نہ کوئی بیمار ہے. نوجوان لوگ ڈاکٹروں کا طواف کر رہے ہیں. ہم بظاہر مسکرا رہے ہیں لیکن اندر سے کرب میں ہیں. وجہ کیا ہے؟وجہ روپیہ پیسہ اور دولت ہے؟ شاید نہیں..... بلکہ یقیناً نہیں... کیونکہ روپیہ، پیسہ بیشتر لوگوں کے پاس پہلے سے زیادہ ہے. مسئلہ روزگار ہے؟ شاید مسئلہ روزگار بھی نہیں ہے کیونکہ پہلے بھی روزگار کے مسائل رہے ہیں. آج سے زیادہ رہے ہیں. بڑے بڑے گھر ایک فرد کی کمائی سے چلتے تھے.
ہر شخص اپنی زندگی کو پرسکون بنانا چاہتا ہے. سکون حاصل کرنے کی دھن میں وہ اضطراب خریدتا جاتا ہے. انسان سمجھتا ہے کہ مکان اچھا ہو جائے گا تو وہ خوش رہنے لگے گا. اس کے پاس گاڑیاں ہوں گی. عہدہ و منصب ہوگا، اچھی طرز رہائش ہوگی تو اس کی زندگی میں سکون آ جائے گا. جن کے پاس یہ سب کچھ ہے المیہ یہ ہے کہ وہ بھی سکون میں نہیں ہیں. جن کے پاس بظاہر سب کچھ ہے ان کی فکر میں اضطراب ہے. نیند میں اضطراب ہے. دولت اور عہدہ و منصب ختم ہو جانے کا اندیشہ یعنی بے سکونی ہے.
انسان کی زندگی میں بے سکونی اور اضطراب کی وجہ خواہشات اور توقعات ہیں. خواہشات اور توقعات جتنی زیادہ ہوں گی، اندیشہ خوف اور اضطراب اسی قدر زیادہ ہوگا. انسان اپنے حال سے مطمئن نہ ہو تو وہ پرسکون نہیں رہ سکتا. اپنے سے زیادہ پریشان حال لوگوں کو دیکھ کر صبر و سکون حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن ہم خود سے زیادہ خوشحال اور آسودہ لوگوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اور اپنا چین و سکون خود اپنے ہاتھوں غارت کر بیٹھتے ہیں. انسان خواہشات اور توقعات کی جتنی اونچی عمارت پر متمکن ہوگا عمارت کے منہدم ہونے کی صورت میں اس کی ہلاکت کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے. اپنی موجودہ حالت سے مطمئن نہ رہنے والے لوگ زندگی کی کسی بھی مرحلے اور کسی بھی حالت میں مطمئن نہیں ہو سکتے. "ہر حال میں اللہ کا شکر ہے" کہنا کوئی رسمی جملہ نہیں ہے. ہمارے ہر ہر عمل سے جب تک شکرگزاری کا اظہار نہ ہو شکر کا حق ادا نہیں ہوسکتا اور مصنوعی ناشکری کے اظہار کی سزا سوائے اضطراب کے اور کیا ہو سکتی ہے.

پیر, فروری 07, 2022

سَرقہ- ایک مذموم عملمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

سَرقہ- ایک مذموم عمل
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
 سَرقہ عربی زبان کا لفظ ہے اس کا اردو ترجمہ ’’چوری‘‘ معروف او رمتداول ہے،جس کا مطلب خفیہ طریقے سے کسی اور کی چیز اٹھا لینے کے ہیں،زمانہ قدیم میں چوری کی اصطلاح رات کی تاریکی میں گھر میں گھس کر مال واسباب غائب کرنے کے لیے بولا جاتا تھا، پھر چوری کا یہ عمل متعدی ہوا اور آنکھ جھپکی اور مال غائب کا رواج عام ہو گیا، اب نہ رات کی تاریکی کی ضرورت ہے اور نہ چپکے سے گھروں میں سیندھ لگانے کی اب تو آنکھ بند ڈبہ غائب کا محاورہ عام ہے اس کے مناظر مختلف اسفار میں سامنے آتے رہتے ہیں، آپ چوکنا نہیں ہیں ، سامان کی طرف سے غافل ہیں تو کہاں پر اور کس کے ذریعہ آپ کی جمع پونجی اور مال ومتاع اُچک لیا جائے، کہنا مشکل ہے، چوری کا یہ عمل شاعروں کے یہاں بھی بڑا مقبول رہا ہے، لیکن وہ کسی کا سامان نہیں چُراتے محبوبہ کی آنکھوں سے کاجل اور سرمہ چُرانے میں خاصی دلچسپی دکھاتے ہیں۔
 اب چوری کرنے والے سینہ زوری بھی کرتے ہیں، بلکہ اب توچوری سے زیادہ ڈکیتی نے رواج پالیا ہے اور بقول شاعر، رات کا انتظا کون کرے، آج کل دن میں کیا نہیں ہوتا، دن میں ہی لوگ ہتھیار سے لیس آتے ہیں اور سب کچھ لوٹ کر چلتے بنتے ہیں، عافیت پسند لوگ ان کے مزاحم ہونے سے گھبراتے ہیں، کیوں کہ مزاحمت کے نتیجے میں مال کے ساتھ جان کے چلے جانے کا خطرہ بھی رہتا ہے، پولیس اور حفاظتی دستے اس کو روک سکتے ہیں، لیکن عموما ہماری پولیس کی ناک کے نیچے ہی جرم ہو تاہے تو اس وقت متوجہ ہوتی ہے جب سب کچھ لُٹ چکا ہوتا ہے، بلکہ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جن علاقوں میں تھانہ قائم ہے وہاں جرائم کا گراف کچھ زیادہ ہی رہتا ہے ، کیوں کہ پولیس کی ملی بھگت سے جرائم پیشہ جرم کرتے ہیں، ملی بھگت کے بعد کس کی مجال ہے کہ جرائم کو روک دے، اسی بنیاد پر یہ مثل مشہور ہے کہ سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا۔
 چوری سے کتابوں کے چھاپنے کا بھی رواج بر صغیر ہند وپاک میں عام ہے، آپ لاکھ جملہ حقوق محفوظ لکھتے رہیں، مکتبہ اور کتب خانہ والوں کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا، اشاعتی اداروں کو اس کی وجہ سے سخت نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور جس نے اس کتاب پر کوئی رقم خرچ نہیں کی ، مصنف کو روائلٹی نہیں دی، وہ کتابیں بیچ بیچ کر وارے نیارے کر لیتا ہے ۔
 چوری کا یہ عمل تخیلات میں بھی ہوتا ہے، شعراء کے یہاں عموما اس عمل کو توارد سے تعبیر کرتے ہیں، ایک ہی قسم کا خیال دو شاعروں کے یہاں شعر میں بندھ گیا تو اسے اتفاق سمجھا جاتا ہے، توارد کا سہارا لے کر بہت سارے متشاعر تو مصرعہ کا مصرعہ اڑالے جاتے ہیں۔
 اردو نثر میں خیالات مستعار لینے کو ’’قوت اخذ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور اسے معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا ، ادب وشاعری اور مذہبی لٹریچر میں بھی اس کی بہت ساری مثالیں ہیں، لیکن نثر میں یہ عمل الفاظ وجملہ کی ساخت، تعبیرات کی تبدیلی کی وجہ سے چوری نہیں قرار دیا جاتا ، کیوں کہ تخیلات بھی بعینہ نہیں ہوتے، قلم کار اپنا دماغ لگا کر سابقہ تخیل کو پروان چڑھاتا ہے، اور اس طرح پیش کردیتا ہے کہ وہ بالکل نئی معلوم ہوتی ہیں، کبھی کبھی پیش یا افتادہ موضوع ہوتا ہے، ممکن ہے کسی نے اس پر کچھ لکھا بھی ہو، لیکن اس کی اپنی سوچ اور لکھنے کا انداز اس کو کہیں سے کہیں پہونچا دیتا ہے ۔
مذموم وہ حرکت ہے کہ کسی اہل قلم کا پورا کا پورا مضمون اڑا کر اپنے نام سے شائع کر لیا جائے، اپنا نام اس کے ٹائٹل پیج پر دینا ضروری ہوتو بھی اسی قدر دینا چاہیے، جتنا کام اس نے کیا ہے ، عربی واردو کتابوں کے جو ایڈیشن ورک ہوتے ہیں، ان میں ٹائٹل پر’’ تحقیق وتحشیہ‘‘ ،’’ نظر ثانی واضافہ‘‘ جیسے الفاظ لکھ کر واضح کر دیا جاتا ہے کہ اس نے کتنا کام کیا ہے ، بعض مصنفین کے یہاں یہ طریقہ بھی رائج ہے کہ وہ جب دوسروں کی تصنیفات وتالیفات کو مرتب کرتے ہیں تو باضابطہ پیش لفظ اور مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ میں نے اس تصنیف پر اس قسم کی محنت کی ہے ،اصل کتاب فلاں صاحب کی ہے، پوری پوری کتاب کے سرقہ کا یہ عمل آج کل ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے زیادہ ہوتا ہے ، ایک یونیورسیٹی میں جوکام ہو گیا ، اسی عنوان پر رجسٹریشن کراکر پورا مقالہ نام بدل کر داخل کر دیا جاتا ہے، اس عمل کو روکنے کے لیے کوششیں بہت ہوئیں ، یونیورسٹی میں جن موضوعات پرڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی اس کی فہرست کی اشاعت کی گئی ، قینچی کے کام کو روکنے کے لیے طویل اقتباس کے نقل پر بھی یک گونہ روک لگائی گئی ، لیکن یار لوگ کہاں ماننے والے ہیں۔
 اسی طرح جو کام ٹیم ورک نے کیا ہے ، اس کو بھی کسی ایک نام سے منسوب کر دینا ’’سرقہ‘‘ کے ذیل میں آتا ہے اس لیے کہ اجتماعی محنت کو انفرادی محنت قرار دینے کی جسارت کی گئی ہے ، سرکاری اداروں میں جو ورک شاپ ہوتا ہے اس میں بہت سارے شرکاء ہوتے ہیں، آپ نے دیکھا ہوگا کہ کتابوں پر تمام شرکاء کے نام شائع کیے جاتے ہیں، مثال کے طور پر ایک کتاب ہے ’’اردو زبان کا جادو‘‘ یہ کتاب فروغ اردو دہلی سے شائع ہوئی ہے، اس کا موضوع کھیل کھیل میں تدریس تھا، سو لن ہماچل پردیش میں میرے ساتھ درجن بھر لوگ اس ورک شاپ میں تھے، اس لیے میرے لیے یہ درست نہیں ہوگا کہ میں اسے اپنی کتاب قرار دوں، یہ صرف میری نہیں پورے ورک شاپ کے شرکاء کی محنت کا نتیجہ ہے، ایمانداری یہ ہے کہ سب کی محنت کو سراہا جائے اور اگر چیز چھپ رہی ہے تو سب کا نام دیا جائے، کم از کم پیش لفظ اور مقدمہ میں اس کا ذکر ضرور آنا چاہیے۔
 آج کل ایک طریقہ دوسرے کے مضامین کے طویل اقتباسات نقل کرنے کا ہے ، یہ طویل اقتباسات اس لیے نقل کیے جاتے ہیں کہ اپنے مطالعہ کا رعب قارئین پر ڈالا جائے اور اقتباس نقل کرکے مقالہ او رمضمون کو طویل کیا جائے، اقتباسات کا نقل کرنا ’’سرقہ‘‘ نہیں ہے بشرطیکہ آپ نے اسے واوین کے درمیان نقل کیا ہے ، ایمانداری سے مصنف اور اس کی کتاب کا حوالہ دیا ہے ، لیکن اگر آپ نے بغیر واوین کے اقتباسات کواپنے مضمون کا جزو بنا لیا تو یہ سرقہ ہے اور مذموم ہے، خود میرے ساتھ یہ ہو چکا ہے کہ میرا پورا مضمون جوپہلے سے مطبوعہ ہے ، دینی تعلیم اور فکر معاش، اسے ایک صاحب نے پورے کا پورا اپنے نام سے شائع کر دیا ، مضمون قارئین کو پسند آیا تو کئی رسائل میں چھپا۔
 اس کا مطلب یہ نہیں ہے ، مثل اور محاورہ کو بھی واوین کے درمیان ڈالے بغیر نقل نہ کیا جائے، ظاہر ہے اسے بھی کسی نے وضع کیا ہوگا، لیکن وہ اب زبان وادب کی میراث اور جاگیر ہو گئی ، ان کے واضع کا نام بھی معلوم نہیں ہے، اس لیے ان محاوروں اور ضرب الامثال کے استعمال کو ’’سرقہ‘‘ کی فہرست میں نہیں رکھا جا سکتا ، اس لیے اسے نہ تو واوین میں لینے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی وضاحت کی۔
آج کل سرقہ کا ایک اور طریقہ رواج پا گیا ہے اور وہ ہے دوسروں کی تحریر ، تبصرےاور پوسٹس کو اپنے نام سے فارورڈ کرنا، بعض لوگ تو اس قدر جری ہوتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر اپنا نام لکھ کر دوسروں کی تحریر کو آگے بھیج دیتے ہیں، فارورڈ کیا کرتے ہیں اور مقصد اپنے کو نمایاں کرنا ہوتا ہے اور شاباشی بٹورنا ہوتا ہے اور یہ سب وہ اس عمل پر چاہتے ہیں جو انہوں نے کیا ہی نہیں ہے ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآ ن کریم میں درد ناک عذاب کا اعلان کیا ہے، سورہ آل عمران آیت نمبر ۱۸۸ میں ہے : ’’ وہ لوگ اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں، آپ انہیں عذاب سے بری نہیںسمجھئے، ان کے لیے تو درد ناک عذاب ہے‘‘ علامہ ابن عبد البر ؒ نے ابو عمر کا یہ قول نقل کیا ہے کہ علم کی برکت اس میں ہے کہ ہر چیز کو اس کے قائل کی طرف منسوب کیا جائے، چنانچہ امام قرطبی ؒ نے تفسیر کے مقدمہ میں ہی یہ بات واضح کر دی ہے کہ میں اقوال کو ان کے قائلین کی طرف ہی منسوب کروں گا، امام نووی ؒ نے نشان العارفین میں لکھا ہے کہ علماء کرام کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ وہ فوائد کو اس کے قائل کی طرف ہی منسوب کرتے ہیں، علامہ البانی ؒ نے دوسرے کی چیزوں کو بغیر اس کی طرف منسوب کرنے کو چوری قرار دیا ہے، اور اسے شرعا نا جائز بتایا ہے۔
 سرقہ کی تفصیلات اور بھی ہیں، شریعت میں بعض شرائط وقیود کے ساتھ اس کے لیے ہاتھ کاٹنے تک کی سزا مقرر ہے اور ایک ہاتھ کاٹنے پر وہ باز نہیں آیا تو یہ سزااور حدود وبارہ بھی جاری کی جائے گی ، میں بالکل یہ نہیں کہتا کہ اس مضمون میں سرقہ کی جتنی قسموں پر کلام کیا گیا ہے ، سب حد کے دائرہ میں آتے ہیں، بعض میں حد ہے ، بعض میں تعزیر ہے، اور بعض میں ہندوستانی قوانین کے اعتبار سے سزائیں مقرر ہیں، لیکن اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ چوری اور سرقہ چاہے جس قسم کا بھی ہو یہ عند اللہ اور عند الناس مذموم عمل ہے، اس سے باز آنا چاہیے۔

اتوار, فروری 06, 2022

ایس پی کے بڑھتے کارواں کو دیکھ لوگوں کو دھمکایا جارہاہے : اکھلیش

ایس پی کے بڑھتے کارواں کو دیکھ لوگوں کو دھمکایا جارہاہے : اکھلیش
آگرہ:
 سماج وادی پارٹی(ایس پی) سربراہ اکھلیش یادو نے اتوار کو دعوی کیا کہ جیسے جیسے یوپی اسمبلی انتخابات کے دوران انتخابی تشہیر میں عوامی حمایت میں اضافہ ہورہا ہے ایس پی کے لوگوں اور حامیوں کو ریاست کے مختلف حصوں میں دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے آگرہ کے باہ اور اعتماد پور میں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اکھلیش نےکہا' میں لگاتار یہ سن رہا ہوں کہ جیسے جیسے عوامی کی انتخابی مہم کو عوامی حمایت بڑھ رہی ہے اس کے نتیجے میں ایس پی کے لوگوں کو دھمکایا اور خائف کیاجارہا ہے۔انہوں کارکنوں کو آگاہ کیا کہ آپ کے پاس موبائل ہے اگر کوئی آپ کو دھمکی دیتا ہے فورا اس کا ویڈیو بنالیجئے۔
بھارت رتن لتا منگیشکر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اکھلیش نے کہا کہ جب ایس پی کی ریاست میں حکومت بنے گی تو معروف گلوکارہ کی یاد و اعزاز میں یوپی میں بڑے پیمانے پر کام کیا جائے گا۔اکھلیش نے کہا کہ میں یہاں آپ سے یہ اپیل کرنے آیا ہوں کہ یہ الیکشن تنہا یوپی کا الیکشن نہیں ہے۔یہ الیکشن ملک کے مستقبل کا الیکشن ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) نے پولیس نظام کو بھی چوپٹ کردیا ہے۔'سماج وادی پارٹی نے ڈائل 100سروس کا آغاز کیا تھا تاکہ دیہی علاقوں میں رہنے والے افراد بحران میں پولیس کو کال کرسکیں۔ڈائل100اب بھی جاری ہے لیکن بابا(وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ)ٹائر نہیں تبدیل کیا بلکہ 100کو112سے تبدیل کردیا اور پولیس کا کباڑا کردیا۔ انہوں نے کہا کہ یوپی میں نظم ونسق کی بہتری کے لئے ایس پی حکومت پولیس فورس کی گاڑیوں میں اضافہ کرے گی۔
ایس پی سربراہ نے الزام لگایا کہ کورونا بحران کے دوران بی جے پی حکومت علاج کے لئے دوا، آکسیجن اور علاج فراہم کرنے میں ناکام رہی۔'اگر اس وقت کوئی متاثرین کے کام آیا تو وہ ایس پی میعاد کار میں شروع کی گئی ایمبولنسز ہی تھیں۔ایمبولنس گاڑیاں عوام کے درواز دروازے پہنچ رہی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ایس پی نگراں ملائم سنگھ یادو نے رام منوہر لوہیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کا لکھنؤ میں قیام کیا۔ہم نے ریاست میں طبی سہولیات کو تقویت فراہم کی۔بی جے پی نے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی کے نام پر ایک یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا لیکن اس کی تعمیر نہیں کراسکی۔
اکھلیش نےکہا کہ جب سماج وادی پارٹی اقتدار میں آئے گی سابق وزیر اعظم کے آبائی وطن بٹیشور میں ان کے نام کی یونیورسٹی تعمیر کرائے گی۔انہوں نے کہا کہ صارفین کو بہتر پاور سپلائی کے لئے اگگر ضرورت پڑی تو مزید سب اسٹیشن قائم کئے جائیں گے۔ اکھلیش نے کہا کہ وزیر اعلی گرمی نکالنے کی بات کررہے ہیں میں گرمی کے بارے میں نہیں جانتا لیکن جب ایس پی کی حکومت بنے گی تو ہم بھرتیاں نکالیں گے۔

نقوش آگہیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

نقوش آگہی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 محمد وارث حسن کے اصلی اور وارث ریاضی کے قلمی نام سے اہل علم وادب کی دنیا میں مشہور اور معارف اعظم گڈھ کے حلقۂ قارئین میں خاص طور سے مقبول ومعروف شاعر، ادیب، ناقد اور محقق کا وطن سکٹا علاقہ دیوراج مغربی چمپارن ہے، ۲؍ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو شیخ اسماعیل بن شیخ عنایت حسین کے گھر پر اس عالم گیتی میں آنکھیں کھولیں ۱۹۶۵ء میںد ار العلوم دیو بند سے فارغ ہو ئے ، بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے اردو فارسی میں فاضل اور بہار یونیورسٹی مظفر پور سے فارسی زبان وادب سے ایم اے کیا، فرسٹ ڈویزن حاصل کرنے والوں میں تین ہی ان سے آگے بڑھنے کی ہمت جُٹا پائے، زمانہ دراز تک دار العلوم بسوریا کے استاذ اور ذمہ دار رہے، حرف آرزو (۲۰۱۲) نقوش افکار (۲۰۱۶) اور نقوش آگہی (۲۰۲۱) میں منظر عام پر آئی، نقش آرزو زیر طبع ہے اور دیار حرم کا سفر نامہ ’’چند دن دیار حرم میں‘‘ اور مشاہیر کے خطوط ’’پیام شوق‘‘ کے نام سے زیر ترتیب ہیں، شاعری، نثر نگاری کے ساتھ اس عمر میں تحقیق کا کرب جھیلتے رہتے ہیں، ان کی عمر دیکھیے اور حوصلہ دیکھیے، ہم جیسے لوگوں کو تو یہ سب دیکھ کر کم عمری میں ہی پسینہ آنے لگتا ہے۔
’’ نقوش آگہی‘‘ مولانا وارث ریاضی کے مقالات ومکتوبات کا مجموعہ ہے، مقالات میں تحقیق کا عمل دیکھنے کی چیز ہے، بلکہ نئی نسل کو اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے کہ تحقیق اس طرح کرتے ہیں، بہار میں قاضی عبد الودود کے بعد تحقیق کا عمل کمزور پڑا ہے، پی اچ ڈی کے نام پر جو تحقیق ہو رہی ہے وہ یا تو قینچی کا عمل ہے یا بقول گوپی چند نارنگ ، دفتیوں کے بیچ کچھ اوراق لکھے ہوئے ہوتے ہیں، ایسے میں وارث ریاضی کی تحقیق اس رسم کہن کو بچائے ہوئے ہے، جس میں جاں سوزی اور جاں کاہی کرکے چیونٹی کے منہہ سے دانہ دانہ جمع کیا جاتا تھا۔ 
تین سو بیس صفحات کی اس کتاب کا انتساب دار المصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڈھ کے ترجمان معارف کے نام ہے، جس نے مولانا وارث ریاضی کو پرورش لوح وقلم کے جذبہ والہانہ سے سرشار کیا، کتاب کا مقدمہ ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی نے لکھا ہے، مولانا محمد عمیر الصدیق ندوی نے ’’اپنی بات‘‘ کہی ہے اور ’’عرض مصنف‘‘ میں وارث ریاضی صاحب نے ان آٹھ مقالوں کا تعارف اس طرح کرایا ہے کہ قاری اس کے مندرجات تک جلد از جلد پہونچنے کے لیے بیتاب ہوتے ہیں، یہ مقالات حضرت جگر مراد آبادی کی شاگردی کا مسئلہ حقیقت کے آئینے میں ، عمر ہا باید کے مرد پختہ کار آید چنیں  حضرت مولانا سید نظام الدین ؒکی شاعری ایک تجزیاتی مطالعہ ، بہار کی ایک قدیم دینی درسگاہ ، درست گفت محدث کہ قوم ازوطن است، استدراک، سرہند شریف کا ایک مبارک سفر ، کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں ، موضوعات کا پتہ چلتا ہے، عمر ہا باید کے مرد پختہ کار آید چنیں ، درست گفت محدث، اور استدراک نظریہ قومیت پر مولانا حسین احمد مدنی اور علامہ اقبال کے دریان جو اختلاف تھا اس پر ہے بہار کی قدیم درسگاہ میں جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
مکتوب بنام مشاہیر میں دس لوگوں کے نام خطوط ہیں، یہ خطوط مسرور حسین، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، عطا عابدی، مولانا ضیاء الدین اصلاحی، ف، س اعجاز ، خلیق انجم، مولانا محمد عمیر الصیدق ندوی، پروفیسر ریاض الرحمن خان شیروانی، خورشید اکبر اور ابرار رحمانی کے نام ہیں، جو سب کے سب علم وفضل کے ماہ نجوم ہیں، یہ مکتوبات بھی علمی ، تحقیقی ہیں، ان میں وارفتگی قلب ونظر کا اظہار کم ہے تحقیق کی شمع اس طرح روشن کی گئی ہے کہ بہت ساری چیزیں جو تاریکی میں تھیں روشنی میں آگئی ہیں۔
 تیسرا باب ’’بغیر لفظ باب‘‘ کے رشحات نقد ونظر ہے، جو اصلا مصنف کی کتاب نقوش افکار پر لکھے گیے ، تبصروں کا مجموعہ ہے، یہ کل چودہ تبصرے ہیں، حوصلہ افزائی اور ذرہ نوازی کے لیے ایک نمبر پر اس حقیر کی تحریر کو جگہ دی گئی ہے جو نقیب میں شائع ہوئی تھی، البتہ مولانا وارث ریاضی صاحب اور پروف ریڈر راجو خان پر اللہ رب العزت کی محبت اس قدر غالب ہے کہ میرا نام فہرست  اور مضمون دونوں جگہ ثناء اللہ لکھ دیا گیا ہے، اللہ بڑا نام ہے، مگر مجھ جیسے گناہ گار کے نام کا وہ جز نہیں بن سکا، بڑے بھائی ماسٹرمحمد ضیاء الہدیٰ مرحوم سے قافیہ ملانے کے چکر میں والد صاحب نے میرا نام محمد ثناء الہدیٰ رکھ دیا، اور اسی نام سے بندہ لوگوں میںجانا جاتا ہے۔
میر ے علاوہ جن لوگوں کے تبصرے اس کتاب میں شامل ہیں، ان میں پروفیسر ریاض الرحمن خان شیروانی، نوشاد منظر، مولانا غطریف شہباز ندوی ، راجو خان، ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی، اسعد اللہ، مولانا عمیر الصدیق ندوی، شکیل رشید، پروفیسر فاروق صدیقی ، ڈاکٹر رضاء الرحمن عاکف، ثناء اللہ ثنا دوگھروی، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد، ظفر حسین کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں، ان حضرات نے نقوش افکار کے در وبست اور خوبیوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔
 ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی نے مقدمہ میں لکھا ہے کہ ’’یہ مجموعہ مقالات زبردست علمی تحقیقات وافادیت سے مملو ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔تین سو بائیس صفحات پر مشتمل اس مجموعہ کی قیمت تین سو روپے ہے، دار المصنفین اعظم گڈھ ، بک امپوریم سبزی باغ ، اور خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹںہ سے کتاب مل سکتی ہے، میں اس تبصرہ کو مولانا عمیر الصدیق ندوی کے ان دعائیہ کلمات پر ختم کرتا ہوں، مولانا نے لکھا ہے کہ
’’اس کتاب کے مضامین اور مکاتیب کو پڑھ کر دل سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اردو ادب وشعر کی صلاح وفلاح اور علم کی مقصدیت اور اس کی اصل افادیت ونافعیت اور ادب کی بقاء ترقی واستحکام کے لیے وارث ریاضی صاحب کی حیات وخدمات میں برکات کی بارش کرتا رہے، زخموں کی مہر وماہ سے علم کے بام پر جشن چراغان وہ یوں ہی بناتے رہیں۔ ‘‘(آمین)

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...