Powered By Blogger

جمعہ, فروری 11, 2022

حجاب پر پابندی کے کرناٹک ہائی کورٹ کے عبوری فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل

حجاب پر پابندی کے کرناٹک ہائی کورٹ کے عبوری فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل

نئی دہلی: کرناٹک کا حجاب تنازعہ ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ میں پہنچ گیا ہے۔ کرناٹک کی کچھ طالبات نے حجاب معاملہ پر ہائی کورٹ کے عبوری حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق، اس معاملے پر دائر تازہ عرضیوں کا سپریم کورٹ کے سامنے فوری سماعت کے لیے ذکر (مینشن) کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے جمعرات کو کالجوں میں حجاب پہننے پر ریاستی حکومت کی پابندی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کی تھی۔ ایک عبوری حکم جاری کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ ریاستوں میں کالج دوبارہ کھل سکتے ہیں لیکن جب تک معاملہ زیر التوا ہے طلبا کو مذہبی لباس پہننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

دریں اثنا، حکومت نے مظاہروں کی وجہ سے بند اسکولوں اور کالجوں کو پیر کے روز سے مرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سب سے پہلے جماعت اول تا دس کے طلبا کو کلاسوں میں جانے کی اجازت دی جائے گی اور ان کالجوں کے بارے میں فیصلہ بعد میں کسی وقت لیا جائے گا جہاں حجاب کا مسئلہ شدید ہو گیا ہے۔

کرناٹک میں حجاب پر تنازع اس وقت شروع ہوا تھا جب کرناٹک کے ساحلی شہر اڈوپی میں ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج کی انتظامیہ نے 6 مسلم طالبات کو حجاب پہننے کی وجہ سے کلاس میں جانے سے روک دیا۔ اس کے بعد کالج کے ہندو طالب علم زعفرانی اسکارف اور جھنڈے لہرانے لگے تو تنازعہ نے شدت اختیار کر لی۔ اس کے بعد ریاستی حکومتوں کو اسکول کالجوں کو بند رکھنے کا حکم جاری کرنا پڑا

جمعرات, فروری 10, 2022

بنیا دی دینی تعلیم کے سا تھ معیا ری عصری تعلیم ہما را امتیاز___:مفتی محمد ثنا ء الہدی قاسمی اما رت پبلک اسکول کٹک اڈیشہ کی میٹنگ اہم فیصلوں کے سا تھ اختتام پذیر

بنیا دی دینی تعلیم  کے سا تھ معیا ری عصری تعلیم ہما را امتیاز___:مفتی محمد ثنا ء الہدی قاسمی
      اما رت پبلک اسکول کٹک اڈیشہ کی میٹنگ اہم فیصلوں کے سا تھ اختتام پذیر

کٹک 10 فروری (پریس ریلیز) : اسلا می ماحول میں بنیا دی دینی تعلیم کے سا تھ عصری معیا ری تعلیم اما رت پبلک اسکول کا امتیازہے،امارت شرعیہ چا ہتی ہے کہ اسدین بیزا ر ما حول میں بچے بچیوں کی عصری تعلیم کا ایسا نظم کیا جا ئے کہ نئی نسل اس مقا بلہ جاتی دور میں آگے بڑھ سکے اور وہ جہا ں کہیں رہیں عصری علوم کے ما ہر اور اسلا م کے نما ئندہ کے طور پر اپنے کا م کو انجام دیں اور سما ج میں اپنی شنا خت بنا ئیں۔ ان خیالا ت کا اظہا ر اما رت شرعیہ بہا ر ،اڈیشہ وجھا رکھنڈ کے نائب نا ظم ، وفاق المدا رس کے نا ظم، اردوکا رواں کے صدر اور ذیلی دفاتر کے ذمہ دا ر مفتی محمدثنا ءالہدی قاسمی نے کیا ، وہ دفتر دا را لقضا امارت شرعیہ کٹک میں اما رت پبلک اسکول کے آغا ز کے لئے بلا ئی گئی ایک میٹنگ سے صدارتی خطا ب فرما رہے تھے۔ وہ گزشتہ رات حضرت امیر شریعت مولا نا احمد ولی فیصل رحما نی کے حکم اور مولا نا محمد شبلی قاسمی قا ئم مقا م نا ظم کی ہدا یت پر قاضی نور الحسن میموریل اسکول پھلواری شریف پٹنہ کے پرنسپل جنا ب را شد نجمی  صاحب کے سا تھ اس اہم میٹنگ میں شرکت اور کٹک دفتر کے جا ئزہ کے لئے کٹک پہونچے تھے ، قا ضی شریعت کٹک مولانا عبدا لحفیظ صاحب نے  اپنی تقریر میں اما رت پبلک اسکول کے قیا م کو وقت کی ضرورت قرا ر دیا اور فرما یا کہ اس اسکول کے قیا م وآغا ز سے ان بچوں کی ضرورتیں بھی پوری ہوسکیں گی جو موٹی فیس نہ دینے کی وجہ سے دوسرے اسکولوں میں دا خلہ سے محروم رہ جا تے ہیں ۔ دارالقضا کٹک کی مقا می کمیٹی کے نگرا ں جنا ب یوسف اقبا ل صا حب کی را ئے تھی کہ شروع میں درجا ت زیا دہ نہ بڑھائے جا ئیں ؛نرسری ، ایل کےجی اور یو کے جی سے کا م شروع کیا جا ئے داخلہ اور ما ہا نہ فیس میں اس با ت کی رعا یت رکھی جا ئے کہ غریب بچوں پر زیا دہ بوجھ نہ آئے۔انہوں نے اس با ت کا بھی اعلا ن کیا کہ فیس کی آمدنی سے جو رقم آئیگی اس کے علا وہ ماہا نہ جو ضرورت ہوگی مقا می کمیٹی اس کا اناظ  م کرے گی ۔
مون لا ئٹ اسکول کے سکریٹری جنا ب اشفا ق صا حب نے فرمایا کہ ابتد ائی درجا ت کےانفراسٹریکچر  میں بچوں کے کلا س روم کو پرکشش بنا نے کی ضرورت ہے۔
میٹنگ میں مقا می کمیٹی کے ذمہ دا روں اور تعلیمی امور سے دلچسپی رکھنے وا لوں نے مفید مشورے دیے،طے پا یا کہ پہلےمرحلہ میں ہینڈبل، بینر اور مسا جد کے ذریعہ اسکول کے قیام کے با رے میں تشہیر کی جا ئے ،اسا تذہ کی تقرری جلد از جلد کر لی جا ئے، اسکول کے آغا ز سے پہلے کم از کم دو استا نیوں اور ایک خا دمہ کی بحا لی کر لی جا ئے تا کہ دا خلہ کے کاموں میں ان سے مدد لی جا ئے ، جنا ب یوسف اقبا ل صا حب نے کہا کہ مقا می کمیٹی اس سلسلے میں اقدا م کرے گی۔ پروگرا م کی نظامت مولا نا صبغتہ اللہ قاسمی معا ون قا ضی شریعت دار القضاء کٹک نےکی ، جنا ب را شد نجمی صا حب نے مقا می حا لا ت کو سا منے رکھ کر آغا ز سے قبل ضروری تیا ری کر لینے پر زور دیا ، میٹنگ کا آغا ز جنا ب مولا نا مطیع الرحمن صاحب کی تلا وت کلا م پاک سے ہوا  اورآخر میں مفتی محمد ثناء  الہدی قا سمی صا حب کی دعا پرمیٹنگ کا اختتام ہوا ، اس اہم میٹنگ میں جنا ب انجم شہا ب صا حب ، جنا ب حا جی عبدالقدوس صا حب ، جنا ب سید عبد البا طن صا حب ، مولا نا قاسم صا حب اور حا فظ را شد صا حب  کے علا وہ دیگر عمائدین شہر نے نے شرکت فرما ئی ، کٹک دفترا ما رت شرعیہ سے یہ اطلا ع حا فظ ابو نسیم صا حب نے دی۔

عام بجٹ : حاشیہ پر عوام مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عام بجٹ : حاشیہ پر عوام 
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
یکم فروری ۲۰۲۲ء کو ہندوستان کی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے سال ۲۳-۲۰۲۲ء کا عام بجٹ پارلیامنٹ میں ڈیجیٹل پیش کیا ، یہ ایک پیپر لیس بجٹ تھا، جسے انہوں نے اپنے نوے (۹۰)منٹ کی تقریر میں ممبران پالیامنٹ اور رواں نشریہ کے ذریعہ عوام کے سامنے رکھا،ایک دن قبل جو اقتصادی سروے انہوں نے پیش کیا تھا، اس سے لوگوں کی امید بڑھی تھی کہ شاید ٹیکس کی ادائیگی کے لیے مقررہ سیلیب میں تبدیلی لائی جائے گی ، جس سے اوسط درجہ کے تاجر، کسان اور عوام کو راحت ملے گی، لیکن ایسا نہیں ہو سکا، حکومت نے نئے ٹیکس لگانے سے احتراز اور احتیاط کو ہی عوام کے لیے راحت کا سامان سمجھ لیا، چوں کہ اگلا بجٹ ۲۴-۲۰۲۳ء کا انتخابی بجٹ ہو گا اس لیے ہم کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں تھے، مرکزی حکومت نے اس بجٹ کے ذریعہ ملک کے مالدار ترین گھرانوں کو خوش کیا ہے ،جس کے نتیجے میں کار پوریٹ ٹیکس میں کمی کر دی گئی ہے، بجٹ کی خاص باتوں پر توجہ دیں تو معلوم ہوگا کہ در آمد کی جانے والی اشیاء میں تیس (۳۰) فیصد ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے، دفاعی بجٹ میں دس(۱۰) فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے، اچھی بات یہ ہے کہ وزارت اقلیتی امور کے لیے بجٹ میں چھ سو چوہتر کروڑ کی رقم بڑھادی گئی ہے، پاسپورٹ میں ای چیپ لگا یا جائے گا، حیرت ناک بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے کرپٹو کرنسی کی مالیت کو نہ صرف تسلیم کر لیا ہے، بلکہ اسے کاروبار میں رواج دینے کے لیے رزرو بینک کو ذمہ داری دی ہے، البتہ کرپٹو کرنسی پر تیس(۳۰) فی صد ٹیکس بھی دینا ہوگا، توقع کی جاتی ہے کہ اس بجٹ کے اثرات کپڑے، چمڑے کے سامان، موبائل، فون چارجر، جوتے، ہیرے اور جواہرات پر پڑیں گے اور یہ سستے ہوں گے، جبکہ غیر ملکی چھاتا، نقلی زیورات، ہندوستان میں تیار شدہ دوائیں مہنگی ہوں گی ، بجٹ میں نو جوانوں کو خود انحصار (آتم نربھر) بھارت کے تحت سولہ لاکھ اور میک انڈیا کے تحت ساٹھ(۶۰) لاکھ ملازمتیں دی جائیں گی، اسی(۸۰) لاکھ نئے گھر بنائے جائیں گے، چار سو(۴۰۰) نئی وندے بھارت ٹرینیں چلائی جائیں گی۔
حسب سابق اس بجٹ میں ہندوستان کے عام شہری ، مزدور، کسان ، غیر منظم سکٹر میں کام کرنے والے لوگوں کو پوری طرح نظر انداز کیا گیا ہے، مہنگائی کم کرنے کے لیے بھی اس بجٹ میں کوئی منصوبہ نہیں ہے، چھوٹے روزگار اور گھریلو صنعت چلانے اور قائم کرنے والوں کے لئے بھی کسی رعایت کا اعلان نہیں کیا گیا ہے، حالاں کہ کورونا اور لاک ڈاؤن کی مار سب سے زیادہ اسی طبقہ پر پڑی ہے، ان کے کاروبار تباہ ہو گیے اور ان کے پاس نئے کاروبار کھڑے کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں،ملازمتوں کی فراہمی کے لیے چھوٹے کاروباری مرکز کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے، منریگا کے فنڈ میں اضافہ نہ کرنے کی وجہ سے چند ایام کے لیے جو کام کمزور طبقات کو مل جایا کرتے تھے اب اس میں بھی اضافہ نہیں کیا جا سکے گا، کیوں کہ فنڈ کے حساب سے ہی لوگوں کو کام پر لگایا جا سکتا ہے اس طرح دیکھا جائے تو عام بجٹ نے عوام کو حسب سابق حاشیہ پر رکھا ہے، اور اس میں کوئی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آتی۔
 نوے (۹۰)منٹ کا بجٹ بھاشن انتہائی خشک تھا، سابق میں اس خشکی کو دور کرنے کے لیے بجٹ بھاشن میں اردو اشعار کا سہارا لیا جاتاتھا، اس بار اس کی بھی کمی محسوس ہوئی، اس کے علاوہ بجٹ میں معاشیات سے متعلق جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق انگریزی زبان سے ہوتا ہے، انگریزی اصطلاحات کا سمجھنا اس شخص کے لیے جس کا تعلق معاشیات سے فنی طور پر نہیں ہے دشوار ترین عمل ہے، ادھر چند سالوں میں ان انگریزی اصطلاحات کو سنسکرت زدہ ہندی میں بدلنے کا مزاج بنا ہے وہ اسے مزید دشوار تر کر دیتا ہے، اس لیے عوام کی دلچسپی بجٹ تقریر کے سننے سے بالکل نہیں ہوتی ، وہ دیکھنا چاہتی ہے کہ مہنگائی اس بجٹ سے گھٹے گی یا بڑھے گی، بے روزگاری میں کس قدر کمی آئے گی، روزگار کے مواقع کیا ہوں گے ، ان کی دلچسپی بجٹ کے بعد سینسکس اور نفٹی کے اعداد وشمار کے شیر بازار میں گھٹنے، بڑھنے سے بھی رہتی ہے، اگر حصص کی قیمتوں میں اچھال آیا، جیسا اس بار کے بجٹ کے بعد ہوا ہے تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ بجٹ متوسط لوگوں کے لیے نہیں بڑے کارپوریٹ اور تاجر گھرانوں کے لیے مفید ہے، اگر شیر بازار میں گراوٹ آئی تو معلوم ہوتا ہے کہ اس بجٹ میں غریبوں کے لیے بھی کچھ ہے، یہ ان کی سوچ ہے، ضروری نہیں کہ آپ اس کی تائید بھی کریں۔
 بجٹ تقریر کے نہیں سمجھنے کا اثر ہمارے سیاسی رہنماؤں پر بھی خوب پڑتا ہے، ان کے یہاں نہ سمجھنے کی وجہ سے موافقت ومخالفت کا پیمانہ حکومت کی موافقت یا مخالفت پر مبنی ہوتا ہے، حزب اقتدار کے لوگ بجٹ کو مثبت ، ہندوستان کو آگے لے جانے والا کہتے نہیں تھکتے، جب کہ حزب اختلاف کے نزدیک بجٹ جیسا بھی ہو مایوس کن ہی ہوتا ہے، ان کے یہاں گفتگو بجٹ کے جزئیات پر نہیں ہوتی، بلکہ مجموعی طور پر ہی اسے رد کر دیا جاتا ہے، اس طریقۂ کار کو بدلنے کی ضرورت ہے، سیاسی رہنماؤں کو بیان بازی سے پہلے اپنی پارٹی کے معاشی شعور رکھنے والوں سے تجزیہ کرا کر ہی رائے زنی کرنی چاہیے، بغیر سمجھے رائے زنی کرنا نہ ان کے لیے مفید ہے نہ ملک کے لیے۔

اسد الدین اویسی نے کہا : داڑھی میری ، ٹوپی میری ، برقع میرا ، کسی کو کیا کرنا

اسد الدین اویسی نے کہا : داڑھی میری ، ٹوپی میری ، برقع میرا ، کسی کو کیا کرنااترپردیش میں اسمبلی انتخابات کی سرگرمیاں عروج پر ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ووٹروں لو لبھانے کیلئے پوری طاقت جھونک رہی ہیں ۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بھی اس مرتبہ یوپی کے انتخابی میدان میں اتری ہوئی ہے ۔ اسی سلسلہ میں اسد الدین اویسی نے بدھ کو بلاری اسمبلی حلقہ میں ایک انتخابی ریلی کو خطاب کیا اور لوگوں سے اے آئی ایم آئی کو کامیاب بنانے کی اپیل کی ۔اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اور ممبر پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے خطاب کرتے ہوئے کرناٹک میں جاری حجاب تنازع کا معاملہ بھی اٹھایا ۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یوپی کی خواتین سے کہا کہ وہ حجاب اور برقع پہن کر ووٹ ڈالنے جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ حجاب اور برقع پہننا تو ہمارا حق ہے ، آئین میں ہمارا بنیادی حق ہے ، میں کیا پہنتا ہوں ، کیا کھاتا ہوں ، کسی کو جھانکنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ‘میری بیٹی کیا پہنے گی ، میری ماں کیا پہنے گی ، میری بہن کیا پہنے گی ، میری خالہ کیا پہنے گی ، ارے تو اپنے گھر کی فکر کر ، میرے پیچھے کیوں پڑا ہے، کیا ہم پوچھ کر پہنیں کے کیا پہننا ہے’ ۔

بدھ, فروری 09, 2022

تنقید پارےمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

تنقید پارے
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ڈاکٹر عشرت بیتاب بنیادی طور پر استاد ہیں، پوری زندگی سرکاری طور پر معلم رہے، پڑھا ، پڑھایا، لڑکوں کو کام کے لائق بنایا، ان کی حیثیت سے مغربی بنگال خصوصا آسنسول اور اس کے نواح میں مردم ساز استاذ کی رہی ہے ، انہوں نے اپنی سر پرستی ، سربراہی میں تربیت کرکے کتنوں کو ادیب، شاعر، مضمون نگار اور مقالہ نویس بنا دیا، میں نے بذات خود ان کے شاگردوں کو ان پر جان چھڑکتے دیکھا ہے، جان چھڑکنا ایک محاورہ ہے جو خدمت کے لیے آخر حد تک تیار رہنے کے لیے بولا جاتا ہے۔
 ڈاکٹر عشرت بے تاب نے افراد سازی کے ساتھ کتاب کی تصنیف وتالیف پر بھی اپنی توجہ مرکوز رکھی، وہ مسلسل لکھتے رہے ہیں، پیرانہ سالی ، ضعف ونقاہت، کمر کے درد، چلنے پھرنے میں دشواری کے باوجود آج بھی ان کا قلم رواں دواں ہے، ان کی کئی کتابیں ،سفر جاری ہے ، محب الرحمن کوثر-تخلیقی سفر ایک جائزہ، سہیل واسطی کے افسانے، ادبی میزان مقبول عام ہیں، مغربی بنگال کے ادبی افق کا وہ ایک روشن ستارہ ہے ، ستارے کی روشنی بہت نہیں ہوتی ، لیکن اندھیری رات میں اس کی روشنی گھٹاٹوپ اندھیرے کو ہم پر مسلط ہونے سے محفوظ رکھنے کا کام کرتی ہے ۔
 تنقید پارے ڈاکٹر عشرت بے تاب کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، جو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون سے اشاعت پذیر ہوا ہے ، دو سو چھبیس صفحات پر مشتمل اس مجموعہ کی قیمت ایک سو تینتالیس روپے ہے، جو یقینی طور پر قومی کونسل کی ہدایت پر رکھی گئی ہوگی، ورنہ اتنی ضخیم کتاب اتنی کم قیمت پر اب کہاں ملتی ہے ، طباعت ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کی ہے ، جس کی طباعت او رمارکیٹنگ مشہور ہے اور ان دنوں اہل قلم کی وہ پہلی پسند بن گئی ہے۔ ٹائٹل تجریدی آرٹ کا عمدہ نمونہ ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑ سے آبشار جاری ہے اور وہ اوپر سے نیچے کی طرف آکر زمین پر پھیلتا جا رہا ہے ، تجریدی آرٹ کے سلسلے میں ، میں انتہائی بد ذوق واقع ہوا ہوں، شاید اس آرٹ سے قارئین کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مصنفین کے اعلیٰ ارفع خیالات کو تبصرے، تجزیے، طنز ومزاح، گوشۂ اطفال، شخصیات اور شعری ونثری ادب کے ذریعہ عام قاری کو سمجھانے کے لیے پانی کی طرح رواں دواں کر دیا ہے، اب جس کا جی چاہے اس سے فیض پالے۔
کتاب کا انتساب ڈاکٹر عشرت بے تاب نے بیٹیوں کے نام نہیں بہوؤں کے نام کیا ہے ، ان کا احساس ہے کہ وہ ان کے لیے بیٹیوں سے کم نہیں ہیں، بیٹیاں جب سسرال چلی جاتی ہیں تو ساری خدمت بہوئیں ہی کرتی ہیں، جو عقل مند ہوتے ہیں وہ بہوؤں کو بیٹیاں ہی سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی محبت بوڑھے سسر کو حاصل ہو جاتی ہے ، عشرت بے تاب صاحب کے عقل مند ہونے میں کسی کو کیا شبہہ ہو سکتا ہے۔
 پوری کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے، شروع کے تین ابواب شخصیات ، شعر وادب اور تبصرہ میں چھ چھ مضامین شامل ہیں، چوتھا باب اطفال سے متعلق ہے اس میں چار مضامین ہیں، آخر کے دو باب میں امام اعظم کو ہمہ جہت شخصیت کا مالک ، مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کو قدآور شخصیت ، عاصم شہنواز کو فعال اور متحرک ، شمیم انجم وارثی کو انفرادی شخصیت ، ڈاکٹر علی شیر خان کو وقت کا بشر، اور انجم روحان کو نئی نسل کا نمائندہ فنکار قرار دیا گیا ہے، شعر وادب کے باب میں انتظار حسین ، پریم چند، شان بھارتی، خان شین کنور، امان اللہ ساغر اور طلعت انجم فخر کی شعری وادبی جہات کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ تبصرہ کے باب میں امام اعظم کے تمثیل نو، حسین الحق کے اردو فکشن ہندوستان میں اور سید شاہد اقبال کی نشتر تحقیق کے در وبست کا جائزہ لیا گیا ہے ، مناظر عاشق ہرگانوی کی افسانوی جہتیں، ادبی آبیاری اور ان کے افسانے اور تجزیے نامی کتاب پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے ، یہ تینوں کتابیں علی الترتیب عدد امناط صفی الرحمن راعین اور عرش منیر کی ہیں۔
 باب اطفال میں مناظر عاشق ہرگانوی کو بچوں کی نفسیات کا عالم ، رونق جمال کو بچوں کا من پسند ادیب ، نذیر احمد یوسفی کو گنجینۂ اطفال کا ایک روشن باب اور معراج احمد معراج کو گلشن اطفال کا نمائندہ فنکار قرار دیا گیا ہے، اس باب کے مندرجات شخصیات والے باب میں سما سکتے تھے، الگ کرنے کا مقصد شاید یہ ہو کہ ادب اطفال کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی جا سکے۔
تجزیہ کے باب میں اشتیاق سعید کے حاضر غائب، مشتاق انجم کے خواب دریچہ اور سلیم سرفراز کے بد دعا کرنے والے پر ڈاکٹر عشرت بے تاب نے قلم اٹھا یا ہے، یہ باب تبصرہ نہیں بھی ڈا لا جا سکتا تھا۔
 طنز ومزاح میں پطرس بخاری، مناظر عاشق ہرگانوی اور بازغ بہاری کے طنز ومزاج کا فنی اور تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے، اس باب کو تبصرے میں شامل کرنے سے کتاب سہ بالی ہو سکتی تھی۔
کتاب کے مندرجات علمی ہیں، لیکن شکوہ یہ ہے کہ پروف پر توجہ بالکل نہیں دی گئی ہے ، بے پناہ غلطیاں رہ گئی ہیں، جس کی وجہ سے قاری کا ذہن بوجھل ہوتا ہے۔ ملنے کے پتے آٹھ درج ہیں، اگر آپ پٹنہ میں ہوں تو کتاب گھر، سبزی باغ۔ کولکاتہ میں ہوں تو عثمان بک ڈپو، کولو ٹولہ اور آسنسول میں ہوں تو حنفی بک ڈپو، ریل پار کے ٹی روڈ سے حاصل کر سکتے ہیں۔

جمعیۃ علماء ہند کا اعلان - پابندی کی مخالفت کرنے والی طالب علم مسکان خان کو 5 لاکھ دیے جائیں گے

جمعیۃ علماء ہند کا اعلان - پابندی کی مخالفت کرنے والی طالب علم مسکان خان کو 5 لاکھ دیے جائیں گے

جمعیت علمائے ہند کے قومی صدر مولانا محمود مدنی نے کرناٹک کے اُڈپی کے مہاتما گاندھی کالج کی بی بی مسکان خان کو پانچ لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان۔ بی بی مسکان نے منگل کو کالج میں حجاب پر پابندی کے خلاف طالبات کے احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے مذہبی نعرے لگائے تھے۔ مولانا مدنی نے کہا ہے کہ ملک کی بیٹیوں کو اپنے آئینی اور مذہبی حقوق سے آگاہ ہونا چاہیے۔

بی بی مسکان کو مبارکباد دیتے ہوئے انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مذہبی حقوق کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ کیونکہ جو لوگ ملک کے آئین پر عمل کرتے ہیں، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، انہیں برابر کے حقوق حاصل ہیں۔

منگل, فروری 08, 2022

ہم مضطرب کیوں ہیں؟ کامران غنی صبا اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نتیشور کالج،مظفرپور

ہم مضطرب کیوں ہیں؟ 
کامران غنی صبا 
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نتیشور کالج،مظفرپور 
انسانوں کی اکثریت پریشان ہے. کسی کو روزگار کا مسئلہ ہے. جن کے پاس روزگار ہے وہ بھی پریشان ہیں،پروموشن نہیں ہو رہا ہے. دفتری مسائل ہیں. 
کسی کی اولاد ناخلف ہے. گھریلو جھگڑے ہیں. بیماریاں ہیں. کوئی قرض میں ڈوبا ہے. کسی کی تجارت نقصان میں جا رہی ہے. کوئی مقدمہ میں پھنسا ہوا ہے. کسی کے ساتھ ازدواجی زندگی کے مسائل ہیں. میاں بیوی کے جھگڑے ہیں. ساس بہو کی رنجشیں ہیں. 
کسی سے خیریت پوچھیے تو کہتا ہے "جس حال میں رکھے اللہ کا شکر ہے".... یہ "جس حال میں رکھے" کا سابقہ..... کہنے والے کا لہجہ..... شکر میں ناشکری کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے. پہلے ہم کچے مکانات میں رہتے تھے. اب بیشتر لوگوں کے پاس پکے مکانات ہیں. پھر بھی ہم تکلیف میں ہیں. کپڑے سال میں ایک یا دو بار بنتے تھے اب تو ہم بے ارادہ بھی کپڑے خریدتے ہیں. پھر بھی ناخوش ہیں. اکثر لوگوں کی طرز رہائش پہلے سے زیادہ اچھی ہوئی ہے لیکن ہم پہلے سے زیادہ پریشان بھی ہیں. کھانے کے لیے انواع و اقسام کی چیزیں اب سب کی دسترس میں ہیں لیکن بیماریاں بھی اسی تناسب میں بڑھی ہیں. ہر گھر میں کوئی نہ کوئی بیمار ہے. نوجوان لوگ ڈاکٹروں کا طواف کر رہے ہیں. ہم بظاہر مسکرا رہے ہیں لیکن اندر سے کرب میں ہیں. وجہ کیا ہے؟وجہ روپیہ پیسہ اور دولت ہے؟ شاید نہیں..... بلکہ یقیناً نہیں... کیونکہ روپیہ، پیسہ بیشتر لوگوں کے پاس پہلے سے زیادہ ہے. مسئلہ روزگار ہے؟ شاید مسئلہ روزگار بھی نہیں ہے کیونکہ پہلے بھی روزگار کے مسائل رہے ہیں. آج سے زیادہ رہے ہیں. بڑے بڑے گھر ایک فرد کی کمائی سے چلتے تھے.
ہر شخص اپنی زندگی کو پرسکون بنانا چاہتا ہے. سکون حاصل کرنے کی دھن میں وہ اضطراب خریدتا جاتا ہے. انسان سمجھتا ہے کہ مکان اچھا ہو جائے گا تو وہ خوش رہنے لگے گا. اس کے پاس گاڑیاں ہوں گی. عہدہ و منصب ہوگا، اچھی طرز رہائش ہوگی تو اس کی زندگی میں سکون آ جائے گا. جن کے پاس یہ سب کچھ ہے المیہ یہ ہے کہ وہ بھی سکون میں نہیں ہیں. جن کے پاس بظاہر سب کچھ ہے ان کی فکر میں اضطراب ہے. نیند میں اضطراب ہے. دولت اور عہدہ و منصب ختم ہو جانے کا اندیشہ یعنی بے سکونی ہے.
انسان کی زندگی میں بے سکونی اور اضطراب کی وجہ خواہشات اور توقعات ہیں. خواہشات اور توقعات جتنی زیادہ ہوں گی، اندیشہ خوف اور اضطراب اسی قدر زیادہ ہوگا. انسان اپنے حال سے مطمئن نہ ہو تو وہ پرسکون نہیں رہ سکتا. اپنے سے زیادہ پریشان حال لوگوں کو دیکھ کر صبر و سکون حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن ہم خود سے زیادہ خوشحال اور آسودہ لوگوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اور اپنا چین و سکون خود اپنے ہاتھوں غارت کر بیٹھتے ہیں. انسان خواہشات اور توقعات کی جتنی اونچی عمارت پر متمکن ہوگا عمارت کے منہدم ہونے کی صورت میں اس کی ہلاکت کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے. اپنی موجودہ حالت سے مطمئن نہ رہنے والے لوگ زندگی کی کسی بھی مرحلے اور کسی بھی حالت میں مطمئن نہیں ہو سکتے. "ہر حال میں اللہ کا شکر ہے" کہنا کوئی رسمی جملہ نہیں ہے. ہمارے ہر ہر عمل سے جب تک شکرگزاری کا اظہار نہ ہو شکر کا حق ادا نہیں ہوسکتا اور مصنوعی ناشکری کے اظہار کی سزا سوائے اضطراب کے اور کیا ہو سکتی ہے.

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...