Powered By Blogger

منگل, مارچ 01, 2022

ریلوے نے مسافروں کو دی بڑی راحت ، اب لوگ جنرل ٹکٹ کے ساتھ ٹرینوں میں کر سکیں گے سفر

ریلوے نے مسافروں کو دی بڑی راحت ، اب لوگ جنرل ٹکٹ کے ساتھ ٹرینوں میں کر سکیں گے سفرملک میں کورونا کے حوالے سے صورتحال بہتر ہونے کے بعد انڈین ریلوے نے ٹرینوں میں دوبارہ غیر ریزروڈ کوچز شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ غور طلب ہے کہ اب تک کووڈ کی وجہ سے جنرل کوچوں کے لیے بھی ریزرویشن کرانا پڑتا تھا۔ جو ٹرینیں ایک زون سے دوسرے زون میں جاتی تھیں، وہ تمام ٹرینیں ‘صرف ریزرویشن ٹرینوں’ کی لائنوں پر چل رہی تھیں۔ تاہم، کووڈ کے نئے کیسز کی تعداد میں کمی کے بعد اب مسافر عام ٹکٹ لے کر عام ڈبے میں سفر کر سکیں گے، لیکن یہ سہولت اگلے 4 ماہ تک بک کرائی گئی سیٹوں کے لیے دستیاب نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن ٹرینوں میں ٹکٹ پہلے سے بک کر لیے گئے ہیں، وہاں پیشگی ریزرویشن کی مدت ختم ہونے کے بعد معمولات بحال ہو جائیں گے۔ تاہم ہولی کے لیے چلنے والی ٹرینوں میں لوگ عام مسافروں کے ڈبے میں عام ٹکٹ لے کر سفر کر سکیں گے۔

یوکرین کے لئے بھیجی جائے گی راحت سامگری کی پہلی کھیپ : مودی

یوکرین کے لئے بھیجی جائے گی راحت سامگری کی پہلی کھیپ : مودینئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے پیر کو کہا کہ یوکرین کی سرحدوں پر پیدا ہونے والی انسانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے منگل کو امدادی سامان کی پہلی کھیپ یوکرین بھیجی جائے گی۔ مودی نے پیر کو جنگ زدہ یوکرین میں پھنسے ہوئے ہندوستانیوں کو واپس لانے کے لیے آپریشن گنگا کے تحت جاری کوششوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک میٹنگ کی صدارت کی۔ یوکرین کے معاملے پر وزیر اعظم کی یہ دوسری اعلی سطحی ملاقات تھی۔ اس دوران انہوں نے یوکرین بھیجے جانے والے امدادی سامان کے بارے میں معلومات دی۔ انہوں نے کہا کہ پوری سرکاری مشینری اس بات کو یقینی بنانے کے لیے چوبیس گھنٹے کام کر رہی ہے کہ وہاں رہنے والے تمام ہندوستانی شہری محفوظ رہیں۔ انہوں نے کہا کہ چار سینئر وزرا کے خصوصی ایلچی کے طور پر مختلف ممالک کے دورے سے ہندوستانی شہریوں کے انخلا میں تیزی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے حکومت کی اس معاملے میں ترجیح ظاہر ہوتی ہے۔ دنیا کے لیے ایک خاندان ہونے کے ہندوستان کے نعرے سے متاثر ہو کر وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان پڑوسی ممالک اور ترقی پذیر ممالک کے ان لوگوں کی مدد کرے گا جو یوکرین میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ ہم سے مدد کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل آپریشن گنگا پر اپنی پہلی اعلی سطحی میٹنگ کی صدارت کرتے ہوئے مودی نے روس اور یوکرین کے درمیان بڑھتی ہوئی دشمنی کے درمیان انخلا کے مشن کو مربوط کرنے اور پھنسے ہوئے طلبا کی مدد کے لیے یوکرین کے پڑوسی ممالک میں چار سرکاری ایجنسیوں سے بات کی۔ وزرا ان وزرا میں ہاؤسنگ اور شہری ترقی کے وزیر ہردیپ پوری، شہری ہوا بازی کے وزیر جیوترادتیہ سندھیا، وزیر قانون اور انصاف کرن رجیجو اور سابق آرمی چیف اور سڑک، ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے وزیر مملکت جنرل وی کے شامل ہیں۔ اس میٹنگ میں یوکرین سے ہندوستان کے انخلا کے مشن پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔مودی نے اتوار کو کہا تھا کہ یوکرین میں پھنسے ہندوستانی طلبا کی حفاظت اور انخلا کو یقینی بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے اتوار کی شام دیر گئے ایک اعلی سطحی اجلاس کی صدارت بھی کی جو دو گھنٹے سے زائد جاری رہی تھی

شب معراج میں نمازوں و عبادات کا خشوع و خصوع سے اہتمام

شب معراج میں نمازوں و عبادات کا خشوع و خصوع سے اہتمامجلسوں کا بھی اہتمام ۔ امت مسلمہ کو شب معراج کے پیام کو زندگیوں کا حصہ بنانے کی تلقین
حیدرآباد 28 فبروری ( اردو دنیا نیوز ۷۲) شب معراج کا آج شہر میں خشوع و خضوع کے ساتھ اہتمام کیا گیا ۔ مساجد میں خصوصی نمازوں و عبادات کا اہتمام کیا گیا ۔ مساجد پر روشنی کا انتظام کرتے ہوئے انہیں بقعہ نور بنایا گیا ۔ اس کے علاوہ شہر کے مختلف مقامات پر خصوصی جلسہ شب معراج کا اہتمام بھی کیا گیا جن میں علماء کرام ' مفتیان عظام اور مشائخین نے خطاب کیا ۔ تاریخی مکہ مسجد میں مصلیان کرام کا سب سے بڑا مجمع دیکھا گیا جو نماز عشاء میں شریک تھا ۔ اس کے علاوہ شہر کی دوسری بڑی مساجد اور تقریبا سبھی مساجد میں نمازوں میں مصلیان کرام کی خاصی تعداد شریک رہی ۔ شہر کے مختلف مقامات اور مساجد میں منعقدہ جلسہ ہائے شب معراج سے خطاب کرتے ہوئے علماء کرام و مشائخین و مفتیان عظام نے امت مسلمہ کو تلقین کی کہ وہ شب معراج کا اہتمام کرتے ہوئے اس کے پیام کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس رات میں ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کو آسمانی دنیا کے سفر کے دوران دنیاوی خرافات کے عواقب کا نظارہ کروایا گیا ۔ غیبت ' چغلی ' جھوٹ ' سود خوری جیسے گناہوں پر ملنے والی ہیبتناک سزاوں کا ہمارے آقا ﷺکو مشاہدہ کروایا گیا اور پھر ہمیں ہمارے نبی ؐ کے ذریعہ نماز کے تحفہ سے اللہ تبارک و تعالی نے سرفراز فرمایا ۔ ہمیں نہ صرف نماز کے تحفہ کا ذکر کرنا چاہئے بلکہ اس کی اہمیت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ ہماری اپنی زندگیوں میں نماز کو قائم کرنے کیلئے سبھی کو تہئیہ کرلینا چاہئے ۔ علماء کرام نے فرمایا کہ کفر اور ایمان کے درمیان فرق صرف نماز ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ ہم وقتی طور پر جذباتیت کا شکار تو ہو جاتے ہیں لیکن ہم نماز کی فرضیت سے غافل ہوگئے ہیں۔ ہمیں اپنی زندگیوں میں مثبت اور بہتر تبدیلی لانی ہے تو ہمیں نماز کا پابند ہونا چاہئے اور دوسری برائیوں سے جس کی تلقین ہمارے نبی ﷺنے فرمائی ہے اجتناب کرنا چاہئے

پیر, فروری 28, 2022

یوپی الیکشن میں ایک نہیں ، بلکہ 4-4 اکھلیش یادو آزما رہے ہیں قسمت ، جانیں کون کہاں سے میدان میں

یوپی الیکشن میں ایک نہیں ، بلکہ 4-4 اکھلیش یادو آزما رہے ہیں قسمت ، جانیں کون کہاں سے میدان میںلکھنو: اترپردیش اسمبلی (UP Chunav) کی انتخابی جنگ میں سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو (Akhilesh Yadav) سمیت اس نام کے چار 'امیدوار' میدان میں ہیں۔ اسمبلی انتخابات میں اکھلیش یادو نام کے چار امیدواوں میں سماجوادی پارٹی کے سربراہ سمتی دو امیدوار سماجوادی پارٹی کے ہیں جبکہ ایک کانگریس اور ایک آزاد امیدوار کے طور پر اپنی طاقت آزما رہے ہیں۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو کے انتخابی حلقہ مین پوری ضلع کے کرہل میں ووٹنگ ہوچکی ہے اور رائے دہندگان نے ان کی قسمت الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) میں 'بند' کردی ہے۔ اکھلیش یادو نام کے دوسرے امیدوار اعظم گڑھ ضلع کی مبارکپور سیٹ سے ہیں۔ اس کے علاوہ ایودھیا ضلع کی بیکا پور اسمبلی سیٹ سے کانگریس امیدوار کا بھی نام اکھلیش یادو ہے۔ سنبھل کے گنور اسمبلی حلقہ میں ایک آزاد امیدوار بھی اکھلیش ہیں۔ رابطہ کرنے پر سماجوادی پارٹی کے سربراہ کے تینوں ہم ناموں نے 'پی ٹی آئی- بھاشا' کو بتایا کہ اس کے لئے یہ نام ہونا ایک فائدہ ہے۔ سات فروری کو سماجوادی پارٹی نے مبارکپور اسمبلی حلقہ سے امیدوار اکھلیش یادو کا اعلان کیا تو کچھ لوگوں کو لگا کہ پارٹی صدر اکھلیش یادو دو سیٹوں پر اسمبلی الیکشن لڑنے جا رہے ہیں۔ چونکہ اس کے پہلے ہی سماجوادی پارٹی کے سربراہ کے مین پوری کے کرہل سے الیکشن لڑنے کا اعلان ہوچکا تھا اور اعظم گڑھ ان کا پارلیمانی حلقہ ہے تو لوگوں نے اندازہ لگایا کہ ممکنہ طور پر وہ دو سیٹوں سے الیکشن لڑیں گے۔ تاہم پارٹی لیڈروں نے صورتحال واضح کردیا اور بتایا کہ مبارکپور سے اعلان شدہ امیدوار اکھلیش یادو 2017 میں بھی اسمبلی الیکشن لڑچکے ہیں اور انہیں بی ایس پی کے شاہ عالم سے صرف 688 ووٹوں سے شکست ملی تھی۔ مبارکپور سے سماجوادی پارٹی سے امیدوار اکھلیش یادو نے 'پی ٹی آئی- بھاشا' سے کہا، 'مجھے اپنے انتخابی حلقہ، کے لوگوں کی اچھی حمایت مل رہی ہے، لوگ میرے تئیں ہمدردی محسوس کرتے ہیں، کیونکہ میں اس سیٹ سے 2017 کا اسمبلی الیکشن بہت ہی معمولی فرق سے ہار گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی سبھی لوگ چاہتے ہیں کہ اکھلیش یادو الیکشن جیتے۔ یہاں کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ چونکہ اکھلیش یادو (سماجوادی پارٹی کے سربراہ) ہیں اور وہ یوپی کا وزیراعلیٰ بننے جا رہے ہیں، اس لئے مبارکپور سے رکن اسمبلی بھی اکھلیش یادو کو ہونا چاہئے'۔ مبارکپور سماجوادی پارٹی کے امیدوار کی قسمت کا فیصلہ ساتویں اور آخری مرحلے میں سات مارچ کو ہوگا۔ مبارکپور سے سماجوادی پارٹی کے امیدودار نے کہا کہ ان کے والد نے ان کا نام اکھلیش یادو رکھا ہے کیونکہ تین بھائیوں کا نام 'عیش' کے ساتھ ختم ہوا۔ اودھیش یادو، امیش یادو اور امریش یادو۔

مولانا احمداللہ صادق پوریمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا احمداللہ صادق پوری
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بہار نہ صرف علم وادب کاگہوارہ رہاہے، بلکہ یہاں کی مٹی سے اٹھنے والے جیالوں نے اپنی جرأت وہمت، شجاعت وبہادری کا نقش چمن چمن قدم قدم ، ڈگرڈگر ،قریہ قریہ ،کوبکو اور شہر درشہر چھوڑا ہے ،جواں مردی، اولوالعزمی ،حب الوطنی یہاں کی خمیر میں شامل ہے، اوراس کا ثبوت یہاں کے بے شمارمجاہدین آزادی ہیں، جن کی ان تھک جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کی وجہ سے قافلۂ حریت ہمیشہ تیزگام رہاہے۔
تفصیل میں کہاں جائیے، صرف خاندان صادق پور کی خدمات کاہی تذکرہ کیاجائے تو کئی جلدیں تیار ہوجائیں، لکھنے والوں نے لکھا ہے اورتحقیق کرنے والوںنے کیاہے، اس کے باوجود حق ادانہ ہوا، ڈاکٹرامتیاز احمد ڈائریکٹر خدابخش خاں اورنٹیئل پبلک لائبریری پٹنہ نے بجالکھا ہے:
’’ہندوستا ن کوانگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے اورمذہب اسلام کوبدعات سے پاک وصاف کرنے میںالٰہی بخش ، احمد اللہ،یحییٰ علی، فیاض علی، اکبرعلی، ولایت علی ،عنایت علی وغیرہ…وغیرہ بزرگان صادق پور… نے جس جیالے پن کا ثبوت دیا ہے، حیرت ہے کہ کوئی تاریخ داں ،ان کی بے لوث خدمات کا صحیح اور مکمل طورپر ذکرتک نہیں کرتا‘‘۔ (سونیر مجاہدین صادق پور، بہار نمبر۳۳)
جیسا کہ ذکر ہوا، مولانا احمد اللہ صادق پوری ، اسی خاندان کے گل سرسبد تھے اوران کی حیات وخدمات اورجنگ آزادی میں ان کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے ان حضرات کے ساتھ برتی گئی بے اعتنائی کا احساس شدید ہوتاہے، تاریخ کی کڑیاں ملانے کے دشوار گزارعمل کے بعد بھی خیال آتاہے کہ کہیںکوئی کڑی گم ہے اورحلقۂ سلاسل کوجوڑنے کا عمل مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ اس مقالہ میں کوشش کی گئی ہے کہ مولانااحمد اللہ کی حیات مستعار اور جنگ آزادی میں خدمات مستزاد کا؛ مختصر مگر مکمل تذکرہ ہوجائے۔
مولانا احمد اللہ بن الٰہی بخش بن ہدایت علی جعفری کی ولادت ۱۲۲۳ھ؁ مطابق ۱۸۰۸ئ؁ میں ہوئی ، ابتدا میں نام احمد بخش تھا؛ لیکن سیداحمد شہیدؒ نے ان کا نام بدل کر احمد اللہ رکھ دیا،اور یہی نام متعارف ہوا، ابتدائی کتابیں مولانا ولایت علی سے پڑھیں، اور حدیث کی سند بھی انھیں سے حاصل کی، درمیا ن کے چند مہ وسال مولانا منور علی آروی کی شاگردی میںبھی گزرے، فراغت کے بعد درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا، توفیض عام ہوا، اورنامور شاگردوںکے ذریعہ دیر تک اور دورتک پھیلا۔ آپ کی ذکاوت، ذہانت، ہمت ،دلیری، حمیت، قومی ہمدردی، اور حب الوطنی مشہور تھی۔ مولانا عبدالحئی حسنی نے الاعلام بمن فی تاریخ الہند میں لکھا ہے:
’’وکان رجلاً کریماً، عفیفاً دیناًکبیرالمنزلۃ عند الولاۃ،جلیل القدر، یعیش فی اطیب بال وراغدحال‘‘(ج۵ص۵۵)
حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی نے لکھا ہے:
’’مولانا احمداللہ اور مولانایحییٰ علی سید صاحب کی جماعت کے رکن رکین اور پوری دعوت وتحریک کا مرکز تھے‘‘۔(سیرت سید احمد شہیدج۱ص۳۰۹حاشیہ)
تذکرۂ صادقہ میںآپ کی عقل ودانش کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھاہے:
’’آپ کی عقل ودانش کااس قدرشہرہ تھاکہ گورنمنٹ انگریزی بھی آپ سے اکثر رفاہ عام کے کاموں میں مشورہ لیا کرتی تھی،آپ برابر کمیٹی کے رکن ممبر ہوا کرتے تھے،آپ حکام رس تھے،اورجلسۂ وائسرائے بہادر میں درجۂ اول میں شمار ہوتے تھے اکثر وہ مقدمات جورعایا اور گورنمنٹ کے درمیان آراضی کے متعلق ہوتے؛ مثلاً کوئی زمین حکومت کو خریدنی ہوتی تو اس کی قیمت کا فیصلہ آپ کے ہی سپرد ہوتاتھا اور آپ اس خوبی سے فیصلہ فرماتے کہ حاکم و محکوم دونوں راضی ہوجاتے‘‘۔(ص۱۴۶)
جب انگریزوں نے انکم ٹیکس لگایا اوراس کی وصولی کا انتظام حکومت کی طرف سے کیاجانے لگا تو جو چار افراد اس کام کے لیے منتخب کیے گئے، ان میں آپ سرفہرست تھے ۔آپ کی تقریر اور تحریر ایسی مدلل ،منطقی اور باوزن ہوتی کہ اس سے انکار کرنا مشکل ہوتا، ججوں کے درمیان اختلاف رائے کی صورت میں مقدمہ آپ کی رائے پر فیصل ہوتا، مولانا کے اس اثر ورسوخ کی وجہ سے کسی کوان پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیںہوتی تھی۔ ۱۸۵۷ئ؁ کی جنگِ آزادی کے بعد مسٹر ٹیلر کمشنر پٹنہ نے جب آپ کو گرفتار کیا اور تین مہینے نظربندرکھا، بات اوپر تک پہنچی تو نہ صرف فوری آ پ کی رہائی کا حکم ہوا؛ بلکہ مسٹر ٹیلر کمشنر پٹنہ کو اس کے عہدے سے برخاست کردیاگیا۔
اس پہنچ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ انگریزوں سے ملے ہوئے تھے ؛بلکہ یہ کام کی حکمت عملی تھی، جس کا پتہ انگریزوں کو بہت بعدمیں چل سکا ۔ ڈاکٹر ہنٹر کو اس خاندان سے یہی شکایت تھی،ایک جگہ مولانا احمداللہ کے چھوٹے بھائی مولانایحییٰ علی(م فروری ۱۸۶۸ئ؁) کے بارے میںلکھتاہے:
’’یحییٰ علی اعلیٰ خاندا ن سے تعلق رکھتاتھا، پٹنہ میں انگریزی حاکموں کے ساتھ اس کے تعلقات بہت اچھے تھے، اس کے خاندان میں سے ایک ہماری حکومت میں اعزازی عہدے پر مامور تھااوردوسرا ہماری سرحد پر مجاہدین کی جماعت کی رہنمائی کررہا تھا، جوہماری فوجوں پر چھاپے ماررہی تھی‘‘۔ (ہما رے ہندوستانی مسلمان ،ص۴۸)
ہنٹر نے نے حکومت میں اعزازی عہدے پرمامور ہونے کی جوبات کہی ہے ، اس کا تعلق مولانا احمد اللہ ہی سے ہے، جس کی تصدیق ’’درمنثور ‘‘کی اس عبارت سے ہوتی ہے:
’’اپنی ریاست کے نظم ونسق سرکاری سطح پر اہل شہر کی خدمت اور رفاہ عام کے مشاغل کے ساتھ درس کا سلسلہ بھی جاری رکھا‘‘۔(ص۵۷)
۱۸۵۷ئ؁ کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد جوحالات پیداہوئے، اس میں اس حکمت عملی کو دیر تک اور دور تک جاری رکھنا ممکن نہ ہوسکا، چنانچہ جلدہی مولانا احمد اللہ اس حکمت عملی کو ترک کرنے پر مجبور ہوئے اور وہ جو کہا گیا ہے کہ سر مونڈاتے ہی اولے پڑے، مسٹر ٹیلر نے مولانا کو گرفتار کرلیا، جس کا ذکر پہلے آچکاہے ،تین مہینہ کی قید کے بعد رہائی ملی، مولانا پھراپنی پرانی روش پر چل پڑے ۔
مولانا کے چھوٹے بھائی مولانا یحییٰ علی؛ جو پٹنہ تحریک آزادی کے روحِ رواں تھے، اور سید صاحب کی شہادت کے بعد بھی پوری جرأت ،دلیری، مستعدی، اوربلند حوصلگی کے ساتھ اس مرکز کے نظم ونسق کوسنبھالے ہوئے تھے ،واقعہ یہ ہے کہ انھوںنے مولانا احمد اللہ اور اپنے رفقاء کے ساتھ ۱۸۵۷ئ؁ کے بعد حریت کی چنگاری کونہ صرف بجھنے سے بچانے کا کام کیاتھا؛ بلکہ جہد مسلسل سے اسے شعلہ جوالا اور آتش فشاں بنادیا تھا ، جس کے پگھلے لاوے اور مادے ایک طرف برطانوی لشکر کو نقصان پہنچا رہے تھے، دوسری طرف ان کے سارے خواب اس کے نتیجے میں جل کرخاکستر ہوئے جارہے تھے ، ظاہر ہے اس کے نتیجے میں ہونایہی تھا کہ اس تحریک کے قائد کو پابند سلاسل اورداخل زنداں کردیاجائے، چنانچہ ۱۸۶۴ئ؁ میں وہ گھڑی آگئی جب مولانا یحییٰ علی ایک بڑی جماعت کے ساتھ قید کرلیے گئے، ایسے میں اس مرکز آزادی کو جاری رکھنے اوراس کی خدمات کو تسلسل عطا کرنے کے لیے مولانا احمداللہ کو کھل کر میدان میں آنا پڑا ۔ انھوںنے جومثالی جدوجہد کی اس کے نتیجہ میں پٹنہ کے دارالاشاعت چھوٹا مال گودام سے سرحد تک جسے فوجی خفیہ زبان میںبڑا مال گودام کہتے تھے، مجاہدین کا تانتا لگ گیا،پنجاب کے وسیع و عریض علاقہ میں دوہزار میل (کلومیٹرنہیں) کی مسافت ان خطرات کے ساتھ طے کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا، جگہ جگہ انگریزوں نے جاسوسوں کا جال پھیلا رکھا تھا،اس سے قطع نظر وہ اپنے قد وقامت اور زبان کی وجہ سے بھی خطرہ میں پڑتے تھے؛ لیکن اس خطرناک کام کے لیے جومنصوبہ بندی کی گئی اورجس ہوش مندی سے کام لیاگیا، اس کا ایک نقشہ مسٹر ہنٹر نے یوں کھینچا ہے۔لکھتاہے:
’’تمام راستے پر جماعت خانوںکاسلسلہ قائم کردیاگیا،اوران کاانتظام معتبر مریدو ں کے حوالہ کیاگیا،پتلی سڑک کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا، اس طرح سرحدی کیمپ کو جانے والا ہرباغی مختلف صوبوں میں بے خطر چلا جاتا تھا، اس کو یقین تھا کہ ہرپڑائو پر اس کوایسے دوست مل جائیں گے؛ جواس کے لیے چشم براہ ہیں ، جماعت خانے جو راستے میں پڑتے ،ان کے منتظم مختلف طبقات کے لوگ تھے،مگر تمام کے تمام انگریزی حکومت کا تختہ الٹنے میں ہمہ تن مصروف‘‘۔(ہمارے ہندوستانی مسلمان،ص۱۳۵)
مرکزی کمان سنبھالے ابھی مولانا احمد اللہ کو کچھ ہی ماہ ہوئے تھے کہ ان کے خلاف انگریزوںنے شکنجہ کسنا شرع کیا، گرفتاری کے منصوبے بننے لگے؛ لیکن بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ثبوت کیسے فراہم ہو، کچھ گواہ مل جائیں تو اس میں بھی کامیابی نہیں مل رہی تھی۔بقول ہنٹر:
’’کیونکہ ان میں سے کسی ایک نے بھی گرفتارہونے کے خوف سے یاکسی بڑے لالچ سے اپنے تباہ شدہ امام کے خلاف گواہی دینے پرآمادگی ظاہر نہیںکی‘‘۔(ہمارے ہندوستانی مسلمان، ص۱۳۶)
کوششیں جاری رہیں، اوربالآخر انگریزوںنے جھوٹی گواہی کے لیے میرمجیب الدین تحصیل دارساکن نارنول کوکھڑاکیا اور اسے یقین دلایاکہ اگر تم نے ان قیدیوں میں سے کچھ کو بہلا پھسلاکر مولانا احمد اللہ کے خلاف گواہ بنادیا، تو رہائی کے ساتھ تحصیل دار ی بھی تمہیں لوٹا دی جائے گی،اس لالچ میں اس نے قیدیوں کو بہلاناپھسلانا شروع کیا، لیکن قیدیوںکی سوچ یہ تھی کہ ہماری دنیاتو تباہ ہوہی چکی ہے، جھوٹی گواہی دے کر اپنی آخرت کو کیوںتباہ کریں۔ اس سوچ کو حوصلہ مولانا یحییٰ علی اور مولانا محمدجعفر تھانیسری کی وجہ سے ملتا تھا، انگریزوں کو جب یقین ہوگیاکہ ان دونوں کے رہتے اس مہم میں کامیابی نہیں مل سکتی تو ان دونوں حضرات کو سینٹرل جیل لاہور روانہ کردیا گیا، اب میدان صاف تھا، چنانچہ محمد شفیع وعبدالکریم وغیرہ سرکاری گواہ بن گئے اوران کی گواہی کی بنیادپر ماہ مئی ۱۸۶۵ئ؁ میں مولانا احمد اللہ کو حبس دوام بعبور دریائے شور مع ضبطی جائدادکی سزاسنائی گئی اس طرح۵؍جون ۱۸۶۵ئ؁ کو انڈمان میں جلا وطن اور قید کیے جانے والے آپ پہلے تاریخی شخص ہوگئے۔
انڈمان کی فضا انسانی زندگی کے لیے سازگار نہیں تھی، ۱۷۸۹ئ؁ میں اسے آباد کرنے کی کوشش کی گئی؛ لیکن ۱۷۹۶ئ؁ میں اس منصوبے کو ترک کردینا پڑا، انگریزوں نے اس جزیرہ کاانتخاب اس لیے کیاتھا تاکہ مجاہدین یہاں گھٹ گھٹ کر مرجائیں؛ بلکہ موت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوں،صاحب اعلام نے اس مصائب آلام کے لیے جوتعبیراختیا ر کی ہے اس سے آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، لکھتے ہیں: فالقوا علیہ من المصائب ما تقشعر منہا الجلودوا تقدر القلوب (الاعلام ،ج ۷،ص۵۵)
مولانااحمداللہ جب انڈمان پہنچے تو انھیں ایک کچہری میں محرری کاکام سونپاگیا، آپ نے پانچ سال تک یہاں کام کیا؛ لیکن حب الوطنی کے نتیجے میں جوشدائد آنے تھے اورجن آزمائشوں سے گزرنا تھا، اس کی تکمیل ابھی نہیںہوئی تھی، چنانچہ لارڈ میووائسرائے ہند کے ایک مسلمان کے ہاتھوں قتل ہوجانے کے بعدانگریزوں کا غصہ مسلمان قیدیوں پراترا اوراکثر مسلمان دور دراز کے خطرناک جزیروں میںبھیج دیے گئے ۔مولانا احمد اللہ کوبھی وائر آئی لینڈ بھیج دیا گیا اور اسپتال کے ایک شعبہ میں خدمت کا کام سونپا گیا، یہاں سترہ سال آپ نے مصائب وآلام کے ساتھ گزارے، جہاںوہ بقول غالبؔ   ؎
پرئیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو پرسانِ حال
اور مرجائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
کا منظرسامنے تھا،مولانا عبدالرحیم نے ان کی علالت کے پیش نظر بار بار درخواست کی کہ انھیںا برڈین منتقل کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ ان کی تیمارداری کی جاسکے، بڑی جدوجہد کے بعد ۲۰؍نومبر۱۸۸۱ئ؁ کومولانا عبدالرحیم کووائٹر جانے کی اجازت دی گئی؛ لیکن ان کے وہاں پہنچنے سے قبل ہی ۲۱؍نومبر۱۸۸۱ئ؁ مطابق ۲۸؍محرم ۱۲۹۸ھ؁ شب دوشنبہ کوبوقت ایک بجے مولانا کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔مولانا عبدالرحیم نے تدفین کے لیے ابرڈین لے جانے کی اجازت مانگی تاکہ انھیں ان کے حقیقی بھائی یحییٰ علی کے قریب ابر ڈین میںدفن کیاجائے، یہ درخواست بھی رد کردی گئی،چنانچہ ڈنڈاس پیٹ میں جو وائپر (ویپر) سے تھوڑی دوری پر ہے، تدفین عمل میںآئی اور اس طرح اسلام کا یہ جاں باز سپاہی دیارِ غیر میں قیامت تک کے لیے آسودۂ خاک ہے، اور وطن کی دوگززمین بھی اسے میسر نہ آسکی۔

اتوار, فروری 27, 2022

ہندوستان کی جنگ آزادی کی زبان اردوتھی،سیمینارسے دانشوروں کا خطاب

ہندوستان کی جنگ آزادی کی زبان اردوتھی،سیمینارسے دانشوروں کا خطاب

نئی دہلی: ’’ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں سینکڑوں زبانیں اور بولیاں بولی جاتیں ہیں۔ ہر خطے کی ایک الگ زبان ہے۔ ایسے میں ملک کی تحریک آزادی کی زبان اردوبن گئی کیونکہ صرف یہی زبان تھی جسے ملک کے طول وعرض میں کروڑوں افراد سمجھ سکتے تھے۔ تحریک آزادی کے قائدین نے اردوزبان میں مافی الضمیرکو پیش کیا کیونکہ عوام کا بڑا طبقہ اسی زبان کو سمجھ سکتا تھا۔‘‘قومی راجدھانی دہلی میں منعقدہ ایک سیمینار میں بیشترمقررین اوردانشوروں نے اس مضمون کا اعادہ کیا۔

سیمینار کا عنوان تھا ’’تحریک آزادی میں اردوزبان وادب کا کردار‘‘ جس کا اہتمام رحمانیہ نیشنل فائونڈیشن کی جانب سے ملی ماڈل اسکول(ابوالفضل انکلیو،نئی دہلی)میں کیا گیا تھا جسے قومی کونسل برائے زبان اردوکا مالی تعاون حاصل تھا۔

پروگرام کا افتتاح ڈاکٹرغلام یحیٰ انجم ،شعبہ دینیات، ہمدردیونیورسٹی نے کیااور کہا کہ جنگ آزادی میں علما نے بڑی قربانیاں پیش کیں۔

ہزاروں علما کو درختوں کی شاخوں پر پھانسی دیا گیا۔صدر جلسہ پروفیسرخالدمحمود نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ اردو زبان وادب میں حب الوطنی کے عناصر پائے جاتے ہیں کیونکہ مجاہدین آزادی کی زبان اردو تھی۔

انھوں نے مقالہ نگاروں کے مقالوں کا تجزیہ بھی پیش کیا۔ سیمینار کے مقالہ نگاروں میں سہیل انجم(نمائندہ وائس آف امریکہ)،ڈاکٹر خالدمبشراسسٹنٹ پروفیسرجامعہ ملیہ اسلامیہ،ڈاکٹرنعمان قیصر(جامعہ ملیہ اسلامیہ)ڈاکٹرمظہرحسنین(صحافی روزنامہ انقلاب)،محمداشرف یاسین،ریسرچ اسکالردہلی یونیورسٹی شامل تھے۔ رحمانیہ نیشنل فائونڈیشن کے صدر محمدرفیق نے حاضرین کا شکریہ اداکیا اور ظہرانہ پیش کیا۔


یوپی میں پانچویں مرحلے کے لیے ووٹنگ شروع ، 12 اضلاع کی 61 سیٹوں پر ووٹ ڈالے جا رہے ہیں ۔

یوپی میں پانچویں مرحلے کے لیے ووٹنگ شروع ، 12 اضلاع کی 61 سیٹوں پر ووٹ ڈالے جا رہے ہیں ۔

 کروڑ ووٹر 90 خواتین امیدواروں سمیت 693 امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔

الیکشن کمیشن کی ہدایت پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات، پولنگ اسٹیشنز پر نیم فوجی دستے تعینات

لکھنو¿، 27 فروری (ہ س)۔ اترپردیش میں 18ویں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں پانچویں مرحلے کے 12 اضلاع کی 61 سیٹوں پر سخت حفاظتی انتظامات کے درمیان آج صبح 7 بجے ووٹنگ شروع ہوئی۔ ووٹنگ شام 6 بجے تک جاری رہے گی۔ پانچویں مرحلے میں 90 خواتین امیدواروں سمیت کل 693 امیدوار میدان میں ہیں۔ تقریباً 2.25 کروڑ ووٹر آج ان تمام امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔

پولنگ شروع کرنے سے پہلے پولنگ اہلکاروں نے فرضی پول کے ذریعے ای وی ایم کی جانچ کی جس کے بعد ووٹرز کو پولنگ بوتھ میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی۔ منصفانہ اور پرامن پولنگ کے لیے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ پولنگ بوتھ کے علاوہ حساس مقامات پر نیم فوجی دستوں کی بڑی تعداد کو تعینات کیا گیا ہے۔ 50 فیصد بوتھس پر ویب کاسٹنگ کے ذریعے براہ راست نگرانی کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ جن علاقوں میں انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کا مسئلہ ہے وہاں ویڈیو کیمروں کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس مرحلے کی کل 61 نشستوں میں سے 13 درج فہرست ذاتوں کے لیے مخصوص ہیں۔

1941 سیکٹر اور 250 زونل مجسٹریٹ تعینات

چیف الیکٹورل آفیسر اجے کمار شکلا نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے 60 جنرل آبزرور، 11 پولس آبزرور اور 20 ایکسپینڈیچر آبزرور بھی تعینات کیے گئے ہیں تاکہ پانچویں مرحلے کی پولنگ پر کڑی نظر رکھی جا سکے۔ اس کے علاوہ 1941 سیکٹر مجسٹریٹ، 250 زونل مجسٹریٹ، 207 اسٹیٹک مجسٹریٹ اور 2627 مائیکرو آبزرور بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ پولنگ کی نگرانی کے لیے ہر ضلع کے 50 فیصد پولنگ مقامات پر لائیو ویب کاسٹنگ کا انتظام کیا گیا ہے۔

پانچویں مرحلے میں کل 25995 پولنگ مقامات

پانچویں مرحلے کی پولنگ میں 2.25 کروڑ ووٹر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ ان میں سے 1.20 کروڑ مرد، 1.05 کروڑ خواتین اور 1727 تیسری جنس کے ووٹر ہیں۔ اس مرحلے میں ووٹنگ کے لیے 14030 پولنگ اسٹیشن اور 25995 پولنگ مقامات بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے 560 آدرش پولنگ اسٹیشن اور 171 تمام خواتین ورکرز پولنگ کے مقامات ہیں۔ انتخابی عمل کو انجام دینے کے لیے کل 1,14,089 پولنگ اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

ووٹنگ کے لیے ووٹر شناختی کارڈ کے علاوہ 12 دیگر آپشنز

ووٹنگ کے لیے الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق ووٹر کے شناختی کارڈ کے علاوہ 12 دیگر شناختی کارڈز کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ ان میں آدھار کارڈ، منریگا جاب کارڈ، بینکوں اور ڈاکخانوں سے جاری کردہ تصویری پاس بک، وزارت محنت کی اسکیم کے تحت جاری کردہ ہیلتھ انشورنس اسمارٹ کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، پین کارڈ، این پی آر کے تحت آر جی آئی کے ذریعہ جاری کردہ اسمارٹ کارڈ، ہندوستانی پاسپورٹ، تصویری پنشن، دستاویزات مرکزی یا ریاستی حکومت کی طرف سے جاری کردہ فوٹو سروس شناختی کارڈ، پبلک سیکٹر انڈرٹیکنگس، پبلک لمیٹڈ کمپنیاں اپنے ملازمین کو اور سرکاری شناختی کارڈ جو ایم پیز، ایم ایل ایز اور لیجسلیٹیو کونسل کے ممبران کو جاری کیے گئے ہیں، منفرد معذوری ID (UDID) کارڈز، جوسماجی انصاف کی وزارت اور بااختیار بنانا، حکومت ہند) سے جاری کئے گئے ہیں شامل ہیں۔

ووٹنگ کووڈ پروٹوکول کے تحت ہو رہی ہے۔

کووڈ-19 کے پیش نظر پولنگ کے وقت پولنگ مقامات پر تھرمل ا سکینر، ہینڈ سینیٹائزر، دستانے، چہرے کے ماسک، فیس شیلڈز، پی پی ای کٹس، صابن، پانی وغیرہ کا خاطر خواہ انتظام کیا گیا ہے۔ ووٹرز کی سہولت کے لیے ووٹر گائیڈز بھی تقسیم کیے گئے ہیں۔ اس میں کوویڈ 19 سے متعلق ہدایات کا ذکر ہے۔

چیف الیکٹورل آفیسر کے مطابق کووڈ-19 کے پیش نظر الیکشن کمیشن کی طرف سے پولنگ کے مقامات پر زیادہ سے زیادہ 1250 ووٹروں کو رکھنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ تمام پولنگ مقامات پر ریمپ، بیت الخلا اور پینے کے پانی کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ ووٹنگ کے دوران تمام بی ایل اوز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ووٹر لسٹ کے ساتھ ہیلپ ڈیسک پر موجود رہیں اور آنے والے ووٹرز کی مدد کریں۔ چیف الیکٹورل آفیسر نے تمام ووٹرز سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے ووٹ کاسٹ کریں۔

ان 12 اضلاع میں پانچویں مرحلے کی پولنگ جاری ہے۔

پانچویں مرحلے کے 12 اضلاع میں امیٹھی، رائے بریلی، سلطان پور، چترکوٹ، پرتاپ گڑھ، کوشامبی، پریاگ راج، بارہ بنکی، ایودھیا، بہرائچ، شراوستی اور گونڈہ شامل ہیں۔

یہ پانچویں مرحلے کی نشستیں ہیں۔

پانچویں مرحلے کی 61 اسمبلی سیٹوں میں تلوئی، سیلون (ایس سی)، جگدیش پور (ایس سی)، گوری گنج، امیٹھی، اسولی، سلطان پور، صدر، لمبھوا، کادی پور (ایس سی)، چترکوٹ، مانک پور، رام پور خاص، بابا گنج (ایس سی) ، کنڈا، وشوناتھ گنج، پرتاپ گڑھ، پٹی، رانی گنج، سیراتھو، مانجھن پور (ایس سی)، چیل، پھپھاماو¿، سوراواں (ایس سی)، پھول پور، پرتاپ پور، ہنڈیا، میجا، کرچھنا، الہ آباد ویسٹ، الہ آباد شمالی، الہ آباد جنوبی، بارہ (ایس سی) )، کورون (ایس سی)، کرسی، رام نگر، بارہ بنکی، زید پور (ایس سی)، دریا آباد، رودولی، حیدر گڑھ (ایس سی)، ملکی پور (ایس سی)، بیکاپور، ایودھیا، گوسائی گنج، بلہا (ایس سی)، نانپارہ، ماترا، مہسی، بہرائچ، پیاگ پور، قیصر گنج، بھنگہ، شراوستی، مہنون، گونڈہ، کٹرا بازار، کرنل گنج، تراب گنج، مانکاپور (ایس سی) اور گورہ کی سیٹیں شامل ہیں۔

اس مرحلے میں ڈپٹی چیف منسٹر سمیت کئی سابق فوجیوں کی ساکھ داو¿ پر لگی ہوئی ہے۔

پانچویں مرحلے کے انتخابات میں نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ سمیت چھ وزراءکی ساکھ داو¿ پر لگ گئی ہے۔ ان میں کیشو موریہ کوشامبی کے سیراتھو سے الیکشن لڑ رہے ہیں، جب کہ دیہی ترقی کے وزیر راجندر پرتاپ سنگھ عرف موتی سنگھ پرتاپ گڑھ کی پٹی سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ کابینی وزیر سدھارتھ ناتھ سنگھ الہ آباد ویسٹ سے اور کابینہ وزیر نند گوپال گپتا نندی الہ آباد ساو¿تھ سے امیدوار ہیں۔ اسی طرح یوگی حکومت کے کابینہ وزیر رماپتی شاستری مانکاپور سے اور ریاستی وزیر چندریکا پرساد اپادھیائے چترکوٹ صدر سیٹ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سابق ریاستی وزیر اور جن ستا دل کے سربراہ رگھوراج پرتاپ سنگھ عرف راجہ بھیا پرتاپ گڑھ کی کنڈا سیٹ سے میدان میں ہیں۔

ہندوستھان سماچار

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...